بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حصول علم کے مقاصد اور آداب

 

حصولِ علم کے مقاصد اور آداب!

 

’’۹؍ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ مطابق یکم جنوری ۲۰۱۵ء کو جامعہ کے سہ ماہی امتحان میں ممتاز نمبرات کے ساتھ کامیاب طلبہ کے لیے انعامات کے سلسلہ میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس وشیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مفصل بیان فرمایا۔ جامعہ کے ایک طالب علم محمد عبداللہ بن عبدالباسط دُرانی (متعلم درجہ ثالثہ) نے اُسے ضبط وترتیب دیا ہے۔ افادۂ عام کی غرض سے ہدیۂ قارئین ہے۔‘‘

ألحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی أشرف الأنبیاء والمرسلین وعلٰی آلہ وأصحابہ أجمعین،أما بعد:     عزیز طلبہ! سب سے پہلے میں اپنے ان عزیز طلبہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو سہ ماہی امتحان میں کامیاب ہوئے۔ چاہے ان کی تقدیر کوئی بھی ہو، وہ کامیاب ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کو بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ابھی ان کے لیے دو مرحلے باقی ہیں: ششماہی امتحان کا مرحلہ بھی ہے اور سالانہ امتحان بھی ہونا ہے، ان طلبہ کو گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں : ’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں۔‘‘ مقابلے میں اُتارچڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔آپ کوشش کریں، محنت کریں، ان شاء اللہ! اگلے امتحان میں اچھی پوزیشن بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ دینی تعلیم کاحصول اللہ کی جانب سے انتخاب ہے     اور آپ یہ یاد رکھیں کسی دینی ادارے میں آپ کا داخلہ اور آپ کا اس میں تعلیم حاصل کرنا یہ بہت بڑی کامیابی کی دلیل ہے، یعنی یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے آپ کے بارے میں خیر کا ارادہ کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’من یرد اللّٰہ بہ خیرًا یفقہہ فی الدین‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین میں فقاہت (سمجھ) عطا فرماتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔ وحی منقطع ہوچکی ہے، جس کے ذریعہ یقینا من جانب اللہ غیب سے قانون اترتا تھا، لیکن آپ کے سامنے قرآن کریم موجود ہے، سنت رسول اللہؐ موجود ہے، ان کے ذریعہ آپ اللہ پاک کی رضا معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے لیے ا للہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات میں سے آپ کاانتخاب فرماکرآپ کو ادھر متوجہ کیا ۔ نعمت ِدین کاشکراداکرنے کاطریقہ     یہ دین وہ نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میںدنیاکی ہرنعمت ہیچ ہے۔ اس لیے آپ اس دین کوسمجھ کر پڑھیں اور آخرت کا اجر وثواب سامنے رکھ کر محنت کریں۔ اس نعمت کا شکریہ ہے کہ آپ محنت کریں۔ اوقات کی پابندی کریں۔ اساتذہ کے سامنے ادب سے بیٹھیں۔ غور سے بات سنیں۔ آپ کی آنکھ، کان اور دماغ پوری طرح استاذ کی طرف متوجہ ہو۔ اور اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہو جو آپ دن میں پڑھ رہے ہیں، رات کو اس کا مطالعہ کرلیں۔ایک دفعہ ہمارے بزرگوں نے( جن کی زندگیاں علم کے اندر گزری ہیں)نصیحت فرمائی کہ اگر آپ پڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ مطالعہ کرلیں اور پڑھتے وقت غور سے استاذ کی بات کو سنیں اور پڑھنے کے بعد ایک آدھ دفعہ پھر مطالعہ کرلیں اور تکرار کرلیں۔ ان شاء اللہ! اس طرح کرنے سے پھر کبھی سبق نہیں بھولے گا ۔ علم ہرمقام پرادب کامتقاضی ہے      آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ علم ادب چاہتا ہے: اپنے استاذ کا ادب، اپنے ادارے کا ادب اور اپنے سے بڑے کا ادب، یہ ادب بہت کچھ دیتا ہے۔یادرکھو آپ a کا ارشاد ہے کہ: ’’من لم یرحم صغیرَنا ولم یوقر کبیرَنا ولم یعرف شرفَ علمائنا فلیس منا۔‘‘ ’’جو ہم میں سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بڑوں کا احترام نہیں کرتا، علماء کی قدر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘     آپ کا یہ ادب دوسرے مسلمانوں پربھی اثر ڈالے گا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ دیکھو دین پڑھنے والے طلبہ ایسے ہوتے ہیں۔میں نے شاید پہلے بھی آپ کو ایک مرتبہ سنایا تھا کہ جب میں مصر میں تھا،پی، ایچ، ڈی کررہا تھا، ایک مصری طالب علم میرا دوست تھا اور روزانہ گھر سے ازہر میں پڑھنے کے لیے آتا تھا ، ایک دن آیا اور مجھے کہا: یا شیخ! آج ایک عجیب ہی واقعہ پیش آیاہے، میں نے کہا: خیر ہے؟کیا ہوا؟ کہنے لگا: میں بس میں آرہا تھا اور قاہرہ کے اندر بسوں میں بڑی بدتمیزی ہوتی ہے، دھکم پیل، نہ عورتوں کا کوئی احترام ہے نہ بڑوں کا ، تو کہتے ہیں کہ میںبیٹھ گیا اور مجھے کرسی (سیٹ) مل گئی، اگلے اسٹاپ پر دیکھا کہ ایک پادری سفید ریش جبہ پہنے ہوئے بس میں سوار ہوا اور ڈنڈا پکڑ کے کھڑا ہوگیا۔ اس لیے کہ ساری کرسیاں مشغول تھیں، میں نے ان کو دیکھا اورکہا:’’ تفضل یا شیخ!‘‘ آیئے! میری اس جگہ پر آجائیں۔میں اپنی کرسی سے اٹھا اور ان کو بٹھا دیا۔ وہ شخص پادری تھا، لیکن بہرحال مجھ سے بڑا تھا۔ بیٹھنے کے بعد وہ زار وقطار رونے لگا، دائیں بائیں جو افراد سوار تھے، انہوں نے کہا: یاشیخ! آپ کیوں رو رہے ہو؟ کہنے لگا: میں ا س لیے رورہا ہوں کہ مجھے رشک آرہا ہے۔ اس بس کے اندر دسیوں عیسائی نوجوان موجود ہیں، لیکن میرے لیے صرف اور صرف جامعہ ازہر کا ایک طالب علم اٹھا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں!جامعہ ازہر کے ایک طالب علم کے اس ادب نے پوری بس میں کتنا اثر ڈالا ۔ دین پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں۔اپنے اندر ادب پیدا کرو ۔یہ ضروری نہیں کہ استاذ ہی ہو، ہر طالب علم اورہر استاذ چاہے آپ کو پڑھانے والا نہیں ہے،وہ ادب واحترام کا مستحق ہے۔ آپ اپنے گھروں کو جاتے ہیںاور آپ کو جگہ مل جاتی ہے اور آپ نے دیکھا کہ ایک بوڑھا کھڑا ہے ،آپ جوان ہیں، اٹھ جائیں، کھڑے ہوجائیں ۔     مجھے خوب یاد ہے! جب وہاں مصر میں لائبریریوں میں جانے کے لیے بسوں میں جانا ہوتا، وہاں پر بسوں میں درجہ اولیٰ ، درجہ ثانیہ ہے، فرسٹ، سیکنڈ ہیں ،لیکن وہاں مصیبت یہ ہے کہ فرسٹ کے اندر ڈبل کرایا ہے اور عورتوں کے لیے نشستیںخاص نہیں ہیں، میں بعض مرتبہ ان سے کہتا تھا کہ ہمارے ہاں عورتوں کا زیادہ احترام ہے ،بسوںمیں درجہ اولیٰ عورتوں کے لیے اور درجہ ثانیہ مردوں کے لیے ہیں، میں مصر میں عموماً درجہ اولیٰ میں سوار ہوتا تھا، تاکہ بدتمیزی سے بچ جاؤں، لیکن اس کے باوجود میں دیکھتاکہ کوئی بوڑھا آرہا ہے یا کوئی بڑھیاآرہی ہے تو میں فوراً اٹھ جاتا۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ کہ استقامت ہر موقع پر ہونی چاہیے۔یہ نہیں ہے کہ جامعہ میں ہمارا رویہ اچھا ہو اور دوسری جگہ ہمیں پرواہ ہی نہ ہو ، ہر جگہ یکساں رہنا چاہیے، گھروں کو جاؤ تو اپنے والدین کو سلام کرو ،ماں باپ کا ہاتھ پکڑکر بوسہ دو، عزیز واقارب کو ملنے جاؤ، ان کی عزت کرو ، تاکہ انہیں پتہ چلے کہ دین پڑھنے والا طالب علم بڑامؤدب ہوتا ہے ۔ علم یکسوئی چاہتاہے:     میرے عزیز طلبہ! میں پہلے بھی آپ کو بتاچکا ہوں کہ علم کے لیے تعلقات، دوستیاں بہت ہی مضر چیز ہیں۔ علم یک سوئی چاہتا ہے اور علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کردو، یہ لمبی چوڑی دوستیاں ،یہ ادھر اُدھر چلنا پھرنا نہایت نقصان دہ ہے۔آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، فتنے ہی فتنے ہیں۔ مثال کے طور پر عورتوں کا فتنہ ہے۔ اگر آپ کو کوئی چیزلینے بازار جانا ہو تو اس طرح جاؤ جیسے بیت الخلاء جاتے ہیں۔انسان بیت الخلاء جاکر اپنی ضرورت پوری کرکے فوراً واپس چلاآتاہے، وہاں کبھی دیکھا ہے کہ کوئی سو گیا ہو یا بیٹھ گیا ہو؟ اور اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو ’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ‘‘ آپ کایہ عمل ان شاء اللہ! بڑامؤثر بنے گا۔ اخباروں میں کچھ عرصہ پہلے آیاکہ انگلینڈ میں ایک صحافی عورت ایک نوجوان مسلمان سے اسلام کے بارے میں انٹرویو لے رہی تھی ،دو گھنٹے اس نے انٹرویو لیا اور اس کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی عالم ہیںیا تبلیغی معلوم ہوتے ہیں، اس لیے کہ علماء کے بعد دین کے بارے میں زیادہ معلومات تبلیغ والوں کو ہوتی ہیں، تبلیغ کی برکت سے دو گھنٹے اس نے جوابا ت دیئے،اور دوگھنٹے کے بعد وہ کہتی ہے کہ: مجھے کلمہ پڑھاؤ ،مجھے بڑا تعجب ہوا،کہنے لگی: دو گھنٹے سے میں آپ کا انٹرویو لے رہی ہوں اور دو گھنٹوں میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی تم نے آنکھ اٹھاکر مجھے یوں نہیں دیکھا ،نگاہ نیچی رکھی ہوئی بیٹھے ہوئے تھے۔ اللہ کے اس حکم پر اس نے عمل کیا: ’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ‘‘ ۔۔۔۔’’ایمان والے مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھو ۔‘‘گویا وہ اتنی متأثر ہوئی کہ اسلام میں اتنی عفت ہے، اتنی پاک دامنی کہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو دیکھنا بھی جائزنہیں ہے۔ علم ہی ہماری زندگی کامقصدہو     میرے عزیز طلبہ !ہمارا ادب، ہمارے اخلاق ان شاء اللہ! دوسروں پر بھی اثر کریںگے۔ آج دنیا میں دنیائے کفر اور ان کے جتنے چیلے ہمارے سروں پر بیٹھے ہوئے ہیں،وہ سارے آپ کے خلاف ہیں، یہ دینی مدرسے ان کی آنکھوں میں کانٹے بنے ہوئے ہیں ،ان کا بس چلے تو تالے لگادیں،اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ ناکام بنائے ۔(آمین) لہذا ہمیں کوئی موقع  ان کونہیں دینا چاہئے کہ وہ یہ کہہ سکیں: طلبہ ایسے ہوتے ہیں، طلبہ ویسے ہوتے ہیں ،ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو علم کے لیے  وقف کردینا چاہیے، ہمارا اوڑھنا بچھونا علم ہونا چاہیے۔ مجھے ایک طالب علم یاد ہے، اب وہ اسلام آباد میں ڈاکٹرہے،  جب وہ آیا تو مجھے کہنے لگا کہ میں یہاں آیاتو چار مہینے تک پتہ نہیں تھا کہ جناح صاحب کا مزار کہاں ہے، یعنی اس نے اس مسجد سے باہرقدم تک نہیں رکھا ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بھئی! آپ چھٹی کے دن کہیں نہ جائیں، چند ساتھیوں کے ساتھ سمندر چلے جائیں ، آپ کو پتہ ہی نہیں کہ سمندر ہے کیا بلا، ،قرآن مجید جب آپ پڑھتے ہیں تو اس میں بحار (سمندر) کا بھی ذکر ہے، ایک مرتبہ جا کے دیکھ لو کہ یہ سمندر ہوتا کیاہے۔ایک کہاوت ہے نا کہ ایک دفعہ سمندر کی تہہ سے ایک مینڈک چلتی چلتی آئی اور آگے دیکھا کہ ایک کنواں ہے۔ اوپر سے جھانکا تو نیچے گرپڑی، اندر ایک اور مینڈک بیٹھی ہوئی تھی، اب اس سے ملاقات ہوئی، بہن! کہاں سے آئی؟ میں سمندر سے آئی ہوں ،اس نے کہا سمندر کیا ہوتا ہے؟ بہت پانی ہوتا ہے، بہت پانی ہوتا ہے، چونکہ وہ کنویں کی مینڈک کنویں کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی تو دونوں پاؤں پر کھڑی ہوگئی کہ اتنا پانی ہوتا ہے؟ اس نے کہا:نہیں بھئی! اس سے بھی بڑا ہوتا ہے ،تھوڑی دیر میں اور اوپر ہوگئی کہ اتنا ہوتا ہے؟وہ کہنے لگی :نہیں ا س سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے، کرتے کرتے بہت اوپر پانی کی سطح پر آگئی، کہا: اتنا ہوتا ہے؟کہنے لگی: نہیں،  اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے، کہنے لگی :جھوٹ بولتی ہو، دفع ہوجائو، اس سے زیادہ ہو نہیں سکتا۔اسی لیے کسی آدمی کی محدود معلومات ہوں تو کہتے ہیں کہ یہ کنویں کا مینڈک ہے ۔ لہٰذاآپ لوگ کنویں کے مینڈک نہ بنیں، یہ بھی نہ ہوکہ آپ روز ہی جاتے رہیں۔ مجھے اب بھی یا دہے، طالب علمی کے زمانے میں ایک دفعہ میں چڑیا گھر گیا، جانور وں کو دیکھ لیا، بس اس کے بعد مجھے یاد نہیں ہے کہ میں دوبارہ گیا ہوں، ہاں کوئی مہمان آیا ہو تو میں لے گیا ہوںگا، ورنہ مجھے جانا یاد نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ آپ کے علم میں یہ سب آنا چاہیے۔ علم کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟     آپ نے وہ واقعہ سنا ہوگا کہ جب مدرسہ نظامیہ بغداد میں بنا تو اس وقت کے امیر المؤمنین نے ایک دن چاہا کہ میں دیکھوں کہ طلبہ کیاکررہے ہیں، چنانچہ اس نے لباس بدل کے سادے لباس میں آیا اور چکر لگانے لگا ، دیکھا کہ طلبہ جگہ جگہ پڑھ رہے ہیںاور مطالعہ کررہے ہیں، ایک کے پاس گئے: السلام علیکم وعلیکم السلام ،کیا پڑھ رہے ہو ؟ فلاں کتاب پڑھ رہا ہوں،کیوں پڑھ رہے ہو ؟ کسی نے کہا کہ میں فقیہ بنوں گا،کسی نے کہا کہ میں قاضی بنوںگا ،اس وقت جو دینی مناصب تھے وہ ذکرکیے، اس کا دل ایسا پسیج گیا کہ کہنے لگا کہ جس مدرسے میں پڑھنے والوں کا یہ حال ہواس کو ختم کردینا چاہیے۔ حالانکہ یہ دینی مناصب تھے، لیکن ضرورت دنیا کی ہوگئی نا، خیر چلتے چلتے دیکھا کہ آگے ایک صوفی بیٹھا ہوا ہے، وہ بھی مطالعہ کررہا ہے، دل میں آیا کہ چلو بھئی!اس صوفی سے بھی پوچھ لو ،السلام علیکم وعلیکم السلام، ہاں بھئی کیا پڑھ رہے ہو؟ فلاں کتاب پڑھ رہا ہوں ،کیوں پڑھ رہے ہو؟ اب اس کا جواب سنئے کہ میں اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ نے مجھے پیدا کیا اور مجھے مکلف بنایا ہے، میں معلوم کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کیا چاہتا ہے ،جوکام کرنے کے ہیں، وہ میں کروں گا اور جن سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں رک جاؤں تو میں رک جاؤں گا۔ اب اس کی رائے بدل گئی، اور وہ کہنے لگا کہ جس ادارے میں اس طرح کا ایک بھی طالب علم ہو اس کو بند نہیں کرنا چاہیے۔جانتے ہو کہ آخر میں وہ صوفی کون بنا؟ وہی’’ امام غزالیؒ‘‘ بنے، کتنا بڑے انسان بنے! کتنی کتابیں اور کتنے انہوں نے کام کیے ،کہنے کا مقصد یہ کہ ہمارا مقصد دین پڑھنا ہو، میں کہا کرتا ہوں: ’’وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ‘‘ ۔۔۔’’تقوی حاصل کرو ، اللہ تمہیں علم دے گا۔‘‘اورتقویٰ کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ فرائض کی پابندی کرے،نماز باجماعت کا اہتمام کرے، ان شاء اللہ جب تقویٰ آئے گا تو اللہ تعالیٰ علم بھی دے گا ۔ علم پر عمل لازم سمجھیں:     دیکھو!ہمارا یہ دین پاکیزہ دین ہے اور پاکیزہ علم ہے ، یہ پاکیزگی چاہتا ہے، اس لیے ہر طالب علم کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر وقت باوضو رہے، طہارت میں رہے، جی ہاں! جب ضرورت پڑ جائے تو ٹھیک ہے جاکردوبارہ تازہ وضوکرلو۔ میں اکثر یہ نسخہ آپ کو بیان کیا کرتا ہوں، تاکہ زیادہ دیر تک انسان باوضو رہے کہ آپ کھانے میں ذرا سی کمی کردیں، دوروٹیاں کھاتے ہیں توڈیڑھ کھالو، ڈیڑھ والا سوا کھالے، ان شاء اللہ! آپ دیر تک باوضو رہیںگے۔ بہرحال آپ جتنی چیزیں اپنے اساتذہ سے سنتے ہیں، کتابوں میں جو پڑھاہے، اس پر عمل شروع کرو، ا ن شاء اللہ! اس سے علم میں برکت آئے گی، ایک عالم نے لکھا ہے کہ یہ دجلہ بغداد جوکسی زمانے میں اسلامی مملکت کا مرکز تھا، اس میں آج بھی دریائے دجلہ بہہ رہا ہے، آدھا شہر ایک طرف اور آدھا دوسری طرف ہے، اس زمانے میں پل نہیںتھے، بلکہ کشتیاں تھیں اورکشتیوں میںایک طرف سے دوسری طرف آتے جاتے تھے ، ماشاء اللہ بڑے بڑے پل اور موٹروے بن گئے ہیں، اب ایک عالم ایک کنارے پر کھڑا تھا اور کشتی والا کشتی بان دوسری طرف کھڑا تھا ، اب اس کو چھینک آئی تو اس نے کہا: الحمد للہ! اس کی آواز اس کو پہنچ گئی ،لیکن یہ بے چارابڑی عمر کا ہوگا ،اس تک اس کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی تو اس نے ایک کشتی کرائے پر لی اور کہا کہ مجھے وہاں لے کرچلو، اور قریب جاکرکہا: یرحمک اللّٰہ! یہ ہے دین پر عمل۔ تو یہ نیت کرلو کہ جو ہم پڑھیں گے‘ اس پر عمل کریں گے۔ ان شاء اللہ جب علم پر عمل ہوگا تو اللہ برکت دے گا اور مزید عمل کی توفیق بھی ہوگی۔ میں اسی بات پر اکتفا کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔آمین!

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین