بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی

حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی

معزز مہمانان گرامی اور میرے عزیز طلبہ! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولaنے ہمیں خوشی کے موقع پر بھی تعلیمات دی ہیں کہ ہم کس طرح خوشی منائیں ، ہم خوشی منانے میں بھی آزاد نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اس دنیا میں آزمائشیں آتی ہیں، بیماریاں آتی ہیں،نقصان ہوتے ہیں ، وفات ہوتی ہیں،یہ بھی مصائب ہیں، اب اس میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ عملی طور پر بالکل واضح تعلیمات دی ہیں ، اقوال سے بھی، اعمال سے بھی۔ دنیا میں آپ a پر بھی مصیبتیں آئی ہیں، آپa کے بھی قریب ترین بعض حضرات جدا ہوگئے، آپa نے کیا کیا؟ تو امت کے لیے آپa نے ایک نمونہ پیش کیا۔  حدیث شریف میں آتا ہے کہ:’’ آپa کی صاحبزادی کا ایک چھوٹا بچہ آخری حالت میں تھا، انہوں نے ایک آدمی بھیجا کہ آپa تشریف لائیں، تاکہ ان کو تسلی ہو، آپa نے فرمایا کہ ان سے جاکے سلام کہو اور ان سے کہو کہ وہ صبر کریں اور اجروثواب کی دل میں نیت رکھیں، لیکن ماں ماں ہوتی ہے، انہوں نے دوبارہ آدمی بھیجا اور قسم دی کہ آپ ضرور تشریف لائیں، آپa اور کچھ صحابہؓ   تشریف لے گئے، بچہ آپa کی گود میں لایا گیا، اس کے بالکل آخری سانس تھے، اس کو دیکھ کر آپa کے آنسو بہنے لگے، ایک صحابیؓ نے تعجب سے پوچھا: حضرت!آپ بھی روتے ہیں؟ فرمایا کہ : یہ تو رحمت کی علامت ہے جو اللہ نے دلوں میں رکھی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جو روکتا ہے یعنی ناپسندکرتا ہے تو آپa نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا یعنی کوئی بین کرے، یا ایسی ایسی باتیں کرے جس میں نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت ہو یا گریبان پھاڑے، منہ پر مارے، یہ چیزیں منع ہیں۔ محض رونا، غم کا اظہار کرنا منع نہیں ہے، یہ تو رحمت کی علامت ہے۔ آپa کے صاحبزادے حضرت ابراہیم q کو آپa کی گود میں لایا گیا، وہ بھی اسی آخری حالت میں تھے، بلکہ فوت ہوچکے تھے، آپ a کے آنسو مبارک بہہ رہے تھے، فرمایا کہ:’’ العین تدمع والقلب یحزن وإنا بفراقک یا إبراہیم! لمحزونون ولانقول إلا مایرضی بہ ربنا سبحانہٗ وتعالٰی۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ آنکھیں پرنم ہیں، دل غمگین ہے، اور اے ابراہیم! تمہاری جدائی پر ہم غمگین ہیں،ہمیں غم ہے، ہمیں صدمہ ہے، لیکن اپنی زبان سے ہم وہی بات کریں گے جو اللہ کو پسند ہوگی، اپنی زبان سے ایسی باتیں نہیں کریں گے جس میں شکوہ شکایت ہو۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نظام رکھا ہے، بہرحال انسان انسان ہے، اور اس میں ایک دل ہے، جدائی پہ انسان کو تکلیف ہوتی ہے، بے شک ہوتی ہے، اسلام نے اس سے منع نہیں کیا، اسلام اس سے منع کرتا ہے کہ آپے سے باہر ہوکر -جیسے جاہلیت میں تھاکہ- مکے ماررہے ہیں، گریبان پھاڑ رہے ہیں، اور بین کررہے ہیں اور شکوے شکایتیں ہورہی ہیں، اس سے منع کیا ہے، بہرحال آج جس مرحومہ کے لیے آپ نے قرآن کریم پڑھا ہے، اور ہم جمع ہوئے ہیں، انسان جب زندہ ہوتا ہے تو اس کے حقوق ہوتے ہیں، ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، عزیز واقارب ہیں، اور ایک ہے دنیا سے جانے کے بعد پھر بھی حقوق ختم نہیں ہوتے۔ ہمارا مرحومہ سے ایک روحانی تعلق تھا، اور میرا ذاتی طور پر تو حضرت بنوری v کی وجہ سے بہت زیادہ تعلق تھا، ایسا تعلق جیسے بہن بھائیوں جیسا، اس لیے کہ یہ مرحومہ اور ان کی دوسری بہنیں، اور محمد مرحوم یہ بچے تھے، جب حضرتؒ (حضرت بنوریv)یہاں تشریف لائے، یہاں پہلے مکان نہیں تھا، دو مکان بنے، ایک امام صاحب کے لیے اور ایک مدرسہ کے مہتمم کے لیے، جب حضرتؒ تشریف لائے تو یہ چھوٹے چھوٹے بچے تھے، تو اب گھر کے چھوٹے چھوٹے کام میں بجالاتا تھا، اور ان کی زبانوں پر یہ چڑھ گیا کہ یہ مجھے بابو بھائی کہتے تھے، جب بھی مجھے بلاتے تو کہتے بابو بھائی کو بلالو، یہ چھوٹے چھوٹے میرے سامنے بڑے ہوئے، اس لیے حضرتؒ کی وجہ سے میرا یہ تعلق تھا۔ ابھی تک مجھے یاد ہے آخری جو ہماری ٹیلیفون پر بات ہوئی، ٹیلیفون آیا، میں نے اٹھایا-اور گھر پہ بچوں کے ساتھ ان کی باتیں ہوتی رہتی تھیں- کہاکہ آپ کون؟ میں نے کہا: آپ کا بابوبھائی بول رہا ہوں، بہت خوش ہوئیں، بہرحال پھر میں نے بچوں کو دے دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت بنوری v کی وجہ سے ہمارا ایک روحانی تعلق تھا، یہ سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، تو وہ اُسے تکلیفوں میں مبتلا کردیتے ہیں، بعض دفعہ یہ بیماری خود ایک علاج ہے، اور اس سے صفائی ہوتی ہے۔ پاک صاف ہوکر ایک بندہ اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے، مرحومہ ایک عرصہ سے بستر پر تھیں اور اس بیماری سے اللہ نے انہیں پاک صاف کردیا، تو آج اگر وہ ٹھیک ہے کہ ہم سے جداہوگئیں، ہم قریب بعید جتنے بھی ہیں، ہمیں صدمہ ہے: ’’العین تدمع والقلب یحزن وإنا بفراقک یا أختنا لمحزونون۔‘‘ لیکن اگر غور کریں تو ان شاء اللہ! اللہ سے یہی امید ہے کہ وہ خوش ہوں گی، آج وہ خوشی میںہوں گی، کیونکہ یہاں سے جانے کے بعد اپنے اَبا سے مل رہی ہیں، اپنی اماں سے مل رہی ہیں، بہن سے مل رہی ہیں، اور اپنے عزیز واقارب سے مل رہی ہیں، اور وہ خوش ہورہے ہیں، تو وہاں تو خوشی ہی خوشی ہے، اور پھر خاص طور پر جب کوئی اللہ کا نیک بندہ ہو تو اس کے لیے اور زیادہ خوشی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ: ’’کہ جب یہاں سے ایک انسان وہاں جاتا ہے تو وہاں روحوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہ پوچھتی بھی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کا کیا حال ہے؟ ‘‘ ابھی ایک مولانا آئے تھے، فرمارہے تھے کہ مظہر جانِ جاناںv ایک بزرگ گزرے ہیں، ان کا ایک شعر ہے(جس کا مفہوم یہ ہے ): لوگ کہتے ہیںکہ ’’مظہر مر گیا، نہیں بھائی وہ مرا نہیں، وہ تو اپنے گھر گیا‘‘ تو ہمارا اصل گھر تو وہی ہے، یہ تو رستہ کا ایک اسٹاپ ہے، یہ ٹھکانہ ہے تھوڑا، جیسے ایک آدمی سفر کرتاہے، کہیں ٹھکانہ کیا، پھر آگے چلا، تو دنیا تو ایک ٹھکانہ ہے۔  بہرحال اللہ تعالیٰ نے صبر پر بہت بڑے اجر کی بشارت دی ہے:’’وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والوں کو بشارت دو، کہ جب ان پر مصیبت آتی ہے تو وہ آپے سے باہر نہیں ہوتے، جزع فزع نہیں، بلکہ ان کی زبان سے پہلے ہی نکلتا ہے: ’’إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ہم بھی اللہ کے لیے ہیں، ہم بھی اللہ کی طرف جانے والے ہیں۔یہ تو باری کی بات ہے، آج ایک کی باری ہے، کل دوسرے کی، تیسرے کی۔ بعض دفعہ گھر کے کئی لوگ سفر کرتے ہیں، آج ایک روانہ ہورہا ہے، کل دوسرا، پھر تیسرا، آگے جاکر سب اکٹھے ہوں گے، جب ہم اللہ کے ہیں، جب ہم اللہ کے بندے ہیں، اللہ کی ملک میں ہیں، اللہ جس کو چاہے یہاں رکھے، جس کو چاہے بلالے، اس پر ہمیں کیا اعتراض ہے؟ گھر باورچی خانے کے اندر، شوکیس کے اندر مختلف چیزیں رکھی ہوتی ہیں، آپ ایک جگہ سے کوئی چیز اٹھاکر وہاں رکھ دیتے ہیں، وہاں سے اٹھاکر یہاں رکھ دیتے ہیں، کوئی اعتراض کرتا ہے؟ میری چیز ہے جہاں رکھوں، تو بھائی! جب ہم اللہ کے بندے ہیں، تو وہ ہمیں یہاں رکھے یا اپنے پاس لے لے تو اس لیے ہمیں اللہ پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔  پھر فرمایا کہ : ’’أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ ‘‘صلوات اور رحمت اللہ کی طرف سے ہے، اور ’’وَأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ‘‘ حضرت عمرq فرماتے ہیں: ’’نعم العدلان ونعم الإداوۃ‘‘ کہ وہ جب یہ جانوروں پر اونٹ پر سامان رکھتے تھے تو ایک سامان تو وہ ہوتا تھا جو دائیں بائیں ہوتا تھا، اور ایک کوئی چیزیں بچ جاتی تھیں تو اس کی گٹھڑی بناکر درمیان میں رکھتے تھے تو اس لیے فرماتے ہیں کہ ’’نعم العدلان‘‘ یہ عدلان سے مراد ’’أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ ‘‘ اللہ کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے، یہ تو عدلان ہوگیا، اور ’’نعم الإداوۃ‘‘، ’’وَأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ‘‘ بہرحال یہ پورا خاندان علمی خاندان ہے، اور مسائل بھی سمجھتے ہیں، اور الحمد للہ انہوںنے نہایت ہی صبر وتحمل سے کام لیا ہے، اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان کے لیے یہ سارے اجروثواب ہوں گے۔ جو دنیا سے جاچکے ہیں، جس طرح زندگی میں حقوق ہوتے ہیں، ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں،  عزیزواقارب ہیں، اسی طرح مرنے کے بعد بھی حقوق ہوتے ہیں، ان حقوق میں یہ ہے کہ ان کو دعاؤں میں یاد کیا جائے، حدیث شریف میں آتا ہے: ’’جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں، اعمال کا رجسٹر بند ہوجاتا ہے،اب نماز نہیں پڑھ سکتا تو اجر بھی نہیں ملے گا، روزے نہیں رکھ سکتا تو وہ بھی نہیں ہوگا، زکوٰۃ نہیں دے سکتا، وہ بھی رجسٹر بند ہوگیا، لیکن تین عمل ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کا اجر ملتا رہتا ہے، اور ان میں ’’ولد صالح یدعو لہ‘‘ نیک اولاد جو ان کے لیے دعا کرتی ہے، نیک اولاد، نیک عزیز واقارب، نیک متعلقین جو بھی دعا کرتے ہیں، ان کو ملتا رہتا ہے۔  ہمارے فقہاء میں فقیہ ابواللیثؒ گزرے ہیں، یہ سمرقند میں تھے، اور وہیں ان کی قبر بھی ہے، اللہ نے ہمیں وہاں ایک مرتبہ پہنچادیا، تو ایک عالم تھے، وہ ہمیں وہاں لے گئے ان کی قبر پر، ہم وہاں چلے گئے، اورفاتحہ پڑھی ، ایصال ثواب کیا، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ زندگی میں وہ کہتے تھے کہ یہ ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا، ایصال ثواب نہیں پہنچتا، لیکن جب وہ وفات پاگئے تو مرنے کے بعد کسی اللہ کے بندے نے خواب میں دیکھا، پوچھا کہ مفتی صاحب! اب پہنچتا ہے کہ نہیں پہنچتا؟ کہتے ہیں کہ پہنچتا ہے، یعنی زندگی میں تو ان کا یہ فتویٰ تھا،مرنے کے بعد کہتے ہیں کہ پہنچتا ہے ۔ اس لیے کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آرہا ہے، ان کے شاگرد ہیں، عزیز واقارب ہیں، دعا کررہے ہیں، وہ سب ایصالِ ثواب کررہے ہیں، وہ سارا ان کو پہنچ رہا ہے تو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اس لیے اپنے والدین ، عزیزواقارب اور ہماری مرحومہ ہیں، ان سب کے لیے ہم دعا کریں گے تو ان شاء اللہ! ان کو ملے گا۔ میں عزیز طلبہ سے یہی گزارش کروں گا کہ جو کچھ آپ نے پڑھا ہے اسے مرحومہ کے لیے ایصالِ ثواب کریں۔ جو حضرات بعد میں آئے ہیں وہ ایک مرتبہ سورۂ فاتحہ اور تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ لیں، اس کا ثواب بھی مرحومہ کے لیے ایصالِ ثواب کریں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اونچے درجات عطا فرمائیں اور جتنے بھی پسماندگان ہیں، سب کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے، اور دنیا وآخرت میں اس کا اجروثواب عطا فرمائے۔

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین