بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمة الله عليه کی رحلت

دارالعلوم دیوبند کے استاذِ حدیث ، جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر، ترانۂ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار، محدثِ عصر ، استاذ العلماء حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ اس دنیائے رنگ وبو میں ۷۷؍بہاریں گزار کر ۲۳؍ شعبان ۱۴۳۸ھ مطابق ۲۰؍مئی۲۰۱۷ء بروز ہفتہ سحری کے وقت رحلت فرمائے عالم آخرت سدھار گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ ۹؍مارچ۱۹۴۰ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے، آپ کا آبائی وطن موضع حبیب والا ضلع بجنور ہے۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے پھوپھا مولانا سلطان الحق بجنوریؒ (ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند) کے ہم راہ ۱۱؍برس کی عمر میں۱۹۵۱ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ ۷سال تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۵۸ء میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی، اس کے بعد بھی حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادیv کی آغوشِ تربیت میں رہ کر برسوں استفادہ کیا اور اپنے استاذ محترم کے درسِ بخاری کی تقریروں کو مرتب کر کے ’’إیضاح البخاری‘‘ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ ۱۹۷۲ء میں دارالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے۔ کچھ برسوں تک تدریس کے ساتھ ساتھ ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ ۱۴۰۵ھ میں مجلس شوریٰ نے آپ کو مجلس تعلیمی کا ناظم مقرر کیا۔ ۱۴۰۸ھ میں آپ کو شیخ الہند اکیڈمی کا نگراںمقرر کیا گیا ۔ نمازِ جنازہ میں بڑی تعداد میں دیوبند و بیرونِ دیوبند کے علماء ، طلبہ و عوام نے شرکت کی ۔ مولانا ریاست علی بجنوری تقریباً گزشتہ۴۵؍سال سے دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس اپنی علمی، اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مولانا کا شمار دارالعلوم دیوبند کے قدیم اساتذہ میں تھا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد ادارہ کی علمی و انتظامی ترقی میں آپ کا زبردست کردار رہا ہے۔  دارالعلوم دیوبند کے تحریری اُمور کی ذمہ داریوںکے ساتھ مولانا مرغوب الرحمن ؒ کے دور میں ادارہ کے کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور طویل مدت تک شعبہ تعلیمات کے ناظم کی ذمہ دایاں انجام دیں۔ مرحوم کا اردو ادب سے بھی کافی گہرا رشتہ تھا۔ آپ ترانۂ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار ہیں اور اپنے استاذ حضرت مولانا فخر الدینv کے درسِ بخاری ’’إیضاح البخاری‘‘ کے مرتب بھی ہیں،جس کی تقریباً ۱۰؍جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تصنیف و تالیف کا زبردست شوق رکھتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ گزشتہ نصف صدی پر محیط آپ کی دینی ،علمی ،اصلاحی اور تربیتی خدمات کے سبب آج پورے عالم میں آپ کے ہزاروں شاگر د ’’قال اللّٰہ و قال الرسولؐ‘‘ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ عام سا رہن سہن اور سادہ زندگی مولانا کا خاصہ تھی۔ مرحوم عہدحاضر کے پائے کے بزرگ اور معتبر ادیبوں میں صف اول کی حیثیت رکھتے تھے۔ ’’ترانہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے علاوہ ’’نغماتِ سحر‘‘ کے نام سے آپ کاایک مجموعۂ کلام بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے ساتھ ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے پلیٹ فارم سے بھی آپ کی اعلیٰ خدمات ہیں اور فی الوقت ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے ’’نائب صدر‘‘ کے طورپر پر آپ نمایاں طورپر سماجی و اصلاحی کاموں میں حصہ دار تھے۔  قابل ذکر امر یہ ہے کہ فی الوقت دارالعلوم دیوبند کے اکثر اساتذہ کا آپ کے شاگروں میں شمار ہوتاہے۔ مولانا مرحوم ویسے کافی عرصہ سے مختلف امراض میں مبتلا تھے، مگر علاج ومعالجہ کے سہارے وہ مسلسل دارالعلوم آکر درس و تدریس کی خدمات نمایاں طورپر انجام دے رہے تھے۔ مرحوم کا انتقال دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے ایک باب کا خاتمہ ہے۔ پسماندگان میں چاربیٹے ہیں۔ نمازِ جنازہ بعد نمازِ ظہر احاطۂ مولسری میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر قاری محمد عثمان منصور پوری دامت برکاتہم نے ادا کرائی۔ بعد ازیں ہزاروں سوگواروںکی موجودگی میں قبرستانِ قاسمی میںتدفین عمل میںآئی ۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم نے مولانا ریاست علی بجنوریؒ کے سانحۂ ارتحال پر مدینہ منورہ سے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ قراردیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ: مولانا بجنوری مرحوم کی وفات سے علمی دنیا میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پرہونا ناممکن نہ سہی، لیکن مشکل ضرور ہے۔ مولانا مدنی نے مرحوم کے ورثاء ، اقرباء اور متعلقین سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے بارگاہِ رب العزت میں مولانا مرحوم کی مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کی ہے۔ نیز جماعتی رفقائ، اربابِ مدارس، طلبہ عزیز اور عام مسلمانوں سے مولانا کے لیے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کی اپیل کی ہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب، نائب رئیس حضرت مولانا سید محمد سلیمان یوسف بنوری صاحب، ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ صاحب، جامعہ کی شوریٰ، تمام اساتذہ اور ادارہ بینات حضرت مولانا ریاست علی بجنوری ؒ کی وفات کو علمی دنیا کے لیے عظیم سانحہ قراردیتا ہے اور دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے اور مرحوم کی جملہ حسنات کو قبول فرماکر انہیں جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ آمین افادۂ عام کی غرض سے ترانۂ دارالعلوم دیوبند نقل کیا جارہا ہے: ترانۂ دارالعلوم دیوبند یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں اِک شعلہ ہے ہر سرو یہاں مینارہ ہے خود ساقی ؐ کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں

تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں جو وادیِ فاراں سے اُٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں

ہستی کے صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں برسا ہے یہاں وہ ابرِ کرم اُٹھا تھا جو سوئے یثرب سے

اس وادی کا سارا دامن سیراب ہے جو ئے یثرب سے کہسار یہاں چھپ جاتے ہیں طوفان یہاں رُک جاتے ہیں

اس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں ہر بوند ہے جس کی امرت جل یہ بادل ایسا بادل ہے

سو ساگر جس سے بھر جائیں یہ چھاگل ایسا چھاگل ہے مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے

خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے یہ صحن چمن ہے برکھادت ہر موسم ہے برسات یہاں

گلبانگ سحر بن جاتی ہے ساون کی اندھیری رات یہاں اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی

اس بام حرم سے گونجی ہے سو بار اذاں آزادی کی اس وادی گل کا ہر غنچہ خورشیدِ جہاں کہلایا ہے

جو رِند یہاں سے اُٹھا ہے وہ پیر مغاں کہلایا ہے جو شمع یقیں کی روشن ہے یہاں وہ شمع حرم کا پرتو ہے

اس بزم ولی اللّٰہی میں تنویر ثبوت کی ضوء ہے یہ مجلس مے وہ مجلس ہے خود فطرت جس کی قاسم ہے

اس بزم کا ساقی کیا کہیے جو صبح ازل سے قائم ہے جس وقت کسی یعقوب کی لے اس گلشن میں بڑھ جاتی ہے

دَھاڑوں کی ضیاء خورشیدِ جہاں کو ایسے میں شرماتی ہے عابد کے یقیں سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل

آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کا ایسا تاج محل یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمود بہت تیار ہوئے

اس خاک کے ذرّے ذرّے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے ہے عزمِ حسین احمد سے بپا ہنگامۂ گیر و دار یہاں

شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لیے تلوار یہاں رومیؒ کی غزل رازیؒ کی نظر غزالیؒ کی تلقین یہاں

روشن ہے جمالِ انورؒ سے پیمانۂ فخرالدینؒ یہاں ہر رِند ہے ابراہیم یہاں ہر میکش ہے اعجاز یہاں

رِندانِ ہدیٰ پر کھلتے ہیں تقدیس طلب کے راز یہاں ہیں کتنے عزیز اس محفل کے انفاسِ حیات افروز ہمیں

اس ساز معانی کے نغمے دیتے ہیں یقیں کا سوز ہمیں طیبہ کی مئے مرغوب یہاں دیتے ہیں سفالِ ہندی میں

روشن ہے چراغِ نعمانی اس بزم کمالِ ہندی میں خالق نے یہاں ایک تازہ حرم اس درجہ تمہیں بنوایا ہے

دل صاف گواہی دیتا ہے یہ خلد بریں کا سایہ ہے اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک

ہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو

یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو جو صبح ازل میں گونجی تھی فطرت کی وہی آواز ہیں ہم

پروردۂ خوشبو غنچے ہیں گلشن کے لیے اعجاز ہیں ہم اس برقِ تجلی نے سمجھا پروانۂ شمع نور یہیں

یہ وادیِ ایمن دیتی ہے تعلیم کلیم طور یہیں دریائے طلب ہوجاتا ہے ہر مے کش کا پایاب یہاں

ہم تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں مے نوشی کے آداب یہاں بلبل کی دعا جب گلشن میں فطرت کی زباں ہوجاتی ہے

انوارِ حرم کی تابانی ہر سمت عیاں ہوجاتی ہے امدادؒ و رشیدؒ و اشرفؒ کا یہ قلزمِ عرفاں پھیلے گا

یہ شجرۂ طیبؒ پھیلا ہے تا وسعتِ امکاں پھیلے گا خورشید یہ دین احمدؐ کا عالم کے اُفق پر چمکے گا

یہ نور ہمیشہ چمکا ہے یہ نور برابر چمکے گا یوں سینۂ گیتی پر روشن اسلاف کا یہ کردار رہے

آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم سینہ میں دلِ بیدار رہے ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین