بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا عبد الرحیم بستویؒ استاد دارالعلوم دیوبند کی رحلت! (۱۳۵۳-۱۴۳۶ھـــ= ۱۹۳۴-۲۰۱۵ء)

حضرت مولانا عبد الرحیم بستویؒ استاد دارالعلوم دیوبند کی رحلت! (۱۳۵۳-۱۴۳۶ھـــ= ۱۹۳۴-۲۰۱۵ء)

    رواں پندرہویں صدی ہجری کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے احقر کو دارالعلوم دیوبند پہنچنے اور تعلیمی سال ۱۴۰۱ھ- ۱۴۰۲ھ کو دورۂ حدیث میں داخلہ لینے کی سعادت سے نوازا۔ اُسی سال حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب بستویv کو- جو جنوبی ہند کے کسی مدرسہ میں صدر المدرسین کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے- دار العلوم بلایاگیا اور پڑھانے کے لیے ان کو درجاتِ متوسطہ تک کی کتابیں دی گئیں۔ احقر چونکہ دورۂ حدیث کا طالبِ علم تھا، اس لیے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحبؒ سے پڑھنے کا موقع تو نہ مل سکا جس سے ان کے طرزِ تدریس، افہام وتفہیم اور مزاج کا براہِ راست اور فوری ـطور پر کچھ نہ کچھ اندازہ ہوجاتا، البتہ ان کی تشریف آوری کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک دفعہ (غالباً شبِ جمعہ کو) طلبہ کے لیے ان کے اصلاحی بیان کا انتظام کیاگیا تھا، جس میں احقر بھی حاضر ہوگیا تھا، اور یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ان کو قریب سے دیکھنے اور ان کی علمی اور اصلاحی باتیں سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔     مولانا نے اپنے بیان میں دل نشین اور عام فہم انداز میں علمی اور اصلاحی باتیں بھی کہیں اور چند آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے باریکیاں بھی خوب بیان کیں۔ ان کے اس بیان سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بامہارت ونکتہ رس اور افہام وتفہیم پر قدرت رکھنے والے مقرّر بھی ہیں، اور طلبہ کے ساتھ شفقت وہمدردی کا ولولہ بھی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔     رفتہ رفتہ طلبہ میں ان کی صلاحیت اور بالخصوص فن تفسیر ومعقولات کے میدان میں ان کی مہارت، میدانِ خطابت میں ان کی ہنرمندی اور افہام وتفہیم پر ان کی مقدرت کا چرچہ ہونے لگا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف ایک کہنہ مشق مدرس اور کامیاب مقرّر ہیں اور دارالعلوم سے فراغت کے بعد مختلف مدارس میں تدریس کی ذمہ داری انجام دیتے رہے ہیں، اور فن خطابت میں خداداد مہارت کے ذریعہ عامّۃ المسلمین کی اصلاح بھی فرماتے رہے ہیں، اور بالخصوص جنوبی ہند میں ان کا ایک اچھا خاصا بڑا حلقۂ احباب ہے، لیکن انہوں نے اپنی مادر علمی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک معمولی مشاہرہ پر اس کی خدمت کو ترجیح دی اور جنوبی ہند کو خیرباد کہا۔ ان تمام باتوں سے یہ امید پختہ ہوگئی کہ ان شاء اللہ! مولانا کے ورودِ مسعود سے مادر علمی کو فائدہ ہوگا۔ حضرت مولاناکی دس سالہ رفاقت اور قریب سے دیکھنے کے مواقع     دورۂ حدیث سے فارغ ہونے کے بعد اگلے تعلیمی سال ۱۴۰۲ھ-۱۴۰۳ھ کو احقر نے اپنی مادر علمی کے شعبۂ افتاء (تخصص فی الفقہ) میں داخلہ لیا، جس کا دورانیہ ایک سال تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ اگلے سال اپنے آبائی علاقہ جاکر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دین کی خدمت کرنے اور اپنی مادرِ علمی کی آواز کو اپنے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا، بہ عبارتِ دیگر! شعبۂ افتاء (تخصص فی الفقہ) میں داخلہ سورۂ توبہ کی آیت نمبر: ۱۲۲کے اس جملہ پر عمل کرنے کی کوشش تھی ’’لِیَتَفَقَّہُوْا فِيْ الدِّیْنِ‘‘ (تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کریں) اور اگلے سال کے لیے مذکورہ آیت کے دوسرے جملہ ’’وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ‘‘ (اور جب اپنے لوگوں کے پاس لوٹ کر آئیںتو ان کوآگاہ کریں) پر عمل کرنے کا ارادہ تھا، لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا! اور وہ یہ کہ چونکہ دور افتادہ پہاڑی علاقہ سے آنے والا ایک نادیدہ طالبِ علم صرف دوسال کے اندر دارالعلوم دیوبند کے علمی، عملی اور تربیتی میدان سے ایک معمولی مناسبت کے علاوہ کوئی خاطرخواہ استفادہ اور دیوبندیّت میں پختگی حاصل نہیں کرسکتا اور اگر غور کیا جائے تو مادرِ نَسَبی بھی اگرچہ ’’حولین کاملین‘‘ (دو مکمل سال) کے بعد اپنے جگر گوشہ کو دودھ پلانا بند کردیتی ہے، تاہم اس کو اپنی گود سے جدا نہیں کرتی اور نہ ہی اس کی تربیت کو موقوف کردیتی ہے، بلکہ صحیح معنوں میں تو اس کے بعد ہی اس کی تربیت شروع ہوتی ہے، لہٰذا! قدرت نے یہی چاہا کہ یہ حقیر طالب علم ابھی اپنی مادرِ علمی کی گود سے جدا نہ ہو، بلکہ اپنے اساتذۂ کرام ومشایخ عظام کی زیرسرپرستی احاطۂ دارالعلوم میں تدریس کا سلسلہ شروع کردے جو در حقیقت سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کا ایک نیا راستہ ہوگا۔     قدرتِ ایزدی کے اسی فیصلہ کے مطابق سال ۱۴۰۳ھ کو مدرس کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں احقر کا تقرر ہوا اور ماہِ ربیع الاول ۱۴۰۳ھ کو تدریس کا آغاز بھی کردیا۔ دارالعلوم دیوبند کی مسجد (مسجدِ قدیم) میں امامت وخطابت کی ذمہ داری بھی دورۂ حدیث کے سال سے اپنے بڑوں کے حکم پر احقر انجام دے رہا تھا۔ تدریس وامامت وخطابت کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا، اس دوران دارالعلوم کے اساتذۂ کرام ومشایخ عظام سے استفادہ کرنے، مسلکِ دارالعلوم کو سمجھنے، اساتذۂ کرام کی عاداتِ کریمہ اور خصالِ حمیدہ سے واقف ہونے اور ان کے آپس میں قائم خوشگوار ومخلصانہ تعلقات کو قریب سے دیکھنے اور مہمانانِ رسول a (طلبۂ عزیز)کے ساتھ ان کی بے پناہ شفقت او ران کی تربیت کے طریقۂ کار کو ملاحظہ کرنے کا ایک بابرکت موقع نصیب ہوا۔     دارالعلوم دیوبند کے دس سالہ زمانۂ تدریس میں احقر نے اپنے ذہن میں دارالعلوم کے احاطہ میں موجود اساتذۂ کرام کو ان کی عمر، علمی مراتب اور احقر کی ان سے وابستگی وتعلق کی نوعیت کے پیش نظر تین طبقات پر تقسیم کردیا تھا۔      پہلا طبقہ ان اساتذۂ کرام کا تھا جن کے سامنے احقر نے زانوئے ادب وشاگردی تہ کردیا تھا اور انہوں نے احقر کو پڑھایاتھا اور تربیت بھی فرمائی تھی، جیسے حضرت مرشدی واستاذی مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب صدر مفتی قدس سرہ، حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب صدر المدرسینv، حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خان صاحب شیخ الحدیثv،حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری موجودہ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دامت برکاتہم، حضرت الأستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری استاد حدیث وسابق ناظم تعلیمات زیدمجدہم اور حضرت الاستاذ مولانا قمر الدین احمد صاحب گورکھپوری استاد حدیث مدظلہم۔ ان حضرات کے ساتھ احقر کا تعلق نیازمندانہ رہا اور ان کی تعظیم واحترام اپنی سعادت وکامیابی کا اہم ذریعہ سمجھتا رہا اور ان سے استفادہ تدریس کے زمانہ میں بھی جاری رہا، بلکہ ان میں سے جو بقید حیات ہیں (اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں میں برکت عطا فرمائے) ان سے آج تک بذریعۂ فون یا خط وکتابت مسلسل رابطہ اور استفادہ کا سلسلہ قائم ہے، وللّٰہ الحمد۔      دوسراطبقہ ان اساتذۂ کرام کا تھا جن سے احقر کو پڑھنے کی سعادت تو میسر نہیں ہوسکی تھی، البتہ علمی مقام میں ان کی برتری، استعداد وصلاحیت میں فوقیت اور عمر وتجربہ میں ان کی سبقت کی بنیاد پر احقر اُن کو بھی اپنے اساتذہ کا درجہ دیتا تھا اور ان کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنا اور ان کی صلاحیتوں اور تجربات سے فائدہ اٹھانا اپنے لیے سعادت سمجھتا تھا۔ ا س طبقہ میں حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانویؒ، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم، حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی مدظلہم اور حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہم جیسے حضرات تھے۔     تیسرا طبقہ ان حضراتِ اساتذہ کا تھاجو تقریباً میرے ہم عمر یا کچھ ہی بڑے تھے اور دارالعلوم میں ہم سب کی تقرریاں ایک ہی ساتھ یا کچھ آگے پیچھے ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ احقر کا تعلق دوستانہ اور بے تکلفانہ تھا، چنانچہ فارغ اوقات میں ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں اور دعوتوں کا تبادلہ بھی، کبھی عصر کے بعد چہل قدمی کے لیے ایک ہی ساتھ نکلنے کا سلسلہ بھی رہتا اور تہذیب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ظرافت وخوش طبعی، ہنسی مذاق اور ساتھ ساتھ علمی مباحشہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ اس طبقہ میں برادر مکرم جناب مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی موجودہ نائب مہتمم، جناب مولانا محمد نسیم صاحب بارہ بنکوی، جناب مولانا شوکت علی صاحب بستوی جیسے دوست واحباب تھے۔     حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب بستوی قدس سرہ اپنی عمر وتجربہ کی سبقت اور استعداد و صلاحیت کی برتری کی بنیاد پر ہماری نظروں میں مذکورہ بالا دوسرے طبقہ کے اساتذۂ کرام میں شامل اور قابلِ احترام تھے، لیکن ان کی تواضع وخوش اخلاقی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک مخلص اور بے تکلف دوست جیسا معاملہ رکھا اور ہمارے اس تیسرے طبقہ کے ایک رکنِ رکین بلکہ فردِ کامل بن گئے اور ہماری ملاقاتوں، دعوتوں، پرلطف مجالس اورعلمی مذاکروں میں مرکزی کردار ان ہی کا رہا اور ان کی موجودگی میں ہماری مجلسیں امام ابن شہاب زہری v کی روایت کردہ مرسَل حدیث ’’روّحوا القلوبَ ساعۃً وساعۃً‘‘ (رواہ ابو داود فی المراسیل رقم الحدیث:۴۴) یعنی ’’اپنے قلوب کو گھڑی گھڑی راحت پہنچاؤ‘‘ پر عمل کرنے کا بہترین منظر پیش کررہی ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا، اس دوران احقر نے حضرت مولانا عبد الرحیم بستوی v کے جن امتیازی اوصاف کا قریب ہی سے مشاہدہ کیا، ان میں سے چند اوصاف اختصار کے ساتھ درج کیے جارہے ہیں: خوش اخلاقی وخندہ روئی     حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب بستویؒ ایک انسیّت شعار، خوش اخلاق اور مانوس کر لینے والے عالم دین تھے، وہ ہرملنے والے شخص کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور کسی پر اپنا علمی رعب جمانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ بڑوں، چھوٹوں اور ہم عصروں سب کی نظروں میں یکساں مقبولیت، بلکہ محبوبیت کے حامل تھے۔ مولانا کے ساتھ دس سالہ رفاقت کے دوران مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی اپنے قول یا فعل سے کسی کو کوئی دکھ یا گزند پہنچایا ہو، یا کسی کو شکایت کا موقع دیاہو۔ امید ہے کہ نبی کریم a کے مندرجہ ذیل ارشاد کے مطابق انہوں نے اپنے نیک اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی بلند مقام حاصل کرلیا ہوگا:  ’’عن عائشۃ ؓ قالت سمعت رسول اللّٰہ a یقول إن المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ قائم اللیل وصائم النہار‘‘۔                                    (رواہ ابوداود) ترجمہ:’’حضرت عائشہ صدیقہ t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ a سے سنا، آپa ارشاد فرمارہے تھے کہ صاحبِ ایمان شخص اپنے اچھے اخلاق کے سبب ان لوگوں کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو رات بھر نفل نمازیں پڑھتے ہوںاور دن کو ہمیشہ روزے رکھتے ہوں‘‘۔ خیرخواہی وہمدردی     مولانا بستوی صاحبؒ کے امتیازی اوصاف میں سے ایک وصف خیرخواہی وہمدردی کا بھی تھا۔ وہ امت مسلمہ کے ہرفرد اور بالخصوص اپنے جاننے والوں اور ملنے والوں کے لیے اپنے دل میں للّٰہی محبت، مخلصانہ ہمدردی اور سچی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے تھے اور اپنے معاصرین کی ترقی وخوشحالی سے انہیں بڑی خوشی ہوتی تھی اور ان کومبارکباد ودعاؤں سے نوازتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مولانا کے قلب میں اُس باطنی بیماری کا کوئی خانہ نہیں، جس کے اثرات سے عوام کوتو چھوڑیئے خواص بھی بہ مشکل بچتے ہیں اور وہ بیماری خطرناک اس حد تک ہے کہ نبی a کے فرمان کے مطابق انسان کے نیک اعمال کو تباہ وغارت کردیتی ہے۔ اور اُس کا ایک دوسرا خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ چونکہ وہ چھپی ہوئی ہوتی ہے، اس لیے اس میں مبتلا شخص کی اصلاح بھی مشکل ہوتی ہے اور وہ جرأت کے ساتھ اس بیماری سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا رویہ، اس کے چہرے کی علامات اور اس کا طرز عمل اس پوشیدہ بیماری کی موجودگی کی خبر دیتا ہو۔ مولانا بستوی صاحبؒ نے اللہ کی توفیق سے اس بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا تھا اور وہ اپنی نیکیوں کو اس کے حوالہ کرنے کے ہرگز روادار نہ تھے۔ اس باطنی بیماری کا نام حسد ہے، جس سے نبی کریم a نے اپنی امت کو بچنے کی تاکید فرمائی ہے، مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو:     ’’عن أبي ہریرۃq عن النبي a قال: إیاکم والحسد فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب‘‘۔                               (رواہ ابو داود) ترجمہ:…’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: تم حسد سے بچو، اس لیے کہ حسد انسان کی نیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے‘‘۔ سخاوت ومہمان نوازی     حضرت مولانا عبد الرحیم صاحبؒ کے بلند اوصاف میںسے ایک وصف سخاوت وفیاضی کا بھی تھا۔ وہ کھلے دل سے اپنے دوست واحباب، عزیز طلبہ اور ملنے والوں پر خرچ کرتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی معمولی مگر بابرکت تنخواہ جب ان کو ملتی تو دوستوں کو جلیبیاں وغیرہ کھلائے بغیرانہیں چین نہیں آتا تھا۔ ان کا کمرہ نمبر ۱۱۶ جو مدنی گیٹ سے متصل جانب مشرق میں دار جدید کی دوسری منزل پر واقع تھا، دوست واحباب کی ملاقاتوں، دعوتوں اور پر لطف مجالس کا مرکز تھا۔ مولانا نے اپنی سخاوت وفیاضی اور خوش اخلاقی وشیریں کلامی کی وجہ سے ہرملنے والے کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا اور ہرشخص ان سے محبت کرتا تھا، اور امید یہ ہے کہ نبی کریم a کی مندرجہ ذیل حدیث کے مطابق ان کو اللہ تعالیٰ اور جنت کا قرب بھی حاصل ہوگا اور دوزخ سے نجات ودوری نصیب ہوگی: ’’عن أبي ہریرۃq عن النبي a قال: السخيُّ قریب من اللّٰہ، قریب من الجنۃ، قریب من الناس، بعید من النار والبخیل بعید من اللّٰہ، بعید من الجنۃ، بعید من الناس، قریب من النار، والجاہل السخيُّ أحب إلی اللّٰہ من عابد بخیل‘‘۔       (رواہ الترمذی) ترجمہ:…’’حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے کہ نبی کریمa نے فرمایا: سخی بندہ اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے (یعنی لوگ اس سے محبت کرتے ہیں)، دوزخ سے دور ہے (یعنی دوزخ سے نجات نصیب ہوگی) اور کنجوس آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے (یعنی جنت اس کو نصیب نہیں ہوگی) لوگوں سے دور ہے (یعنی لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں)، دوزخ سے قریب ہے اور بلاشبہ بے علم سخی بندہ اللہ تعالیٰ کو عبادت گزار کنجوس شخص سے زیادہ پیارا ہوتا ہے‘‘۔  متعلقین کی خبر گیری اور تعلقات کو نباہنا مولانا بستویv کی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ تعلقات کو ایک محدود وقت یا مخصوص مقصد کے حصول تک قائم رکھنے کے ہرگز قائل نہ تھے۔ وہ تعلقات کو نبھانے اور انجام تک پہنچادینے کے پاسدار تھے۔ محبت سے متعلق ان کی خواہش یہ رہتی تھی کہ محبت لِلّٰہ فی اللہ ہونی چاہیے اور قیامت کی اس گھڑی تک قائم رہنی چاہیے، جب اللہ تعالیٰ پکاریںگے کہ: ’’أین المتحابُّون بجلالي الیوم أظلہم في ظلي یوم لا ظل إلا ظلي‘‘(رواہ مسلم) یعنی ’’کہاں ہیں میرے وہ بندے جو میری عظمت وجلال کی وجہ سے آپس میں الفت ومحبت رکھتے تھے؟ آج جب کہ میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے، میں اپنے ان بندوں کو اپنے سایہ میں جگہ دوںگا‘‘۔     متعلقین کی خبر گیری اوران کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔ ابو عبد اللہ حاکمؒ نے ’’مستدرک‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی روایت سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ایک عمر رسیدہ خاتون نبی کریم a کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ a نے بہت ہی اہتمام کے ساتھ اس کی خیریت دریافت فرمائی اور حالات معلوم کیے، جب وہ چلی گئی تو میں (حضرت عائشہؓ) نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے اتنے اہتمام کے ساتھ اس بڑھیا خاتون کی مزاج پرسی کیوں فرمائی؟ آپ نے فرمایا کہ یہ خدیجہؓ کے زمانہ میں ملنے آیا کرتی تھی اور تعلقات کی اچھی حفاظت کرنا ایمان کی علامت ہے۔‘‘                                            (المستدرک-کتاب الایمان، حدیث نمبر: ۴۰)      امام بخاریv نے بھی اپنی کتاب ’’صحیح البخاری ۲/۸۸۸‘‘ میں کتاب الادب کے اندر باب نمبر ۲۳ بہ عنوان ’’باب حسن العہد من الإیمان‘‘ (تعلقات کی اچھی طرح پاسداری کرنا ایمان کی علامت ہے) قائم کرکے مذکورہ بالا حدیث کی طرف اشارہ فرمایاہے اور باب کے نیچے ایک اور حدیث ذکر کی ہے جس میں نبی کریم a کی طرف سے حضرت خدیجہa کی دوست خواتین کی خبر گیری اور ان کے پاس ہدایا بھیجنے کا تذکرہ ہے۔     بہرکیف! مذکورہ بالا چار اوصاف وہ عناصرِ اربعہ تھے جن کی ترکیب سے حضرت مولانا عبد الرحیم بستوی صاحبv کی شخصیت کو مقبولیت، محبوبیت، جاذبیت اور عظمت حاصل ہوگئی تھی اور آج ان کا ہر جاننے والا دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعا گو ہے اور ان کے فراق سے غمگین۔ ہرمسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی مستعار زندگی میں ایسا طرز اختیار کریں کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے راضی رہے اور اللہ کے بندے بھی دعا گو رہیں اور آخرت میں نجات نصیب ہو۔ احاطۂ دارالعلوم سے جدائی کے بعد احقر کے ان سے روابط  اور ان کے چند خطوط احقر کے نام     سال ۱۴۱۲ھ کو احقر کے والد ماجد کا پشین صوبہ بلوچستان میں انتقال ہوا، جس کے بعد والدہ محترمہ نے مجھے حکم دیا کہ اب تمہیں اپنی والدہ، بھائیوں اور بہنوں کی دیکھ بھال کے لیے مستقل طور پر پاکستان میں قیام کرنا چاہیئے۔ میرے لیے نہ تو مادرِ نسبی کے حکم سے روگردانی کا کوئی راستہ تھا اور نہ ہی ایک دم مادرِ علمی سے تعلقِ تدریس ختم کرنا آسان تھا، ا س لیے میں نے دارالعلوم دیوبند سے تحریری طور پر ایک طویل رخصت کی درخواست کی اور والدِ ماجد کے سانحۂ وفات سے بھی آگاہ کردیا، اس موقع پر ایک تحریر اپنے دوست جناب مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کے نام بھی ارسال کردی، جس میں مولاناعبد الرحیم صاحب بستویv اور چند دیگر حضرات کی خدمت میں سلام پیش کرنے کی درخواست اور والد ماجد کے سانحۂ وفات کی اطلاع درج تھی، اس تحریر کے جواب میں مولانا بستوی صاحبؒ کی مندرجہ ذیل تحریر موصول ہوئی: بحمد اللّٰہ تعالیٰ      صدیق مکرم حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب مُدَّکرمُہٗ استاذ دارالعلوم دیوبند     سلام مسلسل، امید کہ آپ بہمہ زاویہ بعافیت ہوںگے، یہاں آپ کی کمپنی بھی بخیریت مصروفِ تدریس ہے، مکرمت نامہ بنام برادر مکرم حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی مدّفیضہ استاد دارالعلوم دیوبند میرے مطالعہ میں بھی آیا، مندرجہ کوائف علم میں آئے، طویل رخصت کی وجہِ خاص سمجھ میں نہیں آئی، عید الاضحی کی تعطیل میں ہم لوگ اپنے اپنے وطن کے لیے پابہ رکاب ہیں، میری واپسی انشاء اللہ ۲۶؍جون کے بعد ہوگی، گھر پر کچھ مصروفیت ہوگی، اُدھر سے عمرہ کرتے ہوئے ۳؍اپریل کو دہلی واپس آگیا تھا، اور ۵؍اپریل اتوار کو گھر پہنچا، پھر ۱۵؍اپریل کو دیوبند آگیا، آپ کے والد ماجد کے انتقال پُر ملال کی خبر سے بڑا دکھ ہوا، اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور آپ حضرات کو اس عظیم سانحہ پر صبر جمیل دے، آمین۔ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کے والد ماجد بھی ۲۳؍مئی کو انتقال فرماگئے، إنا لِلّٰہ وإنا إلیہ راجعون، آپ ایک تعزیتی خط ضرور لکھ دیں۔     دیوبند میں شدید گرمی ہے، کسی پہلو چین نہیں، اُس جوتے کی ضرورت تو موسم سرما میں پڑے گی جب پاؤں میں خفَّین ہوںگے، خدا کرے آپ کو یاد رہے، حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم اور مولانا شفیق سلمہ بستوی کو بہت بہت سلام عرض ہے، اور اپنے بھائیوں کو بھی سلام یاد کہہ دیں۔                                    عبد الرحیم بستوی دارالعلوم دیوبند                                               6-6-92       مولانا نے اپنی تحریر میں جس جوتے کا ذکر فرمایا ہے وہ روسی ساخت کا ایک ہلکا مگر گرم جوتا ہوتا ہے جو سردیوں میں خفین کے ساتھ پہننے کے لیے موزوں ہوتا ہے، مولانا کو وہ جوتا پسند تھا، میں نے اپنی تحریر میں لکھ دیا تھا کہ اگر وہ دستیاب ہوجائے تو میں ان شاء اللہ بھیج دوںگا۔     مولانا سال ۱۹۸۷ء سے برابر رمضان المبارک کی تعطیل لندن میں مقیم مسلمانوں اور متعلقین کے اصرار وخواہش کے مطابق وہاں پر گزارتے تھے اور اپنے مؤثر بیانات ودرس قرآن کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح فرماتے تھے، لندن کے مذکورہ اسفار میں بیان کیے گئے ان کے مواعظ ’’خطباتِ لندن‘‘ کے نام سے شائع ہوتے تھے اور دینی حلقوں میں خوب پسند کیے جاتے تھے، مولانا کی ذرہ نوازی تھی کہ لندن میں قیام کے دوران کبھی احقر کو فون کرکے خبر گیری فرماتے تھے اور کبھی تحریر کے ذریعہ اپنے خلوص وشفقت کا اظہار فرماتے۔ مندرجہ ذیل تحریر انہوں نے لندن کے سفر سے واپسی پر ہندوستان سے احقر کے نام ارسال کردی تھی: بحمد اللّٰہ تعالیٰ       رفیق مکرم، صدیق محترم حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب افغانی دامت برکاتہم!     سلام مسلسل، امید کہ طرح دار مزاج بخیر ہوںگے، آپ کا پُر مزاح مکتوب نظر نواز ہوا، آپ کے زعفرانی جملے جب مجلسِ احباب میں پڑھ کر سنائے گئے تو پوری مجلس قہقہہ زار ہوگئی، لندن کے سفر سے جب میں واپس آیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے اپنے کمرہ میں جھاڑو پھیر دیا ہے تو اسی وقت گمان ہوا کہ بین السطور کچھ ہے، افسوس کہ مجلس کا ایک اہم رکن ہماری نظروں سے غائب ہوگیا، آپ کی یہ جدائی ہم پر شاق ہے، نوشتۂ تقدیر کو کیا کہا جائے، آپ کی وہ شیریں اور دل آویز گفتگو اب کہاں سے سن سکیںگے، حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی، حضرت مولانا نسیم احمد صاحب بارہ بنکوی اور حضرت مولانا شوکت علی صاحب بستوی آپ کے انتقالِ مکانی کو بری طرح محسوس کررہے ہیں، ویسے وہاں آپ کو یقینا سکون رہے گا، وطن سے قریب اور یافت بھی اچھی۔ بھائیوں کے بارے میں معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں اور کیا خدمت کررہے ہیں۔ عید الاضحی کی تعطیل میں گھر گیا تھا، ۲۷؍جون کو دیوبند واپس آیا، واپسی کے بعد دو ہفتہ علیل رہا، اب دو دن سے پھر بخار نے حملہ کردیا ہے، بخار کی حالت میں ہی یہ خط لکھ رہا ہوں، عزیزم شفیق بستوی سلمہ اچانک دیوبند آگئے، سوچا کہ موقع اچھا ہے، کیوں نہ چند سطریں آپ کی خدمت میں پیش کردی جائیں، سارے ’’ہُدی‘‘ آپ کو سلام کہتے ہیں۔     حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب قاسمی سلامِ یاد عرض کرتے ہیں۔                                 عبد الرحیم بستوی دارالعلوم دیوبند                                           28-7-92     مذکورہ بالا تحریر میں مولانا نے جو جملہ لکھا ہے ’’سارے ہُدیٰ آپ کو سلام کہتے ہیں‘‘ اس سے مراد اُن کے ۹؍صاحبزادے ہیں جن میں سے ہرایک کے نام کے آخر میں’’ہُدیٰ‘‘ لفظ ہے جیسے ’’نور الہدیٰ‘‘ وغیرہ۔ اگلے سال مولانا بستوی صاحبؒ نے لندن ہی سے مندرجہ ذیل تحریر ارسال کردی تھی: بحمد اللّٰہ تعالیٰ       رفیق مکرم، صدیق لئیق حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب افغانی استاد دارالعلوم دیوبند قبل سنۃ واحدۃ۔     سلام مسلسل، امید کہ آپ بہمہ زاویہ بخیر ہوںگے، میں یہ خط لندن سے لکھ رہا ہوں، ۲۲؍ فروری دو شنبہ کو یہاں پہنچا۔عید کے بعد ۲۷؍مارچ شنبہ کوان شاء اللہ دہلی کے لیے واپسی ہوگی۔ رمضان میں یہاں مشغلہ تفسیر قرآن اور بیان ہے۔ مولانا ریاست علی صاحب اور مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری بھی تشریف لائے ہیں، مگر یہ دونوں حضرات لندن سے دور دوسرے شہر میں ہیں، مولانا مفتی عبد الرزاق صاحب بھوپالی بھی آئے ہیں اور لندن ہی کی ایک مسجد میں قرآن کریم کی تفسیر کررہے ہیں۔ میں دہلی سے ان شاء اللہ! سیدھے گھر جاؤں گا، ۱۱/شوال کو ان شاء اللہ پھر دیوبندپہنچوں گا، آپ کو خط لکھنے میں تاخیر ہوگئی، اس تاخیر پر معذرت خواہ ہوں، مجھے کسی نے اطلاع دی ہے کہ عزیزم مولانا شفیق احمد بستوی عمرہ کے لیے گئے ہیں، ہوسکتا ہے آپ بھی تشریف لے گئے ہوں، یہ خط جب بھی نظر سے گزرے اور شفیق سلمہ ہوں تو میرا سلامِ یاد کہہ دیں۔ میرے ایک جگری دوست الحاج اظہارافسر صاحب بنگلور سے کراچی پہنچے ہوں، ہوسکتا ہے آپ سے ملاقات ہو، ان کے خط میں آپ کو سلام لکھا تھا، ملاقات پر ان کو بتادیں کہ میں ۲۷؍مارچ کو لندن سے ان شاء اللہ دہلی واپس ہوںگا، کبھی کبھی آپ کی یاد بہت ستاتی ہے، اب تو بظاہر ملاقات کی صورت بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ دعا کیجئے! کسی بہانے اللہ تعالیٰ مجھے ہی کراچی پہنچا دے، مجلس احباب میں آپ کی یاد رہتی ہے، مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ۱۰؍ رمضان تک دارالعلوم میں رہے ہوںگے، ا س کے بعد گھر چلے گئے ہوںگے۔ مولانا محمد نسیم صاحب رمضان سے پہلے ہی بچوں کو لے کر گھر جا چکے تھے، قاری جمشید صاحب مدراس گئے ہیں اور قاری عبد الرؤف صاحب رمضان میں کہیں نہیں گئے، والسلام                                      عبد الرحیم بستوی، لندن                                          15-3-93 مولانا سے احقر کی آخری ملاقات     ماہِ رجب ۱۴۳۵ھ کو ۲۳ ؍سالہ جدائی کے بعد اللہ تعالیٰ نے احقر کو ایک مرتبہ پھر اپنی مادرِ علمی کی زیارت کا موقع عنایت فرمایا، اس موقع پر حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب بستویؒ سے ان کی اقامت گاہ پر جو ’’دار المدرسین‘‘ میں واقع تھی ملاقات ہوگئی اور پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ مولانا نے حسبِ معمول شفقت واکرام کا معاملہ فرمایا اور ساتھ ساتھ ایک ہزار روپے کا مخلصانہ ومشفقانہ ہدیہ بھی پیش فرمایا، اور مزید ایک ہزار روپے میرے توسط سے مولانا شفیق احمد صاحب بستوی ناظم واستاد حدیث جامعہ خدیجۃ الکبریٰ کراچی کے لیے ہدیہ کے طورپر ارسال کردیئے، یہ کس کو معلوم تھا کہ اس دارِ فانی کے اندر مولانا بستوی صاحبؒ سے یہ میری آخری ملاقات ثابت ہوگی!؟ مجھے قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں گے اور مولانا اپنے مخلصانہ اور مشفقانہ مزاج کے مطابق وہاں پر بھی ہم جیسے قصوروار دوستوں کوفراموش نہیں کریںگے اور ہمارا سہارا بنیں گے۔ مولانا کے لائق وفائق اساتذۂ کرام     مولانا بستوی صاحبؒ نے دار العلوم دیوبند میں سال ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۹۵۲ء داخلہ لیا اور چار سال دارالعلوم میں رہ کرسال ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاویؒ، حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحب مراد آبادیؒ، حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب بلند شہریؒ، حضرت مولانا ظہور احمد صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا محمد جلیل صاحب کیرانویؒ اور حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی (قدس اللہ اسرارہم) ان کے دورۂ حدیث کے اساتذہ تھے۔ واضح رہے: شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ کے شاگردوں میں ٍسے دارالعلوم دیوبند کے اندر اب چند ہی حضرات بقید حیات رہ گئے ہیں۔     مولانا بستوی صاحبؒ کا شمار زمانۂ طالب علمی میں بھی ممتاز وفائق طلبہ میں ہوتا تھا، ان کے ہم وطن وہم سبق حضرت مولانا صادق علی صاحب قاسمی ’’خطباتِ لندن‘‘ کے ’’پیش لفظ‘‘ کے تحت بستوی صاحبؒ کے زمانۂ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:     ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن مغرب کے بعد احاطۂ دار جدید میں مولانا قطبی تصدیقات کا تکرار کرا رہے تھے، تقریباً ڈیڑھ دو سو طلبہ کا ایک جم غفیر تکرار میں شریک تھا، سبھی گوش برآواز، مجلسِ تکرار میں سناٹا، مولانا کے سامنے کوئی کتاب بھی نہیں ’’لڑتے ہیں مگرہاتھ میں تلوار بھی نہیں‘‘ کا سراپا، تقریر جاری ہے، ضلع اعظم گڑھ کی مشہور وقدیم درسگاہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عبد الباری صاحب جو اب مرحوم ہوچکے ہیں کسی ضرورت سے دارالعلوم تشریف لائے تھے، ادھر سے گزررہے تھے، طلبہ کے اس جم غفیر کو دیکھ کر رُک گئے، کوئی استاد یہاں میدان میں درس دے رہا ہے کیا؟ ان طلبہ سے پوچھا جو ان کے ہم وطن ان کے ہمراہ تھے، کہا: نہیں! بستی کا ایک طالب علم ہے عبد الرحیم، تکرار کرارہا ہے، فرمایا! اچھا! اتنے طلبہ تکرار میں؟ وہ کھڑے ہوکر سننے لگے، بہت خوش ہوئے اور بڑھ کر دو روپیہ انعام دیا، دو روپیہ اس زمانہ میں کچھ کم نہیں تھا، اگرچہ انعام کی مٹی بھی بڑی چیز اور یادگار ہوتی ہے‘‘۔ مولانا کا سفرِ آخرت، نماز جنازہ اور مزارِ قاسمی میں تدفین     مولانا نے ضعف ونقاہت کے باوجود تعلیمی سال ۱۴۳۵-۱۴۳۶ھ کے آخر تک پڑھایا اورماہِ شعبان امتحانِ سالانہ کی تکمیل کے بعد زمانۂ تعطیل میں بیماری اور کمزوری بتدریج بڑھتی گئی اور علاج کا سلسلہ بھی رہا، مگر کوئی خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا اوربیماری مایوس کن حد تک پہنچ گئی، مجھے برادر مکرم جناب مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی استاد ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے ان کی مذکورہ کیفیت کی اطلاع بذریعۂ فون کردی تھی۔ متعلقین سب ان کی صحت وعافیت کے لیے دعائیں کرتے رہے، یہاں تک کہ وقتِ موعود آپہنچا اور انہوں نے قمری حساب سے تقریباً تراسی سال اور شمسی حساب سے تقریباً اکیاسی سال کی عمر میں ۲۴/ذیقعدہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۹/ستمبر ۲۰۱۵ء بروز بدھ تقریباً نو بجے صبح داعی اجل کو لبیک کہا! إنا لِلّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم استاد حدیث وسابق ناظمِ تعلیمات کی امامت میں ادا کی گئی جس میں علماء کرام، طلبۂ عزیز، مولانا کے دیگر متعلقین وشہری حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی، نماز جنازہ کے بعد مولانا کی نعش کو مزارِ قاسمی میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ سمیت بڑے بڑے اکابرین واہل اللہ آسودۂ خواب ہیں۔ مولانا کی مغفرت ورفعِ درجات کے لیے دارالعلوم دیوبند اور ملک کے دیگر حصوں میں بلکہ بیرونِ ملک بھی متعلقین کی جانب سے ایصال ثواب ودعاؤں کا اہتمام کیاگیا اور ان شاء اللہ! دعاؤں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ محترمہ، اور لائق وفائق نو صاحبزادوں اور ایک صاحبزادی سمیت شاگردوں اور متعلقین کی ایک بڑی تعدادکو سوگوار چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں اور پس ماندگان ومتعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

حضرت مولانا اکرام اللہ خان صاحب کودلی صدمہ

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین