بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا قاری خلیل احمد بندھانی رحمۃ اللہ علیہ ( کچھ یادیں )

حضرت مولانا قاری خلیل احمد بندھانی v ( کچھ یادیں)

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سکھر کے مرکزی راہنما‘ مجلس شوریٰ کے رکن رکین، جامع مسجد سکھر کے خطیب، جامعہ اشرفیہ سکھر کے ناظم اعلیٰ، استاذ العلمائ، محبوب الطلبائ، اہلیانِ سکھر کی ہر دل عزیز شخصیت شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا قاری خلیل احمد بندھانی صاحب نور اللہ مرقدہٗ ۲۴؍فروری۲۰۱۵ء بروزمنگل بعد نماز عشاء ۳۰:۱۱بجے رات ایک کار حادثہ میں لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ میرا تعلق حضرت قاری صاحب سے زمانۂ طالب علمی اور زمانۂ تدریس میں کافی رہا ہے، اس لیے قاری صاحب کی زندگی کے متعلق چند سبق آموز واقعات یہاں لکھتا ہوں: درجہ اولیٰ بندہ نے جامعہ اشرفیہ سکھر میں پڑھا، نحومیر جس استاذ کے زیر درس تھی وہ استاذ بہت ہی محنتی و جفا کش اور پڑھانے کا حق ادا کرنے والے تھے۔ ہر درجہ میں اعلیٰ، متوسط اور غبی طلبہ ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ استاذ کا سبق تمام درجہ کے تمام طلبہ کو سمجھ آجائے یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اعلیٰ ذہن کے طلبہ سبق سمجھ جاتے ہیں اور متوسط ذہن کے طلبہ کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور غبی ذہن کے طلبہ بالکل ہی سبق نہیں سمجھتے۔ ہمارے نحومیر کے سبق میں کچھ طلبہ احساسِ کمتری کا شکار ہوئے، انہوں نے ایسی گیم کھیلی کہ دوسرے طلبہ بھی ان کے ہم نوا بن گئے اور اکٹھے ہو کر حضرت قاری خلیل احمد بندھانی صاحب کے پاس دفتر میں چلے گئے اور شکایت کردی کہ ہم کو سبق سمجھ نہیں آتا، لہٰذا ہمارے سبق کا بندو بست کیا جائے اور استاذ تبدیل کیا جائے۔ اس موقع پر حضرت قاری صاحب نے جس حکمت و بصیرت سے کام لیا وہ انہی کا حصہ تھا، اس وقت سب کی پوری بات سن لی اور سب کو اگلے وقت کے انتظار کا کہہ کر فی الحال روانہ کردیا اور خود تنہا ہر ایک طالب علم کو مختلف اوقات میں بلاتے رہے اور جو کچھ نحومیر پڑھی تھی، اس میں سے سوال کرتے رہے۔ جب سب سے خود امتحان لے لیا، اس کے بعد سب کو اکٹھے بلایا اور ہر ایک کو کہا کہ میں نے تمہارا امتحان لیا اور تم نے جو جواب دیا ہے وہ درست جواب دیا ہے۔ جب آپ جوابات درست دے رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ آپ کو استاذ صحیح پڑھاتا ہے، مجھے یہ لگتا ہے کہ تم احساس کمتری میں مبتلا ہو، اس کا علاج استاذ کی تبدیلی نہیں ہے، بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف رجوع کرو اور مزید محنت کرو، ان شاء اللہ! تمہاری یہ شکایت دور ہو جائے گی اور ہوا بھی ایسا ہی۔ قربان جائیے قاری صاحب کی حکمت و بصیرت پر کہ استاذ کا وقار بھی برقرار رکھا اور طلبہ کو ایسا مطمئن کیا اور احساس دلایا کہ غلطی تمہاری ہے اور ہمیشہ ہمیشہ استاذ کی بد دعا سے ایسا بچایا کہ استاذ کو اس بات کا پتہ بھی نہیں لگنے دیا۔ اب تو بس دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ قاری صاحب غریق جنت ہوں۔ جامعہ اشرفیہ سکھر میں جب درجہ ثانیہ عامہ کا سالانہ امتحان وفاق المدارس العربیہ کے تحت دے کر فارغ ہوا تو معلوم ہوا کہ آئندہ سال سے جامعہ اشرفیہ سکھر میں شیخ الحدیث کے عہدے پر جامع المنقول والمعقول فاضل دیو بند دارالہدیٰ ٹھیڑی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالھادی میمن صاحب v براجمان ہوں گے۔ مولانا عبدالھادی v کا اندرون سندھ میں تدریسی اور علمی مقام ومرتبہ اور بزرگی کے حوالے سے ایک بڑا درجہ تھا اور خاصی شہرت حاصل تھی، اس لیے جامعہ کے تمام طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میں نے اس سے قبل مولانا صاحب کے ساتھ ملاقات تو درکنار نام بھی نہیں سنا تھا۔ اللہ رب العزت نے توفیق بخشی کہ میں نے دعا کی: اے اللہ! اس عاجز کو ان کی خدمت کی توفیق بخش اور خدمت کا موقع نصیب فرما۔ یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جنازہ ہے، لوگ جنازہ کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں، لیکن زمین سے آگ نکل رہی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے، کسی نے کہا کہ آگے ایک بزرگ بیٹھے ہیں، ان سے دعا کرائیں، چنانچہ جب آگے گیا تو ایک سفید ریش بزرگ مراقبہ میں تشریف فرما ہیں، چنانچہ ان کو دعا کے لیے کہا گیا، انہوں نے دعا فرمائی تو آگ آہستہ آہستہ زمین بوس ہو گئی۔ اس بزرگ کا نقش میرے دماغ میں ہو بہو موجود تھا، بہر حال سالانہ تعطیلات ختم ہو گئیں، ۱۰؍ شوال المکرم کو داخلہ کے لیے حاضر ہوا، جب دارالحدیث کے سامنے گزرا تو وہی شکل و صورت جو خواب میں دیکھی تھی‘ عالم بیداری میں سامنے موجودتھی۔ دارالحدیث کے اندر داخل ہوا، مصافحہ کیا اور بیٹھ گیا، اتنے میں حضرت قاری خلیل احمد صاحب نور اللہ مرقدہٗ بھی تشریف لائے اور ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ مولانا عبدالھادی v سے حال احوال ہوا تو مولانا عبدالھادی صاحبؒ نے فرمایا کہ: میں بوڑھا آدمی ہوں، چلنے میں عصا کے ساتھ ساتھ ایک اور سہارے کا محتاج ہوں، نیز کھانا کھلانے، کپڑے دھونے، مسجد لے جانے اور لے کر آنے کے لیے بھی کسی سہارے کا محتاج ہوں، لہٰذا کسی طالب علم کو میری خدمت کے لیے مقرر فرمادیں۔ حضرت قاری صاحب نے میری طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا کہ یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ بندہ تو پہلے ہی تیار تھا، پھر حضرت قاری صاحب کے انتخاب نے اس میں روح بھر دی۔ اللہ پاک نے خدمت کا موقع دیا، آج جب وہ منظر سامنے آتا ہے تو دل سے حضرت قاری صاحب کے لیے دعا نکلتی ہے۔ ان کے اس انتخاب نے کیا رنگ بھر دیا، اس انتخاب کی وجہ سے آج تدریس کے ساتھ منسلک ہوں۔ چند دن گزرے تھے کہ حضرت مولانا قاری محمد اسماعیل میمن صاحب v(گول مسجد والے)  حضرت مولانا عبدالھادی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ قاری خلیل احمد صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی اور قاری صاحب ادب کی وجہ سے آپ سے جامعہ کے ایک اصول کے بارے میں بات نہیں کر پا رہے ہیں اور مجھے فرمایا کہ آپ حضرت صاحب سے میری طرف سے گفتگو کریں اور ان کو جامعہ ہٰذا کا ایک اصول بھی بتا دیں کہ جامعہ ہٰذا میں جو استاذ جامعہ کے مطبخ سے کھانا کھاتا ہے، اس کو ماہانہ کچھ رقم جو جامعہ ہٰذا کی طرف سے مقرر ہے وہ تنخواہ میں سے کٹوتی کروانی پڑتی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ آپ کااس بارے میں مشورہ کیا ہے؟ مولانا عبدالھادی v نے فرمایا کہ جو جامعہ کا اصول ہے، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس  سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت قاری صاحب کے دل میں اساتذۂ کرام خصوصاً بڑے اساتذہ کرام کے بارے میں کتنا ادب و احترام تھا۔ کاش! ہمیں بھی ایسا ادب و احترام نصیب ہو۔ قاری صاحب نے اس طریقہ کار سے جامعہ کا اصول و ضابطہ بھی برقرار رکھا اور بڑوں کے ادب کا تقاضا بھی پورا کیا۔ میرے محراب پور کے ایک ساتھی کی شادی سکھر میں ہوئی اور بچے بھی ہو گئے، میاں بیوی میں اَن بَن ہوئی، بات طلاق تک پہنچی اور طلاق ہو گئی۔ والد کا اپنی اولاد سے محبت کرنا ایک فطری امر ہے۔ ان کی بیوی‘ بچے اپنے ساتھ لے گئی، جب کبھی اس کو اپنی اولاد کی محبت ستاتی تو میرے پاس آتا کہ سکھر شہر میں قاری خلیل احمد صاحب کا اثر ورسوخ کافی زیادہ ہے اور آپ کے استاذ ہیں، لہٰذا آپ میرے ساتھ چلیں، بہر حال ایک دن سکھر حضرت قاری صاحب کے پاس جانے کے لیے دن مقرر کر لیا اور وہاں پہنچے تو حضرت قاری صاحب نے پرتپاک استقبال کیا اور اکرام سے نوازا، حال احوال ہوا، قاری صاحب نے اس کا حل بھی بتادیا، ملاقات نہیں ہوئی، ہم محراب پور واپس آگئے۔ حضرت قاری صاحب کو اس احوال کی اطلاع بھی نہ کر سکے، کچھ ماہ کے بعد حضرت قاری صاحب کا محراب پور آنا ہوا، جیسے ہی میری ملاقات ہوئی فوراً پوچھا اور کہا کہ آپ نے اطلاع تک نہیں دی اور آپ کو اطلاع دینی چاہیے تھی، بندہ کو شدید احساس ہوا اور اپنی کوتاہی غلطی پرنادم بھی ہوا اور آئندہ کے لیے سبق بھی مل گیا۔ اتنے مصروف ترین آدمی جن سے روزانہ بے شمار لوگ اپنے مسائل حل کرواتے ہوں، ان کو کئی ماہ گزرنے کے باوجود وہ بات یاد ہے اور یہ یاد وہی رکھ سکتا ہے جس کے دل میں انسانوں کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ حضرت قاری صاحبؒ ہر جمعہ کی رات بعد نمازِ عشاء بزم میں تشریف لاتے اور تمام طلبہ کی تقاریر خود سنتے۔ آپ خود بھی خطیب تھے اور فن ِخطابت کے رموز، اتار چڑھائو پرکافی دسترس حاصل تھی، اس لیے آخر میں ہر طالب علم کی اصلاح فرماتے، اندازِ تقریر بیان فرماتے، حتیٰ کہ الفاظ کی ادائیگی اور الفاظ کے محل وقوع بھی بتادیتے کہ فلاں جگہ اس انداز سے بات کرنی ہے اور اِن اِن الفاظ کو ادا کرنا ہے۔ کیا ہی عجب مرد تھے!حضرت قاری صاحب کے اس انداز تربیت سے بہت سے طلبہ میدانِ خطابت کے شہ سوار بنے۔ جس طرح ہر شاگرد کو اپنے استاذ سے قلبی تعلق ہوتا ہے، اسی طرح ہر استاذ کو اپنے شاگرد سے قلبی تعلق ہوتا ہے، حضرت قاری صاحب میںمیں نے یہ وصف بہت ہی زیادہ پایا، جب کبھی کوئی شاگرد ملاقات کے لیے حاضری دیتا تھا تو آپ کا اخلاق کریمانہ ایسا ہوتا تھا کہ شاگرد موم ہو جاتا اور دوبارہ ملاقات کی طلب و آرزو لے کر رخصت ہوتا۔ ہر استاذ اپنے شاگرد پر ایسے شفیق ہوتا ہے جیسے اپنی اولاد پر۔ کبھی کبھار شاگرد اپنے استاذ سے بے تکلف ہو کر بھی گفتگو کرنے کا انداز اپناتا ہے، چوں کہ حضرت قاری صاحب پر جمال کا غلبہ تھا، ایک بار میں نے درجہ خامسہ کے تفسیر کے سبق میں کہہ دیا کہ استاذ جی! سبق کی رفتار بہت کم ہے، منزل دس پارہ ہے، یہ کب پورے ہوں گے؟ اور آپ کی مصروفیت بھی بہت ہے۔ آپ نے توجہ سے بات سن کر مسکرادیا اور فرمایا: ان شاء اللہ! وقت مقررہ پر منزل پر پہنچیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کی زندگی کی جمیع حسنات کو قبول فرماکر نجات کا ذریعہ بنائے اور سیئات سے عفو و درگزر کا معاملہ فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور درجات کو اللہ پاک اپنی شان کے مطابق بلند سے بلند عطا فرمائے۔ آمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین