بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت آپاجان رحمۃ اللہ علیہا زوجۂ محترمہ شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمدمدنی ؒ


حضرت آپاجان رحمۃ اللہ علیہا

  زوجۂ محترمہ شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمدمدنی ؒ

 

   امامنا وسیدنا شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کی تیسری اہلیہ محترمہ (والدہ ماجدہ مرشدی فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قدس سرہ) کا انتقال ۱۸،۱۹؍شعبان المعظم ۱۳۵۵ھ؍۴،۵؍نومبر ۱۹۳۶ء کی درمیانی شب میں دہلی میں ہوا، حضرت شیخ الاسلامؒ میت دہلی سے دیوبند لائے اور قبرستان قاسمیؒ میں تدفین ہوئی۔
    اس حادثے کے ایک ہفتے بعد حضرت شیخ الاسلامؒ دیوبند سے سلہٹ کے لئے روانہ ہوگئے، رمضان المبارک عموماً سلہٹ میں گزارتے تھے، راستے میں اپنے آبائی وطن ٹانڈہ میں دو ایک روز کے لئے قیام فرمایا اور اسی دوران اپنے چچازاد بھائی کے یہاں چوتھا عقد مسنون ہوا، اس کی تفصیل حضرت شیخ الاسلامؒ کے قلمِ مبارک سے اس طرح ہے:
    ’’میں جناب (مولانا عبد الماجد دریابادیؒ) سے ریل میں جدا ہوکر شب میں ٹانڈہ پہنچا۔ وہاں میرے تائے زاد بھائی محمد بشیر صاحب کی لڑکی دوسال سے بیوہ تھی، اس کو نکاح کے دو تین سال کے بعد بیوگی کا منہ دیکھنا پڑگیا تھا۔ صرف ایک بچی پیدا ہوئی تھی، جوکہ تھوڑے ہی دنوں زندہ رہ کر راہیٔ ملکِ بقا ہوگئی تھی۔ اس بیوہ کے نکاح کا عرصے سے جھگڑا چلا آتا تھا۔ مختلف مقامات پر اس کے نکاح کے لئے گفتگو ہوئی تھی، مگر کوئی جگہ مناسب ہاتھ نہ آئی تھی۔ میرے احباب نے بغیر میری منشا اور تحریک اس میں تحریک شروع کردی تھی، کیونکہ بھائی محمد ظہیر صاحب جوکہ بھائی محمد بشیر صاحب کے بڑے بھائی ہوتے ہیں، بہ طور تعزیت دیوبند گئے تھے۔ میں اس جگہ کو غیر مناسب نہیں سمجھتا تھا، بالخصوص اس بنا پر کہ اپنے گھر ہی کا معاملہ ہے، اگرچہ اس وجہ سے کہ میں اس وقت ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ رہا ہوں اور لڑکی کی عمر تقریباً بائیس سال ہے، عدم تناسب بھی تھا، مگر اتحاد خاندانی اور اس کی بیوگی اور کسی موزوں جگہ کا ہاتھ نہ آنا، کیونکہ جن جگہوں سے اس کے رشتے آرہے تھے ،ان کی بیویاں موجود تھیں، مگر وہ اپنی بیویوں سے خوش نہ تھے، وغیرہ امور اس امر کے متقاضی ہوئے کہ اس کو منظور کروں۔ میں نے استخارہ کیا، اس سے پہلے دیوبند میں اور دوسری جگہوں میں آٹھ نو جگہ سے پیغام کنواری اور بیوہ لڑکیوں کے لئے آیا تھا، مگر میں نے توقف کیا تھا۔ بہرحال صبح بہ روز دوشنبہ (پیر) ۳۰؍شعبان میرے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا، لڑکی کے تائے نے ظاہر کیا کہ گھر میں سب لوگ راضی ہیں، جب تو (مولانا حسین احمد مدنیؒ) سلہٹ سے واپس ہو تو عقد کرکے ساتھ لیتے جانا۔ میں نے ان کو نشیب وفراز پر متنبہ کیا، بالخصوص اپنی عمر کے متعلق، چونکہ وہ ہمارے خاندان میں مردوں میں سب سے زیادہ عمر والے ہیں ، ہم بھائی ان کے سامنے بچے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بہ خوبی واقف ہوں اور جملہ امور پر کافی غور کرچکا ہوں اور گھر میں بھی عورتوں، مردوں نے غور کرلیا ہے۔ تب میں نے کہا کہ اگر لڑکی اور اس کی ماں وغیرہ راضی ہیں تو کیوں نہ عقد ابھی کردیا جائے، میں عقد کردینے کے بعد اسی وقت چلا جاؤں گا اور واپسی پر لیتا جاؤں گا، جو لوگ مجھ کو اپنی محبت کی وجہ سے مختلف مقامات سے پیغام دیتے اور تحریک کررہے ہیں، ان لوگوں کو مزید حاجت نہ رہے گی، بہت سے جھگڑے بند ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا تذکرہ نہیں آیا ہے، میں مشورہ کرکے خبر دیتا ہوں۔ الحاصل انہوں نے مشورہ لیا اور چھوہارے منگا کر اس مجمع میں جس میں کچھ احباب ملنے کی غرض سے آئے تھے، مہرِ فاطمی پر عقد کردیا۔اس کے بعدوحید(حضرت مولانا وحید احمد مدنیؒ حضرت شیخ الاسلامؒ کے بھتیجے تھے، حضرت مولانا صدیق احمد مدنیؒ کے صاحب زادے! شریفی) اور اس کے خسر وغیرہ کا اصرار ہوا کہ ایک شب یہاں قیام کرلیا جائے۔ زیادہ اصرار پر بجز اس کے کوئی چارہ نظر نہ آیا، چنانچہ یکم رمضان سہ شنبہ (منگل) کو میں ٹانڈہ سے روانہ ہوگیا ۔جو حالت مشاہدہ ہوئی مجھ کو قوی امید ہے کہ یہ عقد باعثِ طمانیت خاطر ہوگا۔ آئندہ جو قضائے الٰہی ہیں، اس میں دم مارنے کی جگہ نہیں ہے۔
    اسعد بہ خیریت ہے ، اپنی نئی اماں سے بہت زیادہ مانوس ہوگیا ہے، حتی کہ اس نے یہاں کی عورتوں سے کہا کہ مجھ کو اپنی نئی اماں سے اس قدر محبت ہوگئی ہے کہ اب مجھ کو پہلی اماں کی یاد نہیں ستاتی اور اس کو بھی اسعد (مرشدی حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی عمر اس وقت تقریباً ساڑھے سات سال تھی۔شریفی) کے ساتھ گرویدگی ایسی معلوم ہوئی جوکہ اپنے بچے سے ہوتی ہے۔ اَللّٰہُمَّ زِدْ فَزِدْ ‘‘۔ 
  (۲۲؍رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ؍۶؍دسمبر ۱۹۳۶ء) (مکتوبات شیخ الاسلامؒ:ج:۱، ص:۱۶۵،۱۶۶، مطبوعہ: کراچی ۱۹۹۵ء)
    حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہٗ جیل میں مقید تھے، مرشدی حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی شادی کی فکر حضرتؒ کو ہوئی تو اپنی اہلیہ محترمہ آپا جانؒ کو تحریر فرمایا:
    ’’میری رفیقۂ حیات! تم کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ سلامت اور خوش وخرم رکھے، آمین!
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    تمہارا خط ۱۳؍رجب (۱۳۶۳ھ؍۴؍جولائی ۱۹۴۴ء) کا پہنچا۔ اس سے پہلے میں نے ۲۲؍ رجب کو خط لکھا ہے، وہ پہنچا ہوگا، جس میں اطلاع دی تھی کہ اس وقت ممکن نہیں ہے کہ میں آسکوں، اس لئے تم میرا انتظار ہرگز مت کرو اور جلد دیوبند روانہ ہوجاؤ، اگر ابھی تک یعنی اس خط کے پہنچنے تک تم روانہ نہ ہوئی ہو تو اب جلد روانہ ہوجاؤ، بھاؤج صاحبہ (تمہاری اماں) کا ساتھ جانا بہت بہتر اور مناسب ہے، تمام امور میں آسانیاں رہیں گی، مگر ان کو کم از کم عید تک وہاں ہی رہنا چاہئے۔ ایسی کیا جلدی ہے کہ شادی ہونے کے بعد ہی واپس ہوجائیں۔ الہداد پور میں تمام ضروریات تمہاری بھاؤج اور بوبو انجام دیتی رہی گی۔ تم غلط اور فضول خیال کرتی ہو کہ شادی میں میرا موجود ہونا ضروری ہے، تمہاراموجود ہونا اسعد اور عائشہ دونوں کے لئے کافی ہے۔ (عائشہ! حضرت شیخ الاسلامؒ کی دوسری صاحب زادی جو مولانا عبد الحی صاحب کے نکاح میں ہیں۔شریفی) شادیوں کا تمام انتظام عورتیں ہی کرتی ہیں، تو اسعد کی بھی ماں ہو اور عائشہ کی بھی۔ بیرونی انتظامات قاری صاحب (حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحبؒ خادم خاص وخلیفہ مجاز حضرت شیخ الاسلامؒ۔شریفی) اور منشی شفیع صاحب اور دوسرے لوگ کرلیں گے۔ میرا موجود ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں اور بالخصوص اس مہنگائی کے وقت میں تو کوئی خاص انتظام ہو بھی نہیں سکتا۔ سب کام نہایت اختصار اور سادگی سے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہو اس پر انسان کو خوشی سے راضی رہنا چاہئے، ورنہ بمجبوری راضی ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تو انبیاء علیہم السلام کو سر جھکانا پڑتا ہے اور بغیر ماننے کے چارہ نہیں ہوتا۔ اولیاء اللہ کو کون پوچھتا ہے؟! اور جب ایسے ایسے بڑوں کا یہ حال ہے تو ہم جیسے گنہگار دنیا کے کتے کس شمار میں ہوسکتے ہیں؟۔ تمہارا یہ کہنا کہ تو دعا نہیں کرتا، تو خود ہمارے پاس آنا نہیں چاہتا، تو خود رہائی نہیں چاہتا، بالکل غلط ہے، کوئی معمولی عقل کا آدمی بھی کسی دنیاوی اور آخرت کی مصیبت پر خوش نہیں ہوسکتا، جب کہ ایک معمولی سمجھ کا بچہ بھی گوارانہیں کرسکتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر باندھ دیئے جائیں یا کسی مکان میں اس کو منتقل کردیا جائے، تو میں کس طرح اس پر خوش ہوجاؤں گا اور مصائب کو گوارا کروں گا؟ دعا نہ کروں گا؟ ایسی صورتوں میں تو اگر نہ بھی چاہے تب بھی دل سے دعا نکلے گی، مگر واقعہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جب کہ بڑوں بڑوں کی پیش نہیں جاتی تو ہم جیسے نالائق لوگوں کی بات کس طرح چل سکتی ہے؟۔ غرضیکہ تمہارا خیال صحیح نہیں ہے، مگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہے تو ان شاء اللہ! ہم جلد آئیںگے، تم اطمینان اور خوشی خرمی کے ساتھ رہو اور تمام کاموں کو اس طرح انجام دو کہ گویا کسی قسم کا تکدر اور حزن وملال کی بات پیش ہی نہیں آئی۔ آنے والی اور ملنے والی عورتوں پر ہرگز کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ ہونے دو، کوئی تذکرہ بھی کرے تو ہنس کرٹال دو۔
    حاجی صاحب کو ہندوستانی کپڑوں کے بنانے کے لئے مجھ کو لکھنے کی ضرورت نہیں ہے، تم ہی ان کو کہلوادینا اور یہ بھی کہلوادینا کہ حسین احمد اور اسعد دونوں یہی پسند کرتے ہیں، جیسا دیس ویسا بھیس۔ یہاں رہ کر یہاں کا ہی لباس ہونا چاہئے۔ ایسی بات نہ ہونی چاہئے جس سے ہنساتی کا موقعہ ملے یا کسی کو حرف گیری کی نوبت آئے۔ رشتہ داروں میں مجبوری طور پر تحمل کرنا اور میل جول رکھنا، غصہ او رغم کو تھوک دینا پڑتا ہی ہے۔ رشتہ نا تا خدانے بنایا ہے، آدمی کے توڑنے سے ٹوٹ نہیں سکتا۔ابا، بابا، اماں، بھاؤج، بوبو سب سے سلام کہہ دو۔ ارشد، ریحانہ، عتیق، عبید، رشید، بریرہ سب کو دعا و پیار پہنچے۔(۲۷؍رجب المرجب۱۳۶۳ھ بمطاق ۱۸؍جولائی۱۹۴۴ء)(مکتوبات شیخ الاسلامؒ:ج:۴،ص:۳۰۱ تا۳۰۳)
    اس مکتوب کی خوبیوں پر مرتبِ مکتوبات شیخ الاسلامؒ حضرت مولانا نجم الدین اصلاحیؒ یہ حاشیہ تحریر فرماتے ہیں:
    ’’اس والا نامہ پر حاشیہ لکھنا چاہا، مگر آنکھوں نے مجبور کردیا کہ اس کو اسی طرح رہنے دو، سطرسطر سے عبدیت اور عزیمت کی شان ظاہر ہے۔ اللہ اکبر! تعلیم دی جارہی ہے کہ کوئی تذکرہ بھی کرے تو ہنس کرٹال دو۔ کیسا نازک موقع ہے اور کتنی نازک پوزیشن ہے اور کون مخاطب ہے، پھر بھی دامانِ خدا ہاتھ ہی کے اندر ہے، ذرا بھی کمزوری نہیں‘‘۔
    حضرت آپا جان نور اللہ مرقدہا کے نام حضرت شیخ الاسلامؒ دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
    ’’تمہارا خط ۱۷؍ جولائی کا لکھا ہوا ملا، اسی کے ساتھ مولوی فضل الرحمن صاحب کا کارڈ ۱۹؍ جولائی کا مل گیا کہ مولوی حمید تم سبہوں کو لے کر ڈاک گاڑی سے دیوبند روانہ ہوگئے۔امید قوی ہے کہ تم سب بخیر وعافیت دیوبند پہنچ گئے ہوںگے اور ہر طرح وہاں اطمینانی صورتیں پائی ہوں گی۔ قاری صاحب کا ۱۹؍ جولائی کا خط ملا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: بحمد اللہ! مرض میں اب تخفیف ہے، البتہ ضعف بہت زیادہ ہے…۔ تم کو ۱۵؍ جولائی پر میرے نہ پہنچنے کا صدمہ نہ کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوکر رہتا ہے، اسی میں خیر ہوگی۔ بندہ کو آقا (اور وہ بھی ایسا کریم ورحیم آقا) کا ہر حکم نہایت خوشی سے ماننا چاہئے، بالخصوص جب کہ ہمارے جیسے ہزاروں آدمی ایسی ہی بلاؤں میں مبتلا ہوں۔ تم اطمینان اور سکون سے وہاں کے کاروبار انجام دو۔ امید قوی ہے کہ اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو شفاء کامل جلد عطا فرمادے تو وہ فوراً دیوبند پہنچ جائیںگے اور ایسا نہ بھی ہوا تو وہاں مولانا اعزاز علی صاحب ، مولوی محمد عثمان صاحب، منشی محمد شفیع صاحب کو تمام کام وہ سپرد کر آئے ہیں ۔ یہ سب حضرات نہایت ہمدردی اور خیر خواہی اور جد وجہد سے تمام کام انجام دیںگے۔ اسعد بھی امتحان سے فارغ ہوکر ہرقسم کی خدمات انجام دے گا ، تم کو ذرا بھی پریشان نہ ہونا چاہئے۔
    تم دریافت کرتی ہو کہ کن خاص عورتوں کو بلاؤں؟ تم کو خود اندازہ ہے، مجھ کو لکھنے کی ضرورت نہیں۔ الغرض جہاں تک ممکن ہواختصار کے ساتھ اور سادگی سے معاملہ کرو… راجوپور لے جانے کے لئے میں کچھ نہیں بتاسکتا، سوائے جوڑوں اور سہاگ پورہ اور زیوروں کے، اور کیا چیزیں جاتی ہیں؟ مجھ کو کچھ معلوم نہیں، وہاں ہی دریافت کرلینا۔ رسمی چیزیں کچھ نہ ہونی چاہئیں، جو امور حاجی صاحب فرمائیں اور مولانا اعزاز علی صاحب کی رائے ہو اس کو کرو،ریحانہ (حضرت شیخ الاسلامؒ کی بڑی صاحب زادی محترمہ، جو حضرت مولانا سید رشید الدین حمیدیؒ خلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ وسابق مہتمم مدرسۂ شاہی مراد آباد کے نکاح میں تھیں۔شریفی) اب دیوبند پہنچ کر ہم کو بالکل بھول جائے گی۔ وہاں اس کی دل بستگی کا سامان بہت ہے، اپنی اماں کو کم از کم عید تک ضرور رکھنا۔ آج ۲۹؍ جولائی کو بابو اور مولانا عبد المومن صاحب (ابن امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ ،مرشدی حضرت مولانا سید ارشد مدنیؒ دامت برکاتہم کے خسر ہیں۔شریفی) تشریف لائے۔ بابو سے یہ معلوم ہوا کہ عقد کے لئے ۱۴،۱۵ شعبان مقرر ہے۔ امید یہ ہے کہ تم تمام تفصیلی باتیں خط میں لکھوگی۔ بنارس سے خط آیا ہے کہ وہاں سے ۲۳؍ جولائی کو کپڑے روانہ ہوگئے۔ ان تھانوں میں سے آدھا آدھا دو جوڑوں کے لئے لے لو، جو کہ اسعد کی بیوی کے لئے بناؤگی اور آدھا آدھا فرید (حضرت مولانا سید فرید الوحیدیؒ ،مصنف:’’مولانا سید حسین احمد مدنیؒ-ایک تاریخی مطالعہ‘‘۔ حضرت مولانا وحید احمد مدنیؒ کے صاحب زادے تھے، حضرت شیخ الاسلامؒ کے پوتے ہوئے، ان کی پرورش حضرت شیخ الاسلامؒ نے کی تھی۔شریفی) کے لئے رکھ لو، اس کی شادی بھی ان شاء اللہ عید کے بعد ہوجائے گی۔ فقط دو دو پٹوں کی کمی رہ جائے گی۔ میں دو جانمازوں کو بنوا کر بوبو بتول اور بوبو حسینہ کے لئے بھیجتا ہوں۔ اسعد لے جاکر ان کی خدمت میں پیش کردے۔ اپنی اماں سے بہت بہت سلام کہہ دو۔ والسلام‘‘۔
                         (مکتوباتِ شیخ الاسلامؒ:ج:۴،ص:۳۰۴،۳۰۵)
    حضرت آپا جان رحمۃ اللہ علیہا کے متعلق یہ معلومات حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے مبارک قلم سے تھیں، جن سے گھریلو ماحول کی پاکیزگی اور سیرت کے احوال مل جاتے ہیں۔
    حضرت شیخ الاسلامؒ کے گھر کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، اپنے اور پرائے سب اس سے مستفید ہوتے تھے۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کروں، ۱۹۸۷ء میں اپنے جد امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ ہندوستان گیا، اس سفر میں دارالعلوم دیوبند اور بعض اکابر دیوبند کی زیارت نصیب ہوئی۔ میرے مرشد ثانی حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم کے ہاں ’’مدنی منزل‘‘ میں قیام ہوا، جیسے ہی دیوبند پہنچے، مدنی منزل حاضر ہوئے۔ حضرت مولانا کے متعلق ان کے صاحب زادے نے بتایا کہ مظفر نگر ایک طالب علم کے ولیمے میں تشریف لے گئے ہیں، ظہر تک آجائیںگے۔ حضرت قاری صاحبؒ نے فرمایا: ٹھیک ہے، ہم ظہر کی نماز کے بعد آجائیں گے۔ انہوں نے جاکر گھر میں حضرت پیرانی صاحبہ آپا جانؒ کو بتایا، انہوں نے کہلوایا کہ آپ بغیر کھانا کھائے نہیں جاسکتے۔ حضرت قاری صاحبؒ نے ہم سے فرمایا: حضرت پیرانی صاحبہ کا حکم ماننا پڑے گا، اس لئے بیٹھ جاؤ۔ چند ہی منٹ میں دسترخوان لگ گیا اور ہم نے کھانا کھایا۔ حضرت قاری صاحبؒ نے ہمیں بتایا کہ حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کے زمانے میں بھی بالکل اسی طرح کھانا آتا تھا اور دسترخوان لگنے کا یہی طریقہ تھا۔ فرق اتنا ہے کہ آج حضرت مدنیؒ اس دسترخوان پر نہیں ہیں۔
    خاص با ت یہ ہے کہ ہم سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ تم کون ہو؟ کیا کام ہے؟ بس! کھانا کھاکے جائیں۔ اس طرح مجھے یہ سعادت اور نعمت نصیب ہوئی کہ اس گھر کا نمک کھایا۔
    حضرت شیخ الاسلامؒ کے متوسلین اور سلسلۂ مدنی کے منتسبین کے لئے بڑے رنج وغم کا موقع ہے کہ حضرت شیخ الاسلامؒ کی اہلیہ محترمہ (جو حضرت مدنیؒ کی چوتھی زوجہ تھیں) حضرت آپا جان ۱۳؍ اور ۱۴؍ شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ؍۴،۵؍جولائی ۲۰۱۲ء کی درمیانی شب اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون! حضرت مرحومہ کی جدائی جہاں خاندانِ مدنی کے لئے عظیم حادثہ ہے، وہیں ہمارے لئے بھی غم کا باعث ہے۔ گو کہ خاندان مدنی کو حضرت شیخ الاسلامؒ سے ورثے میں یہ بھی ملا ہے، جسے حضرت مولانا سید فرید الوحیدیؒ اس طرح بیان کرتے ہیں:
    ’’حضرت ؒ کی زندگی میں نہ مسرت کی کوئی قیمت تھی اور نہ صدمے کی کوئی اہمیت تھی۔ کوئی بھی حالت ہو ان کے شب روز یک ساں صبر وشکر اور وقار کے ساتھ گزرتے تھے‘‘۔ (شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ- ایک تاریخی مطالعہ،ص:۴۲۶،مطبوعہ ملتان، ۲۰۰۵ء)
    راقم الحروف نے مرشدی حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم (صدر جمعیت علمائے ہند) کو تعزیت کے لئے فون کیا تو درج بالا صفت پر کامل عامل پایا۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا مدظلہم، صاحب زادۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسجد مدنی مدظلہم اور خاندان مدنی کے دیگر اکابر واصاغر کو صبر جمیل عطا فرمائے، حضرت آپا جانؒ کی کامل مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین!
    دارالعلوم دیوبند میں سالانہ امتحان ہورہے تھے، اس وجہ سے خاندان مدنی کے اکابر نے فیصلہ کیا کہ گیارہ بجے پرچہ ختم ہوگا تو فوراً احاطہ مونسیری دارالعلوم دیوبند میں جنازہ ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ساڑھے گیارہ بجے دن جانشین حضرت شیخ الاسلامؒ وجانشین حضرت فدائے ملتؒ حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم نے نماز جنازہ پڑھایا۔ ہزارہا افراد اس میں شریک تھے۔ اس کے بعد قبرستانِ قاسمی میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قدس سرہ کی پائینتی میں تدفین عمل میں آئی۔ شام کو دارالعلوم میں تعزیتی اجتماع مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا ابو القاسم نعمانی مدظلہ کی صدارت میں ہوا، اور تعزیتی تقاریر ہوئیں۔ حضرت آپا جانؒ کے بطن سے حضرت شیخ الاسلامؒ کے صاحب زادوں اور صاحب زادیوں کی تفصیل اس طرح ہے:
    ۱…حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم: آپ ۱۳۶۰ھ؍۱۹۴۱ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۵ء میں تعلیمی مراحل شروع ہوئے۔۱۳۸۳ھ؍۱۹۶۳ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت پائی۔ ۱۹۶۵ء میں جامعہ قاسمیہ گِیا میں تدریس شروع کی۔ ۱۹۶۷ء میں مدینہ طیبہ تشریف لے گئے، چودہ ماہ وہاں قیام رہا اور پھر واپس تشریف لائے۔ ۱۳۸۹ھ؍۱۹۶۹ء میں مدرسۂ شاہی مراد آبادی میں خدمت تدریس پر مامور ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند کی نشأۃ ثانیہ کے بعد دارالعلوم کی طلب پر ۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء میں دارالعلوم کی مسند تدریس پر فائز ہوئے اور احادیث مبارکہ کے اسباق سپرد ہوئے۔ ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۰ء تک اور پھر ۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۰ء تک ناظم تعلیمات بھی رہے۔ حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے خلیفۂ اعظم ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ۲۸؍ فروری ۲۰۰۶ء کو جمعیت علماء ہند کا صدر آپ کو منتخب کیاگیا اور تاحال اسی منصب پر فائز ہیں۔ جون ۲۰۱۲ء میں رابطہ عالم اسلامی کے تاحیات رکن منتخب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ عافیت وسلامتی کے ساتھ قائم رکھے اور حاسدوں کے حسد سے محفوظ رکھے۔ آمین
    حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم کے چھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں۔
    ۲…حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی مدظلہم، فاضل دیوبند ہیں، تصوف میں اپنے برادر اکبر حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ سے تربیت حاصل کی، جھاڑکھنڈ میں کئی مدارس آپ کی زیر نگرانی چل رہے ہیں،اس کے علاوہ مولانا مدنی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت رفاہی امور انجام دے رہے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند کے ناظم بھی رہے اور فعال رہنما ہیں۔ حفظہم اللہ تعالیٰ۔
    ۳…صاحب زادی عمرانہ مدظلہا (زوجہ جناب مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری مدظلہ)
    ۴…صاحب زادی صفوانہ مدظلہا (زوجہ حضرت مولانا محمد نعیم صاحب)
    ۵…صاحب زادی فرحانہ مدظلہا ۔
    حضرت آپا جانؒ کی سن پیدائش ۱۳۳۲ھ؍۱۹۱۴ء ہے، اس طرح ایک سو ایک سال عمر پائی۔
 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین