بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خوانِ بنوری ؒ سے مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی (تیسری قسط)


خوانِ بنوری ؒ سے 
مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی

 

 (تیسری قسط)

 

٭:… حضرت صدیق رضی اللہ عنہ  اعلم الصحابہؓ تھے، بلکہ افضل بھی تھے باجماع الصحابہؓ ،اور آپؓ کی افضلیت بالکل بدیہی تھی، دلیل کی محتاج نہ تھی۔ اس لیے مسلمان تو کیاکفارِ مکہ جاہلیت کے زمانے میں بھی حضورa کے بعدآپ ؓ کا مرتبہ قراردیتے تھے۔ ابوسفیانq نے اُحد کے موقع پرکہا: ’’ہل فیکم محمد؟ قال:  لاتجیبوہ ، قال: ہل فیکم ابن أبي قحافۃ؟ قال: لا تجیبوہ ، قال: ہل فیکم ابن الخطاب؟! ‘‘
٭:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے رُخِ انور کی تشبیہ صفائی میں ورقِ مصحف سے دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک چہرے پر دھبے وغیرہ نہ تھے، یا رُخِ انورمیں ایسی جاذبیت تھی، جیساکہ اوراقِ مصحف کلا مِ الٰہی کی وجہ سے جاذبِ نظر ہوتے ہیں اور آپ a کی سیرت کو بھی قرآن سے تعبیرکیا گیا: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ لہٰذاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سیرت اور صورت دونو ں کے لحاظ سے قرآن کے مظہر تھے۔ 
٭:…بخاری شریف کو تین سال میں پڑھایاجائے، وقت بھی دوگھنٹے ہو، روزانہ ایک ورق تک مقدارِ خواندگی ہو اور ’’فتح الباری، عمدۃ القاری، إرشاد الساری، خیرا لجاری، توشیح‘‘ اور ’’تنقیح‘‘سارا سامان پیشِ نظرہو، تب کچھ کام ہو گا۔
٭:… شیح طوسیؒ کا قلمی نسخۂ بخاری میرے پاس ہے، بہت عمدہ ہے اور تین سوسال کالکھا ہوا ہے اور بہت اچھا لکھا گیا ہے۔ حضرت شیخ  ؒنے فرمایا کہ میںنے ’’معارف السنن‘‘ میں کوشش کی ہے کہ تلخیص اور تنقیح کے ساتھ تعبیر اور ترتیب بھی ایسی رکھی ہے کہ مدرس کے لیے آسان ہو تو تصنیف میں تدریس کا کام بھی کیا۔ 
٭:… حضرت مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ  کو اللہ تعالیٰ نے تقریر میں ایسا عجیب ملکہ عطافرمایا تھا کہ مختلف مواد کوتقریر میں ایسا جوڑ دیتے تھے کہ ہم حیران رہ جاتے، مگر تصنیف میں یہ حسنِ ترتیب نظر نہیں آتی اور ہمارا معاملہ بالعکس ہے۔ فرمایا کہ: مولانا عثمانیؒ کی تقریر کا یہ حال تھا کہ وہ اگر صرف اتنی بات کہنا چاہتے کہ ’’میں دیوبند سے ڈابھیل پہنچا‘‘ تو اس کے لیے کم از کم آدھ گھنٹہ وقت چاہیے ہوتا اور ایسے دلکش انداز میں یہی بات آدھے گھنٹہ میں بیان کرتے کہ سامع پر بالکل شاق نہ گزرے۔ [یہ تقریرحضرتؒ نے اس بات پر فرمائی کہ نمازمیں اتباعِ امام کے بارے میں ائمہ کی کیاآرا ہیں؟ تو فرمایا: ’’عند الثلٰثۃ علی المعاقبۃ‘‘اور ’’عند الحنفیۃ علی سبیل المقارنۃ۔ ‘‘]
٭:… ’’التحقیق فی أحادیث الخلاف لابن الجوزيؒ‘‘اور ’’التنقیح‘‘ [تلخیص التحقیق فی أحادیث التعلیق] لابن عبدالہادی الحنبلیؒ وکلاہما لم یطبعا۔ دونوں نفیس کتابیں ہیں۔ ابن الجوزیؒ بڑے محقق عالم ہیں اور منصف مزاج ہیں، اپنی حنبلیت میں متعصب نہیں۔ فرمایا کہ: موضوعات پر ان کی کتاب سے معلو م ہوتا ہے کہ بڑے متشدد ہیں اور عجیب یہ ہے کہ اپنی ایک کتاب ’’المدہش‘‘ میں’جو وعظ اور نصیحت کے موضوع پر ہے‘ ایسی واہیات اور موضوعات ذکر کی ہیں جن پر خود انہوں نے موضوع کا حکم لگایا ہے۔ اس پر شیخ عثمانی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ: ’’ابن الجوزیؒ پر یہ مواخذہ ہوا کہ وہ احادیث کے بارے میں متشدد ہیںاور مواعظ وغیرہ میں سخت متساہل ہیں۔ ‘‘
٭:…قمر کے نور کے مستفاد ہونے پرتو سب کا اتفاق ہے، اسی طرح اگر حرارتِ شمس کو بھی مستفا دمن الغیر مان لیں، تو اس میں کوئی استبعاد نہیں۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ: پہاڑ اور چوٹیوں کے سرے چونکہ شفاف فضا میں ہوتے ہیں، اس لیے ان پر گرمی کم ہوتی ہے اور کثیف زمین پر جب شعاعیں پڑتی ہیں، تو درو دیوار اور سطح زمین گرم ہوجاتی ہے اور حرارت پھر اوپر کی طرف لوٹ جاتی ہے اور ہوا بھی گرم ہوجاتی ہے، یہ وجہ ہے کہ پہاڑیوں اور اونچے مقامات پر گرمی کم اور نچلے مقامات پر زیادہ ہوتی ہے۔ 
ایک دوسرے صاحب کے جواب میںفرمایا کہ: جہنم کو اگر زیرِ زمین تسلیم کیاجائے یا محیط علی العالم تو اس میں کوئی استحالہ نہیں کہ صرف شمس اس کی حرارت کو جذب کررہا ہے اور دوسری اشیاء کو اس کی گرمی نہ پہنچتی ہو۔ ریڈیو دور سے آواز کھینچ لیتا ہے اور ہمارے کان اس کو قریب سے بھی نہیں سنتے۔ اسی طرح مقناطیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے، اور دوسری چیزیں اس کو نہیں کھینچتیں۔ خود میرا مشاہدہ ہے، ایک ہندو حکیم نے ایک دواتیل کی بنائی تھی کہ ہتھیلی پر ڈال کر مقامِ درد کو جذب کے ذریعے پہنچتی تھی اور ہتھیلی کو نہیں جلاتی تھی اور جب اس میں پتھر، لکڑی وغیرہ کوئی چیز ڈالتے تو وہ فوراً جل جاتی، اسی طرح آتشی شیشہ جسم کو نہیں جلاتا اور کپڑے کو جلا دیتاہے، پھر خصوصاً سیاہ کپڑے کو جلدی آگ لگادیتا ہے بہ نسبت سفید کے، الغرض! یہ ممکن ہے کہ یہ صرف سورج کاخاصہ ہے کہ وہ جہنم کی حرارت کو جذب کرلیتا ہے اور عالم کی دوسری اشیاء جہنم کی حرارت کو محسوس نہیں کرتے۔ 
٭:…اِسفارِ فجر اور تاخیرِ عصر پر حنفیہ کے لیے سب سے عمدہ دلیل قرآن کریم کی آیت کریمہ ہے: ’’فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا‘‘اور صحیح حدیث میں طلوعِ صبح کی تفسیر نمازِ فجر اورقبل غروب کی نمازِ عصر کے ساتھ وارد ہے اور اب اگر فجر کی نماز تغلیس اور عصر کی مثل ثانی میں پڑھ لی جائے تو قرآن کریم کی تعبیر اس کے موافق نہیں ہوگی۔ 
٭:… حضرت مولانا عثمانیؒ کے واسطہ سے ہمارے شیخ المشائخ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیv کا ایک جملہ سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ: قرآن کریم کی کسی آیتِ کریمہ میں اگراشارہ موجود ہو تو وہ مجھے صحیح حدیث سے زیادہ پسند ہے اور صحاحِ ستہ کی احادیث میں اشارہ غیر صحاح کی احادیثِ صریحہ سے زیادہ پسند ہے، یہ آپ کا ذوق تھا اور بہت لطیف اور نفیس بات فرمائی ہے۔ 
٭:… بعض روایات میںمختلف تعبیر ات آتی رہتی ہیںاورایک مضمون مختلف طریقوں سے اداکیا جاتا ہے، اس موضوع پر تنبیہ فرماتے ہوئے حضرت شیخ  ؒ نے کہا کہ: بخاری میں ادب کا کافی ذخیرہ ہے، اگر آدمی غور کرے۔ فرمایا کہ: حضرت شیخ مولانا محمد انورشاہ کشمیریv فرمایا کرتے تھے کہ: کسی شیعی نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس ادب کی تین کتابیں ہیں: قرآن کریم، صحیح بخاری، ہدایہ۔ فرماتے تھے کہ: شیعی فاضل نے ٹھیک کہا ہے۔ 
٭:…حضرت شیخ مولانا محمد انورشاہ کشمیریv فرمایا کرتے تھے کہ: مجھ سے ایک عالم نے پوچھا کہ: آپ فتح القدیر جیسی کتاب لکھ سکتے ہیں؟ تو میں نے کہا: ہاں، پھر پوچھا کہ ہدایہ جیسی؟تو میں نے کہا: چھ سطر بھی نہیں۔ 
٭:… ’’ولیمہ‘‘ خوشی کے موقع پر طعام کوکہتے ہیں۔ اور’’وضیمہ‘‘ مصیبت وغمی کے موقع پر بنائے گئے طعام کو کہتے ہیں۔ ’’عجالہ‘‘ وہ طعام جو جلدی سے تیار کیا گیا ہواور’’نزل‘‘ باہر سے آئے ہوئے مہمان کے لیے بنائے گئے طعام کو کہتے ہیں، اس طرح طعام کے کل پندرہ نام ہیں۔ تفصیلات فقہ اللغۃ للثعالبي میں دیکھئے۔ 
٭:… حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آثار کے تتبُّع سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کبھی ایسی چیز پر سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اطلاق فرماتے ہیں، جس کے لیے سنت میں کوئی اصل ہو، اگر چہ اس کے ساتھ آپؓ کی اپنی رائے کا امتزاج بھی ہو، اس لیے صحابیؓ جب کہے کہ یہ سنتِ رسول ہے تو اس میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ اصل سنت کیا ہے اور صحابیؓ کی اپنی رائے کا اس میں کتنا دخل ہے؟ قلتُ: وہٰذا من دأب شیخنا العلام یسمح بمثل ہٰذہ الدرر والغرر ویجود بمثل ہٰذہ الفوائد والفرائد کأنہا الخذف والحصٰی غیر مبال بہا وکأنہ یتکلم بما یعرفہ الناس کافۃ۔
٭:… حدیث میں تقدیم عِشاء علی العَشاء کا جو حکم ہے تو وہ صحابہؓ جیسے فاقہ کشوں کے لیے ہے اور ہم جو روزانہ چار مرتبہ کھاتے ہیں، ہمارے لیے اس کی گنجائش نہیں۔ 
٭:… حدیث ابن عباسؓ بخاری[ص :۱۰۶] ’’قرء النبي صلی اللہ علیہ وسلم  فیما أمر وسکت فیما أمر وماکان ربک نسیا‘‘ حجیتِ حدیث کے بارے میں بہت عمدہ اور قوی دلیل ہے۔ 
٭:… انبیاء علیہم السلام کے اجساد تو بنصِ صحیح قبو ر میں محفوظ ہوتے ہیں، یہ اُن کے لیے قانونِ کلی ہے، انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے صلحاء کے اجساد بھی عموماً محفوظ ہوتے ہیں، چنانچہ بارہا مشاہدہ ہوا ہے اور یہ بطور اکرام واعزاز کے ہوتا ہے۔ اس بارے میں تاریخی وقائع ’’لاتعد ولاتحصی‘‘ ہیں، ولایمکن أن تعد۔ وفاء الوفاء للسہمودی وغیرہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا پاؤں ایک سوسال کے بعد ایک موقع پر محفوظ دیکھاگیا ہے اور جنت البقیع میں موتی کے تدفین کے مواقع پر عموماً یہ مشاہدہ ہوتا ہے اور سنا ہے کہ حضرت مولانابدرعالم  رحمۃ اللہ علیہ  کی ٹانگ بھی چھ مہینے کے بعد سالم پائی گئی۔
٭:…عرب کو ’’اُمیّین‘‘کہنے کی وجہ بعض نے یہ لکھی ہے کہ یہ اُم القریٰ کی طرف منسوب ہے ، مگر صحیح تو جیہ وہی ہے جو کہ حدیث میں وارد ہے کہ ’’نحن أمۃ أمیۃ لانکتب ولانحسب‘‘یعنی عرب عام طور پر حساب وکتاب سے نابلد تھے، بخلاف یہود ونصاریٰ وغیرہ اقوام کے کہ وہ ان چیزوں میں ماہر تھے۔ 
٭:… ’’فطرۃ‘‘ سے مراد انسان کی وہ فطری اور خلقی صلاحیت اور استعداد ہے جس کی بناپر وہ حق کو قبول کرسکے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’انسان یہودی اور نصرانی ہونے کے باجود بھی مکلف ہوتا ہے اور تکلیف اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں قبولِ اسلام کی استعداد موجود ہے۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے استعداد کے اعتبار سے تین مراتب ہیں: ایک تو یہ کہ ولادت کے بعدوہ اس صحیح توحید اور اسلام کے عقیدہ پر پید اہوتا ہے، جس کی تلقین اس کو عالمِ ذر میں کی گئی تھی اور اس حالت میں اس میں قبولِ حق کی استعدادِ قریبہ موجود ہوتی ہے، پھر آگے ماحول کے اعتبار سے اور غلط تربیت کی وجہ سے بعض اوقات غلط راستہ اختیار کرلیتا ہے اور اس وقت بھی اس میں قبولِ حق کی استعداد موجود ہوتی ہے، مگر بعید اور کمزور۔ اور تیسرا مرتبہ ختم علی القلب اور طبع علی القلب کا ہے کہ انسان اپنی ضد اور تعنُّت کی وجہ سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنی استعداد اور صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے [اس مرتبہ میں بھی استعداد بالکلیہ مسلوب نہیں ہوتی، کیونکہ تکلیف اس وقت بھی بحال ہوتی ہے، مگر ضعف اور شدتِ بُعد کی وجہ سے کالعدم قراردی جاتی ہے۔ ]
٭:… وضعِ جریدہ کے متعلق حدیث وارد ہے اور اس پربخاریؒ نے جو باب باندھا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بخاریؒ اس فعل کو عام سنت بتلانا چاہتے ہیں، مگر آگے فسطاط کے ہٹانے کے اثر کولاکر شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فعل بے فائدہ ہے۔ اس لیے شراح کو بخاری کی مراد سمجھنے میں دقت پیش آئی اور کوئی واضح مقصد اس کا متعین نہیں ہوا۔ [شاید بخاری جریدہ اور غیر جریدہ میں فرق کی طرف اشارہ کررہے ہیںکہ وضعِ جریدہ تو مسنون اور اس کے علاوہ غیر مفید ہے۔] بہرحال اصلی بات یہ ہے کہ وضعِ جریدہ عام سنت نہیں، یہ آپ a کی خصوصیت تھی، اس لیے کہ جس مقصد کے لیے آپ a نے یہ جریدہ رکھاتھا، اس کا حاصل ہونا اُمت کے لیے ناممکن الحصول ہے، کیونکہ جریدہ رکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو یقینی علم ہوکہ صاحبِ قبرمعذب ہے اور پھر خود بھی وہ اس مقام کا آدمی ہوکہ اس کے دست کی برکت سے تخفیف فی العذاب متوقع ہو اور ظاہر بات ہے کہ اگر یہ عام سنت ہوتی تو سارے صحابہؓ اس پر عمل کرتے، سوائے بریدہؓ کے تمام صحابہؓ کا تعامل اس پر دلیل ہے کہ یہ عام سنتِ تشریعی نہیں تھی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات بابرکات کے ساتھ خاص تھی۔ 
٭:… قاتلِ عمد اورقاتلِ نفس کے متعلق خلودفی النار کی وعید تغلیظاً وارد ہے، ورنہ یہ دونوں کبائر میں سے ہیں جس سے آدمی کافر نہیں ہوتااور نص شاہد ہے کہ شرک کے علاہ تمام گناہ قابلِ عفو ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اعمال صالحہ ہوں یاسیئہ، ان کے متعلق احادیث میں جو سزا وجزا او روعد ووعید کا ذکر ہے وہ اس خاص عمل کا اصل مزاج اور خاصیت ہے، لیکن یہ عمل جب دوسرے اعمال کے ساتھ مل جاتا ہے تو اپنی خاصیت پر باقی نہیں رہتا، بلکہ اس کے مزاج اور اثر میں تبدیلی آجاتی ہے، جیساکہ کتبِ طب میں مفردات کے خواص مذکورہیں، لیکن جب ان کو آپس میں ملاکر مرکب تیار کیا جائے، تو پھر اس کا اثر بالکل علیحدہ ہوجاتا ہے، یہ عمدہ اور سہل تقریر ہے اس قسم کے مواقع کے حل کرنے کے لیے۔ 
٭:… مرنے کے بعد بعثت تک برزخ میںجو عبوری اوردرمیانی دورہے، اس کے لیے ’’عذاب القبر‘‘کا عنوان ہے، مرنے کے بعد انسان جس حالت میں ہو، جہاں بھی ہو، ذرۂ خاک ہو، قطرۂ خون یا رمادہو، بر میں ہو یا بحر میں ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے ملک اور علم اور قدرت سے باہر نہیں، اس لیے اس کو راحت یاعذاب دینا آسان ہے، عذابِ قبر کے مسئلہ پر اہل السنۃ اور اہل الاعتزال کا اجماع ہے سوائے بشر مر یسی اور ذوارۃ بن عمر وکے کہ صرف یہ دونوں اس کے منکر ہیں۔ قرآنی آیات تقریباً اس بارے میں قطعی الدلالت ہیںاوراحادیث متواتر ہیں۔ عذابِ قبر کا منکر کافر ہے یا نہیں؟اس میں اختلاف ہے۔ حضرت شیخ v فرماتے ہیں کہ: میرے نزدیک اگر اصل عذاب سے مطلقاً انکار کرے تو کفر میں شک نہیں اور تفصیل وکیفیت میں اختلاف ہو تو کفر نہیں ہوگا۔ باقی معصیت اور طاعت جسم و روح دونوں کے اشتراک سے ہوتے ہیں، اس لیے عذاب اور راحت بھی دونوں کو ہوگااور دونوں کے درمیان موت کے بعد بھی رابطہ قائم ہوتا ہے، موت سے انفصال توہوجاتا ہے، مگر انقطاع کلیۃً نہیں ہوتا۔ علماء نے روح کے جسم کے ساتھ تعلق کی پانچ اقسام لکھی ہیں:ایک: بحالتِ جنین جو سب سے کمزور تعلق ہے، دوسری: ولادت کے بعد، پھر یہ دوقسم کا ہے: ایک بحالتِ یقظہ، دوسرا بحالتِ نوم۔ چوتھی قسم: برزخ میں، اور پانچویں بعثت کے بعد حشر میں، اور یہ سب سے اقویٰ ہے، ابن القیمv نے ’’کتاب الروح‘‘ اور ہمارے ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’شرح فقہ اکبر‘‘ میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔                        (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین