بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیازمندانہ سفر ( تیسری قسط )

 

دارالعلوم دیوبند (انڈیا) کا نیاز مندانہ سفر

                 (تیسری قسط)

حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم واستاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند سے بھی اس سفرمیں متعدد نیازمندانہ ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے بھی احقر کو اکرام سے نوازا، جس زمانہ میں احقر دارالعلوم میں مقیم تھا، اس وقت دارالعلوم کی تدریس یا انتظام سے مفتی صاحب کی وابستگی نہیں تھی، البتہ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہٗ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند سے چونکہ ان کا اصلاحی تعلق تھا (اِس وقت حضرت فقیہ الامت کے اجل خلفاء میں ان کو شمار کیا جاتا ہے) اور ان کی خدمت میں وقتاً فوقتاً دیوبند حاضری دیتے رہتے تھے اور احقر کا بھی حضرت فقیہ الامت قدس سرہٗ سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیا تھا اور ان کی مجلسوں میں حسبِ توفیق شریک ہوا کرتا تھا، اس دوران مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب سے بھی ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔ پاکستان منتقلی کے بعد احقر کو پتہ چلا کہ مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی کو مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند کا رُکن منتخب کیا گیا ہے جس سے دل بہت خوش ہوا، اس لیے کہ موصوف میں اس اہم ذمہ داری کی اہلیت موجودتھی، اور جب ۱۴۳۲ھ کو حضرت مولانامرغوب الرحمن صاحب v سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا انتقال ہوا اور مادرِ علمی کا سب سے اہم اور نازک یہ عہدہ کچھ آزمائش وامتحان کے دورسے گزرنے لگا، اوراندرونِ ملک وبیرونِ ملک پھیلے ہوئے بہی خواہانِ دارالعلوم کے قلوب اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر ان دعاؤں میں مصروف ہوگئے کہ اے اللہ! دارالعلوم کو ایک مخلص، مدبر، باصلاحیت اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے والا خادم (مہتمم) مہیا فرما، تو بالآخر وہ دعائیں رنگ لائیں اورمجلس شوریٰ نے حضرت مولانامفتی ابولقاسم صاحب نعمانی کو مستقل مہتمم کی حیثیت سے منتخب کیا جس پرتمام بہی خواہان وخیرخواہانِ دارالعلوم نے اطمینان کا اظہار کیا۔ دارالعلوم کے دیگرمشایخ کرام سے ملاقاتیں اپنے اساتذۂ کرام اور حضرت مہتمم صاحب کے علاوہ حضرت مولاناعبدالحق صاحب اعظمی، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی (نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی (مدیر ماہنامہ دارالعلوم)، حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری، حضرت مولانا محمد امین صاحب پالن پوری اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی دامت برکاتہم العالیہ (اساتذۂ حدیث دارالعلوم دیوبند) سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ مذکورہ تمام حضرات اس زمانہ سے دارالعلوم میں پڑھا رہے ہیں جس زمانہ میں راقم الحروف بھی دارالعلوم کے خادموں میں سے ایک خادمِ تدریس کی حیثیت سے وہاں کام کررہا تھا۔ ان تمام حضرات کی عظمت وفضیلت کااس وقت بھی قائل تھا اورآج بھی ہوں، البتہ اُن سے پڑھنے کی سعادت میسرنہیں ہوسکی ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اس سفرمیں ان تمام حضرات سے خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں ہوئیں، اورماضی کی دلچسپ یادوں کوتازہ کیا اور انہوں نے احقر کی ذرہ نوازی واکرام بھی فرمایا۔ جناب مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے ملاقات اپنی مادرِعلمی کے اس سفرکے دوران جناب مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب زیدمجدہم استاذادب عربی ومدیر مجلہ عربی’’الدّاعی‘‘ دارالعلوم دیوبند سے ان کے گھر پر ملاقات کی سعادت حاصل کی، جہاں موصوف نے اپنے نفیس دسترخوان پر چائے و دیگر لوازمات سے احقر کا اکرام کیا، مولانا کا تقرر دارالعلوم میں ماہِ شوال۱۴۰۲ھ کو بحیثیت استاذ ادب عربی ومدیر جریدہ عربی ’’الدّاعی‘‘ ان کے استاد و مربی حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی (متوفی۱۴۱۵ھ) v سابق استاذ و معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تحریک پر ہوا، احقر اس وقت تخصص فی الفقہ (شعبۂ افتائ) کا طالب علم تھا اور چند ہی مہینے بعد ماہِ صفر ۱۴۰۳ھ کو دارالعلوم میں مدرس کی حیثیت سے احقر کا تقرر بھی عمل میں آیا، اس وقت سے جناب مولانا نور عالم صاحب کو جانتا ہوں۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مولانا نور عالم صاحب نے اپنے مربی حضرت مولانا وحیدالزمان صاحب قدس سرہٗ کی تمنا کے مطابق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عربی ادب کے میدان میں خدمت انجام دی، ایک طرف سے انہوںنے ایسے لائق وفائق شاگرد تیار کردیئے جنہوں نے دارالعلوم سے فراغت کے بعد پورے ملک وبیرونِ ملک کے تعلیمی اداروں میں عربی ادب وعربی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے خوب کام کیا، اور دوسری طرف سے مولانا نے عربی مجلہ ’’الدّاعی‘‘ کو بامِ عروج پر پہنچایا، ’’الدّاعی‘‘ کا اجراء دارالعلوم دیوبند سے حضرت مولانا وحیدالزمان صاحب کیرانوی v کی زیرِ سرپرستی اور مولانا بدرالحسن صاحب قاسمی کی زیرِ ادارت ۱۳۹۶ھ مطابق ۱۹۷۶ء کو پندرہ روزہ عربی جریدے کی صورت میں شروع ہوا۔ ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲ء کو اس کی ادارت جناب مولانا نور عالم امینی صاحب کے سپردہوئی ، مولانانے اپنی محنت وخداداد صلاحیت کے ذریعہ اس کو ترقی دیتے ہوئے ۱۴۱۴ھ مطابق ۱۹۹۳ء کو ظاہری وباطنی حسن سے آراستہ ماہوار مجلہ کی شکل میں نکالنا شروع کیا جو تاحال جاری ہے، اس مجلہ نے عالمِ اسلام اور بالخصوص عالمِ عرب میں یہ ثابت کردیا کہ دارالعلوم دیوبند کو صرف فقہ و حدیث و تفسیر و دیگر فنون ہی میں نہیں ‘عربی ادب میں بھی مرکزیت حاصل ہے، مجلہ ’’الدّاعی‘‘ اور اس کے مدیر مولانا نور عالم صاحب کی مقبولیتِ عامہ کی مناسبت سے دو واقعے نمونہ کے طور پر سپردِ قلم کرتا ہوں: پہلاواقعہ ۱۴۱۵ھ مطابق۱۹۹۴ء ملاقاتی ویزا کے ذریعہ احقر کا ریاض سعودی عرب جانا ہوا، اسی سفر میں ’’إدارۃ الدعوۃ فی الخارج‘‘ (جوپہلے دارالافتاء کا اور اب وزارتِ مذہبی امور کا ایک ذیلی ادارہ ہے)کے ایک ذمہ دار سعودی عالم شیخ عبدالرحمن المہیزِع v سے ملاقات ہوئی، وہ اہلِ زبان ہونے کے ساتھ ساتھ عربی ادب اور مطالعۂ کتب کا کافی ذوق وشوق رکھتے تھے اور ان کے پاس اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے آئے ہوئے عربی رسائل واخبارات کا ڈھیر لگا رہتا تھا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان تمام رسائل میں سرفہرست ’’الدّاعی‘‘ کو سمجھتا ہوں، اور اس کو سب سے اوپر رکھ کر شروع سے آخر تک پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کی جامعیت، صاف گوئی، تصاویر سے خالی ہونے، ظاہری وباطنی جمال اور بالخصوص شیخ نور (مولانا نور عالم صاحب) کے ’’کلمۃ العدد‘‘ا ور’ ’اشراقۃ‘‘نے مجھے بے حد متأثرکیاہے۔ دوسراواقعہ ماہِ محرم ۱۴۲۸ھ مطابق ماہِ فروری ۲۰۰۷ء کو سعودی عرب کے نائب وزیرمذہبی امور محترم شیخ عبدالعزیز العمار کی سرکردگی میں ایک وفد نے پاکستان کے دینی مدارس کا دورہ کیا تھا، جس کے اعزاز میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ’’ریجنٹ پلازہ‘‘ (Regent Plaza) کراچی میں جلسہ منعقد کیا تھا جس میں پاکستان بھر سے بڑے بڑے علمائ، مدارس کے ذمہ داران، وفاقی وزیر مذہبی امور پاکستان اور دیگر معززین شریک ہوئے تھے۔ اس عظیم الشان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شیخ عبدالعزیز العمار نے دارالعلوم دیوبند اور مسلک دیوبند کے دیگر مدارس کی دینی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس ضمن میں عربی مجلہ ’’الدّاعی‘‘ اور اس کے مدیر محترم مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کا بلند القاب کے ساتھ ذکر کیا جس سے مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء (بالخصوص اس حقیر طالب علم) نے بڑی مسرت و خوشی محسوس کی۔ اللہ تعالیٰ مولانا نور عالم صاحب کو صحت وتندرستی کے ساتھ تادیر عربی زبان اور دارالعلوم دیوبند کی خدمت کا موقع عنایت فرمائے۔ اپنے ہم عصر اور دوست اساتذہ سے ملاقاتیں اپنی زندگی کے اس ناقابل فراموش سفر میں جہاں اپنے اساتذۂ کرام اور دیگر مشایخِ عظام کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا، وہاں اپنے ان ہم عصر اور دوست اساتذہ کا دیدار اور ان سے شرفِ لقاء بھی نصیب ہوا جن کے ساتھ ماضی میں بے تکلف ملاقاتیں، دعوتوں کا تبادلہ، بعدالعصر اکثر ایک ہی ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلنے اور دارالاقامہ کا نظام ایک ہی ساتھ سنبھالنے کا سلسلہ رہا تھا۔ ان حضرات میں سے جناب مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی (جو‘اَب نائب مہتمم ثانی دارالعلوم دیوبند بھی بنائے گئے ہیں) اور جناب مولانا محمد نسیم صاحب بارہ بنکوی سرفہرست ہیں۔ ان دونوں حضرات اور احقر کا ایک ہی ساتھ دارالعلوم دیوبند میں تعلیمی سال ۱۴۰۲ھ-۱۴۰۳ھ کو تقرر ہوا تھا، حسنِ اتفاق سے تینوں کو بچوں سمیت ایک ہی عمارت ’’دارالمدرسین‘‘ میں رہائش بھی ملی تھی، اس سفر میں پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر دارالمدرسین ہی میں مولانا محمد نسیم صاحب کے دسترخوان پر تینوں نے ایک ہی ساتھ ناشتہ کیا، ناشتہ کے بعد ان کے قریب میں رہائش پذیر بزرگ استاذ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی سے ملاقات ہوئی جنہوںنے بہت اکرام کیا، موصوف شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ کے شاگردوں میں سے ہیں (دارالعلوم میں حضرت مدنی قدس سرہٗ کے شاگرد چند ہی رہ گئے ہیں) اور طلبہ میں ایک مقبول و مشفق استاد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، عمرمیں ہم تینوں سے کافی بڑے ہیں، لیکن اپنی تواضع کی بنیاد پر ہمارے ساتھ ان کا معاملہ بے تکلف دوستوں جیسا ہوا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے۔ چند نوجوان اساتذہ سے ملاقاتیں اس باسعادت سفر دارالعلوم دیوبند میں چند اُن نوجوان اساتذۂ کرام سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن کی تقرریاں دارالعلوم سے میری واپسی کے بعد ہوئی ہیں۔ ان حضرات کا علمی انہماک، تدریسی ذمہ داری کو نباہنے کے ساتھ ساتھ تصنیف وتألیف کے میدان سے بھی اچھی دلچسپی اور اپنے بڑوں اوراساتذہ سے مضبوط تعلق اور ان کے مشوروں سے چلنا، ان تمام امور کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ الحمدللہ! مادرِ علمی کا علمی وعملی دونوں میدانوں میں امتیاز جیساکہ ہمیشہ برقرار رہا ہے، ایساہی آئندہ بھی ان جیسے نوجوانوں کے ذریعہ ان شاء اللہ! برقرار رہے گا۔ ان نوجوان اساتذہ میں جناب مولاناعبداللہ صاحب معروفی، جناب مولانا عارف جمیل صاحب قاسمی، جناب مولانا محمد ساجد صاحب قاسمی، جناب مولانا محمد علی صاحب بجنوری، جناب مولانا توحید عالم صاحب قاسمی، جناب مولانا محمد عثمان صاحب ہوڑوی، جناب مولانا اشرف عباس صاحب قاسمی وغیرہ (زیدمجدہم) شامل ہیں۔ نوجوان اساتذۂ کرام میں سے کچھ حضرات نے اپنی تالیفات کا ہدیہ بھی پیش کیا، فجزاہم اللّٰہ خیرًا، ان تالیفات کو دیکھ کر ان کی صلاحیتوں اور محنتوں کا اندازہ ہوا، بالخصوص مولانا عبداللہ صاحب معروفی استاد شعبۂ تخصص فی الحدیث کی تالیف ’’حدیث اور فہم حدیث‘‘ سے دل کافی خوش ہوا، یہ کتاب ۴۰۵؍ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں علم حدیث کی تعریف وتقسیم، حجیتِ حدیث وفتنۂ انکارِ حدیث، تاریخِ تدوین حدیث وہندوستان میں علم حدیث، درسی کتبِ حدیث کا مختصر تعارف اور قواعد ِتخریج وغیرہ اہم موضوعات سے متعلق اختصار کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح مولانا محمد ساجد صاحب قاسمی استاد دارالعلوم دیوبند اور مولانا عبدالقدوس صاحب قاسمی استاد دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ دونوں کی محنت سے تیارشدہ کتاب ’’القراء ۃ العربیۃ‘‘ بھی کافی پسند آئی۔ یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے جس میں ماہرین تعلیم عرب اُدباء کی کتابوں سے مدد لی گئی ہے، لیکن غیر عرب طلبہ کی استعداد کو بھی سامنے رکھا گیا ہے اور ایسے ’’نصوص وتمارین‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ جاذبیت بھی رکھتے ہیں اور عربی زبان کے ساتھ ساتھ اسلامی آداب بھی سکھاتے ہیں۔  نوجوان اساتذہ میں سے مولانا عارف جمیل صاحب قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند (جن کا تدریس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں اپنے استاد و مربی جناب مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب مدیر عربی مجلہ ’’الداعی‘‘ کے معاون کی حیثیت سے انتخاب بھی عمل میں آیاہے) کے عربی مضامین جو ’’الداعی‘‘ میں چھپتے رہتے ہیں، بالخصوص’’تاریخ دارالعلوم دیوبند‘‘ (اردو) کی قسط وار تعریب کو دیکھ کر دل سے اُن کے لیے دعا نکلی، اللہ تعالیٰ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جامع مسجد رشید میں نمازِ جمعہ کی امامت دارالعلوم دیوبند میں اس مختصر قیام کے دوران دفتر اہتمام کی طرف سے جامع مسجد رشید کے امام صاحب کے ذریعہ یہ پیغام موصول ہوا کہ احقر بروز جمعہ ۹/۷/۱۴۳۵ھ مطابق ۹/۵/۲۰۱۴ء کو جامع مسجد رشید میں نمازِ جمعہ پڑھا کر پرانی یادوں کو تازہ کرادے، اس حکم کو اپنے لیے سعادت سمجھ کر اس امید پر قبول کیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس دنیا میں میری خامیوں اور نااہلیت پر پردہ ڈال کر علماء وصلحاء کی ایک عظیم جماعت کی امامت وخطابت کا موقع دے رہاہے، شاید قیامت میں بھی ان ہی صلحاء کے طفیل میں اس گنہگار کا بیڑا پار کرادے۔ جامع مسجد رشید میں اہل علم کے اس بارعب وبابرکت اجتماع اور عنقریب آنے والے سالانہ امتحان کی مناسبت سے احقر نے اپنے خطبہ میں علم اور اہل علم کی فضیلت سے متعلق قرآن پاک کی چند آیتیں اور نبی کریم a کی چند حدیثیں تشریح کے ساتھ پیش کیں، اور امتحانات کی مناسبت سے صحیح البخاری میں’’کتاب العلم‘‘ کے اندر امتحان کی اہمیت سے متعلق قائم شدہ عنوان ’’بابُ طرح الإمام المسألۃَ علٰی أصحابہٖ لیختبر ماعندہم من العلم‘‘ کا ذکر کیا، اور پھر مذکورہ باب کے تحت امام بخاری v نے اپنی سندسے جو حضرت عبداللہ بن عمرq کی روایت نقل کی ہے جس میں نبی کریم a کا اپنے صحابہ s کے سامنے ایک سوال پیش کرنے اور ان سے جواب طلب کرنے کا تذکرہ ہے وہ بھی پڑھی، اور ساتھ ساتھ ان دنیوی امتحانات کی مناسبت سے قبر میں تین سوالات پر مشتمل نکیر و منکر کے امتحان اور اس کی تیاری کی ضرورت اور پھر قیامت کے دن جو تفصیلی امتحان ہوگا اس کا بھی تذکرہ اور اس کی تیاری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ نماز پڑھانے کے بعد دعا کے دوران دارالعلوم دیوبند اور اس کے اساتذۂ کرام و طلبۂ عزیز کی عظمت، دارالعلوم کے در و دیوار سے احقر کی دیرینہ وابستگی، اس کے احاطہ میں ایک اچھا خاصا وقت گزارنے اور پھر جسمانی طور پر اس سے ایک طویل جدائی اور جدائی کے بعد ایک مرتبہ پھر اس کی چاردیواری میں نیازمندانہ حاضری کا تصور کرتے ہوئے مجھ پر رقت طاری ہوگئی جس کو دبانے کی کوشش میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا۔ سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد دارالعلوم کے چند اساتذۂ کرام ، طلبۂ عزیز کی ایک بڑی تعداد اور شہرِ دیوبندکے رہنے والے کچھ پرانے جاننے والے اور کچھ نئے حضرات سے شرفِ مصافحہ کا موقع نصیب ہوا، اس دوران یہ بھی پتہ چلاکہ دارالعلوم کے جوان اساتذہ میں سے تقریباً سات آٹھ اساتذہ ایسے ہیں جنہوںنے احقر سے دارالعلوم میں مدرسی کے زمانہ میں کچھ نہ کچھ پڑھا ہے، یہ جان کر اللہ کا شکر ادا کیا اور بڑی خوشی ہوئی کہ دارالعلوم کے در و دیوار کے اندر احقر کی خدمت کا سلسلہ اب بھی بحمداللہ ایک حد تک بالواسطہ جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو کامیابی کے ساتھ جاری وساری رکھے۔ شہر دیوبند کے چند دیگر دینی اداروں کی زیارت اس دلچسپ سفر میں دارالعلوم کے علاوہ شہر دیوبند کے چند دیگر ایسے دینی اداروں کی زیارت کا موقع بھی ملا جو احقر کی مدرسی کے زمانے میں موجود نہیں تھے، ان اداروں میں سے ایک ’’دارالعلوم (وقف)‘‘ ہے جس کے مہتمم حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی مدظلہم ہیں۔ اس ادارہ نے مختصر مدت میں بڑی ترقی کی ہے، جب میں دیوبند میں تھا اس وقت ’’دارالعلوم (وقف)‘‘ قائم تو ہوگیا تھا، البتہ عمارت نہ ہونے کی وجہ سے اس نے شہر دیوبند کی جامع مسجد میں کام شروع کردیا تھا اور عیدگاہ کے قریب اس کے لیے مستقل عمارت کے ارادہ سے زمین حاصل کرلی گئی تھی، اس سفرمیں راقم نے دیکھا کہ اس زمین پرایک شاندارعمارت کھڑی ہے جس میں درسگاہیں، دارالاقامہ، دفاتر اور مدرسہ کی تمام ضروریات کا انتظام موجود اور تعلیم کا سلسلہ جاری ہے، اور سب سے اچھی اور باعث اطمینان چیز یہ نظر آئی کہ اب الحمدللہ! اختلاف کی کیفیت بھی ختم ہوچکی ہے اور دونوں ادارے (دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف) اپنے اپنے دینی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور ذمہ داران کا آپس میں اچھا تعلق بھی قائم ہے۔ مولانا عبدالرشید صاحب بستوی فاضل دارالعلوم دیوبند کی دعوت پر دیوبند کے ایک اور دینی ادارے ’’جامعۃ الإمام محمد أنور الکشمیری‘‘ کی زیارت کا موقع بھی ملا، اور مولانا موصوف- جو مذکورہ ادارہ کے ایک قابل استاد اور صدرالمدرسین اور احقر کے مخلص دوست ہیں- کی خواہش پر طلبہ کی تقریری انجمن کے اختتامی پروگرام میں شریک ہوکر طلبہ کی خدمت میں چند باتیں بھی عرض کیں، مولانانے احقرکابہت اکرام کیا اور رات کے کھانے پر مدعو بھی کیا۔ اسی طرح ’’الجامعۃ الإسلامیۃ للبنات‘‘-جس کے بانی ومدیر جناب مولانا سید اسجد صاحب مدنی زیدمجدہم ہیں-کی زیارت کے لیے بھی حاضرہوا اور اس کی نفاست ونظافت اور حسنِ انتظام کو دیکھ کر دل خوش ہوا، مولانا خود چونکہ سفر میں تھے، اس لیے ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ کرسکا جس کا قلق اب تک باقی ہے، البتہ ان کے ہونہار صاحبزادے جناب مولانا حسن صاحب مدنی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ایک پُرتکلف دعوت سے بھی نوازا۔ میرے ایک اور مخلص دوست مولانا مزمل حسین صاحب آسامی کا قائم کردہ مدرسہ ’’جامعۃ الشیخ حسین أحمد المدنی‘‘ کی زیارت بھی نصیب ہوئی اور مولانا مو صوف نے بھی احقر کا اکرام کیا اور ایک پرتکلف دعوت پر مدعو بھی کیا۔ قریب میں واقع ’’شیخ الاسلام اکیڈمی ‘‘جس کی نگرانی محترم مولانا سید امجد صاحب مدنی فرما رہے ہیں کہ زیارت اور وہاں کے علمی واشاعتی کاموں سے آگاہی وخوشی حاصل ہوئی، بالخصوص ’’تحفۃ الأحوذی شرح جامع الترمذی‘‘ پر مولانا سید امجد مدنی صاحب بارک اللّٰہ فی علومہٖ وجہودہٖ کے تحقیقی کام (جس کا سلسلہ جاری ہے) سے دل بڑا خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ دارالعلوم دیوبند کی ترقی کے چند اہم اسباب اس سفر کے دوران اپنی مادرِعلمی دارالعلوم دیوبند کے ماضی وحال پر غور کرتا ہوا اور اس کی بے مثال ترقی کا تصور کرتا ہوا ذہن اس طرف متوجہ ہوا کہ اس حیرت انگیز کامیابی کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ آخر میں چند اہم اسباب کی طرف ذہن منتقل ہوا جن کو اختصار کے ساتھ قلمبند کرنا مناسب سمجھتا ہوں: ۱:-اخلاص وللہیت اللہ تعالیٰ نے اکابرین دارالعلوم کو اخلاص وللہیت کا بھرپور حصہ عطا فرمایا تھا، بانیِ دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v کا پیش کردہ آٹھ دفعات پر مشتمل دستور العمل جو ’’اصول ہشتگانہ‘‘ کے نام سے مشہورہے، ایک بے نظیر دستور ہے۔ اُن آٹھ اصولوں بالخصوص اصل نمبر چھ اور اصل نمبر آٹھ پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بانی کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص وتوکل علی اللہ کا حصۂ وافر عطا فرمایا تھا، ملاحظہ ہو اصل نمبر چھ:  ’’اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں، جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ! بشرطِ توجہ الیٰ اللہ اسی طرح چلے گا، اوراگرکوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانۂ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ورجا جو سرمایۂ رجوع الیٰ اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے‘‘۔ اور اصل نمبر آٹھ بھی حرف بحرف نقل کی جاتی ہے: ’’تامقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امیدِ ناموری نہ ہو، بالجملہ حسنِ نیتِ اہلِ چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے‘‘۔ اخلاص کا یہ سلسلہ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں ہر زمانہ کے اندر جاری رہا ہے اور مستقبل میں بھی ان شاء اللہ! جاری رہے گا۔ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب v سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی۱۴۳۲ھ) v کا اپنے دورِ اہتمام میں مدرسہ سے کسی قسم کی رعایت وسہولت قبول نہ کرنا اور نہ ہی اپنے فائق فرزند یا خاندان کے دوسرے فرد کو مدرسہ میں لگانا اس سلسلۂ اخلاص کی بقاء کی واضح دلیل ہے۔ ۲:-محنت وسادگی علم کی ترقی کے لیے مستقل محنت کی ضرورت ہوتی ہے ، اور چونکہ محنت وسادگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لیے محنت وہی شخص کرسکتا ہے جس کی زندگی میں سادگی ہو، جو لوگ سہولت پسندی اور پرتعیش زندگی کے عادی ہوتے ہیں ان سے علمی میدان میں محنت نہیں ہوسکتی، انہیں تو ہمیشہ عمدہ سے عمدہ لباس، پرتکلف دعوتوں اور مہنگے ہوٹلوں کے کھانوں، غیرضروری اسفار، عمدہ اور جدید ترین سواریوں اور نئی نئی سہولتوں پر مشتمل رہائش گاہوں کی فکردامن گیر رہتی ہے، علمی کاموں کے لیے نہ ان کے پاس فرصت ہوتی ہے اور نہ ہی محنت ومشقت برداشت کرنے کاحوصلہ۔ اکابر و فرزندانِ دارالعلوم دیوبند کی گُھٹّی میں محنت وسادگی دونوں شامل ہیں۔ بانی ِ دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ سے لے کر آج تک علمائے دارالعلوم کی زندگیاں محنت وسادگی سے بھرپور، تکلفات سے دور اور خواہشات کی پیروی سے خالی نظر آتی ہیں، ان کی دنیوی تمنائیں قلیل اور اخروی مقاصد جلیل ہوا کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے تدریس وتعلیم، تصنیف وتالیف، دعوت وتبلیغ، بدعات وفتن کی سرکوبی اور ہر دینی میدان میں ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ ان کی بلندیوں کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، ان ہی کارناموں اور کامرانیوں نے دارالعلوم کی معنویت کو بلند و بالا کردیا ہے: اس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں اس سفر کے دوران میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ محنت وسادگی کا وہ ماحول جو ۲۳؍سال قبل میں نے دیکھاتھا، وہ اب بھی تقریباً اسی طرح برقرار ہے۔ علیٰ سبیل المثال میں نے مشاہدہ کیاکہ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند زید مجدہم کا ایک سادہ سا مکان ہے۔ بیٹھک میں معمولی پلاسٹک کا فرش بچھا ہوا ہے۔ ایک طرف حضرت الاستاذ کی زمینی نشست گاہ اور اس کے سامنے لکڑی کی معمولی سی لیکن چوڑی تپائی رکھی ہوئی ہے جس کے اوپر قلم وکاغذ اور زیرِ مطالعہ اہم کتابیں سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں، اور میرے خیال میں وہ تپائی رنگ وپالش کے تکلف سے بھی آزاد تھی، یہی وہ تپائی ہے جس پر حضرت شیخ الحدیث مدظلہم مطالعہ بھی فرماتے ہیں اور تصنیف وتالیف کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، اور اسی تپائی پر ہزاروں صفحات پر مشتمل کئی شروحات ودیگر کتابیں تالیف فرماچکے ہیں۔ اپنی نشست کے ساتھ ہی پیچھے اور دائیں طرف زیرمطالعہ کتابوں کی چند سادی سی الماریاں ہیں، اور ساتھ ساتھ اس کا مشاہدہ بھی ہوا کہ لباس، کھانے پینے، نشست وبرخاست بلکہ تمام عادتوں میں سادگی ہے اور ایک دقیق نظام الاوقات کے تحت درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری ہے۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم کے ساتھ ان کی بیٹھک میں بار بار ناشتہ اور کھاناکھانے کی نوبت پیش آئی، میں نے دیکھاکہ بیٹھک کارنگ وروغن کافی پراناہوچکاہے اورجگہ جگہ سے ختم ہوکرپلاسٹربھی نظرآنے لگا ہے۔ کھانے کے لیے چمڑے کاگول اورسادہ سادسترخوان زیر استعمال ہے۔ بیٹھک سے باہربرآمدے میں زائرین اور حضرت والا کے بیٹھنے کے لیے معمولی لکڑی کی بنی ہوئی چندبینچیں رکھی ہوئی ہیں۔ البتہ یہ بھی محسوس ہواکہ بیٹھک اوربرآمدے دونوں میں اس سادگی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سکون اوربلاکی کشش موجودہے جو ہر زائر کو زبانِ حال سے سادگی اختیارکرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ ایسی ہی سادگی ومحنت کا مشاہدہ حضرت الاستاذمولاناریاست علی صاحب بجنوری استاذِحدیث، حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب استاذ حدیث، حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی استاذ حدیث، حضرت مولانانعمت اللہ صاحب اعظمی استاذحدیث اوردیگراساتذۂ دارالعلوم کے یہاں بھی ہوا۔ ان تمام جبال العلم کی محنت وسادگی کودیکھ کر ہرذی شعورشخص کویہ خیال ضرورآتاہے کہ مادّیت کے اس دور میں دنیوی لذّات کواس طرح پس پشت ڈالنااس بات کی علامت ہے کہ ان حضرات نے دنیوی زندگی کی حقیقت کوصحیح معنوں میں سمجھاہے کہ وہ صرف’’متاع الغرور‘‘(دھوکے کا سودا) ہے، اور آخرت کے بارہ میں بھی یہ حضرات اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد’’وَإِنَّ الدَّارَالْأٰخِرَۃَ لَھِيَ الْحَیَوَانُ‘‘(اورہمیشہ کی زندگی کامقام توآخرت کاگھرہے)مستقل طور پر سامنے رکھے رہتے ہیں۔ ۳:-بااختیار شورائی نظام دارالعلوم دیوبند کا نظم ونسق شروع ہی سے ’’وَأَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘‘ کے اصول پرقائم ہے، اہل علم وتقویٰ پرمشتمل ایک بااختیار مجلس شوریٰ عزل ونصب اور دیگر تمام اہم امور کی نگرانی کرتی ہے اور اس کو مکمل اختیار وبالادستی حاصل ہے، ’’تاریخ دارالعلوم دیوبند‘‘ کی تصریح کے مطابق ابتدائی مجلس شوریٰ سات ارکان پر مشتمل تھی جن میں سرفہرست حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v اورحضرت حاجی عابدحسین صاحب v کے نامِ نامی ہیں، بلکہ حضرت الاستاذ مولاناریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم نے اپنی مایۂ نازکتاب’’شوریٰ کی شرعی حیثیت‘‘میں یہ ثابت کردیاہے کہ مجلس شوریٰ کی تشکیل قیامِ دارالعلوم سے بھی پہلے ہوچکی تھی۔ اس بااختیار مجلس شوریٰ کی برکت سے دارالعلوم اقرباء پروری، نامناسب یا غیرضروری تقرریوں اور دیگرفتن سے محفوظ ہے، اوردن بہ دن ترقی کی طرف گامزن ہے۔ جن اداروں میں شورائیت نہیں یابرائے نام ہے وہ ادارے ترقی کے بجائے تنزل کی طرف سفرکرتے ہیں اوران کی کارکردگی کمزور ہوکر آخرکار ختم ہوجاتی ہے۔ ۴:-وقفے وقفے سے نتیجہ خیز اختلافات کارونماہونا مسلمانوں کے درمیان ذاتی ودنیوی مقاصدکے تحت اختلافات کوقرآن وسنت نے واضح طور پر منع فرمادیا ہے اور ایسے اختلافات کو مسلمانوں کی ناکامی کا سبب قراردیا ہے، البتہ اصلاح کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ اگر کوئی آواز اٹھتی ہے اور اس سے بظاہر مسلمانوں کے درمیان ایک اختلاف کی صورت پیدا ہوجاتی ہے، یا فرعی مسائل کے اندر حق کی تلاش میں اربابِ اجتہاد کے درمیان کوئی اختلاف رونما ہوجاتا ہے تو ایسا اختلاف اپنے نتیجہ کے اعتبارسے باعثِ رحمت اورموجبِ ثواب بن جاتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے علمی سمندر میں وقفے وقفے سے نیک نیتی پر مبنی اختلافات کا ایک طوفان اٹھنے لگتاہے اور اس کی موجیں آپس میں ٹکراتی ہیں ، اس طوفان سے بظاہر کچھ نقصانات بھی واقع ہوجاتے ہیں، مگرانجام کار یہ نظر آنے لگتا ہے کہ ان جزوی نقصانات میں کوئی نفعِ کلی مضمرتھا، اور اس تلاطم کے نتیجہ میں دارالعلوم کی اصلاح وترقی، اس کی آواز کی وسعت وپھیلاؤ اور اس کے سرچشمۂ فیض وبرکت سے زیادہ سے زیادہ تشنگانِ علوم نبوت کو سیراب کرنا مقدر تھا۔ چنانچہ قیامِ دارالعلوم (۱۵؍محرم۱۲۸۳ھ) کے تقریباً اکسٹھ سال بعد ۱۳۴۴ھ کو اسی قسم کے اختلافات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس نے ایک طوفان کی شکل اختیار کی اور ۱۳۴۷ھ تک باقی رہا۔ اس کے نتیجہ میں علمائے دیوبند کی ایک جماعت نے حضرت مولانا علامہ انورشاہ کشمیریv (متوفی۱۳۵۲ھ) کی سربراہی میں دارالعلوم کے در و دیوار سے کوچ کرتے ہوئے اس کے پیغام کو لے کر گجرات کے دور افتادہ علاقہ کو-جوبدعت کدہ بنا ہوا تھا- علومِ نبوت سے سیراب کردیا، اوران کے ذریعہ ڈابھیل میں ایک عظیم الشان دینی مرکز نمودار ہوا جس کے فیوض وبرکات کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ دوسری طرف اس اختلاف کے نتیجہ میں دارالعلوم کی مسندِ حدیث کے لیے اللہ تعالیٰ نے جانشینِ شیخ الہند، سابق مدرس مسجدنبوی شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کا انتخاب فرمایا جن کے دریائے علم ومعرفت سے اکتیس سال تک بے شمار تشنگانِ علومِ دینیہ ومتلاشیانِ معرفتِ حق سیراب ہوتے رہے۔ اسی طرح مذکورہ اختلاف کے تقریباً ترپن سال بعدرواں پندرہویں صدی ہجری کی ابتداء میں ایک مرتبہ پھر دارالعلوم کے سمندرِعلم میں تلاطم پیدا ہوا جس سے پورے برصغیر کے دینی حلقوں میں ایک ہلچل وہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی، اور زمین کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے متبعینِ مسلک اہل حق اورمحبینِ دارالعلوم کو بڑی فکرلاحق ہوئی کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں اکابرین کی اس امانت اوردینِ اسلام کے اس اہم مرکز کو کہیں کوئی بڑا نقصان لاحق نہ ہوجائے، لیکن اللہ کے فضل وکرم سے دنیا نے دیکھا کہ دارالعلوم محفوظ رہا، بلکہ ایک نئے ولولے کے ساتھ مجلسِ شوریٰ کی زیرِقیادت اور ایک ولی صفت، مدبر و مخلص اور منیب الی اللہ شخصیت حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدّس اللہ سرہٗ العزیزکے زیر اہتمام مزید ترقی کی طرف گامزن ہوا، اور ساتھ ساتھ علمائے حق کا ایک نیا ادارہ بھی دیوبند کی سرزمین پر دارالعلوم (وقف) کے نام سے عالمِ وجودمیں آیا جس سے دینی مراکز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ۵:-صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر تقرریاں و ترقیاں دارالعلوم دیوبند کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں خصوصیات وخوبیوں سے نوازا ہے، ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ صرف صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر تقرریاں ہوتی ہیں اور اسی بنیاد پر ترقیاں ملتی ہیں۔ نسب، رشتہ داری اور علاقائیت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس بات کی ایک واضح نشانی یہ ہے کہ اس وقت منصبِ اہتمام پر فائز حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب کا تعلق ضلع ’’بنارس‘‘ سے ہے، ان کے نائب جناب مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی کا تعلق ’’مدراس‘‘ (چینائی) سے ہے، شیخ الحدیث وصدر المدرسین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کا تعلق ’’گجرات‘‘ سے ہے۔ انتظامی اور علمی اعلیٰ مناصب پر فائز ان تینوں حضرات میں سے کسی کا بھی دارالعلوم کے اکابرین جیسے حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری، حضرت مدنی، حضرت شیخ الادب، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی قدس اللہ اسرارہم وغیرہ کے خاندانوں سے کوئی نسبی تعلق نہیں، جس سے تقرریوں اور ترقیوں سے متعلق دارالعلوم کے مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سفرمیں دارالعلوم دیوبند کے نظام سے متعلق ایک قابل صدتحسین نیا معمول میرے علم میں آیا جس نے مجھے بے حد متأثر کردیا، اور وہ یہ کہ سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب v (متوفّٰی۱۴۳۲ھ) نے اقرباپروری کے سدباب کے لیے اپنے دورِاہتمام کے آخری سالوں میں یہ معمول بنایا تھا کہ دارالعلوم کے کسی استاذمحترم کے کسی فرزند ارجمند کو -جب تک کہ ان کے والد دارالعلوم میں تدریس سے وابستہ ہوں- دارالعلوم کا مدرس نہیں بنایا جائے گا۔ اس معمول سے متعلق احقر نے اطمینان حاصل کرنے کے لیے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی موجودہ مہتمم دارالعلوم دیوبند سے ان کے دونوں نائبین کی موجودگی میں دفترِ اہتمام کے اندر جب دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ معمول حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے زمانے سے جاری ہے اور چونکہ سب کو اس معمول کے بارے میں علم ہے اور اس کے مطابق تعامل برقرارہے، اس لیے اس کو چیلنج بھی نہیں کیا جاتا، ہاں! اتنی بات ضرور ہے کہ اس تعامل کو باضابطہ اور تحریری طور پر دستور کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ اس تعامل کا عملی مشاہدہ راقم نے اس طرح بھی کیاکہ موجودہ اساتذۂ دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادگان میں سے کسی کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس پر فائز نہیں دیکھا، حالانکہ ان میں سے کئی صاحبزادگان کو میں بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ان میں صلاحیت وصالحیت دونوں موجود اور دارالعلوم کے مایۂ نازفضلاء میں سے ان کو شمار کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جناب مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری صاحب استادحدیث ومفتی جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد جو جناب مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری استادحدیث دارالعلوم دیوبندکے صاحبزادے اور شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ کے نواسے ہیں، میں ان سے اس وقت سے واقف ہوں جب وہ دارالعلوم کے طالب علم تھے، احقر کا اس وقت مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوچکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ امتحان میں اکثر پوزیشن لیتے تھے اور اساتذۂ کرام ان کی صلاحیت وصالحیت کے قائل تھے۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد سے لے کر آج تک ایک لائق وفائق مفتی، کامیاب مدرس اور بہترین مصنف کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور صلاحیتوں میں خوب اضافہ بھی ہوا ہے اور دارالعلوم دیوبندمیں ایک کامیاب مدرس کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں، لیکن چونکہ ان کے والد محترم دارالعلوم کے مدرس ہیں، اس لیے ان کو وہاں پر تدریس کا موقع نہیں دیا جاسکتا، چنانچہ وہ ابتداء سے آج تک جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں مفتی ومدرس کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اسی طرح جناب مولاناحسین احمدپالن پوری صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند جوکہ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کے صاحبزادے ہیں، ایک کامیاب مدرس واستاد حدیث، باعمل وباصلاحیت عالم دین اور ’’تحفۃ الألمعي شرح سنن الترمذي‘‘اور’’تحفۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘کے مرتب ہیں، لیکن چونکہ ان کے والدماجددارالعلوم کے مدرس ہیں، اس لیے نہ ان کو اور نہ ہی حضرت الاستاذکے دوسرے صاحبزادوں میں سے کسی کو دارالعلوم میں تدریس کا موقع دیا گیا۔ ان کے علاوہ جناب مولانا سید امجد مدنی صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کے صاحبزادے اور شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ کے پوتے ہیں، موصوف بھی ایک متقی اور باکمال مدرس اورایک سنجیدہ وعلمی ذوق رکھنے والے عالم ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی v کی کتاب’’نخب الأفکارفی تنقیح مبانی الأخبار‘‘کی تحقیق میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زید مجدہم کے معاون بھی رہے ہیں، لیکن ان کو بھی اس لیے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا موقع نہیں مل سکا کہ ان کے والدماجد دارالعلوم کے مدرس ہیں۔ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبv نے سب سے پہلے اس معمول کے مطابق خود عمل کیا، چنانچہ اپنے صاحبزادے جناب مولانا انوار الرحمن صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند (جن کی شرافت، تقویٰ، سنجیدگی، معاملہ فہمی اور خوش اخلاقی سے ان کا ہر جاننے والا واقف ہے) کو انہوں نے اپنے تیس سالہ دورِ اہتمام میں نہ نائب مہتمم بنایا اور نہ ہی دارالعلوم کے کسی بھی شعبہ سے وابستہ کرنے کی کوشش کی، اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امیدہے کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ کا یہ معمول متعارف کرانا ان کی نجات ورفعِ درجات کا سبب بنے گا۔ دارالعلوم دیوبند کے اس تعامل سے اگر کسی کے ذہن میں یہ آتاہے کہ اس سے دارالعلوم کو بعض باصلاحیت اور اس کے مزاج وماحول سے واقف لوگوں کی صلاحیتوںسے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا تو میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ صرف چند متعین اشخاص سے متعلق اور وہ بھی ایک محدود وقت کے لیے دارالعلوم کو اگر استفادہ کا موقع نہ بھی ملے تو یہ اتنا بڑا نقصان نہیں جتنا نقصان اقرباپروری کے راستے کھول دینے کی صورت میں محتمل ہے۔ بہرصورت! دارالعلوم کی بے نظیر ترقی میں احقر کی نظر میں (غور کرنے کے بعد) بنیادی کردار مذکورہ پانچ اسباب نے ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دارالعلوم اور اس کی دینی خدمات کا سلسلہ تاروزِ قیامت جاری وساری رکھیں، آمین۔ دیگر مدارس کے ذمہ داران کو بھی دارالعلوم دیوبند کی پیروی کرنی چاہیے     دارالعلوم دیوبند کو پوری دنیا میں اور بالخصوص برصغیر میں پھیلے ہوئے دینی مدارس کے ذمہ داران، اساتذۂ کرام اور طلبہ اپنی مادرِ علمی تصور کرتے ہیں اور اس سے بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہیں، لہٰذا ان کو چاہیے کہ دارالعلوم سے ان کی محبت صرف زبان تک محدودنہ ہو، بلکہ اکابرینِ دارالعلوم کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے طریقۂ کار اور قائم کردہ اصولوں کی پیروی کو اپنا شعار بنالیں، اخلاص وتقویٰ، محنت وسادگی، بااختیار شورائی نظام قائم کرنے اور صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر تقرریوں اور ترقیوں کا اہتمام فرمالیں۔ سہولت پسندی، نام ونمود، غیرضروری مصروفیات اور بالخصوص اقربا پروری سے اجتناب فرمالیں۔ اس لیے کہ اس صورت میں دینی ادارے ترقی کے بجائے پیچھے کی طرف سفر کرنا شروع کرنے لگتے ہیں اور لوگوں کا اعتماد آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے، اور ذمہ داران کو یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مدارس کسی کی ذاتی ملکیت نہیں، بلکہ عام مسلمانوں کی امانت ہیں، جن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کردی ہے، اور قیامت کے دن اس امانت کے ہر ہر پہلو سے متعلق ذمہ داران حضرات کو جواب دینا ہوگا۔                                                                (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین