بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خوانِ بنوری ؒ سے مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی (پہلی قسط)

خوانِ بنوری ؒ سے مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی

(پہلی قسط)


حضرت الاستاذ مولانا محمد امین اورکزئی ؒپاکستان کے دوردراز سرحدی علاقہ اورکزئی ایجنسی کے باشندے تھے۔ اس علاقہ میں دارالعلوم دیوبند کے فضلاء کی ایک کثیر تعداد موجود تھی، خصوصاً حضرت مولانا احمد حسین  رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانابہاء الحق اورکزئی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا معزالحق رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا فخرالاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد کریم کاکاخیل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔ ان حضرات سے ہمارے یہاں علم وفن اور تقویٰ وطہارت کے چشمے جاری ہوئے۔ مولانا امین اورکزئی  رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی علوم انہی حضرات سے حاصل کیے، جب کہ دورہ حدیث ۱۹۶۷ء میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کیا۔ حضرت بنوریرحمۃ اللہ علیہ کی مردم شناس نگاہوں نے آپ کے جوہر ملاحظہ کیے تو مستقل اپنی تربیت میں لے لیا اور اپنی وفات تک اپنے زیرِ سایہ مختلف علمی و تحقیقی کاموں میں معاون کی حیثیت سے خدمت پر مامور رکھا۔ آپ نے حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق شرحِ ترمذی ’’معارف السنن‘‘ میں بحیثیت معاون کام کیا، اور حضرت کی ایما پر ’’شرح معانی الآثار للطحاويؒ‘‘ کی شرح ’’نثرالأزھار‘‘ لکھنی شروع کی، جو ’’کتاب السیر‘‘ تک مکمل کر لی تھی، اس کی دوجلدیں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں اور بقیہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے شعبہ مجلسِ دعوت وتحقیق سے عنقریب طبع ہوں گی۔ حضرت الاستاذ مولانا محمد امین اورکزئیv خداداد ذہانت، باکمال حافظہ اور مثالی ورع وتقویٰ کے حامل تھے، علوم حدیث وتفسیرسے گہری شناسائی تھی۔ آپ تریسٹھ سال کی عمر ۲۰۰۹ء کو ایک حملے میں جامِ شہادت نوش کرگئے۔ آپ نے اپنے بعض اساتذہ کے علوم ومعارف اہتمام سے محفوظ فرمائے، ان میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ اورجامعہ امینیہ دہلی کے ممتاز فاضل حضرت مولانا عبدالغفار کوہاٹیؒ سرفہرست ہیں۔ آپ نے حضرت بنوریؒ کے درسِ بخاری اورمولاناعبدالغفارؒ کے درسِ بیضاوی کو اہتمام سے قلم بند کیا۔ یہ سچ ہے کہ لکھے ہوئے افادات یا تقاریر سے کسی استاذکی درسی عبقریت کے ظہور کے لیے شاگردمیں ملکۂ ضبط کا درجۂ کمال چاہیے۔ بہت سے نامی گرامی لوگوں کی درسی تقاریرمیں وہ شان دکھائی نہیں دیتی جو اُن کے بارے زبان زد عام ہوتی ہے، اس کی بنیادی وجہ آخذین کا ان کی علمی سطح سے فروتر ہونا ہوتا ہے۔ حضرت الاستاذؒ چونکہ خودبھی ذہن رساکے مالک تھے، اس لیے آپ کا اخذ بھی حددرجہ کامل ہے اوراس سے حضرت بنوریؒ کی علمی شان بخوبی پتہ چلتی ہے۔ ذیل میںحضرت بنوری قدس سرہٗ سے سنے ہوئے جواہر پاروں سے چندمنتخب شذرات پیش خدمت ہیں، بندہ نے یہ افادات حضرت الاستاذ کی درسی کاپیوں اور ذاتی ڈائری سے نقل کیے ہیں۔ امید ہے اہلِ علم کے علمی ذوق کی تسکین کا سامان ثابت ہوں گے۔ فرمایا: 
٭:…’’ نبی‘‘ ۔۔۔ ’’نبأ‘‘سے مشتق ہے اور ’’نبأ‘‘کے معنی میں تین چیزیں شامل ہیں: ایک تو یہ کہ خبرہو اور وہ بھی غیب کی، پھر اس میں عظیم الشان فائدہ بھی ہو، لہٰذا’’ نبی‘‘ کا معنی وہ معصوم ذات جو غیب کی ایسی خبریں دے جو عظیم الشان فوائد کی حامل ہوں۔ دنیا کی کسی زبان میں نبی کے لفظ کا پورا ترجمہ نہیں ہوسکتا، جتنے بھی ترجمے ہیں وہ ناقص ہیں، فارسی کا پیغمبر ہو، یا انگریزی کا ریفارمر۔ 
٭:…بخاری ؒ جوآیاتِ قرآنیہ تراجم میں لائے ہیںان میں دو جہتیں ہیں: ایک جہت سے وہ باب میں مذکور دعویٰ پر آیت کو بمنزلہ دلیل گردانتے ہیںا ور دوسری جہت سے اس کو بمنزلہ متن بنا لیتے ہیں اور باب میں مذکور احادیث اس کے لیے بمنزلہ شرح کے لاتے ہیں۔ 
٭:…حضرت آدم وشیث اور ادریس علیہما السلام حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے گزر چکے ہیں، ایک حدیث میں آیاہے کہ سب سے پہلے پیغمبرسر زمین پر حضرت نوح علیہ السلام تھے، اس سے بعض حضرات کو غلط فہمی ہوئی اور حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت سے انکار کر بیٹھے۔ یہ عجیب ہے کہ ایک مظنون خبر کی بنا پر ایک مقطوع امر کا انکار کیاجائے۔ بے شک حضرت نوح علیہ السلام قوم کفار کی طرف سب سے پہلے مبعوث نبی ہیں، یہی حدیث کا مصداق ہے اور اس وجہ سے آیت کریمہ میں حضرت نوح علیہ السلام سے وحی کی ابتدا کاذکر فرمایا گیا ہے۔ 
٭:…سب سے پہلے تراجم پر الحافظ ابو عبداللہ محمد بن عمر بن رشید الفہری السبتی اور حافظ ناصر الدین ابن المنیر الاسکندراتی اور حافظ ابو عبداللہ محمد بن مقصودالسلجاسی نے کتابیں لکھیں جو غیرمطبوع ہیں۔ ہمارے سامنے دوکتابیں ہیں جوآخری دور میں لکھی گئی ہیں: ایک شاہ ولی اللہ ؒ نے جو کتاب کے ساتھ مطبوع ہے، اور تمام بھی، دوسری حضرت شیخ الہند ؒکی ناتمام کتاب ہے جو حقیقت میں تمام ہے، اگر یہ کتاب کامل ہوجاتی تو بخاری کے تراجم کا حق ادا ہوجاتا۔ 
٭:… ’’بدء‘‘ اور ’’بدو‘‘دونسخے ہیں۔ اَولیٰ اور ذوق کے مطابق ’’بدء‘‘ ہے، کیونکہ بخاریؒ نے اور بھی کئی جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ اور پھر بداء تِ کتاب کے ساتھ بھی لفظ ’’بدء‘‘ ہی مناسب ہے، ’’بدو‘‘ کانسخہ تجنیسِ خط کی بناپر کسی نے خواہ مخواہ بنالیا ہے۔ 
٭:…وحی کی ایک حقیقت شرعی ہے اور ایک حقیقت لغوی۔ اسی طرح دوسرے بھی بہت سے الفاظ ہیں، مثل صلوٰۃ وغیرہ … وحی کا لغوی معنی ہے: ’’الإشارۃ الخفیۃ بسرعۃ‘‘ کمافی: 
 

یرمون بالخطب الطوال وتارۃ
وحی الملاحظ خیفۃ الرقباء

اور کتاب کے معنی میں بھی مستعمل ہے:کما فی قول لبید في المعلقۃ الرابعۃ:
 

فمدافع الریان عری رسمہا
 خلقا کما ضمن الوحي سلامہا

ان الفاظ کے جو حقائق لغویہ ہیں، ان کی حقائق شرعیہ کے ساتھ گہری مناسبت ہے اور اکثر دونوں میں عام ا ور خاص یا مطلق ومقید کا تعلق ہوتا ہے۔ 
٭:…ابن تیمیہ ؒ نے ’’کتاب النبوات‘‘ میں لکھا ہے کہ جو پیغمبر کفار قوم کی طرف مبعوث ہوجائے وہ’’رسول‘‘ ہوتا ہے اور جو کفار کی طرف خصوصی طور پر مبعوث نہ ہو وہ ’’نبی‘‘ہوتا ہے۔ حضرت اسماعیل m کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قبیلہ بنی جرہم کی طر ف مبعوث تھے اور اسی قوم سے عرب مستعر بہ پیدا ہوئے۔ ابن تیمیہؒ کی یہ تعریف جا مع اور اچھی تعریف ہے۔ اس کے علاوہ جوبھی فروق بیان ہوتے ہیں، وہ صحیح نہیں، منقوض ہیں۔ 
٭:…متوسط طبقہ کے مصنفین میں مجھے دو مصنف پسندہیں: ایک ابن رجب حنبلیؒ اور دوسرا ابن قیم حنبلیؒ۔ اتفاق سے دونوں حنبلی ہیں۔ یہ دونوں جس موضوع پر لکھتے ہیںاس سے متعلقہ جملہ موادکو جمع کرلیتے ہیںاور بسط وشرح کے باوجود ان کا کلام حشو وزوائد سے پاک ہوتاہے۔ 
٭:…علمی ذوق پیداکرنے کے لیے شیخ عبدالقاہرؒ کی ’’دلائل الإعجاز‘‘ سے بڑھ کر کتاب نہیں۔ 
٭:…ابن رجب حنبلیؒ نے اربعین نوویؒ کی شرح لکھی ہے، انہوں نے اربعین پرا پنی طرف سے مزید دس احادیث کا اضافہ کیا ہے، یہ پچاس احادیث کی شرح ہے، اس کانام انہوں نے ’’جواہر الحکم‘‘ رکھا ہے۔ اس میں انہوں نے حدیث ’’إنما الأعمال الخ‘‘ کی شرح میں عجیب وغریب نکات لکھے ہیں۔ اس حدیث کی شرح دیکھنا چاہتے ہو، تو اس کا مطالعہ کرلو، ایسی شرح آپ کو کہیں نہیں ملی گی۔ 

٭:…حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات الخ‘‘ میں ایک واقعہ کی طرف تعریض موجود ہے جو سنن سعید بن منصور ؒ اور معجم الطبرانی میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے ایمان لاکر ایک عورت سے شادی کرنی چاہی، مگر وہ مدینہ چلی گئی، تو یہ شخص بھی مدینہ چلاگیا، تاکہ شادی ہوسکے، ’’أو إلی امرأۃ‘‘میں اس طرف اشارہ ہے۔ حدیث کا سو ق اس واقعہ پر نہیں ہوا، جس نے یہ کہا اُس نے فاش غلطی کی۔ اس عورت کا نام اُم قیس تھا، اس لیے وہ شخص مہاجر ’’اُم قیس‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور نام کا کسی کو پتہ نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ کسی صحابیؓ سے اگرکوئی نامناسب کام ہوگیا تو اس کا نام مبہم رکھاگیا۔ 

٭:…’’فی سلسلۃ الجرس‘‘کے متعلق شاہ ولی اللہ ؒ کی تعبیر سب سے پسندیدہ ہے۔ وہ فرماتے ہیںکہ: دراصل فیضانِ وحی کے وقت آپ a کا عالم شہادت سے غائب ہوکر عالم غیب کے ساتھ رابطہ پیداہوجاتا تھااور ایسے موقع پر آپ کے سمع کو معطل کردیاجاتا تو اس تعطل کے دوران آپa کے کان میں جو کیفیت ہوتی تھی، اسے ’’سلسلۃ الجرس‘‘ سے تعبیر فرمایاہے۔ فرمایاکہ: یہ بات معقول بھی ہے اور مانوس بھی۔ اولیاء اللہ کو اس کا تجربہ ہوتاہے اور میں اس کی تفصیل کرسکتا ہوں، مگر کرتا نہیں۔ 
٭:…انبیاء علیہم السلام کے قویٰ بدنیہ اور روحیہ عام انسانوں کے قویٰ سے بالاتر ہوتے ہیں، ان میں ساری صلاحیتیںفوق العادۃ رکھی جاتی ہیں۔ امام رازیؒ نے تفسیر کبیر میں غالباً سورۂ انبیاء کی تفسیر کرتے ہوئے اس کی تفصیلات لکھی ہیں۔ اس لیے ان میں ’’تلقی عن الغیب‘‘ کی قوت بطریق اتم موجود ہوتی ہے۔ لیکن باجود اس کے اللہ جل شانہ ان کو نبوت کا خلعت عطافرمانے سے پہلے مختلف قسم کے مجاہدات اور ریاضات سے گزارتے ہیں، تاکہ ان کی عالم غیب کے ساتھ وابستگی مضبوط سے مضبوط ترہوسکے، ان مجاہدات اورریاضتوں کے بعد اللہ تعالیٰ ان کونبوت کے مقام ومنصب پرفائز فرمادیتے ہیں۔ انہی مافوق العادۃ صلاحیتوں کی بنا پر انبیاء علیہم السلام کے علوم فطری ہوتے ہیں، ترتیبِ مقدمات وغیرہ سے حاصل نہیں ہوتے۔ 
٭:… متابعت سے کلام میں تقویت آتی ہے۔ متابعت فی الاسناد دو قسم پرہے: ایک تامہ جو ابتداء اسناد سے ہواور قاصرہ جو وسطِ اسنا دسے ہو۔ پھران میں سے ہرایک دودو قسم پر ہے:۱:- متابع مذکور ہو،۲:- غیر مذکور ہو، اس طرح متابع عنہ مذکور ہو یاغیر مذکور۔ 
متابعت میں چار چیزیں ہوتی ہیں: متابِع بالکسر، متابَع بالفتح، متابع عنہ، متابع علیہ، کما یقال تابعہٗ فلان عن فلان علی کذا تو پہلا فلاں متابع ہے اور ضمیر مفعول کا مرجع متابع ہے، اور دوسرا فلاں جو دونوں کا شیخ ہے، وہ متابع عنہ اور کذا سے جس بات کی طرف اشارہ ہے متابع علیہ ہے۔ 
٭:… وحی کے نزول کے وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تین کام تھے: سماع، تلفظ، تدبر۔ اور نزولِ وحی کے وقت جو شدت ہوتی تھی وہ اس پر مزید، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی مشقت اُٹھانی پڑتی تھی، اس لیے اللہ جل شانہ نے آپ کے ذمہ سے دو کام اُٹھاکر اپنے ذمہ لیے، یادکروانا اور اس کے مضمون کو سمجھانا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ صرف سننا ہی رہ گیا۔ 
٭:… یہ بات رکھنی چاہیے کہ جہاں اسناد میں ’’کنی‘‘ آتے ہیں، ان کے اسماء کو یاد کرنا ضروری ہے، اسماء کے لیے ’’کنی‘‘ کامعلوم کرنا اتناضروری نہیں اور نہ ہر کسی کے بس کی بات ہے۔ ’’کنی‘‘ مستقل فن ہے، اس پر محدثین بخاری ومسلم وترمذی وغیرہ نے کتابیں لکھیں جو غیر مطبوع ہیں، البتہ حافظ ابو بشر دولابی نے جو کتاب لکھی ہے وہ مطبوع ہے اور اچھی کتاب ہے۔ غالباً یہ کتاب پہلے ائمہ کی کتابوں سے بہتر ہوگی، کیونکہ یہ فقیہ ہیں، متاخر بھی ہیں اور طحاویؒ کے شیخ ہیں۔ فرمایا:اس فن میں حافظ ذہبی ؒ -جو رجال کے بہت بڑے امام ہیں- کو بھی امتحان دینا پڑا۔ حافظ ذہبیؒ کی حافظ ابن دقیق العیدؒ سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کون ہو؟ تو فرمایا کہ: ذہبی۔ فرمایا: شمس الدین ذہبی؟ قال :نعم۔ تو فرمایا: من أبو محمد الہلالي؟ تو ذہبی ؒ نے تبسم فرماتے ہوئے کہا کہ: سفیان ابن عیینہؒ۔ حافظ ابن دقیق العیدؒ نے فرمایاکہ : ’’أنت الذھبي‘‘۔
 ٭:…حضرت ابن عباس ؓ کی اکثر روایات مرسل ہیں۔ مسند صرف سترہ تک روایتیں ہیں، اس لیے کہ آپ حدیث السن تھے۔ 
٭:…قرآن کریم کی آیات کی ترتیب توقیفی ہے، حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور یہی جمہور کی رائے ہے۔ چند حضرات نے یہ رائے قائم کی ہے کہ قرآنی آیات میں ربط وتناسب ضروری نہیں، شاہ ولی اللہ ؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ تعجب ہے کہ حضرت شاہ صاحب ؒ نے یہ سطحی رائے کیسے اختیار کرلی۔ 
’’نظم الدر فی ربط الآیات والسور للبقاعي‘‘ اس موضوع پر بہترین کتاب ہے، اس جیسی کتاب بقول علامہ کشمیریؒ اس موضوع پر ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ یہ کتاب غیر مطبوع ہے اور ہندو پاک کے کتب خانوں میں موجود نہیں۔ مخطوط مصر واستنبول کے کتب خانوں میںموجود ہے۔ 
٭:…شوافع کے نزدیک عمومِ مشترک جائز ہے اور حنفیہ وغیرہ حضرات کے ہاں جائز نہیں۔ فرمایا: اورحنفیہ کایہ انکار میرا خیال ہے صرف احکام کے دائرہ میں ہے، احکام کے علاوہ دوسرے مقامات پر اگر عمومِ مشترک لیاجائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ 
٭:…نجوم کے دو کام ہیں: ایک تو اہتداء: ’’وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ‘‘ جہات کا معلوم کرنااور اوقاتِ مواسم کا معلوم کرنا، قدیما ًوحدیثاً بحری سفروں میں نجوم کے ذریعہ سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے، اسی طرح اکثر بری علاقوں میں ستاروں کے ذریعہ سمت کاتعین کیاجاتا ہے۔ اس علم کا نام ’’معرفۃ النجوم‘‘ رکھاجائے تو بہتر ہوگا۔ 
دوسراکام ان کی ’’تاثیر فی النحوسۃ والسعادۃ‘‘ ہے، اس کی نفی بہت مشکل ہے۔ ان کی تاثیر ہوتی ہے، اگرچہ شریعت نے ممانعت کی ہے، مگر ممانعت سے یہ لازم نہیں کہ ان کا فی الواقع کوئی اثر نہیں۔ ہمارے اکابر میں سے شاہ رفیع الدینؒ بھی اس کے قائل تھے، اس کی تفصیلات ’’إتحاف السادۃ المتقین شرح إحیاء علوم الدین‘‘میں ملاحظہ کیجئے۔ سید مرتضی زبیدیؒ نے اس کتاب میں اس موضوع پر بہترین مواد جمع کیا ہے۔ 
٭:… ایمان صرف معرفت قلبی سے عبارت نہیں، بلکہ ایمان اذعانِ قلبی، تصدیق اور عقدِ قلبی کا نام ہے۔ ور نہ صرف معرفت تویہود کو بھی حاصل تھی: ’’یَعْرِفُوْنَہُمْ کَمَا یَعْرِفُوْنَ أَبْنَائَ ہُمْ۔‘‘ 
٭:…ایمان کے متعلق سات مذاہب ہیں: ان میں سے دو اہلِ حق کے ہیں اور بقیہ پانچ اقوال اہلِ ہوا اور گمراہ فرقوں کے ہیں۔ پہلا قول جمہور محدثین ؒ کا ہے کہ ایمان عبارت ہے: عقدِقلبی اور اقرارِ لسانی اور عمل بالجوارح سے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایمان صرف عقدِ قلبی کا نام ہے اور بقیہ اعمال واقرار کمالِ ایمان کے لیے بمنزلہ شرط ہیں، شطرا ور جزء نہیں۔ یہ مذہب امام ابوحنیفہؒ اور متکلمین کا ہے۔ بظاہر ان دو اقوال میں تعارض نظرآتا ہے، مگر حقیقت میں کچھ تعارض نہیں،بلکہ اعتبار کافرق ہے۔ 
امام ابوحنیفہؒ اور محدثین کے درمیان اختلاف کا منشا یہ ہے کہ امام صاحبؒ کی طبیعت میں تنقیح اور تدقیق کا مادہ رچاہوا تھا، وہ ہر مسئلہ میںاپنے اسی منہج کے مطابق رائے قائم کرتے تھے۔ اس بنا پر آپ نے جب قرآن وسنت میں غور کیا توقرآن میں تقریبا ًتیس آیات ایسی ہیں جو اس بارے میں آپ کے اختیارکردہ مسلک پر دال ہیںاور بہت سی آیات میں ایمان کا محل قلب بتلایا گیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی ایمان اور اسلام کے درمیان فرق واضح کیاگیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام صاحبؒ کے دورمیں فتنۂ خروج واعتزال کا غلبہ تھا۔ آپ نے باربار ان کے ساتھ مناظرے کیے۔ بیس مرتبہ خوارج کے ساتھ مناظرہ کی غرض سے بصرہ کا سفر کیا۔ چونکہ امام صاحبؒ اور متکلمین کے سامنے خوارج اور معتزلہ کے مسلک کی تردید بھی تھی، اس لیے انہوں نے وہ تعبیر اختیار کی اور محدثین کے زمانہ میں مرجیہ کا فرقہ عروج پر تھا، چونکہ محدثین کے پیشِ نظر ان کی تردید تھی، اس لیے عمل کو ایمان کا جز قراردیا۔ [کیونکہ معتزلہ کے ہاں ایمان قول، عقداورعمل کے مجموعہ کانام ہے اورمرجیہ کے ہاں ایمان محض قول وعقدکانام ہے، عمل کی کوئی ضرورت نہیں۔ ]دونوں فریق حنفیہ اور محدثین اس پر متفق ہیں کہ تارکِ عمل کافر نہیں، بلکہ مؤمن ہے اور جہاں امام احمدؒ وغیرہ نے بعض اعمال کے تارک کو کافر کہا ہے تو اس سے کفرِ صور ی مراد ہے، یا اس سے ’’کفر دون کفر‘‘ مراد ہے، ’’کفر مخرج عن الملۃ‘‘ مراد نہیں۔ 
٭:…امام صاحبؒ کو سب سے پہلے نافع بن الارزق خارجی نے ’’مرجی‘‘ کہا۔ 
٭:…امام صاحبؒ نے عثمان بتی کے ساتھ جو علمی مراسلت اور مکاتبت کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اہلِ حق کی طرف سے فرقہ مبتدعہ کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ یہاں ایک لطیفہ ہے: امام صاحب ؒ کا عثمان بتی کے ساتھ تعلق تھا اور مباحثے بھی ہوئے۔ عثمان بتی آپ سے کچھ عرصہ پہلے انتقال کرگئے تھے۔ ایک موقع پر امام صاحب ؒ نے فرمایا کہ اگر بتی زندہ ہوتے تو وہ میری رائے کی اتباع کرتے، اس روایت میں ہمارے کرم فرما خطیب بغدادی نے بتی کے لفظ سے ’’نبی‘‘بناکر العیاذ باللّٰہ کہ امامؒ کے الحاد کا سامان کردیا، فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
٭:…صلوٰۃ، زکوٰۃ، حج، صوم وغیرہ الفاظ مختلف معانی کے لیے مستعمل تھے، شریعت نے ان کو ایک خاص معنی کے لیے استعمال کیا جس کی تشریح آپ a نے اپنے عمل سے فرمائی۔ ان مخصوص اعمال اور ہیئات کے لیے ذخیرۂ لغت میں ان سے زیادہ مناسب اورموزوں الفاظ موجود نہیں تھے، لہٰذا اب شریعت میں ان الفاظ کا استعمال انہی مخصوص حقائق کے لیے ہوگا۔ اور شرعی حقائق کے بجائے ان سے لغوی مفاہیم مراد لینا تحریف اور الحاد فی الدین ہوگا۔ 
٭:…خصائلِ ایمان کے بارے میں تین کتابیں مشہور ہیں: ایک ابن حبانؒ کی جو ’’شعوب الإیمان‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ دوسری ابوبکر بیہقی ؒکی ’’شعب الإیمان‘‘ ہے اور تیسری ابوعبداللہ حلیمیؒ کی کتاب ہے۔ عینیؒ نے ابن حبان کی کتاب سے اپنی شرح ’’عمدۃ القاری‘‘ میں ’’شعب الإیمان‘‘ نقل کیے ہیں۔ 
٭:…عبداللہ بن محمد الجعفی المسندی یہ پہلا شخص ہے جس نے ماوراء النہر خراسان کے علاقہ میں مسند لکھی ہے، اسی وجہ سے اس کو المسندی کہتے ہیں۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ آپ کو مسانید سے زیادہ دلچسپی تھی اور مرسلات وغیرہ کو زیادہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ 
٭:… ’’بضع‘‘ کا لفظ ’’مائۃ‘‘کے ساتھ بالاتفاق نہیں آتا۔ ’’عشرۃ‘‘ کے ساتھ بالاتفاق آتا ہے اور مابین عقود کے ساتھ آنے میں اختلا ف ہے۔ 

٭:… ’’شرح المواہب اللدنیۃ للزرقانی‘‘ اور’’نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض للخفاجی‘‘ سیرت ومحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بہترین کتابیں ہیں، ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 

٭:… احادیث آیاتِ کریمہ سے مقتبس ہیں صراحۃً یا کنایۃً۔ معمولی غورسے معلوم ہوجاتاہے کہ حدیث ’’حب الانصار‘‘ آیت ’’وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ‘‘سے مقتبس ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں عام مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں تضمین ہے، تقدیریوں ہے: ’’والذین تبوؤا الدارَ و أٰثر الإیمان‘‘مگر یہاں تضمین کی ضرورت نہیں، بلکہ آیت کا معنی یہ ہے کہ انصار نے اپنا ظاہری مسکن تو مدینہ کو بنا لیااور معنوی مسکن ایمان کوبنالیا۔ 
٭:… بسا اوقات بخاری اپنی طبعی مشکل پسندی کی بنا پر کچھ کہہ جاتاہے اور شراح وغیرہ مشکل میں پڑجاتے ہیں، حالانکہ اگر وہ ایک لفظ اور بڑھاتے تو مقام حل ہوجاتا، مگر ایسا کرتے نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے تھے کہ: متکلم عموماًمخاطب کی خاطر اپنے شان سے نیچے نہیں اُتر تا، تاکہ اگر مخاطب جاہل ہوتو اس کے فہم کے لیے اس کی سطح کی بات کر دے۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ: یہ صرف قرآن کا اعجاز ہے کہ اس سے ہرشخص بقدرِ حیثیت فائدہ اُٹھاتا ہے، عاصی شخص بھی اس کو پڑھ کر اپنی راہنمائی کا سامان پاتا ہے اور عالم جب پڑھتا ہے تو ’’لا تنقضی عجائبہٗ‘‘ کی شان رکھتا ہے۔ 
٭:… ہر شخص کو اپنے مسلک کی تقویت اور اثبات کے لیے استدلال کاحق حاصل ہے، مگریہ نہایت غلط اور خلافِ ذوق بلکہ ظلم کی بات ہے کہ آدمی حدیث میں ایسی قیودکا اضافہ کرے جس سے حدیث حنفی یا شافعی بن جائے، کیونکہ یہ طریقہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقامِ رفیع اور رتبۂ شامخہ وبازغہ سے نیچے اُتار کر لانا ہے، والعیاذ باللّٰہ۔ حدیث کو حدیثِ رسول رہنے دو، بعد میں دیکھو کہ حدیث آپ کے مسلک کی تائید میںہے یاخلاف ہے، اگر مؤیدہے تو فبہا، ورنہ جواب دیجئے۔ یہ اُصولی اور اہم بات ہے اس کو ملحوظ نظر رکھناچاہیے۔ اس بنا پرقسطلانی نے ’’أوبحق الإسلام‘‘ کے ساتھ ’’کترک الصلوٰۃ متعمداً‘‘کی قید لگاکر حدیث کو شافعی بنانے کی جو کوشش کی ہے، وہ ناپسندیدہ ہے۔ یہ ایک ظنی اور اختلافی مسئلہ ہے، اس کو حدیث کا مصداق بنانا کسی طرح بھی صحیح نہیں اور’’ من ترک الصلوٰۃ‘‘ (حدیث) میں تارکِ صلوٰۃ کو اگرچہ کافر کہاگیا ہے، مگر اس کی کیا دلیل ہے کہ اس کافر کاحکم بھی قتل ہے۔ 
 ٭:…’’باب علامۃ المنافق‘‘ کی مناسبت پر کسی نے خاص توجہ نہیں دی، میرا خیال ہے کہ بخاریؒ نے اپنی جامع صحیح میں قرآنی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔ قرآن حکیم نے سب سے پہلے مؤمنین پھر کفار پھر منافقین کا ذکر فرمایا ہے، ابتدا میں بخاریؒ نے بھی اسی نہج پر اسی ترتیب کے ساتھ طوائف ثلثہ کا ذکر کیا ہے، فجزاہ اللّٰہ خیرا وللّٰہ در الشیخ ما ألطف ذوقہٗ وأدق نظرہٗ۔ 
٭:…نفر، نفذ، نفص، نفت، نفس، نفی، نفیر، نفاق، نفقۃ وغیرہ اس قسم کے دوسرے کلمات جن کے ابتدا میں’ ’ن، ف‘‘ ہوتے ہیں، ان کے معنی میں ذہاب کامفہوم پایا جاتا ہے۔ 
٭:… ’’إعراب‘‘ جمع ہے، اس کا مفرد من لفظہٖ نہیں اور کبھی اس کے برعکس مفر دہوتا ہے اور اس کا جمع نہیں آتا اور کبھی جمع ہوتا ہے، تثنیہ اس کا نہیں آتا اور کبھی علیٰ عکس ذٰلک۔ اس موضوع پر ابن خالویہ نے مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا نام ’ ’کتاب لیس‘‘ ہے۔ 
 ٭:… اللہ تعالیٰ کے علم میں ماضی، حال و استقبال کا کوئی اعتبار نہیں۔ وہ تغیرات وانقلابات سے وراء الوریٰ ہے۔ کبھی کبھی اللہ جل شانہ کے علم کا عکس آپ a کے قلب اطہر پر ہوجاتا، جس کی بنا پر مستقبل کے واقعات آپ کے سامنے پیش آتے رہے، آج کے جدید انکشافات اور علوم وفنون کی ترقی سے بہت سے حقائق شرعیہ جو ناقابل فہم تھے، اب سہل الفہم ہوگئے اور سمجھنے میں دقت نہیں رہی۔
٭:…ایک حدیث جب اسنادِ نازل واعلیٰ کے ساتھ منقول ہو تو متن عالی کے تابع ہوگا، جب تک محدث تصریح نہ کرے کہ متن بسندِ نازل مروی ہے۔ 
٭:…حضرت شاہ عبدالقادرؒ جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں، انہوں نے دہلی کی اکبری مسجد میں ۱۴سال تک اعتکاف کرکے قرآن کا ترجمہ لکھا اور یہ آپ کا اس اُمت پر عظیم احسان ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے تھے کہ: ’’یہ ترجمہ الہامی ہے۔‘‘ اور فرماتے تھے کہ: (بالفرض) اگر قرآن اُردو زبان میں نازل ہوتا توحضرت شاہ صاحبؒ کے ترجمہ کے ٹکڑے ٹکڑے اس میں ہوتے۔ حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ فرمایا کرتے تھے کہ: بسا اوقات حضرت شاہ صاحبؒ کے ترجمہ سے وہ مشکلات حل ہوجاتی ہیں جو عربی کی بیس تفسیروں سے حل نہیں ہوتیں۔ حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے بعد لوگوںنے اُردو میںترجمہ قرآن شروع کیا، بعدمیں جتنے بھی آئے اُن کے خوشہ چیں ہیں۔ امام شافعیؒ نے فرمایا: ’’الناس کلہم عیال في الفقہ علی أبي حنیفۃ‘‘ حضرت شیخ نے فرمایا کہ: میں کہتا ہوں کہ: ’’الناس کلہم فی ترجمۃ القرآن [بالأردیۃ] عیال علی الشاہ عبدالقادر رحمہ اللّٰہ تعالٰی رحمۃ واسعۃ۔
٭:…’’عہد‘‘ کا لفظ جنگ وغیرہ کے بعد جو معاہد ہ اورصلح نامہ ہوتا ہے، اس کے لیے استعمال ہوتا ہے اور وعدہ عام ہے، شخصی عہد اور میعاد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 
٭:…ابتدامیں مذاہبِ متبوعہ فقہیہ چھ تھے۔ چارتو مشہور ہیں اور بقیہ دو مذہب سفیان ثوریؒ اورا مام اوزاعیؒ کے تھے جو صدی ڈیڑھ صدی کے بعد ختم ہوگئے۔ سفیانؒ کا مذہب حنفی مذہب میں مدغم ہوگیااور اوزاعیؒ کا مذہب مالکی مذہب میں ادغام ہوگیا۔ 
٭:…’’بیت المقدس‘‘ میںاگر’’مُقَدَّس‘‘ مفعول کاصیغہ ہوتو پھر ’’إضافۃ الموصوف إلی الصفۃ‘‘ کی تاویل کرنی پڑے گی اور اگر ’’مَقْدِس‘‘ مصدر میمی ہے بمعنی قدس، توتاویل کی ضرورت نہیں، یہی اولیٰ ہے۔ آج بھی بیت المقدس کی طرف نسبت میں مقدسی کہاجاتا ہے۔ 
٭:…خبرواحد جب محفوف بالقرائن ہوتو مفید قطع ہوتی ہے، کمافی کتب المصطلح۔
٭:…اتمام واکمال میں فرق یہ ہے کہ ’’اِتمام‘‘ بحسب الاجزاء ہوتا ہے اور ’’اِکمال‘‘ بحسب الاوصاف۔ اس فرق کو ’’شرح عقود الجمان‘‘ میں بیان کیاگیا ہے۔ 
٭:… ’’صیام‘‘ جمع جوآتا ہے وہ صائم کی ہے، نہ کہ صوم کی، اور ’’صیام‘‘ بمعنی مصدری صوم کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ 
٭:…ابوہریرہؓ سے راوی ’’محمد‘ ‘جب بھی غیر منسوب ہوگا تو مراد ابن سیرینؒ ہوں گے۔ 
٭:… ’’قیراط‘‘ کالفظ اضداد جیسا ہے، اس کا اطلاق ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پربھی ہوتا ہے، یعنی تولے کا چوبیسواں حصہ اور اس کا اطلاق بڑی سے بڑی چیز پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ جنازہ پڑھنے اور دفنانے میں شریک ہونے والے کے لیے حدیث میں اجرکے بیان میں واردہے۔ 
٭:… انبیاء علیہم السلام کا سب سے عظیم کمال یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ فرمایا، اس پر عمل بھی کیا۔ میرے نزدیک عالم اسباب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا بہت بڑا ذریعہ یہ بنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو جو پیغام دیا اس پر عمل کرکے دکھایا۔ 
٭:…نقشبندیہ کے کلماتِ عشرہ کی بے نظیر شرح حضرت شاہ عبدالرحیم صاحبؒ نے اپنی کتاب ’’انفاسِ رحیمیہ‘‘ میں کی ہے، وہاں ملاحظہ کریں۔ حضرت شاہ عبدالرحیمؒ ہمارے جدِامجد کے ایک واسطہ سے مرید ہیں۔ 
٭:… حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث ان چار بنیادی احادیث میں سے ہے جس پر سارے دین کامدار ہے۔ یہ نہایت اہم حدیث ہے، ہر کسی میں اس کی شرح کی اہلیت نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: باوجود اتنی اہمیت کے افسوس ہے کہ کسی نے اس کی کماحقہ تشریح نہیں کی۔ اس کی شرح کا حق امام محمدؒ اور امام شافعیؒ جیسے بلند پایہ ائمہ کوحاصل تھا۔ شوکانیؒ نے جو کچھ لکھا ہے وہ مثل تنکے کے ہے اور حضر ت شاہ صاحبؒ فرماتے تھے کہ: اس پر کچھ عمدہ بحث حافظ ابن دقیق العیدؒ نے ’’شرح إحکام الأحکام‘‘ میں کی ہے اور نفیس فوائد لکھے ہیں۔ فرمایا کہ: ’’معالم السنن للخطابی‘‘ میں بھی اس حوالے سے عمدہ بحث ہے، لیکن مطبوعات کے ذخیرہ میں سب سے منقح، مبسوط اور عمدہ بحث شیخ طاش کبری زادہ نے اپنی کتاب ’’مفتاح السعادۃ‘‘ میں کی ہے، من شاء فلیراجعہ۔
٭:…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے علوم نبوت کے مختلف چشمے جاری ہیں، اور آپa کے مشکوٰۃِ نبوت سے متنوع علوم کا فیضان جاری ہوا، آپ a کے صحابہؓ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامذہ تھے، ان میں سے ہرایک نے اپنے ذوق کے موافق احادیث جمع کی ہیں۔ صحابہؓ میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق او رصفات کے مظہراتم تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم وکمالات کا عکس جمیل آپ ؓ پر پورا پڑگیا تھا، اس لیے آپؓ علوم نبوت کے جامع ترین شخص تھے، آپؓ کے بعد دوسرے صحابہs نے اپنے ذوق کے موافق احادیث جمع کیں۔ حضرت حذیفہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث فتن کو جمع کیا۔ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ نے مال کی مذمت اور فقر کی ترغیب والی احادیث بیان کی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے امثال وعبد والی احادیث زیادہ بیان فرمائی ہیں اور حضرت ابن مسعودq نے ان احادیث کو زیادہ جمع کیا جن پر احکام کا مدار ہے اور تفقہ پر مشتمل ہیں اور جس کا کوئی اختصاصی ذوق نہیں تھا، اس نے ہر قسم کی احادیث جمع کی ہیں، جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔(جاری ہے)

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین