بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

داعی کبیر کی رحلت

داعی کبیر کی رحلت

 

بانیِ تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی برداللہ مضجعہٗ کے تربیت یافتہ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ و امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہما کے خلیفہ ومسترشد، حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی و حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی نور اللہ مرقدہما کے رفیق کار ومعتمد، مجلس احرار کے رضاکار اور تحریکِ ختم نبوت کے کارکن، پاکستان میں تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر، لاکھوں تبلیغی رفقاء کے مصلح، ہزاروں غیرمسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے والے، پوری دنیائے انسانیت کے لیے دردِ دل رکھنے اور تڑپنے والے حضرت بھائی عبدالوہاب صاحب اس دنیا فانی کے ۹۶برس گزار کر ۹ ربیع الاول ۱۴۴۰ھ مطابق ۱۸نومبر ۲۰۱۸ء بروز اتوار تہجد کے وقت داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے دارالبقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپؒ ۱۹۲۲ء کے آخر میں متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ضلع کرنال میںپیدا ہوئے۔ آپؒ کا تعلق راجپوتوں کی ذیلی ذات (رنگڑ، رانگڑ) سے تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی، جس کے بعد وہ انگریز سرکار میں تحصیل دار بھرتی ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد نوکری چھوڑی، اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی طرف ہجرت اور چک ۳۳۱ ای بی (ٹوپیاں والا) بورے والا، ضلع وہاڑی منتقل ہوئے اور یہیں سے تبلیغی جماعت میںشامل ہوئے۔ اللہ سے توکل کا ایسا پختہ یقین اپنے دل میں جگایا کہ اس کی روشنی سے دنیا بھر میں کروڑوں دلوں نے تسکین پائی۔ آپ کے ہاتھوں جلائے ہوئے دیئے دنیا بھر میں اسلام کی روشنی پھیلارہے ہیں۔ آپ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے ان پہلے ۵ ساتھیوں میں بھی شامل تھے جنہوںنے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کی تبلیغ کے لیے وقف کی اور اللہ کی محبت کا حق ادا کیا۔ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویv جنہوں نے ۱۹۱۷ء میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی تھی اور اپنے انتقال ۱۹۴۴ء تک جماعت کے امیر رہے، بانی کے انتقال کے بعد مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ ۱۹۶۵ء تک، ان کے بعد مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ ۱۹۹۵ء تک تبلیغی جماعت کے امیر رہے۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت کی امارت کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے امیر محمد شفیع قریشیؒ تھے جن کی ۱۹۷۱ء میں رحلت کے بعد حاجی محمد بشیرؒ صاحب پاکستان میں تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں حاجی بشیرؒ کے انتقال پرملال کے بعد حضرت حاجی عبدالوہابؒ تبلیغی جماعت کے پاکستان میں امیر مقرر ہوئے، جس کے بعد انہوں نے جس لگن اور شوق سے تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا، اس کی مثال نہیںملتی۔ اپنی زندگی کے ۷۵ سال انہوںنے ایک ہی ادارے اور ایک ہی مقصد پر صرف کیے اور اپنے عملی کردار سے بہترین نتائج حاصل کیے جو بہت کم کسی کے حصے میں آئے۔
جناب بھائی حاجی عبدالوہاب صاحبؒ گزشتہ کئی سالوں سے علیل تھے اور گاہے بگاہے ان کے مختلف آپریشنز ہوتے رہتے تھے، ان کی عمر ۹۶ سال تھی اور وہ گزشتہ کئی روز سے وینٹی لیٹر پر تھے، جس کے باعث رواں سال کے تبلیغی اجتماع میں شرکت بھی نہیں کرسکے۔
راقم الحروف کی حضرت حاجی صاحبؒ سے دوبار تفصیلی ملاقات ہوئی، پہلی ملاقات کا تھوڑا سااحوال یہاں ذکر کروں گا۔ ۸ شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ مطابق ۲۹ جون ۲۰۱۲ء بروز جمعہ بعد نمازِ عصر دوستوں کی معیت میں رائیونڈ مرکز پہنچا۔ سب سے پہلے علماء کرام کے بیان میں گیا، جو کہ روز نماز ِعصر کے بعد ہوا کرتا ہے اور اُس دن حضرت مولانا محمد احسان الحق صاحب بیان فرما رہے تھے، بیان کے بعد ان سے ملاقات ہوئی، حضرت نے انتہائی شفقت کا معاملہ فرمایا، بعدازاں حضرت مولانا محمد جمشید علی خان صاحبؒ کے بیٹے مولانا صاحبزادہ عبیداللہ خورشید صاحب سے ملاقات ہوئی، پھر نمازِ مغرب کا وقت ہوگیا۔ مغرب کی نماز مرکز میں پڑھنے کے بعد دعوت و تبلیغ پاکستان کے امیر حضرت الحاج محمد عبدالوہاب دامت برکاتہم کے کمرے میں اُن کے پاس حاضری ہوئی۔ کراچی کے تبلیغی بزرگ جناب ڈاکٹر نوشاد صاحب ہمراہ تھے، انہوں نے حضرت حاجی صاحب سے راقم الحروف کا تعارف کرایا کہ یہ ختم نبو ّت کراچی کے امیر، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ اور مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ کی جگہ ذمہ داری نبھارہے ہیں، یہ بات سننا تھی کہ حضرت حاجی صاحب نے ۱۹۴۰ء سے لے کر ۲۰۱۲ء تک مجلسِ احرار ِاسلام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علمائے اسلام اور دعوت و تبلیغ سے متعلق پرانی یادوں کو تازہ کردیا۔
امیر شریعت حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، مجاہد ِملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، خطیب اسلام حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ، قائد ِملت حضرت مولانا مفتی محمودؒ، خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ، مجاہدِ تحریکِ آزادی مرزا غلام نبی جانبازؒ، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، حضرت مولانا تاج محمودؒ، حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اور حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کے ایسے ایسے واقعات مع جزئیات کے سنائے، گویا یہ سارے بزرگ نگاہوں کے سامنے آکھڑے ہوئے، اُن واقعات سے اندازہ ہوا کہ حضرت حاجی صاحب‘ مولانا محمد الیاسؒ اور مولانا محمد یوسفؒ کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ جیؒ کے تو گویا عاشق ہیں، اس وقت ان کا انداز کچھ اس طرح تھا ’’اُن کے فلاں جلسے میں میں موجود تھا، فلاں موقع پر میں اُن کے ساتھ تھا، ۱۹۵۳ء کی تحریک ِختم نبو ّت میں شریک تھا، فلاں موقع پر انہوں نے یہ فرمایا، فلاں پر انہوں نے یہ فرمایا‘‘ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضرت حاجی صاحب کے دماغ کی اسکرین پر یہ تمام واقعات نقش ہیں۔حاجی صاحب نے جن واقعات کا بطور خاص ذکر کیا، ان میں سے چند ایک عرض کرتا ہوں: 
امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا ایک واقعہ سنایا کہ حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ سے بیعت ہونے کے لیے حاضر ہوئے۔ حضرت رائے پوریؒ نے فرمایا: بیعت نہیں کرتا، شاہ جیؒ نے خانقاہ میں دھرنا دے دیا اور صبح سے مغرب تک بیٹھے رہے، مغرب کے بعدحضرت رائے پوریؒ نے بلایا اور توبہ کرائی اور ساتھ ہی خلافت بھی دے دِی اور فرمایا: ’’اب لوگوں کو توبہ کرایا کرو۔‘‘
فرمایا کہ: ختم نبوت کے ایک جلسے میں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے تقریر فرمائی، وہ تقریر اِتنی جان دار اور جامع تھی کہ اُس کے بعد کسی تقریر کی ضرورت نہ تھی، لیکن اس کے بعد شاہ جیؒکی تقریر طے تھی، مگر شاہ جیؒ نے تقریر نہ فرمائی اور فرمایا کہ: اس تقریر کا تأثر قائم رہنا چاہیے۔
حاجی صاحبؒ نے راقم الحروف سے پوچھا کہ: ’’شاہ جیؒ کی سوانح کس کس نے لکھی ہے؟‘‘ بندہ نے عرض کیا: ’’مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، مولانا سیّد محمد کفیل شاہ بخاری اور مولانا عبدالقیوم حقانی نے‘‘، پھر پوچھا کہ:’’آپ کا دفتر پرانی نمائش ایم اے جناح روڈ پر ہے؟‘‘ راقم نے عرض کیا: ’’جی ہاں!‘‘ پھر پوچھا: ’’وہاں سے رسالہ نکلتا ہے؟‘‘ عرض کیا کہ:’’دفتر ختم نبوت کراچی سے  ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘ اور ملتان سے ماہنامہ ’’لولاک‘‘ نکلتا ہے۔‘‘ حاجی صاحب نے فرمایا: ’’لولاک تو فیصل آباد سے نکلتا تھا‘‘ راقم نے بتلایا کہ: ’’اب ملتان سے نکلتا ہے۔‘‘
پھر حاجی صاحب نے فرمایا کہ: ’’لندن میں جو ختم نبوت کا دفتر ہے میں وہاں گیا تھا، اِس دفعہ کی برطانیہ کی ختم نبوت کانفرنس ہوگئی؟ ‘‘بندہ نے عرض کیا کہ: ’’۲۴؍جون کو ہوچکی ہے۔‘‘ حاجی صاحب نے فرمایا: ’’اس کی کچھ کار گزاری سنائو؟‘‘ بندہ نے جواب دیا کہ:’’ حضرت! میں خود نہیں گیا تھا، بلکہ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی دامت برکاتہم امیر مرکزیہ، حضرت مولانا اللہ وسایا، حضرت مولانا مفتی خالد محمود اور دوسرے حضرات تشریف لے گئے تھے، ابھی میری مولانا اللہ وسایا صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی، اِس لیے مجھے علم نہیں ہے۔‘‘ تو حاجی صاحب نے شفقت سے بندہ کے چہرہ پر ہلکی سی چپت لگائی، مفتی خالد محمود صاحب کا نام سنتے ہی حاجی صاحب نے پوچھا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ عرض کیا :’’مولانا عبدالمجید سکھرویؒ کے بیٹے ہیں۔‘‘ ختم نبوت کی کانفرنس اور رسائل کے بارے میں پوچھنے سے اندازہ ہوا کہ حاجی صاحب کو بھی ختم نبوت کے کام کی فکر لگی رہتی ہے اور پروگراموں اور کانفرنسوں کی کارگزاری معلوم فرمایا کرتے ہیں۔
بہر حال حضرت حاجی صاحب نے کئی ایک واقعات سنائے اور یہ ملاقات دو گھنٹے کے طویل وقت پر محیط رہی، حضرت حاجی صاحب اپنی دعوتی و تبلیغی مصروفیات کے باعث کسی کو اِتنا زیادہ وقت نہیں دے پاتے، لیکن راقم الحروف کی خوش قسمتی کہ آپ نے بہت ہی محبت و شفقت فرمائی۔
گزشتہ سال بادشاہی مسجد لاہور میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے سلسلہ میں جب لاہور گئے تو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا سعید خان اسکندر، حضرت مولانا مفتی محمد بن جمیل کے ہمراہ بھائی عبدالوہابؒ کی عیادت کے سلسلہ میں رائیونڈ مرکز گئے۔ آپ بڑی محبت سے حضرت ڈاکٹر صاحب اور دوسرے رفقاء کو ملے، آپ نے کئی باتیں ارشاد فرمائیں ، من جملہ ان میں ایک بات یہ ارشاد فرمائی کہ: کچھ عرصہ سے ہمارے بعض اہل مدارس اور علمائے کرام مختلف عنوانات سے جدیدیت کی طرف بہہ رہے ہیں، وہ ہر مسئلہ اور معاملہ میں حکومتوں اور مقتدر قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، ہمارے اکابر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ہماری کامیابی اپنے اکابر پر اعتماداور ان کے متعین کردہ راستوں پر چلنے میں ہے۔ آخر میں بہت زیادہ دعاؤں سے نوازا اور ہمیں رخصت کیا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت حاجی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کے مشن پر گامزن حضرات کو ان کے نقشِ پا کی پیروی نصیب فرمائے، آمین۔


وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین