بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دینی مدارس اوردورِ حاضر کے چیلنجز

دینی مدارس اوردورِ حاضر کے چیلنجز

۲۰؍محرم الحرام ۱۴۳۴ھ بمطابق ۵؍دسمبر ۲۰۱۲ء بروز بدھ حضرت مولانا امداد اللہ صاحب مدظلہ کے صاحبزادے حافظ سیف اللہ اور ان کے بھانجے حافظ محمد اریب کے ختم قرآن کی مناسبت سے جامعہ میں ایک تقریب منعقد کی گئی،جس میں جمعیت علماء اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی اور حاضرین سے خطاب فرمایا، جسے مولوی محمد یاسر عبد اللہ نے ضبط کیا۔ افادۂ عام کے لئے ہدیۂ قارئین ہے۔  

    الحمد ﷲ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔ أما بعد: فأعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم، بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم:إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔(الحجر:۹) جناب علمائے کرام! بزرگانِ امت!  حضرت مولاناامداد اللہ صاحب مدظلہ نے آج کی اس تقریب ِ سعید میں شرکت کی دعوت دی ، ان کے برخورداروں (عزیزان سیف اللہ بن مولانا امداد اللہ مدظلہ اور محمد اریب سید بن قیمت سید) نے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا ہے۔ ختمِ قرآن کی اس تقریب کی مناسبت سے انہوں نے ہم سب کو یہاں جمع ہونے کی سعادت بخشی۔ یہ موقع بھی باعثِ برکت اور یہ مقام بھی لائق احترام ہے۔جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ایک انتہائی مقدس ادارہ ہے، اسلامی علوم کے لئے اس کی مسلمہ خدمات ہیں اور ہزاروں بچے ہرسال یہاں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ آج کی یہ تقریب بھی اسی فیض کا ایک حصہ اور اسی کا ایک سلسلہ ہے۔ قرآنی محافل کے لئے الٰہی وعدے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  ’’ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اﷲ یتلون کتاب اﷲ ویتدارسونہ بینہم إلا نزلت علیہم السکینۃ وغشیتہم الرحمۃ وحفتہم الملائکۃ وذکرہم اﷲ فیمن عندہ‘‘۔                    (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الاول،ص:۳۲،ط:قدیمی) ترجمہ:…’’کوئی جماعت جو اللہ کے کسی گھر میں اکٹھی ہوجائے اور وہ وہاں اللہ کی کتاب پڑھے اور ایک دوسرے کو سکھائے( قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری کرے) تو ضرور اللہ ان کے اوپر سکینہ نازل کرتے ہیں (سکینت و طمانینت اضطراب اور پریشانی کی ضد ہے، اور سکینت قلب کی کیفیت کا نام ہے جب کہ اس پر انوار کا نزول ہورہا ہو اور ایسی مجلس جو قرآن کی نسبت سے منعقد ہو اللہ دوسری نعمت ان کو یہ عطا کرتے ہیں کہ) اللہ کی رحمت اس مجلس کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ کے فرشتے اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں اور( وہ جماعت جب روئے زمین پر اللہ کو یاد کرتی ہے) تو ان لوگوں کو اللہ اپنی مجلس میں یاد کرتے ہیں‘‘۔ یہ چار قسم کے نقد انعامات اس طرح کی مجالس کو نصیب ہوتے ہیں۔ رب العالمین ہماری اس مجلس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق بنائے اور محفل برخاست ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ہمارے سب گناہ معاف فرمائے۔آمین! حفاظتِ قرآن کا خدائی نظام: قرآن کریم اللہ کا ایسا اعجاز ہے کہ جو اپنے تحفظ کے لئے کسی طاقت، یا طاقت ور حکومت کا محتاج نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں ایسے ادوار آئے ہیں جو فتنوں کے ادوار تھے، جہاں کتب خانوں کے کتب خانے جل گئے، علم کے ذخیرے ختم ہوگئے اور بظاہر حفاظت کے جو اسباب ہمارے ہاں ہوتے ہیں اور سب سے بڑی حفاظت، حکومت کی حفاظت تصور کی جاتی ہے، وہ اسباب بھی معدوم ہوگئے، لیکن اس کے باوجود آج بھی قرآن کریم اپنی تشدیداور اپنے زبر زیر کے لحاظ سے اسی طرح محفوظ ہے جس طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت تک پہنچایا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اللہ کی ایسی کتاب جس کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہوا ہے اور ہم انسان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ان مدارس وجامعات کے ذریعے، مکاتب کے ذریعے اس کو اگلی نسلوں کی طرف حفاظت کے ساتھ منتقل کرتے ہیں تو یقینا یہ اللہ رب العزت کی طرف سے ایک ایسی توفیق ہے کہ جس پر ہم جتنا بھی اس کا شکر ادا کریں، شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔   دینی مدارس اور اعداء اسلام: جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، تاریخ میں تو ہم پڑھتے تھے، بزرگوں سے سنتے بھی تھے کہ اعداء اسلام کن کن طریقوں سے دینِ اسلام کی اس شمع کو بجھانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں سے قرآن کریم کو نکالنے  اور امت کو قرآن سے دور کرنے کے لئے کیا کیا وسائل اور کیا کیا حربے استعمال کررہے ہیں۔ آج اس دور میں تو ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں کہ کس طرح قرآن وحدیث اور قرآن وحدیث کے علوم کے یہ ادارے ان کے نشانے پر ہیں اور ان کی پوری دنیا کی یہی مہم جوئی ہے کہ کسی طریقے سے ان قلعوںکو مسمار کردیا جائے، نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف لے جایا جائے، ایک مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دیا جائے اوراگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہورہی تو اس میں بنیادی کردار اس مدرسے کا ہے۔ آج اس وقت ہمیں یہ صورت حال در پیش ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔ یاد رکھئے ! ہماری اپنی ایک اسلامی تہذیب ہے ،جس تہذیب کی بنا پر اپنی زندگی کی بود وباش میں ہمیں دین اسلام کا رنگ نظر آتا ہے۔ ہمیں اپنے وطن، اپنی قوم، اپنے کلچر اور تہذیب میں اسلام کے ساتھ ایک مناسبت نظر آتی ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ یہ مناسبت ان دینی مدارس کی مرہون ِ منت ہے اور اس کی پشتی بانی یہ مدارس کررہے ہیں۔ آپ پوری دنیا میں دیکھئے، مسلمان پوری دنیا میں ہیں، اسلام سے محبت کرنے والے بھی ہیں، لیکن دین اسلام سے ظاہری طور پر جو مناسبت ہمیں اپنے اس معاشرے میں نظر آرہی ہے، شایدیہ مناسبت دنیا کے کسی اور حصے میں آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ قرآن، انسانیت کے لئے ایک امانت: قرآن ایک اما نت ہے اور بھاری بھرکم امانت ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلٰی السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلاً‘‘۔             (الاحزاب:۷۲) یعنی اس امانت کا بار نہ آسمانوں نے اٹھایا، نہ زمین نے، نہ پہاڑوں نے، ہرایک نے معذرت کی کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ ان کے اندر تو یہ بار اٹھانے کی صلاحیت اور استعداد ہی موجود نہیں، یہ استعدادِ تحمل تواللہ رب العزت نے حضرت انسان کو عطا کی ہے اوراس بار کے اٹھانے کی بناء پر انسان کو ’’ظلوم وجہول‘‘ کہا ہے۔’’ظلوم‘‘ اسے کہا جاتا ہے جس کے اندر عدل کی استعداد موجود ہواور ’’جہول‘‘اس کو کہا جاتا ہے جس کے اندر علم کی استعداد موجود ہو۔ جب آسمان میں علم کی استعداد نہیں تو کون آسمان کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’جاہل آسمان‘‘؟ اور زمین کی ذات میں عدل کی استعداد ہی نہیں تو کون زمین کے متعلق کہتا ہے کہ ’’ظالم زمین‘‘؟۔   دینی مدارس کی خدمات:  ظلم اور عدل کا تصادم، علم اور جہل کا تصادم انسانوں کی ذات میں ہے اور جب ہم ان مدارس میں آتے ہیں تو جاہل ہوکر آتے ہیں، یہاں ہمیں علم ملتا ہے۔ انسان کے اس جسم کے اندر اس کی جہالت اور اس کے علم کے درمیان تصادم ہوتا ہے، جہالت مٹتی ہے اور علم اس کی جگہ لیتا ہے، ظلم مٹتا ہے اور عدل اس کی جگہ لیتا ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ علم وہی ہے جو اللہ رب العزت نے ہمیں دیا ہے اور عدل وہی ہے جو اللہ رب العزت نے ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ بتایاہے۔اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے ہٹ کر عدل نہیں رہتا، اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے بغیر علم نہیں رہتا۔  محض اشیاء کی جان پہچان تو شریعت سے پہلے بھی لوگوں کو ہوتی تھی، یہ شعور تو پہلے بھی انسانوں کو تھا کہ یہ آسمان ہے، اور یہ زمین ہے، آسمان سے بارش برستی ہے اور زمین سے گیہوں اگتا ہے۔ اس فن سے تو وہ لوگ بھی واقف تھے، لیکن منشأ الٰہی کے مطابق زندگی کے لئے رب العزت نے انبیائے کرام صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے، آسمانی کتابیں بھیجیں، آخری کتاب قیامت تک کی رہنمائی کے لئے بھیجی۔اگر اس کو اپنی زندگی میں لانے کے حوالے سے ہمارے اندر کڑھن موجود ہے تو اس قرآن اور اس کے علوم سے ہمارے دل ودماغ بھر جائیںگے،لیکن یہ ایک دن میں آرام سے نہیں آتا، بلکہ آٹھ آٹھ، دس دس سال مدرسوں میں اس جہل اور علم کے تصادم کا دور گزارنا پڑتا ہے اور اپنے اعضاء کے اندر عدل لانا ہوتا ہے۔ اگر ہمارے اپنے جسم کے اعضاء  عدل نہ کریں، وہ ظلم کریں، وہ انسان کا حق ماریں، وہ دوسرے انسان کو اذیت پہنچائیں۔ ہماری زبان سے اذیتیں پہنچیں، ہمارے ہاتھوں سے اذیتیں پہنچیں، جب ہماری اپنی ذات کے اندر، ہمارے اعضاء میں عدل نہیں ہوگا تو پھرہم اقتدار میں آکرپورے ملک کو اور پوری انسانیت کو عدل کیسے پہنچائیں گے؟ ظاہر ہے کہ اس کے لئے سچی اسلامی زندگی درکار ہے۔ تعلیم وتربیت، دین کے دو اہم شعبے: دینِ اسلام کے دوشعبے ہیں: ایک علم کے حوالے سے اور ایک تربیت کے حوالے سے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إنما بعثت معلما‘‘ ۔(سنن ابن ماجہ، مقدمہ،ص:۲۱، ط:قدیمی) یعنی ’’مجھے استاذ (معلم)بناکر بھیجا گیا ہے ‘‘۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’بعثت لأتمم مکارم الأخلاق‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، ۱۰؍۱۹۲، ط:نشر السنۃ، ملتان)یعنی ’’اعلیٰ اور محترم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ اور اسی کو ’’اخلاق‘‘ کہتے ہیں۔  ہم جو اخلاق، اخلاق کی بات کرتے ہیں، یہ ’’اخلاق‘‘ کیا چیز ہے؟ اخلاق انسان کے اندر کی اس قوت کا نام ہے کہ جو اس علم پر عمل کرنے کے لئے حرکت بخشے۔ جب اذان کی آواز آتی ہے تو میرے اندر کی یہ قوت مجھے ابھارتی ہے کہ اٹھو، وضو بناؤ اور مسجد میں جاؤ۔جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو میرا علم اندر ایک قوت بخشتاہے، ایک تحریک ملتی ہے کہ اب تم نے پورے رمضان کے روزے رکھنے ہیں، تراویح پڑھنی ہے اور تلاوت کرنی ہے۔ اس علم پر عمل کرنے کے لئے اندر کی ایک قوت جو عمل کرنے کے لئے حرکت مہیا کرتی ہے، اس کا نام ہے ’’اخلاق‘‘ہے ۔ یہ چیز انسان کی زندگی میں آنی چاہئے، ورنہ کئی لوگ ہیں جو غافل پڑے رہتے ہیں، اذانوں کی آواز سو دفعہ آئے، مسجدکا رخ کوئی نہیں کرتا، ساری زندگی کے رمضان بھی اس پر گزر جاتے ہیںوہ روزہ نہیں رکھتا، حج فرض ہوچکاہے، اس کے باوجود زندگیاں گزر جاتی ہیں، وہ حج نہیں کرتا،اس لئے کہ اندر وہ قوت حرکت میں نہیں لاتی، اس کو دین پر عمل کرنے کے لئے نہیں ابھارتی۔ اس کا معنی ہے کہ اس کے اندر ’’اخلاق‘‘ نہیں ہیںاور اس کی تربیت نہیں ہوئی۔  ہمارے ان مدارس ومکاتب نے قرآن وحدیث کا علم بھی بچوں کو عطا کیا اور اس کے مطابق زندگی بنانے کے لئے تربیت بھی کی۔ تعلیم اور تربیت یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ رب العزت نے ہمیں بڑی نعمتوں سے نوازا ہے، اس طرح کے ہمیں ماحول عطا کئے، کتابیں ہمیں دیں، ایسی درس گاہیں دیں، ایسے استاذ ہمیں عطا کئے، اس طرح کے اکابر ہمیں عطا کئے۔ دو عظیم نعمتیں، نسب اور سند:  یاد رکھئے! اسلام ہمیشہ دو چیزوں کو بہت اہمیت دیتا ہے: ایک نسب، اوردوسری سند۔ ہماری ازدواجی اورخاندانی زندگی کے لئے اللہ نے احکامات بھیجے ہیں اور مرد وزن کی مشترک زندگی کے لئے حدود کا تعین کیا ہے، آداب کا تعین کیا ہے، گھر کے اندر کی اور گھر کے باہر کی ذمہ داریوں کو متعین کیا ہے اور مرد وزن کے درمیان ایک جوڑ اور نظم پیدا کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ جس میں انسان کے نسب کی صحت پوشیدہ ہے اورنسب کو ہرقسم کے شک وشبہ سے بالاتر رکھنے کے لئے تمام مذاہب میں اسلام کو امتیاز حاصل ہے۔ جب ہم اس کو نظر انداز کرتے ہیں تو انگلیاں اٹھتی ہیں، خاندانی زندگیاں اجڑتی ہیںاور تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں۔ دینِ اسلام نے اس حوالے سے بہت تربیت کی ہے اور نسب انسان کو معاشرے میںبہت بڑی عزت دیتا ہے۔ جس کا نسب اور نسب نامہ نہ ہو، اس کو معاشرے میں ایک کمزور انسان سمجھاجاتا ہے۔ دوسری چیز ’’سند‘‘ ہے۔ ہم جن مدرسوں میں پڑھتے ہیںاور ہمارے پاس جو دینی مسئلہ ہے، کہاں سے یہ مسئلہ تم بیان کررہے ہو؟یہ سند بتاتی ہے ،جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے اور وہاں سے اللہ رب العزت تک پہنچتی ہے۔ اس سند کا اہتمام کون کررہا ہے؟ ا س کا تحفظ کون کررہا ہے؟ اس کا تحفظ یہ دینی مدارس کررہے ہیں۔ ہمارا ایک بیرسٹر بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک ڈاکٹر بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک انجینئر بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک زمیندار بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک سرکاری ملازم بھی مسلمان ہوتا ہے اور وہ اپنی شریعت کے بارے میں بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دین یہ کہتا ہے، لیکن اس کے پاس سند نہیں ہے،اگر اس بیچارے مسلمان کو بھی اپنے اس مسئلے کی حقانیت اور اس دین کی حقانیت کی سند کوئی مہیا کررہا ہے تو وہ ’’دینی مدرسہ‘‘ ہے۔اس لحاظ سے اس مدرسہ کا پوری امت پر احسان ہے، یہ پوری امت کے لئے ایک روشنی مہیا کررہا ہے۔ دینی مدارس پر حملے اور ہماری ذمہ داریاں:  مدارس کے حوالے سے ہمیں احتیاط سے چلنا ہوگاکہ روشنی کی یہ شمعیں بجھ نہ جائیں۔ دینی مدرسے کا طالب علم شہید ہوتا ہے یا اس کا استاذ شہید ہوتا ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، لیکن سیکولر ذہن کے لوگوں کو کوئی گزند پہنچتی ہے، چاہے جتنے فسادات ہوں، بس وہ مظلوم بھی ہے، شہید بھی ہے، علم کا اجالا بھی ہے اورسب کچھ ہے۔ لیکن ہمیں حقائق کو سمجھنا ہوگا اور حقائق کو سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔ دینی مدرسوں کاجو ماحول ہے،ہمارے علماء اور طلبہ کا جو ماحول ہے، ہرطرف سے ان پر حملے ہیں، ان کا گھیراؤ ہے، ہمہ جہت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، لہٰذا ہمیں انتہائی احتیاط اور حکمت کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا اور ہر ایسے عمل سے دستبردار ہونا ہوگا جو ہماری اس ترجیح کو نقصان پہنچائے یا مدارس کو نقصان پہنچائے۔ مدارس کا وجود ضروری ہے اور ان کا تحفظ بھی ضروری ہے۔اگر ان کا یہ علمی سلسلہ برقرار رکھنا ناگزیر ہے تو پھر ہرایسا عمل جو ہماری اس ترجیح کو نقصان پہنچائے اس سے ہمیں بچنا ہوگا۔  رب العالمین ہمارے ان دینی اداروں کی حفاظت فرمائے اوراس حوالے سے جو جماعتیں کام کررہی ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ توفیقِ مزید دے، سب کو اللہ تعالیٰ اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ جن بچوں نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے، ان کو باربار مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو قائم ودائم رکھے۔ اور مولانا امداد اللہ صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے سر پر سونے کا تاج رکھے اور انسانیت کے سامنے سرخروئی کا سبب بنائے۔ آمین وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین