بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ امیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان رحمۃ اللہ علیہ جامع صفات شخصیت کے مالک تھے۔ خیر القرون کو چھوڑ کر سرورِ کائنات ا فداہ ابی وامی کی امت کے منتخب اور نابغہ روزگار لوگوں کی جو فہرست بن سکتی ہے، وہ اس میں شامل تھے۔ وہ علم کا خزانہ، عرفان کا دریا اور استقامت کا پہاڑ تھے۔ انہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی تعلیم وتدریس اور تبلیغ میں گزاردی۔ حق تعالیٰ نے ان سے حفاظت اور اشاعت اسلام کا عظیم کام لیا۔ ان کی دینی اور ملی خدمات کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔یہ مختصر فرصت اُن کا مقام ومرتبہ اور ان کی علمی اور عملی خدمات کی تفصیلات کے تذکرے کی متحمل نہیںہے۔ حضرت مولانا بنوریؒ کے علمی مقام ومنزلت کے سلسلہ میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ محدثِ جلیل علامۂ دوراں سید انور شاہ کشمیری ؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ علامہ کشمیری ؒ کے جتنے شاگرد آج دنیا میں موجود ہیں ان سب کو اس بات سے اتفاق ہے کہ مولانا بنوریؒ، سید انور شاہ کشمیریؒ کا صحیح عکس اور ان کی پوری تصویر تھے۔ حضرت مولانا بنوریؒ کی متعدد علمی تصانیف ہیں، لیکن ان میں سرفہرست جس تصنیف کا عرب اور عجم ہرجگہ غلغلہ بلند ہورہا ہے، وہ حدیث کی کتاب ترمذی شریف کی شرح ’’معارف السنن‘‘ ہے، جسے مولانا بنوریؒ نے اپنے استاذ حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے مقدس اور معطر انفاس قرار دیا ہے۔ان چھ جلدوں میں لکھے ہوئے نادرۂ روزگار بلند پایہ علمی اور دینی سرمایہ سے آج جامعہ ازہر اور دنیا کی دوسری بڑی بڑی علمی درسگاہوں میں پڑھنے والے فیض یاب ہورہے ہیں۔ ان کا قائم کردہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن(حالیہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن) جسے دیکھ کر لندن، واشنگٹن یا ماسکو کی کسی یونیورسٹی کا گمان ہوتا ہے، ہمارے تمام دینی مدارس میں قابل فخر طور پر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ مولانا بنوریؒ نے صدقۂ جاریہ چھوڑا ہے، جو ان شاء اللہ! رہتی دنیا تک ان کے لئے بلند درجات کا ذریعہ بنا رہے گا۔ملک کے بے شمار دینی ادارے جو حضرت بنوریؒ کے تعاون اور ان کی سرپرستی میں قال اللہ اور قال الرسول کے امین تھے، وہ سب حضرت مولانا بنوریؒ کی یاد کے انمٹ نقوش ہیں۔ حضرت مولانا بنوریؒ کے ہزاروں نہیں، لاکھوں شاگرد جو نہ صرف برصغیر میں، بلکہ پوری دنیائے اسلام میں پھیلے ہوئے ہیں اور دین مصطفی کی حفاظت اور اس کی اشاعت میں مصروف ہیں، سب توشۂ آخرت ہیں۔ حضرت مولانا بنوریؒ نے اپنی زندگی کا اکثر وبیشتر حصہ تعلیمی ، تدریسی اور تصنیفی مصروفیات میں گزارا۔ ہم لوگ جو خارزارِ سیاست کے مسافر تھے، ہمارا ان سے کوئی زیادہ واسطہ نہیں رہا تھا، لیکن حضرت مولانا مرحوم کے ساتھ دو وجہ سے ایک غائبانہ تعلق موجود تھا۔ ۱…ہم لوگ بلبلِ ریاض امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے دیوانوں اور پروانوں کی جماعت تھے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کو حق تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کا مضبوط جسم، قابل رشک صحت، پیغمبرانہ وجاہت، ساحرانہ آواز،مجاہدانہ عادات اور بے مثال حافظہ اور غالباً یہ تمام اوصاف اُنہیں خطابت کے لئے ودیعت کئے گئے تھے۔ گزشتہ پورے دوسوسال میں ان جیسا خطیب پورے ایشیاء میں پیدا نہیں ہوا۔ اور ان کی یہ مایۂ ناز خوبی یعنی خطابت در حقیقت اُنہیں عشق رسول ا کے لئے عطاء ہوئی تھی۔ وہ علامہ اقبالؒ کے بقول ’’دردلِ مسلم مقام مصطفی ‘‘کی سچی تصویر بن گئے تھے۔ لاہور کے ایک بہت بڑے جلسے جس میں برصغیر کے تمام بڑے بڑے علمائے کرام شریک تھے، یہ مداحِ رسول ا اور بلبلِ بستانِ رسول ا تقریر کررہے تھے، صدارت کی کرسی پر علامۂ عصر محدثِ جلیل حضرت استاذ العلماء حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ تشریف فرماتھے، حضرت شاہ جیؒ نے تقریر کرتے ہوئے فرنگی کی اسلام دشمنی بیان کی، اسلام کے خلاف اس کی سازشوں کو بے نقاب کیا، مرزائیت کے فتنہ عمیاء کا پردہ چاک کیا، اپنے آقاومولا شہنشاہِ لولاک کی شان رسالت بیان کی۔ رات کا وقت ،مدحِ رسول کا تذکرہ اور بلبلِ ریاضِ رسول کی سوزو ترنم سے منور آواز، علامہ انور شاہؒ اُٹھے اور شاہ جیؒ کو امیر شریعت کا خطاب دیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بیعت کر لی اور اپنے آپ کو حفاظت واشاعت اسلام ،ردِّمرزائیت اور تحفظِ ختم نبوت کے سلسلہ میں شاہ جیؒ کا سپاہی قرار دیا۔ شاہ جیؒ حضرت علامہؒ کے مقام ومرتبت سے آگاہ تھے، فوراً فرمایا: حضرت! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے آپ کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ پوری زندگی رسو ل اللہ ا کے منصبِ ختمِ نبوت کی حفاظت کرتا رہوں گا اور نبی کریم ا کے دشمنوں کے خلاف سپر ہوکر لڑتا رہوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ بھی شاہ جیؒ کے توسط سے علامہ سید انور شاہ کشمیری ؒ کو اپنا استاذ، مرشد، رہنما اور سر پرست سمجھتے آئے ہیں۔پھر علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے ختم نبوت پر مدلل ترین کتابیں لکھیں اور رسول اللہ ا کے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت امت کو بتائی اور آج ہرعالمِ دین کے لئے ختم نبوت کے سلسلہ میں علمی اور تبلیغی کام کرنے کے لئے حضرت شاہ صاحبؒ کا وہ علمی خزانہ مشعل راہ کا کام دے رہا ہے۔ ۲…علامہ اقبالؒ کو ان کی اسلام اور عشق رسول ا سے منور شاعری کی وجہ سے جو قبولیت نصیب ہوئی وہ آج دنیا کے سامنے ہے۔ علامہ اقبالؒ کے خاندان کے کچھ لوگ قادیانی ہوگئے تھے۔ خود علامہ اقبالؒ نے بھی مرزا غلام احمد قادیانی کے اس ہنگامے کی تحقیق کی تھی، جو انہوں نے عیسائیوں کے خلاف مناظروں وغیرہ کا ڈھونگ رچا کر بپاکیا ہوا تھا، لیکن وہ تو مرزا صاحب کا دام ہمرنگ زمین تھا جسے علامہ اقبالؒ بہت جلد سمجھ گئے، تاہم وہ علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ سے ملے اور ان سے ختم نبوت کے عقیدے کے متعلق سوالات دریافت کئے، یہ پہلی مجلس لاہور میں ہوئی تھی، اس میں شریک ایک چشم دید گواہ لاہور کے مشہور بزرگ رہنما میاں امیر الدین اب بھی بقید حیات موجود ہیں۔حضرت شاہ صاحبؒ نے علامہ اقبالؒ کے سوالات کے جواب میں ایک مفصل تقریر کی تھی۔ علامہ اقبالؒ تقریر کے دوران شاہ صاحبؒکے سامنے دو زانو ہوگئے اور ادب سے ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔ جس طرح مولوی رومیؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ: مولوی ہرگز نہ شدہ مولائے روم تا غلامِ شمس تبریزے نہ شد اسی طرح علامہ اقبالؒ میں عشق رسول ا کی چنگاری اور اسلام کی وہ لگن جس نے علامہ مرحوم کو مفکر اسلام اور حکیم الامت کا منصب عطا فرمایا، علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی۔پھر علامہ مرحوم شاہ صاحب ؒ کی خدمت میں جایا کرتے تھے۔ بات طویل ہوجائے گی۔علامہ اقبال مرحوم کی کوششوں سے آخر یہ فیصلہ بھی ہوگیا تھا کہ شاہ صاحبؒ کو بادشاہی مسجد کے خطیب کے طور پر لاہور لایاجائے۔ پہلے شاہ صاحبؒ نہیں مانتے تھے اور برصغیر کی ان عظیم درس گاہوں کا تعلق چھوڑنا نہیں مان رہے تھے، بعد میں علامہ اقبالؒ کے اصرار پر لاہورآنے کا فیصلہ فرمالیا تھا، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور ان کا وصال ہوگیا اور اس طرح علامہ اقبالؒ کی شاہ صاحبؒ کے متعلق یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ حضرت امیر شریعتؒ اور علامہ اقبالؒ کے تعلق، محبت اور نسبت سے ہمیں حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے انس ہی نہیں عشق ہے اور حضرت بنوریؒ حضرت سید انور شاہ کشمیریؒ کے محبوب شاگرد تھے۔ جن دنوں ملتان میں وفاق المدارس کی میٹنگ تھی، تمام علمائے کرام کا اجتماع تھا، اس اجتماع میں حضرت بنوریؒ بھی شریک تھے، جلسے سے فارغ ہوکر حضرت بنوریؒ، امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے ملاقات کے لئے ان کے گھر پر آئے، جو ان دنوں بیمار اور صاحب فراش تھے۔ حضرت شاہ جیؒ کو حضرت بنوریؒ کی آمد کا علم ہوا تو چارپائی سے اُٹھ کھڑے ہوئے، ملاقات ہوئی اور اس کے بعد حضرت شاہ جیؒ نے حضرت بنوریؒ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے درمیان لے کر آپ کے چہرے کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔حضرت مولانا بنوریؒ سمجھے کہ حضرت شاہ جیؒ بیمار ہیں، بصارت کمزور ہوگئی، مجھے پہچان نہیں سکے، اس لئے اس طرح مجھے پہچاننے کی کوشش کررہے ہیں ،فرمایا: بنوری ہوں۔ حضرت شاہ جیؒ نے زور سے کہا: نہیں، حضرت بنوریؒ نے سمجھا شاہ جیؒ کی سماعت بھی کمزور ہے، شاید میرا نام سن نہیں سکے تو زور سے فرمایا: یوسف بنوری ہوں۔ حضرت شاہ جیؒ نے اس سے بھی بلند آواز سے فرمایا: نہیں، نہیں، سید انور شاہ کشمیری ہو اور یہ فرماکر پھر آپ کو گلے لگالیا، آپ سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہار فرمایا۔ یہی وجہ تھی کہ جب مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے صف اول کے رہنما حضرت شاہ جیؒ، قاضی احسان صاحبؒ، مولانا محمد علیؒ، مولانا لال حسین اخترؒ دنیا سے رخصت ہوگئے تو حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کی جماعت ان کے جانشین حضرت بنوریؒ کے سپرد کردی گئی اور حضرت بنوریؒ نے اپنے استاذ کے ورثہ کو سنبھال لیا اور اس امانت کے امین رہے اور جو تحریک حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے شروع کی تھی اسے اپنی قیادت میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ حضرت مولانا بنوریؒ تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہماری جماعت کے امیر منتخب کئے گئے تھے۔ اس وقت ہمیں ہرگز معلوم نہ تھا کہ چند دنوں کے بعد مرزائیت کے خلاف تحریک اُٹھ کھڑی ہوگی اور حضرت مولانا بنوریؒ کو اس کی قیادت کے لئے تکوینی طور پر کوئی ڈیوٹی سپرد کی گئی ہے۔ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ خدائی نظام کے تحت ’’مددے از غیب آید کارے کند‘‘ مولانا بنوریؒ آئے نہیں بھیجے گئے تھے اور انہوں نے تحریک کے آغاز ہی میں ہمیں یہ فرما دیا تھا کہ اخلاص سے کام کرتے جاؤ ،ان شاء اللہ! مرزائیت اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ جس طرح حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحابہ ؓ کے قافلے کا بچھڑا ہوا ایک انسان ہے، مولانا بنوریؒ کے علم وفضل کے متعلق صاحب علم لوگوں کا خیال ہے کہ وہ رازیؒ اور غزالیؒ کے قافلے کا بچھڑا ہوا مسافر تھا۔ دیانت، اخلاص، روحانیت، عشق الٰہی اور عشق رسول ا کے اعتبار سے وہ بہت بلند پایہ عارف باللہ تھے، اتباعِ رسول کا حد درجہ خیال رکھتے۔ جماعت کا امیر منتخب ہونے کے بعد وہ پہلی دفعہ جب ہمارے مرکزی دفتر ملتان میں تشریف لائے تو آتے ہی ہمارے مرکزی رہنما مولانا محمد شریف جالندھریؒ سے فرمایا کہ آپ نے کام سنت نبوی ا سے ہٹ کرکیا ہوا ہے۔ سردار امیر عالم خان لغاری، مولانا عبد الرحیم اشعر، مولانا غلام محمد بہاولپوری، مولانا محمد حیات فاتح قادیان، مولانا منظور احمد شاہ صاحب اور دفتر کے تمام خدام نے حیرت سے دریافت کیا:حضرت کیسے؟ فرمایا جناب رسول اللہ ا نے جب اسلام کے لئے کام کرنا شروع کیا تھا تو سب سے پہلے مسجد بنائی تھی اور اسی مسجد کو بنیاد بناکر کام شروع فرمایا تھا، آپ لوگوں نے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے دفتر تو بنا لیا اس میں اتنا بڑا کتاب خانہ بھی جمع کرلیا، مبلغین کے آرام کرنے، مطالعہ کرنے کے کمرے بھی بنائے اور دوسری منزل میں مطبخ بھی بنایا، لیکن آپ کے ہاں مسجد نہیں ہے، ایک ایسا دفتر بنائیں جس کے ساتھ ایک عظیم الشان مسجد بھی ہو۔ کچھ دنوں بعد جب تحریک ختم نبوت شروع ہوگئی تو اسلام آباد کی ایک میٹنگ میں سوال پیدا ہوا کہ مجلس عمل کے لئے فنڈز کا انتظام کس طرح کیا جائے؟ کسی نے کہا کہ رسید بکس چھاپی جائیں اور ملک سے مرکزی مجلس عمل کے لئے الگ چندہ جمع کیا جائے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ پانچ پانچ ہزار روپیہ ہر شریک جماعت ابتدائی طور پر دے ، پھر اگر مزید ضرورت ہوئی تو جماعتوں سے درخواست کی جائے گی۔ حضرت مولانا بنوریؒ نے ہم سے مشورہ کیا۔ سردار امیر عالم خان لغاری، مولانا محمد شریف جالندھری اور راقم الحروف تاج محمود اس اجلاس میں حضرتؒ کے ساتھ تھے۔ آپؒ نے فرمایا کہ میری رائے ہے کہ تحریک کے لئے کوئی چندہ نہ کیا جائے، مقامی مجالس اپنے اپنے مقامی اخراجات کے لئے ذمہ دار قرار دے دی جائیں اور مرکزی مجلس عمل اور مرکزی تحریک کے تمام اخراجات ہم اپنے ذمہ لے لیں،میں نے اس کی مخالفت کی،اور تحریک کے دوران تحریک کے چندہ کے سلسلہ میں لاہور میں جو کچھ ہوا اور دوسرے شہروں میں جو بھی گل کھلائے گئے تھے وہ ہمارے سامنے ہیں۔ تحریکوں میں ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں جو آپ کو کپڑوں سمیت نگل جائیں گے۔ پھر مجلس عمل میں شریک جماعتیں‘ جماعت اسلامی، جمعیت اہل حدیث، مسلم لیگ تینوں پیسوں والی جماعتیں ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت بھی حصہ ڈال دیتی ہے، گزارہ ہوجائے گا ۔ خدا کے لئے سارے اخراجات کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیں۔ پھر میں نے یہ عرض کیا کہ اس وقت اگر مجلس کے پاس کچھ پیسے جمع ہیں تو یہ وہ پیسے ہیں جو حضرت مولانا محمد علیؒ نے دربدر پھر کر بڑی محنت سے جماعت کا سرمایہ اور اس کی بنیاد بنائی تھی۔ مرحوم کا خیال تھا کہ مرزائیت کا مقابلہ مضبوط فنڈ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ فنڈ اگر تحریک میں صرف ہوگیا، مرکزی اور ضلعی نظامِ تبلیغ کے سالانہ اخراجات کا کیا ہوگا؟ ملک بھر کے دفاتر اور ان کا انتظام درہم برہم ہوجائے گا۔ مولانا نے میری گزارشات اور دلائل غور سے سنے اور جواباً فرمایا کہ ’’سیاسی اور دینی جماعتیں جو یہاں جمع ہوئی ہیں ان کے اپنے اپنے دستور اور منشور ہیں، انہوں نے جو فنڈ جمع کئے ہوئے ہیں وہ ان جماعتوں کے اپنے منشور اور مقاصد کے لئے ہیں، ان کے برعکس ہماری جماعت کا دستور منشور ہی تحفظِ عقیدۂ ختم نبوت ہے اور یہ تحریک عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے ہے، اب جو روپیہ لوگوں نے ہمیں راہ خدا اسی مقصد کے لئے دیا ہوا ہے، حق یہ ہے کہ اس پیسہ کو اس تحریک پر خرچ ہونا چاہئے، دوسری کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے لئے فنڈ فراہم نہیں کیا ہوا‘‘۔ مولاناؒ کی اس وزنی اور معقول دلیل کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا، میں نے اتنا عرض کیا کہ حضرت! بات آپ نے ٹھیک فرمائی ہے، ایسا ہی کرلیا جائے، جیسا آپ فرماتے ہیں، لیکن مجلس کے نظم ونسق اور ضروری اخراجات کا کیا ہوگا؟ او ر ابھی تو آپ مجلس کے لئے عظیم جامع مسجد اور دفتر بنانے کا بھی فرما چکے ہیں کہ وہ بھی نیا تعمیر ہونا چاہئے۔ حضرت مولاناؒ کی آنکھوں میں ایک نورانی چمک پیدا ہوئی، مجھے شفقت سے تھپکی دی اور فرمایا: مولانا! میرا ہاتھ اللہ کے خزانوں میں ہے، آپ اس روپے کو راہِ خدا خرچ کر دیں، میرا اللہ مجھے آپ کی دینی ضرورتوں کے لئے پیسے بھیجے گا، آپ ہرگز پریشان نہ ہوں اور کسی قسم کی فکر نہ کریں۔ ہم نے اُٹھ کر مجلس میں اعلان کردیا کہ ملک بھر میں کوئی شخص مرکزی مجلس عمل اور مرکزی تحریک کے لئے چندہ نہیں کرے گا،مرکزی مجلس عمل اور مرکزی تحریک کے تمام اخراجات مجلس تحفظ ختم نبوت ادا کرے گی،البتہ مقامی مجالس اپنی جائز ضرورتوں کے لئے مقامی طور پر ذمہ دار ہوں گی اور وہ اس کے لئے انتظام کرلیں گی۔ مولانا ؒ کے حکم کے مطابق مولانا محمد شریف جالندھری اور سردار امیر عالم خان لغاری کے توسط سے جماعت کے بیت المال سے مرکزی تحریک ختم نبوت اور بمعہ ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ کی طباعت اور اشاعت پر اسی ہزار روپیہ خرچ ہوا، اس سلسلہ میں مولانا محمد شریف جالندھری کی خدمات سنہری حروف سے لکھی جائیں گی جو دن کو مختلف شہروں میں تنظیمی اجتماعات میں شریک ہوتے اور رات بھر بسوں میں سفر کرکے دوسری جگہ پہنچ جاتے۔ شیعہ رہنما سید مظفر علی شمسی نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ حضرت مولانا بنوریؒ کا مقام تو بہت بلند ہے، مولانا محمد شریف جالندھریؒ بھی قرون اولیٰ کے مسلمان معلوم ہوتے ہیں، اس نے گزشتہ رات ہم سب کے لئے ہوائی جہاز کے سفر کا انتظام کیا، رات ۱۰ بجے مجھے ہمارے پورے قافلے کے لئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ دیئے، تاکہ ہم لوگ راولپنڈی میں بلائی گئی ہنگامی میٹنگ میں پہنچ سکیں، لیکن جب ہم صبح راولپنڈی ائیرپورٹ اترے تو مولانا خود ہمیں ائیرپورٹ پر لینے کے لئے بھی آئے ہوئے تھے۔ ہم حیران ہوئے کہ بھائی! درمیان میں کوئی جہاز تو تھا ہی نہیں، آپ کس فلائٹ کے ذریعے آگئے؟ حضرت مولاناؒ نے اپنا گرد آلود چہرہ رومال سے صاف کرتے ہوئے فرمایا: میں بس سے ابھی پنڈی پہنچا ہوں اور آپ کو لینے کے لئے حاضر ہوگیا ہوں ،تاکہ آپ کو پنڈی اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ تحریک میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی۔ مجلس کا بیت المال خالی ہوچکا تھا۔ ہماری میٹنگ ہوئی،

ہم نے مجلس کے لئے فنڈ ختم ہوجانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ حضرت مولاناؒ نے فرمایا کراچی آیئے۔ مولانا محمد شریف جالندھری کراچی تشریف لے گئے، مولانا مرحوم نے نہ صرف تحریک میں خرچ ہونے والے روپیہ کا انتظام کردیا، بلکہ پچاس ہزار روپیہ مزید بھی عنایت فرمایا۔ سردار امیر عالم خان لغاریؒ اور محمد شریف جالندھریؒ کو تاکید کی کہ یہ روپیہ جماعت کے نظم ونسق اور تبلیغ دین کے کام کو وسیع کرنے کے لئے اخلاص اور محنت سے خرچ کیا جائے۔ کچھ دنوں بعد حضرت مولاناؒ نے فرمایا کہ ملتان میں مرکزی دفتر اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر کے لئے اللہ نے ۳۶ لاکھ روپے کا انتظام فرمادیا ہے۔ حضرت مولاناؒ نے فرمایا: یہ عمارت نقشہ کے مطابق کسی نیک اور دیانت دار ٹھیکہ دار سے بنوائی جائے، مولاناؒ کے حکم کی تعمیل ہوئی، اس بلڈنگ کا ٹھیکہ دینے کے لئے اخبارات میں ٹینڈر کال کئے گئے۔ ایک نیک سیرت چیف انجینئر جناب اختر قریشی کے مشوروں کے مطابق اس ساری بلڈنگ کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ملتان کی اس عظیم بلڈنگ اور اسی طرح ربوہ کی جامع مسجد ختم نبوت کا نقشہ معہ مکمل تفصیلات کے کراچی کے مشہور اور معروف آرکیٹیکٹ جناب کرنل حسین عامر نے فی سبیل اللہ نیک جذبے، بڑی محنت اور محبت سے تیار کرایا۔ حضرت مولاناؒ نے اپنی حیات ہی میں دفتر مرکزیہ ملتان اور مسجد ختم نبوت کی تعمیر کا کام ایک کمیٹی کے سپرد کردیا تھا، جس میں سردار امیر عالم خان لغاری، مولانا محمد شریف جالندھری اور کرنل حسین عامر شامل تھے۔ اسلام آباد کا دفتر کرایہ کا تھا، اُسے خرید لینے کا حکم دیا، وہ ایک عظیم الشان لائبریری قائم کی جائے اور مسجد کے ساتھ علوم دینیہ کا ایک عظیم الشان دارالعلوم بنایا جائے۔ مسجد، دفتر، لائبریری اور دارالعلوم کو آباد کیا جائے، اس مسجد کا بہت اور خوبصورت مینار ہو، تاکہ وہاں سے گزرنے والے مسلمانوں کو خوشی ہو اور انہیں ختمِ نبوت کے غداروں کی وجہ سے جو صدمہ پہنچا ہوا ہے، اس کی تلافی ہو۔ اس کے علاوہ حضرت مولاناؒ کا ارشاد تھا کہ اس مسجد ، لائبریری اور دارالعلوم میں ایسا کام بھی کیا جائے کہ اسلام سے بھٹک کر مرزائیت کی گود میں گئے ہوئے لوگ دوبارہ حضور ا کے دامنِ رحمت میں واپس آسکیں۔ آپؒ کے ارشاد کے مطابق ربوہ اور دریائے چناب کے درمیان بننے والی نئی کالونی میں ہم نے ۹؍ کنال رقبہ حاصل کرلیا تھا۔ مسجد کے سنگ بنیاد کے لئے تیاریاں تھیں کہ حضرت مولاناؒ کو اللہ کی طرف سے بلاوا آگیا اور اب یہ ذمہ داری حضرت مولاناؒ کے جانشین حضرت مولانا خان محمد صاحبؒ اور جماعت کے دوسرے خدام کے کاندھوں پر آگئی ہے۔ ربوہ کی اسکیم کو مکمل کرنے کے بعد حضرت مولانا ؒ کا ارادہ تھا کہ اسلام آباد میں ایک وسیع وعریض قطعۂ زمین لیا جائے اور اس پر ملتان کے دفتر اور جامع مسجد سے بھی شاندار عمارت بنائی جائے اور اس دفتر میں گاہے بگاہے اندرون ملک اور بیرونی سفیروں اور نمائندگان کو دعوت دی جایا کرے اور حفاظتِ اسلام اور اشاعتِ اسلام کی تجاویز زیر غور لاکر انہیں عملی جامہ پہنانے کی فکر جائے، تاکہ یہ ملک اسلام کا گہوارہ بنے اور یہاں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ا کی بادشاہت قائم ہو اور اس کے لئے ہم لوگ بنیادی باصلاحیت رضاکار اور خادم ثابت ہوں۔انہیں موجودہ حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل میں لے لیا تھا، ان کا نظریاتی کونسل میں آجانا دو باتوں کی دلیل سمجھا گیا۔ ۱…یہ کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اب پاکستان میں اسلام کا عملی نفاذ ہوگا اور اس ملک میں گزشتہ تیس سال سے مرزائیوں، کمیونسٹوں، دہریوں، زانیوں، شرابیوں اور لٹیروں نے جو گندگی پھیلا رکھی تھی، وہ اب ان شاء اللہ! صاف ہوکر رہے گی۔ ۲…حضرت مولاناؒ کی موجودگی میں جو اسلامی نظام اور شرعی قوانین مرتب ہوںگے ان کی صحت اور کامیابی ہرقسم کے شک وشبہ سے بلند ہوگی، نظریاتی کونسل کے دوسرے اراکین بھی قابل اعتماد لوگ ہیں، لیکن حضرت مولاناؒ کی ثقاہت اور وسعت نظر کا مقام بہت بلند تھا۔ بہرحال ان کا نظریاتی کونسل میں شامل ہونا اور جو بنیادی نقشہ وہ اس ملک کے نظام کے لئے لے کر گئے ہیں، وہ ایک نیک فال ہے۔ جس دل سوزی اور شفقت سے انہوں نے جنرل محمد ضیاء الحقؒ کو نصائح کیں اور اسلام کے نفاذ کی تائید کی یہ انہی کا مقام تھا۔ وہ اگرچہ حکم الٰہی کے تابع دنیا سے رخصت ہوگئے اور بنظر ظاہر ہمیں یتیم چھوڑ گئے، لیکن یقین ہے کہ ان کی دعائیں ہمیشہ ہماری رہنمائی اور کامیابی کا باعث ثابت ہوتی رہیں گی۔ الف: ان کے علمی ورثہ کے ہزاروں لوگ امین اور وارث ہیں جو علوم دینیہ کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کا کام کررہے ہیں، مولانا کا علم ایک چراغ سے دوسرے چراغ کی مثال روشن سے روشن تر ہوتا رہے گا۔ ب:ان کا مدرسہ عربیہ نیوٹاؤن(حال جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن) ان کے خصوصی معتمد اور جانشین مولانا مفتی احمد الرحمن کے سپرد ہوا۔ مفتی صاحب کو مولانا کے صاحبزادے مولوی سید محمد بنوری، مولانا کے شاگرد رشید مولانا عبد الرزاق اسکندر صاحب اور مدرسہ کے تمام مدرسین اور علمائے کرام اور حضرت مولانا بنوریؒ کے دوسرے عزیزوں مولانا محمد حبیب اللہ مختار ، مولانا محمد طاسین اور مولانا ایوب جا ن بنوری کا ہر طرح کا تعاون حاصل رہے گا اور مولاناؒ کا یہ صدقۂ جاریہ تشنگان علوم نبوت کے لئے تاقیامت چشمۂ صافی ثابت ہوگا۔ ۳…مولاناؒ کی عظیم امانت مجلس تحفظ ختم نبوت ملک کے ممتاز عالم دین اور خانقاہ سراجیہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا خان محمدؒ کے سپرد ہے۔ جماعت کے تمام ساتھی مولانا محمد شریف جالندھری، مولانا محمد حیات فاتح قادیان، مولانا عبد الرحمن میانوی، تاج محمود، سردارامیر عالم خان لغاری، مولانا غلام محمد بہاولپوری، مولانا عبد الرحیم اشعر، مولانا منظور احمد شاہ، حاجی بلند اخترلاہور، حاجی سیف الرحمن بہاولپوری، قاضی فیض احمد ٹوبہ ٹیک سنگھ، مولانا نور الحق نور پشاور، حاجی لال حسین کراچی، میر شکیل الرحمن، مولانا محمد رمضان راولپنڈی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا اللہ وسایا صاحب، مولانا قاضی اللہ یار، مولانا بشیر احمد، حاجی محمد اشرف، مولانا خدا بخش ربوہ اور جماعت کے سینکڑوں ہزاروں وفادار بہادر ایثار پیشہ کارکن اور رضا کار اُن کے ساتھ ہیں۔ یہ عہد کرچکے ہیں کہ وہ امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ، مجاہد ختم نبوت حضرت محمد علی جالندھریؒ، مولانا لال حسین اخترؒ اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے اس عظیم مشن کو جاری رکھیں گے اور ان کی عظمتوں کے پرچم لہراتے رہیں گے۔ تذکرہ مجاہد ختم نبوت حضرت بنوریؒ: تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء کے دوران مردان کے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے آخری فیصلہ کیا ہوا ہے، اپنے سامان میں اپنے ساتھ کفن رکھا ہوا ہے یا تو قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت تسلیم کیا جائے گا یا ہم اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیں گے، اس کے علاوہ اور کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے‘‘۔ اسی تحریک میں جب اپنے قائم کردہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی سے روانہ ہونے لگے تو حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کو بلاکر فرمایا کہ میں اپنے ساتھ کفن لئے جارہا ہوں، پھر سامان سے کفن نکال کر دکھایا اور فرمایا: زندہ رہا تو واپس آجاؤں گا، اگر شہید ہوگیا تو یہ مدرسہ تمہارے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کی حفاظت کرنا۔ ۱۹۷۴ء میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی امارت کے لئے آپ کو منتخب کیا گیا، جاننے والے جانتے ہیں کہ کتنی منتوں سماجتوں، کتنے استخاروں ، دعاؤں اور مشوروں کے بعد آپ نے یہ منصب قبول فرمایا۔ ابھی ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی امارت قبول کئے آپ کو چند مہینے نہیں گزرے تھے کہ ربوہ اسٹیشن کا سانحہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں ملک گیر تحریک چلی اور اس نے غیر معمولی شکل اختیار کرلی۔ اس کی قیادت کے لئے تمام جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی تو باصرار اس کی صدارت کے لئے آپ کو منتخب کیاگیا۔ حضرت قدس سرہ نے اس تحریک کے دوران جس تدبر وفراست جس اخلاص وللہیت جس صبر واستقامت اور جس ایثار قربانی سے ملی قیادت کے فرائض انجام دیئے، وہ ہماری تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ ان دنوں حضرت پر سوزو گداز کی جو کیفیت طاری رہتی تھی، وہ الفاظ کے جامہ تنگ میں نہیں سما سکتی، حق تعالیٰ نے آپ کے اسی سوزدروں کی لاج رکھی اور قادیانی ناسور کو جسد ملت سے کاٹ کر جدا کردیا گیا۔                                                                 (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین