بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حقائق بولتے ہیں! جاویدچوہدری صاحب کی خدمت میں

حقائق بولتے ہیں! جاویدچوہدری صاحب کی خدمت میں

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

۲۱؍ ذوالحجہ ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء روزنامہ ایکسپریس میں جناب جاوید چوہدری صاحب کا مضمون ’’ملالہ کبھی پاکستان نہیں آسکے گی‘‘کے عنوان سے چھپا ، جس میں موصوف نے ملالہ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کی تعریف وتوصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ، اس کی علمیت کے قصیدے پڑھے ، پاکستان سے اس کی محبت کے گیت گائے ، اس کے مقابلہ میں تمام پاکستانیوں کو ان سے حسد کرنے والا،بونوں کاملک، ٹیلنٹ کی ناقدری کرنے والا بتلایا ہے اور کہا ہے کہ: ۱:- یہ ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے، مگر ان کا ٹیلنٹ اور ان کا عقیدہ ہر بار رکاوٹ بن جاتا تھا۔ ۲:- یہ پاکستان کا پہلا نوبل انعام تھا، ہمارے لیے اعزاز کی بات تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ اس اعزاز کے راستہ میں بھی رکاوٹ بن گیا۔ ۳:- میں دس اکتوبر تک یہ سمجھتا رہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی سزا ملی، چنانچہ ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ ان کا جرم بن گیا اور یہ ان کی خوبیوں اور کمالات کو بھی نگل گیا۔ ۴:- ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی تھے، ہم نے اس جرم میں ان سے پاکستانیت کا حق چھین لیا۔یہ وہ چند ریمارکس ہیں جو محترم جناب جاوید چوہدری صاحب نے دیئے ہیں۔ جناب چوہدری صاحب نے ڈاکٹر موصوف کے ساتھ پاکستانی قوم کی جانب سے ہونے والی زیادتی وناانصافی کا تذکرہ جس ناز وانداز سے کیا ہے اور ان کی یکطرفہ مظلومیت کے خود ہی وکیل اور خود ہی جج بنے ہیں،اس کی بجائے اگر ان کے ساتھ ظلم وناانصافی کرنے والی بونی مسلم قوم کو اپنے صحافیانہ کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کا جوابِ دعویٰ بھی سن لیتے تو شاید آنحضور جلد بازی میں اپنا سطحی فیصلہ سرزد فرمانے سے قبل اپنا اور اپنی بات کا وزن یقینا معلوم کرلیتے۔ جناب عالی! کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام اپنے لیے کونسی شناخت استعمال کرنا پسند کرتا رہا؟ کیا ڈاکٹر موصوف کے نوبل انعام کا حقیقی سبب وہی ٹیلنٹ ہے جس کی آنحضور وکالت فرمارہے ہیں یا اس کے کچھ اور اسباب بھی ہیں؟ کیا ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کی کاشتکاری کے لیے پاکستانی مٹی ناقص تھی یا وہ ان مزعومہ صلاحیتوں سے عاری تھے؟ کیا ڈاکٹر صاحب محض قادیانی ہونے کے ناطے پاکستانیوں کے عتاب کے ذمہ دار قرار پائے تھے یا ان کی اضافی منفی سرگرمیاں بھی تھیں جو پاکستان، نظریۂ پاکستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف استعمال ہورہی تھیں؟ نیز اگر ڈاکٹر عبدالسلام کا قادیانی ہونے کے علاوہ اور کوئی جرم نہ بھی ہو تو پھر آنحضور سے سوال ہے کہ کیا آپ کے نزدیک عقیدہ ختم نبوت کا انکار، امت مسلمہ کی تکفیر اور پاکستان کے اسلامی تشخص کا خاتمہ جیسے کارنامے دین اسلام اور آئین پاکستان کی رو سے جرم نہیں ؟ آئیے! انہی سوالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام کی حیاتِ جاوِداں کے بعض گوشوں کا مطالعہ کرتے ہوئے جناب جاوید چوہدری صاحب کے آخری سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ محترم ! آپ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام سکہ بند قادیانی تھا اور ہر قادیانی اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتا ہے۔ اور یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ قادیانیوں کی پشت پر ہمیشہ یہودیوں اور سامراج کا ہاتھ رہا ہے، جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ:’’ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔‘‘ جس طرح ہر یہودی پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے، اسی طرح ہر قادیانی پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔ اسی لیے یہودیوں اور قادیانیوں کی نظریاتی مماثلت اور اشتراک کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے ۱۹۳۶ء میں کہا تھا کہ: ’’مرزائیت اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہے کہ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔ ‘‘                         (حرف اقبال، لطیف احمد شیروانی ایم اے،ص:۱۱۵) آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر قادیانی مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت پر ایمان رکھتا ہے،اور ان کو خاتم النبیین کہتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم a اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، جو آدمی حضرت محمد رسول اللہ a کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ قرآن وسنت کی رو سے کافر ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا، لیکن ڈاکٹر عبدالسلام سمیت تمام قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، تو کیا آپ کے نزدیک ان کو مسلمان سمجھ لیا جائے؟ جب کہ اس عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے پنڈت جواہر لال نہرو کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا:’’آپ یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے کہ عقیدۂ ختم نبوت کی کیا اہمیت ہے اور کسی مدعی نبوت یا اس کے پیروکاروں کو مسلمان تصور کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے‘‘۔اور یہ بھی کہا تھا کہ: ’’قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں۔‘‘ محترم! قادیانیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ فوج، عدلیہ، ایٹمی توانائی کمیشن، میڈیا اور تعلیمی اداروں میں کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کو براجمان کرائیں اور پھر ان حساس اداروں کے ذریعہ اپنے مقاصد کو بروئے کار لائیں،اور وہ اپنی ان کوششوں اور کاوشوں میں ہمیشہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان قادیانی کی عنایتوں سے ترقی کی منازل طے کرتا رہا، پھر ڈاکٹر عبدالسلام نے ایٹمی توانائی کمیشن میں اپنے اور شاگردوں کی فوج ظفر موج بھرتی کرائی اور وہ جب تک اس ادارے میں رہے، اس ادارہ میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی، بلکہ ہمیشہ وہ حکمرانوں سے جھوٹ بولتے رہے اور پاکستان کے ایٹم بم بنانے میں رکاوٹ بنے رہے۔ محترم! آپ تو ڈاکٹر عبدالسلام کو محب وطن اور پاکستان کے لیے کچھ کرنے والا بتلاتے ہوئے ان پر ترس کھارہے ہیں اور تمام پاکستانیوں کو ان کے مقابلہ میں ظالم، جاہل اور بونا قرار دے رہے ہیں، جب کہ قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے پیشواؤں کو سننے کے بعد اتفاق رائے سے جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو ڈاکٹر عبدالسلام نے اس تاریخی فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا: ’’جو سلوک مسٹربھٹو نے قادیانیوں سے کیا ہے، اس پر میں یہی دعا کروں گا کہ نہ صرف مسٹربھٹو بلکہ ان تمام کا بھی بیڑا غرق ہو جو اس فیصلے کے ذمہ دار ہیں۔‘‘                                        (ہفت روزہ بادیان لاہور، ج:۷، شمارہ:۵، ۱۸؍مئی ۱۹۷۹ئ) محترم! آپ نے لکھا ہے کہ’’ ڈاکٹر عبدالسلام نے گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ سے درخواست کی’’کالج کے پاس فنڈز موجود ہیں، آپ مجھے چھوٹی سی لیبارٹری بنادیں، میں اور میرے طالب علم کمال کردیں گے‘‘انتظامیہ کو یہ مطالبہ توہین محسوس ہوا، چنانچہ انہیں شروع میں ہاسٹل کا وارڈن بنادیا ، ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ درخواست دی تو انہیں فٹ بال ٹیم کا کوچ بنادیا۔ جب کہ حقائق اس سے مختلف ہیں، وہ یہ کہ پرنسپل کی طرف سے انہیں درخواست کی گئی کہ وہ باقی پروفیسرز کی طرح تدریس کے علاوہ کچھ غیر نصابی فرائض انجام دیں، اس کے لیے انہیں تین آپشن دی گئیں:۱:… ہوسٹل وارڈن کے فرائض، یا۲:… کالج اکاؤنٹس کے چیف یا ۳:… فٹ بال ٹیم کے پریزیڈنٹ۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام نے تحریری طور پر پرنسپل کو مطلع کیا کہ وہ قانونی طور پر تدریس کے علاوہ کوئی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند نہیں، ہاں! اگر ڈیوٹی ناگزیر ہے تو انہیں اس کی اضافی تنخواہ ادا کی جائے، بصورتِ دیگر وہ یہ فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں۔ (بحوالہ غدارِ پاکستان، ص: ۱۳۱) محترم! یہ جواب خود بتلاتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو تعلیم، بچوں کے مستقبل یا ان کی فلاح وبہبود سے کوئی دلچسپی نہیںتھی، بلکہ وہ ایک خود غرض، لالچی اور مفاد پرست انسان تھا، جب کہ ان کے پڑھانے کی یہ حالت تھی کہ طلبہ نے پرنسپل سے شکایت کی کہ انہیں پڑھانا نہیں آتا اور نہ ہی وہ پڑھائی میں دل چسپی لیتے ہیں، چنانچہ ان کی سالانہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ: "Dr. Abdul Salam Is not fit for Govt College Lahore. He be researcher. But he is not a good college man." یہ ریمارکس آج بھی گورنمنٹ کالج کے ریکارڈ سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں، اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسری کے دور میں ان کو کیمبرج یونیورسٹی نے لیکچرر شپ کے عہدے کی پیشکش کی تو ڈاکٹر عبدالسلام نے اسے بخوشی قبول کیا اور وہ حکومت پنجاب کی اجازت اور اس کے نوٹیفیکیشن نمبر ۲/ ۶۰۷۵ مؤرخہ فروری ۱۹۵۴ء کے مطابق تین سال یا اس سے کم مدت کیمبرج میں ڈیویٹیشن پر لیکچرر شپ کے عہدہ پر کام کے لیے برطانیہ چلے گئے اور وہاں جس نے سب سے پہلے ان کا استقبال کیا وہ سر ظفر اللہ قادیانی تھا۔ ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ وہ پاکستان آکر صدر ایوب خان کے سائنسی مشیر بنے اور پھر محترم ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی ان کے مشیر رہے اور جب ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو ۱۰؍ستمبر۱۹۷۴ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیر اعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے اس طرح بیان کی: ’’آپ جانتے ہیں کہ میں اسلام کے احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگزتسلیم نہیں کرتا، لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہوچکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ اس حکومت سے قطع تعلق کرلوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو۔‘‘ اب آپ ہی بتائیں کہ انہیں پاکستان سے محبت تھی یا اپنے قادیانی گروہ سے اور یہ کہ وہ پاکستان کے لیے کام کررہے تھے یا اپنے عقیدہ کی پرورش اور آقاؤں کی فرمانبرداری کے لیے؟ مزید سنیے:ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر منیر کی سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔۔حکومت کے سربراہ سے جھوٹ بولنا بہت غلط کام ہے، مگر ایٹمی توانائی کمیشن کے سابق چئیرمین منیراحمد خان اور اس کے چیلوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹ بولا۔ انہوں نے پروگرام بنایا کہ تھوڑا سا دھماکہ خیز مواد لے کرزمین میں دبادیتے ہیں، اس میں کوبالٹ اور زنگ بھی ملادیں گے، پھر اس سے دھماکہ کرکے بھٹو کو بے وقوف بنالیں گے کہ ہم نے ایٹمی دھماکہ کرلیا ہے۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو صاف صاف بتادیا کہ ان سب لوگوں کا یہ پروگرام ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘                                         (روزنامہ خبریں، لاہور، ۳۱؍ مئی ۱۹۹۸ء ، بحوالہ غدارِ پاکستان،ص:۱۶۵) اور یہ منیر احمد خان وہی ہیں جن کو ڈاکٹر عبدالسلام کی سفارش پر رکھا گیااور یہ سترہ سال تک اس عہدہ پر رہے، لیکن کوئی قابل ذکر کارکردگی اپنے شعبہ میں نہیں دکھائی۔ پاکستان کے مشہور صحافی جناب حامد میر صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیںکہ: ’’۔۔۔۔۔۔۔آج منیر احمد خان ٹیلیویژن پر آکر ایٹم بم کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے۔اس شخص نے ہمیشہ ایٹمی قوت بننے کے خلاف سازشیں کیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام ایک ثقہ قادیانی تھے اور جنہیں صرف اس لیے نوبل انعام سے نوازا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ناکام بنانے والے لوگوں کو اٹامک انرجی کمیشن میں بھرتی کیا۔ یہ منیر احمد خان انہیں کے لائے ہوئے سائنسدان تھے جن کی پوری کوشش یہ رہی کہ پاکستان کبھی ایٹمی قوت نہ بن سکے۔‘‘                       (ہفت روزہ زندگی لاہور، ۲۸؍جون تا ۱۴ جولائی۱۹۹۸ئ) اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ملتان کانفرنس میں جب بھٹو نے ایٹم بم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا، ان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام نے نہ صرف مخالفت کی، بلکہ اس بات پر بگڑ کر اور ناراض ہوکر لندن چلے گئے اور جناب بھٹو نے اس ڈر سے کہ کہیں وہ سارے راز دشمن کے سامنے اگل ہی نہ دے، ان کے دوستوں کے ذریعہ انہیں راضی کیا اور کہا کہ ملتان کانفرنس ایک سیاسی ڈرامہ تھا، اسی طرح ان کی سفارش پر بھرتی کیے گئے لوگوں نے بھی مخالفت کی، ان میں سے ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عشرت عثمانی اور اس قماش کے دوسرے لوگ تھے۔معروف دانشور ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں: ’’مشہور قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی پاکستان دشمنی میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے راز حکومت امریکہ کو پہنچائے، جس پر جنرل ضیاء نے کہا کہ ’’اس کتیا کے بچے کو کبھی میرے سامنے نہ لانا، یہ امریکہ ، برطانیہ اور یہودیوں کا گماشتہ ہے اور اسی لیے اسے نوبل انعام دیاگیا‘‘۔                             (روزنامہ امت، کراچی، ۸؍جنوری ۱۹۹۸ئ) حد یہ ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان ہو یا ڈاکٹر عبدالسلام، وہ اس پر کبھی شرمندہ نہیں ہوئے کہ انہوں نے نبی آخر الزماں a کی ختم نبوت کا انکار کرکے ایک مجہول شخص کی اطاعت قبول کی ہے اور امت مسلمہ سے خود ہی ترکِ تعلق کرلیا ہے، مگر ہمارے دانشور ، کالم نگاردوست اس امر پر شرمندہ ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کی خواہش کے مطابق قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے کو واپس لے کر یہ اقرار کیوں نہیں کیا کہ آپ سچے، آپ کے مدعی نبوت سچے، ہم ہی وہ بدنصیب ہیں جو اپنے سچے رسول a سے تعلق پر شرمندہ ہیں، واحسرتاہ! آپ نے ان کو نوبل انعام ملنے پر بڑا ہی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور اس کو پاکستان کے لیے ایک اعزاز بتلایا ہے، کیا آپ بتلاسکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے اس کو پاکستان کا اعزاز کہا ہے؟ اگر ان کا کوئی بیان اس طرح کا ہے تو آپ اسے ریکارڈ پر لائیں، حالانکہ یہ انعام ڈاکٹر عبدالسلام کو کوئی انقلابی تھیوری پیش کرنے پر نہیں دیا گیا، بلکہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی خدمات انجام دینے کے صلہ میں ملا ہے، کیونکہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک ریڈیو انٹرویو میں خود اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے طبعیات میں میکسول اور اس کے ساتھیوں کے انکشافات کو آگے بڑھایا ہے اور اس شعبہ میں کوئی بڑا معرکہ انجام نہیں دیا۔( نوبل پرائز اور ڈاکٹر عبدالسلام ، شفیق مرزا) باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں قادیانی امت کے غیر مسلم اقلیت قرار پانے سے ملت اسلامیہ میں ان کی نقب لگانے کی پوزیشن بری طرح متأثر ہوچکی تھی اور وہ کسی بھی اسلامی ملک میں امریکی مفادات کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے تھے، کیونکہ انہیں ہر جگہ سامراجی گماشتہ اور جاسوس کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر امریکہ ‘تاجِ برطانیہ کے پرانے وفاداروں کو اس طرح چھوڑنا پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے اس نے پہلے یہودی اثرورسوخ سے چلنے والے ممتاز سائنسی اخبارات وجرائد میں ڈاکٹر عبدالسلام کے حق میں مہم چلائی اور بالآخر نوبل پرائز کا تمغہ ان کے سینے پر سجادیا۔ڈاکٹر اسٹیون وائنبرگ نے ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ملنے پر شدید حتجاج کیا تھا اور اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ: ’’ڈاکٹر عبدالسلام نے کوئی اہم سائنسی پیش رفت نہیں کی کہ انہیں اس اہم انعام کا مستحق ٹھہرایا جائے، بلکہ انہیں ایک خاص اور اَن دیکھے منصوبے کے تحت ہمارے ساتھ نتھی کیا گیا ہے جو سخت بددیانتی کے زمرہ میں آتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہا: ’’ڈاکٹر عبدالسلام کو ملنے والا نوبل انعام نظریات کی بنیاد پر دیا گیا ہے، وہ ۱۹۵۷ء سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں نوبل انعام ملے اور آخر آئن اسٹائن کی صد سالہ وفات پر اس کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا۔ دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے جو ایک عرصہ سے کام کررہا ہے، یہودی چاہتے تھے کہ آئن اسٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیا جائے، سو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو بھی اس انعام سے نوازا گیا۔ ‘‘                                (انٹرویو ڈاکٹر عبدالقدیر ہفت روزہ چٹان لاہور ۶؍ فروری ۱۹۸۴ئ) اس لیے ڈاکٹر عبدالسلام نے ہمیشہ اپنے مذہب قادیانیت کا دفاع کرتے ہوئے اسلام اور  پاکستان کی مخالفت کی۔ ۱۹۷۹ء میں اسٹاک ہوم میں نوبل انعام وصول کرتے وقت اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ: ’’میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کا غلام ہوں، پھر مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی۔‘‘                                                  (ہفت روزہ زندگی لاہور، ۱۴؍ جون ۱۹۹۰ئ) محترم ! یہ وہ سب حقائق ، حالات اور واقعات ہیں جن کی بنا پر آج ہر پاکستانی قادیانیوں کو ملت اور ملک کا غدار، یہودیوں اور امریکیوں کا جاسوس کہتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قادیانی ملک پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے، ہر قادیانی ملک کا بیڑہ غرق دیکھنا چاہتا ہے، ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے، پھر بھی ہمارے دانشور اور صحافی انہیں کی ترجمانی اور وکیل صفائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، آخر کیوں؟ محترم جناب جاوید چوہدری صاحب نے ملالہ کے بارہ میں لکھا ہے کہ وہ تو مسلمان ہے، ہم اس کے مخالف کیوں ہیں؟ محترم! ہم بحیثیت مسلمان کسی بھی مدعی اسلام کے اسلام میں شک نہیں کرتے، اگر کوئی اپنے اسلام کو خود ہی مشکوک قرار دے رہا ہو تو اس کا وکیل صفائی بننا بھی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ ملالہ کون ہے؟ اسے جس قسم کی انسانی و اخلاقی ہمدردی چاہیے، ہم اس کے روادار ہیں۔ آپ اس عزیزہ کو جو انصاف دلانا چاہتے ہیں، ضرور دلوائیں، یہ انصاف اس کا حق ہے، تاہم ملالہ کے ساتھ اور بڑی ناانصافی بھی ہوئی ہے،جس کا انصاف دلانا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہونا چاہیے، وہ یہ کہ مختلف لوگ کئی جرائد ، متعدد وقائع نگار عزیزہ موصوفہ کے نام، نسب، مقام ولادت، مقام پرورش اور اس کے پس منظر، پیش منظر کے بارے میں گومگو کا شکار ہیں۔ پاکستانی قوم اور اس کے بونے تجزیہ نگاروں کی غلط فہمی دور فرمائیں، بالخصوص عزیزہ موصوفہ کے نام سے مغربی صحافیہ کی لکھی ہوئی کتاب کے وہ حصے بونے پاکستانیوں کو سمجھانے کی کوشش کریں جن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پاکستانی قوم ملالہ کے ساتھ ناانصافی کی مرتکب ہورہی ہے۔ محترم! ملالہ کی پاکستان کے لیے کیا یہ خدمات ہیں کہ اس نے اپنے نام سے کتاب لکھوائی جس میں پاکستانیوں کو برا بھلا کہا گیا، سلمان رشدی لعنتی کی تعریف وتوصیف کی گئی، وہ سلمان رشدی جس نے قرآن کریم کی آیات کو شیطانی آیات کہا، جس نے نبی کریم a اور آپ aکے اہل بیتs کو گالیاں دی تھیں، کیا یہ ہیں ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ جیسے لوگ جن کی مدح وستائش ہمارے صحافی بھائی کرتے نہیں تھکتے، واأسفاہ! افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے مسلمان صحافی بھی حقوقِ انسانی اور انسان دوستی کے نام پر ان کے ہم نوا، ان کی تعلیمی، سیاسی اور پیشہ وارانہ مہارت کے حق میں جذباتی ہوئے چلے جارہے ہیں، جب کہ ان کی اسلام اور پاکستان دشمنی ، بھارت اور اسرائیل نوازی کی بابت ان کے خفیہ عزائم اور مہمات عوام کے سامنے لانے کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی جاتی ۔     بہرکیف! جناب جاوید چوہدری صاحب! اگر ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ کا واقعاتی پس منظر اسی داد وسپاس کا مستحق ہے جو آپ انہیں دلانا چاہتے ہیں تو اس عظیم کارنامہ پر پاکستان کے پراگندہ ماحول میں سچ گوئی اور حق پرستی پر آنجناب کے لیے بھی نوبل انعام ہونا چاہیے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین