بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیازمندانہ سفر ( پہلی قسط )

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیاز مندانہ سفر

          (پہلی قسط)

دارالعلوم دیوبند کا افتتاح بروز پنجشنبہ ۱۵؍ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰؍ مئی ۱۸۶۶ء مسجد چھتّہ دیوبند کے کھلے صحن میں انارکے ایک چھوٹے درخت کے نیچے نہایت سادگی کے ساتھ کسی رسمی تقریب و نمائش کے بغیر اہل اللہ کی ایک جماعت کے ذریعے-جس کے سرخیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v (متوفّٰی: ۱۲۹۷ھ) تھے- عمل میں آیا۔ صلحاء واہل اللہ کی اس جماعت کے پاس اس مدرسہ کے لیے نہ کوئی عمارت تھی، نہ عمارت بنانے کا سرمایہ، نہ پروپیگنڈہ تھا، نہ اعلان واشتہار کا تخیل، اخلاص وخدمت ِدین اور توکل علیٰ اللہ ان کا سب سے بڑا سرمایہ تھا۔ اس ادارہ کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی عقیدہ کا تحفظ، کتاب وسنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم وترویج، بدعات وغیر اسلامی رسومات کا خاتمہ، مسلمانوں کی عظمت ِرفتہ کی بحالی اور ان میں دینی حمیّت واسلامی غیرت کا جذبہ بیدار کرنا تھا۔ بانیان کے اخلاص وتوکل علیٰ اللہ کی برکت سے یہ چھوٹاسا گمنام مدرسہ ترقی کی طرف گامزن ہوا اور کچھ ہی عرصہ کے بعد برصغیر کا سب سے بڑا دینی ادارہ بن کر ’’ازہرالہند‘‘ کے لقب سے موسوم ہوا، اور کرۂ ارض کے ہر حصہ سے آنے والے تشنگانِ علومِ نبوت کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس کی شہرت ومقبولیت کی آواز مشترکہ ہندوستان سے نکل کر جہاں افغانستان، بخارا وسمرقند کے پہاڑوں میں گونجنے لگی، وہاں عالمِ عرب کے ریگستانوں اورافریقہ کے جنگلات تک بھی جاپہنچی۔ حسنِ نیت ،اخلاص وللہیت اور توکل علیٰ اللہ کے کرشمے اسی طرح ہوا کرتے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کا پہلا سفر رواں پندرھویں صدی ہجری کے شروع میں جب راقم الحروف افغانستان وپاکستان کے سرحدی علاقوں کے دینی مراکز میں فنون کی کتابوں میں منہمک اور زیرِ تعلیم تھا، اس نے بعض مشفق اساتذۂ کرام کی ترغیب اور والدین محترمین کی اجازت سے دارالعلوم دیوبند جانے کا ارادہ کیا، تاکہ ایک ایسے سرچشمۂ فیض وبرکت سے علمی پیاس بجھانے کا موقع ملے جس کے بعدکسی اور سرچشمہ کو تلاش کرنے کی کوئی خاص ضرورت باقی نہ رہے۔ احقرکے پاس اس سفرکے لیے درکاروسائل اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھے، تاہم اس اعتماد کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ طالب علم کے لیے آسانیاں پیدا فرماتا ہے‘اپنے سفر کا آغاز کردیا۔ سفر کے دوران مختلف دشواریوں کا سامنا ہوتا رہا، لیکن امدادِ خداوندی سے ان دشواریوں سے نکلنے کے راستے بھی بنتے رہے، یہاں تک کہ منزلِ مقصود تک پہنچنے کا موقع نصیب ہوا، اور امتحانِ داخلہ میں اعلیٰ نمبرات سے کامیابی کے ساتھ دورۂ حدیث کے اندر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوگیا، اس داخلہ کی وجہ سے جو خوشی احقر کو حاصل ہوئی تھی وہ پوری زندگی کی ایک یادگار خوشی تھی اور میری کیفیت اس شعر کے مطابق تھی: شکرِ خدا کہ ہرچہ طلب کردم از خدا بر منتہائے مقصد خود کامران شدم بہرصورت! دورۂ حدیث میں اپنے عظیم المرتبت اساتذہ کے پاس پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک سال کے بعد فراغت ہوئی۔ امتحانِ سالانہ میں اللہ کی توفیق اور اساتذۂ کرام کی دعاؤں کی برکت سے اپنی جماعتِ دورۂ حدیث میں بھی اور پورے دارالعلوم کی سطح پر بھی پہلی پوزیشن حاصل کی، اور اگلے سال کے لیے آسانی کے ساتھ شعبۂ افتاء (تخصص فی الفقہ) میں داخلہ ہوا جس کی مدتِ تعلیم ایک سال ہوا کرتی تھی، اس شعبہ کے سالانہ امتحان میں بھی   بحمداللّٰہ وتوفیقہٖ پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ اس کامیابی کی بنیادی وجہ اللہ کی توفیق کے بعد دارالعلوم دیوبند کا بامقصد و منظم تعلیمی نظام، اساتذۂ کرام کا تمام طلبہ اور بالخصوص غیرملکی طلبہ کے ساتھ نہایت شفقت والفت کا معاملہ اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا تھی۔ امامت وخطابت اورتدریس کی ذمہ داری دورۂ حدیث کے سال ہی احقر کو دارالعلوم دیوبند کی مسجد (مسجد قدیم) کا امام وخطیب مقرر کیا گیا اور فراغت کے بعد اپنے اساتذۂ کرام و بزرگوں کے حکم ومشورہ سے تدریس کے لیے درخواست دی۔ مجھے اپنی علمی کم مائیگی، کم عمری، عملی کمزوری اور ناتجربہ کاری کا پورا احساس تھا اور اپنے آپ کو ہرگز دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا اہل نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی درخواست دینے کی جرأت کرتا، لیکن اپنے اساتذۂ کرام کے حکم و مشورہ کو ہمیشہ اپنے لیے باعثِ خیر و برکت سمجھنا اور اپنے احساسات پر اس کو ترجیح دینا اپنا معمول بن چکا تھا، لہٰذا اس معاملہ میں بھی اپنے احساس کو دباتا ہوا اساتذۂ کرام کے مشورہ پر عمل کیا، چنانچہ دارالعلوم کے نظام کے مطابق اکابرین کی ایک کمیٹی نے انٹرویو لیا، جس کے نتیجے میں احقر کا تقرر بحیثیت مدرس عمل میں آیا اور ماہ ربیع الاول ۱۴۰۳ھ کو باقاعدہ تدریس کا آغاز بھی کردیا۔ دارالعلوم دیوبند میں تقرری کے بعد احقر کو اپنے اساتذۂ کرام سے استفادہ کرنے کا بہترین موقع میسر آیا، اس لیے کہ عملی تجربہ شروع کرنے کے دوران چھوٹوں کو بڑوں کی رہنمائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اور چونکہ ان کو ذمہ داری کا احساس شروع ہونے لگتا ہے تو استفادہ کی طرف توجہ بھی زیادہ دیتے ہیں۔ چنانچہ احقر نے یہ ہرگز خیال نہیں کیا کہ میں مدرس بن چکا ہوں، بلکہ یہ تصور قائم کیا کہ طالب علمی کا حقیقی دور تو اَب شروع ہوا ہے، اساتذۂ کرام کا سایۂ عطوفت موجود ہے، عملی میدان میں قدم رکھ رہا ہوں، لہٰذا مجھے پوری توجہ اپنے مشفق اساتذہ کے تجربات سے استفادہ کرنے پر مرکوز کرنی چاہیے۔ لہٰذا! اساتذۂ کرام کے نظام الاوقات اور ان کے مراتب کی رعایت کرتا ہوا ان سے ملاقات کرنے اور ان سے تدریسی، تربیتی اور عملی میدان میں استفادہ کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ حضرت الاستاذ، فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہٗ سے اصلاحی تعلق کا سلسلہ بھی قائم ہوا اور ان کی اصلاحی وعلمی مجلسوں میں حتیٰ الامکان شریک ہونے کا بھی اہتمام کیا۔ میرے تمام اساتذۂ کرام کواللہ تعالیٰ بہترین صلہ عطافرمائے جنہوں نے ہر ہر قدم پر رہنمائی فرمائی اور کبھی بھی مجھے مایوس یا محروم نہیں ہونے دیا۔ امامت وخطابت، تعلیم وتدریس اور اساتذۂ کرام کے زیرِسایہ رہ کر ان سے استفادہ کرنے کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا، ان دس سالوں میں دارالعلوم دیوبند اور اس کی پُرکیف علمی وعملی فضاء سے محبت وتعلق اتنا مضبوط ہوگیا کہ میرے تصور و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اپنی زندگی میں کبھی اس بابرکت ماحول سے جدا ہوں گا، بلکہ یہی تمنا تھی کہ اپنی زندگی کی آخری رمق تک یہیں رہوں اور یہیں سے میرا جنازہ اٹھے اور اپنے بزرگوں کے اقدامِ عالیہ میں مزارِ قاسمی کے اندر مدفون ہونے کی سعادت نصیب ہو۔ لیکن تقدیرِ خداوندی کچھ اور تھی۔ ۱۲؍شعبان ۱۴۱۲ھ کو حضرت والد ماجد کا مضافاتِ کوئٹہ بلوچستان میں انتقال ہوا(رحمہ اللّٰہ تعالٰی) اور والدہ محترمہ (بارک اللّٰہ فی صحتھا وعافیتھا وحیاتھا) نے مجھے حکم دیا کہ اپنی والدہ، بھائیوں اور بہنوں کو سنبھالنے کے لیے اب تمہارا پاکستان آنا ناگزیر ہوگیا ہے، لہٰذا اللہ پر توکل کرکے مستقل طور پر واپس پاکستان آجاؤ۔ دارالعلوم دیوبند سے فراق کا غم دارالعلوم دیوبند کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ اگر کوئی طالب علم صرف ایک ہی سال وہاں پڑھ کر فارغ التحصیل ہوجاتا ہے اور اگلے سال اس کو جانا ہوتا ہے تو وہ غمِ فراق میں تڑپتا رہتا ہے، اور اگر کسی کو کچھ زیادہ عرصہ دارالعلوم میں پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے اور دارالعلوم کی محبت اس کی رگ وپے میں پیوست ہوجاتی ہے اور پھر اس سے جدائی کا وقت آجاتا ہے تو اس کی بے تابی و پریشانی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھنے والوں کو بھی غم میں مبتلا کردیتی ہے۔ اب غور فرمایئے! ایک طالب علم جو بڑی دشواریوں کے بعد اس بابرکت ادارہ میں پہنچا ہو، اور پھر فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید دس سال تک وہاں پر تدریس کا موقع اور ساتھ ساتھ امامت وخطابت کا موقع عنایت فرمایا ہو، اور جب بھی کوئی علمی دشواری پیش آئی ہو تو حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم العالی اور دیگر مشفق اساتذہ ٔ کرام سے استفادہ کی صورت میسر رہی ہو اور اپنے استاذ ومرشد مفتیِ اعظم ہند حضرت مولانامفتی محمود حسن گنگوہی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند قدس سرہٗ سے اصلاحی تعلق کا سلسلہ قائم ہوگیا ہو اور ان کی صحبت میں رہنے کی سعادت کا موقع مل رہا ہو، تو ایسے عاجز بندے کو اس ادارہ کے در و دیوار اور پُرکیف فضاء سے کتنی پختہ محبت قائم ہوگئی ہوگی؟! اور اس ادارہ اور اپنے اکابرین کی صحبت سے جدائی برداشت کرنے میں اس کے لیے کتنی بڑی آزمائش چُھپی ہوئی ہوگی؟! اس پوری کیفیت کو بیان کرنا مشکل بھی ہے اور طویل بھی، صرف ایک ہی واقعہ نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں: ’’جب یہ بات طے ہوگئی کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کو الوداع کہنا ہے تو جمعہ کی نماز حسبِ معمول مسجد دارالعلوم (مسجد قدیم) میں پڑھا رہا تھا اور یہ تصور دل میں قائم تھا کہ شاید دارالعلوم دیوبند میں امام وخطیب کی حیثیت سے یہ آخری نماز جمعہ ہو تو شدتِ احساسِ فراق کی وجہ سے میرے جسم پر ایک لرزہ طاری تھا اور قریب تھا کہ خطبہ کے دوران اپنے آپ کو کنٹرول نہ کرسکنے کی وجہ سے منبرسے نیچے گرجاؤں، لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس مبارک منبر و محراب کی برکت سے ایک حد تک اپنے آپ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگیا، گرنے سے توبچ گیا، البتہ آنکھوں سے اشکِ غم کی روانی کو روکنا میرے بس میں نہ تھا۔‘‘ حافظ شیرازیv کا مندرجہ ذیل شعر میری اُس کیفیت پر صادق آرہا ہے: زبانِ خامہ ندارد سِرّ بیانِ فراق وگرنہ شرح دہم با تو داستانِ فراق کراچی میں قیام اور دارالعلوم دیوبند سے مستقل رابطہ بہرکیف! میں رمضان المبارک کے آخری دن ۱۴۱۲ھ کو دارالعلوم دیوبند سے قلبِ غمگین کے ساتھ پاکستان کے لیے روانہ ہوا، اور دل میں ایک بے چینی کی کیفیت تھی، کبھی اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا کہ تم نے یہ صحیح فیصلہ نہیں کیا کہ اپنی مادرِعلمی سے جدائی اختیار کررہے ہو! اُدھرسے جواب ملتا کہ جب حالات ایسے بنے اور تقدیر ِخداوندی نے یہی چاہا تو اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ حاصل یہ ہے کہ حافظ شیرازیv کا ایک دوسرا شعر میرے اُس ’’مکالمۂ نفسی‘‘ پر صادق آرہا تھا: گفتم کہ خطا کردی و تدبیر نہ ایں بود گفتا چہ توان کرد کہ تقدیر چنیں بود     پھر یکایک ایک ایسا تصور قائم ہوگیا جس سے دل کو اطمینان و تقویت حاصل ہوئی، وہ اس طرح کہ یہ فراق تو جسمانی فراق ہے جس سے روحانی تعلق میں اضافہ تو ہوسکتا ہے کمی نہیں ہوسکتی، ورنہ مدینہ منورہ کے باشندے حضرت ابوایوب انصاری q مدینہ منورہ اور اپنے اُس مکان سے -جس میں انہوں نے سرورِکائنات a کو ٹھہرایا تھا - ہرگز جدائی کا تصور نہ کرتے، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مدینہ منورہ سے جسمانی فراق کو برداشت کرتے ہوئے اس کے پیغام کو لے کر ہزاروں میل دور ’’قسطنطینیۃ‘‘ تک پہنچادینے کی سعی فرمائی، یہاں تک کہ وہیں پر وفات پاکر اس کی دیوار کے ساتھ دفن بھی ہوئے،    رضی اللّٰہ عنہ وأرضاہ۔ مذکورہ بالا اور اس سے ملتے جلتے صحابۂ کرامؓ واسلاف عظامؒ کے واقعات پر غور کرتا ہوا یہ تصور قائم ہوگیا کہ دارالعلوم دیوبند صرف در و دیوار کا نام تو نہیں، یہ تو ایک مشن اور مسلک ِحق کا نام ہے جس کی شاخیں زمین کے ہر ہر حصہ میں موجود ہیں، لہٰذا در و دیوار سے جدائی دارالعلوم کے مِشن سے جدائی شمار نہیں ہوگی، بلکہ اللہ سے امید ہے کہ اس ظاہری جدائی کے باوجود اپنی زندگی کی آخری رمق تک اپنی مادرِعلمی کے ساتھ روحانی رشتہ قائم رہے گا، بلکہ اس میں مزید پختگی پیدا ہوگی، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کے مشن کو پھیلانے کی کوشش کروں گا۔ اسی عزم وارادہ کے ساتھ پاکستان پہنچ کر والدہ محترمہ اور بھائیوں کے مشورہ سے کراچی میں قیام کا فیصلہ کیا جو تادمِ تحریر جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کراچی میں میری استعداد وصلاحیت سے بڑھ کر عزت وکامیابی بخشی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ سید محمد یوسف بنوری ٹاؤن- جو پاکستان کا ایک مشہور و معروف دینی ادارہ ہے- میں تدریسِ حدیث اور مجلہ ’’البیّنات‘‘ عربی کی ادارت کا موقع ملا، نیز جامع مسجد طوبیٰ ڈیفنس - جوکہ پورے پاکستان کی سطح پر ایک مشہور و معروف مسجد ہے- میں امامت وخطابت کے ذریعہ عام مسلمانوں کی دینی خدمت کا موقع میسر ہوا۔ اس کے علاوہ اہل علم حضرات نے بے حد شفقت وہمت افزائی کا معاملہ فرمایا اور طلبۂ عزیز کے درمیان بھی اللہ تعالیٰ نے میری تمام نااہلی کے باوجود مقبولیت کی دولت سے نوازا۔ سچی بات یہ ہے کہ ان تمام نعمتوں کے حصول میں بنیادی کردار دارالعلوم دیوبند کی نسبت اور اساتذۂ کرام ووالدہ محترمہ کی دعاؤں نے ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کراچی میں رہ کر اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند اور وہاں کے مشایخ واساتذۂ کرام سے ظاہری جدائی کے باوجود رابطہ منقطع نہیں ہوا۔ ان کے ذکر خیر اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ اپنے درس و تدریس اور بیانات و مجالس کے دوران برابر جاری رہا، اور خط و کتابت و ٹیلی فون کے ذریعہ بھی وقتاً فوقتاً رابطہ قائم رہا اور مشورہ طلب امور میں ہمیشہ مشورہ کرتا رہا۔ ان تمام رابطوں کے باوجود ظاہری جدائی سے پریشان اور دارالعلوم کے در و دیوار -جس کی محبت واُنسیّت دل میں پیوست ہوچکی تھی- کی زیارت اور مشایخ و اساتذۂ کرام کی خدمت میں حاضری کے لیے دل تڑپتا رہا۔ ویزا حاصل کرنے کی بار بار کوشش کی، لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ اور ویزا قوانین میں سختی کے باعث کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ خوابوں میں دارالعلوم دیوبند کی زیارت اور ایک لطیفہ مجھے عام طور پر خواب کم نظر آتے ہیں، لیکن دارالعلوم دیوبند سے والہانہ تعلق اور باربار اس کے تذکرہ کی بنیاد پر اکثر خواب کے اندر بھی اس کا احاطہ، اس کی پُرکشش وبابرکت درسگاہیں اور اساتذۂ کرام نظر آتے رہتے ہیں، اور خواب ہی کے اندر اس بات پر بے حد خوشی کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ میں دارالعلوم دیوبند اور اس کے مشایخ کی زیارت سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہوں، اور بعض دفعہ زیادہ خوشی کی وجہ سے رونے کی کیفیت طاری ہوتی ہے جس سے آنکھ کھل جاتی ہے، تب پتہ چلتاہے کہ یہ تومحض خواب ہی تھا اوردلی خواہش ہوتی ہے کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر بن جائے۔ ایک دفعہ یہ لطیفہ پیش آیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ: ’’میں دارالعلوم دیوبند میں حاضر ہوا ہوں، اور احاطۂ باغ -جہاں میرا کمرہ ہوا کرتا تھا- میں داخل ہوکر بے انتہا خوش ہورہا ہوتا ہوں، موسم بھی بہت ہی خوشگوار اور سورج چمک رہا ہوتا ہے۔ میں اس بات پر زیادہ خوش ہوتا ہوں کہ آج اپنی مادرِعلمی کو بیداری کی حالت میں دیکھ رہا ہوں، اوراپناجائزہ بھی لیتا ہوں کہ آج کی یہ زیارت تو بیداری کی حالت میں ہے، محض ایک خواب نہیں، پھر اپنے پرانے کمرے (احاطۂ باغ کمرہ نمبر:۱۱) کی طرف آگے بڑھتا ہوں تو وہاں پر دارالعلوم کے کوئی نئے استاذ قیام پذیر ہوتے ہیں، ان سے مل کر اس بات کا تذکرہ کرتا ہوں کہ اس کمرے میں پہلے میں رہا کرتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ دارالعلوم سے جدائی کے بعد ہمیشہ اُسے خواب میں دیکھا کرتا تھا، لیکن آج میری خوش قسمتی ہے کہ اُسے بیداری کی حالت میں دیکھ رہا ہوں، اور اس دوران زیادہ خوشی کی وجہ سے مجھ پر رقّت طاری ہوتی ہے۔‘‘ اُس رقت سے آنکھ کھل گئی اور دیکھاکہ رات کی تاریکی میں اپنے بستر پر شہر کراچی کے اندر پڑا ہوا ہوں، رقت تو خواب کے اندر خوشی کی وجہ سے طاری ہوہی چکی تھی، بیداری کے بعد یادِدارالعلوم اور غمِ فراق نے اُس رقت میں اور اضافہ کردیا اور کچھ دیر تک اپنے بستر پر آنسو بہاتا رہا، اور حافظؒ    کا مندرجہ ذیل شعر اپنی اس کیفیت پر منطبق پاتا رہا: ز بہرِ وصل تو در حیرتم چہ چارہ کنم؟ نہ در برابر چشمی نہ غائب از نظری اپنے مشایخ واساتذۂ کرام کی زیارت کے چند مواقع دارالعلوم دیوبند سے فراق کے بعد اس کی زیارت کے اسباب تو پیدا نہیں ہورہے تھے، البتہ دارالعلوم کے مشایخ واساتذۂ کرام سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کے کچھ مواقع دارالعلوم سے باہر ملتے رہے، جن سے دردِ فراق کو وقتی طور پر کچھ ہلکا ہونے کا سہارا ملتا رہا، چنانچہ ۲۶؍رمضان المبارک ۱۴۱۶ھ کو اپنے استاذ و مرشد فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی۱۴۱۷ھ) قدس سرہٗ کی خدمت میں ’’ڈھاکہ‘‘ بنگلہ دیش حاضری ہوئی جہاں حضرت اپنے متعلقین کے ساتھ اعتکاف فرما رہے تھے۔ احقر کو بھی چند ہی دن اعتکاف اور حضرت فقیہ الامت قدس سرہٗ کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور مسجد چھتہ دارالعلوم دیوبند کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ کس کو معلوم تھا کہ یہ حضرت فقیہ الامت کی زندگی کا آخری رمضان ہے۔ لیکن وہی ہوا جو اللہ نے مقدر فرمایا تھا، ماہ ربیع الثانی ۱۴۱۷ھ کو جنوبی افریقا میں سفر کے دوران حضرت کا وصال ہوا، رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً۔ اسی طرح ’’ڈیڑھ سو سالہ خدماتِ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے عنوان سے ایک سہ روزہ کانفرنس بتاریخ ۱۴، ۱۵، ۱۶؍ محرم الحرام۱۴۲۲ھ مطابق ۹، ۱۰، ۱۱؍ اپریل۲۰۰۱ء جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی طرف سے پشاور میں منعقد کی گئی تھی جس میں حضرت مولانامرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب صدر جمعیت علمائے ہندورکنِ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم کے بڑے اساتذۂ کرام کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر حضرت مہتمم صاحب قدس سرہٗ، حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب برداللہ مضجعہٗ، حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم اور چند دیگر اساتذۂ دارالعلوم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند مدظلہم چند مرتبہ کراچی تشریف لائے اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، بلکہ احقر کی تمنا پر ہر مرتبہ غریب خانہ کو تشریف آوری سے نوازا۔ اور ماہِ شعبان ۱۴۳۳ھ کو ’’جامعہ اسلامیہ لوساکا‘‘ - جو افریقی ملک ’’زامبیا‘‘ میں واقع ایک دینی ادارہ ہے- کی طرف سے احقر کو اس کے سالانہ اختتامی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس پروگرام کے مہمان خصوصی استاذِ محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مدظلہم ہوں گے۔ احقر کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی، اور بخوشی دعوت کو قبول کرکے بتاریخ ۴/۸/۱۴۳۳ھ مطابق ۲۴/۶/۲۰۱۲ء کراچی سے ’’زامبیا‘‘ پہنچا، اور بتاریخ ۱۰/۸/۱۴۳۳ھ مطابق ۳۰/۶/۲۰۱۲ء حضرت الاستاذمفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہم بھی تشریف لائے اور دس دن تک ان کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا، یہاں تک کہ واپسی میں بھی ’’دبئی‘‘ ایئرپورٹ تک ایک ہی جہاز میں ان کے ساتھ رہا۔ دبئی ایئرپورٹ سے وہ دہلی اور احقر کراچی روانہ ہوا اور اس سفر کا ایک بنیادی مقصد حاصل ہوگیا۔ اس سفر میں مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے استاذ محترم سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دارالعلوم دیوبند کی زیارت اور وہاں پر آپ کے درسِ حدیث میں حاضری کا ایک موقع عطا فرمائیں۔ ماہِ ذی الحجہ ۱۴۳۳ھ کو حجازِ مقدس میں حج کے موقع پر بھی حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم، ان کے چھوٹے بھائی جناب مولانا سید اسجد مدنی صاحب زید لطفہم، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند مدظلہم، حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب استاذِ حدیث ومدیر ’’ماہنامہ دارالعلوم دیوبند‘‘ زیدمجدہم اور محترم دوست جناب مولانا عبدالخالق سنبھلی استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند حفظہٗ اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور وہاں دارالعلوم دیوبند کی یادیں خوب تازہ ہوگئیں۔ بہرصورت! دارالعلوم دیوبند کو خیرباد کہنے کے بعد تقریباً ۲۳؍سال بیت گئے اور وہاں پر جانے کی کوئی صورت کوشش کے باوجود میسر نہ آسکی، البتہ -جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے- رابطہ کا سلسلہ اور دارالعلوم سے دور مختلف مقامات پر دارالعلوم کے مشایخ واساتذہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ بدستور قائم رہا، اور یہ دعا کرتا اور کراتا رہا کہ اللہ تعالیٰ وہاں پر حاضری کی کوئی صورت بھی پیدا فرمادیں۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی طرف سے دیوبند حاضری کی دعوت دارالعلوم دیوبند کی زیارت کے لیے بے تابی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دل کی آواز سن لی اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدر جمعیت علمائے ہند اور استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ’’عظمت صحابہؓ کانفرنس‘‘ -جو ۹/۵/۱۴۳۵ھ مطابق ۱۱/۳/۲۰۱۴ء کو دارالعلوم دیوبند میں منعقدہونے والی تھی- میں شرکت کا دعوت نامہ میرے مخلص دوست جناب مولانا مفتی مظہر شاہ صاحب بہاولپوری زیدلطفہم کے توسط سے موصول ہوا۔ دعوت نامہ میں پاکستان سے کل تقریباً پچیس حضرات مدعو تھے جن میں احقر کا نام بھی شامل تھا۔ مولانا مفتی مظہر شاہ صاحب نے فرمایا کہ آپ حضرات کے پاسپورٹ ہم خود آپ سے لے کر اسلام آباد میں واقع انڈین سفارت خانہ سے ویزا لگواکر واپس کردیں گے اوران شاء اللہ! کانفرنس کی مقررہ تاریخ سے پہلے ہم سب لوگ روانہ ہوکر کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ احقر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا! اس لیے کہ ایک طرف سے دارالعلوم دیوبند کی زیارت کا موقع ملنے والا تھا اور دوسری طرف مذکورہ تاریخوں میں ششماہی امتحان کی وجہ سے اسباق موقوف ہوتے اور ان کا حرج بھی نہ ہوتا۔ چنانچہ مولانا مفتی مظہر شاہ صاحب کی معرفت سے تمام حضرات کے پاسپورٹ اسلام آباد بھیجے گئے، لیکن انڈین سفارت خانہ نے نامعلوم وجوہات کی بنیادپرویزادینے میں دیر لگادی اور کانفرنس کی مقررہ تاریخ گیارہ مارچ سے پہلے کسی کو بھی پاسپورٹ واپس نہ مل سکا، لہٰذا ’’عظمت صحابہؓ   کانفرنس‘‘ میں شرکت کا موقع ہاتھ سے نکل گیا، البتہ ویزا کچھ تاخیر کے ساتھ سب کو مل گیا، اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم نے پیغام بھیجا کہ چونکہ ویزا تو لگ گیا ہے، لہٰذا آپ حضرات مذکورہ کانفرنس میں نہ سہی، دارالعلوم دیوبند کی زیارت کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق تشریف لائیں اور آپ حضرات میرے مہمان ہوں گے۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کے اس پیغام کے بعد دیگر مدعو حضرات نے تو ماہِ اپریل کے شروع میں سفر کا ارادہ و انتظام فرمایا، لیکن احقر نے دو وجہ سے اپنا سفر مزید مؤخر کردیا، ایک وجہ تو یہ تھی کہ ماہِ اپریل مطابق ماہِ جمادی الثانی میں ششماہی امتحان کے بعد اسباق دوبارہ زور و شورکے ساتھ جاری ہوچکے تھے اور جامعہ کے نظام کے مطابق وسطِ رجب تک سالانہ نصاب مکمل کرانا ضروری ہوتاہے، اور سفرکی صورت میں اسباق کا نقصان ہوتا، اور وقت مقررہ تک مناسب انداز کے ساتھ اسباق کا مکمل کرانا مشکل ہوجاتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے تقریباً ۲۳؍ سال بعد اپنی مادر علمی اور اپنے مشایخ و بزرگوں کی خدمت میں حاضری کا موقع نصیب ہورہا تھا اور میری خواہش تھی کہ یکسوئی کے ساتھ اپنے اساتذۂ کرام و مشایخِ دارالعلوم اور دوست واحباب کی زیارت کروں اور حتیٰ الامکان ہر ایک سے انفرادی طور پر ملنے کی سعادت حاصل کروں، اور یہ سب کچھ حاصل ہونا ایک بڑی جماعت کی معیت میں بظاہر مشکل نظر آرہا تھا، لہٰذا احقر نے اس جماعت کے ساتھ جانے سے معذرت کرلی۔ ماہِ رجب میں اسباق کا اختتام اور دیوبند کا سفر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احقر نے ۴؍رجب ۱۴۳۵ھ مطابق ۴؍مئی ۲۰۱۴ء بروز اتوار اپنے اسباق ختم کراکر دعا کرائی اور اگلے دن ۵؍رجب ۱۴۳۵ھ مطابق۵؍مئی ۲۰۱۴ء بروز پیر بذریعہ پی. آئی. اے کراچی سے پاکستانی ٹائم کے مطابق صبح آٹھ بج کر پچپن منٹ پر دہلی کے لئے روانہ ہوا۔ تقریباً پونے دو گھنٹے میں ہندوستانی ٹائم کے مطابق گیارہ بج کر دس منٹ پر دہلی ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم کو اپنے پروگرام کی پیشگی اطلاع کردی تھی جس پر حضرت نے ’’مرحبا‘‘ کہہ کر خوشی کا اظہار فرمایا تھا اور یہ بھی کہ مذکورہ تاریخ کو دہلی ایئرپورٹ پر آپ کا استقبال کیا جائے گا۔ دہلی ایئرپورٹ پہنچ کر مختصر وقت میں جب قانونی کارروائی سے فارغ ہوکر باہر آیا تو جناب مولانا محمد سراج صاحب قاسمی ذمہ دار دفتر جمعیت علمائے ہند دہلی‘ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم کے حکم سے حضرت ہی کی گاڑی اور ڈرائیور سمیت انتظار کررہے تھے، اور حضرت والا چونکہ اسباق کی مصروفیت کی وجہ سے خود دیوبند میں تھے، اس لیے مولانا محمد سراج صاحب سے بذریعۂ فون برابرمعلوم فرماتے رہے کہ امام صاحب (احقر کو احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں امام صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) پہنچے یا نہیں؟ اور جب احقر مولانا محمد سراج صاحب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا تو اس وقت بھی حضرت والا کا فون آیا کہ کیا ہوا؟ مولانا نے جب یہ جواب دیا کہ پہنچ گئے، میرے ساتھ ہیں توحضرت نے فرمایاکہ بات کرادیجئے۔ جب میں نے فون لیا تو حضرت والا کی مشفقانہ اور پُراثر آواز میں ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ سن کر دل باغ باغ ہوگیا۔ حضرت والا نے خیریت کے ساتھ پہنچنے پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے کہا کہ آپ کا کھانا جمعیت کے دفتر میں تیار ہے، آپ ظہرپڑھ کر کھانا کھائیں، اس کے بعد آپ کی مرضی ہے، چاہیں تو آج دہلی میں آرام کریں، کل دیوبند آجائیں، چاہیں قیلولہ کر کے آج ہی آجائیں، مولانا محمدسراج صاحب گاڑی اور ڈرائیور سمیت آپ کے ساتھ ہوں گے۔ احقر نے عرض کیاکہ اب جب دیوبند جانے کی صورت بن رہی ہے تو دہلی میں آرام کیسے ملے گا؟ بہرصورت! ایئرپورٹ سے مولانا محمد سراج صاحب کے ساتھ دفترِ جمعیت پہنچے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب سیکریٹری جمعیت نے بہت اکرام کیا۔ ظہرکی نماز کے بعد کھانا کھاکر اپنی عادت کے مطابق تھوڑی دیرکے لیے قیلولہ کرنے کی غرض سے لیٹا، لیکن دیوبند کی محبت و تڑپ میں سونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہورہا تھا اور بقول شاعر: منزلِ یار چوں شود نزدیک آتشِ شوق تیزتر گردد محبت و وصال کے جذبات میں اضافہ ہورہا تھا، لہٰذا اُٹھ کر مولانا محمد سراج صاحب سے عرض کیا کہ دیوبند چلنا ہے۔ موصوف کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے، فوراً تیار ہوئے اور ڈرائیور محمد یاسین صاحب اور ان کے ایک اور ساتھی اور احقر کو ساتھ لے کر دیوبند روانہ ہوئے۔ عصر کے وقت دیوبند -جوکہ دہلی سے تقریباً ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے- کے حدود میں داخل ہوگئے، اور یہ خیال کرکے کہ دارالعلوم پہنچتے پہنچتے کہیں عصر کی نماز میں تاخیر نہ ہوجائے اس لیے نماز پڑھنے کے لیے مین روڈ کے کنارہ پر واقع ایک مدرسہ ’’جامعہ زکریا‘‘کی مسجدکے ساتھ رُک گئے۔ وضو کرکے احقر جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں پر موجود مدرسہ کے مہتمم صاحب نے دیکھتے ہی پہچان لیا اور بے حد احترام سے پیش آئے اور فرمایا کہ جب آپ دارالعلوم میں بحیثیت مدرس وامام فرائض انجام دے رہے تھے اس زمانہ میں ‘ میں پڑھتا تھا۔ انہوں نے اکرام کرنا بھی چاہا، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہم نے معذرت کرلی اور نماز پڑھ کر دارالعلوم کی طرف روانہ ہوگئے۔ دارالعلوم کے قریب ’’محلہ خانقاہ‘‘ میں جب داخل ہوئے تو طلبۂ عزیز حسبِ معمول بعدالعصر چہل قدمی کے لیے گلیوں سے گزر رہے تھے اور ہر ملنے والے کو سلام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ چہروں پر نور و وقار، چلنے میں سادگی اور نگاہوں کو نیچے کیے ہوئے چل رہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انسانوں کی شکل میں فرشتے چل رہے ہیں۔ مجھے ان کو دیکھ کر ۲۳؍سال پہلے کا وہ دور یاد آرہا تھا جب مجھ جیسا سیاہ کار بھی بعدالعصر اسی سرزمین پر چہل قدمی کے لیے نکلا کرتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم کے مکان پر پہنچ گئے۔ رفیقِ سفر مولانا محمد سراج صاحب کا چونکہ حضرت والا سے برابر بذریعۂ فون رابطہ قائم تھا، اس لیے حضرت کو یہ معلوم تھا کہ ہم پہنچنے والے ہیں اور وہ انتظار میں تھے، جیسے ہی ہم ان کے مکان میں پہنچے تو وہ بے حد شفقت ومحبت سے ملے اور سبز چائے -جو بالعموم عصر کے بعد ان کی مجلس میں چلتی رہتی ہے- پیش فرمائی، اور حال و احوال پوچھنے کے بعد فرمایا کہ آپ کا قیام دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ہوگا۔ البتہ جب تک آپ کا قیام ہوگا صبح کا ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا میرے یہاں ہوگا۔ ہاں! اگر کسی نے دعوت کی اور آپ نے قبول کرلی تو وہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے، اور ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ چونکہ میرے کچھ پروگرام طے شدہ ہیں تو میں اگر کسی دن دیوبند میں نہ بھی رہا، تب بھی یہ گھر آپ کا ہے، میرے صاحبزادے (مولانا سید امجد مدنی فاضل دارالعلوم دیوبند حفظہٗ اللہ )آپ سے برابر رابطہ میں رہیں گے۔ مغرب کی نماز سے پہلے میرا سامان کمرہ نمبر:۱۱ مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند منتقل کیا گیا۔ کمرہ کافی کشادہ، آرام دہ اور ایئرکنڈیشنڈ پر مشتمل تھا۔ سامان رکھ کر کمرہ کی چابی میرے حوالہ کی گئی، اور میں دارالعلوم کی مسجد قدیم میں مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے جیسے ہی مہمان خانہ سے نکلا ، اسی وقت دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ موصوف نے بہت ہی خوشی اور محبت کا اظہار فرمایا، مغرب کی نماز مسجد قدیم -جس کی امامت وخطابت کی ذمہ داری تقریباً دس سال تک احقر کے سپرد رہی تھی- ادا کی۔ مغرب کے بعد دارالعلوم کے احاطہ میں گھومتا ہوا پرانی یادیں تازہ کرتا رہا۔ کمرہ نمبر:۱۱ ’’احاطۂ باغ‘‘ جس میں احقر کا قیام رہتا تھا وہاں بھی پہنچا، لیکن وہ کمرہ حال ہی میں جدید تعمیری نقشہ میں آکر منہدم کردیا گیا تھا، صرف بنیادوں اور محل وقوع کی زیارت نصیب ہوئی۔ دارِ جدید کی عمارت مدنی گیٹ سے معراج گیٹ تک منہدم ہوکر نئے سہ منزلہ نقشہ کے مطابق تعمیر کی جاچکی تھی جس میں صرف ’’باب الظاہر‘‘ درمیان میں پرانی حالت پر باقی تھا۔ مدنی گیٹ سے احاطۂ باغ تک کا حصہ بھی منہدم ہوچکا تھا، اور نئے نقشہ کے مطابق بنیادوں کی کھدائی کا کام جاری تھا۔ معراج گیٹ سے نودرہ تک کا حصہ پرانی حالت میں تھا، لیکن اپنی باری کا انتظار کررہا تھا۔ طویل فراق کے بعد اپنی مادرعلمی کے احاطہ میں گھومتا ہوا باربار یہ تسلی حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ آج میں حقیقۃً اپنی روحانی ماں کی آغوشِ رحمت میں پہنچ چکا ہوں، اور یہ کوئی خواب یا صرف تصور ہی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میرے طویل فراق کو وصال سے تبدیل کردیا ہے۔ آن پریشانی شبہائے دراز و غمِ دل ہمہ در سایۂ گیسوئی نگار آخر شد دارالعلوم کے احاطہ میں ایک مختصر گشت کرنے کے بعد واپس حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچ کر ان کے ساتھ رات کا کھانا کھایا۔ حضرت والا نے احقر کی دلجوئی کے لیے میرے بے تکلف دوست جناب مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب استاذِ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند اور چند دیگر حضرات کو بھی کھانے پر مدعو کیا تھا، کھانے کے بعد دارالعلوم کی عالی شان مسجد جدید ’’جامع مسجد رشید‘‘ میں عشاء کی نماز پڑھی، اس مسجدسے بھی احقر کی یادیں وابستہ ہیں۔ جامع مسجد رشید کا تذکرہ احقر کو اچھی طرح یاد ہے کہ بروز جمعہ ۲۳/۷/۱۴۰۶ھ مطابق ۴/۴/۱۹۸۶ء اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس میں دارالعلوم دیوبند کے اس وقت کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہٗ، بڑے اساتذہ بالخصوص حضرت الاستاذ مرشدی مفتی محمودحسن گنگوہی v اور بعض معزز مہمان جیسے حضرت حکیم عبدالرشید محمود صاحب v (عرف حکیم ننومیاں) اور حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوری v وغیرہ نے شرکت کی۔ احقراس وقت دارالعلوم میں تدریس اور مسجد قدیم کی امامت وخطابت کی ذمہ داری انجام دے رہا تھا اور اس بابرکت تقریب میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ جب سنگِ بنیاد رکھا گیا اور اس کے بعد بنیادوں کی کھدائی اور باقاعدہ تعمیری کام کا آغاز ہوا تو حضرت مہتمم صاحب v نے احقر پر اعتماد کرتے ہوئے اس مسجد کی نگرانی اور تعمیری سامان کی دیکھ بھال ایک اضافی کام کے طور پر احقر کے سپرد کرنا چاہی، احقر نے کافی معذرت بھی کی اور عر ض کیا کہ مجھے تدریس کے علاوہ اس جیسے کاموں کا نہ تو کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی دلچسپی، لیکن انہوں نے اصرار فرماتے ہوئے کہا کہ یہ دارالعلوم کی خدمت ہے اور آپ پر اعتمادہے، آپ اس کو قبول کیجئے، اور ساتھ ساتھ دارالعلوم کے لیٹر پیڈ پر احقر کے نام ایک تحریر ارسال فرمادی، جس میں سلام کے بعد مندرجہ ذیل مضمون درج تھا: ’’الحمدللہ! تعمیر مسجد دارالعلوم کا کام شروع ہوگیا ہے۔ کام منظورشدہ ٹھیکیداران کے ذریعہ کرایا جارہا ہے۔ تکنیکی نگرانی انجینئر اور آرکٹیکٹ صاحبان فرمارہے ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں عمارتی سامان ادارے کی جانب سے فراہم کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں نگرانی کے فرائض آپ کو تفویض کیے جاتے ہیں۔ موقع پر جو سامان آئے اس کا اندراج رجسٹروں میں باقاعدہ طور پر اپنی نگرانی میں کراکر آپ بلوں پر تصدیق فرمائیں۔ عمارتی سامان کی کوالٹی، مقدار اور تعداد کی طرف خصوصی توجہ فرمائیں۔ اس امر کی جانب بھی توجہ فرمائیں کہ کوئی سامان کسی بھی صورت میں خورد برد نہ ہوسکے۔ شعبہ جات متعلقہ اس سلسلہ میں آپ سے مکمل تعاون کریں گے۔ نقولات‘ شعبہ جاتِ محاسبی، دارالاقامہ، اور تعمیرات کو بغرضِ اطلاع اور ضروری کارروائی ارسال ہیں۔ نوٹ: اعظمی منزل اور دیگر زیرتعمیرکاموں کی نگرانی بھی آپ کے سپرد کی جاتی ہے۔‘‘                                                          مرغوب الرحمن                                                      مہتمم دارالعلوم دیوبند                                                          ۴/۸/۱۴۰۷ء     اس تحریر کے بعد معذرت کا راستہ بند ہوگیا اور احقر نے حسب الحکم نگرانی شروع کی، لیکن چند ہی دن کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں۔ مطالعہ میں دشواری ہورہی ہے اور اسباق کی تیاری میں فرق محسوس ہورہا ہے، تو میں نے حضرت مہتمم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر بڑی لجاجت کے ساتھ عرض کیا کہ حضرت! آپ کے حکم کے مطابق میں نے یہ کام شروع تو کردیا، لیکن اب مجھے پورا اندازہ ہوگیا کہ یہ میرے بس سے باہر ہے، لہٰذا براہِ کرم اس کام سے میری معذرت منظور فرمالیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، انہوں نے میری معذرت منظور فرماکر اس کام کو جناب مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی (موجودہ نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند) کے سپرد کردیا، جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیت، مسلسل محنت اور ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر ۱۴۱۲ھ تک بحسن وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچادیا۔                                    (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین