بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حفظِ قرآنِ کریم کیوں ضروری ہے  ؟!

حفظِ قرآنِ کریم کیوں ضروری ہے  ؟!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

گزشتہ دنوں محترم جناب عبدالرؤف ملک صاحب (لاہور) کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے جون ۲۰۱۹ء کے شمارہ میں ایک مضمون ’’قرآن کریم پر نظر کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے چھپا ہے، جو انتہائی دل آزاری کا سبب ہوا، یہ مضمون آپ کی خدمت میں ارسال کیا جارہا ہے، اس پر غور فرمالیں۔ راقم الحروف نے وہ مضمون پڑھا، اس کے متعلق چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے۔
محترم! جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک اتنا قرآن کریم حفظ کرنا جس سے نماز ادا ہوجائے، ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے اور مکمل قرآن کریم حفظ کرنا فرضِ کفایہ اور باعثِ اجر وثواب ہے۔ اگر کوئی بھی مسلمان حافظِ قرآن نہ رہے تو تمام عالم کے مسلمان گناہ گار ہوں گے۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کا پورا مضمون پڑھنے سے ایک عام آدمی بھی یہی تأثر لیتا اور محسوس کرتا ہے کہ یہ مضمون تضادات کا مجموعہ ہے اور اس میں کوئی بات واقعی ، حقیقی اور تحقیقی نہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن کریم حفظ کیا، صحابہ کرامs کو اس کی ترغیب دی، بلکہ جو شخص ایمان لاتا اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قرآن کریم سکھاتے اور پھر وہ قرآن سیکھنے کے بعد اوروں کو سکھاتا اور حفظ کراتا، جس کی بنا پر ہزاروں صحابہs قرآن کریم کے حافظ بنے۔ ایک غزوہ میں ستر قاری شہید ہوئے اور جنگِ یمامہ میں سات سو قرآن کریم کے حافظ شہید ہوئے، جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ: ’’قرآن کریم کو کتابی صورت میں بھی محفوظ کرائیے، اس طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن کریم ہی نہ اُٹھ جائے۔‘‘ جس کے بعد قرآن کریم کو حفظ کے ساتھ ساتھ کتابی صورت میں بھی جمع کیا گیا اور کیا جاتارہا۔ امام قرطبیv تفسیرِقرطبی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’لاخلاف بین الأمۃ ولابین أئمۃ أہل السنۃ : أن القرآن اسم لکلام اللّٰہ تعالٰی الذی جاء بہٖ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم معجزۃ لہٗ وأنہٗ محفوظ فی الصدور مقروء بالألسنۃ مکتوب فی المصاحف۔۔۔۔ ۔‘‘              (تفسیر قرطبیؒ ، ج:۱،ص:۸۰ )
’’اُمت اور اہلِ سنت کے ائمہ کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا نام ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بطور معجزہ لائے ہیں اور وہ سینوں میں محفوظ ہے، زبانوں سے پڑھاجاتا ہے اور مصاحف میں لکھا ہوا ہے۔‘‘
یہ بات تو صاحبِ مضمون بھی جانتا اور اس کا اعتراف کرتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ دور الفاظِ قرآن اور حفظِ قرآن کا تھا یا نہیں تھا؟ پھر اس نے لکھا کہ: ’’صحابہ کرامؓ اس لیے قرآن کریم یاد کرتے تھے کہ اس وقت قرآن کریم محفوظ کرنے کا ذریعہ صرف یہی تھا۔‘‘ گویا اس نے اتنا مان لیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قرآن کریم یاد کرتے تھے اور یہ حفاظتِ قرآن کا ذریعہ تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ آج بھی حفاظتِ قرآن کا محفوظ ذریعہ حفظِ قرآن ہی ہے۔ اگرچہ اس کی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ’’ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اس لیے قرآن کریم یاد کرتے تھے۔‘‘ کیونکہ صحابہ کرامؓ لکھنا پڑھنا سیکھ چکے تھے، تب ہی تو قرآن کریم کے کاتبین بنے۔ اب اگر قرآن کریم کا یاد کرنا مقاصد میں سے نہیں تھا اور اس پر کوئی اجروثواب نہیں ملتا تھا تو قرآن کریم لکھنے والے صحابہ کرامؓ تو موجود تھے، پھر یہ حفظ اور یاد کرنے کی بقول اس کے ’’صعوبت‘‘ کیوں جھیلتے تھے؟! صاحبِ مضمون نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ وہ قرآن کریم حفظ کرنے کو ’’رسم، بدعت، کشٹ، غیرمقصودی چیز، محض بڑوں کی خوشنودی، جبر اور خوف کا نتیجہ، غیرصحت مند رویے تشکیل دینے کا سبب، حفاظ بچوں میں غیرصحت مند رویوں کے اثرات کا پیدا ہوجانا، ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما میں رکاوٹ اور تعلیمی نقطۂ نظر سے بالکل نامناسب‘‘ کہتا ہے، گویا ان کے نزدیک قرآن کریم حفظ کرنا فضول، اس کے الفاظ رٹنا، حماقت، دماغ سوزی اور تضییعِ اوقات ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔
راقم الحروف سمجھتا ہے کہ یہ باتیں وہ آدمی کرسکتا ہے جو خوفِ خدا، فکرِآخرت، اسلامی معاشرہ اور روحِ اسلام سے ناواقف ہو یا اسلام سے آزادی کا خواہاں اور اتباعِ نفس کا مریض ہو، ورنہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان آدمی اس طرح کی باتیں نہیں کرسکتا۔
قرآن کریم کے حفظ کا ثبوت ‘ قرآن کریم ، صحیح احادیث اور چودہ صدیوں سے اُمتِ مسلمہ کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔ سب سے پہلے حفظِ قرآن پر دلالت کرنے والی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
۱:- ’’سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔‘‘                     (الاعلیٰ:۶)
’’ ہم آپ کو پڑھائیں گے، آپ بھول نہیں پائیں گے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے نزول کے مقاصد میں سے اُسے حفظ کرنا اور یاد کرنا بھی ہے۔
۲:- ’’وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْئَ انُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا۔‘‘                                              (الفرقان:۳۲)
’’ اور کہنے لگے وہ لوگ جو منکر ہیں کیوں نہ اُترا اس پر قرآن سارا (اکٹھا) ایک جگہ ہوکر(ایک بار) اسی طرح اتارا، تاکہ ثابت رکھیں ہم اس سے تیرا دل اور پڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر۔‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا اس لیے اُتارا جاتا تھا، تاکہ آپ اسے آسانی سے یاد کرسکیں۔
۳:- ’’إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْئَ انَہٗ فَإِذَا قَرَأْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْئَ انَہٗ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ۔‘‘ (القیامۃ:۱۷،۱۸، ۱۹)
’’ وہ تو ہمارا ذمہ ہے اس کو جمع کرنا (کردینا) تیرے سینہ میں اور پڑھنا تیری زبان سے، پھر جب ہم پڑھنے لگیں فرشتہ کی زبانی تو ساتھ رہ اس کے پڑھنے کے، پھر مقرر ہمارا ذمہ ہے اس کو کھول کر بتلانا۔‘‘
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو حفظ کرنا اور اس کو پڑھنا بھی قرآن کریم کے مقاصد میں سے ہے۔
۴:- ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَٰفِظُوْنَ۔‘‘                   (الحجر:۹ )
’’ ہم نے آپ پر اُتاری ہے یہ نصیحت اور ہم آپ اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت ہے۔ کیونکہ اس آیت میں ’’لَحَٰفِظُوْنَ‘‘ مطلق لایا گیا ہے، جس سے اُصولِ عربیت کے مطابق حفاظت کا فردِ کامل مراد لیا جانا ضروری ہے اور حفاظتِ کاملہ وہی ہے جو لفظ اور معنی دونوں کو شامل ہو۔ اُمت میں تاقیامت ایسے حفاظِ قرآن پیدا ہوتے رہیں گے جو اس کے ہر حرف اور معنی کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
تفسیرِقرطبی میں امام قرطبیؒ نے اسی آیت کے تحت یحییٰ بن اکثمv کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے، خلیفہ مامون الرشید کے دربار میں بڑے بڑے فقہاء، عالم اور ماہرین جمع ہوکر مختلف مسائل پر بحث کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایسی ہی ایک بحث چل رہی تھی کہ ایک نہایت ہی وجیہ خوبصورت شخص محفل میں شامل ہوا اور اس نے نہایت فصیح وبلیغ زبان اور عالمانہ انداز میں بحث میں حصہ لیا۔ اختتامِ مجلس پر خلیفہ مامون الرشید نے کہا کہ تم اسرائیلی ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں! خلیفہ مامون نے کہا: تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم تمہاری بہت قدرومنزلت کریںگے، اس شخص نے کہا کہ میں اپنے آباء واجداد کا مذہب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور چلا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک سال بعد وہ مسلمان ہوکر مجلس میں شامل ہوا اور فقہی بحث میں بھرپور اور احسن انداز سے حصہ لیا۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو مامون الرشید نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم وہی شخص نہیں جو گزشتہ سال بھی یہاں آئے تھے؟ اس نے کہا: جی ہاں! میں وہی شخص ہوں۔ خلیفہ نے پوچھا کہ تم نے اسلام کیسے قبول کرلیا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ آپ کے پاس سے جانے کے بعد میں نے چاہا کہ میں مختلف مذاہب پر تحقیق کروں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ میرا خط اچھا ہے، اس مقصد کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ میں نے نہایت عمدہ خط میں تورات کے تین نسخے لکھے اور اس میں کہیں کہیں کمی زیادتی کردی۔ وہ نسخے میں نے کنیسہ میں پیش کیے تو انہوںنے مجھ سے خرید لیے، پھر میں نے بڑی خوش خط کتابت کے ساتھ انجیل کے تین نسخے تیار کیے اور ان میں کمی زیادتی کردی، وہ میں نے عیسائیوں کے سامنے پیش کیے، تو انہوں نے بھی مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے قرآن کو بھی بہت اچھے خط میں تحریر کیا اور حسبِ معمول تین نسخے تیار کرکے ان میں بھی تحریف کردی، پھر جب میں نے ان نسخوں کو مسلمان کتب فروشوں کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے ان کی تحقیق کی، جب انہیں معلوم ہوا کہ ان نسخوں میں کمی زیادتی ہوئی ہے تو انہوںنے لینے سے انکار کردیا۔ پھر یہ شخص کہنے لگا کہ جب میںنے یہ صورت حال دیکھی تو مجھے اس بات پر یقین آگیا کہ قرآن پاک ہی ایک واحد کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے اور یہی اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس پر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ 
یحییٰ بن اکثمv کہتے ہیں کہ اسی سال میں حج کے لیے گیا تو سفیان بن عیینہؒ سے میری ملاقات ہوگئی، میں نے ان کو یہ واقعہ بیان کیا تو انہوںنے فرمایا کہ: یہی مطلب ہے: ’’بِمَااسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ‘‘ یعنی تورات کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے یہودیوں پر ڈالی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا اور قرآن مجید کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے: ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَٰفِظُوْنَ۔‘‘ (الحجر:۹) ۔۔۔۔۔ ترجمہ: ’’ہم نے آپ پر اُتاری ہے یہ نصیحت اور ہم آپ اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ اس لیے قرآن مجید اب تک محفوظ ہے۔ ‘‘                         (تفسیر قرطبی، ج:۱۰، ص:۵-۶)
چونکہ قرآن کریم آخری کتاب ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا اور ایسی حفاظت فرمائی کہ آج تک شرق وغرب میں اس کے لاکھوں حافظ موجود ہیں اور وہ تواتر کے ساتھ روئے زمین کے مسلمانوں کی زبانوں پر یکساں محفوظ ہے۔ ایک لفظ یا زبرزیر کا فرق نہیں۔ بفرضِ محال اگر قرآن کریم کے تمام مکتوبی اور مطبوعی نسخے روئے زمین سے معدوم ہوجائیں تب بھی قرآن کریم کا ایک جملہ اور ایک کلمہ بھی نہ ضائع ہوسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ: دنیا کی کوئی کتاب ایسی محفوظ نہیں، جیسا کہ یہ قرآن کریم محفوظ ہے، سوائے قرآن کریم کے کوئی کتاب دنیا میں ایسی نہیں جس میں تغیر وتبدل اور تصحیف وتحریف واقع نہ ہوئی ہو۔                                                               (تفسیر کبیر، ج:۵،ص:۲۶۵)
۵:-’’بَلْ ہُوَ ئَ ایٰتٌ بَیِّنَٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْعِلْمَ۔‘‘  (العنکبوت:۴۹)
’’ بلکہ یہ قرآن تو آیتیں ہیں صاف ان لوگوں کے سینوں میں جن کو ملی ہے سمجھ۔‘‘
 علماء کرام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت کے ذرائع صرف دو ہی ہوسکتے ہیں: ایک کتابت اور دوسرا اُسے حفظ کرنا، قربِ قیامت میں قرآن کریم کے الفاظ اُٹھا لیے جائیں گے، لیکن ’’حفظِ قرآن‘‘ کی صورت میں حفاظت کا ذریعہ باقی رہے گا اور یہ آخرت بلکہ جنت تک ساتھ جائے گا، اس پر کئی احادیث وارد ہیں۔ 
۶:-’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْئَ انَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔ ‘‘   (القمر:۱۷)
’’اور ہم نے آسان کردیا قرآن سمجھنے کو، پھر ہے کوئی سوچنے والا؟ ۔‘‘
اب چند وہ احادیث نقل کرتے ہیں جو بالکل صحیح سند اور متن کے اعتبار سے مضبوط ہیں:
۱:-’’اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْأٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ،وَالَّذِیْ یَقْرَئُ الْقُرْأٰنَ وَ یَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہٗ أَجْرَانِ۔‘‘                              (رواہ البخاری ، ج:۱، ص:۲۶۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآن کریم میں مہارت حاصل کرلی ہو، وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگاجو سفیر اور نیکوکار ہیں اور جو شخص قرآن کریم اَٹکتا ہوا پڑھتا ہے، اور اس میں دقت اُٹھاتا ہے، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘
ماہر وہی کہلاتا ہے جس کو یاد بھی خوب ہو اور پڑھتا بھی خوب ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہما رسولِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
۲:-’’مَنْ قَرَأَ الْقُرْأٰنَ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّۃَ بَیْنَ کَتِفَیْہِ إِلَّا أَنَّہٗ لَا یُوْحٰی إِلَیْہِ لَا یَنْبَغِیْ لِصَاحِبِ الْقُرْأٰنِ أَنْ یَّحِدَّ مَعَ مَنْ یَّحِدُّ وَلَا یَجْہَلَ مَعَ مَنْ یَجْہَلُ وَفِيْ جَوْفِہٖ کَلَامُ اللّٰہِ۔‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان والحاکم فی المستدرک ، قلت: قال الحاکم فی المستدرک علی شرط الشیخین، ج:۱،ص:۵۵۲ )
ترجمہ: ’’جس آدمی نے قرآن کریم پڑھا، اس نے علومِ نبوت (قرآن) کو اپنی پسلیوں کے درمیان (دل میں) لے لیا، گواس کی طرف وحی نہیں کی جاتی۔ صاحبِ قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصہ کرنے والے کے ساتھ غصہ کرے۔ اور نہ یہ مناسب ہے کہ وہ جہالت والے کے ساتھ جہالت سے پیش آئے، جبکہ اس کے پیٹ (دل) میں اللہ تعالیٰ کا کلام موجود ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۳:-’’یَجِیْئُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ حَلِّہٖ فَیُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَۃِ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ زِدْہُ، فَیُلْبَسُ حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَا رَبِّ زِدْہُ، فَیُحَلّٰی حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَا رَبِّ ارْضَ عَنْہُ فَیَرْضَی عَنْہُ، ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ: اقْرَأْہُ وَارْقَہْ وَیُزَادُ بِکُلِّ آیَۃٍ حَسَنَۃً۔‘‘       (سنن الترمذی، ج:۲، ص:۱۱۹)
’’ قیامت کے روز قرآن مجید آئے گا اور سفارش کرے گا: اے رب! اس (حافظ) کو پہنائیے، پس (رب تعالیٰ اس کو) کرامت کا تاج پہنائیں گے، پھر کہے گا: اے رب! اس حافظ کے لیے اور زیادہ کر تو (اللہ تعالیٰ) اس کو کرامت کی پوشاک پہنائیں گے، پھر کہے گا: میرے رب! اس سے راضی بھی ہوجائیے، پس کہاجائے گا: پڑھتا جا اور (جنت میں) چڑھتا جا اور ہر آیت کے بدلہ ایک حسنہ (نیکی) کا اضافہ کیا جائے گا۔‘‘
اب جنت میں قرآن کریم تو وہی پڑھ سکے گا جس نے حفظ اور یاد کیا ہوگا، جس نے قرآن کریم پڑھا ہی نہیںہوگا، جس کو قرآن کریم کا تلفظ بھی صحیح نہیں آتا ہوگا وہ قرآن کریم کیسے پڑھ سکے گا؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۴:- ’’اَلْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْأٰنَ فَقَدْ وَقَّرَ اللّٰہَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی ، حَمَلَۃُ الْقُرْآنِ ہُمُ الْمَحْفُوْفُوْنَ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ الْمُعَظِّمُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ الْمُلْبَسُوْنَ نُوْرَ اللّٰہِ فَمَنْ وَالَاہُمْ فَقَدْ وَالَی اللّٰہَ وَمَنْ عَادَاہُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی۔‘‘                (الجامع لاحکام القرآن للقرطبیؒ، ج:۱،ص:۲۶)
’’ قرآن ہر شئے سے افضل ہے، جس نے قرآن کی تعظیم کی اس نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی اور جس نے قرآن کی بے قدری (اور توہین) کی اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی، حاملینِ قرآن (حفاظ اور علماء) اللہ تعالیٰ کی رحمت کے احاطہ میں ہیں، کلام اللہ کی عظمت اور قدر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نور میں ملبوس ہیں، جنہوں نے ان سے دوستی رکھی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دوستی رکھی، جنہوں نے ان سے دشمنی رکھی بے شک انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
۵:-’’إِنَّ الَّذِیْ لَیْسَ فِيْ جَوْفِہٖ شَیْئٌ مِّنَ الْقُرْآنِ کَالْبَیْتِ الْخَرِبِ۔‘‘             (مسند احمد، وجامع الترمذی وقال الترمذي حسن صحیح)
’’ وہ شخص جس (کے دل) میں قرآن مجید کا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں وہ ویران گھر کی مانند ہے۔‘‘
دل میں قرآن کریم تو اس شخص کے ہوگا جس نے اس کو حفظ اور یاد کیا ہوگا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
۶:-’’إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلٰی أُحُدٍ فِيْ ثَوْبٍ وَّاحِدٍ ، ثُمَّ یَقُوْلُ: أَیُّہُمَا أَکْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ، فَإِذَا أُشِیْرَ إِلَی أَحَدِہِمَا قَدَّمَہٗ فِي اللَّحْدِ۔‘‘             (رواہ البخاری ، فضائل القرآن الکریم وحملتہ فی السنۃ المطہرۃ لمحمد موسی نصر، ص:۳۳)
’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ) اُحد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو (ایک قبر میں) دفن کرنے کے لیے جمع کرتے تھے، پھر فرماتے: ان میں سے قرآن کو زیادہ حاصل کرنے والا کون ہے؟ پس اگر ان میں سے کسی کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اس کو لحد (قبر ) میں پہلے رکھتے۔‘‘
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم حفظ کرنے کا جہاں دنیا میں (حفاظت قرآن، اشاعت قرآن، تلاوتِ قرآن) فائدہ ہے، وہاں آخرت میں بھی اس کا فائدہ اعزازواکرام اور اجروثواب کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۷:-’’إِنَّ عَدَدَ دَرَجِ الْجَنَّۃِ بِعَدَدِ آیِ الْقُرْآنِ، فَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلَیْسَ فَوْقَہٗ أَحَدٌ۔‘‘              (البیہقی فی شعب الایمان بسند حسن ، الجامع الصغیر،ج:۲،ص:۴۵۸)
’’ بے شک جنت کے درجات قرآن کی آیات کی تعدادکے برابر ہیں، پس حفاظِ قرآن میں سے جو جنت میں داخل ہوگا اور پورا قرآن پڑھے گا اس سے اوپر کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
ان قرآنی آیات اور احادیث کا مطالعہ پوری طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن مجید کے قیامت تک کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو آخری دن تک اصل صورت میں محفوظ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اصل متن کو انسانی تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے تحفظ کی ذمہ داری خود لی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صاحب مضمون کا شق وار جواب تحریر کیا جاتا ہے، صاحب مضمون لکھتے ہیں:
۱:-’’ قرآن مجید کے حفظ کی رسم صدیوں سے مسلم سماج میں رائج ہے۔ عام تأثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اورباعثِ اجر و سعادت ہے ۔ یہ تصور چند در چند غلط فہمیوں کا مرکب ہے۔‘‘
محترم جناب! قرآن کریم حفظ کرنا رسم نہیں، بلکہ فرضِ کفایہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام sکا طریقہ ہے، جو باعثِ اجروثواب اور اس کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے اور مسلمانوں کے اس امتیاز اور خصوصیت کو محض تصور کہنا اور اس کو چند در چند غلط فہمیوں کا مرکب کہنا مضمون نگار کی اپچ ہے۔ 
۲:-’’قرآن مجید کا مقصد اس کے کلام اور پیام کا ابلاغ ہے ۔ ابلاغ کے لیے کلام کا حفظ ہونا ضروری نہیں۔ قرآن مجید کے حفظ کرنے کی ہدایت، بلکہ ذکر تک قرآن مجید میں موجود نہیں ۔‘‘
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن کریم کا مقصد کلام اور پیام کا ابلاغ ہے تو جب کلام اور پیام محفوظ ہی نہیں ہوگا تو اس کا ابلاغ کیسے ہوگا؟ ورنہ تو یہ ابلاغ صحابہ کرامs تک محدود رہے گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد سے قیامت تک کے لوگوں کے لیے اس کلام اور پیام کا ابلاغ کیسے ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کتابت پر اکتفا کیا تھا یا صحابہ کرامs کو حفظ کرنے اور اپنے سینوں میں محفوظ کرنے کا حکم بھی دیا تھا؟ موصوف کا یہ کہنا کہ ابلاغ کے لیے کلام کا حفظ ہونا ضروری نہیں، یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے جو کہ صحیح نہیں، کیونکہ جب کلام اور پیام کے الفاظ اور معنی ومطلب ہی پیغام دینے والے کو یاد اور معلوم نہیں تو ان کا ابلاغ کیسے ہوگا؟ جب کہ قرآن کریم میں تو ارشاد ہے:
 ’’وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔‘‘  (النحل:۴۴) 
’’ اور اُتاری ہم نے تجھ پر یہ یادداشت کہ تو کھول دے لوگوں کے سامنے وہ چیز جو اُتری ان کے واسطے اور تاکہ وہ غور کریں۔‘‘
قرآن کریم ذمہ داری لگارہا ہے کہ پیغامبر اس کلام اور پیام کو بھی پہنچائے اور الفاظ، معنی ومطلب کو بھی بیان کرے۔ اور مضمون نگار نے خود بھی آگے کہہ دیا ہے کہ صرف الفاظ یاد نہ ہوں، بلکہ اس کا معنی بھی آتا ہو، گویا مضمون نگار مان رہا ہے کہ ابلاغ کے لیے صرف الفاظ ہی نہیں، بلکہ الفاظ اور معنی کا معلوم ہونا مبلغ کے لیے ضروری ہے، فہو المراد۔ 
۳:-قرآن مجید کی ایک آیت سے قرآن کے حفظ کامفہوم اخذ کیا جاتاہے:’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔‘‘ ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟۔‘‘ (القمر:۱۷) اس آیت سے قرآن مجیدکا ایسا حفظ مراد لینا جس میں الفاظ و معنی کے فہم سے کوئی تعلق نہ ہو سوء فہم ہے۔ ’’ذکر‘‘ کا لفظ ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے اس مفہوم کو یہاں لینے کی کوئی گنجائش نہیںہے۔ ’’ذکر‘‘ کے مفہوم میں تعلیم، تذکیر، آگاہی، تنبیہ، نصیحت، موعظت، حصولِ عبرت اور اتمامِ حجت جیسے تمام مفاہیم اس میں شامل ہیں۔‘‘
جواب: اس کا جواب اپنی طرف سے لکھنے کی بجائے ساتویں صدی کے مفسرِ قرآن ابوعبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبیؒ سے لیتے ہیں کہ انہوںنے اس آیت کے بارہ میں کیا فرمایا ہے، تفسیر قرطبی میں ہے:
’’أي سہلناہ للحفظ وأعنا علیہ من أراد حفظہٗ، فہل من طالب لحفظہٖ فیعان علیہ؟ ویجوز أن یکون المعنی: ولقد ہیأناہ للذکر مِنْ یَسَّرَ نَاقَتَہٗ للسفر: إذا رحلہا ویسَّر فرسہٗ للغزو إذا أسرجہٗ وألجمہٗ، قال:
وقمتُ إلیہ باللجام مُیسِّرا 

ہنالک یجزیني الذي کنت أصنع
وقال سعید بن جبیر: لیس من کتب اللّٰہ کتاب یقرأ کلہٗ ظاہرا إلا القرآن، وقال غیرہٗ: ولم یکن ہٰذا لبنی إسرائیل، ولم یکونوا یقرء ون التوراۃ إلا نظرا ، غیر موسٰی وہٰرون ویوشع ابن نون وعزیر صلوات اللّٰہ علیہم ، ومن أجل ذٰلک افتتنوا بعزیر لما کتب لہم التوراۃ عن ظہر قلبہٖ حین أحرقت علی ماتقدم بیانہٗ فی سورۃ براء ۃ ، فیسّر اللّٰہ تعالٰی علٰی ہٰذہ الأمۃ حفظ کتابہٖ لیذکروا مافیہ
۔‘‘        (تفسیر قرطبی ، ج:۱۷،ص:۱۳۴)
’’ یعنی ہم نے قرآن کو حفظ کرنے کے لیے آسان کردیا ہے، جو حفظ کا ارادہ کرے ہم اس کا تعاون کریں گے، پس کوئی اس کے حفظ کا طالب ہے کہ اس کا تعاون کیا جائے؟ مشہور تابعی اور مفسر قرآن سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کی کتابوں میں قرآن کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جسے حفظ سے تلاوت کیا گیا ہو۔ اور ایک مفسر کہتے ہیں: حضرت موسیٰ m، حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت یوشع بن نون علیہ السلام اور حضرت عزیز علیہ السلام تورات کے حافظ تھے، ان کے علاوہ بنی اسرائیل کے تمام لوگ اسے دیکھ کر پڑھتے تھے۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل تورات جل جانے کے بعد حضرت عزیز m کے محتاج ہوئے تھے تو انہوںنے ان کے لیے اپنی یادسے تورات لکھ دی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اُمت پر قرآن کے حفظ کرنے کو آسان کردیا، تاکہ قرآن اُن کے دل ودماغ میں محفوظ ہو اور ان کے اعضاء پر سلطنت کرے۔‘‘
’’قال الحسنؒ: أعطیت ہٰذہ الأمۃ الحفظَ وکان من قبلہا لایقرء ون کتابہم إلا نظرا فإذا طبقوہ لم یحفظوا مافیہ إلا النبیون ۔۔۔۔۔ وہم أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، والمؤمنون بہٖ یحفظونہٗ ویقرء ونہٗ ، ووصفہم بالعلم۔‘‘        (تفسیر قرطبی، ج:۱۳، ص:۳۵۴)
’’ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: اس اُمت کو حفظ عطا کیا گیا ہے اور ان سے پہلے وہ اپنی کتابیں صرف دیکھ کر ہی پڑھا کرتے تھے، جب یاد کرنا چاہتے تو صرف انبیاء ہی حفظ کرسکتے تھے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور ایمان والے ہیں جو اسے (قرآن مجید کو) یاد بھی کرتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں اور ان کو علم سے بھی متصف کیا ہے۔‘‘
۴:-’’ماہِ رمضان میں تراویح کی نماز، جو درحقیقت نمازِ تہجد ہی ہے، میں پورے قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے سماع کا اہتمام مسلمانوں کا اپنا انتخاب ہے۔ اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ماہِ رمضان میں قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، نہ کہ نمازِ تہجد میں۔ نمازِ تہجد میں قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر جہاں قرآن مجید میں آیا ہے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں یہ سہولت دی گئی کہ جتنا ہو سکے اتنا پڑھ لیا جائے۔ ’’فَاقْرَئُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْأٰنِ‘‘ چنانچہ اب قرآن میں سے جتنا ممکن ہو،اِس نماز میں پڑھ لیا کرو۔‘‘(المزمل : ۷۳-۲۰)۔‘‘
جواب: موصوف کو رمضان المبارک میں تراویح میں مکمل قرآن کریم سنانے پر بھی اعتراض ہے، اور تراویح کو تراویح ماننے کے لیے بھی تیار نہیں، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتیں تراویح کی نماز پڑھائی۔ پہلی رات تہائی رات تک، دوسری رات آدھی رات تک، اور تیسری رات کو اتنی دیر تک پڑھائی کہ صحابہs فرماتے ہیں: ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں سحری کا وقت نہ ختم ہوجائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ڈھائی سالہ دور تقریباً جہاد میں گزرا، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ مسجدِ نبوی میں مختلف ٹولیوں میں صحابہؓ تراویح پڑھ رہے ہیں تو آپ نے صحابہ کرامs کے مشورہ اور اجماع سے ایک امام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ -جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے قاری ہونے کا تمغہ عطا فرماچکے تھے- کے پیچھے سب کو تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔ وہ عشاء کی نماز کے بعد ایک امام کے پیچھے بیس رکعت نماز تراویح باجماعت اور پورے رمضان میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت اور تراویح کے بعد وتر باجماعت پڑھاتے تھے۔ تب سے آج تک اہلِ سنت والجماعت اس پر عمل کرتے آرہے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
’’فعلیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیینؓ، تمسّکوا بہا وعضوا علیہا بالنواجذ۔‘‘                                           (مشکوٰۃ المصابیح، ص:۳۰، ط:قدیمی)
’’ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو مضبوطی سے تھامو، اور کچلی کے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑکر رکھو۔‘‘
موصوف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو محض ’’مسلمانوں‘‘ کا انتخاب کہہ کر ایک تویہ مغالطہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بہت بعد کے زمانہ کا عمل ہے اور ساتھ ہی اگر کوئی اعتراض کرے کہ کیا صحابہ ؓ مسلمانوں میں شامل نہیں؟! تو کہہ دیا جائے کہ میں نے صحابہؓ  کا انکار تو نہیں کیا۔ ہر عقل مند آدمی سوچ سکتا ہے کہ یہ صحابہ کرامs کی بے ادبی اور عام مسلمانوں کو مغالطہ دینے کی کوشش ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’نماز میں قرآن کریم پڑھنا سب سے افضل ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود رات کا اکثر حصہ نماز اور قرآن کریم پڑھنے میں گزاردیتے تھے، جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سورۂ بقرۃ، سورۂ آل عمران ، سورۂ نساء اور سورۂ مائدہ تک تمام سورتیں ایک رات کی نماز میں تلاوت فرمائیں۔ موصوف ’’فَاقْرَئُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ‘‘ سے جو استدلال کررہے ہیں ، یہ صحیح نہیں، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر اپنے عمل سے بتلادی، جیسا کہ اوپر گزرا ہے اور پھر صحابہ کرامs نے تراویح میں اُسے پڑھ کر اُمت کے سامنے عملی نمونہ پیش کردیا۔ 
محترم حفظِ قرآن کے بھولنے پر وعیدات قرآن کریم اور احادیث میں موجود ہیں، جو تنبیہاً سنائی جاتی ہیں، تاکہ قرآن کریم سے کوئی حافظ، قاری اور عالم غافل نہ ہو، صحیح بخاری ومسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ :
 ’’تَعَاہَدُوْا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِّنَ الْإِبِلِ فِيْ عَقْلِہَا -متفق علیہ-‘‘                                                                 (مشکوۃ:۱۹) 
’’قرآن کریم کی حفاظت کرو، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، یہ قرآن اونٹ کے اپنی مہار سے نکلنے سے زیادہ تیز ہے۔‘‘
اور بھولنے پر وعید حدیث میں ہے: 
’’قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : بئس ما لأحدہم أن یقول: نسیت آیِ کیت وکیت بل نُسِيَ واستذکر القرآن فإنہٗ أشد تفصیًا من صدور الرجال من الفم -متفق علیہ-۔‘‘                                              (مشکوۃ:۱۹)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بہت برا ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیاہوں، ایسا نہیں بلکہ وہ بھلادیا گیا ہے، قرآن مجید کو یاد کرو، کیونکہ وہ منہ کی بنسبت لوگوں کے سینوں سے زیادہ جلدی نکلنے والا ہے۔‘‘
ان احادیث سے جہاں یہ ثابت ہورہا ہے کہ قرآن کریم کا محفوظ رہنا بار بار دہرائی اور دور سے ہوتا ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہورہا کہ بھلانے پر وعید بھی ہے، بلکہ فرمایا کہ: کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بھول گیا، بلکہ بھلادیا گیا۔
موصوف کے نزدیک ’’ان وعیدات کا مقصد قرآن مجید سے تعلق پیدا کرلینے کے بعد اگر وہ اسے بھول جائیں گے تو ان سے سخت مواخذہ ہوگا۔‘‘
جواب: اول تو کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اس تعلق سے کیا مراد ہے؟ اس کی درست تشریح کیا ہے؟اور پھر یہ تعلق والی بات کس قرآن کریم کی آیت یا حدیث سے ثابت ہے؟ اور اردو محاورہ میں تعلق کا کیا معنی لیا جاتا ہے؟ اور نیز محض تعلق والی بات کہہ کر قرآن کریم کی عظمت اور حیثیت میں کیا کمی نہیں کی جارہی؟
۵:-’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قرآن مجید کے حفظ کرنے کی ترغیب دلانے والی روایات میں سے جو معیارِ صحت پر پورا اُترتی ہیں ان میں بھی اس تصور کا پایا جانا ممکن نہیں کہ آپ نے لوگوں کو بلا سمجھے قرآن مجید کو زبانی یا دکرنے کی تلقین فرمائی ہو ۔ آپ کے مخاطبین قرآن مجید کی زبا ن سے واقف تھے، ان کے لیے اسے سمجھے بغیر یادکرلینا متصور ہی نہیں۔ البتہ عرب کی غالب اکثریت لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی ، لکھنے پڑھنے کا سامان بھی کم یاب تھا، قرآن مجید ان سب کو لکھ کر دے بھی دیا جاتا تو وہ اسے پڑھ نہیں سکتے تھے، قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ اسے حفظ کرلینے کی یہ ہدایات انھیں اس بنا پر دی گئیں کہ ان کے لیے قرآن مجید سے مراجعت کا یہی طریقہ رہ جاتا تھا کہ وہ اسے زبانی یاد بھی کرلیں۔ یوں اُس وقت قرآن مجید کے حفظ کے ذریعے سے بھی اس کی حفاظت کا کام لیا گیا، لیکن اس کی وجہ حالات کی یہ مجبوری تھی۔ چنانچہ عرب کے لوگ اپنی عادت کے مطابق قرآن مجید کو یاد کر لیتے تھے، جیسے وہ خطباء اور شعراء کے کلام کو زبانی یاد کر لیتے تھے۔‘‘
جواب: گویا مضمون نگار نے مان لیا کہ حفظِ قرآن کی ترغیب دلانے والی روایات (احادیث) موجود ہیںاور صحابہ کرامؓ حفظ بھی کرتے تھے، اگرچہ ان کو حالات کی مجبوری بتایا، جب کہ صحابہ کرامs تو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کا کلام اور اپنے ایمان میں اضافے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے خوش ہوکر اس کی تلاوت اور حفظ کیا کرتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: 
’’وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ أَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖ إِیْمَانًا فَأَمَّا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۔‘‘                                     (التوبۃ:۱۲۴)
’’ اور جب نازل ہوتی ہے کوئی سورت تو بعضے ان میں کہتے ہیں: کس کا تم میں سے زیادہ کردیا اس سورت نے ایمان؟ سو جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کا زیادہ کردیا اس سورت نے ایمان اور وہ خوش وقت ہوتے ہیں۔‘‘
باقی چونکہ حفظِ قرآن تعلیم اسلام کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے، حفظ کے بعد پھر یہ جان پہچان کہ یہ قرآن کریم کا کلمہ، اسم ہے یا فعل ہے یا حرف ہے، یا پھر ان کی ترکیب کیا ہے؟ پھر اس ترکیب کے ساتھ معنی کیا بنتا ہے؟ پھر عربی الفاظ کی لغات کیا ہیں؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد جمہور امت نے اس کا کیا مطلب لیا ہے؟ یہ تمام مراحل قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں تو حفظ کے بعد ان کا مرحلہ آتا ہے اور الحمد للہ! اکثریت حفاظ کی یہ مراحل بھی عبور کرلیتی ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ صرف حفظ کرکے رک جاؤ، بلکہ علمائے کرام تو ترغیب دیتے ہیں کہ حافظ بننے کے ساتھ ساتھ عالم بھی بنو، اگلے مراحل بھی طے کرو۔ ہاں! بعض لوگ حفظ کے بعد معروضی حالات کی بناپر یا تو یہیں تک رک جاتے ہیں یا دوسری دنیوی راہ اختیار کرلیتے ہیں تو اتنا تو ان میں بھی فضیلت اور شرف موجود ہے کہ وہ قرآن کریم کے الفاظ کے حاملین ہیں، پھر اللہ تعالیٰ آگے ان سے بھی کم از کم اتنا تو کام لے لیتا ہے کہ وہ اس کلام اور پیام کے الفاظ کا ابلاغ اگلی نسلوں تک کرلیتے ہیں۔ تو کیا موصوف ان حفاظ کو اس شرف اور فضیلت سے بھی محروم رکھنا چاہتے ہیں؟! 
۶:-’’یہ خیال ایجاد کیا گیا کہ قرآن مجید کا حفظ کرنا معجزہ ہے۔ یہ حقیقتاً درست نہیں۔ قرآن مجید صبح سے لے کر شام تک کا سارا وقت لگا کر اوسطا ً تین سے چار سال میں حفظ کیا جاتا ہے۔ اتنا وقت اتنی ضخامت کی کسی بھی کتاب کو زبانی یاد کرنے کے لیے کافی ہے۔‘‘
جواب: مضمون نگار قرآن کریم کے حفظ کو اللہ تعالیٰ کی عنایت اور قرآن کریم کا اعجاز ماننے کے لیے بھی تیار نہیں، یہ ایک ایسی بدیہی بات کا انکار ہے، جس کی مثال دنیا میں نہیںملتی۔ جس طرح ایک آدمی دن دہاڑے سورج کا انکار کرے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اسی طرح اس بات کے انکار کا بھی کوئی علاج نہیں۔ تاریخ میں موجود ہے کہ امام محمدؒ -جو امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں- نے ایک ہفتہ میں مکمل قرآن کریم حفظ کرلیا۔اس کے علاوہ تاریخ میں اور کتنی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے سامنے ایک ایسی مثال بھی موجود ہے کہ گزشتہ سال اقرأ روضۃ الاطفال ٹرسٹ لاہور کی تقریب میں ایک پونے چار سال کی بچی کو اسٹیج پر لایا گیا جس نے آٹھ ماہ میں پورا قرآن حفظ کرلیا اور اس نے مختلف جگہوں سے تلاوت کرکے قرآن کریم سنایا۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے؟ صاحبِ مضمون سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ اور کسی کتاب کے صرف ایک حافظ کو دکھلادیں، جس نے قرآن کریم جتنا بڑی کتاب کو اتنے مختصر عرصہ میں حفظ کرلیا ہو: ’’ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ۔‘‘ 
۷:-’’ایک متھ یہ بھی ایجاد کی گئی ہے کہ حافظ قرآن کا ذہن زیادہ تیز ہوتا ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کچھ بچے تو قدرتی طور پر زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کے والدین انھیں حفظ میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ بچے دیگر میدانوں میں بھی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاہم عام حافظ کا ذہن رٹا لگانے میں ماہر ہو جاتا ہے۔ فہم کلام کی مشق اس نے بچپن کے اس دور میں نہیں کی ہوتی جب یہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ تعلیمی نظام عمومی طور پر رٹا پر مبنی ہے ،اس لیے حفاظ یہاں بھی اچھی کارکردگی دکھا پاتے ہیں، مگر یہ حقیقت میں کوئی خوبی نہیں۔‘‘
جواب: موصوف کی یہ تمام باتیں خود تراشیدہ اور حقائق سے بہت دور ہیں، قرآن کریم پڑھنے ہی کی برکت سے ذہن تیز اور قوی ہوتا ہے۔ پڑھی ہوئی یا سنی ہوئی باتوں کو یاد کرلینے کا ملکہ قوی اور تیز ہوجاتا ہے، اس بناپر وہ دوسرے میدانوں میں بھی بہت اچھی کارکردگی دکھاتا ہے،یہ ایسے حقائق ہیں جن کا زمانہ شاہد ہے۔ موصوف نے تو پورے پاکستان کے تعلیمی نظام پر بھی الزام لگادیا کہ یہاں تعلیم رٹے پر مبنی ہے، جس کا جواب محکمہ تعلیم کے ذمہ ہے۔ راقم الحروف سمجھتا ہے کہ محض اپنی بات بنانے اور پاکستان کے پورے تعلیمی نظام کو موردِ الزام ٹھہرانا یہ بہت بڑی جسارت، زیادتی اور بہت بڑا الزام ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
۸:-’’موجودہ دور میں جب کہ قرآن مجید کو محفوظ رکھنے، پڑھنے اور آیات اور موضوعات تلاش کرنے کے جدیدترین ذرائع وجود میں آ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں انسان کے قیمتی وقت کو ایک ایسی مشقت میں لگایا جائے جس کا کوئی مطالبہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اورنہ دین کا کوئی مفاد اب اس سے وابستہ ہے۔‘‘
جواب: موصوف سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آپ اپنی ذات کے متعلق ان آلات اور ذرائع پر کیا کلی اعتماد کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں کرسکتے تو آپ قرآن کریم جیسی کتاب کو ان ذرائع کا تختۂ مشق بنانے پر کیوں مصر اور تلے ہوئے ہیں اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کفار‘ قرآن کریم کو مٹانے کے کیا کیا حربے کرچکے ہیں، آج بھی کررہے ہیں اور آگے چل کر بھی کریں گے ۔ کہیں موصوف کی یہ تجویز ان کے کام کو آسان کرنے کی معاون اور ممد تو نہیں؟ قرآن کریم کو حفظ کرنا محض مشقت نہیں، بلکہ سعادت، فضیلت اور اعزاز ہے، جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور مذکورہ بالاآیات اور احادیث اس پر کافی شاہد اور دلیل ہیں۔
آخر میں بطور ہمدردی اور خیرخواہی کے عرض کرنا چاہوں گا کہ موصوف اس تحریر سے دین اسلام، قرآن کریم اور مسلمانوں کی تو کوئی خدمت کر نہیں رہے، بلکہ قرآن کریم کی حفاظت، اس کی عظمت، اس کے تقدس واحترام اور مسلمانوں کے قرآنی نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور ان کی اس سوچ، فکر اور تدبیر سے کفار کا مقصد، منشأاور ان کی خواہش پورا کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے، اس کے علاوہ اس تحریر کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہم موصوف سے پوچھنا چاہیں گے: کیا آپ اپنی اس تحریر کو آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں لے کر پیش ہوسکتے ہیں؟ اور اس کاجواب دے سکتے ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ایسے لاحاصل کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ إن أرید إلا الإصلاح مااستطعت وماتوفیقی إلا باللّٰہ۔

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین