بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

دنیا وآخرت میں نجات کاذریعہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تین نصائح

دنیا وآخرت میں نجات کاذریعہ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تین نصائح


حضرت عقبہ بن عامرq مشہور صحابی ہیں ، کئی احادیث آپ سے منقول ہیں، ترمذی شریف میں آپؓ سے ایک حدیث منقول ہے، اس میں حضرت عقبہ بن عامرq ارشاد فرماتے ہیں کہ :
’’قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا النَّجَاۃُ؟ قَالَ: أَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ۔‘‘                 (سنن ترمذی ،باب ماجاء فی حفظ اللسان)
میں نے نبی کریم a سے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! مجھے بتلایئے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کاذریعہ کیاہے؟ نبی کریم a نے ان کے سوال کے جواب میں تین چیزوں کی نصیحت فرمائی،تین باتوں کونجات کاسبب بتلایا:
 ۱:-اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
۲:- تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی اپنے گھر میں رہا کرو۔ 
۳:- اپنے گناہوں پررویاکرو۔
نبی کریم a نے حضرت عقبہ بن عامرqکے سوال کے جواب میں نجات کاذریعہ اور سبب جن تین چیزوں کوبتلایاہے ،ان میں سے ہر ایک  سے متعلق کچھ تفصیل درج ذیل ہے:
پہلی نصیحت:زبان کو قابومیں رکھنا
نبی کریم a نے پہلی چیز جس کونجات کا سبب بتلایا ہے، وہ ہے :’’أَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ‘‘ ارشاد فرمایا:’’اپنی زبان کواپنے کنٹرول میں رکھنا۔‘‘یعنی اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور ایسی باتوں سے پاک رکھوجن باتوں میں کوئی خیر اور بھلائی نہ ہو،لایعنی گفتگو سے اپنی زبان کو بند رکھو۔
انسانی اعضاء میں سے زبان بڑی اہمیت رکھتی ہے ،اسے علماء نے دودھاری تلوار قراردیا ہے، یہ حق میں بھی چلتی ہے اور باطل میں بھی۔ انسان کی زبان زندوں پر بھی چلتی ہے اور کبھی مُردوں کو بھی نہیں بخشتی ۔ اس لیے انسان جوبول اپنی زبان سے نکالے، سوچ سمجھ کر نکالے، ساتھ ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں یہ سوچ بھی رکھے کہ میرا کہا ہوا سب کچھ لکھا جارہا ہے ،مجھے اپنے ہر ہر بول کا حساب دینا ہوگا،جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، کیا میں اس کا حساب دے سکتا ہوں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘ کہ انسان کی زبان سے کوئی لفظ ایسا نہیں نکلتاجسے لکھنے کے لیے حاضر باش فرشتہ نگران موجود نہ ہو، یعنی میری اور آپ کی تمام تر گفتگو لکھی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے اس کے لیے مقرر کر رکھے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی گفتگو میں، گپ شپ میں، ہنسی مذاق میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے، زبان سے غلط بول نکل جائے توبندہ اللہ کے حضور صدقِ دل سے معافی مانگے اور آئندہ کے لیے اپنی زبان کو فضولیات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔
امام احمد بن حنبلv کا عجیب واقعہ
امام احمد بن حنبلv اپنے وقت کے عظیم محدث اور عالم تھے، ان کی دینِ اسلام پر استقامت بے مثل تھی،وقت کی تمام طاقتیں انہیں ان کے دینی موقف سے پیچھے نہ ہٹاسکیں، ان کا صبر بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مثال بنا۔ ان کے بارے میں سور ۂ ق کی مذکورہ آیت کے تحت مفسرین نے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ: امام احمد بن حنبلv اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں علیل تھے،بیمار تھے،اور عام طور پر بیماری میں انسان کراہتا ہے، کراہنے کی آواز منہ سے نکلتی ہے، جسے ہم آہ آہ کرنا کہتے ہیں،تو امام احمد بن حنبلv کراہ رہے تھے، حضرت طاووس v بزرگ بھی ہیں اور محدث بھی ہیں، وہ اُن کے قریب تشریف فرما تھے،انہوں نے امام احمد بن حنبلv سے کہا کہ: ’’یکتب الملک کل شیء حتی الأنین‘‘ یعنی فرشتے انسان کی زبان سے نکلا ہوا ہر کلام ہر لفظ لکھ لیتے ہیں، محفوظ کرلیتے ہیں، حتیٰ کہ مریض کا کراہنا بھی لکھ لیا جاتا ہے، امام احمد بن حنبلv نے جب یہ بات سنی تو :’’فلم یئن أحمد حتی مات رحمہ اللّٰہ‘‘ یعنی ’’امام احمد v نے کراہنا بھی ختم کردیا، یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔‘‘
اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ حضرات اپنی زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط کرتے تھے،مباح باتیں بھی بلاضرورت اپنی زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ امام احمد v نے بیماری اور مرض کی وجہ سے کراہنا بھی ختم کردیا کہ کہیں اس پر قیامت میں پوچھ گچھ نہ ہو۔
فسادات کا ایک بڑا سبب
اگر ہم غور کریں تو ہمیں اکثر لڑائی ،جھگڑوں اور فسادات کی بنیاد اور سبب انسانی زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی نظر آئے گی۔ہماری زبانیں آج بڑی بے احتیاط ہوچکی ہیں، جو کچھ ہماری زبانوں پر آتا ہے، ہم بولتے چلے جاتے ہیں، سوچتے بھی نہیں کہ ہماری یہ باتیں برائیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کا سبب بن رہی ہیں، ان پر قیامت میں ہماری سخت پکڑ ہوسکتی ہے اور ہماری غیر محتاط باتیں ہمیں دوزخ کی آگ میں دھکیل سکتی ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں کا نتیجہ
حضرت معاذ بن جبلq مشہور صحابی ہیں، وہ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم a سے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ! ’’أَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ‘‘۔۔۔۔۔’’مجھے ایسا عمل بتلادیجیے جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہوسکوں اور جہنم سے دور کردیا جاؤں۔‘‘ آپ aنے ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ أَمْرٍ عَظِیْمٍ‘‘۔۔۔۔۔’’اے معاذ! تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے۔‘‘ پھر نبی کریمa نے انہیں عبادات بتلائیں کہ نماز کا اہتمام کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کی استطاعت ہو تو حج کرنا، شرک سے بچنا اور ساتھ ساتھ کچھ نفلی عبادات سے بھی آگاہ فرمایا۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ’’أَلاَ أُخْبِرُکَ بِمَلاَکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘‘۔۔۔۔۔’’ اے معاذ!کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتلادوں جس پر گویا ان سب کا دارومدار ہے۔‘‘ یعنی ان عبادات کا مدار اس چیز پر ہے،جس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں، حضرت معاذq کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! ضرور وہ چیز بھی بتلادیں، نبی کریمaنے اپنی زبان مبارک پکڑی اور ارشاد فرمایا: ’’کُفَّ عَلَیْکَ ہٰذَا‘‘۔۔۔۔۔ ’’اس کو روکو۔‘‘ یعنی زبان کو قابو میں رکھو، یہ چلنے میں بے احتیاط اور بے باک نہ ہو۔ حضرت معاذq فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ’’وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہٖ‘‘۔۔۔۔۔’’ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟‘‘ باز پُرس کی جائے گی؟ آپ aنے ارشاد فرمایا: ’’ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ!‘‘ ۔۔۔۔۔’’اے معاذ!تجھے تیری ماں روئے۔‘‘(عربی زبان کے محاورہ میں یہ کلمہ یہاں پیار ومحبت کے لیے ہے) ’’وَہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِمْ‘‘ لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل زیادہ تر ان کی زبانوں کی بے باکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی،یعنی آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے ہی ڈالے جائیں گے۔
اس حدیث کو سامنے رکھ کر ہم اپنے آپ کو دیکھ سکتے ہیں کہ زبان سے سرزد ہونے والے بڑے بڑے گناہ آج ہمارے درمیان وبا کی طرح پھیل چکے ہیں اور ان گناہوں سے بچنے والے لوگ نہایت ہی کم ہیں۔
نبی کریم a کی عادتِ مبارکہ
نبی کریم a سید الانبیاء والمرسلین ہیں، قیامت تک کے لیے آخری پیغمبر ہیں، رسول اللہa کواس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی حاجت وضرورت تھی، اس لیے کہ آپa قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے مقتدیٰ اور پیشوا تھے، آپa نے ساری انسانیت کو ہر لحاظ سے ہدایات دینی تھیں، اور اس ضرورت کے لیے آپ aبولنے میں کوئی کمی بھی نہیں فرماتے تھے، آپa نے ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی بات بتلائی اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق راہنمائی فراہم کی، اس کے باوجود آپa کو دیکھنے والے صحابہ کرامs ارشاد فرماتے ہیں: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طویل الصَّمت ولا یتکلم إلا فیما یرجوا ثوابہ‘‘کہ ’’نبی کریم a بہت زیادہ خاموش رہتے تھے اور آپa صرف وہی بات فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی، اس سے زبان کی احتیاط کا اندازہ لگائیں۔
زبان کی آفتیں
زبان کے ذریعہ ہم سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں، ان گناہوں میں غیبت، چغل خوری، گالم گلوچ، دوسرے مسلمانوں کو ایذاء رسانی شامل ہے، اس لیے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے: ’’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ‘‘ اصل حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، یعنی مسلمان کی زبان غیبت، چغلی، بدگوئی اور فحش باتوں سے محفوظ رہے۔ یہاں زبان کو پہلے ذکر فرمایا اور ہاتھ کو بعد میں، علماء لکھتے ہیں: ’’قدم اللسان لأن التعرض بہٖ أسرع وقوعًا وأکثر‘‘ کہ زبان سے سرزد ہونے والی خطائیں جلدی بھی ہوتی ہیں اور اکثر بھی۔ عام طور پر دوسروں کو تکلیف دینے کے لیے انسان زبان کا استعمال زیادہ کرتاہے اور جوشخص دوسروں کو ہاتھ سے تکلیف نہیں دے سکتا، وہ بھی زبان کے ذریعہ ایذاء پہنچاتاہے۔
آج ہماری مجلسیں اور بیٹھکیں غیبت سے بھری ہوتی ہیں، ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتاکہ دوسروں کی غیبت کرکے ہم اپنے اعمال بھی ضائع کررہے ہیں اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں، یعنی غیبت کے گناہ ہونے کا احساس بھی ہمارے دلوں سے رخصت ہوچکاہے،اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور ہمیں سمجھ نصیب فرمائے ۔
حضرت داؤد الطائیv کا غیبت کی وجہ سے بے ہوش ہونا
ایک بزرگ گزرے ہیں جن کانام ابوسلیمان داؤد الطائی ؒ ہے، یہ امام ابوحنیفہv کے شاگردوں میں سے ہیں، یہ بڑا عجیب ذوق رکھتے تھے، ساری زندگی انتہائی زہد واستغناء کے ساتھ گزاری، روٹی کو پانی میں بھگولیتے تھے، جب وہ گھل جاتی تو شربت کی طرح اسے پی لیتے اور فرماتے تھے: جتنے وقت میں میں ایک ایک لقمہ توڑ کر کھاؤں گا، اتنے عرصہ میں قرآن کریم کی پچاس آیتیں تلاوت کرسکتا ہوں، لہٰذا روٹی کھانے میں عمر کیوں ضائع کروں؟!
ایک دن ایک شخص ان کے پاس آئے اور نصیحت کرنے کی درخواست کی ، حضرت داؤدطائیv نے فرمایا: ‘‘دیکھوکہ اللہ تمہیں اس جگہ نہ دیکھے جہاں کا اس نے تمہیں منع فرمایا ہے،اور جہاں کا تمہیں حکم دیا ہے، وہاں تمہیں غیر حاضر نہ پائے۔‘‘مختصر الفاظ میں کتنی عمدہ اور گہری بات فرمائی ہے۔
ان کے بارے میں بعض محدثین نے شروحاتِ حدیث میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ یہ ایک مرتبہ کسی جگہ سے گزررہے تھے، یکدم وہاں بے ہوش ہو کر گرپڑے، انہیں اُٹھاکران کے گھر لے جایاگیا،جب بے ہوشی سے افاقہ ہواتو پوچھا گیا کہ اس جگہ آپ پر بے ہوشی کیوں طاری ہوئی اور آپ کیوں گرپڑے تھے؟
جواب میں انہوں نے کیا کہا؟ یہ سمجھنے کی بات ہے، ارشاد فرمایا: ’’ذُکرتُ أنی اغتبتُ رجلاً فی ہذا الموضع، فذکرت مطالبتہٗ إیاي بین یدی اللّٰہ تعالی‘‘ جب میں اس جگہ پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ اس مقام پر ایک مرتبہ کسی کی غیبت ہوگئی تھی، اور مجھے وہاں پہنچ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے مجھ سے اس بارے میں مطالبہ ہوا، حساب کتاب کیا گیا، مجھ سے پوچھا گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اس محاسبہ اور اللہ کے سامنے پیشی کے خوف نے مجھے بے ہوش کردیا۔
ابراہیم بن ادہمv کا ایک دعوت میں شریک ہونا
حضرت ابراہیم بن ادہمv بڑے بزرگ گزرے ہیں ، طویل واقعہ ہے کہ انہوں نے شہنشاہیت چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے بن گئے۔ حضرت ابراہیم بن ادہمv کو ایک دعوت میں بلایاگیا،ضیافت کا اہتمام کیا گیا، آپ وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے اوربیٹھ گئے تو جو لوگ وہاں موجود تھے:’’أخذوا فی الغیبۃ‘‘ انہوں نے کسی کی  غیبت شروع کردی، ابراہیم بن ادہمv نے بڑے احسن انداز میں انہیں سمجھایا، ارشاد فرمایاکہ: دیکھو: ’’عندنا یؤکل اللحم بعد الخبز‘‘ ہمارے ہاں پہلے لوگ روٹی کھاتے ہیں، پھر گوشت کھاتے ہیں، یعنی روٹی توڑ کر شوربے میں ڈالی، ثرید بنائی اور پھر بوٹیاں رکھ دیں، تو روٹی کے بعد لوگ گوشت کھالیتے ہیںاورتم لوگ ایسے ہو کہ: ’’وأنتم ابتدأتم بأکل اللحم؟‘‘ تمہارے یہاں روٹی سے پہلے ہی گوشت خوری شروع ہوگئی، یعنی ابھی کھاناشروع بھی نہیں کیا اور گوشت کھاناشرع کردیا،یعنی تم لوگوں نے دوسروں کی غیبت شروع کردی ،ابراہیم بن ادہمv کا اشارہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف تھا کہ:
’’ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ‘‘ 
’’کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو۔‘‘
یعنی غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے، لہٰذا جس طرح وہ تمہیں پسند نہیں، اسی طرح غیبت سے بھی اپنے آپ کو دور رکھو۔
نبی کریم a کی پہلی نصیحت کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ زبان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ ہرانسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور بلاضرورت، لایعنی کلام، فضول گفتگو ،گپ شپ سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ نجات کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور فسادات ، لڑائی اور جھگڑوں سے بچنے کے وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ہے۔
دوسری نصیحت:اپنے گھر میں رہنا
سرکارِ دوعالم a نے دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ :’’وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ‘‘تمہارے گھر میں تمہارے لیے گنجائش ہونی چاہیے، تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ اپنے گھر میں رہا کرو، اور اپنے گھر میں رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانو، اس لیے کہ یکسوئی کے ساتھ گھر میں رہنا، بہت سارے فتنوں، فسادات اور برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔ جب انسان کا گھر سے باہر کوئی دینی یا دنیاوی کام نہ ہو، کوئی ضرورت اور حاجت نہ ہو تو اب بلاضرورت گھر سے باہر رہنا، بلاضرورت گھومتے پھرتے رہنا، یہ شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، البتہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا، عیادت کے لیے جانا،دینی محافل مجالس میں شریک ہونا، یہ چیزیں انسان کے لیے مفید اور باعث اجر وثواب ہیں، مطلقاً بلاکسی ضرورت اور حاجت کے گھومنا پھرنا اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ 
حضرت عثمان بن مظعون q جلیل القدر صحابی ہیں، یہ اور اُن کے صاحبزادے سائب ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی، اور یہ مہاجرین میں سے پہلے صحابیؓ ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ میں سن۲ ہجری میں وفات پائی تھی، اور ان کا یہ اعزاز ہے کہ رسول اللہ aنے ان کی نعش مبارک کو بوسہ دیا تھا۔ انہوں نے نبی کریم aسے چند سوالات کیے، ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ: اے اللہ کے رسول! ’’ائْذَنْ لَنَا فِی السِّیَاحَۃِ‘‘ یعنی ’’ہمیں سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائیے۔ گھومنے پھرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ نبی کریم a نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’إِنَّ سِیَاحَۃَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘ یعنی ’’میری امت کے لیے سیر وسیاحت یہی ہے کہ: اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔‘‘
دیکھیے! اس حدیث میں آپ a نے بغیر کسی منفعت کے سیر وسیاحت کرنے کی اجازت عنایت نہیں فرمائی، بلکہ اس سے  منع فرمایا، کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے۔محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا، جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں، عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اُخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ بلاضرورت گھر سے باہر رہنے اور گھومنے پھرنے سے بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، خاص کر فتنے کے زمانے میں گھر میں رہناانسان کے لیے فتنوں اور پریشانیوں سے بچاؤ کی بہترین تدبیر ہے۔ فضول کی محافل اور مجلسیں لگانا اور ان میں دوسروں کی غیبت اور تبصروں میں مشغول ہونا اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔
 دوسری نصیحت میں ہمیں یہی بتایاگیاہے کہ بری محافل، مجالس اورغلط دوستی ،اور صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں،باہر گھومنے پھرنے کی بہ نسبت اپنے گھر میں رہنا اسی میں عافیت ہے۔ بعض دوستیاں اور تعلقات انسان کو حق سے دور کردیتے ہیں اور انسان قیامت کے دن ایسے برے لوگوں کی دوستی پر افسوس اور ندامت کرے گا، مگر اس دن کی ندامت انسان کو نجات نہیں دلاسکے گی۔سورۂ فرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً  یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلاً۔‘‘                                     (الفرقان:۲۷،۲۸)
 ’’اور جس دن کاٹ کاٹ کھائے گا گناہ گار اپنے ہاتھوں کو، کہے گا: اے کاش! میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے افسوس! کاش! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘
 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیے، اس لیے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبتِ بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کا حکم دیاگیا ہے۔
تیسری نصیحت:اپنی خطاؤں اورگناہوں پر رونا
نبی کریم a نے تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ :’’وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ‘‘یعنی اپنی خطاؤں، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر اللہ کے حضور شرمسار ہوکر گڑگڑاؤ، اشک بہایاکرو، رویا کرو۔
احساسِ ندامت اور خوفِ خدا میں بہنے والے آنسواللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں۔ مومن آدمی جتنا اشکِ ندامت گراتا ہے، اتناہی اللہ کے ہاں محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔ تفسیر کبیر میں امام رازیv اور تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی v نے یہ حدیث قدسی نقل کی ہے، یعنی اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: ’’لَأَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ‘‘کہ گناہگاروں کا رونا، احساسِ گناہ میں آنسو بہانا،اللہ کے سامنے عاجزی کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کو تسبیح خوانوں کی آواز سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لیے ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے سامنے اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔
کَھمَس بن حسن قیسیv کا چالیس برس تک رونا
حضرت کَھمَس بن حسن قیسیv بصرہ میں ایک بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں، حدیث کی کتابوں میں ان کی سند سے کئی روایات بھی موجود ہیں، وہ مشہور روایت جس میں رسول اللہaنے حضرت عائشہ t کو شب قدر کی دعا سکھائی ہے: ’’اللّٰہم إنک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی‘‘ یہ روایت ان ہی کی سند سے ترمذی شریف میں منقول ہے۔ ۱۴۹ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی بڑی خدمت کی ہے ۔ ان کی سوانح میں لکھا ہے کہ جب ٹھنڈا پانی پیتے تو یہ ایک نعمت بھی ان کے نزدیک اتنی بڑی قیمت رکھتی تھی کہ ٹھنڈا پانی پی کر اس کے بدلے میں ، صلے میں آنسو بہایا کرتے تھے، کہ: اے اللہ! آپ نے اپنے فضل سے ٹھنڈے پانی کی نعمت عطا کی۔
ان کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک معمولی غلطی پر چالیس سال تک آنسو بہاتے رہے۔ ایک دن یہ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے بزرگ ابوسلمہؒ کے سامنے اپنے گناہوں کا شکوہ کرنے لگے، اور کہنے لگے: میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس پر چالیس سال سے رو رہاہوں۔ ابوسلمہؒ نے یہ بات سنی تو حیران ہوئے اور پوچھا: ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟ کہمس ؒ کہنے لگے: ایک دن میرے بھائی مجھ سے ملنے آئے، میں نے ایک دینار کی مچھلی خریدی، چنانچہ میرے بھائی نے وہ مچھلی کھائی، میں نے اُٹھ کر اپنے پڑوسی کی دیوار سے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھالیا، تاکہ وہ اس سے ہاتھ پونچھ لے ، صاف کرلے۔ اس مٹی کے ٹکڑے کے اُٹھانے پر میں چالیس سال سے رو رہا ہوں، کیوں کہ وہ ٹکڑا میں نے اپنے پڑوسی کی اجازت اور اس کے علم میں لائے بغیر اُٹھالیا تھا۔ اللہ اکبر! کیسا احساس اور کیسا خدا کا خوف ان کے دلوں میں رچا بسا تھا، اور آخرت کا محاسبہ ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا، چڑھتے سورج کی طرح حساب کتاب اور پوچھ گچھ پر یقین واعتقاد تھا۔
ترمذی شریف میں رسول اللہ a کا یہ ارشاد منقول ہے، آپ نے فرمایا: ’’لاَ یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکٰی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ۔‘‘ یعنی ’’اس آدمی کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جو اللہ کے خوف سے روتاہو۔‘‘
نیز ایک طویل روایت میں حضرت ابوہریرہq فرماتے ہیں، آنحضرت a نے فرمایا: ’’سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمْ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ‘‘کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمتِ الٰہی کی نعمت میں آرام وسکون سے ہوں گے۔ان سات آدمیوں میں ایک وہ آدمی بھی شامل ہے جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
حضرت ثابت بنانیv کاخوف خدا میں رونا
حضرت ثابت بنانیv تابعی ہیں، ائمہ حدیث میں سے ہیں،اللہ کے خوف اور خشیت سے بہت کثرت کے ساتھ رویا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں دکھنے لگیں، طبیب نے کہاکہ ایک بات کاوعدہ کرلو، آنکھ اچھی ہوجائے گی، اور وہ بات یہ ہے کہ رویا نہ کرو۔ حضرت ثابت بنانیv نے طبیب کی یہ بات سنی تو فرمایا: ’’فَمَا خَیْرُہُمَا إِذَا لَمْ یَبْکِیَا۔‘‘ اس آنکھ میں کوئی خوبی ہی نہیں، اگر وہ روئے نہیں، وہ آنکھ ہی کیا جو اللہ کے خوف سے نہ روئے۔
حاصل یہ ہے کہ انسان اپنی خطاؤں پر رویا کرے، اور اگر رونا نہ آئے تو کم ازکم رونے کی شکل ہی بنالیا کرے، بتکلف رونے کی کوشش کیا کرے،اس سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ آنکھوں کا خشک رہنا، جامد رہنا، آنکھوں سے اللہ کی یاد میں آنسوؤں کا نہ بہنا، یہ اچھی علامت نہیں ہے،ایک حدیث مبارکہ میں اس کو بدبختی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین