بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ                (۲)

مولاناؒ نے فرمایا کہ تحریک کے بعد جب تبلیغی سلسلہ میں لندن گیا تو وہاں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا اسٹیج ہے، جس کی سج دھج ہے، ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے۔ حضرت شیخ انور شاہ کاشمیریؒ اس پر تشریف فرماہیں، احباب ان سے مل رہے ہیں۔ سب لوگ فارغ ہوگئے تو میں (حضرت بنوریؒ) حاضر ہوا۔ آپ دیکھتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے، بغل گیر ہوئے، مجھے سینے سے لگایا، وہ بے پناہ خوشی وشادمانی کے عالم میں میری داڑھی کے بوسے لینے لگے اور میں نے خوشی وشادمانی کے عالم میں ان کی داڑھی مبارک کے بوسے لئے۔ دوسرا خواب میں نے دیکھا کہ حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کسی جگہ سے تشریف لائے ہوئے ہیں، مجھے دیکھتے ہی بے پناہ مسرت میں ’’واہ! میرے پھول، واہ! میرے پھول‘‘ کہتے ہوئے سینہ سے لگالیا۔ حضرت امیر شریعتؒ آبدیدہ تھے، چہرے پر مسرت نمایاں تھی۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جب مدرسہ کے طلباء جلسہ وجلوس میں حصہ لینے لگے تو حضرت بنوریؒ نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ضرورت پڑی تو سب سے پہلے بنوری اپنی گردن کٹوائے گا، پھر آپ کی باری آئے گی‘‘۔ انہی مبشرات کے ضمن میں جی چاہتا ہے کہ اس خط کا اقتباس بھی درج کردیا جائے جو حضرت کے ایک گہرے دوست الشیخ محمود الحافظ مکی نے آپ کو ملک شام سے لکھا تھا۔ اصل خط عربی میں ہے، یہاں اس کا متعلقہ حصہ اردو میں نقل کرتا ہوں۔ ’’میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ میں نے ۳؍ شعبان ۱۳۹۴ھ رات کو آپ کے بارے میں بہت عمدہ اور مبارک خواب دیکھا ہے، جس کی آپ کو مبارکباد دینا چاہتاہوں اور اس کو یہاں اختصار کے ساتھ نقل کرتا ہوں۔ میں نے آپ کو ایسے شیوخ کی جماعت کے ساتھ دیکھا ہے جو سن رسیدہ تھے، اور جن پر صلاح وتقویٰ کی علامات نمایاں تھیں، یہ سب حضرات اس قرآن کریم کے صفحات جمع کرنے میں مصروف تھے جو آنجناب نے اپنے قلم سے زعفرانی رنگ کی روشنائی سے بدست خود تحریر فرمایا ہے اور آنجناب کا قصد ہے کہ اسے لوگوں کے فائدہ عام کے لئے شائع کیا جائے۔ آپ نے اپنے اس ارادے کا اظہار نہایت مسرت وشادمانی کے ساتھ میری جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔صبح جب نماز فجر کے لئے اٹھا تو قلب فرحت سے لبریز تھا اور میں یقین رکھتا ہوںکہ آپ کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی وکامرانی کا تاج پہنایا ہے، والحمد للّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔‘‘یہ مبارک خواب تحریک ختم نبوت کے زمانے کا ہے۔ سنہرے حروف سے قرآن کریم لکھنے کے متعلق راقم کی رائے یہ ہے کہ اس فیصلہ کے ذریعہ آیت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) کو صفحاتِ عالم پر سنہرے حروف سے رقم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ مسٹر بھٹو کے زمانے میں جب قادیانیوں کا طوطی بولتا تھا، حضرت شیخ بنوریؒ نے متعدد ممالک اسلامیہ کو خطوط لکھے۔ افسوس! کہ وہ سب محفوظ نہیں۔ ماہنامہ بینات بنوریؒ نمبر سے دو خطوط درج ذیل ہیں، شاہ کو تحریر کیا: ’’سیدی ومولائی! ہر شخص اپنی طاقت وقدرت کے بقدر اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ ہے۔ آنجناب کو اللہ تعالیٰ نے وہ تمام وسائل عطا کر رکھے ہیں، جن کے ذریعہ آپ ساری روئے زمین پر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرسکتے ہیں۔ سیدی ومولائی! ہمیں علم ہے کہ جب ہمارے وطن عزیز پاکستان اور ظالم ہندوستان کے درمیان جنگ برپا ہوئی تو آنجناب نے پاکستان کی ہرممکن مادی واخلاقی مدد فرمائی، جو سربراہانِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک قابل نمونہ ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ آپ کے اس کارنامہ پر دل کی گہرائیوں سے شکریہ بجالائیں۔ سیدی ومولائی! آج پاکستان قادیانیت کی جانب سے عظیم خطرہ میں ہے، بحریہ کا سربراہ حفیظ قادیانی ہے، فضائیہ کا سربراہ چوہدری ظفر قادیانی ہے اور بری افواج میں ٹکا خان کے بعد سترہ جرنیل لگاتار قادیانی ہیں۔ حکومت یا تو اس مہیب خطرہ سے غافل اور جاہل ہے یا پھر استعماری قوتوں، برطانیہ وامریکہ کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے، وہ مسلمانوں کو فوجی مناصب سے برطرف کررہی ہے اور قادیانیوں کو بھرتی کررہی ہے۔لاریب کہ قادیانی اور ان کا امام متنبی کذا قبَّحہ اللہ، برطانیہ کا خود کاشتہ پودا اور برطانوی استعمار کا ساختہ وپرداختہ تھا۔ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ حکومت برطانیہ ’’ظل اللّٰہ فی الأرض‘‘ ہے، جہاد منسوخ ہے اور یہ کہ تمام مسلمانوں پر برطانیہ کی نصرت وحمایت فرض ہے ،وغیر ذلک من الکفر والہذیان۔ ان لوگوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح برطانیہ کا عہد رفتہ واپس لوٹ آئے اور پاکستان ان قادیانیوں کے ہاتھ آکر اس کا آلۂ کار بنے اور برطانیہ کو از سر نو بحر احمر پر تسلط حاصل ہوجائے۔ اس بدترین سازش کے ہولناک نتائج آنجناب سے مخفی نہیں ہیں۔ آنجناب سے توقع رکھتا ہوں کہ پاکستان کو قادیانیوں کے چنگل سے چھڑانے میں اس کی مدد کریں۔ وزیر اعظم بھٹو کو ان ہولناک نتائج سے متنبہ فرمائیں اور اُسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں کہ وہ ان لوگوں کو کلیدی مناصب سے الگ کردیں، تاکہ یہ لوگ اسلام کے لئے اور اسلام سے پہلے خود بھٹو کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔ الغرض آپ اس نہایت خطرناک مصیبت کبریٰ سے پاکستان کو بچانے اور بھٹو کی کجروی کی اصلاح کی ہر ممکن جہد بلیغ فرمائیں اور محض اللہ کی رضا کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا فرمودہ طاقت وقوت اور وسائل کے ذریعہ آپ وہ کردار ادا کریں جو واقعی ایک خلیفہ اور امام المسلمین کو فہم وبصیرت اور قوت کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ہم جناب والا کے حق میں ہر خیر وسعادت کے متمنی ہیں اور آرزو رکھتے ہیں کہ آپ کے مبارک ہاتھوں کے ذریعہ اسلامی ممالک کو ان ریشہ دوانیوں اور ملعون سازشوں سے نجات ملے۔ اللہ تعالیٰ آنجناب کی ذات کو اسلام کے لئے ذخیرہ اور مسلمانوں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے باقی رکھے اور ربانی سائے تلے جس کے جھنڈے آپ کے ملک پر لہراتے ہیں، آپ کی سلطنت کو بقائے دوام بخشے۔ آخر میں میری طرف سے آنجناب کی ذات اور مملکت کے حق میں بہترین دعائیں اور گہری تمنائیں قبول فرمائیں۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ اور لیبیا کے صدر کرنل قذافیؒ کے نام تحریر فرمایا۔ ’’بعد از سلام مسنون‘‘ گزارش ہے کہ مجھے آنجناب کی زیارت کا شرف اس وقت حاصل ہوا، جبکہ طرابلس کی پہلی ’’دعوت اسلامی کانفرنس‘‘ میں مندوب کی حیثیت سے شریک ہواتھا۔ آنجناب کی شخصیت میں اخلاص، قوتِ ایمان اور سلامتیٔ فطرت کے آثار دیکھ کر اول وہلہ آپ کی محبت میرے دل میں جاگزین ہوئی۔ بعد ازاں آپ کی خیروسعادت کی خبریں ہم تک پہنچیں، جن کی وجہ سے آپ بلاشبہ داد وتحسین کے مستحق اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے مایۂ فخر ہیں۔ حق تعالیٰ آپ کو اسلام کے لئے ذخیرہ اور مسلمانوں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے سلامت رکھے اور آپ کے وجود گرامی سے اسلام اور عرب کی عزت ومجد کے علم بلند ہوں، آمین۔ برادر گرامی قدر! آپ نے پاکستان کے موقف کی تائید کرکے اور ہرممکن مادی مدد مہیا فرما کر جو احسان فرمایا، اس کا ہمیں اجمالی علم ہوا۔ حق تعالیٰ آپ کو اس حسنِ سلوک کا بدلہ عطا فرمائیں اور دنیا وآخرت میں آپ پر انعامات فرمائیں، آمین۔  اور اب میں آنجناب کے علم میں یہ بات لانا چاہتاہوں کہ پاکستان ایک عظیم خطرہ میں گھرا ہوا ہے اور وہ فتنۂ قادیان یا قادیانی تحریک ہے۔ بحریہ کا قائد ایک قادیانی ہے، فضائیہ کا سربراہ قادیانی ہے اور بری فوج میں ٹکا خان کے بعد سترہ جرنیل ہیں جو سب قادیانی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ٹکا خان بھی ریٹائرڈ ہو جائیںگے۔ حکومت مسلمان افسروں کو فوجی مناصب سے معزول کررہی ہے۔ صدر کا اقتصادی مشیر ایم ایم احمد قادیانی ہے اور سرظفر اللہ کے (جو بڑا خبیث سازشی قادیانی ہے) صدر سے خصوصی روابط ہیں اور صدر اس کے مشوروں کی تعمیل کرتا ہے۔ غالباً آنجناب کو علم ہوگا کہ اس گروہ کا ضال ومضل ومقتدا مرزا غلام احمد قادیانی مدعی نبوت تھا۔ اس نے پہلے مجدد، مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، بعدازاں نبوت کا دعویٰ کردیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ برطانوی حکومت روئے زمین پر خدا کا سایہ ہے، جہاد منسوخ ہے اور یہ کہ برطانوی نصرت وحمایت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، وغیر ذلک من کفر وہذیان۔ قادیان کے بعد (جو ہندوستان میں رہ گیا) انہوں نے مغربی پاکستان میں ’’ربوہ‘‘ آباد کیا، جس کی حیثیت ان کے دار الخلافہ کی ہے۔ وہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑی سرگرمی سے سازشیں تیار ہوتی ہیں اور یہ عجلت میں تحریر کردہ عریضہ ان تفصیلات کا متحمل نہیں۔ میں آنجناب سے اس وقت دو گزارشیں کرنا چاہتاہوں، ایک: یہ کہ وزیر اعظم بھٹو کو اس خطرۂ عظیمہ سے آگاہ کیجئے، یعنی قادیانی بغاوت، ملک کا قادیانی حکومت کے تحت آجانا،بحر احمر میں برطانیہ کی عزت رفتہ کا دوبارہ لوٹ آنا اور بیک وقت تمام عربی اسلامی ممالک کا ناک میں دم آجانا۔ پس آنجناب سے درخواست ہے کہ آج حکومت پاکستان کو قادیانیوں کے یا بلفظ صحیح برطانیہ کے چنگل سے چھڑا کر اس پر احسان کیجئے، جیساکہ قبل ازیں آپ اس کی اخلاقی ومادی مدد کرکے اس پر احسان کرچکے ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے ہرقسم کی تدبیر وحکومت اور عزت وعزم کے ساتھ وزیر اعظم بھٹو کی کجروی کی اصلاح کیجئے۔ بلاشبہ اسلام کی یہ عظیم الشان خدمت اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کا موجب ہوگی۔ اسی کے ذریعہ اس رخنہ کو بند کیا جاسکتا ہے اور اس شگاف کو پُر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ فتنہ کا سیلاب خطرہ کے نشان سے اوپر گزررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت ومدد فرمائے۔ ’’اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ جمہوری لیبیا میں جو قادیانی ڈاکٹر یا انجینئر کی حیثیت سے آئے ہیں، انہیں نکالیئے۔ سنا ہے کہ آپ کے ملک میں قادیانیوں کی ایک بڑی تعداد آئی ہے۔ ان میں ڈاکٹر خلیل الرحمن طرابلس میں ہے جو شعاعوں کے ذریعہ سرطان کے علاج کا خصوصی ماہر ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا سراغ لگایا جائے اور محض اللہ کی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، اس کی کتاب کی اور مسلمانوں کے قائدین کی خیر خواہی کی غرض سے آپ کو ان کی اطلاع دی جائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خدمتِ اسلام اور مسلمانوں کی مدد میں ثابت قدم رکھے،آپ کو اپنی رضا اور اپنے دین کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے اور آپ کے ہاتھ سے خیر وسعادت کے وہ کام لے جن کے ذریعے مشرق ومغرب میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت ومجد میں اضافہ ہو۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا مخلص محمد یوسف البنوری خادم الحدیث النبوی الکریم فی کراچی مندوب مؤتمر الدعوۃ الاسلامیہ الاول من پاکستان۔‘‘ حضرت مولاناؒ کے ساتھی حضرت مولانا لطف اللہ صاحبؒ نے تحریر کیا کہ جمعیت علمائے سرحد سے تعلق کے زمانے میں ہمیں محسوس ہوا کہ پشاور میں قادیانی اپنے پاؤں پھیلا رہے ہیں اور دین سے ناواقف طبقہ کو گمراہ کررہے ہیں۔ پشاور کا ایک قادیانی مسمی غلام حسین، جو قرآن کریم کی قادیانی تفسیر (یابلفظ صحیح تحریف) بھی لکھ چکا تھا،وہ پشاور میں صبح کو درس قرآن دیتا تھا۔ نوجوان وکلاء اور کالجوں کے ناپختہ ذہن طالب علم اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ پشاور کا مشہور لیڈر جو بعد میں مسلم لیگ اور پاکستان کا بڑا رہنما (سردار عبد الرب نشتر) وہ بھی ان کے درس میں شریک ہوتا تھا۔ پشاور کے اسلامیہ کالج کا وائس پرنسپل تیمور مرزا بشیر الدین قادیانی کا رشتہ دار تھا۔ صاحبزادہ عبد القیوم بانی اسلامیہ کالج کا چچا زاد بھائی عبد اللطیف قادیانی صوبہ سرحد کی جماعت کا امیر تھا۔ قادیانی سال میں ایک دفعہ ’’یوم النبی‘‘ کے نام سے ایک بڑا جلسہ کرتے تھے،جس میں شرکت کے لئے تمام سرکاری افسروں کو دعوت نامے بھیجے جاتے۔ اس طرح کھلے بندوں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ جب ہم جمعیت العلماء کے کام میں منہمک تھے تو میں نے دیکھا کہ قصہ خوانی بازار میں قادیانیوں کے اس جلسہ کے اشتہارات لگ رہے ہیں، جس میں اسلامیہ کلب میں ’’یوم النبی‘‘ کا اعلان تھا۔ میں نے مولانا بنوریؒ سے مشورہ کیا کہ قادیانیوں کی اس کھلی جارحیت کا سد باب ہونا چاہئے۔ میں ان دنوں اسلامیہ اسکول میں عربی کا معلم اور استاد تھا۔ میں نے اسکول کی نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ کو قادیانیت کی حقیقت بتائی اور قادیانیوں کے ’’یوم النبی‘‘ کے نام پر لوگوں کو بہکانے کی مکاری عیاں کی اور انہیں بھی معرکہ میں حصہ لینے کے لئے تیار کیا، جس کا نقشہ میں اور مولانا بنوریؒ بنا چکے تھے۔ مقررہ تاریخ پر قادیانیوں نے اسلامیہ کلب میں قالین بچھائے، اسٹیج لگایا اور جلسہ کا انتظام کرنے لگے۔ ہم دونوں بھی وہاں پہنچ گئے اور جاکر اعلان کیا کہ یہاں اہل اسلام کا جلسہ ہوگا۔ ہماری اور قادیانیوں کی کش مکش ہوئی جس میں قاضی یوسف نامی قادیانی نے مجھ پر لاٹھی سے حملہ کردیا۔ہمارے رفقاء نے اس کو پکڑ کر نیچے گرادیا۔ جو قادیانی کرسیوں پر براجمان تھے، انہیں بھی فرش پر گرادیا۔ قادیانی ذلت ونامرادی کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب اسٹیج پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ مولانا بنوریؒ نے بڑی فصیح وبلیغ اور طویل تقریر فرمائی۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کی کش مکش سن کر پورا شہر ُمڈ آیا اور خوب جلسہ ہوا۔ قادیانیوں کو ایسی ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب سے اب تک انہیں پشاور میں ڈھونگ رچانے کی دوبارہ جرأت نہیں ہوئی۔ عالمی مجلس کی امارت حضرت شیخ بنوریؒ نے کس طرح قبول فرمائی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی زبانی سنیں: ’’مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ تھے، جن کو ہمارے حضرتؒ دلیل العلماء کا خطاب دیتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد جماعت کی قیادت میں خلاء سامحسوس ہونے لگا۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا لال حسین اخترؒ امیر منتخب ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد کچھ ایسے مسائل سر اٹھانے لگے تھے جن سے مضبوط قیادت ہی نمٹ سکتی تھی۔ جماعت کے امیر کے انتخاب کے لئے شوریٰ کا اجلاس طلب کیاگیا۔ ہمارے حضرت بنوریؒ بھی جماعت کی شوریٰ کے رکن رکین تھے۔ حضرت اجلاس میں شرکت کے لئے ملتان تشریف لے جارہے تھے، یہ ناکارہ حاضر خدمت ہوا، عرض کیا: حضرت! اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لے جارہے ہیں، میری درخواست ہے کہ یا تو جماعت کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے لیجئے یا فاتحہ فراغ پڑھ کر جماعت کو ختم کرنے کا اعلان کرادیجئے۔ حضرتؒ اس ناکارہ کی اس درخواست سے بہت متأثر ہوئے اور برجستہ فرمایا: اگر میں جماعت کی امارت قبول کرلوں تو تم ساہیوال سے ملتان مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں منتقل ہو جاؤگے؟۔ عرض کیا، حضرت! مجھے کراچی آنے سے عذر ہے، کراچی کے علاوہ آپ جہاں حکم فرمائیں وہاں جا بیٹھنے کے لئے تیارہوں۔ بہت خوش ہوئے، ملتان تشریف لے گئے تو حسن اتفاق سے وہاں کے احباب (بالخصوص مولانا محمد شریف بہاولپوریؒ) نے بھی حضرت سے وہی درخواست کی، دفتر کی کنجیاں حضرت کے سامنے رکھ دیں اور عرض کیا کہ آپ کے استاد محترم امام العصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے یہ کام امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ذمہ لگایا تھا، شاہ جیؒ اور ان کے رفیق مولانا محمد علیؒ اس کام کو کررہے تھے، ہم لوگ ان کے کارکن تھے، اب یہ آپ کے استاد محترم کی میراث ہے اور اس کی کنجیاں آپ کے سپرد ہیں۔ اگر اس کام کو جاری رکھنا ہو تو بسم اللہ ہماری قیادت کیجئے، ورنہ یہ کنجیاں پڑی ہیں، دفتر کو تالا لگادیجئے، ہم سب بھی اپنے اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ اس طرح حضرتؒ کو جماعت کی امارت قبول کرنا پڑی اور پھر چند مہینے بعد ہی حضرتؒ کی قیادت میں ختم نبوت کی وہ تحریک چلی، جس کے نتیجہ میں ۱۹۷۴ء کا تاریخی فیصلہ ہوا اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ گویا جماعت کی امارت کے لئے حضرت بنوریؒ کا انتخاب حق تعالیٰ شانہٗ کی جانب سے اس تحریک کی کامیابی کا تکوینی انتظام تھا۔ الغرض حضرت بنوریؒ جماعت ختم نبوت کے امیر منتخب ہوکر کراچی تشریف لائے تو یہ ناکارہ مبارکباد کے لئے حاضر ہوا۔ مبارکباد پیش کی تو فرمایا: ’’تمہیں اپنا وعدہ بھی یاد ہے؟ اب تمہیں ختم نبوت کے دفتر میں ٹھہرنا ہوگا‘‘۔ عرض کیا: ’’حضرت!بالکل حاضر ہوں، مگر میری تین درخواستیں ہیں، ایک: یہ کہ مجھے رہائش کے لئے مکان کی ضرورت ہوگی۔ دوسری یہ کہ ختم نبوت کے مرکزی دفتر ملتان میں مسجد کے بغیر جماعت ہوتی ہے، دفتر کے ساتھ مسجد ہونی چاہئے ۔اور تیسری یہ ہے کہ بچوں کی پڑھائی کے لئے قرآن کریم کے مکتب کا انتظام کردیا جائے‘‘۔ فرمایا:’’تینوں شرطیں منظور ہیں‘‘۔ حضرت نے جامعہ رشیدیہ کے حضرات سے فرمایا کہ اس کو مدرسہ سے فارغ کردیا جائے۔ ا س طرح یہ ناکارہ شوال ۱۳۹۴ھ سے ساہیوال سے دفتر ختم نبوت ملتان میں منتقل ہوگیا اور دس دن کے لئے کراچی حاضری کا سلسلہ بدستور رہا‘‘۔ شاہ فیصلؒ سے حضرت مولاناؒ کی جو آخری ملاقات ہوئی، اس میں شاہ فیصل نے مولاناؒ سے فرمایا تھا کہ میں نے بھٹو کو ملاقات کے وقت صاف صاف بتا دیا تھا کہ پاکستان کے تین دشمن ہیں، قادیانی، کمیونسٹ اور مغربی ممالک۔ مولاناؒ نے تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء میں ملاقات کی، اس میں آپؒ نے بھٹو سے فرمایا کہ کیاتم کو شاہ فیصل نے نہیں بتایا کہ قادیانی، کمیونسٹ اور مغربی ممالک پاکستان کے تین دشمن ہیں اور انہیں لوگوں نے سازش کرکے لیاقت علی خان کو مروایا تھا؟ مسٹر بھٹو نے مولانا ؒ سے کہا کہ: کیا تم مجھ کو بھی مروانا چاہتے ہو؟ مولاناؒ نے برجستہ فرمایا کہ: ایسی موت کسی کو نصیب ہو تو اس پر ہزاروں زندگیاں قربان ، جو شخص شہادت کی موت مرتا ہے وہ مرتا نہیں، بلکہ زندہ جاوید ہوجاتا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری ؒ شاہ فیصل مرحوم سے ملنے کے لئے حجاز مقدس گئے اور ان سے حجاز مقدس میں مرزائیوں کے داخلہ پر پابندی کا ذکر کیا کہ پابندی کے باوجود بعض مرزائی پھر بھی سعودیہ آجاتے ہیں۔ حرمین شریفین میں غیر مسلموں کا داخلہ شرعاً ممنوع ہے تو اس پر صحیح عملدر آمد نہیں ہورہا۔ اس پر شاہ فیصل مرحوم نے کہا کہ مولاناؒ کسی کے ماتھے پر تو نہیں ہوتا کہ یہ شخص قادیانی ہے، آپ اپنی حکومت سے کہیں کہ وہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کا اضافہ کرے، پھر کوئی مرزائی حدود حرم میں داخل ہو تو ہم مجرم ہوں گے، اس پر شیخ بنوریؒ اُٹھ کھڑے ہوئے، گلو گیر لہجہ میں فرمایا کہ: شاہ فیصل ! میں آپ کو حضور علیہ السلام کی عزت وناموس کا نگہبان سمجھ کر آیا تھا کہ مرزائی حضور علیہ السلام کے دشمن ہیں،آپ مجھے پاکستان کی حکومت کے دروازے پر جانے کا راستہ دکھاتے ہیں؟اگر وہ میری بات مانتے تو میں آپ کے پاس کیوں آتا؟آپ کا یہ کہنا تھا کہ شاہ فیصل مرحوم کی آنکھوں سے آنسو کی جھڑی لگ گئی۔ فرمایا: شیخ بنوری ! میں آپ کی مشکلات سے آگاہ نہیں تھا، اگر یہ بات ہے تو آئندہ آپ اپنے لیٹر پیڈ فارم پر جس شخص کے متعلق لکھ دیں کہ وہ قادیانی ہے تو وہ شخص ہمارے ہاں نہیں آسکے گا۔ اگر وزیر اعظم پاکستان لکھے کہ فلاں شخص مسلم ہے اور آپ لکھیں کہ یہ قادیانی ہے، تو میں آپ کی بات کو ترجیح دوںگا۔ اس پر عمل کیسے ہوا؟ صرف ایک واقعہ عرض ہے کہ شبقدر ڈھیری پشاور کے ایک قادیانی نے حج کے لئے بحری جہاز سے درخواست دی، مسلمانوں کو پتہ چل گیا، اس کا فارم مسترد ہو گیا۔اس نے اپنا نام ولدیت، پتہ سب کچھ تبدیل کرکے انٹرنیشنل پاسپورٹ بنوایا، این او سی لگوائی اور روانہ ہوگیا، چنیوٹ میں ختم نبوت کی کانفرنس تھی، شیخ بنوریؒ کو اطلاع ملی۔ آپؒ نے سعودیہ کے کراچی قونصل خانہ کو فون کیا، صورت حال بتائی۔ قونصلیٹ نے فون کیا تو پتہ چلا کہ جہاز روانہ ہوگیا ہے، اس نے جدہ فون کیا، جب جہاز نے جدہ لینڈ کیا تو جہاز کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا، اس مرزائی کو گرفتار کرکے دوسرے جہاز پر پاکستان بھیج دیا گیا۔ اس طرح آپؒ کی جماعت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی کاوشوں سے اب تو پاکستانی پاسپورٹ پر مذہب کے خانہ کا اضافہ ہوگیاہے۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے حضرت بنوریؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے پر مبارکبادی کے سلسلہ میں لکھا:اس کی بھی امید ہے کہ روح مبارک نبوی علیہا الف الف سلام کو بھی مسرت حاصل ہوئی ہوگی۔حضرت بنوریؒ نے لکھا ہے کہ: ’’اس (قادیانی فتنہ) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک بھی بے تاب تھی۔ (قادیانی مسئلہ کے حل پر) منامات ومبشرات کے ذریعہ عالم ارواح میں اکابر امت اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت بھی محسوس ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبشرات کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں‘‘۔ جناب مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ مدیر’’ بینات‘‘ تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرتؒ فرماتے تھے کہ تحریک کے بعد رمضان مبارک میں میں نے خواب دیکھا کہ چاندی کی ایک تختی مجھے عطا کی گئی اور اس پر سہنری حروف سے یہ آیت لکھی ہے:’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ میں نے محسوس کیا کہ یہ تحریک ختم نبوت کی کامیابی پر مجھے انعام دیا جارہا ہے اور اس کی یہ تعبیر کی کہ مجھے حق تعالیٰ بیٹا عطا فرمائیں گے اور میں اس کا نام سلیمان رکھوں‘‘۔ (بینات بنوری نمبر، ص:۳۳۳) نفحۃ العنبر،ص:۲۰۴ پر حضرت بنوری مرحوم خود لکھتے ہیں: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مصلی پر ایک طرف حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام اور دوسری طرف حضرت سید انور شاہ کشمیریؒ تشریف فرماہیں۔ میں کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے روح پرور چہرہ اقدس کی طرف دیکھتا اور کبھی چہرۂ انور کی طرف دیکھتا۔ یہ کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ ہر دو حضرات کے مبارک چہروں سے استفادہ وشرفِ زیارت سے مستفید ہورہا تھا کہ بیداری کے وقت خوشی وغم کی ملی جلی کیفیت تھی، خوشی ان حضرات کی زیارت کی اور غم کہ جلدی کیوں بیداری ہوگئی؟اے کاش ! زیادہ وقت نظارہ کی سعادت نصیب ہوجاتی‘‘۔ اے مولیٰ کریم! قیامت کے دن ان حضرات کی معیت نصیب فرما، آمین۔  (بشکریہ  ہفت روزہ لولاک فیصل آباد، قائد تحریک ختم نبوت نمبر ،بیاد:قائد تحریک ختم نبوت حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ)                                                                 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین