بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیازمندانہ سفر ( چوتھی اور آخری قسط )

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیاز مندانہ سفر

         (چوتھی اور آخری قسط)

گنگوہ وتھانہ بھون حاضری کی تمنا دیوبند کے اس مختصر سفر کے دوران دل چاہ رہا تھا کہ ہمارے دوسرے علمی ودینی مراکز بالخصوص گنگوہ وتھانہ بھون حاضری کا موقع بھی مل جائے، ان علمی مراکزکی زیارت اگرچہ قیام دارالعلوم دیوبند کے زمانہ میں ہوچکی تھی، لیکن ان کی کشش وبرکات اور شاندار تاریخ ہر زائر کو بار بار زیارت کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ گنگوہ جو دیوبند سے تقریباً ۴۵؍ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے وہ عظیم بستی ہے جو شیخ اجل حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہیv (متوفیٰ:۹۴۴ھ = شیخ اجل) کے زمانہ سے اولیاء اللہ واہل علم کا مرکز رہی ہے، اور امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ(متوفیٰ:۱۳۲۳ھ) نے بھی یہیں سے مسند ِتدریس و ارشاد کے ذریعہ دنیا کے گوشے گوشے کو بالذات یا بالواسطہ علوم نبوت کے انوار سے منور کردیا۔ میرے استاد و مرشد فقیہ الامت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیv (متوفیٰ:۱۴۱۷ھ) صدر مفتی دارالعلوم دیوبند بھی اسی بستی سے تعلق رکھتے تھے۔ تھانہ بھون ایسی ممتاز ہستیوں کا مرکز رہا ہے جن کی نسبت سے اس قصبے کو عالمی مقبولیت اور دائمی شہرت نصیب ہوئی، ان ممتاز ہستیوں میں سرِ فہرست سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی ؒ، حضرت حافظ محمد ضامن شہیدؒ، حضرت مولانا شیخ محمد تھانویؒ، حضرت مولانا فتح محمد تھانویؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی wہیں۔ خانقاہِ تھانہ بھون ابتدائً حضرت حاجی امداداللہ صاحبv، حضرت حافظ محمد ضامن شہیدv اور حضرت مولانا شیخ محمد تھانویv کے فیوض وبرکات کا مرکز رہی، لیکن ۱۲۷۴ھ کے مشہور معرکۂ شاملی میں حضرت حافظ محمدضامن صاحبؒ کی شہادت اور ۱۲۷۶ھ کو سیدالطائفہ حضرت حاجی صاحبؒ کی مکہ مکرمہ ہجرت اور ۱۲۹۶ھ کو حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی ؒ کی رحلت کے بعد اس’’دکانِ معرفت‘‘ کی رونق میں کمی نظر آنے لگی تو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ (جو مدرسہ جامع العلوم کانپور میں مدرس تھے) نے تدریس کا سلسلہ ترک کرکے اپنے شیخ عالی مقام حضرت حاجی امداداللہ صاحبv کی نصیحت اور اپنے استاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کی تسلی وہمت افزائی پر عمل کرتے ہوئے ۱۳۱۵ھ کو خانقاہِ تھانہ بھون سے اصلاح وتزکیہ کا سلسلہ شروع فرماکر اس کی رونقوں کو نہ صرف یہ کہ بحال کردیا، بلکہ ان میں چار چاند لگادیئے، اور اس وقت سے اپنی زندگی کے آخری لمحہ (۱۳۶۲ھ) تک جو تقریباً نصف صدی پر محیط ہے اس خانقاہ میں تشریف فرما ہوکر وعظ ونصیحت اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ شریعت و طریقت، تزکیہ واصلاحِ اعمال کے انوار پھیلاتے رہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ: حضرت حکیم الامت قدس سرہٗ کی کتابوں کے مطالعہ اور اپنے اساتذۂ کرام اور دیگر بزرگوں سے ان کے واقعات سننے سے مجھے بڑا فائدہ محسوس ہوا ہے، اس لیے ذاتی طور پر بھی میں ان کا بے حد معتقد و ممنون ہوں۔ بہرصورت! دلی تمنا تو یہی تھی کہ گنگوہ و تھانہ بھون دونوں مقامات کی حاضری ہوجائے، لیکن مشکل یہ درپیش تھی کہ میرے پاس ’’سہارنپور‘‘ کا ویزا تو تھا جس کی بنیاد پر میں گنگوہ جاسکتا تھا، لیکن تھانہ بھون چونکہ ’’مظفرنگر‘‘ میں آتا ہے اور ’’مظفرنگر‘‘ کا ویزا نہیں تھا، اس لیے تھانہ بھون نہیں جاسکتا تھا، لہٰذا بادل ناخواستہ تھانہ بھون کا ارادہ ترک کرکے بتاریخ ۱۱/۷/۱۴۳۵ھ بروز اتوار جناب مولانا سید امجد مدنی صاحب اور دارالعلوم کے ایک طالب علم اور ایک ڈرائیور بھائی محمدیاسین صاحب کی معیت میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی گاڑی میں گنگوہ روانہ ہوا، دیوبند سے ۴۵؍کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع گنگوہ کا راستہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا، سب سے پہلے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے قائم کردہ دینی ادارے ’’مدرسہ مدنیہ تعلیم القرآن‘‘ کی زیارت کی جہاں ان کے صاحبزادۂ محترم جناب مولانا سید ازہر مدنی صاحب ناظمِ مدرسہ نے استقبال کیا اور اکرام سے بھی نوازا۔ مدرسہ مدنیہ تعلیم القرآن حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کے مزار کے بالکل قریب واقع ہے۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی دوررَس اور حکیمانہ نگاہوں نے یہ محسوس کیاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ قامعِ بدعت وناشرِسنت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کے مزار کے ساتھ مستقبل میں جاہل عوام کی طرف سے رفتہ رفتہ بدعت کا سلسلہ شروع ہوجائے، لہٰذا انہوں نے مزار کے ساتھ ہی دینی مدرسہ قائم کرکے ایک طرف سے اس تاریخی بستی میں احیائے سنت کا سلسلہ برقرار رکھنے اور مزید پھیلانے کا انتظام فرمایا اور دوسری طرف حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کے مزار کو محتملہ بدعات وخرافات سے بچانے کا مضبوط ذریعہ قائم کردیا۔ جناب مولانا سید ازہر مدنی صاحب -جن کو طالب علمی کے زمانہ سے میں جانتا ہوں- نہایت اخلاص وحکمت کے ساتھ یہاں کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی محنت کو قبول فرما کر مزید استقامت و حکمت سے مالا مال فرمائے۔ مدرسہ مدنیہ تعلیم القرآن کی زیارت اور حضرت مولانا سید ازہر مدنی صاحب کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی v کے مزار پُرانوار پر حاضری دی جو بظاہر تو سادہ چبوترے پر واقع ایک کچی سی قبر ہے، لیکن زائر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر انوار و برکات کی بارش برس رہی ہے، کیونکہ آپ نے پوری زندگی احیائے سنت، سرکوبیِ بدعت اوردین پھیلانے میں بسر کی، اور تقویٰ وطہارت، ایثار و للہیت اور صبر و تحمل کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیریں خیرالقرون کے بعد بمشکل مل سکتی ہیں۔ حضرت گنگوہیv کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد میرے شیخ ومرشد فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہٗ کے عزیزوں سے ملاقات اور حضرت مفتی صاحب v کی صاحبزادی (جن کا چند روز قبل انتقال ہوا تھا) کی تعزیت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر حاضری دی اور جناب بھائی محمد سہیل صاحب، جناب بھائی جاوید صاحب اور جناب بھائی شاہد صاحب سے ملاقات کرکے تعزیت کی اور اس موقع پر حضرت فقیہ الامت قدس سرہٗ کے اس مکان کی بھی زیارت کی جوانہوںنے اپنی زندگی ہی میں کسی کو ہبہ کردیا تھا اور اپنی ملکیت میں کسی قسم کی جائیداد یا مکان یا کوئی بھی کاروبار وغیرہ باقی نہیں رکھا تھا، اور انتقال کے وقت اپنے استعمال کے کپڑوں اور سفر کے مختصر سامان کے علاوہ ان کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ حضرت فقیہ الامت قدس سرہٗ کے رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہیv کی خانقاہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے، جوکہ بستی کے وسط میں واقع ہے۔ یہ وہ خانقاہ ہے جو حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی v کے انتقال کے بعد ویران ہوچکی تھی اور بعد میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ نے اسے آباد کردیا اور اس میں درسِ حدیث واصلاح وتزکیہ کا کام شروع فرمایا اور اپنی وفات تک اسی میں جلوہ افروز رہے۔ خانقاہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیv کے مخصوص کمرے اور اس میں رکھا ہوا اُن کی طرف منسوب سامان (چارپائی، تپائی، چھڑی، پان دان) کی زیارت کا موقع بھی نصیب ہوا، اور خانقاہ کے احاطے میں واقع حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی v  کے مزار مبارک پر فاتحہ پڑھنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ البتہ شریعت سے ناواقف لوگوں کی طرف سے ان کی قبر کی پختگی اور اس پر موجود گنبد اور بعض دیگر بدعات کی موجودگی سے دل کو بڑا دکھ بھی ہوا اور وہاں پر زیادہ دیر لگانا مناسب نہیں معلوم ہوا اور جاتے وقت یہ تصور قائم رہا کہ کاش! حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی v کا مزار اور اس کا ماحول بھی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی v کے مزار اور اس کے ماحول کی طرح سنت کے مطابق ہوتا اور ان کو روحانی اذیت پہنچانے کا یہ سلسلہ نہ ہوتا۔ اس موقع پر حضرت مولانا سید ارشد مدنی زید مجدہم کے قائم کردہ ’’مدرسہ مدنیہ تعلیم القرآن‘‘ کی ضرورت اور ان کے صاحبزادے جناب مولانا سید ازہر مدنی سلمہٗ اللہ جوحکمت کے ساتھ محنت کررہے ہیں اس محنت کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوا۔ گنگوہ کی اس مختصر زیارت سے فارغ ہوکر سکون واطمینان کی کیفیت کے ساتھ ظہر سے پہلے دیوبند واپسی ہوئی۔ اکابرینِ دارالعلوم کی طرف سے احقر کی ہمت افزائی اور احقر کو اپنی کم مائیگی کا احساس مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کے اس مختصر قیام کے دوران اکابرین کی طرف سے احقر کی ایسی ہمت افزائی اور ذرہ نوازی کی گئی جس کا میں اپنے آپ کو ہرگز مستحق نہیں سمجھتا تھا، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم العالی کی طرف سے دعوت نامہ اور اس کی بنیاد پر اسپیشل ویزا ملنا، ایئرپورٹ پر احقر کے استقبال کے لیے مولانا محمد سراج صاحب کو اپنی مخصوص گاڑی سمیت بھیجنا، جمعیت کے دفتر میں احقر کا اعزاز و مہمان نوازی، دہلی سے دیوبند جانے اور واپس آنے کا انتظام، دیوبند و دہلی میں قیام کے دوران مسلسل مہمان نوازی، پھر دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ایک وسیع و آرام دہ کمرہ میں قیام کا انتظام، اساتذۂ کرام کا احقر کو دعوتوں اور ہدایا سے نوازنا، مسجد چھتہ، مسجد قدیم اور مسجد رشید میں کبھی فجر اور کبھی مغرب کی نمازکے لیے احقر کو امام بنادینا، اور جمعہ والے دن مسجد رشید میں جمعہ پڑھانے کے لیے احقر کو دفتر اہتمام کا پیغام موصول ہونا، اور حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم کا تحریری طور پر خصوصی اجازت نامۂ حدیث مرحمت فرمانا (جو اس سفر کاایک ناقابل فراموش اور سب سے اہم اعزاز ہے) ان تمام امور اور اپنی حقیقت کو سامنے رکھ کر مجھے سلطان محمود غزنویv (متوفیٰ:۴۲۱ھ) کے غلام ’’ایاز‘‘ کا مندرجہ ذیل واقعہ یاد آیا اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے دل میں بار بار کہا: ’’ایاز!قدرِ خود را بشناس‘‘ واقعہ کی تفصیل یہ ہے: ’’ایاز سلطان محمود غزنویv کا ایک غلام تھا جس پر سلطان کی خصوصی نظر ِ عنایت وشفقت تھی، دوسرے اہل دربار و مقربین اس سے حسد کرنے لگے اور ان کے خلاف کسی موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ان حاسدین نے سلطان سے عرض کیا کہ حضور! آپ اس غلام پر بڑا اعتماد اور خصوصی عنایت فرماتے ہیں، جب کہ ہمیں اس کے بارہ میں شکوک وشبہات ہیں، اس لیے کہ ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ وہ مجلسِ شاہی کو چھوڑ کر اپنے خلوت خانہ میں جاتا ہے اور وہاں کچھ دیر ٹھہر کر باہر چلا آتا ہے، کچھ پتا نہیں کہ وہ خلوت میں کیا کرتا ہے؟ حضور کو اس کی تحقیق کرلینی چاہیے۔ سلطان کو بھی فکر لاحق ہوئی کہ واقعی تحقیق تو کرلینی چاہیے کہ وہ اس تنہائی میں کیا کرتا ہے؟ چنانچہ ایک مرتبہ ایاز اس خلوت خانہ میں جانے لگا تو سلطان بھی اس کے پیچھے تھوڑی دیر کے بعد پہنچے، دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک پرانی سی گدڑی رکھی ہوئی ہے، ایازاس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ جملہ بار بار دُہرا رہا ہے: ’’ایاز! قدرِ خود را بشناس‘‘ جب وہ اپنے اس عمل سے فارغ ہوا تو سلطان نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کرتے ہو؟ اور اس جملہ کا مطلب کیا ہے؟ ایاز نے عرض کیا کہ میرے محسن! میں جب شروع شروع میں آپ کے دربارِ عالی میں حاضر ہوا تھا اس وقت میری کوئی حیثیت نہیں تھی اور میرے جسم پر یہی گدڑی تھی، لیکن آپ کی خصوصی عنایات نے مجھے کہاں تک پہنچادیا؟ یہ آپ خود جانتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ اس گدڑی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی حیثیت و حقیقت کو یاد کرتا رہوں اور اپنا ماضی پیشِ نظر رہے، تاکہ دماغ خراب نہ ہوجائے اور عُجب وخود فریبی میں مبتلا نہ ہوجاؤں‘‘۔ احقر نے بھی اپنی مادرِ علمی کے اندر مذکورہ اعزاز کو دیکھ کر اپنا ماضی اور اپنی حیثیت و حقیقت اور بالخصوص ایک واقعہ کو یاد کیا، واقعہ یہ تھاکہ ۱۴۰۰ھ مطابق۱۹۸۰ء کو پڑھنے کی غرض سے جب احقر نے پہلی بار دارالعلوم دیوبند کی طرف سفر کا آغاز کیا، اور ایک طویل و بامشقت سفر کے بعد بالآخر ایک پیسنجر ٹرین کے ذریعہ آدھی رات کو دیوبند ریلوے اسٹیشن پر بے سروسامانی کی حالت میں اُترا اور وہاں سے سائیکل رکشہ کے ذریعہ صدر گیٹ دارالعلوم دیوبند پہنچا تو دل بہت ہی خوش ہورہا تھا کہ منزلِ مقصود آگئی ہے اور ارادہ یہ تھا کہ اندر جاکر مسجدِ دارالعلوم میں عشاء کی نماز (جو پیسنجر ٹرین میں زیادہ رش کی وجہ سے نہیں پڑھ سکا تھا) ادا کروں اور اس بات پر کہ طویل و بامشقت سفر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچادیا ہے شکرانہ کی دو رکعت نماز بھی ادا کروں اور پھر صبح اپنے داخلے کی کوشش کروں، لیکن میری حیثیت یہ تھی کہ مجھے اس کا اہل بھی نہ سمجھا گیا کہ گیٹ پر مقرر دربان مجھے اندر جانے کی اجازت دے، مجھ سے پوچھنے لگے کہ کہاں سے آئے ہو؟ اور کس مقصد کے لیے اندر جانا چاہتے ہو؟ میں نے اردو زبان سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے بڑی مشکل سے ان کو یہ جواب دیا کہ ایک مسافر طالب علم ہوں، کافی دور سے دارالعلوم میں پڑھنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں، کہنے لگے کہ: پھر صبح آجاؤ، میں نے عرض کیا کہ میں یہاں کی گلیوں سے ناواقف ہوں اور عشاء کی نماز بھی نہیں پڑھی ہے، براہِ کرم! مجھے مسجد جانے کی اجازت دیجئے، بڑی مشکل سے انہوں نے اندر جانے کی اجازت دی اور گیٹ کے قریب ہی اندر کی طرف واقع ’’مسجدقدیم‘‘ کا راستہ بھی بتادیا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد سفر کی تکان اتارنے اور تھوڑی دیر کے لیے آرام کی غرض سے لیٹنا چاہ رہا تھا، لیکن ناواقفیت کی وجہ سے کہاں جاتا اور کہاں آرام کرتا؟ مسجد کے سجدہ گاہ والے حصہ میں لیٹنا مناسب نہیں معلوم ہورہا تھا، آخر میں مسجد کے اندر والے حصے اور صحن کے درمیان واقع سیڑھیوں کا انتخاب کیا، اس لیے کہ یہ حصہ اگرچہ مسجد ہی کا حصہ تھا کم ازکم سجدہ گاہ تو نہیں تھا، لہٰذا فجر کی اذان تک اپنی ایک پرانی سی صدری (گدڑی) سر کے نیچے رکھ کر انہی سیڑھیوں پر لیٹا رہا۔ بہرصورت! موجودہ سفر میں اپنی مادرِعلمی اور اساتذۂ کرام و اکابر کی طرف سے احقر کی ہمت افزائی وذرہ نوازی کو دیکھ کر اپنی گدڑی اور اپنے ماضی کو یاد کیا اور ایاز والے قصے کو اپنے اوپر منطبق پاکر ان ہی کا وظیفہ ’’ایاز! قدرِ خود را بشناس‘‘ دل دل میں دُہراتا ہوا اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ مجھے اپنی حقیقت و ماضی کی گدڑی سے کبھی غافل نہ فرما اور خود فریبی سے محفوظ فرما۔ احقر کے پاس صرف پندرہ دن کا ویزا تھا، ایسامحسوس ہورہا تھا کہ یہ پندرہ دن چند لمحات میں گزر گئے اور بروزِ منگل ۲۰/۷/۱۴۳۵ھ مطابق۲۰/۵/۲۰۱۴ء اس دعا کے ساتھ پاکستان واپسی ہوئی کہ اے اللہ! صحت و عافیت کے ساتھ بار بار مادر علمی اور وہاں کے بزرگوں کی زیارت کا موقع عنایت فرماتے رہیے۔(آمین) مرا امیدِ وصالِ تو زندہ میدارد وگرنہ ہر دمم از ہجرِ تُست بیم ہلاک

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین