بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حلال فوڈ! امکانات وخدشات

حلال فوڈ! امکانات وخدشات

حلال فوڈ کی وسعت  1:۔۔۔۔۔ فوڈکے لفظ سے دھیان کھانے پینے کی اشیاء کی طرف جاتا ہے، مگر یہ اس کا محدود تصور ہے، آج کل حلال فوڈ کی اصطلاح ایک وسیع تناظر میں استعمال ہوتی ہے اور اس سے مراد صرف بیف، چکن، مٹن، اور ڈیری اور بیکری کے آئٹم نہیں ہوتے، بلکہ فوڈ، بیوریج، میڈیسن، کاسمیٹکس یعنی ماکولات ومشروبات سمیت ادویات، خدمات، آرائش وزیبائش کے آلات اور ٹیکسٹائل مصنوعات سب ہی مراد ہوتے ہیں۔ مستقبل قریب میں اس اصطلاح کے اندر اورزیادہ عموم اوروسعت آئے گی اور اگلے کچھ عرصے میں مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ وغیرہ سب حلال فوڈ کے دائرے میں آجائیں گے۔ ممکن ہے کہ جس طرح زرعی لائیو اسٹاک کے سپلائی چین کے تمام اسٹیک ہولڈرز، مثلاً کاشتکاروں، سپلائرز، نقل و حمل کی کمپنیوں اور تاجروں وصنعت کاروں کو ایک سطح پر لایا جارہا ہے، اسی طرح حلال فوڈ کے سلسلے میں خام مال سے لے کر صارف تک اورکھیت سے کانٹے تک حلال کا ایک مربوط نظام تشکیل دے دیا جائے اور نہ صرف یہ کہ مصنوعات کا مواد اور تیاری اور پیکنگ اور لیبلنگ اور نقل وحمل وغیرہ حلال طریقے سے ہو، بلکہ ان تمام مراحل میں جن عوامل کی بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت ہو اور جو سرمایہ اس میں استعمال ہو وہ بھی حلال ہو۔ 2:۔۔۔۔۔ فوڈ کا یہ مستقبل افلاطون کی آسمانی ریاست کی طرح کچھ تصوراتی اورنظریاتی سا محسوس ہوتا ہے، لیکن حلال کی بڑھتی ہوئی مانگ اس خاکے میں رنگ بھر رہی ہے اور ریاستوں کے معاشی مفادات اس میں روح پھونک دیں گے۔ معاشی اعدادوشمار اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ حلال فوڈ کا دائرہ بڑھ اور پھیل رہا ہے ۔اس کی واضح دلیل ورلڈ حلال فورم کی کچھ عرصہ قبل کی یہ جائزہ رپورٹ ہے کہ حلال فوڈ کی تجارت کا حجم اس وقت چھ سو پچاس ارب ڈالر سالانہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ 3:۔۔۔۔۔ حلال کے اس بڑھتے ہوئے بزنس اور روزافزوں ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ کی وجہ سے اب کسی مسلمان ملک کے لیے اس میدان میں پیچھے رہنا کئی حوالوں سے نقصان کاباعث ہوسکتا ہے۔ بڑا نقصان تو ریاست کے نقطۂ نظر سے معاشی ہے، کیونکہ معاشی فائدہ اس وقت ایک ایسا دیوتا ہے جو ہر جگہ پوجا جاتا ہے اورفرد ہو یا مملکت ہر ایک اس کے سامنے گھٹنوں کے بل گرا نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی کل تعداد کا ستر فیصد حلال کو پسند کرتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم صارفین بھی حلال پر اعتماد کرتے ہیں۔ حلال کا ٹریڈ مارک ایک مقبول و مرغوب علامت اور صحت وصفائی کی ضمانت بن گیا ہے اور جو مصنوعات اس علامت سے خالی ہوں وہ صارفین کے ایک بڑے طبقے سے محروم رہتی ہیں۔ جو مال حلال سرٹیفائڈ نہ ہو وہ اگربیرون ملک برآمد کیا جائے تو وہاں پورٹ پر پڑا رہتا ہے اور وہاں کے حکام برآمد کنندگان سے حلال تصدیق نامہ طلب کرتے ہیں۔ اگر بیرونِ ملک حلال تصدیق نامہ حاصل کیا جائے تو علاوہ دوسری مشکلات کے مال کی لاگت میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے۔ 4:۔۔۔۔۔ یہ سن کر کہ حلال کی بین الاقوامی مارکیٹ کا حجم تین ٹریلین ڈالر تک جاپہنچا ہے، خوشی محسوس ہوتی ہے، مگر یہ جان کر طبیعت افسردہ ہوجاتی ہے کہ جس طرح بین الاقوامی سیاست میں مسلمانوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہے، اسی طرح حلال کی تجارت میں بھی مسلمان ملکوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف خلیجی ممالک چوالیس ارب ڈالر حلال کی درآمد پر پھونک رہے ہیں۔ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے، مگر اُسے گوشت کی سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک برازیل ہے، حالانکہ حلال ہمارا لوگو اور ہم اس کے علمبردار، اولین داعی اور دنیا کو اس سے روشناس کرانے والے ہیں۔ دوسری طرف غیر مسلم نہ صرف اس میدان میں دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ ان کا مقصدہی اس اسکیم کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے۔ اگر وہ لوگوں کا رجحان دیکھ کر اور اپنے معاشی فوائد کے پیش نظر لوگوں کو اسلامی بینکاری کی سہولت دے سکتے ہیں تو حلال فوڈ کے انتظام میں ان کو کیا رکاوٹ ہے!؟۔ ان کی حالیہ کوشش یہ ہے کہ خود ہی اپنے ممالک میں حلال وحرام کے معیارات وضع کریں اور خود ہی اس کے مطابق سرٹیفکیشن اور ریگولیشن کا انتظام کریں۔ جب وہ خود ہی قواعد وضع کرکے ادارے قائم کرلیں گے تو مسلمانوں کے حلال تصدیقی ادارے خود ہی ان کے ممالک سے باہر ہوجائیں گے۔ اگر معاملہ صرف اس حد تک محدود ہوتا کہ وہ اپنے ممالک میں حلال تصدیقی ادارے قائم کریں گے تومذہبی نقطہ نظر سے کوئی اشکال کی بات نہ تھی، کیونکہ اپنے قوانین میں وہ آزاد ہیں اور مسلمانوں کو ان پر عمل داری حاصل نہیں، مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ مسلمان ملک پاکستان نے بھی انہیں حلال سرٹیفکیشن کی اجازت دے دی ہے۔ پچھلے کالم میں اس کے مضمرات پر بالتفصیل بحث ہوچکی ہے۔ 5:۔۔۔۔۔ جو امر خوش آینداور حوصلہ افزا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری خوابیدہ مملکت اب جاگ اٹھی ہے اور ایک بھرپور انگڑائی لے کر وہ دھاڑی بھی ہے جس سے اس کے وجود کا احساس ہوچکا ہے۔ قومی اداروں کو متحرک کیا جارہا ہے، متعلقہ محکمے قانون سازی کررہے ہیں، آئے دن ورکشاپ اور سیمینار منعقد ہورہے ہیں، اخبارات خبریں چھاپ رہے ہیں اور صحافی کالم لکھ رہے ہیں۔ وزرا اعلانات کررہے ہیں کہ مصنوعات کو حلال سرٹیفائڈ کرنے پر معقول سبسڈی دی جائے گی۔ ایک وزیرموصوف توسبقت لسانی سے پچاس فیصد سبسڈی دینے کاوعدہ بھی کر بیٹھے تھے ۔ وزرا کے ان اعلانات ، حکومتی اقدامات اور حلال کے متعلق قانون سازی وغیرہ سے حلال فوڈ کے میدان میں حکومت کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے، بلکہ دعویٰ تو پاکستان کو حلال کچن اور حلال کے لیے رول ماڈل بنانے کا ہے، لیکن اندیشہ یہ ہے کہ حلال فوڈ کا یہ غلغلہ بھی سب سے پہلے پاکستان، ایشین ٹائیگر، سرسبز پاکستان اور قرض اتارو ملک سنوارو کے نعروں کی طرح محض وعدہ، خالی نعرہ، سیاسی شوشہ اور سبز باغ نہ ہو جو لوگوں کو دکھایا جارہاہو۔ 6:۔۔۔۔۔ بظاہر حکومت سنجیدہ ہے اور خدشہ بے بنیاد ہے۔ حکومت اگر حلال تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصے کی خواہاں ہے توکوئی قابل اعتراض فعل نہیں، بلکہ اس ضمن میں مقدور بھر کوشش اس پرلازم ہے۔ دینی نقطہ نظر سے جب ہم کہتے ہیں کہ حلال کی ترویج اور حرام کا سد باب ہر ایک کی ذمہ داری ہے تو پھر حکومت کا عمل قابل اعتراض کیسے ہوسکتا ہے؟! اگر غذائی مصنوعات کے علاوہ بھی حلال فوڈ کا دائرہ پھیلتا ہے تو اسلام کے تصورِ حلال وحرام کے عین مطابق ہے، کیونکہ حلال وحرام کا تعلق صرف کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے سے نہیں، بلکہ یہ ایک قدر اور معیارکانام ہے اور عالمگیر پیغام ہے جوہر شعبہ میں اپنا احیاء چاہتا ہے۔ اسلام اگر زمان ومکان کی قید سے بے نیاز اور رنگ ونسل کی تحدید سے بالاتر ہے تو اس کا تصورِ حلال وحرام صرف صارف یا صانع تک یا محض کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے تک یا کسی خاص شعبہ تک کیسے محدود ہوسکتاہے؟! 7:۔۔۔۔۔ بہرحال جو اندیشہ ہے وہ یہ نہیں کہ حکومت سنجیدہ ہے یا نہیں، بلکہ اصل اندیشہ یہ ہے کہ حلال کا معاملہ نازک اور حساس ہے۔ دوسری طرف یہ بات کہ حکومت جس چیز میں پڑی ہے وہ کب سلامت رہی ہے۔ زکوٰۃ اور عشر کا نظام، معیشت کی اسلامائزیشن کامعاملہ اور اسلامی بینکاری کا قصہ وغیرہ ایسے معاملات ہیں جن سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کی مداخلت سے اس اسکیم کا رخ کسی اور طرف نہ ہوجائے۔ 8:۔۔۔۔۔ ایک اور اندیشہ یہ ہے کہ حلال ٹریڈ میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری مصنوعات حلال معیار کے مطابق ہوں اور اس کے ساتھ ہم ورلڈ حلال سرٹیفیکیشن کا حصہ بن جائیں اور اپنی مصنوعات کو بین الاقوامی حلال معیارات سے ہم آہنگ کرلیں۔ لیکن بین الاقوامی معیار ات کو اگر بصیرت اور حکمت عملی کے ساتھ نافذ کرنے کے بجائے اندھا دھند نافذ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں مقامی تجارت دب کر اور ملکی مصنوعات کھوٹی ہوکر رہ جائیں گی اور بین الاقوامی معیارات کو نافذ کرنے کا  مطلب یہ نکلے گا کہ ملکی مصنوعات کی برآمد ممنوع اور باہر کی مصنوعات درآمد کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان معیارات میں حفظانِ صحت اور کوالٹی کنٹرول کے اصول بھی لازمی شرائط کادرجہ رکھتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں کی صورتحال سے ہرپاکستانی بخوبی واقف ہے۔ اگر عملی مشاہدہ درکار ہو تو کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا وزٹ کیجیے، وہاں کے پروڈکشن ایریا میں جو صفائی وستھرائی اور چمک دمک نظر آئے گی اور پروڈکٹ کے مناسب جو درجہ حرارت اور ماحول وہاں قائم ہوگا، ملکی کمپنیوں کے لیب میں بھی اس درجہ کا معیار نظر نہیں آئے گا، ایسے واضح فرق کے ساتھ عالمی معیار یہاں نافذکردیے گئے تو نتیجہ اپنی مصنوعات کی کھپت روکنے کے سوا اور کیا ظاہر ہوگا؟!۔ 9:۔۔۔۔۔ مقصد یہ بھی نہیں کہ کوالٹی کنٹرول اور حفظانِ صحت کے اصولوں کی سرے سے ضرورت ہی نہیں اور ہمارے تاجر اور صنعت کار غذا کے نام پر لوگوں کو زہر کھلاتے رہیں۔ اصل مقصود یہ ہے کہ مقامی تجارت کو تدریجاً اس سطح پر لایا جائے، کیونکہ ایک تو محض قانون کے زور پر تبدیلی مشکل  ہوتی ہے۔ دوسرے قانون سے پہلے اس کے لیے سازگار ماحول اورمناسب فضا درکار ہوتی ہے، ورنہ نتیجہ قانون کی ناکامی کی صورت میں نکلتاہے۔ تیسرے ایسے قوانین سے معاشرے میں ہلچل اور اضطراب ضرور پیدا ہوتا ہے، مگر عملی افادیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ 10:۔۔۔۔۔ ان بین الاقوامی معیارات کو روبہ عمل لانے سے پہلے یہ اطمینان بھی ضروری ہوگا کہ کہیں حلال کے اسلامی معیارات ان بین الاقوامی معیارات میں گم ہوکر رہ نہ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا کے سامنے حلال کا صاف اور واضح تصور نہ آ سکے گا اور اس کی وجہ سے حلال فوڈکے پیچھے جو دینی اور دعوتی مقاصد ہیں وہ حاصل نہ ہوسکیں گے، کیونکہ حلال فوڈ سے مقصود صرف تجارت نہیں بلکہ دنیا کو اسلام کے آسان،سادہ اور فطرت کے عین مطابق اصولوں سے واقف کرانا بھی ہے اور انہیں عملی طور پر یہ باور کرانا ہے کہ اسلامی اصول، روح اور اخلاق کے ساتھ ان کی صحت وزندگی کے بھی ضامن ہیں۔ ممکن ہے کہ جو لوگ ہر معاملہ کو معاشی مفادات کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں وہ اس جیسے کسی مشورہ کو درخوراعتناء نہ سمجھیں، مگر اس سوچ کو نظر انداز کرنے کا نقصان یہ ہوگا کہ حلال کی اسکیم عوامی حمایت اور زیادہ صاف لفظوں میں مذہبی حمایت سے محروم ہوجائے گی اور اگر عام مذہبی طبقہ کی اس طرف توجہ نہ ہو یا وہ بھی اسے اہمیت نہ دیں تو اہل علم کا فریضہ ہوگا کہ وہ اس سلسلے میں آواز اٹھائیں، کیونکہ وہ نگران و نگہبان ہیں اور دین حنیف کے مزاج اور خصوصیت کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے۔ 11:۔۔۔۔۔ ورلڈ حلال سرٹیفکیشن کا حصہ بننے سے قبل کچھ اورامور بھی ہیں جو فوری توجہ چاہتے ہیں اور جو ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں ۔ خوراک ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے۔ مناسب، متوازن، صحت بخش اور معیاری خوراک‘ صحت مند نشوونما اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے، جب کہ ناقص، غیرمتوازن اورغذائیت سے عاری خوراک سے انسان مختلف قسم کی بیماریوں، ذہنی و جسمانی معذوریوں اور ناامیدی و مایوسیوں کا شکار ہوجاتاہے۔ بین الاقوامی معاہدات کی روسے بھی ایک فعال اورصحت مند زندگی گزارنے کے لیے ہمہ وقت درکار مناسب خوراک تک تمام افراد کی رسائی ضروری ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ ڈی ریاست کے ہر شہری کو خوراک سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کویقینی بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔  بہرحال بین الاقوامی معاہدات، ریاستی قوانین اور دینی تعلیمات کی روشنی میں رعایا کو صاف اور متوازن خوراک کی فراہمی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، مگر صورت حال یہ ہے کہ لوگ معیاری اور مناسب خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ جو قوانین ملکی سطح پر رائج ہیں ان پر عمل درآمد کا یہ حال ہے کہ ملک میں بھیڑ بکری کے گوشت کے بجائے کتوں اور گدھوں کا گوشت بھی فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اگر چہ کم ہیں، مگر سسٹم کی خرابی اور متعلقہ محکموں کی غفلت کا ثبوت ضرور ہیں۔ دوا کے نام پر تو زہر کی فروخت عام ہے، یہاں تک کہ جان بچانے والی ادویات میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے، حالانکہ ڈرگ ایکٹ مجریہ ۱۹۷۶ء کے تحت جعلی اور زائد المیعاد اور غیر معیاری ادویا ت کی خریدوفروخت ممنوع ہے اور ایسی دواساز کمپنیوں، ڈرگ اسٹورز اور ڈسٹری بیوٹرز کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں ترمیم کے ذریعے اس قانون کو مزید سخت کردیا گیا ہے اور ڈرگ انسپکٹر کو ایسی کمپنی، کارپوریشن، فرم اور اس کے ڈائریکٹرز اور ملازمین کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ ۱۹۷۶ء کے مذکورہ ایکٹ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی طریقے سے کوئی جعلی ’’Spurious‘‘ نقلی ’’Counterfeit‘‘ غلط نشان زدہ’’Misbranded‘‘ ملاوٹ والی ’’Adulterated‘‘ غیرمعیاری ’’Substandard ‘‘ اور ایکسپائری’’ Expiry‘‘ دوا فروخت نہیں کرسکے گا۔ مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ملاوٹ کی لعنت، ایلو پیتھی، ہومیو پیتھی اور یونانی طب سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، حالانکہ ادویات میں ملاوٹ ایسا گھناؤنا فعل ہے جو بسا اوقات انسانی جان بھی لے لیتا ہے۔ 12:۔۔۔۔۔ ۱۹۸۳ء میں دنیا میں پہلی بار صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا جس کے بعد یہ معاملہ اہمیت اختیار کرگیا اور اب ہر سال۱۵؍مارچ کو دنیا بھر میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس دن صارفین کی تنظیمیں جاگ جاتی ہیں، سیمینار اور ورک شاپ منعقد ہوتے ہیں، بینرز، پوسٹرز اور واک کرکے اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے صارفین کے حقوق کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ صارفین کے حقوق سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ پیداواری عمل سے لے کر تیاری تک کے تمام مراحل میں صارف کو تحفظ اور رہنمائی فراہم کی جائے گی اوراس کے ساتھ یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ صارف کے طویل المدتی مفادات کا تحفظ ہواور اس کو ملنے والی خدمات اور مصنوعات معیاری ہوں اور ان کے متعلق اسے درست معلومات فراہم کی جائیں گی اوراسے گمراہ کن تشہیر کی صورت میں دھوکہ دہی سے بچایا جائے گا،اس کے ساتھ پالیسیاں بناتے وقت صارفین کی تجاویز اور مطالبات کو مناسب جگہ دی جائے گی اور اس سے ہونے والے کسی نقصان کی مناسب تلافی کی جائے گی۔ ۹؍اپریل ۱۹۸۵ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے صارفین کے حقوق کو اپنی گائیڈ لائن کے طور پر شامل کیا۔ پاکستان بھی بین الاقوامی برادری کا رُکن ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی وضع کردہ گائیڈ لائن پر عمل کا پابند ہے۔ ملکی سطح پر صارفین کے حقوق کے متعلق قوانین موجود ہیں اور سندھ اسمبلی نے تو پچھلے سال کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کی صورت میں صارفین کے حقوق کا قانون بھی منظور کیا ہے اور شنید یہ تھی کہ قانون کے ساتھ صارفین کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کی غرض سے کنزیومر کورٹس بھی قائم کی جائیں گی، مگر اس کے باوجودناقص، غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کی فروخت عام ہے۔ جانور وں کو گندے مذبح خانہ میں ذبح کرکے کھلے ٹرکوں اور آلودہ ماحول میں گوشت مارکیٹوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ انعامات کا لالچ دے کر اور جھوٹی اشتہار بازی کے ذریعے عوام کو گھٹیا اشیاء فراہم کردی جاتی ہیں، مگرنہ حکومت کا کوئی وجود نظر آتا ہے اور نہ قانون کو حرکت ہوتی ہے۔ خلاصہ 1:۔۔۔۔۔حلال فوڈ ایک وسیع اصطلاح ہے اور اس کا دائرہ بڑھ اور پھیل رہا ہے۔ (پیرا نمبر:1،2) 2:۔۔۔۔۔ ہماری حکومت بھی اس شعبہ میں دلچسپی لے رہی ہے۔ (پیرا نمبر:5) 3:۔۔۔۔۔ شرعی حوالے سے حکومت پر اس ضمن میں مقدور بھر کوشش لازم ہے۔ (پیرا نمبر:6) 4:۔۔۔۔۔ کیونکہ اب اس میدان میں پیچھے رہنا کئی حوالوں سے نقصان دہ ہے۔ (پیرا نمبر:3، 4) 5:۔۔۔۔۔ مگر گورنمنٹ پر یہ احتیاط لازم ہے کہ اس اسکیم کا اسلامی تشخص برقرار رہے۔ (پیرا نمبر:7) 6:۔۔۔۔۔ حلال وحرام کے حوالے سے قانون سازی کے وقت حکمت ِ عملی کے اصول طے کرنا ضروری ہیں۔ (پیرا نمبر:8) 7:۔۔۔۔۔ بین الاقوامی معیارات کے نفاذ سے قبل یہ اطمینان ضروری ہے کہ اسلامی اصول ان میں دب کر نہ رہ جائیں، کیونکہ حلال فوڈ کے پس پشت دینی ودعوتی مقاصد کو اولین اہمیت حاصل ہے۔ مادی فوائد کی حیثیت ضمنی وثانوی ہے۔ (پیرا نمبر: 9،10) 8:۔۔۔۔۔ نئے قانون کے اجراء ونفاذ سے قبل پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، جن میں ملاوٹ وجعل سازی کی روک تھام، مناسب غذا کی فراہمی اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کا قانون شامل ہو۔ (پیرا نمبر:11، 12)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین