بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دین ِاسلام سے مسلمانوں کی روگردانی

دین ِاسلام سے مسلمانوں کی روگردانی

    حق تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں میں جو اس دنیا کو عطا کی گئی ہیں،صرف’’ دین ِاسلام‘‘ نعمتِ عظمیٰ ہے۔ امت ِمحمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتحیات والتسلیمات کو اس نعمت سے سرفراز فرمایاگیا ہے۔ جس طرح حضرت رسول اللہ a کو ’’ختمِ نبوت‘‘ اور ’’سیادتِ انبیائ‘‘ اور رسل کی نعمتِ کبریٰ سے مشرف کیاگیا اور تمام انبیاء کرام o کی جماعت میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا گیا، اسی طرح کتب ِالٰہیہ میں ’’قرآن حکیم‘‘ اعلیٰ ترین کتاب ان پر نازل فرمائی گئی اور ظاہر ہے جس امت میں خاتم الانبیاء a جیسے رسول ہوں اور قرآن حکیم جیسی کتاب موجود ہو اور ان دونوں سرچشموں سے جس دین کا خمیر تیار ہوا ہو، وہ دین بھی اعلیٰ ترین دین ہوگا تو ہر حیثیت سے ’’دین ِاسلام‘‘ اعلیٰ ترین ہوا اور اس امت کے ذریعہ تمام کائنات کو یہ اعلیٰ ترین نعمت دی گئی ہے اور اسی لیے وحی آسمانی الٰہی ابدی میں یہ اعلان کیاگیا ہے: ’’أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا‘‘۔ (المائدۃ) ’’میں نے آج کے دن تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنا احسان بھی پورا کردیا ہے اور صرف اسلام کو تمہارے لیے دین پسند کیا ہے‘‘۔     اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیاگیا: ’’وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ‘‘۔ (آل عمران) ترجمہ:…’’اور جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر اور کوئی دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں تباہ وبرباد ہوگا‘‘۔     حضرت رسالت پناہ a نے بھی ارشاد فرمایا:’’ لوکان موسٰی حیًا لما وسعہ إلا اتباعی‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔’’اگر حضرت موسیٰ m(جیسے اولوالعزم پیغمبر) بھی زندہ ہوتے تو میرا ہی اتباع کرتے اور اس کے سوا چارۂ کار نہ ہوتا ‘‘۔     اور ظاہر ہے کہ آفتابِ عالم تاب کے طلوع کے بعد تاروں کی روشنی تلاش کرنا یا چراغوں سے نور حاصل کرنا انتہائی غیر معقول حرکت ہے۔ لیکن وائے محرومی اتنی بڑی نعمت کے ہوتے بھی آج مسلمان اس کو چھوڑ کر یورپ اور امریکہ وبرطانیہ سے روشنی تلاش کررہے ہیں۔ یہ حق تعالیٰ کی اس نعمت ِ عظمیٰ، اس نعمت ِکبریٰ کی کتنی بڑی توہین ہے۔ اگر دین ِموسوی اور دین ِعیسوی مسیحی اپنی اصلی شکل میں محفوظ بھی ہوتے اور اس پر دنیا عمل بھی کرتی ہوتی تب بھی اسلام آنے کے بعد اس کی طرف توجہ کرنا اسلام کی بڑی تحقیر ہوتی اور جبکہ یہ ادیان تمام تر ’’تحریف‘‘ کی نذر ہوچکے ہیں، کوئی آسمانی چیز ان میںمحفوظ نہیں رہی، پھر بھی اس کی پیروی بجز ضلالت وحماقت کے اور کیا ہوسکتی ہے؟!معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا، مسلمان نہ صرف دینی شعائر، بلکہ وہ غیر دینی معاشرت کی چیزیں بھی اس قوم سے لے کر اپنا رہے ہیں‘ جس پر حق تعالیٰ کا غضب نازل ہوچکا ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی زبانی ان پر لعنت نازل ہوچکی ہے، پھر کاش کہ معاملہ یہیں تک محدود ہوتا، مسلمان قوم نے تو اپنی تمام اسلامی خصوصیات کو یک قلم چھوڑ دیا اور زندگی کے تمام ہی شعبوں میں ان کافروں کی نقالی شروع کررکھی ہے، لباس، پوشاک، خوراک، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، دفتری نظام، گھریلو نظام، تعلیم کا نظام، حتیٰ کہ تمام کے تمام طرزِ معیشت ومعاشرت میں ان کی حیرت انگیز نقالی کو اپنے لیے سرمایۂ سعادت وفخر سمجھ لیا ہے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔     اس سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی نعمتوں کی کیا تحقیر وتذلیل ہوگی؟ فسق وفجور، لہو ولہب، تفریح وعیاشی میں بھی ایسی تقلید کہ عقل حیران ہے، فحاشی وعریانی، فواحش ومنکرات میں انہماک اس درجہ ترقی پر ہے کہ نقل اصل سے بڑھ گئی، یہ تو ہو مسلمانوں کی زندگی اور یہ ہو ان کی تہذیب ومعاشرت، اس پر انتہائی بے حیائی سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم کیوں ذلیل ہیں؟ کیوں خوار ہیں؟ کیوں روز بروز قعرِ مذلت میں گرتے چلے جارہے ہیں؟     باقی یہ کہنا کہ یورپ پر عذابِ الٰہی کیوں نہیں آتا؟ اول تو یہ نظر کا فرق ہے: ’’ وإن جہنم لمحیطۃ بالکافرین‘‘ وہ یقینا جہنم کے شعلوں میں جل رہے ہیں، ان کے ملک قہرِ الٰہی کی آگ میں پھک رہے ہیں، جس عذاب میں یورپ مبتلا ہے، الامان والحفیظ۔ قلب کا سکون جو زندگی کی اصلی روح ہے وہ یورپین ممالک میں سراسر ختم ہوچکا ہے۔ تقویٰ وطہارت کی زندگی سے جو قلوب میں نورانیت وطمانیت پیدا ہوتی ہے وہ یکسر ختم ہے، وہ انتہائی حیران وپریشان ہیں، قلب کو منشیات ومسکرات کے استعمال سے عارضی آرام پہنچانے کی کوشش وکاوش میں اپنی زندگیاں ختم کررہے ہیں، گویا قانون کی گرفت سے بچ کر خود کشی کررہے ہیں۔ ان ممالک کی تفصیلات اگر ذرا بھی کسی کو معلوم ہوجائیں تو معلوم ہو کہ وہاں پوری زندگی جہنم بن چکی ہے اور اس سے پناہ مانگی جائے اور اگر کسی کو اس نمائشی چہل پہل اور تروتازگی پر کچھ شبہ ہو اور وہ قصداً حقائق سے چشم پوشی کرے تو اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ قومیں حق تعالیٰ کے محبوب دین ’’اسلام‘‘ سے منکر ومنحرف اور کافر ہیں۔ حق تعالیٰ کے قانون عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب آخرت کی نعمتوں سے ایک قوم سراسر محروم ہو تو دنیا کی نعمتیں تو اسے ملنی چاہئیں، یہی قرآن کہتا ہے، یہی حدیث کہتی ہے۔ دین ِاسلام سے بغاوت اور اس کی سزا     سزا تو باغی قوم کو ملتی ہے، مسلمانوں نے تو اسلام قبول کیا ہے اور پھر اسلام کو چھوڑا ہے جس کے دو ہی محمل ہوسکتے ہیں یا تو وہ باغی ہیں یا منافق ہیں، بغاوت کا جرم بھی انتہائی سخت ہے اور نفاق کا جرم بھی انتہائی شدید ہے، اسی لیے قرآن کریم میں منافقین کے لیے جہنم کا آخری اور سب سے نچلا طبقہ تجویز کیاگیا ہے، گویا کفار سے بہت زیادہ سخت عذاب ان کو ہوگا۔ آج مسلمان قوم بھی یا تو عملی بغاوت میں مبتلا ہے یا پھر شدید نفاق کا شکار ہے۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ مسلمان قوم نے حق تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ کی شدید تحقیر کی ہے جو یقینا ناقابلِ برداشت جرم ہے، یہ حق تعالیٰ کے دین کا استخفاف، یہ توہین، اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ حلیم نہ ہوتے اور ان کا حلم کارفرما نہ ہوتا تو ایک لمحہ کے لیے بھی ان کو روئے زمین پر رہنے نہ دیا جاتا اور اس صفحۂ ہستی سے اس قوم کا نام ونشان تک مٹ جاتا۔     بلادِ عربیہ کو دیکھئے! حق تعالیٰ نے ان کو دنیا کی بھی عظیم نعمت نصیب فرمائی، دنیا کے کلیدی مقامات ان کے ہاتھوں میں ہیں، زمینی خزانے ان کے دروازوں پر بہا دیئے ہیں، یورپ وامریکہ ان کے محتاج ہیں، لیکن خالقِ کائنات کی نعمت ’’اسلام‘‘ سے انحراف اور دنیا کے سامانِ تعیش میں انہماک کی وجہ سے کس بری طرح یورپ کی گندی زندگی کی نقالی میںمبتلا ہیں اور چھانٹ چھانٹ کر تمام یورپین معاشرے اور تہذیب کی جو غلاظتیں ہیں ان کو اختیار کر رکھا ہے اور حیرت ہے کہ ان کی محنتیں، مشقتیں، جفاکشی وفرض شناسی وغیرہ جو بعض خوبیاں ہیں، ان کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ آخر سب عذابِ الٰہی میں مبتلا ہو گئے ہیں، باوجود عددی کثرت کے قلت میں ہیں، باوجود اسبابِ عزت کی فراوانی کے ذلت میں ہیں، باوجود ثروت وغنا کے فقر وتنگ دستی میں مبتلا ہیں، صرف اس لیے کہ تمام دولت وثروت عیش پرستی وراحت کوشی کے نذر ہورہی ہے، تازہ بتازہ نیوماڈل کاروں، یورپین طرز کی عمارتوں اور فرنیچر وسامانِ آرائش میں سارا سرمایہ جھونکا جارہا ہے، پیرس کو مات کرنے والے ہوٹل اور کلب روز افزوں ہیں، افرنجیت کا ایک بھوت ہے جو دماغوں پر سوار ہوگیا ہے، انہی کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، انہی کے کانوں سے سنتے ہیں، آخر اس کا نتیجہ یہی ہوا ناکہ کروڑوں افراد پر مشتمل عرب آبادی چند مٹھی بھر یہودیوں سے لرزہ براندام ہے۔ مانا کہ یہودی طاقت کے پیچھے امریکہ اور روس کی طاقت ہے، لیکن اگر یہی مسلمان آج حق تعالیٰ کی نصرت پر یقین رکھتے اور آسمانی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے تو آج نقشہ ہی کوئی اور ہوتا اور یہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا۔ کون سی تنبیہ ہے جو قرآن حکیم نے نہیں کی اور کون سی نصیحت ہے جو خدا ورسول نے نہیں کی، لیکن اس سے استفادہ کے لیے گوشِ عبرت نیوش اور نگاہِ بصیرت افروز چاہیے۔ اگر مسلمان قوم کو اب بھی عبرت نہیں ہوتی اور یہی خدا فراموش زندگی ہے، یہی بے حیائی ہے، یہی عریانی ہے، یہی اسراف وتبذیر کی شیطانی زندگی ہے، تو خاکم بدہن انہیں اپنی آخری تباہی وبربادی کا انتظام کرنا چاہیے۔ حق تعالیٰ رحمۃٌ للعالمین کے طفیل اپنی رحمتِ کاملہ سے اپنے عذاب سے بچالے اور ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین