بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حلال وحرام کے معاملات میں غیر مسلم کی گواہی کی شرعی حیثیت (دوسری اور آخری قسط)

حلال وحرام کے معاملات میں غیر مسلم کی گواہی کی شرعی حیثیت

                             (دوسری اور آخری قسط)

۵:…’’اَہلیت‘‘ کی اقسام ماہرینِ اُصولِ فقہ نے اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے، صاحب ِحسامی فرماتے ہیں: ’’الأہلیۃ نوعان: أہلیۃ الوجوب و أہلیۃ الأداء ، أما أہلیۃ الوجوب فبناء علی قیام الذمۃ فإن الآ دمی یولد ولہٗ ذمۃ صالحۃ للوجوب لہٗ وعلیہ إجماع الفقہاء بناء علی العہد الماضی الخ۔‘‘ یعنی ’’اَہلیت‘‘ کی دو قسمیں ہیں: ۱:…اہلیت ِوجوب            ۲:…اہلیت ِاداء  اہلیت ِوجوب کسے کہتے ہیں؟انسان پیدا ہونے کے بعد اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کے حقوق وذمہ داریوں (مالہ وماعلیہ)کا تعین کیا جاسکے ، اسی کو اہلیت ِوجوب کامل کہتے ہیں ۔ غیر مسلم کے لیے بحیثیت ِانسان ایمان لانا واجب ہے، تاکہ ایمان والوں جیسے حقوق حاصل کرسکے، یعنی حقوق حاصل کرنے کا انحصار ایمان لانے پر ہے۔ اہلیت ِاداء کسے کہتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلیت ِوجوب کے ساتھ ساتھ اُسے بجالانے کی صلاحیت رکھتا ہو، یعنی ارادہ اور اختیار رکھتا ہو۔ صاحب ِحسامی اسی عبارت میں ایک اور اُصول بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: محلِ وجوب کے معدوم ہونے سے حکمِ وجوب معدوم ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے غیر مسلم پر شریعت اور طاعات میں سے کوئی چیز واجب نہیں ہے، کیونکہ وہ آخرت کے ثواب کا اہل نہیں ہے اور اس پر ایمان لازم ہوگا ؛کیونکہ وہ ادائے ایمان اور ثبوتِ حکمِ ایمان کا اہل ہے: ’’إن الوجوب غیر مقصود بنفسہٖ فجاز أن یبطل لعدم حکمہٖ وغرضہٖ کما ینعدم لعدم محلہٖ، ولہٰذا لم یجب علی الکافر شیء من الشرائع التی ہی الطاعات لما لم یکن أہلاً لثواب الآخرۃ ولزمہ الإیمان لما کان أہلا لأدائہٖ ووجوب حکمہٖ۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعت کے احکامات کے وجوب کا مدار درجِ ذیل بنیادی چیزوں پر ہے: ۱:…انسان ہونا(جانور مکلف نہیں)  ۲:…عاقل ہونا (مجنون مکلف نہیں) ۳:…بالغ ہونا (نابالغ مکلف نہیں) ۴:… آزاد ہونا، یعنی صاحب ِاختیار ہونا، غلام بعض چیزوں میں غیر مکلف ہے ۔ معلوم ہوا کہ جب انسان ایمان ہی نہیں لایا تو ایمان لانے کے بعد کے احکامات اس کی طرف متوجہ ہی نہ ہوئے، لہٰذا وہ اہل ہی نہ رہا، اب اگر وہ احکامات کا اہل بننا چاہتا ہے تو اُسے پہلے ایمان لانا ہوگا۔ اوپر کی گئی بحث سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انسانیت اس بات کی مکلف ہے کہ وہ: ۱:…اللہ کو ایک جانے  ۲:…آپ a پر ایمان لائے اور ۳:… آپa پر نازل کی گئی شریعت پر عمل پیرا ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ پوری انسانیت سے’’ اے لوگو!‘‘ کے لفظ سے خطاب کیا ۔ اس کے بعد بعض انسانوں نے اس صدا پر لبیک کہا اور بعض نے پروا ہی نہیں کی، لہٰذا انسانیت دو بنیادی اقسام میں تقسیم ہو گئی: پہلی قسم اللہ کی بندگی میں داخل ہونے والے ، جنہیں مسلمان، اہل ایمان وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری قسم اللہ کی بندگی میں داخل نہ ہونے والے ، جنہیں غیرمسلم، کافر، مشرک وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہلی قسم ایمان لانے والوں کی ہے ، جن کی جانب اللہ کے احکامات متوجہ ہوئے کہ انہوں نے عبادت کیسے کرنی ہے؟ معاملات کیسے کرنے ہیں، تاکہ وہ زندگی کے مقصد کو سمجھ سکیں اور دنیا وآخرت کی اُن نعمتوں سے فائدہ اُٹھاسکیں جن کا اللہ اور اُس کے رسول a نے وعدہ فرمایا ہے اور اُن نقصانات سے بچ سکیں، جس سے بچنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ دوسری قسم ایمان نہ لانے والوں کی ہے، جن کی طرف احکامات متوجہ نہیں ہوتے، کیونکہ احکامات پر عمل کامقصد اور مکمل فائدہ تب ہی ہوسکتا ہے جب اللہ اوررسول(a) پر ایمان لایا جائے۔ اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے سادہ سی مثال یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ہر ملک اپنے شہریوں کو بہتر سے بہتر سہولیات اور حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے ، بلکہ آج کی دنیا میں تو تقریباً ہر ملک سب کو دعوت بھی دیتا ہے کہ وہ اس کے شہری بن سکتے ہیں ،مگر کسی بھی ملک کے قوانین کا اطلاق ہم پر اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کی سرزمین میں داخل ہوجائیں اور تمام حقوق ہمیں وہ تب دیتے ہیں جب ان کی شرائط کو پورا کریں۔ جب تک ہم ان کی شرائط پر پورے نہ اُتریں، اس وقت تک ہم ان سے اپنے ملک میں بیٹھ کرتقاضا بھی نہیں کرسکتے کہ ہمیں بھی وہ حقوق دیئے جائیں جو آپ نے اپنے شہریوں کو دیئے ہوئے ہیں ، بلکہ موجودہ دور میں تو ایک اور بھی تقسیم ہوگئی ہے کہ وقتی طور پر وہاں جانے والا اگر سیاحتی ویزہ لیتا ہے تو اس کے الگ حقوق ہیں اور تجارتی ویزے والے کے الگ اور مستقل وہاں قیام کرنے والے کے الگ اور کسی کو بھی اس بات پر اعتراض نہیں ہوتا کہ سیاحتی ویزے والے کو وہ حقوق کیوں نہیں جو وہاں کے شہری کو ہیں، لہٰذا وہاں کی سہولیات سے مستفید ہونے کے لیے ہمیں ایک تو وہاں جانا ہوگا ، دوسرے ان کی شرائط پر عمل کرنا ہوگا، تب ہم اُن کے شہری بن پائیں گے اوروہ حقوق حاصل ہوجائیں گے جو اُن کے شہریوں کو ہیں۔ جب انسان اپنی چھوٹی سی سلطنت کے لیے ایسے قوانین بنانے کا حق رکھتا ہے اور سب ان کو تسلیم کرتے ہیں تو جو ذات اس جہاں کی اکیلے خالق ومالک ہے، وہ تو سب سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ جو اس کی عبادت گزاری میں آئے‘ اُسے الگ سے حقوق دے ،بہ نسبت اس انسان کے جو سرے سے اس کا انکار ہی کردے۔ غلط فہمی کی بنیادی وجہ یہ غلط فہمی پیدا ہونے کی بنیادی وجہ قرآن کی تفسیراور شرعی قوانین سے ناواقفیت اور اپنی ناقص فہم وعقل کے مطابق بلا دلیل قرآن کی تفسیر کرنا ہے جو شرعاً ناجائز ہے،ایسے ہی بلا دلیل قرآن کی تفسیر کرنے والوں کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ a نے فرمایا : ’’مَنْ قَالَ فِی الْقُرْأٰنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ ۔‘‘(مسند أحمد مخرجا، ج:۴،ص:۲۵۰) ’’جو شخص قرآن کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔‘‘ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر دلیل و شرعی علم کے قرآن کی تفسیر بیان کرنا کتنا خطرناک عمل ہے جو آخرت کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیاوی نقصانات کا بھی سبب ایسے بن سکتا ہے کہ اس قسم کے تبصروں کے نتیجے میں غیر مسلم سرٹیفکیشن باڈیز سمجھتی ہیں کہ جہاں ہم اور سروسز دے رہے ہیں وہاں حلال کی سروس بھی کیوں نہ شروع کی جائے، حالانکہ یہ خالص اسلامی احکامات کا معاملہ ہے، اس میں غیر مسلم از روئے شریعت خدمات سرانجام دینے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا ۔ اس لیے پہلے سے ہی ان کی رہنمائی صحیح طور پر کی جانی چاہیے ۔ ۶:…کیا کسی غیر مسلم کا حلال وحرام کے شعبہ میں شرعاً کوئی جائز کردار ہو سکتاہے ؟ اس سوال کا جواب ہے کہ: جی ہاں! بلکہ وہ زیادہ کا حصہ دار بن سکتا ہے۔ آئیے! سمجھتے ہیں وہ کس طرح؟ بنیادی اصول پہلے تو یہ جان لیں کہ حلال کھانا اور حرام سے بچنا مسلمان صارف پر اللہ کی طرف سے فرض ہے، لہٰذا وہ حلال غذا کا استعمال عبادت سمجھ کر کرتا ہے اور حلال غذا کے حصول کے بنیادی چار حصے ہوتے ہیں: ۱:… اس کا تیار کرنا ( Manufacturing) ۲:… اسے صارف تک پہنچانا (Logistic) ۳:… صارف (Consumer) ۴:… شھادۃُ الحلال (Certificate Halal) اصولی بات یہ ہے کہ پہلے تین حقوق تب قابل عمل ہوپائیں گے جب چوتھا حق استعمال ہوگا، یعنی تحریری شہادت (حلال کا سرٹیفکیٹ)، اس بات کی شہادت کہ اس پروڈکٹ کے اجزائے ترکیبی حلال ہیں، اس کی تیاری کے مراحل میں حرام شامل نہیں ہے، اس کی ترسیل حرام سے بچاتے ہوئے کی گئی ہے، لہٰذا یہ پروڈکٹ حلال ہے تو غیر مسلم کو صرف اتنا کرنا ہے کہ مسلمان سرٹیفکیشن باڈی سے ان تمام مراحل کی تصدیق کروانی ہے، بس! باقی حلال کا میدان اس کے لیے کھلا ہوا ہے، اسی لیے: ۱:… غیر مسلم حلال مینوفیکچرنگ کرسکتا ہے۔ ۲:… مسلمان سے حلال سرٹیفکیشن کرانے کے بعد غیر مسلم حلال اشیاء کی سپلائی بھی کرسکتا ہے۔ ۳:… غیر مسلم حلال کا صارف بھی بن سکتا ہے۔  غیر مسلم صرف حلال کی شہادت نہیں دے سکتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ%۷۵فیصد حلال میں غیر مسلم حصہ دار بن سکتے ہیں، صرف %۲۵فیصد میں نااہل ہیں، لہٰذا اُنہیں حلال مارکیٹ میں حصہ لینے کے لیے صرف سرٹیفکیشن مسلمان سے لینی ہوگی جو اصلاً ’’شرعی شہادت‘‘ ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان سٹینڈرڈ PS:4992:2010 بھی حلال سرٹیفکیشن باڈی کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگاتا ہے، لکھتا ہے کہ: 7.1 General : The Halal Certification Body (HCB) should be a Muslim entity and shall have profound belief in the necessity of proper supply of Halal product/service and take all relevant steps to ensure Islamic responsibility have been observed in all activities. HCB shall have the responsibility for conformity with all Islamic requirements. Ref: ACCREDITATION CONDITIONS FOR HALAL CERTIFICATION BODY PART11 Doc G-25/01 Part II Issue Date: 30/01/12  Rev No: 00  Page 3 یعنی حلال کا تصدیقی ادارہ مسلمان کی ملکیت ہو‘ جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتا ہو، تاکہ ان اُصولوں کے تحت خدمات سرانجام دے سکے۔ یہاں خاص بات لفظ’’  Entity ‘‘ میں پوشیدہ ہے جو خود مختاری کا تقاضا کرتی ہے، یعنی مسلمانوں کا خودمختار ادارہ ہو ، جیسا کہ کیمبرج ڈکشنری میں اس کی  تعریف لکھی ہوئی ہے: something that exists apart from other things, having its own independent existence: اسی کی وضاحت  PS:4992-2016 میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے: 6.1.1 : The Certification Body shall be owned, managed and operated by the Muslims. میری رائے میں لفظ’’Control‘‘کا بھی اضافہ ہوتا تو اور بھی فائدہ مند رہتا ،کیونکہ اصل شئے اختیارات ہوتے ہیں، وہ جس کے ہاتھ میں ہوں‘اصل وہی شمار ہوتا ہے۔  یہ لفظ ’’ Entity‘‘ ان تمام غیر مسلم تصدیقی اداروں کو نااہل بنادیتا ہے جو: ۱:… غیر مسلم کی ملکیت ہو اور غیر مسلم سٹاف ہو اور حلال کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔ ۲:… غیر مسلم کے مملوکہ ادارہ کی شاخ ہو یا اس کی فرنچائز ہو اور حلال کے شعبے میں مسلمان ملازمین ہوں۔ پہلی قسم تو فوری سمجھ آنے والی ہے، مگر قسم دوم میں وضاحت مطلوب ہے: غیر مسلم کمپنی اگر کسی دوسرے ملک میں اپنا دفتر کھولنا چاہتی ہے تو اُسے وہاں کے قوانین کے مطابق مختلف فیسوں کی مد میںاچھا خاصہ سرمایہ لگانا پڑتا ہے ، اس سے بچنے کے لیے دوسرا قانونی طریقہ یہ ہے کہ یہ کمپنی وہاں کے مقامی افراد اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرتی ہے، پھر وہ مقامی لوگ اپنے ملک میں ان کے نام پر ایک کمپنی رجسٹرڈ کرتے ہیں اور یہ بیرونی کمپنی اُنہیں اپنی شرائط کے ساتھ اپنا نام دے کر اپنی فرنچائز کا اعلان کردیتی ہے۔ فرنچائز کی تعریف کیمبرج ڈکشنری میں یوں مذکور ہے کہ: A right to sell a company's products in a particular area using the company's name اس طریقے میں خرچہ بھی بہت کم ہوتا ہے ، صرف چند ہزار خرچ ہوتے ہیں اور مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے اور وہ افراد کا گروپ جسے انہوں نے اپنی پہچان دی ہے، ان کا تابع دار بھی رہتا ہے۔ جب تک وہ کمپنی(یعنی فرنچائز) اُن کی شرائط پر پورا اُترتی ہے، یہ نام ان کے ساتھ رہتا ہے اور جیسے ہی یہ کمپنی (یعنی فرنچائز) اُن کی شرائط پوری کرنا چھوڑدے یا کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے جس سے اصل کمپنی کے نام پر حرف آتا ہو تو فوری وہ اپنا نام اور پہچان واپس لے لیتے ہیں اور اس لوکل کمپنی کی حیثیت صفر ہوجاتی ہے۔ یعنی لوکل افراد کا گروپ ہمیشہ تابع رہتا ہے اور متبوع غیرملکی کمپنی رہتی ہے اور شریعت کی نظر میں اختیار ، اہلیت ہمیشہ متبوع کے پاس ہوتے ہیں، تابع کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک اور مغالطہ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ لوگ عام فوڈ کے معیارات جیسے:’’ISO  ‘‘ یا’’ BRC ‘‘ اور حلال کے معیارات کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ بظاہر عقل یہی کہتی ہے کہ تمام دنیا کے معیارات ایک جیسے ہوتے ہیں، یعنی ان کا ایک نام ہوتا ہے، خاص مقصد ہوتا ہے، اور اس میں شرائط تحریر ہوتی ہیں جو کمپنی کو نافذ کرنا ہوتی ہیں اور آڈیٹر کسی بھی معیار کی ٹریننگ لے کر اس کا آڈٹ کرسکتا ہے، لیکن حقیقت اس کے  برخلاف ہے، وہ اس طرح کہ : قوانین،معیارات دوطرح کے ہوتے ہیں: ۱:… انسان اپنے تجربات کی روشنی میں ایسے قوانین، معیارات مرتب کرتا ہے جن پر اگر عمل کیا جائے تو دنیاوی معاملات سہولت کے ساتھ حل ہوجاتے ہیں، یعنی ان معیارات کی غرض صرف دنیا ہوتی ہے، جیسے:  ISO، Codex وغیرہ۔ ۲:… اللہ تعالیٰ انسانوں کی دنیا وآخرت کی بھلائی چاہتے ہوئے قوانین، معیارات اپنے سچے   پیغمبروں کے ذریعے بذریعہ وحی اپنے ماننے والوں کو سکھاتے ہیں، یعنی معیارات کی غرض اللہ کی اطاعت، انسان کی دنیا کی کامیابی اور مرنے کے بعد والی زندگی کی کامیابی ہوتی ہے، جیسے: قرآن وسنت اور حلال سٹینڈرڈز۔ اگر اتنی بات سمجھ آگئی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حلال سٹینڈرڈ زاپنے وسیع اغراض کی وجہ سے بقیہ معیارات سے بہت مختلف اور اونچا درجہ رکھتے ہیں اور اُسے سیکھنے سمجھنے کے لیے بنیادی شرط مسلمان ہونا ہے، تاکہ آڈیٹر اللہ کی اطاعت سے سمجھنے کی صلاحیت رکھے، آخرت کا تصور اُسے غلط کرنے اور غلط نہ کرنے دینے سے باز رکھے۔ اسی وجہ سے حلال انڈسٹری کے لیڈر ملائیشیانے ایک مستقل معیار (سٹینڈرڈ) بنایا ہے، جس کا  کا کوڈ ہے:  MS 2300:2009 VALUE-BASED MANAGEMENT SYSTEMS REQUIREMENTS FROM AN ISLAMIC PERSPECTIVE پوری بات کا خلاصہ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس آیت کو کسی بھی طرح غیر مسلموں کے حق میں دلیل نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ یہ ان کی بات کے اُلٹ دلیل ہے اور کسی بھی مفسر نے اس دعویٰ کے حق میں بات نہیں کی، بلکہ مخالفت ہی نظر آئی، بلکہ مندرجہ ذیل نکات سامنے آئے: ۱:…بغیر تحقیق قرآن وسنت بیان کرنے سے انسان خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سبب بنتا ہے۔ ۲:…بغیر تحقیق قرآن وسنت بیان کرنا ناجائز اور باعث گناہ ہے۔ ۳:…حلال وحرام کے نظام کے نفاذ کی اہلیت صرف مسلمان میں پائی جاتی ہے۔ ۴:…حلال وحرام کا فیصلہ صرف مسلمان کرسکتا ہے۔ ۵:…کفر غیر مسلموں کو حلال وحرام کے ذمہ داریوں میں نا اہل قرار دلواتا ہے۔ قفہاء ِ امت کی رائے آخر میں مختصرا ً فقہاء ِامت کی غیر مسلموں کے حلال وحرام کے شعبے میں نااہل ہونے سے متعلق  وجوہات اور اقوال ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سب سے پہلے تو اکلِ حلال وحرام کے حکم کی شرعی حیثیت معلوم کرنا ہوگی ،کیونکہ ساری بحث اسی نقطہ پر محمول ہے۔ حلال وحرام کا تعلق دین کے کس شعبے سے ہے حلال وحرام کا تعلق ’’دیانات‘‘ کے باب سے ہے، جیسا کہ مختلف فقہ کی مشہور کتب میں مذکور ہے: ’’فَإِنَّ مِنَ الدِّیَانَاتِ الْحِلَّ وَالْحُرْمَۃَ۔‘‘ (الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار)،کتاب الحظر والاباحۃ) ’’وَمِنَ الدِّیَانَاتِ الْحِلُّ وَالْحُرْمَۃُ۔‘‘     (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، فصل فی الاکل والشرب) ’’أَیْ مِنَ الدِّیَانَاتِ (الْحِلُّ وَالْحُرْمَۃُ )۔‘‘     (العنایۃ شرح الہدایۃ ،فصل فی الأکل واشرب) فقہاء امت فرماتے ہیں کہ: حلال و حرام کا تعلق اسلام کے سب سے نازک ترین شعبے ’’دیانات‘‘ سے ہے۔ دیانات کسے کہتے ہیں؟ ’’دیانات‘‘ اللہ اور اس کے بندے کے مابین خالص مذہبی بنیاد پرقائم ہونے والے حقوق کو کہتے ہیں، جسے حقوق اللہ بھی کہا جاتا ہے:’’(الدیانات)ہی التی بین العبد والرب۔‘‘(الدر المختار شرح تنویر الأبصار وجامع البحار ،کتاب الحظر والاباحۃ) حقوق کیا ہوتے ہیں؟ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلامی احکامات ہر عاقل بالغ مرد ،عورت کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جو اُنہیں ان حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں جو بحیثیت مسلمان اُنہیں حاصل ہیں یا ان پر عمل کرنا ضروری ہے، جن کی بنیادی تقسیم تین طرح کے حقوق سے کی جاتی ہے: ۱:…خالص اللہ کے حقوق، ۲:… خالص بندوں کے حقوق، ۳:… دونوں کا مجموعہ۔  ہمارا موضوع حلال وحرام سے متعلق ہے اور حلال وحرام ’’دیانات‘‘ کے ابواب سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا ہم صرف اسی موضوع پر گفتگو کریں گے۔ خالص اللہ کے حقوق (حقوق اللہ)کسے کہتے ہیں؟ ۱:…وہ احکامات جن کا تعلق خالص بندے اور رب کے درمیان ہو۔ ۲:…جن کے ترک کرنے میں بندے کا اختیار نہ ہو۔ ۳:…جن پر عمل کرنے سے اُسے ثواب ملے اور ترک کرنے پر گناہ لکھا جائے۔ ۴:…اخروی کامیابی وناکامی کا دارومدار ،انحصار ان احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہو۔جیسا کہ: ایمان (اللہ کو ایک ماننا، آپ a کو اللہ کا آخری نبی ماننا، فرشتوں ،جنت ودوزخ،روزِ قیامت وغیرہ کو ماننا) نماز ، روزہ (سال میں رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا)، حج(اگر استطاعت ہوتو زندگی میں ایک بار حج کرنا)، زکوٰۃ (صاحب استطاعت ہوتو سال میں ایک بار کل مال پر اڑھائی فیصد رقم نکال کر غریبوں کو دینا)۔ انہیں احکامات (یعنی مذکورہ چار قسم کے حقوق) کو ’’دیانات‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور فقہاء نے حلال وحرام کو اسی قسم میں رکھا ہے، جس کی بنیادی وجہ قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ کا ایمان والوں کو حلال کھانے اور حرام سے اجتناب کے ذکر میں پائی جاتی ہے اور کئی احادیث میں واضح الفاظ میں بتادیا گیا کہ حرام پیٹ میں جانے سے بندے کی عبادت قبول نہیں ہوتی، دعاء رد ہوجاتی ہے۔ حلال وحرام کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے شریعت نے یہ علاقہ اہل ایمان کے لیے مخصوص کردیا ہے اور صرف ان افراد کو اس میں عمل دخل کی اجازت ہے جو ایمان والے ہیں۔ اس کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ’’دیانات‘‘ کے احکامات میں کسی فاسق مسلمان کی گواہی بھی قابل قبول نہیں، اسی بنا پر: قرآن وسنت کی تشریح صرف مسلمان ہی کرسکتا ہے۔نماز صرف مسلمان امام پڑھا سکتاہے۔ رمضان کا چاند دیکھنے کی گواہی صرف مسلمان کی قبول کی جائے گی (شرعی گواہی میں اگر مسلمان ہو، لیکن فاسق ہو تو اس کی بھی گواہی قبول نہیں ہوگی)۔ حدودِ حرم میں صرف مسلمان داخل ہوسکتا ہے۔زکوٰۃ صرف مسلمان پر فرض ہے۔حلال وحرام کی گواہی صرف مسلمان دے سکتا ہے۔ (اس شعبہ میں فاسق مسلمان کی گواہی قابل قبول نہیں) : ’’قال:’’ویقبل فی المعاملات قول الفاسق، ولا یقبل فی الدیانات إلا قول العدل۔‘‘ (الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ،فصل فی الاکل والشرب) شہادت کے بعدحلال وحرام کا فیصلہ صرف مسلمان کرسکتا ہے۔(فاسق مسلمان بھی یہ حق نہیں رکھتا)حلال وحرام کے معیارات وضع کرنا مسلمان کاکام ہے(فاسق مسلمان بھی یہ حق نہیں رکھتا)۔فاسق اسے کہتے ہیں جو علی الاعلان کسی گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو، جیسے: سودی، جواری، شرابی، قاتل،زانی۔ عقلی مثالیں ووٹ ڈالنے کا حق کسی بھی دنیا کے ملک میں صرف اور صرف اس کے شہریوں کو ہی ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب کا پیشوا غیر مذہب کا نہیں ہوسکتا۔کسی بھی حساس یاغیر حساس ادارے میں داخلے کی آزادی صرف اس کے ملازمین کو ہوتی ہے، اسی وجہ سے یہ عبارت عام پڑھی جاسکتی ہے: ’’ Only for Staff‘‘ جو حقوق گھر کے افراد کو اپنے گھر میں حاصل ہوتے ہیں وہ مہمان کو حاصل نہیں ہوتے، اسی لیے اُسے لفظ مہمان کی پہچان دے کر منفرد کردیا جاتا ہے۔ اتنی سختی کی وجہ معاملے کی حساسیت ہے جو عقل کابھی تقاضا ہے کہ صرف اس شخص کو ان معاملات میں عمل دخل کی اجازت ہونی چاہیے جن کا وہ مکلف اور اہل ہو۔ جب تک انسان کسی حالت میں خود مبتلا نہیں ہوتا، اس وقت تک اُسے اس ذمہ داری کی حیثیت ، اہمیت کی پرواہ نہیں ہوتی، جیسے: ماں باپ ہی اپنی اولاد کا درد محسوس کرسکتے ہیں، اس جملے کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ باقی انسانیت احساس سے خالی ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس بھی انسان کی اپنی اولاد ہوگی، اس کا درد محسوس کرنے کی صرف اسی میں صلاحیت ہوگی یعنی اس احساس کو پانے کے لیے ماں باپ بننا شرط ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان تمام اصولوں اور پابندیوں کا بنیادی مقصد ایک جیسی اہلیت رکھنے والے افراد کے مشترکہ مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اور اسلام بھی یہی بات کرتا ہے۔ اللہ رب العزت تمام انسانوں کو اپنے حقیقی خالق کو پہچاننے کی توفیق نصیب فرمائے۔ مراجع و مصادر القرآن الکریم احکام القرآن ۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن علی الرازی الجصاص(المتوفی:۳۷۰ھ)، دارالمصحف ،مصر  روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم والسبع المثانی ۔۔۔۔۔۔۔ محمود شکری بن عبد اللہ الآلوسی،(المتوفی:۱۲۷۰ھـ)مکتبۃ النہضۃ بغداد تفسیر القرآن العظیم (ابن کثیر)۔۔۔۔۔۔۔اسماعیل بن عمرو البصری، ابو الفداء ابن کثیر ، دارإحیاء الکتب العربیۃ،بیروت الجامع لاحکام القرآن (تفسیر القرطبی)۔۔۔۔۔۔۔ محمد بن احمد الانصاری القرطبی، دارالکتاب العربی للطباعۃ والنشر، بیروت التفسیر المظہری ۔۔۔۔۔۔۔ محمد ثناء اللہ المظہری، مکتبۃ الرشدیۃ ،باکستان تفسیر مقاتل بن سلیمان ۔۔۔۔۔۔۔ ابو الحسن مقاتل بن سلیمان بن بشیر الازدی البلخی (المتوفی:۱۵۰)، الناشر:دار احیاء التراث، بیروت الکشف والبیان عن تفسیر القرآن ۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، (المتوفی:۴۲۷ھ)، الناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت معالم التنزیل فی تفسیر القرآن (تفسیر البغوی) ۔۔۔۔۔۔۔ محیی السنۃ ، ابو محمد الحسین البغوی الشافعی (المتوفی :۵۱۰ھ)،دار إحیاء التراث العربی ، بیروت غرائب القرآن ورغائب الفرقان۔۔۔۔۔۔۔نظام الدین الحسن القمی النیسابوری (المتوفی: ۸۵۰ھ)، الناشر:دار الکتب العلمیہ ، بیروت مدارک التنزیل وحقائق التأویل (تفسیر النسفی) ۔۔۔۔۔۔۔ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد النسفی (المتوفی:۷۱۰ھ)، الناشر: دار الکلم الطیب، بیروت الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل۔۔۔۔۔۔۔ابو القاسم محمود بن عمرو الزمخشری، جار اللہ (المتوفی: ۵۳۸ھ)، الناشر: دار الکتاب العربی ،بیروت البحر المحیط فی التفسیر۔۔۔۔۔۔۔ابو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان اثیر الدین الاندلسی (المتوفی:۷۴۵ھ)، الناشر:دار الفکر، بیروت فتحُ البیان فی مقاصد القرآن ۔۔۔۔۔۔۔ ابو الطیب محمد صدیق خان البخاری القِنَّوجی (المتوفی:۱۳۰۷ھ) الناشر:المَکتبۃ العصریَّۃ للطبَاعۃ والنّشْر، صَیدَا ، بَیروت الدر المنثور ۔۔۔۔۔۔۔ عبد الرحمن بن ابی بکر، جلال الدین السیوطی (المتوفی:۹۱۱ھ)، دار الفکر،بیروت احسن التفاسیر ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید احمد حسن (المتوفی:۱۳۳۸ھ)، المکتبۃ السلفی،شیش محل،لاھور تفسیر مظہری ۔۔۔۔۔۔۔ علامہ قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی پانی پتی v (المتوفی:۱۲۲۵ھ) معارف القرآن ۔۔۔۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع v، ادارۃ المعارف کراچی تفسیر عثمانی ۔۔۔۔۔۔۔ علامہ محمد شبیر احمد عثمانی ، ادارۃ المعارف کراچی تفسیر دعوۃ القرآن ۔۔۔۔۔۔۔ ابو نعمان سیف اللہ خالد ، دار الاندلس،لیک روڈ،چوبرجی،لاہور تفسیر فتح المنان المشہور بہ تفسیر حقانی ۔۔۔۔۔۔۔ ابو محمد عبدالحق حقانی دہلوی  مسند الإمام احمد بن حنبل ۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن حنبل الشیبانی الإمام ، دارالمعارف،مصر فتح الباری شرح صحیح البخاری ۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی الشافعی، الناشر:دار المعرفۃ ،بیروت حسامی ۔۔۔۔۔۔۔ محمد ابو عبداللہ حسام الدین (المتوفی:۶۴۴ھ)، مکتبۃ البشریٰ کراچی  ردالمحتار علی الدرالمختار شرح تنویر الابصار ، المعروف بحاشیۃ ابن عابدین ۔۔۔۔۔۔۔ محمد علاء الدین الشہیربابن عابدین (المتوفی:۱۲۵۲ھ)، دار الفکر،بیروت العنایۃ فی شرح الہدایۃ ۔۔۔۔۔۔۔ محمد بن محمد بن محمود، اکمل الدین ابو عبد اللہ الرومی البابرتی، (المتوفی:۷۸۶ھ)  دارإحیاء الکتب العربیۃ،بیروت  الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار ۔۔۔۔۔۔۔ محمد بن علی بن محمدالحصکفی، (المتوفی: ۱۰۸۸ھ)، دار الصادر،بیروت الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی  ۔۔۔۔۔۔۔  علی بن ابی بکر الفرغانی المرغینانی، (المتوفی:۵۹۳ھ)،دار احیاء التراث العربی، بیروت ، لبنان  البحر الرائق شرح کنز الدقائق ۔۔۔۔۔۔۔ زین الدین بن إبراہیم بن محمد، المعروف بابن نجیم المصری (المتوفی:۹۷۰ھ) وفی آخرہٖ: تکملۃ البحر الرائق لمحمد بن حسین بن علی الطوری الحنفی القادری (ت بعد۱۱۳۸ھ) وبالحاشیۃ:منحۃ الخالق لابن عابدین، الناشر:دار الکتاب الإسلامی حجۃ اللہ البالغۃ  ۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن عبد الرحیم بن الشہید وجیہ الدین بن معظم بن منصور المعروف بہـ شاہ ولی اللہ الدہلوی (المتوفی:۱۱۷۶ھ ) ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین