بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیازمندانہ سفر ( دوسری قسط )

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیاز مندانہ سفر

          (دوسری قسط)

کچھ تذکرہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے بارے میں حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب مدظلہم العالی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی قدس سرہٗ کے صاحبزادے، دارالعلوم دیوبند کے استاذِحدیث اور جمعیت علمائے ہندکے صدر ہیں۔ حضرت والاسے احقر کو پڑھنے کی سعادت میسر نہ ہوسکی، اس لیے کہ جس وقت حضرت والا کو مدرسہ شاہی مرادآباد سے استاذِ حدیث کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند بلایا گیا اس وقت احقر دارالعلوم سے فارغ ہوکر مدرس بھی بن گیا تھا، البتہ حضرت کوقریب سے دیکھنے کا موقع خوب ملا، ان کی عظمت وہمت، تقویٰ وطہارت، سخاوت و تواضع، ذہانت وصلاحیت، شجاعت وبلنداخلاق اور بااثر شخصیت کا ہمیشہ معترف ومعتقد رہا، اور استاذ ہی کی طرح ان کا احترام میرے دل میں جاگزیں رہا۔ حضرت والا نے دارالعلوم میں استاذِحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نظامتِ تعلیمات کا عہدہ بھی ایک عرصہ تک سنبھالا، اور تعلیم وتربیت کی بہتری کے لیے مؤثراقدامات کیے۔ فجر کی نماز کے لیے اذان کے بعد ہی ٹارچ لے کر پورے دارالعلوم کے طلبہ کو جگانا آپ کا معمول تھا، چنانچہ نماز شروع ہونے سے پہلے پوری مسجد طلبہ سے بھر جاتی تھی۔ علمی قابلیت کے ثبوت کے لیے دارالعلوم دیوبند میں حدیث پڑھانا اور نظامتِ تعلیمات کا عہدہ سنبھالنا ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ علّامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی v(متوفّٰی۸۵۵ھ ) کی ۲۳؍ جلدوں پر مشتمل مایۂ نازتصنیف ’’نخب الأفکارفی تنقیح مبانی الأخبار‘‘ جو امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاویv (متوفی۳۲۱ھ) کی مشہور کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی شرح ہے اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم کی محنت وتحقیق کے بعد زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر اہل علم کے لیے ایک بہترین علمی تحفہ ثابت ہوئی تو یہ حضرت والا کی اعلیٰ قابلیت وصلاحیت کا شاہد ِعدل ہے۔ تقویٰ کا یہ عالم ہے کہ احقرکے علم کے مطابق سفر و حضر میں تہجد اور قبولیت کی گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا معمول برابر قائم رہتا ہے، اس سلسلہ کا ایک چشم دید واقعہ قلمبند کرتا ہوں: ’’شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ کے ایک داماد جناب بھائی نعیم صاحب خانجہانپوری ہر سال آم کے موسم میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہم اور مدنی خاندان کے دوسرے افراد و چند متعلقین کی ایک پرتکلف دعوت کیا کرتے تھے، جس میں بہترین کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے باغ کے ذائقہ دار آم بھی کھلاتے تھے۔ اس دعوت میں اکثر احقر کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ رات کاقیام ان کے کشادہ مکان میں مہمانوں کے لیے مختص حصہ میں ہوا کرتا تھا، جس میں چند کمروں کے ساتھ ایک کشادہ برآمدہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آم کے موسم میں حسب معمول بھائی نعیم صاحب نے دعوت کی اور بروز اتوار ۲۱؍ذو الحجہ ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۵؍جولائی ۱۹۹۰ء حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم، ان کے چند متعلقین اور احقر خانجہانپور پہنچے۔ رات کو کھانا اور آم کھانے کے بعد جب ہم سب آرام کے لیے مہمان خانہ میں لیٹ گئے تو تہجد کے وقت احقر نے اپنے بستر پر لیٹے لیٹے دیکھا کہ حضرت والا آہستہ آہستہ اٹھ کر مکان کے دوسرے حصہ میں وضو کرکے آرام کرنے والوں سے ذرا دور ہوکر برآمدے کے ایک کونے میں نمازِ تہجد میں مصروف ہوگئے، اور اتنی بلند آواز سے تلاوت کرتے رہے کہ سونے والوں کی نیند میں فرق نہ آنے پائے، میری آنکھیں چونکہ پہلے ہی کھل چکی تھیں اور حضرت کے اس قابلِ رشک عمل کے تجسس میں کانوں سمیت لگی ہوئی تھیں، اس لیے مجھ سے یہ عمل پوشیدہ نہ رہ سکا، البتہ تجاہل عارفانہ اختیار کرتا ہوا حضرت والا کو یہ نہیں محسوس ہونے دیا کہ میں وضو سے لے کر بااثر تلاوتِ قرآن تک پورے اس عملِ خیر کا رَشک کے ساتھ جائزہ لے رہاہوں۔ اُس وقت تویہ بھی میری سمجھ میں آگیا تھا کہ کونسی سورت وپارہ پڑھ رہے تھے، البتہ اب وہ یاد نہیں رہا، یہ ضرور یاد ہے کہ کافی لمبی تلاوت فرمائی اور آخر میں دعا پر اپنا معمول پورا کیا۔‘‘ ہمت وشجاعت سے متعلق ان کا یہ واقعہ میں بھول نہیں سکتا کہ ۲۱؍ دسمبر۱۹۸۳ھ مطابق ۱۵؍ربیع الاول ۱۴۰۴ھ بروز بدھ دس تا بارہ افراد پر مشتمل ایک شرپسند ٹولے (جن کا اپنی شرارتوں کی وجہ سے دارالعلوم سے اخراج ہوگیا تھا) نے دارالعلوم پر قبضہ کرنے کے لیے ظہر کی نمازکے بعد مسلح حملہ کردیا، اور جنوبی دروازہ سے فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوگئے اور پورے دارالعلوم میں سخت خوف وہراس پھیلادیا، اس موقع پر شیخ الاسلامؒ کے بہادر صاحبزادے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب اپنی لائسنس یافتہ بندوق کے ساتھ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر شرپسندوں کے مقابلہ کے لیے دارالعلوم میں داخل ہوئے اور جناب مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدیر ماہنامہ دارالعلوم کے ساتھ مل کر ان مسلح افراد کا مقابلہ شروع کیا، ان کو دیکھ کر نہتے طلبہ کی جان میں جان آگئی اور ان کا ساتھ دیا اور بحمداللہ مختصر وقت میں وہ ٹولہ پسپا ہوا، کچھ تو بھاگ گئے اور کچھ پکڑے گئے جن کی زبردست دُھلائی ہوئی اور پھر حضرت والا اور چند دیگر اساتذہ نے ان کی جانیں بچائیں، ورنہ دارالعلوم کے مشتعل طلبہ شاید ان کو زندہ نہ چھوڑتے۔ اس موجودہ سفر میں بھی احقر نے ایک سے زائد مرتبہ دیکھا کہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب صبح ترمذی شریف کا سبق پڑھا کر جمعیت علمائے ہند کی طرف سے مختلف مقامات پر طے شدہ پروگراموں میں شرکت کرکے تقریر فرماتے ہیں، رات کو دہلی پہنچ کر نماز و کھانے سے فارغ ہوکر کچھ آرام کرتے ہیں، رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر تہجد کا اپنا مستقل معمول پورا کرتے ہیں اور پھر دہلی سے روانہ ہوکر صبح دیوبند پہنچ کر اپنا سبق پڑھاتے ہیں۔ ایک اورخاص بات جو احقر نے واضح طور پر محسوس کی، وہ یہ تھی کہ بڑھاپے اور اتنی مصروفیات کے باوجود نہ تو ان کے چہرہ پر تھکاوٹ کے آثار محسوس ہوتے تھے اور نہ ہی اندازِ گفتگو میں کوئی فرق، بلکہ ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ ہر ایک سے ملنا اور ہر ملنے والے سے نہایت اطمینان واپنائیت کے ساتھ گفتگو اور مزاج پرسی کا سلسلہ برقرار رہتا تھا۔ اتنی مصروفیات وبڑھاپے کے باوجود اپنے اعصاب وحواس پر اتنا کنٹرول اور اپنی زبان کی شیرینی ونرمی کو اس حد تک قابو میں رکھنا کم ازکم احقر نے تو اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہے، اور حضرت شیخ الاسلام قدس سرہٗ کے علاوہ اپنے اکابرین میں سے کسی سے متعلق سنابھی نہیں ہے۔ مسلمانانِ ہندکے عمومی مسائل کے حل کے لیے حضرت والا کی سرگرمیوں اور دلچسپی سے متعلق ایک واقعہ جو اس سفرکے دوران میرے علم میں آیا، نمونہ کے طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ کچھ انتہاء پسند ہندوؤںنے پانچ تاسات بے گناہ مسلمان افراد پر گجرات میں ’’اکشردھام‘‘ حملہ کا الزام لگاکر مقدمہ قائم کردیا، جس کے بعدہائی کورٹ گجرات نے ان کو پھانسی کی سزا سنائی۔جمعیت علمائے ہندنے حضرت مولانا مدظلہم کی سرکردگی میں اس فیصلہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا اور مقدمہ کی مکمل پیروی کی۔ اللہ کے فضل وکرم اور حضرت کی ذاتی دلچسپی کے باعث سپریم کورٹ نے اپنے اصولی فیصلہ کے تحت ہائی کورٹ کی سزا کو کالعدم قرار دے کر ان بے گناہ افراد کو باعزت بری کردیا۔ اس کے بعدجمعیت نے بروزمنگل ۲۰/۵/۲۰۱۴ء کو دہلی میں مذکورہ بری شدہ افراد کی موجودگی میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں حضرت مولانا نے خطاب کیا اور حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان بے گناہ افراد کو غیرقانونی طریقہ سے ملوث قرار دینے والے افسران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ بھی کیا۔ اس واقعہ سے مسلمانانِ ہند کے عمومی مسائل سے متعلق حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی بے انتہاء ذاتی دلچسپی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم کی خدمت میں حاضری اور ان کا ذکر ِخیر جامع مسجد رشید میں نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد چونکہ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہی مناسب تھا کہ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی ملاقات کے لیے کل کا انتظار کروں۔ عشاء کی نماز کے بعد ہی حضرت کی خدمت میں ان کے ذاتی مکان پر -جو دارالعلوم سے آٹھ دس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے- حاضری دی۔ حضرت الاستاذسے احقر کو بے انتہاء محبت وعقیدت ہے، اس لیے کہ احقر نے اپنی تعلیمی زندگی میں سب سے زیادہ استفادہ ان ہی سے کیا ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس سال (تعلیمی سال ۱۴۰۱ھ-۱۴۰۲ھ) احقر نے دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کیا، اس سال حضرت والا نے مندرجہ ذیل تمام کتابیں پڑھائیں:  بخاری شریف جلد ثانی               ترمذی شریف جلد اول       سنن ابوداؤد صحیح مسلم (چنداسباق کے علاوہ)     مؤطاامام مالک         مؤطاامام محمد       شمائل ترمذی اور اگلے سال جب احقر نے شعبۂ افتاء (تخصص فی الفقہ) میں داخلہ لیا تو اس سال بھی حضرت والا سے خارجی طور پر کافی استفادہ کیا اور سب سے بڑھ کر حضرت والا کی ایک خصوصی شفقت وعنایت یہ رہی کہ جب احقر کا مدرس کی حیثیت سے دارالعلوم میں تقرر ہوا اور ایک دوسال پڑھانے کے بعد شدت کے ساتھ یہ احساس ہونے لگا کہ کاش! میں حافظ قرآن ہوتا! اس لیے کہ مدرس کے لیے حافظ قرآن ہونا نہایت اہم ہے اور ویسے بھی یہ ایک عظیم نعمت ہے جس سے میں محروم ہوں، چنانچہ حضرت والا ہی کے مشورہ سے تدریس کے ساتھ ساتھ حفظِ قرآن ان ہی کے پاس شروع کیا اور ان کی صحیح رہنمائی، فیض وبرکت اور خصوصی عنایت سے تقریباً ایک سال کے اندر حفظِ قرآن مکمل ہوگیا، اس کے علاوہ جب تک دارالعلوم میں تدریس کا سلسلہ رہا تو قدم قدم پر ان کی رہنمائی وسرپرستی حاصل رہی۔ دارالعلوم سے کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی آج تک ان سے علمی اور دیگر اہم ومشورہ طلب امور میں استفادہ کا سلسلہ ٹیلی فون، خط وکتابت اور ان کی تصانیف کے ذریعہ قائم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک حقیقی بیٹے کو اپنے مشفق والد کی طرف سے اس سے زیادہ شفقت وذرہ نوازی کی سعادت حاصل نہیں رہی ہوگی جتنی شفقت سے حضرت الاستاذ نے اس نالائق شاگرد کو نوازا ہے اور آج تک نواز رہے ہیں۔ أللّٰھم بارک فی حیاتہٖ مع الصحۃ والعافیۃ ۔ حضرت مفتی صاحب مدظلہم العالی کا ۱۳۹۳ھ مطابق ۱۹۷۳ء کو دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا، انہوں نے دارالعلوم کی اس خدمت کو سعادت سمجھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو تعلیم وتدریس، تصنیف وتالیف اور اصلاحِ طلبہ پر لگایا۔ معاشی دشواریاں بھی پیش آئیں، لیکن انہوں نے صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے اپنے علمی کاموں میں ان دشواریوں کو حائل نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کسی غیرعلمی مصروفیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ مفتی صاحب کی خداداد صلاحیتوں، طلبہ میں بے پناہ مقبولیت اور علمی یکسوئی کو دیکھ کر مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین کے باوقار و اعلیٰ علمی منصب پر فائز کردیا۔ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت الاستاذ دامت برکاتہم سے خوب کام لیا۔ آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی v(متوفی۱۱۷۶ھ) قدس سرہٗ کی مشہور و معروف کتاب ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کی شرح ’’رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ‘‘کے نام سے پانچ ضخیم جلدوں میں تحریرفرمائی جس نے علمی حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل کرلی،یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبندکی مجلس شوریٰ منعقدہ ۱۳،۱۴؍صفر۱۴۲۵ھ نے اس کتاب سے متعلق ایک تحریری تجویز پاس کی جس میں حضرت مفتی صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان کو پوری جماعت کی طرف سے شکریہ وتحسین کا مستحق قرار دیا ہے۔ اسی طرح آپ نے ’’تحفۃ الألمعی شرح سنن الترمذی‘‘کے نام سے سنن ترمذی کی اردو شرح تحریرفرمائی جوآٹھ ضخیم جلدوں میں چھپ چکی ہے، اور چونکہ اردو زبان میں ترمذی شریف کی یہ پہلی مکمل شرح ہے جس میں پوری کتاب بشمول ’’کتاب العلل‘‘و ’ ’شمائل ترمذی‘‘کی تشریح کی گئی ہے،ا س لیے اساتذۂ کرام اورطلبۂ عزیزکے درمیان اس کی خوب پذیرائی ہوئی، ’’تحفۃ الألمعی‘‘ کی تکمیل کے بعد حضرت الاستاذنے بخاری شریف کی شرح ’’تحفۃ القاری‘‘کے نام سے لکھناشروع فرمائی جس کی تادمِ تحریرگیارہ جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں، اور بارہویں و آخری جلد کا کام جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا کو صحت وعافیت کے ساتھ اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ مذکورہ تصانیف کے علاوہ حضرت الاستاذ مدظلہم نے دیگر بھی متعدد تصانیف تحریر فرمائی ہیں جو مقبول عام و خاص بن چکی ہیں۔ تقویٰ وطہارت، اخلاص وللہیت اور قناعت واستغناء میں حضرت الاستاذ مدظلہم نے اکابر کی یاد کو تازہ کردیا ہے۔ ۱۳۹۳ھ کو جب دارالعلوم دیوبند میں ایک معمولی مشاہرہ پر ان کا تقرر عمل میں آیا تو صبر و قناعت کے ساتھ اس پر اکتفا کرتے ہوئے دارالعلوم کی خدمت کو جاری رکھا، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تصانیف کوخوب مقبولیت عطا کی اور اپنے ذاتی کتب خانہ ’’مکتبۂ حجاز‘‘ سے بقدرِضرورت ایک آمدنی کاسلسلہ بن گیا تو انہوں نے ۱۴۲۳ھ کو حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد دارالعلوم دیوبند سے تنخواہ لینے کا سلسلہ موقوف کردیا اور جو تنخواہ ۱۳۹۳ھ سے ۱۴۲۳ھ تک وصول فرماچکے تھے وہ بھی واپس لوٹادی، بلکہ دارالعلوم دیوبند میں تقرری سے قبل ’’دارالعلوم اشرفیہ‘‘ راندیر میں جو نو سال تک ایک مقررہ مشاہرہ پر تدریسی خدمت انجام دے چکے تھے، ان نو سالوں کی تنخواہ بھی دارالعلوم اشرفیہ کو لوٹادی۔ بہرحال! اس مختصر سفر کے موقع پر جب پہلے ہی دن عشاء کے بعد حضرت والا دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضری ہوئی تو انہوں نے بڑی شفقت و خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: جب تک تم دیوبند میں ہو دوپہر کا کھانا ظہر کے بعد اور رات کا کھانا عشاء کے بعد میرے ساتھ کھانا، تاکہ کھانے کے بہانے ملاقات ہوتی رہے اور روزانہ عصر سے مغرب تک بھی میرے پاس رہنا۔ احقر نے کھانے سے متعلق تو اس لیے معذرت کردی کہ کھانے کی بات پہلے ہی حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم سے ہوچکی تھی، البتہ عصر کے بعد حاضری کی اجازت کو اپنے لیے نعمتِ عظمیٰ تصور کرتا ہوا روزانہ حاضری کا عزم ظاہر کردیا، چنانچہ روزانہ بعد العصر حضرت الاستاذ کی مجلس میں حاضر ہوتا رہا اور ان کے علمی واصلاحی ملفوظات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مزید برآں! ۶؍رجب بروز منگل حضرت والا کے درسِ بخاری شریف میں بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی جو حضرت نے ’’کتاب الشروط‘‘ کے اندر ’’باب الشروط فی المہر عند عقدۃ النکاح‘‘ (ج:۱،ص:۳۷۶) سے پڑھایا اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر مجلس ودرس میں شرکت کے موقع پر مندرجۂ ذیل شعر میں بیان کردہ حقیقت سامنے آتی رہی: صحبتِ نیکان اگر یک ساعت است بہتر از صد سالہ زہد و طاعت است حضرت الاستاذ سے خصوصی اجازتِ حدیث کی درخواست اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ احقر نے حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم العالی کے پاس حدیث کی کئی اہم کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے، مزید یہ بھی کہ دارالعلوم دیوبند سے احقر کی سند ِفراغت پر بھی آپ اور دیگر اساتذۂ کرام کے دستخط موجود ہیں جو اجازتِ حدیث کے لیے کافی ہیں، تاہم میری ایک قلبی خواہش ضرور تھی کہ حضرت الاستاذ ایک خصوصی مختصر اجازت نامہ تحریری طور پر مزید عنایت فرمادیں جس میں ان کی تمام مرویات کی اجازت شامل ہو، چنانچہ اس سفر میں ایک دن میں نے اس درخواست کی جسارت کرہی دی، حضرت نے فرمایاکہ ضرور دیں گے۔ میراخیال یہی تھا کہ حضرت الاستاذسادہ کاغذ پر مختصر الفاظ میں تین چار سطر تحریر فرماکر عنایت فرمائیں گے اور وہی مختصر تحریر میرے لیے عظیم سعادت ہوگی، لیکن میری حیرت کی انتہاء نہ رہی بلکہ میرا سر شرم سے جھک گیا جب اگلے دن بعدالعصر ان کی خدمت میں حاضری ہوئی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک مفصل اجازت نامہ تحریر فرماکر ایک خوبصورت کاغذ پر جس کے حواشی پر رنگارنگ پھولوں کے نقوش چھپے ہوئے ہیں کاتب سے منتقل کروادیا ہے اور نیچے دستخط فرماکر اس کمترین شاگرد کو عنایت فرمائیں گے۔ اس اجازت نامہ میں حضرت الاستاذ ( أَمَدَّ اللّٰہُ فی عمرہٖ وصحتہٖ وجہودہٖ) نے اس حقیر خادم کا جس انداز پر ذکر فرمایا ہے، احقر اس کو اپنے لیے نیک فال ضرور سمجھتا ہے، لیکن اپنے آپ کو اس کا مستحق ہرگز نہیں سمجھتا، بلکہ یہ تصور کرتا ہے کہ حضرت والا نے اس انداز سے اپنے ایک ادنیٰ شاگرد کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہوئے اس کی ہمت افزائی اور ذرّہ نوازی فرمائی ہے۔حضرت والانے جو اجازت نامہ تحریرفرمایاہے، اس کا متن ان ہی کے الفاظ میں برکت کے لیے پیش کیا جارہا ہے: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم إجازۃ روایۃ کتب الحدیث     ’’الحمدللّٰہ الذی ھدانالدین الإسلام والاھتدائ، والصلٰوۃ والسلام علٰی خیرخلقہٖ سیدالمرسلین وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ ذوی الدرایۃ والیقین، أما بعد:     فإن تلمیذ الأمس زمیلَ الیوم ، الأستاذ الأدیب الأریب ، الشیخ المحدث، النبیہ الکریم، العلامۃ حبیبی عبدالرؤوف خان الغزنوي الأفغاني مدرس الحدیث الشریف بالجامعۃ الإسلامیۃ بنوری تاؤن بکراتشي الباکستان قرأ عليّ عدیداً من الکتب الحدیثیۃ،کـصحیح البخاري، وصحیح مسلم والجامع للإمام الترمذي وغیرھا، وکان التصدی للاقراء ھوالإجازۃ، ولکنہ استجازمني أخریٰ،لحسن ظنہٖ بي، ولست بأھل لذلک، فماکل بیضاء شحمۃ، ولا کل ذات ورم سمینۃ، ولکن حسن ظنہ ھوغایۃ آمالي،فاقتداء بالسلف الصالح أجیزہٗ بروایۃ جمیع الکتب الحدیثیۃ معروفۃ الأسانید لدی تلامیذي، مثل الصحیحین، والسنن الأربعۃ، وشرح معاني الآثار، والمؤطین للإمامین الھمامین:مالک ومحمد، ومسندالإمام الأعظم، ومسند الإمام أحمد بن حنبل رحمہم اللّٰہ، وأدعوا اللّٰہ تعالٰی أن یوفقہٗ ویرضی، ویذیقہٗ حلاوۃ العلم والمعرفۃ والتحقیق، ویبلغہٗ غایۃ مایتمناہ ، وأوصیہ بتقوی اللّٰہ فی السروالعلن ، وأن یتبع سنۃ سیدالمرسلینؐ ، وأرجو منہ أن لاینساني في دعواتہٖ ا لصالحۃ، ویوفقني وإیاہ لمرضاتہٖ ولصالح الأعمال ، فإنہٗ ولي التوفیق، والحمدللّٰہ رب العالمین، وصلی اللّٰہ علٰی سیدالأنبیاء والمرسلین وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین، آمین یارب العالمین‘‘۔                       أجازہٗ العبد الفقیر الحقیر                   سعیدأحمد البالن بوری                       ۱۰/۷/۱۴۳۵ھ                       ۱۰/۵/۲۰۱۴ ء حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب کی خدمت میں حاضری اور ان کا ذکر ِخیر دارالعلوم دیوبند میں احقر کے اساتذۂ کرام میں سے تین حضرات بقید ِحیات ہیں (أللّٰہم بارک في حیاتہم وصحتہم وجھودھم) ایک حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم جن کا تذکرۂ خیرہوچکا ہے، دوسرے حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب مدظلہم العالی جن کا ذکر ِخیر آرہا ہے اور تیسرے حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری زیدمجدہم ہیں۔ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری سے احقر نے سنن ابن ماجہ کا سبق پڑھا ہے۔ اللہ نے ان کو گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ تقویٰ وطہارت کے ساتھ ساتھ ذہانت وفطانت، فصاحت وبلاغت، شعرگوئی وبذلہ سنجی اور معاملہ فہمی وحاضر جوابی میں ثانی نہیں رکھتے۔ تدریس کے دوران مختصر مگر جامع ونہایت سہل انداز میں موضوع پیش کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ مضمون نگاری وتصنیف وتألیف کے میدان میں بھی قدرت نے ان کو خوب صلاحیت عطا کی ہے۔ ۱۳۹۱ھ کو دارالعلوم دیوبند میں مدرس کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا اور ابتدائی درجات سے لے کر دورۂ حدیث وتکمیلات تک کی کتابیں کامیابی کے ساتھ پڑھائیں، آج کل دورۂ حدیث کی ایک اہم کتاب ترمذی شریف جلد اول پڑھا رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کا مشہور و معروف ترانہ (یہ علم وہنر کا گہوارہ۔۔۔۔) آپ ہی کی تخلیق اور آپ ہی کی پاکیزہ شاعری کا ترجمان ہے، جسے سن کر دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے اور آنکھوں کو آنسو بہائے بغیر چین نہیں آتا۔ ’’نغمۂ سحر‘‘ کے نام سے آپ کے اشعار کا مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ کی ایک شاہکار تصنیف ’’شوریٰ کی شرعی حیثیت‘‘ ہے، جو اپنے موضوع پر ایک مفصل ومدلل کتاب ہے۔ یہ کتاب مجلس شوریٰ اور مہتمم کی باہمی حیثیت سے متعلق لکھی گئی ہے اور نصوصِ شرعیہ اور اسلافِ امت واکابرین دارالعلوم دیوبند کی تصریحات کی روشنی میں شوریٰ کی بالادستی، مہتمم کو اس کے سامنے جواب دہ ہونا اور مجلس شوریٰ کا مہتمم کے نصب وعزل کا مختار ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۴۰۸ھ کو پہلی بار ۴۰۸صفحات پر مشتمل ’’شیخ الہنداکیڈمی دارالعلوم دیوبند‘‘ کی طرف سے شائع ہوئی اور اس کو علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی وشہرت ملی۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہٗ، حضرت مولانا معراج الحق صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندv،حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبندv ،حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری موجودہ صدر المدرسین و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مدظلہم اور مشہور مصنف حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوریv نگران اعزازی ’’شیخ الہنداکیڈمی دارالعلوم دیوبند‘‘، ان تمام اکابرنے اس کتاب پر اعتماد کا اظہار فرماتے ہوئے اس پر تصدیقات ثبت فرمادی ہیں۔ میدانِ تصنیف وتالیف میں ان کا دوسرا عظیم کارنامہ ’’ایضاح البخاری‘‘ شرح صحیح بخاری ہے جس میں انہوں نے اپنے استاذِ محترم فخرالاسلام حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحبv شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی۱۳۹۲ھ) کے افادات کو اپنی مزید تحقیق، حسنِ ترتیب اور حوالوں کی نشاندہی کے ساتھ جمع فرمایا ہے اور اب تک اس کی آٹھ جلدیں (کتاب الوحی سے کتاب الاعتکاف کے اختتام تک) شائع ہوچکی ہیں اور آگے کا کام جاری ہے۔اللہ تعالیٰ اس کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ خوش نویسی، زودنویسی، باریک نویسی اور صاف نویسی ان چاروں عناصر کا مجموعہ میں نے اپنی زندگی میں صرف انہی کی تحریروں میں دیکھا ہے، جب قلم ہاتھ میں لیتے ہیں توروانی کے ساتھ خوبصورت چھوٹے حروف کے ساتھ موتیوں کی لڑیاں پرونے لگتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کی تحریر میں خوش نویسی ہے تو زود نویسی اور باریک نویسی معدوم، اور زود نویسی یا باریک نویسی اگر موجود ہے تو صاف نویسی اور خوش نویسی ندارد، حضرت الاستاذ مدظلہم کی تحریروں میں بیک وقت یہ تمام اوصاف نظر آتے ہیں، کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک پورے مضمون کا خلاصہ لکھنا آپ ہی کی خصوصیت ہے۔ آپ کی تحریر چاہے چند ہی سطروں پر مشتمل ہو اور صرف ایک وقتی ضرورت کے تحت لکھی گئی ہو اگر کسی صاحبِ ذوق کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو اس کی ظاہری وباطنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ ہمیشہ اس کی حفاظت پر مجبور ہوجاتا ہے۔ صاحبِ ذوق کو تو چھوڑیئے ! احقر جیسے مغفل طالب علم نے بھی آپ کی ہر تحریر کی حفاظت کی ہے، چنانچہ آپ کے زمانۂ نظامتِ تعلیمات میں کسی سبق کے رد و بدل یا اضافہ و کمی یا دیگر تعلیمی امور سے متعلق جو وقتی حکم یا اطلاع کے طور پر آپ کی مختصر تحریریں احقر کے نام لکھی گئی ہیں وہ سب آج تک احقر کی خصوصی فائل میں محفوظ ہیں، اور بالخصوص وہ خطوط جو آپ نے اس ادنیٰ شاگرد کے خطوط کے جوابات میں لکھے ہیں، وہ توکُحل البصرکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تمام تحریروں کو موقع بموقع کھول کر ان سے استفادہ اور اپنے استاذ محترم مدظلہم کی یادوں کو تازہ کرتا رہتا ہوں۔ آپ نے ایک عرصہ تک ناظمِ تعلیمات کی حیثیت سے بھی دارالعلوم دیوبند کی خدمت کی، اس دوران آپ کا معاملہ اساتذہ کے ساتھ ہو یا طلبہ کے ساتھ نہایت موزوں و مناسب ہوا کرتا تھا، کسی استاذ یا طالب علم کو ایسی شکایت کا موقع نہیں دیا کرتے جسے ’’شکایتِ بجا‘‘ کہا جاسکے، اسی طرح کچھ عرصہ تک تدریس کے ساتھ ساتھ ’’ماہنامہ دارالعلوم‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری بھی کامیابی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان کے حق میں ’’مجمع الکمالات‘‘ کا لفظ استعمال کرنا مبالغہ سے بالکل خالی تصور کیا جانا چاہیے۔ مذکورہ تمام کمالات کے ساتھ ساتھ حضرت الاستاذ کا ایک امتیازی اور خصوصی کمال ان کی حقیقی تواضع اور بے پناہ خاکساری ہے جس سے احقر بے حد متاثر ہوا ہے، اس لیے کہ ظاہری تواضع کی مثالیں تو کافی ملتی ہیں، لیکن حقیقی تواضع اور وہ بھی صاحب ِکمال بلکہ مجمع الکمالات شخص کے اندر پایا جانا بہت مشکل ہے۔ رواں ہجری صدی کے شروع میں جب راقم داخلہ کی غرض سے دارالعلوم دیوبند پہنچا اور حضرت والا سے پڑھنے کا موقع نصیب ہوا، اور ساتھ ساتھ آپ کو بحیثیت ناظمِ تعلیمات بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اور دارالعلوم دیوبند سے میری جدائی کے بعد بھی آپ سے تعلق قائم رہا جو آج تک بحمداللہ باقی ہے۔ اس طویل واقفیت کے بعد میں شرح صدرکے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ تواضع کے جس مقام پر وہ فائز ہیں وہ  بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتاہے۔ ظاہری تواضع کرنے والوں کی تواضع کا اس وقت پتہ چلتاہے جب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے، یا یہ کہ ان کے ہم پلہ اور کم درجہ کے لوگوں کو فوقیت دی جارہی ہے، یا ان کے ساتھ ان کے مقام سے کم درجہ کا برتاؤ کیا جارہا ہے، تو اس وقت وہ سیخ پا ہونے لگتے ہیں اور مختلف طریقوں سے احتجاج کرنے پر اتر آتے ہیں اور تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاکر اپنا مقام حاصل کرنے بلکہ اس سے بھی اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تو اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو ملے ہوئے مقام سے بالاتر سمجھتے ہیں، بلکہ ملے ہوئے مقام کو اپنی حیثیت سے بالاتر سمجھ کر اللہ کا شکر بجالاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں حدیث میں فرمایا گیا ہے: ’’من تواضع للّٰہ رفعہٗ اللّٰہ‘‘ (جس نے اللہ کی رضاکے لیے تواضع اختیار کی اللہ اس کو بلندی عطا فرماتا ہے)۔ دارالعلوم دیوبند نے ماضی میں بھی ایسے بے شمار اللہ والے پیداکیے ہیں اور اب بھی بحمداللہ اس کے ماحول میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک حضرتِ ممدوح بھی ہیں، نمونہ کے طور پر ان کی حقیقی تواضع سے متعلق چند واقعات قلمبند کیے جارہے ہیں: پہلاواقعہ: حضرت مولانا ریاست علی صاحب دامت برکاتہم سے احقر غائبانہ طور پر اس وقت سے واقف ہوچکا تھا جب وہ تعلیمی سال ۱۴۰۰ھ-۱۴۰۱ھ کو مدرسہ امینیہ دہلی میں درجہ موقوف علیہ کا طالب علم تھا، البتہ زیارت کا موقع نہیں مل سکا تھا، اور جب اگلے تعلیمی سال ۱۴۰۱ھ-۱۴۰۲ھ کو دورۂ حدیث میں داخلہ لینے کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبندحاضری ہوئی توداخلہ کے ایام میں ہی ایک نورانی چہرہ والے ادھیڑ عمر کے شخص کو دارالعلوم میں آتے جاتے دیکھا کرتا تھا جن کے سادہ لباس، بلاتکلف نقل وحرکت اور ہر ملنے والے کو سلام میں سبقت کرنے سے دل دل میں متأثر ہونے لگا تھا، اندازہ یہ تھاکہ یہ شخص دارالعلوم کے عام متعلقین میں سے کوئی ہوں گے جن پربزرگوں کا رنگ چڑھا ہوا ہے، ان کی سادگی کو دیکھ کر یہ خیال ہرگز نہ تھا کہ یہ دارالعلوم کے بڑے استاذ ہوں گے، بعد میں پتہ چلا کہ یہی حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری مدظلہم ہیں۔ دوسراواقعہ: ایک دفعہ دارالحدیث تحتانی دارالعلوم دیوبند میں ایک جلسہ (جلسہ انعامیہ یا کوئی اور جلسہ) منعقد ہوا جس میں اساتذہ وطلبہ سب شریک تھے، اساتذہ حسب ِمعمول اسٹیج پر تشریف فرما تھے، جبکہ طلبہ سامنے اور دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا ریاست علی صاحب غالباً ذرا دیر سے پہنچے ہوں گے توپیچھے سے اسٹیج پر خالی جگہ نہ دیکھ کر (حالانکہ جگہ آسانی سے نکل سکتی تھی) کسی کو احساس دلائے بغیر ایک کونے میں جاکر طلبہ کی صفوں میں اس طرح خاموشی سے تشریف فرما ہوئے کہ حاضرین میں سے کسی کو آپ کی آمد کی خبر نہ ہوئی،راقم چونکہ اس وقت مدرس بن گیا تھا، اس لیے وہ بھی اسٹیج پر تھا، یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے راقم ہی کی نظر پڑی اور بڑی شرمندگی ہوئی کہ ایک ادنیٰ شاگرد اسٹیج پر بیٹھا ہوا ہے اور استاذالاساتذہ طلبہ کی صفوں میں!! تو سب سے پہلے احقر ہی نے حضرت والا سے اسٹیج پر آنے کی درخواست کی، اس دوران بڑے اساتذہ بھی متوجہ ہوئے اور ان کو اسٹیج پر بلایا، تب وہ تشریف لاکر اساتذہ کی صفوں میں تشریف فرما ہوئے۔ تیسراواقعہ: جس وقت آپ اپنی مایۂ ناز تصنیف ’’شوریٰ کی شرعی حیثیت‘‘ لکھ رہے تھے تو چند اکابر حضرات سے اس سلسلہ میں باقاعدہ ان کا تبادلۂ خیال ہوتا رہا اور ان سے مشورے لیتے رہے، اور ایسا بھی ہوتا رہا کہ کبھی اپنے چھوٹوں اور شاگردوں سے کتاب کے کسی موضوع سے متعلق کوئی سرسری تبادلۂ خیال ہوجاتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صرف ایک ہی مرتبہ خود مجھ سے اس کتاب کے کسی موضو ع سے متعلق کوئی سرسری تذکرہ فرمایا اور میری رائے دریافت کی، میں نے اپنی رائے ظاہر کردی جو درحقیقت حضرت ہی کی رائے کی تائید تھی۔ حضرت والا کی تواضع وحق بینی کا یہ عالم دیکھئے کہ مذکورہ کتاب کے شروع میں ’’پیش لفظ‘‘ کے تحت جہاں ان اکابر کا ذکر کیا ہے جن سے کتاب میں مدد لی گئی ہے وہاں ان اصاغر کا ذکر بھی فرمایا ہے جن سے تبادلۂ خیال کیا گیا ہے اور ان کے ضمن میں احقر کا نام بھی شامل کردیا ہے۔ اللہ ہدایت نصیب فرمائے ان مصنفین کو جو’’علمی سرقہ‘‘کرتے ہوئے دوسروں کی محنت وکاوش کو اپنا کارنامہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اور ان کو بھی جو پورا کام یا اکثر کام دوسروں سے کرواتے ہیں اور نام صرف اپنا ہی لگالیتے ہیں۔ حضرت والا مدظلہم نے کلیدی محنت خود ہی انجام دی، البتہ ایک معمولی شرکت کی وجہ سے اس کی نسبت دوسروں کی طرف کی ہے: ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تا بہ کجا چوتھاواقعہ: کسی عالم کا اپنے ہم عصر دوسرے عالم کے علم وفضیلت کا اعتراف یا ان سے استفادہ کرنے کا اقرار کرنا اگرچہ بالکل معدوم تو نہیں البتہ شاذ ونادر ضرور ہے، لیکن دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں نے بے شمار ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں ہم عصروں کی بلندیوں کا اعتراف اور ان کی فضیلت وعظمت کو تسلیم کرنا نمایاں طور پر نظر آتا ہے، چنانچہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادیv اور حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندویv ‘ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کی خدمت میں بیعت ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے، حضرت شیخ الاسلامؒ نے ان کے اصرار کے باوجود حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہٗ کی عظمت وفضیلت کا ذکر و اعتراف کرتے ہوئے اُن سے بیعت ہونے کا مشورہ دیا، صرف مشورہ ہی نہیں بلکہ ان کو لے کر تھانہ بھون تشریف لے گئے اور حضرت تھانوی ؒ سے ان دونوں کو بیعت کرلینے کی درخواست کی، حضرت حکیم الامتؒ نے بھی حضرت شیخ الاسلامؒ کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے فرمایاکہ یہ لوگ چونکہ پہلے آپ ہی کے پاس حاضر ہوئے ہیں، اس لیے آپ ہی ان کو بیعت کرلیں، چنانچہ حکیم الامتؒکے اس فرمان کے احترام میں شیخ الاسلامؒ نے دونوں کوبیعت توکرلیا، لیکن اصلاح کامعاملہ حضرت حکیم الامتؒ کے سپردکردیا،حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب دامت برکاتہم کی تواضع سے متعلق جو چوتھا واقعہ میں نقل کرنا چاہتا ہوں وہ بھی اکابرین کی یاد کو تازہ کرنے والا واقعہ ہے: تصنیف وتألیف کے میدان میں حضرت الاستاذ کا سب سے بڑا کام ’’ایضاح البخاری‘‘ شرح صحیح البخاری کی ترتیب ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، اس کتاب کی ترتیب آپ ہی کی محنتوں کا ثمرہ ہے، لیکن آپ کی تواضع کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہم عصر اساتذۂ دارالعلوم سے مشکل مقامات پر تبادلۂ خیال کرنے اور اس کو استفادہ قرار دینے اور پھر تحریری شکل میں اس کے اعتراف کرنے سے اُن کو کوئی تردد لاحق نہیں ہوتا، چنانچہ ایضاح البخاری جلدچہارم، صفحہ نمبر:۵ پر ’’عرض مرتب‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’اصلاحی نظر کے تدارک کی یہ صورت اختیار کی گئی ہے کہ مشکل مقامات پر دارالعلوم کے بالغ نظر اساتذۂ کرام سے رجوع کا اہتمام کیا جاتا ہے، خصوصاً حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم سے عام طور پر تبادلۂ خیال، مذاکرہ اور استفادے کا موقع میسر ہے اور حضرتِ موصوف بھی از راہِ کرم بڑی دلچسپی کے ساتھ وقت مرحمت فرماتے ہیں اور کبھی کبھی حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہم سے بھی تبادلۂ خیال یا مشورہ کیا جاتا ہے۔ اللہ ان حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔‘‘ اسی طرح جب حضرت الاستاذ نے ایضاح البخاری جلدششم کی ترتیب میں اپنے ایک ہونہار نوجوان شاگرد جناب مولانافہیم الدین صاحب (جو‘اَب دارالعلوم دیوبند میں مدرس ہوگئے ہیں) سے اپنی زیرِسرپرستی میں تعاون لیناشروع فرمایاتواس تعاون کے اعتراف میں ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ ان کانام بھی بڑھادیا، جسے خود مولانا فہیم الدین صاحب خوردنوازی اور کرم گستری قراردیتے ہوئے ایضاح البخاری جلد ششم، صفحہ نمبر:۶ پر ’’عرض مرتب دوم‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے کہ کتاب کی پیشانی پر میرا نام مرتب کے طور پر آئے، لیکن حضرت والا کی خوردنوازی اور کرم گستری ہے کہ مرتب دوم کی حیثیت سے میرا نام آرہا ہے‘‘۔ راقم الحروف عرض کرتاہے کہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب مدظلہم کے اس عمل سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو مصنف بننے کے شوق میں مختلف مصنفین کی عبارات لے لیتے ہیں اور ان کا نام یا حوالہ تک ذکر نہیں کرتے، یا دوسروں سے کام کرالیتے ہیں اور نام اپنا ظاہر کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے ایسے حضرات کی تصانیف میں کوئی کشش یانورانیت محسوس نہیں ہوتی۔ بہرصورت! اس مختصر سفر میں حضرت الاستاذ مولاناریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضری وملاقات کی سعادت بھی نصیب ہوئی اوران کے گراں قدر ملفوظات سے استفادہ کا موقع بھی میسر ہوا، ساتھ ساتھ انہوں نے احقر کی ہمت افزائی فرماتے ہوئے ایک پُرتکلف دعوت اور کچھ ہدایا -جومیرے لیے تبرکات کی حیثیت رکھتے ہیں -سے بھی نوازا۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں صحت وعافیت کے ساتھ برکت عطافرمائے۔ حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب زیدمجدہم کی خدمت میں حاضری اس سفر میں اللہ کے فضل وکرم سے اپنے استاذ محترم حضرت مولانا علامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری دامت برکاتہم العالیہ استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں بھی حاضری ہوئی اور ان کی نصیحتوں اور قیمتی ملفوظات سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا۔ آپ نے بہت ہی شفقت ومحبت کا معاملہ فرماتے ہوئے اپنے ملفوظات ومجالس کا مجموعہ ’’جواہراتِ قمر‘‘ عنایت فرمایا، اور چائے وپھل فروٹ سے بھی احقر کا اکرام فرمایا۔ احقر نے ان سے حدیث کی دو کتابیں(شرح معانی الآثار اور سنن نسائی)پڑھی ہیں۔ حضرت الاستاذ دارالعلوم کے قدیم ترین استاذوں میں سے ہیں، دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ۱۳۸۶ھ کو حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی (متوفّٰی۱۳۸۷ھ)قدس سرہٗ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کے توسط سے عمل میں آیا۔ اس وقت سے آج تک پوری نصف صدی گزرچکی ہے کہ آپ دارالعلوم میں پڑھا رہے ہیں۔ابتدا سے لے کر دورۂ حدیث وتکمیلات تک ہرفن پڑھا چکے ہیں اور ہر فن پر عبور رکھتے ہیں۔ اپنے مخدوم واستاذ محترم امام المعقولات حضرت علامہ بلیاوی قدس سرہٗ کی خدمت و صحبت کی برکت سے فن معقولات میں آپ کو خصوصی ملکہ حاصل ہے۔ آج کل دورۂ حدیث میں صحیح مسلم شریف پڑھارہے ہیں۔ حضرت الاستاذ پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت واصلاح پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس مقصد کے تحت دورانِ تدریس علمی تحقیقات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کوہدایات وتعلیمات ِ نبویہ پر عمل کرنے کی ترغیب اور اس سلسلہ میں اکابرین کے واقعات بیان کرنا آپ کا معمول ہے۔ بعدالعصر آپ کی رہائش گاہ کے قریب واقع مسجد ِطیّب میں سالوں سے آپ کی اصلاحی مجالس کا سلسلہ قائم ہے، جس سے طلبہ اورعام نمازیوں کو استفادہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ بیعت وسلوک کے میدان میں آپ کو اپنے استاذ ومخدوم حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی v اورحضرت مولاناشاہ ابرارالحق ہردوئی v سے اجازت وخلافت حاصل ہے۔ تقریباً ۷؍ سال سے شہر آمبور(تمل ناڈو) کی ایک مسجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے ہیں۔ ان ایام میں اپنے مواعظ وگراں قدر مجالس سے ایک بڑے مجمع کو مستفیض فرماتے ہیں۔ آپ کے ایک شاگرد جناب مولانا سعادت اللہ خاں صاحب قاسمی نے ان مواعظ کو ترتیب دے کر’ ’جواہراتِ قمر‘‘ کے نام سے جلد اول شائع کردی ہے۔ اللہ سے امیدہے کہ جواہرات کایہ سلسلہ جاری رہے گا۔     حضرت الاستاذ کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، اختلافات کاحصہ نہیں بنتے، اگرخدانخواستہ اختلافات کا کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو بالکل الگ تھلگ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔رواں ہجری صدی کے شروع میں دارالعلوم دیوبند میں جب اختلافات کا ایک طوفان اٹھا تو انہوں نے کافی حدتک یکسوئی اختیار کی اورجب اللہ تعالیٰ نے مجلس شوریٰ کی زیرسرپرستی دارالعلوم کو دوبارہ کھلوایا اور تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے پھر سے پڑھانا شروع فرمایا جو آج تک جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں صحت وعافیت کے ساتھ برکت عطا فرمائے۔                                  (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین