بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دیر تک اسم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) شاد رکھتا ہے مجھے

دیر تک اسم ِمحمد(a) شاد رکھتا ہے مجھے

مغرب نے ایک بار پھر’’ آزادیِ اِظہار‘‘ کے اپنے خود ساختہ نظریے کے تحت ناموسِ رسالت پر حملہ کرکے دُنیا کے ڈیڑھ ارَب مسلمانوں کی دِل آزاری کا ارتکاب کیا ہے۔ کچھ لوگ مسلمانوں کو ایسے نازک موقعوں پر یہ لیکچر بھی دینا شروع کردیتے ہیں: ’’دیکھیں! آپ لوگ بات کو سمجھا کریں، آزادیِ اِظہار‘ مغرب کا ایک مسلّمہ نظریہ ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں، وہ اس پر سمجھوتا نہیں کرے گا۔ آپ توہین ِرسالت کے واقعات کو اہمیت نہ دیا کریں، یہی اس مسئلے کا حل ہے۔ آپ مشتعل ہوا کریں گے تو مغربی حلقے یہ کرتے رہیں گے۔‘‘ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ مغرب کو اس کا نظریہ مبارک ہو۔ ہمارا نظریہ‘ یہ ہے کہ ہم کسی کو کسی بھی عنوان سے توہین ِرسالت نہیں کرنے دیں گے۔ ویسے مغرب کے قوانین اور نظریے بڑے نرالے ہیں۔ مغرب میں ہر چیز کے حقوق متعین ہیں۔ وہاں جانوروں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، بے جان چیزوں جیسے: زمین، سمندر، فضا اور خلا تک کے حقوق کی آواز بلند ہوتی ہے۔ مغرب میں تاریخی ورثے کی حفاظت اور احترام کو فرض کا درجہ حاصل ہے۔ زمین کے اُوپر کہیں اگر کوئی سینکڑوں ہزاروں سال پرانا بُت، مجسمہ یا حیوانی ڈھانچہ مل جاتا ہے تو مغربی ممالک اس کی حفاظت اور احترام کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ طالبان نے جب بامیان میں بدھ کے مجسمے گرائے تھے تو مغربی حکومتیں ہل کر رہ گئی تھیں اور ان مجسموں کی ’’بے حرمتی‘‘ پر پوری دنیا چیخ اٹھی تھی، لیکن دوسری جانب وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے اس روئے زمین کو اپنی روشن وارفع تعلیمات سے منور کیا، جن کے زندہ وجاوید کارنامے آج بھی انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں، جن کے ناموں کے ساتھ آج بھی دنیا کے کروڑوں انسانوں کی سانسیں بندھی ہوئی ہیں اور دل دھڑکتے ہیں، کیا ان کا انسانیت پر کوئی حق نہیں؟ کیا ان کی ناموس وحرمت کا تحفظ کسی پر لازم نہیں؟ کیا کسی بھی یاوہ گو، دریدہ دہن، خبطی شخص کو ان کی ذات عالی پر کیچڑ اُچھالنے کا ’’حق‘‘ حاصل ہونا چاہیے اور کیا آزادیِ اِظہار اسی کا نام ہے کہ جس کے منہ میں جو آئے، کہتا رہے اور اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟ پھر مسلمانوں سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ: ’’کیا آپ کسی کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کے عقیدے کو قبول کرلے؟‘‘ تو اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ: ’’ہم کب کسی کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ہمارا عقیدہ قبول کر لے؟ کوئی اگر حضور سرورِکونین a کو نبی اور رسول نہیں مانتا تویہ الگ بات ہے۔ بے شک ہدایت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہے ہدایت دے، لیکن کیا حضور نبی کریم a کا پوری انسانیت پر کوئی بھی احسان نہیں ہے؟ یہ ہم نہیں کہتے، یہ بات آج سے کئی عشرے قبل معروف مغربی محقق اور مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب  Hundred  The میں لکھی اور دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ انسانی تاریخ کا دھارا بدلنے اور انسانیت پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کرنے والی ہستی اگر تلاش کی جائے تو وہ آپ a کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے مائیکل ہارٹ نے انسانی تاریخ کی سو عظیم شخصیات کی فہرست میں نبی کریم a کو سب سے پہلے رکھا۔ مائیکل ہارٹ نے عیسائی ہونے کے باوجود حضرت محمد a کو حضرت عیسیٰ m پر مقدم رکھنے کی وجہ لکھی ہے کہ: ’’حضرت محمد(a) کا اثر دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے برتر ہے۔‘‘ آپ a نے دنیا کو جہالت، اوہام پرستی، قبائلی تعصبات اور قتل وخوں ریزی سے نکال کر علم و حکمت، دلیل و دانائی، تدبر و بصیرت اور مکالمے و مباحثے کے ماحول سے آشنا کردیا، آپ aکی فکر اور تربیت سے مستفید ہونے والوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ایک تعلیمی و تہذیبی انقلاب برپا کردیا۔ آج دنیا نے سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں جتنی ترقی کی ہے، یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے اور بہت سے مغربی مفکرین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر چھٹی صدی عیسوی میں جزیرۂ عرب میں اسلام کا طلوع نہ ہوتا تو آج دنیا نے اتنی ترقی ہرگز نہ کی ہوتی، تو کیا جس ہستی نے خود مغربی محققین کے نزدیک انسانی تاریخ کے پورے دھارے کو تبدیل کیا اور انسانیت کو علم و خرد کا اتنا بڑا اَثاثہ فراہم کردیا، اس کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ اس کی حرمت وناموس کے تحفظ کو بین الاقوامی قانون کا درجہ دیا جائے؟ مغرب اگر ایسا نہیں کرتا تو یہ اس کا سراسر عناد اور بغض ہے اور وہ لاکھ چھپائے اپنے اس بغض کو چھپا نہیں سکتا۔ ویسے بھی جمہوریت کے مغربی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر محیط آبادی کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔ آخر میں بعض لوگ مسلمانوں کو یہ راگ اَلاپتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ: ’’آج کی دنیا میں کوئی بھی مسئلہ جذباتیت سے حل نہیں ہوسکتا، آپ کو اس پر مکالمے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔‘‘ تو عرض ہے کہ ہم مغرب سے ہر موضوع، ہر فورم اور ہر سطح پر بحث، مکالمے، مفاہمت اور سمجھوتے کے لیے تیار ہیں، لیکن اگر مغرب ہماری عقیدتوں اور محبتوں کے مرکز پر حملہ کرے گا، ہمارے احساس وخیال کی اَساس پر ضرب لگائے گا اور ہمارے دل ودماغ کی روشنی چھیننے کی کوشش کرے گا تو ہم اس سے اُلجھیں گے، اس کا گریبان پکڑیں گے۔ ہم دلیل ومنطق، مکالمے، مباحثے کے قائل ہیں، لیکن ہماری زندگی میں بعض مراحل ایسے بھی آتے ہیں جن میں ہمارے شاعر نے ہمیں یہ مشورہ دیا ہے کہ: لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اُسے تنہا بھی چھوڑ دے اس لیے کہ ہماری پوری جمع پونچی، ٹوٹل اَثاثہ اور کل کائنات وہی ذات ستودہ صفات ہے جس کا نام نامی لیتے ہوئے ہم زندگی کا خوش گوار ترین احساس پاتے ہیں۔ بقول منیر نیازی مرحوم: میں کہ ناآباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے دیر تک اسم محمد(a) شاد رکھتا ہے مجھے گوکہ ہم اس آقا aکی تعلیمات، سیرت اور مشن سے بہت دور نکل چکے ہیں، لیکن ہم دنیا کی خوش قسمت ترین قوم ہیں جنہیں کائنات کی اس مقدس ترین ہستی سے عقیدت ومحبت کی والہانہ وابستگی کا شرف حاصل ہے۔ ہم کتنے بھی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، اپنی اس وابستگی پر کمپرومائز نہیں کرسکتے۔ اختر شیرانی کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک دفعہ ناؤونوش کی محفل چل رہی تھی، اختر اس میں موجود تھے، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک کمیونسٹ نے ان کے سامنے نبی کریم a کی گستاخی کی، اختر نے شراب کی بوتل اُٹھاکر اس دہریے کے منہ پر دے ماری اور کہا کہ: ’’کم بخت! تم مجھ سے مغفرت اور بخشش کا یہ آخری سہارا بھی چھیننا چاہتے ہو؟‘‘ علامہ محمد بن سعید البوصیری v کا شہرۂ آفاق قصیدہ بردہ ویسے تو پورا کا پورا حب رسول (a) کا حسین مرقع ہے، جس کا ایک ایک باب عشق ومحبت کے خمیر میں گندھا ہوا اور ایک ایک شعر کوثر وتسنیم میں دھلا ہوا ہے، لیکن ان کا یہ شعر تو گویا حاصلِ غزل ہے کہ : بشریٰ لنا معشر الإسلام أن لنا من العنایۃ رکنًا غیر منہدم ’’ہم مسلمانوں کے لیے اس سے بڑھ کر خوشخبری اور نیک بختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے پاس آقائے نام دَار a کی ذاتِ وَالاصفات کی صورت میں ایک ایسا ستون اور سہارا موجود ہے جس کو کوئی نہیں گراسکتا۔ وہ لوگ بھی کیا لوگ ہوںگے جن کی دنیائے خیال میں کوئی محمد (a) نہیں اور وہ انسان بھی کیا انسان ہوںگے جن کو آقائے نام دَار  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کا شرف حاصل نہیں۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین