بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حجیت ِحدیث

حجیت ِحدیث

محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریvہر سال درس بخاری کی ابتدا میں حجیت وتدوین حدیث اور متعلقہ موضوعات پر مدلل ومفصل تقریر فرمایا کرتے تھے، جو بجائے خود علوم حدیث میں حضرت کے وسیع مطالعے کا نچوڑ اور دسیوں اشکالات کا جواب ہوتی تھی۔ پیش نظر مقالہ اسی نوع کی ایک تقریر کا تحریری قالب ہے، جو اس وقت کے درجہ خامسہ کے طالب علم اور بعد کے جامعہ کے استاذ،دارالافتاء کے رکن رکین اور شعبہ تخصص فی الفقہ والدعوۃ والارشادکے نگران مفتی محمد ولی درویش v (المتوفی:۱۹۹۹ئ)کا (بتاریخ:۲۱شوال۱۳۹۲ھ ، ۱۹۷۲ئ) ضبط کردہ ہے۔ مفتی ولی صاحب v کی ذاتی ڈائری سے ہدیۂ قارئین ہے۔

    اس زمانہ میں فتنۂ انکارِ حدیث نہایت آب وتاب سے پھیل رہا ہے۔ حدیث کے بارے میں منکرین حدیث کی طرف سے تین متضاد خیالات اشاعت میں آرہے ہیں:     ۱:-’’قرآن مجید کے لیے حدیث شریف کی ضرورت نہیں، ہرشخص اپنی سمجھ سے قرآن مجید سمجھ سکتا ہے، اور روایات واحادیث کا سارا سلسلہ سازش ہے۔‘‘              (پرویز ، طلوع اسلام، اکتوبر: ۱۹۵۲ئ)     مقصد یہ ہوا کہ حضور a کی فرمودہ وبیان کردہ تشریحات قطعاً حجت نہیں، یا قطعاً حاجت نہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ قولِ رسولؐ صحابہ کرام s پر بھی واجب الاتباع نہ تھا۔     ۲:- ’’حضور a نے جو احکام بیان فرمائے ہیں وہ صرف حضور a کے زمانہ کے ساتھ مختص تھے، ہر زمانہ کے مطابق اس میں تغیر وتبدل ہوسکتا ہے۔‘‘                      (پرویز، معارف، ج:۴،ص:۶۹۲)     جبکہ طلوع اسلام ،ماہِ جون: ۱۹۵۰ئ، ص:۴۷،میں یہ ہے کہ : ’’آپ علیہ السلام کا فرمان آپ کے زمانہ میںحجت تھا، ہم پر حجت نہیں۔‘‘     ۳:- ’’حضور a کا قول وفعل تو حجت ہے، لیکن چونکہ ہم تک باوثوق ذرائع سے نہیں پہنچا، اس لیے ظنی ہونے کی وجہ سے قابلِ اعتماد نہیں رہا۔‘‘(پرویز ، طلوع اسلام، جولائی، ص:۱۹، ص:۴۹، اسلم جیراج پوری، طلوع اسلام، ماہِ نومبر: ۱۹۵۰ئ، ص:۷۳۰)     اگر منکرینِ حدیث کے مختلف گروہوں کے مختلف خیالات ہوتے تو کوئی تعجب نہ ہوتا۔ عجب امر یہ ہے کہ ایک ہی گروہ بلکہ ایک ہی شخص مختلف آراء اور خیالات کا اظہار کررہا ہے، جسے دیکھ کر دو شقوں میں سے ایک کاتسلیم کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے، یعنی یا تو ان کو مجبور سمجھ کر معذور خیال کیا جائے یایوں کہا جائے: ان کا کوئی نصب العین معین نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ، بلکہ اس ساری تگ ودو سے ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ تعلیماتِ رسول اللہ (l) سے انکار کرکے ہرطرح سے آزادانہ زندگی بسر کریں، اس لیے جس قسم کا موقع پاتے ہیں بات منہ سے نکالتے ہیں، اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس سے پہلے کیا بک چکے ہیں۔     ہم قبل ازیں ان کا پول کھولنے کے لیے مختلف مضامین بذریعہ اخبارات ورسائل شائع کرچکے ہیں، جن میں سے بعض مضامین کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس وقت ہم مختلف قسم کے تین نظریوں سے بالاختصار بحث کرنا چاہتے ہیں: نظریۂ اولیٰ کی تردید ۱:- ’’وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہٗ اللّٰہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْمِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِإِذْنِہٖ مَایَشَائُ ‘‘۔                                               (الشوریٰ:۵۱)     اس آیت میں اِرسالِ رسول کے مقابلہ میں ذکر کرنا دال ہے کہ بغیر ارسالِ رسول کے بھی وحی ہوتی ہے، یہی حدیث ہے۔ ۲:-’’وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ اللَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَا‘‘۔                          (البقرۃ:۱۴۳)     اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیت المقدس کی طرف استقبال کا حکم الٰہی تھا، حالانکہ قرآن مجید میں یہ حکم مذکور نہیں۔ ۳:- ’’عَلِمَ اللّٰہُ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ أَنْفُسَکُمْ‘‘۔                      (البقرۃ:۱۸۷)     اس آیت سے معلوم ہوا کہ ابتدا میں رمضان کی رات کو بھی جماع کرنا حرام تھا، یہ حرمت حدیث ہی سے ثابت تھی، قرآن مجید میںاس کا حکم نہیں۔ ۴:-’’وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّأَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ‘‘۔                       (آل عمران :۱۲۳)     یہ آیت جنگِ احد کے موقع پر نازل ہوئی، جس میں مذکور ہے کہ بدر کے مقام پر خداوند کریم نے انزالِ ملائکہ کا وعدہ کیا، حالانکہ قرآن مجید میں مقام بدر پر اس قسم کا کوئی وعدہ مذکور نہیں، تو معلوم ہوا کہ انزالِ فرشتہ وحیِ غیر متلو سے تھا جوکہ حدیثِ رسول ؐہے۔     ۵:- قرآن مجید میں انبیاء کرام o کی احادیث ہیں جو حجیت حدیث پر واضح دلیل ہیں، جب انبیاء کرام سابقین o کی احادیث کا ان کی امت پر واجب الاتباع ہونا ثابت ہوتا ہے، تو پھر ہمارے رسول کریم a کی احادیث کیونکر واجب العمل نہ ہوں گی؟     ۶:- قرآن مجید میں جابجا ’’أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ‘‘ کا ارشاد ہے۔ اگر نبی m کا قول وفعل قابل اعتماد نہیں تو’’أَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ‘‘ جابجا کیوں مذکور ہے؟قرآن مجید میں جابجا اطاعتِ رسولؐ کی تاکید کی گئی ہے اور رسول اللہ a کی نافرمانی پر وعید شدید سنائی ہے۔ ۷:- ’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْْہِمْ أٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔‘‘(آل عمران:۱۶۴)     یہ آیت معنی اور مفہوم کے اعتبار سے قطعی طور پر محکم ہے۔ اس میں صاف دلالت ہے کہ رسول کریم a کا کام ڈاک کے ہرکارے کی طرح ابلاغ ہی نہیں تھا، بلکہ آپ a حکمت کے مبلغ اور مسلمانوں کے لیے مزکّی بھی تھے۔ تعلیم الکتاب کا جو فرض حضور a کے ذمہ لگایا گیا تھا آپ a اس فرض کو کس طرح ادا کرتے تھے؟ کیا قرآن کریم کے طلبہ حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن کریم کی کسی آیت کے بارے میں آپ m سے دریافت نہ کرتے تھے؟ اور اگر دریافت کرتے تھے تو کیا آپ a ان کے جواب میں قرآن ہی کی آیت پیش فرمایا کرتے تھے؟ کیا یہ طریقِ تعلیم قرینِ قیاس ہوسکتا ہے کہ ایک معلم کسی کتاب کی تعلیم دے اور طلبہ سماعِ متن کے علاوہ کوئی اور بات دریافت کریں تو استاذ ان کے جواب میں کتاب کا ہی متن پڑھ دے اور اپنی زبان سے تشریح کچھ نہ کرے؟معلم کا فرض ہے کہ کتاب کی مجملات کی تفسیر واضح طور پر سمجھائے، طلبہ کے اعتراضات اور خدشات کو حل کرکے کتاب کے مفہوم اور معنی کو واضح کردے اور اچھی طرح سمجھائے۔     اگر قرآن کریم سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت ہی نہیں، بلکہ ہرشخص اپنے دماغ سے قرآن سمجھ سکتاہے تو پرویز علیہ ما علیہ نے معارف القرآن لکھ کر حماقت کا ثبوت کیوں دیا؟ حضور m کی تفسیر تو قابل قبول نہ ہو اور گستاخ خاک بدہنش کی تفسیر مقبول ہو۔ حضور m اپنے قول وفعل سے تشریح وتفسیر فرماتے تھے اور صحابۂ کرام sکا تا زندگی تزکیہ کرتے تھے اور اگر حضور m کا قول وفعل قابل اعتماد نہیں تو پھر آپ m معلم الکتاب اور مزکّی کیسے ہوئے؟     ۸:- قرآن کریم میں حضرت ابراہیم m کا واقعۂ خواب مذکور ہے، جوکہ وحی متلو (میں موجود)نہیں۔ حضرت ابراہیم m کی ہزار تمناؤں کے بعد آخری عمر میں خداوند قدوس نے فرزند عزیز عطا فرمایا، پھر حالت رضا میں برسوں تک اکلوتے بیٹے کو وادئ غیر ذی زرع میں چھوڑ کر فراق کے صدمے دریافت کیے، مگر خلیل اللہ m کے مقامِ تسلیم رضا کی امتحان کی ایک شدید ترین گھاٹی تاحال باقی تھی۔حضرت ابراہیم m خواب کو وحی الٰہی فرماکر بغیر کسی تردد کے حکم کی تعمیل کے لیے نہ صرف آمادہ ہوجاتے ہیں، بلکہ فرزند لختِ جگر کو قربانی فرمانے کا عمل نہایت مستعدی سے شروع کردیتے ہیں، حضرت ابراہیم m کا نہایت عزیز ترین اکلوتے بیٹے کے ذبح کرنے کا اقرار کرنا اور حضرت اسماعیل m کا ’’فَافْعَلْ مَاتَرٰی‘‘ کے بجائے ’’فَافْعَلْ مَا تُؤْمَرُ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ’’قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا‘‘ اور ’’فَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ‘‘ کا ارشاد فرمانا، پھر اس امتحان کو ’’بَلَائٌ مُّبِیْنٌ‘‘ سے تعبیر کرنا یہ جملہ اس بات کے لیے واضح دلیل ہیں کہ حضرت ابراہیم m کو خواب میں ذبح کرنے کا حکم ہوا، اور وہ حکم واجب العمل بھی تھا، غرض یہ کہ حجیت حدیث پر آیات بالا قطعی دلیل ہیں، اس کے بعد کچھ عقلی دلائل ذکر کیے جاتے ہیں۔ دلائلِ عقلیہ     ۱:۔۔۔۔۔ قرآن مجید میں ہر شئے کا ذکر اجمالاً ہے، جس کی تشریح اور تفسیر احادیث میں ہے۔ نمازوں کے اوقات، تعدادِ رکعات، واجبات کی تفصیل، صوم وصلاۃ کے معاملات اور معاشرت کے احکام وقوانین ان سب امور کی تفصیل حدیث شریف میں ہے اور حدیث ہی سے ثابت ہے۔ پس انکارِ حدیث سارے نظام اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح پیشاب، پاخانہ، کتا، گوہ، گیدڑ وغیرہ کی حرمت کا ذکر قرآن مجید میں نہیں، چنانچہ اسی اعتراض سے بچنے کے لیے منکرین حدیث علیہم ما علیہم ان جملہ اشیاء کی حلت کے قائل ہیں۔     محمد صبیح ایڈوکیٹ لکھتے ہیں: ’’قرآن میں مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ باقی ہر چیز کا کھانا فرض ہے اور کھانے سے انکار کرنا گناہ ہے اور خدا تعالیٰ کی معصیت ہے۔‘‘                  (طلوع اسلام، جون: ۱۹۵۲ئ)     یعنی کتا، گیدڑ، بلی، چوہا حتیٰ کہ پیشاب پاخانہ کا کھانا فرض ہے۔ ( نعوذ باللّٰہ من تلک الخرافات) اس سے ظاہر ہے کہ منکرین حدیث خدا کی معصیت سے بچنے کے لیے شبانہ روزانہ یہ اشیاء کھاتے ہوںگے۔ (سَوَّدَ اللّٰہُ وُجُوْہَہُمْ)     ۲:۔۔۔۔۔ اگر احادیث کے راوی قرآن کے خلاف عجمی سازش کرنے والے تھے، اس لیے حدیث قابل قبول نہیں تو قرآن بھی انہی وسائل سے ہم تک پہنچا ہے، قرآن پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟ (العیاذ باللہ) اگر کہا جائے قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘ تو ہم کہتے ہیں: خود اس آیت کی صداقت پر کیسے اعتماد ہوگیا؟ کیونکہ یہ بھی انہی لوگوں کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے، جن کی وساطت سے ہم تک احادیث پہنچی ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن حکیم کا اعجاز فی البلاغۃ اس کی صداقت پر دال ہے، اول: تو قرآن کا معجز ہونا من حیث البلاغۃ مختلف فیہ ہے، بعض نے اعجاز عن الغیب وغیرہ کا قول کیا ہے، جس کی صداقت وتصدیق مذکورہ وسائط کے ذریعہ سے معلوم اور منقول ہے۔     ثانیاً: قلیل تغیر اور بعض مواقع پر ترتیب کی تبدیلی سے اعجاز فی البلاغۃ میں بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، اس پر مختصر المعانی میں بحث کی گئی ہے۔     ثالثاً: اعجاز فی البلاغۃ معیارِ حق تب ہوگا جبکہ تحدی ثابت ہو اور آیاتِ تحدی آیت مذکورہ سے بھی ثابت ہے۔     رابعاً: تحدی من حیث البلاغۃ موجودہ زمانہ میں معیار صداقت نہیں ہوسکتا، کیونکہ تحدی اس چیز کی مفید ہوگی، جس کا دنیا میں بہت زور اور چرچا ہو، ظاہر ہے کہ دورِحاضر میں بلاغت کی نسبت علم سائنس کا بہت چرچا ہے، پس بلاغت کا لحاظِ تحدی مانۂ تنزیل کے ساتھ مخصوص ہوگی، اس وقت میں اہل بلاغت کی مثل سے عاجز نہیں، بلکہ بلاغت کے مشہور دور میں بڑے بڑے بلغاء اس کی مثل سے عاجز رہے۔ صحابہ کرامؓ وتابعین وتبع تابعین ومن بعدہم امت مسلمہ جو حدیث کو حجت تسلیم کرتے ہیں، کیا ان سے اجتہادی غلطی ہوئی؟یا یہ جان بوجھ کر ایسا کرتے تھے؟ اگر اجتہادی غلطی ہوئی ہے، یعنی حدیث قابل حجت نہیں تھی، مگر اسلاف سے غلطی ہوئی کہ وہ اسے قابل عمل سمجھتے رہے، تو یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ ساری امت کے متقدمین ومتأخرین وصلحاء تمام تر اسلاف اسی غلطی میں رہے، کیا کسی ایک فرد نے اس غلطی کو محسوس نہیں کیا ہے؟ اور اگر اسلاف حدیث کو قابل عمل نہیں سمجھتے تھے، تو کیا جان بوجھ کر حدیثیں بیان کرکے قرآن کے خلاف سازشیں کرتے رہے؟ تو اس امت میں باقی مؤمن کون رہا؟ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ وتبع تابعینؒ، ائمہ محدثینؒ اور جمیع سلف صالحینؒ تو نعوذ باللہ قرآن کے خلاف تھے، اور صرف شیطان پرویز ہی چودہ سو سال کے اندر قرآن سمجھنے والے پیدا ہوئے ہیں۔ اور جو دین چودہ سو سال تک مخالفین کے پاس رہا، اتنی طویل مدت تک اس کا کوئی محافظ اور اُسے قبول کرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا، تو ایسے دین پر کیونکر اعتماد کیاجاسکتا ہے؟ یہ امر بھی دریافت طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سابقہ آسمانی کتابوں کو رسولوں کے واسطہ سے کیوں اتارا؟ اگر اللہ تعالیٰ ہر فرد بشر کے پاس لکھی لکھائی کتاب بلاواسطۂ رسول بھیج دیتے تو لوگ صریح معجزہ ہونے کی وجہ سے زیادہ متأثر ہوتے اور کفار خود اس بات کے طالب بھی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر لکھی لکھائی کتاب نازل کی جائے۔     سو اگر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تو منہ مانگا معجزہ ملنے پر زیادہ سبب ہدایت ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار نہیں فرمایا اور رسولوں کی معرفت کتابیں بھیج دیں۔ اور رسول بھی صرف انسانوں میں سے منتخب فرمائے۔ کفار کہتے تھے کہ پیغام پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتہ کیوں نہیں اتارتا؟ تاکہ ہمیں احکام کے منزل ہونے کا یقین ہوجائے، اللہ تعالیٰ ا س کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’لَوْجَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلًا‘‘ (الانعام:۹) ’’لَوْ کَانَ فِیْ الْأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَائِ مَلَکًا رَّسُوْلاً‘‘ (بنی اسرائیل :۹۵) غرض یہ کہ تنزیل کتب کے لیے رسولوں کو واسطہ بنانے اور رسالت کے لیے منتخب کرنے پر اس قدر اصرار کیوںکیا گیا؟ اس کا جواب ضرور کتاب اللہ میں موجود ہے: ’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰہِ‘‘۔(النساء :۶۴) یعنی خدا تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے، ان کی بعثت کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ فرمان خداوندی عز وجل کے مطابق حکم دیں اور خود قوانین الٰہیہ کے مطابق زندگی بسر کریں اور نازل شدہ احکام پر عمل کرکے امت کے لیے ایک نمونہ قائم کریں، تاکہ امت ان کی تابعداری کرے۔ اور اگر بلاواسطۂ رسول احکام نازل کیے جاتے اور ان کی تفسیر وتفصیل کرنے والا کوئی نہ ہوتا اور ان کو عملی جامہ پہنانے والا کوئی نہ ہوتا تو لوگ آیات کے مفہوم اور معانی میں اختلاف کرتے اور منشأ الٰہی کو سمجھنے میں غلطی کرتے، ان کو سمجھانے والا کوئی نہ ہوتا۔     اس ضرورت کو کسی حد تک فرشتے بھی پورا کرسکتے تھے، مگر ان کے متعلق لوگ خیال کرتے کہ فرشتہ قوتِ نفسانی ، شہوانی اور غضب سے منزہ ہے اور انسانی وحوائج وضروریات سے مستغنی ہے، اس سے احکام طہارت، پاکیزگی اور تقویٰ میں انسان فرشتہ کی پیروی نہیں کرسکتے، کیونکہ انسان پیٹ رکھتا ہے، کھانے پینے سے پیشاب پاخانہ کرنے کا محتاج ہوتا ہے، قوت شہوانی وغضب کا مالک ہے اور وامراض وعوارض کا شکار ہوتا ہے، بال بچوں کا جنجال ہوتا ہے،اس لیے فرشتہ کا اتباع انسان کے بس کی بات نہیں، لوگ کہہ سکتے تھے کہ ہم انسان ہیں، ہم میں انسانی کمزوریاں ہیں، ہم فرشتہ کی متقیانہ زندگی کا اتباع نہیں کرسکتے، اس لیے ضروری تھا کہ انسان ہی جذبات وعوارض کے ساتھ بطور پیغمبر مبعوث فرمایا جائے، اس کے لیے وہی معاملات در پیش ہوں جو عام انسانوں کو درپیش ہوں، تاکہ وہ قوانین الٰہیہ کے مطابق لوگوں کو زندگی بسر کرکے دکھائے کہ دیکھئے! انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے فعل ، عمل اور قول سے ہدایت دیتا اور اس کو سمجھاتاہے، تاکہ انسانی زندگی کی پیچیدہ راہوں سے بچ کر راہ مستقیم پر چل سکے۔ غرض یہ کہ لفظوں میں منزلہ احکام کو عملی جامہ پہنا کر امت کے لیے اسوۂ حسنہ قائم کردیتا ہے، بس یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ پیرویِ رسول ؑ کو بھی اس کے ساتھ ہم پر لازم فرمادیا۔ نظریۂ ثانیہ کی تردید     اگر رسول اللہ a کی تعلیمات صرف آپ m کے زمانہ کے ساتھ خاص تھیں اور حجت نہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آنحضرت a کی نبوت قیامت تک عام نہیں۔ (حالانکہ) یہ (نتیجہ)غلط ہے، جبکہ مندرجہ ذیل آیات اور ادلہ بھی اس کی صریح تردید کرتی ہیں:     ۱:-’’أَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ‘‘ میں قرآنی حکم عام ہے اور قیامت تک کے لیے ثابت رہے گا،ا گر ہم پر قرآن حجت ہے تو قرآن کریم کی آیت مقدمہ کا ٹکڑا ہم پر کیوں حجت نہیں ہوگا؟     ۲:-’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا‘‘۔(الاعراف :۱۵۸)     ۳:-’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ ۔(الانبیاء :۱۰۷)     ۴:-’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ‘‘۔ (السبأ :۲۸)     ۵:-’’مَاکَانَ مُحَمَّدٌأَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘۔ (الاحزاب:۴۰)     اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ کتاب اللہ کے سمجھنے کے لیے معلم کی ضرورت ہے، جب نبی کریم m کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آسکتا، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ a کی تعلیمات الی القیامہ واجب الاتباع ہیں۔     ۶:- ’’رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّایَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلٰی اللّٰہِ حُجَّۃً بَعْدَ الرُّسُلِ‘‘۔ (النسائ:۱۶۵) دلائل عقلیہ     ۱:- کتاب اللہ کے سمجھنے کے لیے معلم الکتاب کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو رسول کیوں مبعوث کیے گئے؟ نیز اگر قول رسول ؐاہل زمانہ پر واجب الاتباع ہے تو ہم ان تعلیمات سے کیسے مستغنی ہوسکتے ہیں؟ صحابہ کرام s کو معلم کی ضرورت پڑے اور ہم معاذ اللہ ان سے بھی زیادہ عقلمند بن بیٹھے، کہ وہ باوجود اہل زبان، اہل محاورات ہونے کے نہ سمجھ سکے اور ہم سمجھنے لگ گئے۔     ۲:-تمام جمہور یعنی جمیع امت جو آج تک حدیث کو قابل قبول سمجھتی آئی ہے، ان سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے یا جان بوجھ کر بقول پرویز : ’’اسلام کے خلاف سازش کرتے رہے ہیں‘‘۔ نظریۂ ثالثہ کی تردید     ۱:-منکرین حدیث کہتے ہیں کہ: حدیث ظنی ہے، قرآن کی رو سے ظنی پر عمل کرنا جائز نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم کی رو سے حدیث کی پیروی کرنا منع ہے۔ منکرین حدیث کا یہ استدلال دجل وتلبیس ہے کہ لفظ ظن لغوی معنیٰ میں مستعمل ہے یا بالکل بغیر دلیل کے محض گمان اور اٹکل ہے۔     ۲:-شواہد اور قرائن سے ظن بمعنی غالب ہے۔     ۳:- نیز علم یقینی، نظری استدلالی ہے جو برہان قطعی سے حاصل ہو اور اس میں مشاہدہ بھی ہو، مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ میں لفظ ’’ظن‘‘ اس علم یقین کے معنی میں مستعمل ہے اور رکھا گیا ہے:     ۱:-’’یَظُنُّوْنَ أَنَّہُمْ مُّلَاقُوْا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘           (البقرۃ:۴۶)     ۲:-’’قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ أَنَّہُمْ مُّلَاقُوْا اللّٰہِ ۔‘‘                    (البقرۃ:۲۴۹)     ۳:- ’’وَظَنَّ دَاوٗدُ أَنَّمَا فَتَنَّاہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّأَنَابَ۔‘‘    (ص:۲۴)     ۴:-’’أَلَایَظُنُّ أُولٰئِکَ أَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۔‘‘        (المطففین:۴)     قرآن کریم نے ظن بمعنی اٹکل استعمال کرنا منع کیا ہے۔     احادیث کا سلسلہ (معاذ اللہ) محض اٹکل نہیں ہے، اس لیے ظن کا معنی ثانی یعنی غالب ومعنی ثالث یعنی علم یقینی استدلالی ہے اور ظن کو اسی لحاظ سے ظن کہا جاتا ہے، بہت ساری احادیث علم یقینی واستدلالی کا فائدہ بھی دیتی ہیں۔     حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیv (المتوفی: ۸۵۲ھ) شرح نخبۃ الفکر میں فرماتے ہیں: ’’وقد یقع فیہا أی فی أخبار الآحاد المنقسمۃ إلٰی مشہور وعزیز وغریب ما یفید العلم النظری بالقرائن علی المختار۔‘‘          (شرح نخبۃ الفکر، ص:۳۴،ط:قدیمی)     تو صاف ظاہر ہے کہ واجب الاتباع ہیں۔ باقی رہیں وہ احادیث جو ظن غالب کا فائدہ دیتی ہیں، سو شریعت مطہرہ نے ظن کو یقین کا فائدہ دے کر واجب الاتباع قرار دیا ہے۔ شرعی یقین کے لیے ثقہ عادل کی شہادت کہیں ایک، کہیں دو اور کہیں زیادہ کی کافی ہے، سو وہ احادیث میں موجود ہیں، اس لحاظ سے سب احادیث یقینی ہیں، اس لیے کہا جاتا ہے کہ مفیدِ علمِ یقینی واستدلالی ہیں۔ یا یہ کہ اکثر احادیث میں عقلاً احتمال موجود ہے، لیکن شرعاً نہیں۔ غرض یہ کہ نتیجہ یہی ہوگا کہ مفیدِ علمِ یقینی واستدلالی شرعی ہیںاور عقلاً اس لیے کہا جاتا ہے کہ بعض احادیث مفیدِ علمِ یقینی استدلالی عقلی ہیں۔ اور اکثر احادیث موجب ظن غالب ہیں اور دنیا میں ظن غالب پرعمل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ ہم رات اور دن اپنے تمام معاملات میں ظن غالب پر ہی عمل کرتے ہیں، مثلاً: دوا پینے کے وقت شفاء کا یقین نہیں، بلکہ مضرت کا احتمال بھی ہوتا ہے۔ ریل، طیارہ، بحری جہاز وغیرہ پر سوار ہوتے وقت ان کی مشینری کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ راستے کے حوادث سے محفوظ رہنے کا بھی یقین نہیں ہوتا، بلکہ ان تمام صورتوں میں طیارہ گرنے، یاریل کے پٹری پر سے اتر جانے اور بحری جہاز کے سمندر میں غرق ہوجانے کا احتمال بھی ہوتا ہے، باوجود ان احتمالات کے ہم رات دن انہی ذرائع کے ذریعہ سفر کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بازار سے دودھ، گھی خریدتے وقت، غسل، وُضو کرتے وقت ان کی طہارت کا کامل یقین نہیںہوتا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ ان تمام معاملات میں ظن غالب پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر بالفرض ظن غالب کی پیروی کو ترک کر دیا جائے تو انسان کا دنیامیں زندہ رہنا محال ہوجائے گا۔     ان معاملات کے علاوہ چند اور مثالیں بھی دیکھ لیں کہ سانپ کے کاٹنے کے بعد مرنے کا یقین نہیں ہوتا، سانپ کے پاس جانے کے وقت کاٹنے کا یقین نہیں، زہر پینے کے بعد موت کا یقین نہیں ہوتا، باہمہ ہذا زہر سے بچتے ہیں، سانپ سے پرہیز کرتے ہیں، ان سب پر ظن غالب ہی کی وجہ سے عمل کرتے ہیں، تو کیا ہم پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اے گروہِ منکرین حدیث! جب ہم زندگی کے ہر معاملہ میں ظن غالب پر یقین رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حدیث کو ظنی ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا جائے؟!!!     یاد رکھئے! قرآن مجید یقینی ہے اور حدیث ظنی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کو محض اٹکل سمجھ کر ناقابل اعتماد قرار دیا جائے۔     سنئے! قرآن کے یقینی اور حدیث کے ظنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا ہرلفظ تواتر سے ثابت ہے، اس لیے یقینی وبدیہی ہے، اور حدیث میں چونکہ روایت بالمعنی جائز ہے، اس لیے اس کے ہرلفظ کے بارے میں قرآن جیسا یقین نہیں ہوسکتا، لہٰذا حدیث یقینی استدلالی ویقینی شرعی ہے، جیسے کہ ماں (والدہ) کا علم یقینی اور باپ (والد) کا علم ظنی ہوتا ہے، کیونکہ والدہ کے بارے میں یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے، مگر باپ کے متعلق نہیں کہا جاسکتا، لہٰذا باپ کا علم یقینی شرعی ہے۔ دلیل عقلی     جب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ قول رسول ؑ قیامت تک واجب الاتباع ہے، مگر حدیث کا موجودہ ذخیرہ حجت نہیں، اس لیے کہ ظن ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداوند کریم نے جب تعلیمات رسول ؐ کو قیامت تک ہمارے لیے واجب الاتباع قرار دیا ہے، تو اللہ پاک نے ان کی حفاظت کا بندو بست کیوں نہ کیا ہوگا؟ کیایہ تکلیف مالا یطاق اورامت پر ظلم نہ ہوگا کہ ان اقوال کی اتباع ہم پر واجب کردی گئی جن کی تحصیل ہم پر ناممکن ہے۔ غرض یہ کہ قول رسولؐ   کو واجب الاتباع تسلیم کرلینے کے بعد اسے ظنی سمجھتے ہوئے حجت نہ ماننا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلم کی نسبت کرنے کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث کا یہ اعتراض     منکرین حدیث کا یہ اعتراض کہ حدیث رسول ؐ تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی ہے، صاف دھوکہ ہے، کیونکہ حدیث رسول ؐ کی تدوین عہدرسالت ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ رسول اللہ a کا کتابت حدیث سے منع فرمانا اسلام کے ابتدائی زمانہ میں صرف اس لیے تھا کہ کہیں قرآن کے ساتھ التباس نہ ہوجائے، کیونکہ اس وقت کتابتِ قرآن کا دستور تھا اور عوام قرآنی اسالیب اور اس کے معجزہونے سے ابھی پوری طرح فائز وواقف نہ تھے۔ کتابتِ حدیث سے منع کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ حدیث قابل اعتبار نہیں، اگر یہ مقصود ہوتا تو آپ a حدیث بیان کرنے سے روک دیتے، حالانکہ حضور a نے خود فرمایا: ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ‘‘ حضور a کے زمانہ میں اور اس کے بعد بعض صحابہ کرامs کے زمانہ میں احادیث بیان کرنے کا رواج تھا، جناب نبی اکرم a نے حضرت معاذ بن جبلq کو ایک خدمت پر بھیجتے وقت دریافت فرمایا کہ: تم کس طرح فیصلہ کروگے؟ حضرت معاذ بن جبلq نے فرمایا:  پہلے قرآن پر نظر کروں گا، پھر آپ کے قول اور فعل سے استدلال کروں گا، پھر اجتہاد سے کام لوں گا۔ حضور a نے اس پر اظہارِ مسرت فرمایا اور حدیث کے حجت (ہونے) پر تصدیق ثبت فرمائی۔ حضور a نے ارشاد فرمایا: ’’تسمعون ویسمع منکم ویسمع ممن یسمع منکم‘‘ (سنن ابوداود، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، ج:۲، ص:۱۵۹) شروع میں اگر چہ عوام کو اختلاط بالقرآن کی وجہ سے اجازت نہ تھی، تاہم خاص خاص لوگوں کو کتابت کی اجازت تھی۔     طبقات میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص q کا واقعہ مذکورہ ہے کہ آپ ؓ نے دربارِ رسالت میں عرض کیا کہ: یا رسول اللہ a ! میں نے آپ سے جو احادیث بالمشافہ سنی ہیں، ان کے تحریر کرنے کی اجازت عطا فرمادیجئے! آپ a نے بخوشی اجازت عطا فرمادی، پھر آپ ؓ نے حضور a سے دریافت کیا کہ: یا رسول اللہ! کیا میں نشاط کی احادیث ضبط کروں یا غصہ کے وقت کی بھی؟ آپ a نے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ا س منہ سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ چنانچہ احادیث کو انہوں نے جمع کیا اور اس کا نام ’’الصادقۃ‘‘ رکھا۔یہ پورا واقعہ ابوداودvنے ’’کتاب العلم‘‘ میں بھی لکھا ہے۔      حضرت ابو ہریرہ q فرماتے ہیں کہ: مجھے سب سے زیادہ احادیث یاد ہیں، مگر عبداللہ بن عمرو بن العاص q لکھا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا: ’’إنہٗ کان یکتب ولا أکتب‘‘۔     بخاری شریف اور مستدرک حاکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابوہریرہq کے پاس بھی احادیث کا ذخیرہ مکتوبہ موجود تھا۔     حضرت حسن بن عمرؒ فرماتے ہیں کہ: ایک دفعہ میں نے حضرت ابوہریرہq کو حدیث سنائی تو آپؓ نے فرمایا کہ: یہ غلط ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر یہ حدیث مجھ سے سنی ہے تو تحریری کتابوں میں ضرور درج ہوگی، چنانچہ آپ ؓ نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث تلاش کی تو یہ حدیث مل گئی، اس مقام پر منکرین نے دو اعتراض کیے ہیں:     اعتراض اول:۔۔۔۔۔ بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ qکی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص q سے زیادہ روایات منقول نہیں۔     جواب:۔۔۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت میں استثناء منقطع ہے، اس لیے سابقہ جملہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز کثرتِ علم‘ کثرتِ روایت کو مستلزم نہیں۔ حضور a کے وصال کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص q زیادہ تر شام میں رہے ہیں اور حضرت ابوہریرہ q کا قیام مدینہ منورہ میں رہا، چونکہ دورِ اول میں علم کا مرکز مدینہ منورہ تھا، لوگ تحقیق مسائل میں مدینہ منورہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، اس لیے حضرت ابوہریرہ qکو روایات زیادہ بیان کرنے کا موقع ملا۔     اعتراض دوم:۔۔۔۔۔مستدرک حاکم میں موجود ہے کہ حضرت ابوہریرہ q کے پاس بھی لکھی ہوئی احادیث موجود تھیں اور بخاری میں ہے: ’’لا أکتب‘‘۔     جواب:۔۔۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ q خود لکھنا نہ جانتے تھے، بلکہ دوسروں سے لکھواتے تھے۔ (فتح الباری، ج:۱،ص:۸۳۰) جب لوگ قرآن مجید کے معجزانہ اسلوب سے خوب واقف ہوگئے، تو آپ a نے لکھنے کی اجازت عطا فرمائی، بلکہ لکھنے کا حکم عطا فرمایا اور کئی صحابہ کرام s کو دینی مسائل اور پیغمبرانہ ہدایات خود لکھوائیں۔     فتح مکہ کے موقع پر آپ a نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور ابو شاہ یمنی کی درخواست پر وہ خطبہ لکھواکر خود انہیں دے دیا، فرمایا تھا: ’’اکتبوا لأبی شاہ‘‘ (مفتاح السنۃ ، ص:۱۷۰، طبع مصری) اور بخاری شریف میں ایک حدیث ہے، فرمایا کہ حضرت عمروبن حزمؓ کو یمن بھیجتے وقت آپ a نے انہیں ایک مفصل تحریری ہدایت نامہ بھیجا تھا، جس میں صدقات وفرائض وغیرہ کے احکام تھے۔ (مفتاح السنۃ، ص:۱۷۰،طبع مصری)     حضرت مسلم بن حارث q کے والد کو بشارت لکھوادی (ابوداود)     امام ترمذی vنے ’’کتاب العلل‘‘ میں لکھا ہے کہ طائف کے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس rکو ان کی ایک کتاب سنائی، خطیبؒ کی روایت کے مطابق حضرت انس qکے پاس بھی احادیث کا مجموعہ تھا، حضرت انس qاپنی اولاد کو کتابتِ حدیث کا حکم دیا کرتے تھے۔(دارمی،ص:۶۸)     ابن عبد البرvنے جامع میں حضرت عبد اللہ بن مسعودqسے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب دکھا کر قسم کھائی اور کہا کہ عبداللہ بن مسعودqکے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اور حضرت علیq نے بعض احادیث کو لکھ کر صحیفہ کی صورت میں اپنے پاس رکھا۔ (بخاری شریف)     بعض کثیر الروایہ صحابہ کرام sمثلاً: حضرت ابوہریرہq، حضرت عبد اللہ بن عباسq، حضرت عبد اللہ بن عمرq، حضرت جابر بن عبد اللہq، حضرت براء بن عازب q اور حضرت انس بن مالک q وغیرہم کی روایات کو ان کے شاگردروبروبیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔ (دارمی۔ تہذیب،ج:۴ ۔ ترمذی، کتاب العلل) حضرت عمر q عمالِ حکومت کے لیے ’’صدقۃ المواشی‘‘ کے احکام لکھ کر رکھتے تھے۔ (المؤطا ،ص: ۱۳۵ ،ط:مصر یا ص:۱۳۶ یا ص: ۱۵۱ یا ص:۱۵۲ پر اس قسم کی مثالیں ملاحظہ فرمالیں)     صحابہ کرام s کے زمانہ میں اگرچہ کتابتِ حدیث ثابت ہے، مگر اس زمانہ میں حفظِ صدری پر زیادہ زور تھا۔ عرب کے لوگ زیادہ مشہور تھے، مختلف مضامین کے طویل وعریض قصائد اُن کو زیادہ یاد تھے۔ نیز اس کے علاوہ ان لوگوں کو اونٹوں کے، گھوڑوں کے زیادہ تر نسب نامے بھی یاد تھے۔ حضور a کے قول وفعل کو ان لوگوں نے خصوصیت سے وحی الٰہی سمجھ کر حفظ کیا، اور حضور m کے قول وفعل کو واجب الاتباع سمجھ کر اس کی حفاظت کی۔ صحابہ کرام s کے بعد تابعین ؒ کا زمانہ آگیا، انہوں نے اقوالِ رسولؐ  کو دنیائے اسلام کے بعید سے بعید گوشہ میں کمالِ حفاظت سے پہنچادیا۔ صحابہ کرام s کے پاس ذاتی یادداشتیں تحریر شدہ تھیں، مگر کوئی کتاب حدیث کی مرتب نہ تھی۔ پہلی صدی کے آخر میں حضرت عمر بن عبد العزیزv (متوفی: ۱۰۱ھ) والیِ مدینۃ المنورۃ نے حضرت ابوبکر بن حزم v کو خطا لکھا: ’’انظر ماکان من حدیث رسول اللّٰہؐ ، فاکتبوہ، فإنی خفت دروس العلم وذہاب العلمائ‘‘ (مفتاح السنۃ ص:۲۰) اور انہیں یہ بھی لکھا کہ عمرہ بنت عبد الرحمن انصاریہؒ (متوفاۃ: ۹۸ھ) اور قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ (متوفی: ۱۲۰ھ) کی احادیث کے مجموعے لکھوا کر میرے پاس بھجوائیں۔ اسی طرح آپ ؒ نے آکر بڑے بڑے شہروں کے عمال کو اسی طرح کے حکم تدوینِ حدیث کے لیے بھیجے۔ وصلی اللّٰہ علٰی النبی الکریم

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین