بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کا سانحۂ ارتحال

حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کا سانحۂ ارتحال دم بخود ہیں موت پر تیری روایاتِ سلف کون اقدارِ سلف کی اب نگہبانی کرے (نغمہئ سحر) ٢٣/شعبان ١٤٣٨ھ مطابق ٢٠/مئی ٢٠١٧ء بروز ہفتہ فجر کی نماز کے بعد ہی میرے مخلص دوست جناب مولانا حکمت اللہ صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند اور استاذ ''جامعۃ الشیخ حسین أحمد المدنیؒ'' نے دیوبند سے فون پر ایک ایسی ناگہانی اور اندوہناک خبر سنائی کہ اس پر ظاہری اسباب کے تحت یقین کرنا مشکل ہوگیا، خبر یہ تھی کہ دارالعلوم دیوبند کے مایہئ ناز استاذِ حدیث اور سابق ناظم تعلیمات حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کا گزشتہ رات (جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب) صبح صادق سے کچھ پہلے تقریباً چار بج کر دس منٹ پر انتقال ہوگیا۔ یہ دلخراش خبر سن کر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں نے ''إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ'' پڑھ کر ان سے کہا کہ ابھی چند ہی روز قبل تو حضرت الاستاذ سے فون پر حسبِ معمول میری بات ہوئی تھی اور بظاہر وہ بالکل تندرست تھے اور اپنے معمولات حسبِ سابق انجام دے رہے تھے! انہوں نے کہا کہ: جی ہاں! وہ آخری دن تک چل پھر رہے تھے اور اپنی کچھ پرانی بیماریوں کے علاوہ کوئی نئی بیماری بھی لاحق نہیں ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کا وقتِ موعود آگیا اور وہ ہم سے جدا ہوگئے۔ مولانا حکمت اللہ صاحب چونکہ فاضلِ دارالعلوم دیوبند اور قابل اعتماد دوست ہیں، اس لیے     ٭ سابق استاذ:دارالعلوم دیوبندانڈیا،حال استاذ:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ان کی خبر کو میں جھٹلا تو نہیں سکتا تھا، تاہم دل پھر بھی حضرت الاستاذ کی رحلت کی خبر کو ماننے کے لیے مکمل طور پر آمادہ نہیں تھا اور اپنے آپ کو یہ تسلی دینے کی کوشش کررہا تھا کہ ہوسکتا ہے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو اور حقیقت میں ایسا حادثہ پیش نہ آیا ہو! اسی امید پر میں نے فوری طور پر حضرت الاستاذ ہی کے موبائل نمبر پر فون کیا اور دل کو یہ تمنا تھی کہ اُدھر سے حسبِ معمول حضرت الاستاذ ہی کی شفقت بھری آواز سننے کو ملے، لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ حضرت الاستاذ کے مخصوص نمبر سے ان کے بجائے ان کے فرزندِ اکبر مولانا محمد سفیان عرشی قاسمی صاحب کی آواز میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے کلمات ادا کیے گئے، جس سے مذکورہ دلخراش خبر کو تقویت ملی۔ احقر نے سلام کا جواب دینے کے بعد استفسار کیا کہ آج کیوں حضرت الاستاذ کے مخصوص نمبر سے ان کے بجائے آپ کی آواز سن رہا ہوں؟ اس نمبر سے تو ہمیشہ ان ہی کی آواز سے دل کو سکون ملتا تھا! انہوں نے بہت ہی صبر وتحمل کے ساتھ حضرت کے وصال کی تصدیق کی، جس کے بعد میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالنے اور مولانا محمد سفیان صاحب کو تسلّی دینے اور تعزیت کے الفاظ کہنے کی کوشش کی، لیکن غیر اختیاری طور پر میں اپنے آپ کو مکمل طور پر سنبھالنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور بجائے اس کے کہ میں مولانا محمد سفیان صاحب کو تسلی دوں، وہ مجھے تسلی دینے لگے، جس سے میرے اندر بھی ہمّت پیدا ہوگئی اور حضرت الاستاذ کی قابلِ رشک زندگی کے چند اہم گوشوں کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے اُن سے اور اُن کے توسط سے خاندان کے دیگر افراد سے تعزیت کرتے ہوئے صبر وتحمل کی درخواست کی۔ اس کے بعد احقر نے تعزیت کے لیے دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب اور نائب مہتمم حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی صاحب کو بھی فون کیا۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے بتایا کہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب v بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور چار روز قبل بروز منگل ١٩/ شعبان کو امتحانِ سالانہ کا آخری دن تھا، وہ امتحان گاہ تشریف لائے تھے اور میری ملاقات وگفتگو بھی ان سے ہوئی تھی، ماشاء اللہ! بالکل ٹھیک ٹھاک لگ رہے تھے اور ظاہری اسباب کے تحت ایسے حادثے کی کوئی توقع نہیں تھی، لیکن موت کا سب سے بڑا اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہی کا وہ مقرر کردہ وقت ہے جس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا، اسی مقررہ وقت پر حضرت مولانا ریاست علی صاحب v نے داعیِ اَجل کو لبیک کہا۔ اس سانحہ کے بعد احقر کی تمنا تو یہ رہی کہ حضرت والا کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے اور جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے فوری طور پر دیوبند حاضری دوں! لیکن پاکستان سے ہندوستان کا ویزا حاصل کرنا اور بالخصوص دیوبند کا ویزا بہت ہی مشکل اور وقت طلب ہے، لہٰذا ایصالِ ثواب اور دعاہائے مغفرت پر اکتفا کیا گیا اور احقر کی درخواست پر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایصالِ ثواب کا اہتمام کیاگیا اور حضرت الاستاذ کی مغفرت ورفعِ درجات اور پسماندگان ومتعلقین کے صبر جمیل کے لیے دعائیں کی گئیں اور مزید یہ کہ جامعہ کے چند نوجوان اساتذہ وفضلاء جو دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں چلہ لگارہے تھے، جب ان کو حضرتؒ کے وصال کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے اس بابرکت سفر کے دوران سات آٹھ ختمِ قرآن کا ایصالِ ثواب کیا اور مجھ سے فون پر رابطہ کرکے تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ ایصالِ ثواب سے بھی آگاہ کردیا۔ آپ کی نمازِ جنازہ بعد نمازِ ظہر احاطہئ دارالعلوم دیوبند میں حضرت قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند اور دامادِ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کی امامت میں اداکی گئی، جس میں علماء وصلحاء اور طلبہئ عزیز وعام مسلمانوں کے ایک جمِّ غفیر نے شرکت کی اور اکابرینِ دارالعلوم کے قبرستان ''مزارِ قاسمی'' میں آپ کو سپردِخاک کیا گیا، رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً۔ حضرت والا کی تعلیم وتربیت اور دارالعلوم دیوبند میں تقرری حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوریv کی ولادت ٩/مارچ ١٩٤٠ء کو ہوئی۔ ابتدائی عصری تعلیم ''حبیب والا'' میں جو ''بجنور'' کے مضافات میں واقع ہے درجہئ چہارم تک حاصل کی، پھر ان کے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب v ناظمِ کتب خانہ دارالعلوم دیوبند نے ان کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری لیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند میں درجہئ فارسی میں داخل کرایا۔ درجہئ فارسی سے دورہئ حدیث تک پوری تعلیم دارالعلوم دیوبند کے بابرکت ماحول میں حاصل کرکے ١٩٥٨ء کو دورہئ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ حضرت مولانافخر الدین احمد صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند v (متوفی: ١٣٩٢ھ) سے بخاری شریف پڑھی اور ان کے درسِ بخاری کو اہتمام کے ساتھ قلم بند کردیا اور بعد میں ''ایضاح البخاری'' کے نام سے شائع کرنا بھی شروع کیا۔ ١٣٩١ھ مطابق ١٩٧٢ء کو دارالعلوم دیوبند میں مدرس کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا اور ابتدائی درجات سے لے کر دورہئ حدیث وتکمیلات تک کامیابی کے ساتھ سنِ ہجری کے حساب سے سینتالیس سال اور سنِ میلادی کے حساب سے تقریباً پینتالیس سال تک پڑھاتے رہے۔ آخری چند سالوں میں دورہئ حدیث میں حدیث کی اہم کتاب ترمذی شریف جلد اول زیرِ تدریس رہی۔ مزید علمی وادبی کارنامے دارالعلوم دیوبندکا ماہانہ رسالہ ''دارالعلوم'' ایک عرصے تک آپ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ اسی طرح ''شیخ الہندؒ اکیڈمی'' کی نگرانی بھی کچھ عرصے تک آپ فرماتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پاکیزہ شعر وشاعری کا ذوق بھی عنایت فرمایاتھا، چنانچہ آپ کے اشعار کا مجموعہ ''نغمہئ سحر'' کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور دارالعلوم دیوبند کا مشہور ومعروف ترانہ (یہ علم وہنر کا گہوارہ . . . . . . ) آپ ہی کی تخلیق اور آپ ہی کی پاکیزہ شاعری کا ترجمان ہے، جسے سن کردلوں پر رقت طاری ہوتی ہے اور آنکھوں کو آنسو بہائے بغیر چین نہیں آتا۔ اس الہامی ترانے کی وجہ سے حضرت والا کی مقبولیت وشہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ تصنیف وتالیف کے میدان میں آپ کا ایک عظیم کارنامہ ''ایضاح البخاری'' شرح صحیح بخاری ہے، جس میں آپ نے اپنے استاذِ محترم فخر الاسلام حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب v شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے افادات کو اپنی مزید تحقیق، حسنِ ترتیب اور حوالوں کی نشاندہی کے ساتھ جمع فرمایاہے اور آپ کی وفات تک اس کی دس جلدیں (شروع سے کتاب الشروط کے اختتام تک) شائع ہوچکی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے فرزندوں اور شاگردوں کو اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی طرح تصنیف وتالیف کے میدان میں آپ کی ایک اور شاہکار تصنیف ''شوریٰ کی شرعی حیثیت'' ہے جو اپنے موضوع پر ایک مفصل ومدلل کتاب ہے۔ یہ کتاب مجلس شوریٰ اور مہتمم کی باہمی حیثیت سے متعلق لکھی گئی ہے اور نصوصِ شرعیہ اور اسلافِ امت واکابرینِ دارالعلوم دیوبند کی تصریحات کی روشنی میں شوریٰ کی بالادستی، مہتمم کو اس کے سامنے جواب دہ ہونا اور مجلسِ شوریٰ کا مہتمم کے نصب وعزل کا مختار ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ١٤٠٨ھ کو پہلی بار ٤٠٨ صفحات پر مشتمل ''شیخ الہندؒ اکیڈمی دارالعلوم دیوبند'' کی طرف سے شائع ہوئی اور اس کو علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی وشہرت ملی۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ،، حضرت مولانا معراج الحق صاحب صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند v، حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند v، حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری موجودہ صدر المدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مدظلہم اور مشہور مصنف حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری v نگرانِ اعزازی ''شیخ الہندؒ اکیڈمی دارالعلوم دیوبند'' ان تمام اکابر نے اس کتاب پر اعتماد کا اظہار فرماتے ہوئے اس پر تصدیقات ثبت فرمادی ہیں۔ آپ کی تحریر کا امتیاز خوش نویسی، زودنویسی، باریک نویسی اور صاف نویسی ان چاروں عناصر کا مجموعہ میں نے اپنی زندگی میں صرف آپ ہی کی تحریروں میں دیکھا تھا، جب قلم ہاتھ میں لیتے تو روانی کے ساتھ خوبصورت چھوٹے حروف کے ساتھ موتیوں کی لڑیاں پرونے لگتے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتاہے کہ اگر کسی کی تحریر میں خوشنویسی ہے تو زودنویسی اور باریک نویسی معدوم، اور زودنویسی یا باریک نویسی اگر موجود ہے تو صاف نویسی اور خوشنویسی ندارد، حضرت الاستاذ v کی تحریروں میں بیک وقت یہ تمام اوصاف نظر آتے تھے۔ کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر پورے مضمون کا خلاصہ لکھنا آپ ہی کی خصوصیت تھی۔ آپ کی تحریر چاہے چند ہی سطر پر مشتمل ہوتی اور صرف ایک وقتی ضرورت کے تحت لکھی گئی ہوتی، اگر کسی صاحبِ ذوق کے ہاتھ لگ جاتی تو اس کی ظاہری وباطنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ ہمیشہ ا س کی حفاظت پر مجبور ہوجاتا۔ صاحبِ ذوق کو تو چھوڑیئے! احقر جیسے مغفّل طالب علم نے بھی آپ کی ہراس تحریر کی حفاظت کی ہے جو اس کے ہاتھ لگی ہے، چنانچہ آپ کے زمانہئ نظامتِ تعلیمات میں کسی سبق کے رد وبدل یا اضافہ وکمی یا دیگر تعلیمی امور سے متعلق جو وقتی حکم یا اطلاع کے طور پر آپ کی مختصر تحریریں احقر کے نام لکھی گئی ہیں، وہ سب آج تک احقر کی خصوصی فائل میں محفوظ ہیں اور بالخصوص وہ خطوط جو آپ نے اس ادنیٰ شاگرد کے خطوط کے جوابات میں لکھے ہیں، وہ تو کحل البصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تمام تحریروں کو موقع بموقع کھول کر ان سے استفادہ اور اپنے استاذ محترم v کی یادوں کو تازہ کرتا رہتا ہوں۔ بلند اخلاق اور امتیازی تواضع وخاکساری حضرت الاستاذ کو اللہ تعالیٰ نے بلند پایہ اخلاق کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا، آپ نے ایک عرصہ تک ناظم تعلیمات کی حیثیت سے دارالعلوم کی خدمت کی۔ اس دور ان آپ کا معاملہ اساتذہ کے ساتھ ہو یا طلبہ کے ساتھ' نہایت موزوں ومناسب ہوا کرتا تھا، کسی استاذ یا طالب علم کو ایسی شکایت کا موقع نہیں دیا کرتے تھے جسے ''شکایتِ بجا'' کہا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا ایک امتیازی کمال اور انفرادی خصوصیت آپ کی حقیقی تواضع اور بے پناہ خاکساری تھی جس سے احقر بے حد متاثر ہوا ہے، اس لیے کہ ظاہری اور ادعائی تواضع کی مثالیں تو کافی ملتی ہیں، لیکن حقیقی تواضع اور وہ بھی صاحبِ کمال بلکہ مجمع الکمالات شخص کے اندر پایا جانا بہت نایاب ہے۔ رواں ہجری صدی کے شروع میں جب راقم داخلہ کی غرض سے دارالعلوم دیوبند پہنچا اور حضرت والا سے پڑھنے کا موقع نصیب ہوا، اور پھر آپ کو بحیثیتِ ناظم تعلیمات بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور دارالعلوم دیوبند سے میری جدائی کے بعد بھی آپ سے تعلق قائم رہا -جو آپ کی وفات تک باقی رہا- اس طویل واقفیت کے بعد میں شرح صدر کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ تواضع کے جس مقام پروہ فائز تھے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہوگا۔ ظاہری تواضع کرنے والوں کی تواضع کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے، یا یہ کہ ان کے ہم پلہ اور کم درجہ کے لوگوں کو ان پر فوقیت دی جارہی ہے، یا ان کے ساتھ ان کے مقام سے کم درجہ کا برتاؤ کیاجارہا ہے! ایسے موقع پر وہ سیخ پا ہونے لگتے ہیں اور مختلف طریقوں سے احتجاج کرنے پر اُترآتے ہیں اور تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاکر اپنا مقام حاصل کرنے بلکہ اس سے بھی اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تو اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو ملے ہوئے مقام سے بالا تر سمجھتے ہیں، بلکہ ملے ہوئے مقام کو اپنی حیثیت سے بالاتر سمجھ کر اللہ کا شکر بجالاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارہ میں حدیث میں فرمایا گیا ہے: ''من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ'' (جس نے اللہ کی رضا کے لیے تواضع اختیار کی، اللہ ا س کو بلندی عطا فرماتا ہے)۔ حضرت الاستاذؒ کی حقیقی تواضع سے متعلق چند واقعات قلم بند کیے جارہے ہیں: پہلاواقعہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب v سے احقر غائبانہ طور پر اس وقت سے واقف ہوچکا تھا جب وہ تعلیمی سال ١٤٠٠ھ-١٤٠١ھ کو مدرسہ امینیہ دہلی میں درجہ موقوف علیہ کا طالب علم تھا، البتہ زیارت کا موقع نہیں مل سکا تھا، اور جب اگلے تعلیمی سال ١٤٠١ھ-١٤٠٢ھ کو دورہئ حدیث میں داخلہ لینے کی غرض سے دارالعلوم دیوبند حاضری ہوئی تو داخلہ کے ایام میں ہی ایک نورانی چہرہ والے اُدھیڑ عمر کے شخص کو دارالعلوم میں آتے جاتے دیکھا کرتا تھا جن کے سادہ لباس، بلاتکلف نقل وحرکت اور ہر ملنے والے کو سلام میں سبقت کرنے سے دل دل میں متأثر ہونے لگا تھا، اندازہ یہ تھا کہ یہ شخص دارالعلوم کے عام متعلقین میں سے کوئی ہوں گے جن پر بزرگوں کا رنگ چڑھا ہوا ہے، ان کی سادگی کو دیکھ کر یہ خیال ہرگز نہ تھا کہ یہ دارالعلوم کے بڑے استاذ ہوں گے، بعد میں پتہ چلا کہ یہی حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری ہیں۔ دوسرا واقعہ ایک دفعہ دارُالحدیث تحتانی دارالعلوم دیوبند میں ایک جلسہ (جلسہ انعامیہ یا کوئی اور جلسہ) منعقد ہوا جس میں اساتذہ وطلبہ سب شریک تھے۔ اساتذہ حسب ِمعمول اسٹیج پر تشریف فرما تھے، جبکہ طلبہ سامنے اور دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا ریاست علی صاحب غالباً ذرا دیر سے پہنچے ہوں گے تو پیچھے سے اسٹیج پر خالی جگہ نہ دیکھ کر (حالانکہ جگہ آسانی سے نکل سکتی تھی) کسی کو احساس دلائے بغیر ایک کونے میں جاکر طلبہ کی صفوں میں اس طرح خاموشی سے تشریف فرما ہوئے کہ حاضرین میں سے کسی کو آپ کی آمد کی خبر نہ ہوئی،راقم چونکہ اس وقت مدرس بن گیا تھا، اس لیے وہ بھی اسٹیج پر تھا، یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے راقم ہی کی نظر پڑی اور بڑی شرمندگی ہوئی کہ ایک ادنیٰ شاگرد اسٹیج پر بیٹھا ہوا ہے اور استاذالاساتذہ طلبہ کی صفوں میں!! تو سب سے پہلے احقر ہی نے حضرت والا سے اسٹیج پر آنے کی درخواست کی، اس دوران بڑے اساتذہ بھی متوجہ ہوئے اور ان کو اسٹیج پر بلایا، تب وہ تشریف لاکر اساتذہ کی صفوں میں تشریف فرما ہوئے۔ تیسراواقعہ جس وقت آپ اپنی مایہئ ناز تصنیف ''شوریٰ کی شرعی حیثیت'' لکھ رہے تھے تو چند اکابر حضرات سے اس سلسلہ میں باقاعدہ اُن کا تبادلہئ خیال ہوتا رہا اور ان سے مشورے لیتے رہے، اور ایسا بھی ہوتا رہا کہ کبھی اپنے چھوٹوں اور شاگردوں سے کتاب کے کسی موضوع سے متعلق کوئی سرسری تبادلہئ خیال ہوجاتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صرف ایک ہی مرتبہ خود مجھ سے اس کتاب کے کسی موضو ع سے متعلق کوئی سرسری تذکرہ فرمایا اور میری رائے دریافت کی، میں نے اپنی رائے ظاہر کردی جو درحقیقت حضرت ہی کی رائے کی تائید تھی۔ حضرت والا کی تواضع وحق بینی کا یہ عالم دیکھئے کہ مذکورہ کتاب کے شروع میں ''پیش لفظ'' کے تحت جہاں ان اکابر کا ذکر کیا ہے جن سے کتاب میں مدد لی گئی ہے وہاں ان اصاغر کا ذکر بھی فرمایا ہے جن سے تبادلہئ خیال کیا گیا ہے اور ان کے ضمن میں احقر کا نام بھی شامل کردیا ہے۔ اللہ ہدایت نصیب فرمائے ان مصنفین کو جو''علمی سرقہ''کرتے ہوئے دوسروں کی محنت وکاوش کو اپنا کارنامہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اور ان کو بھی جو پورا کام یا اکثر کام دوسروں سے کرواتے ہیں اور نام صرف اپنا ہی لگالیتے ہیں۔ حضرت والا نے کلیدی محنت خود ہی انجام دی، البتہ ایک معمولی شرکت کی وجہ سے اس کی نسبت دوسروں کی طرف کی ہے: ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تا بہ کجا چوتھاواقعہ کسی عالم کا اپنے ہم عصر دوسرے عالم کے علم وفضیلت کا اعتراف یا ان سے استفادہ کرنے کا اقرار کرنا اگرچہ بالکل معدوم تو نہیں البتہ شاذ ونادر ضرور ہے، لیکن دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں نے بے شمار ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں ہم عصروں کی بلندیوں کا اعتراف اور ان کی فضیلت وعظمت کو تسلیم کرنا نمایاں طور پر نظر آتا ہے، چنانچہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادیv اور حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندویv ' شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ، کی خدمت میں بیعت ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے، حضرت شیخ الاسلامؒ نے ان کے اصرار کے باوجود حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ، کی عظمت وفضیلت کا ذکر و اعتراف کرتے ہوئے اُن سے بیعت ہونے کا مشورہ دیا، صرف مشورہ ہی نہیں بلکہ ان کو لے کر تھانہ بھون تشریف لے گئے اور حضرت تھانوی ؒ سے ان دونوں کو بیعت کرلینے کی درخواست کی، حضرت حکیم الامتؒ نے بھی حضرت شیخ الاسلامؒ کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے فرمایاکہ: یہ لوگ چونکہ پہلے آپ ہی کے پاس حاضر ہوئے ہیں، اس لیے آپ ہی ان کو بیعت کرلیں، چنانچہ حکیم الامتؒکے اس فرمان کے احترام میں شیخ الاسلامؒ نے دونوں کوبیعت توکرلیا، لیکن اصلاح کامعاملہ حضرت حکیم الامتؒ کے سپردکردیا۔حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحبv کی تواضع سے متعلق جو چوتھا واقعہ میں نقل کرنا چاہتا ہوں وہ بھی اکابرین کی یاد کو تازہ کرنے والا واقعہ ہے: تصنیف وتألیف کے میدان میں حضرت الاستاذ کا سب سے بڑا کام ''ایضاح البخاری'' شرح صحیح البخاری کی ترتیب ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، اس کتاب کی ترتیب آپ ہی کی محنتوں کا ثمرہ ہے، لیکن آپ کی تواضع کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہم عصر اساتذہئ دارالعلوم سے مشکل مقامات پر تبادلہئ خیال کرنے اور اس کو استفادہ قرار دینے اور پھر تحریری شکل میں اس کے اعتراف کرنے سے اُن کو کوئی تردد لاحق نہیں ہوتاتھا، چنانچہ ایضاح البخاری جلدچہارم، صفحہ نمبر:٥ پر ''عرضِ مرتب''کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ''اصلاحی نظر کے تدارک کی یہ صورت اختیار کی گئی ہے کہ مشکل مقامات پر دارالعلوم کے بالغ نظر اساتذہئ کرام سے رجوع کا اہتمام کیا جاتا ہے، خصوصاً حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم سے عام طور پر تبادلہئ خیال، مذاکرہ اور استفادے کا موقع میسر ہے اور حضرتِ موصوف بھی از راہِ کرم بڑی دلچسپی کے ساتھ وقت مرحمت فرماتے ہیں اور کبھی کبھی حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہم سے بھی تبادلہئ خیال یا مشورہ کیا جاتا ہے۔ اللہ ان حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔'' اسی طرح جب حضرت الاستاذ نے ایضاح البخاری جلدششم کی ترتیب میں اپنے ایک ہونہار نوجوان شاگرد جناب مولانافہیم الدین صاحب (جو'اَب دارالعلوم دیوبند میں مدرس ہوگئے ہیں) سے اپنی سرپرستی میں تعاون لیناشروع فرمایاتواس تعاون کے اعتراف میں ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ ان کانام بھی بڑھادیا، جسے خود مولانا فہیم الدین صاحب خوردنوازی اور کرم گستری قراردیتے ہوئے ایضاح البخاری جلد ششم، صفحہ نمبر:٦ پر ''عرضِ مرتب دوم''کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ''مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے کہ کتاب کی پیشانی پر میرا نام مرتب کے طور پر آئے، لیکن حضرت والا کی خوردنوازی اور کرم گستری ہے کہ مرتب دوم کی حیثیت سے میرا نام آرہا ہے۔'' راقم الحروف عرض کرتاہے کہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحبv کے اس عمل سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو مصنف بننے کے شوق میں مختلف مصنفین کی عبارات لے لیتے ہیں اور ان کا نام یا حوالہ تک ذکر نہیں کرتے، یا دوسروں سے کام کرالیتے ہیں اور نام اپنا ظاہر کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے ایسے حضرات کی تصانیف میں کوئی کشش یانورانیت محسوس نہیں ہوتی۔ غیرمعمولی ذہانت وفطانت حضرت الاستاذ کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی ذہانت سے مالا مال فرمایا تھا، مجھے میری نااہلی وغفلت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم کے تحت اس سعادت سے نوازا ہے کہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور عالم عرب کے ایسے چیدہ چیدہ اور مایہئ ناز علمائے کرام کی خدمت میں حاضری، ان سے وابستگی اور استفادہ کرنے کا موقع عنایت فرمایا ہے جو صلاحیت وذہانت اور تقویٰ وپرہیزگاری کے اعلیٰ مقام پر فائز اور اپنے ہم عصر علماء سے بہت آگے شمار کیے جاتے تھے۔ ان علمائے کرام، اساطینِ اُمت اور اساتذہئ ربانیین میں سے ذہانت وفطانت میں زیادہ سے زیادہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب کے برابر اگر احقر نے کسی کو دیکھا ہو تو اس سے انکار نہیں، لیکن ان سے بڑھ کر کسی کی ذہانت وفطانت دیکھنے کا دعویٰ میں کسی طرح بھی نہیں کرسکتا۔ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں آپ کی ذہانت وذکاوت کی مثال دی جاتی تھی۔ میں جب ان کی ذہانت پر غور کرتا تو ایک بات ہمیشہ ذہن میں آتی کہ اگر محنت ویکسوئی اور نظم وضبط کے ساتھ حضرات الاستاذ کو تصنیف وتالیف اور دیگر علمی وتحقیقی کام کا موقع مل جاتا تو شاید وہ اتنا کام کرلیتے کہ کئی نسلوں تک اس کا چرچا ہوتا، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ حضرت والا پر ایک طرف سے تواضع کا اتنا غلبہ تھا کہ وہ کسی نمایاں علمی خدمت کو انجام دینے یا کسی مشہور ومعروف مصنف کے طور پر ظاہر ہونے کے لیے آمادہ نہیں تھے اور دوسری طرف سے رواں صدی ہجری کے شروع میں جب دارالعلوم دیوبند میں ایک خلفشار کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے نتیجے میں ١٤٠٢ھ مطابق ١٩٨٢ء کو انتظامیہ کی تبدیلی بھی وقوع پذیر ہوئی، وہ حضرت والا کی جوانی اور کام کرنے کا وقت تھا، تاہم انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد سب سے اہم اور نازک مسئلہ جو درپیش تھا وہ دارالعلوم کی کشتی کو سنبھالنے اور اس کے مقام ووقار کو بچانے کا مسئلہ تھا، جس میں حضرت والا نے کلیدی کردار ادا کیا، چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی جدید انتظامیہ میں سب سے پہلے ان کو نائب ناظم تعلیمات اور پھر ناظم تعلیمات کا اہم عہدہ سپرد کیا گیا جس کی وجہ سے ان کو یکسوئی کا موقع نہ مل سکا، جو علمی وتحقیقی کام کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، لہٰذا حضرت والا اگرچہ ایک طویل عرصے تک کامیابی کے ساتھ دارالعلوم کی تدریس اور انتظامی خدمت انجام دیتے رہے، تاہم ان کے واقف کاروں، متعلقین اور شاگردوں کو (جن میں سے ایک ادنیٰ فرد راقم الحروف بھی ہے) یہ افسوس ہمیشہ دامن گیررہے گا کہ حضرت والا اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ ذہانت وفطانت کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ اپنے ساتھ لے گئے اور جو مزید بڑی توقعات ان کی ذاتِ گرامی سے وابستہ اور امتیازی امیدیں قائم تھیں وہ دم توڑ گئیں، یہاں تک کہ ''ایضاح البخاری'' شرح صحیح البخاری جو بڑی مقبولیت حاصل کررہی تھی اور اس کی دس جلدیں شائع بھی ہوگئی تھیں، وہ بھی مکمل نہ ہوسکی، بلکہ پوری بخاری شریف میں سے اس کی صرف ایک ہی تہائی ان دس جلدوں میں آگئی اور دو تہائیاں رہ گئیں: اے بسا آرزو کہ خاک شدہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کے نسبی اور روحانی فرزندانِ گرامی کو اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ ظرافت وحاضر جوابی حضرت الاستاذ ظرافت وحاضر جوابی میں بھی یکتا تھے، اس مناسبت سے ان کے تین واقعات نمونے کے طور پر قلم بند کیے جارہے ہیں: پہلا واقعہ ایک دفعہ دارالعلوم کے چند اساتذہئ کرام کی مجلس میں ایک بڑے استاذ نے جو حضرت والا کے ہم عصر اور ان سے کافی حد تک بے تکلف تھے، کسی مناسبت سے بدعتیوں کے تعصب اور اہلِ حق وعلمائے دیوبند سے ان کی دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے علمائے حق میں سے کسی عالم دین کا قصہ سنایا جن کا نام انہوں نے ذکر نہیں کیا، قصہ یہ تھا کہ: ''وہ عالم دین سفر کے دوران ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوئے، مسجد اہل بدعت کی تھی جس کا اندازہ اس عالم دین کو نہ ہوسکا، اتفاق سے مسجد کا امام یا محلہ کا کوئی اور ایسا شخص جو نماز پڑھاتا موجود نہیں تھا، اس لیے لوگوں نے اس مسافر عالم کے حلیہ کو دیکھ کر ان سے نماز پڑھانے کی درخواست کی، مسافر عالم دین نے سنت کے مطابق نماز پڑھاکر سلام پھیرا اور سلام پھیرنے کے بعد بریلویوں کی طرح چیخ وپکار اور ان کی دیگر مروجہ بدعتوں کا ارتکاب نہیں کیا، جس سے نمازیوں کو اندازہ ہوا کہ یہ تو کوئی دیوبندی معلوم ہوتے ہیں، اس لیے جوتوں سے ان کی پٹائی شروع کردی اور مسجد سے باہر نکال دیا۔'' حضرت مولانا ریاست علی صاحب کے ہم عصر استاذِ دارالعلوم مذکورہ بالا قصہ کا بقیہ حصہ سنانے جارہے تھے کہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب درمیان میں اپنے مخصوص اور لطیف انداز کے ساتھ ان سے کہنے لگے کہ:'' حضرت!معاف کیجیے! مجھے اس واقعے کا علم نہیں ہوسکا تھا، ورنہ آپ کی عیادت کے لیے ضرور حاضر ہوجاتا۔'' یہ کہنا تھا کہ پوری مجلس بیک وقت ہنستی ہوئی کشتِ زعفران بن گئی اور قصہ سنانے والے استاذ برابر یہ کہتے رہے کہ ارے! یہ میرا واقعہ نہیں تھا، کسی اور کا تھا، آپ نے خواہ مخواہ میری طرف منسوب کردیا، لیکن مجلس والوں نے ان کی بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور حضرت مولانا ریاست علی صاحب کی ظرافت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دوسرا واقعہ ایک مرتبہ ایک بزرگ مبلغ صاحب نے دارالعلوم کے چند اساتذہ کی مجلس میں جس میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بھی موجود تھے، اپنی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے ا س میں شرکاء کی تعداد مبالغہ آمیز حد تک زیادہ بتادی جس پر باقی حضرات تو خاموش ہوگئے، لیکن حضرت مولانا ریاست علی صاحب اپنے مخصوص انداز کے ساتھ ان سے کہنے لگے کہ:'' حضرت! شرکاء کی تعداد کچھ کم کر دیجئے!'' شرکائے مجلس چونکہ پہلے ہی ان کی مبالغہ آرائی کو محسوس کرچکے تھے، اس لیے مولانا کا مذکورہ جملہ سن کر سب بے اختیار ہنس پڑے، جس سے مبلغ صاحب کو غصہ آیا اور برہمی کے انداز میں کہنے لگے کہ: ''اس کا مطلب تو یہ ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں!'' حضرت فرمانے لگے کہ: ''آپ کی شان میں یہ لفظ تو میں ہرگز استعمال نہیں کرسکتا، بس اتنا خیال ضرور ہوا کہ شاید آپ نے ضرب دے دیا ہوگا۔'' اس آخری جملہ نے مجلس کو مزید خوشگوار بنادیا۔ تیسرا واقعہ جس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کچھ مشکل حالات سے گزررہا تھا، اس وقت کی بات ہے کہ چند اساتذہئ کرام دفتر تعلیمات میں ان مشکلات کے حل کے لیے دارالعلوم کی روایات کے مطابق امام محمد بن محمد جزری v (متوفی: ٨٣٣ھ) کی کتاب ''الحِصْنُ الحَصِیْن'' کا ختم کررہے تھے، ختم ودعا کے بعد جناب مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی استاذ دارالعلوم دیوبند جو آج کل نیابتِ اہتمام کی ذمہ داری بھی انجام دے رہے ہیں اور اس زمانے میں ان کا کمرہ دفتر تعلیمات کے قریب واقع تھا، ان کے کمرے سے شرکائے ختم کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں آگئیں، جن میں سے تمام شرکاء نے کچھ نہ کچھ لے لیا، البتہ ایک بزرگ استاذ نے قبض کی شکایت کرتے ہوئے کچھ بھی نہیں لیا، جس پر حضرت مولانا ریاست علی صاحب برجستہ بولنے لگے کہ: حضرت! آپ کیوں تناول نہیں فرماتے؟ ابھی تو ہم لوگ ''الحِصْنُ الحَصِیْن'' کی تیسری منزل میں کھانے پینے سے متعلق دعاؤں کے اندر یہ مسنون دعا پڑھ رہے تھے: ''الحمد للّٰہ الذي أطعم وسقٰی وسَوَّغَہ، وجعل لہ، مَخرجًا'' یعنی ''ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے کھلایا اور پلایا اور اسے خوشگوار بنادیا اور اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنایا۔'' (ابوداؤد، نسائی) حضرت الاستاذ کی اس ظرافت اور برجستہ تحقیق سے شرکائے مجلس خوب محظوظ ہوئے۔ حضرت شیخ الاسلام اور شیخ الادبE سے ان کی وابستگی حضرت مولانا ریاست علی صاحبv کو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی v (متوفی: ١٣٧٧ھ) اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی v (متوفی: ١٣٧٤ھ) سے کچھ پڑھنے کا موقع تو نصیب نہ ہوسکا تھا، البتہ ان دونوں بزرگوں کی زندگی میں وہ اپنے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب ناظم کتب خانہ کی نگرانی وسرپرستی میں دارالعلوم کے درجہ فارسی میں داخل ہوئے اور فراغت تک پوری تعلیم دارالعلوم کے پرنور ماحول میں حاصل کی اور حضرت مدنیv کے وصال کے اگلے ہی سال دورہئ حدیث سے ان کی فراغت ہوئی، اور چونکہ حضرت مولانا سلطان الحق صاحبؒ کو حضرت شیخ الاسلامؒ اور حضرت شیخ الادبؒ دونوں سے کافی گہرا تعلق تھا، اس لیے حضرت مولانا ریاست علی صاحبv کو بھی ان کی صحبتوں سے فائدہ اُٹھانے کا موقع نصیب ہوا اور ان کی صحبتوں کے اثرات آپ کی زندگی اور اطوار وعادات میں نمایاں طور پر محسوس ہوتے تھے۔ شیخ الاسلامؒ اور شیخ الادبؒ کے حیرت انگیز واقعات میں سے آپ وقتاً فوقتاً کچھ ایسے واقعات بیان کرتے تھے جن سے وہ خود بھی آبدیدہ ہوجاتے اور سننے والوں پر بھی رقت طاری ہوجاتی۔ احقر نے مذکورہ دونوں بزرگوں کے مختلف واقعات ان سے براہ راست سنے ہیں جن میں سے صرف ایک واقعہ بطور نمونہ سپرد قلم کیا جارہاہے: طلبہ کے ساتھ حضرت مدنیv کی غیر معمولی شفقت کا ایک واقعہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب ؒ نے بتایا کہ: ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے مطبخ میں طلبہ اور مطبخ کے عملہ کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوگیا، حضرت شیخ الاسلامv کو اس کا پتہ چلا تو فوراً مطبخ پہنچ گئے، شیخ الاسلام کے سامنے طلبہ اپنی صفائی اور مطبخ والے اپنی صفائی پیش کررہے تھے اور آپ دونوں جانبین کی باتیں اطمینان سے سن رہے تھے۔ اُدھر شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ کو بھی کسی نے بتایا کہ مطبخ میں جھگڑا ہورہا ہے تو وہ بھی مطبخ کی طرف روانہ ہوگئے، اور چونکہ شیخ الادبv کا رعب طلبہ پر بہت زیادہ تھا، اس لیے ان کو دور سے دیکھتے ہی تمام طلبہ اِدھر اُدھر چلے گئے اور میدان صاف ہوگیا۔ شیخ الادبv نے پہنچ کر شیخ الاسلام قدس سرہ، سے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے ان طلبہ کو بے حد جری کردیا ہے، آپ کی موجودگی میں خاموش رہنے کی بجائے یہ دلائل بیان کررہے تھے! اور اپنی صفائی پیش کررہے تھے! شیخ الاسلامv نے فرمایا کہ: جن طلبہ کی تربیت کے لیے آپ کی طرح والد موجود ہو ان کے لیے میری طرح والدہ کی بھی ضرورت ہے۔ آپ ان طلبہ کے والدہیں اور میں ان کی والدہ ہوں۔ راقم الحروف پر حضرت الاستاذ کی شفقتیں اور عنایتیں احقر نے حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوریv سے تعلیمی سال ١٤٠١ھ-١٤٠٢ھ کو سنن ابن ماجہ پڑھی ہے، جس کی سند حضرت الاستاذ سے لے کر مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویv تک درج کی جارہی ہے: ''فضیلۃ الشیخ/ ریاست علی عن العلامۃ الخطیب المقرئ/محمد طیب مدیر الجامعۃ سابقاً عن العلامۃ المحدث الشیخ/ محمد أنور شاہ الکشمیری عن شیخ الہند العلامۃ /محمود الحسن الدیوبندی عن حجۃ الإسلام الشیخ/ محمد قاسم النانوتوی عن الشیخ/ عبد الغنی المجددی عن الشیخ/ محمد إسحاق الدہلوی عن الشیخ/ عبد العزیز الدہلوی عن مسند الہند الإمام/ ولی اللّٰہ الدہلوی ۔ رحمہم اللّٰہ تعالٰی۔'' حضرت شاہ ولی اللہv سے لے کر اُمہاتِ کتبِ حدیث کے مؤلفین تک کی سند مشہور ومعروف ہے۔ اگلے تعلیمی سال ١٤٠٢ھ-١٤٠٣ھ کو احقر نے شعبہئ افتاء (تخصص فی الفقہ) میں داخلہ لیا اور ماہِ ربیع الاول ١٤٠٣ھ کو مدرس کی حیثیت سے اپنی مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا اور پڑھانا شروع کیا۔ مجھے چونکہ پڑھانے کا تجربہ نہیں تھا اور ساتھ ساتھ اُردو زباں بھی کافی کمزور تھی، ایسی صورت حال میں دار العلوم دیوبند میں پڑھانا آسان کام نہیں تھا۔ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب اس وقت نائب ناظم تعلیمات اور بعد میں مستقل ناظم تعلیمات کی حیثیت سے اہم ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور میرے دیگر اساتذہئ کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنہوں نے ہرہر موقع پر میری راہنمائی اور ہمت اَفزائی فرماتے ہوئے اپنی گراں قدر نصیحتوں اور مفید مشوروں سے نوازا جن سے میری ہرعلمی مشکل حل ہوئی۔ ١٤٠٧ھ کو اُن کے مشوروں سے میں نے ''جامعۃ الملک سعود ریاض'' میں داخلہ لینے اور ''إعدادُ المعلمین'' کورس کرنے کا ا رادہ کیا اور اس مقصد کے لیے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کی سند نکالنے کے لیے منشی محمد عزیز صاحب v (متوفی: ١٤١٩ھ) منشی دفتر تعلیمات کے پاس درخواست جمع کرادی اور چند ہی دن کے اندر مجھے سند مل گئی۔ سند دیتے وقت منشی محمد عزیز صاحب نے بتایا کہ آپ کی سند میں تو ایک رُکاوٹ تھی، جسے حضرت ناظم صاحب تعلیمات نے آپ کے ساتھ خصوصی شفقت کا معاملہ فرماتے ہوئے خود ہی ختم کردیا اور سند جاری کرنے کا حکم دے دیا، میں نے حیرت کے ساتھ پوچھا کہ رُکاوٹ کیا تھی؟ منشی صاحب کہنے لگے کہ: شاید آپ دورہئ حدیث کے سال تجوید کا امتحان دینا بھول گئے تھے جس کے بغیر سند جاری نہیں ہوتی! اس کی تفصیل یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا یہ قانون ہے کہ ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دارالعلوم کے اساتذہئ تجوید میں سے کسی سے اپنی تجوید درست کرواکر پھر اس کا امتحان بھی دے دے، ورنہ اس کو سند نہیں ملے گی۔ البتہ تجوید کے امتحان کے لیے نہ کوئی تاریخ متعین ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے نمبرات دیگر مضامین کے مجموعی نمبرات میں شامل ہوتے ہیں۔ احقر نے دارالعلوم کے نظام کے مطابق حضرت قاری محمد نعمان صاحب استاذِ تجوید دارالعلوم دیوبند (فرزند حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویv) کے پاس اپنا اندراج تو کرالیا تھا اور وقتاً فوقتاً ان سے استفادہ بھی کرتا تھا، تاہم سالانہ امتحانات کے موقع پر دورہئ حدیث کی کتابوں کی تیاری میں لگ کر تجوید کا امتحان دینا بھول گیا اور چونکہ فارغ ہونے کے بعد احقر کو دارالعلوم ہی میں تدریس وامامت کی ذمہ داری انجام دینے کا موقع ملا، اس لیے کسی دوسرے مدرسے یا ادارے میں جانے اور سند نکالنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، جس سے تجوید کا امتحان یاد آتا۔ بہرصورت! حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند کے سامنے جب میری یہ رپورٹ پیش ہوئی کہ اس نے تجوید کا امتحان نہیں دیا ہے تو انہوں نے مجھے بلوائے بغیر اپنے ہاتھ سے تجوید کے پورے نمبر لگاتے ہوئے فرمایا کہ:'' جب دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ سب اس کے پیچھے پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں، یہی اس کا امتحان اور امتحان میں کامیابی کی دلیل ہے، لہٰذا اس کی سند جاری کردی جائے۔'' حضرت الاستاذ کی رحلت پر احقر کا تعزیتی خط احقر نے حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری v کے وصال کے موقع پر مندرجہ ذیل تعزیتی خط اُن کے صاحبزادوں کے نام ارسال کیا: ''بخدمت برادرانِ گرامی جناب مولانا محمد سفیان عرشی قاسمی، جناب مولانا محمد عدنان قاسمی، جناب مولانا محمد سعدان قاسمی اور خاندان کے دیگر افراد حفظہم اللہ ورعاہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری استاذِ حدیث وسابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً کی رحلت صرف آپ ہی کے لیے نہیں، بلکہ دارالعلوم دیوبند اور اس سے بلاواسطہ یا بالواسطہ منسلک بے شمار افراد اور ہم جیسے دور افتادگان سب کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے: زبانِ خامہ ندارد سرِّ بیانِ فراق وگرنہ شرح دہم با تو داستانِ فراق تاہم! ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہ، ما أعطی وکلٌّ عندہ، بأجل مسمّٰی۔ سانحہ اگرچہ عظیم ہے، تاہم حضرت والا قدس سرہ، سے متعلق چند امور ایسے ہیں کہ اگر ہم ان پر غور کریںگے، امید ہے کہ ہمیں اطمینان وصبر نصیب ہوگا۔ ١:۔۔۔۔۔۔حضرت والا نے ایک طویل عرصے تک اپنی خداداد صلاحیت ، ذہانت اور مقبولیت کو صرف مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند اور اس کی چار دیواری میں مقیم مہمانانِ رسول (a) کی خدمت کے لیے استعمال کیا، نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے۔ ٢:۔۔۔۔۔۔ دارالعلوم میں تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ انتظامی عہدوں پر وقتاً فوقتاً فائز رہے! اس دوران ان کی زبان یا کسی بھی طرزِ عمل سے کسی استاذ یا ملازم یا طالب علم کو میرے علم کے مطابق کوئی ایسی شکایت نہیں رہی ہوگی جسے شکایتِ واقعی کہا جاسکے، اس بات کی گواہی میرے خیال میں ہر واقفِ حال شخص دے سکتا ہے۔ ٣:۔۔۔۔۔۔حضرت الاستاذ نے جہاں تین صالح صاحبزادوں اور بے شمار روحانی اولاد (جن میں سے ایک راقم الحروف بھی ہے) کی صورت میں ایک صدقہئ جاریہ اپنے پیچھے چھوڑ دیا ہے، وہاں دس جلدوں پر مشتمل ''ایضاح البخاری'' کی شکل میں ایک اور صدقہئ جاریہ علمیہ طالبانِ علومِ نبوت کی خدمت میں پیش کردیا ہے، جس کا ثواب ان شاء اللہ! ان کو ملتا رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کے اسباب بھی پیدا فرمادیں۔ ٤:۔۔۔۔۔۔حضرت والا قدس سرہ، نے اپنی مرنجاں مرنج شخصیت کے مطابق رحلت بھی ایسے وقت میں فرمائی کہ اپنی کوئی ذمہ داری ادھوری چھوڑ کر نہیں گئے، جس سے طلبہئ دارالعلوم یا اربابِ انتظام کو فوری طور پر دقت کا سامنا کرنا پڑتا، اس لیے کہ اسباق کے ساتھ ساتھ امتحانات کا مرحلہ بھی پایہئ تکمیل تک پہنچ گیا تھا۔ ٥:۔۔۔۔۔۔حضرت الاستاذ v اپنی زندگی میں کسی کو تکلیف دینے کے روا دار نہیں تھے، اس لیے انہوں نے رحلت کے وقت بھی نہ تو گھروالوں کو اور نہ ہی متعلقین کو کوئی تکلیف دینا گوارا کیا اور نہ ہی ہسپتالوں کے پرتکلف ماحول میں رہنے کو پسند کیا، بلکہ ایک مختصر علالت کے ساتھ رات کے ا س حصہ میں ارحم الراحمین کے حضور پہنچ گئے جس میں صحیح حدیث کے مطابق وہ خود اعلان فرماتے ہیں: ''من یدعونی فأستجیب لہ؟ من یسألنی فأعطیہ؟ من یستغفرنی فأغفرلہ؟'' (متفق علیہ) ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں قوی امید ہے کہ حضرت الاستاذ قدس اللہ سرہ، العزیز بہت ہی خوش ہوں گے اور اپنی زبانِ حال سے ہمیں تسلی دے رہے ہوںگے کہ فکر مند رہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ تمہارے مطمئن رہنے اور صبر کرنے سے مجھے خوشی ہوگی۔ اللّٰہم اغفر لہ، وارفع درجاتہٖ فی الجنۃ وارزق ذویہ وأقاربہ، ومن یتعلق بہ الصبر والسلوان حضرت مہتمم صاحب، حضرت شیخ الحدیث وصدر المدرسین صاحب، دونوں نائب مہتمم حضرات اور اساتذہئ کرام کی خدمت میں بھی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ والسلام عبد الرؤف غزنوی عفا اللہ عنہ خادمِ حدیث نبوی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، پاکستان ١٧/٩/١٤٣٨ھ=١٣/٦/٢٠١٧ئ

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین