بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بیش قیمت اِفادات

حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویv   اور ان کے بیش قیمت اِفادات

حجۃ الاسلام مولانامحمدقاسم نانوتوی v ایک نادرئہ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی ذاتِ گرامی ان صاحب ِکمال افراد میں سے تھی جن پر زمانہ رشک کرتا اور تاریخ فخر محسوس کرتی ہے۔ وہ ان اوصاف وکمالات کے جامع تھے جن کا اجتماع کسی ایک ذات میں شاذ ونادر ہوا کرتا ہے۔ صدیوں میں ان جیسی ہشت پہلو شخصیت پیدا ہوتی اور قرطاس ِ عالم پر ایسے نقوش مرتسم کرجاتی ہے جو ہمیشہ تابندہ رہتے ہیں اور راہِ عمل کا ہر مسافر اُن کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتا اور منزل کا نشان پاتا ہے۔ حضرت نانوتوی v کی تاریخ ساز شخصیت گراں مایہ اوصاف کامجموعہ تھی۔ دستِ ازل نے ان پر خصوصی فیض رسانی کی تھی۔ وہ ذہانت وذکاوت، فکری استقامت ، قوتِ ارادہ، جذبۂ عمل ، ہمت وجواں مردی، وسعت ِ نظر، اخلاص وللہیت، انکساری وسادگی جیسے گلہائے رنگا رنگ کا حسین گلدستہ تھے۔ تعصب سے پاک، ہر بابصیرت شخص ان کے کمالات کا معترف اورعلمی وفکری امتیازات کا قصیدہ خواں رہا ہے۔ ان کے افکار ونظریات نے ایک جہاں کو متأثر کیا اور حرکت و عمل کی قوت فراہم کی ہے۔ ان کے خوانِ بصیرت سے خوشہ چینی کرنے والوں نے انفرادی واجتماعی حیات میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور نہایت دوررَس ، دیرپا اور مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ حضرت نانوتویv نے اپنی خداداد بصیرت سے علمِ کلام کے میدان میں جوزرّیں خدمات انجام دی ہیں وہ انتہائی اہمیت وعظمت کی حامل ہیں۔ علم ِکلام دراصل دوچیزوں: اثبات ونفی کا نام ہے، یعنی: فلسفیانہ اور عقلی گمراہیوں کی تردید ونفی اور عقائدِ اسلام کا اثبات۔ حضرت نانوتویv نے بڑے ٹھوس انداز اور استدلال کی جدت وندرت کے ساتھ عقائد ِ اسلامیہ کو دلائلِ عقلیہ سے مبرہن کیااور عقلی وفکری شکوک وشبہات کا ازالہ فرمایا ہے۔ صانع وخالق کی ضرورت، خدا کی وحدانیت، شرک کا بطلان، رسالت ونبوت، تخلیقِ انسان، فلسفۂ جرم وسزا، قیامت کی حقیقت وضرورت، وغیرہ جیسے سینکڑوں بنیادی مسائل پر نہایت مدلل اور مکمل گفتگو فرمائی ہے۔ امثال وشواہد ،خارجی دلائل اورروز مرہ کے مشاہدات پر مبنی مستدلات کے ذریعہ ان نازک مسئلوں کی تفہیم میں آسانی پیدا کردی ہے۔ انوکھے طرز ِ استدلال اور گفتگو کے البیلے انداز کی بنا پر ان کا کلام ہرصاحبِ عقل وہوش کو اپیل کرتا ہے اور وہ غیر شعوری طور پر اسلامی نظریات کے حسن وخوبی اور سچائی کا قائل ہوجاتا ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبv حضرت نانوتوی v کے اس ’’البیلے انداز‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حقائقِ قرآن وحدیث کو ایسے استدلالی اور منطقی طرز بیان سے زمانے کے سامنے پیش کیا جیسے وہ اس زمانے کے حسب ِ حال ایک مضبوط اور مستحکم ازم پیش کررہا ہے، جس کا ظاہری عنوان ابتداء ً نہ اعلانِ مذہب ہے نہ اطلاعِ غیب، مگر انتہاء ً وہی مذہب اور عقیدۂ غیب ہے، مگر اس ڈھنگ سے جیسے وہ خالص ایک فلسفیانہ ازم کی تلقین ہے کہ اس کے مانے بغیر نہ اس دور کی معاشرت صحیح اسلوب سے چل سکتی ہے، نہ سیاست ومدنیت اور نہ ہی مابعد الموت کی زندگی استوار اورکامیاب ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس نے ایک نئے حسیاتی فلسفہ وحکمت کی بنیاد ڈالی، ہم اسی شخصیت کو حضرت قاسم العلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی v کے نام سے یاد کرتے ہیں۔‘‘(۱) درحقیقت حضرت نانوتوی v نے کلامی مسائل میں جس طرز پر بحث فرمائی ہے اورجس جدت وعمدگی کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے وہ آپ کا امتیازِ خصوصی ہے۔ آپ کے پیش کردہ دلائل وبراہین کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان میں عصر ِ حاضر کے تقاضوں کوپورا کرنے اورجدید ذہن پر اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ زبان کے قدیم رنگ سے قطع نظر جس میں تبدیلی کا درآنا ناگزیر ہے، یہ دلائل وشواہد آج بھی تابناک، حیات بخش اورحیات آفریں ہیں۔ ضرورت محض اس بات کی ہے کہ آپ کی کتابوں میں بکھرے ہوئے ان آبدار موتیوں کو جدید اسلوب میں ڈھال کر از سرِ نو طبع کیا جائے۔ بلاشبہ اس زمانے میں اسلام کی خدمت کا یہ انتہائی وسیع اور وقیع گوشہ ہے،جس سے پہلو تہی کو کسی طور پر رَوا نہیں رکھا جاسکتا۔ زیرِ نظر مضمون میں آپ کے چند عالی افادات کو مذکورہ جہت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں کسی خاص موضوع کا لحاظ ہے، نہ اصل الفاظ کی پیروی اور التزام، بلکہ حضرت نانوتویؒ کی غرض ومقصود کی تفہیم وتسہیل اورآسان زبان میں اس کی تعبیر وترسیل کااہتمام کیاگیاہے۔مفہوم ومعانی حضرت نانوتویؒ کے ہیں،الفاظ کا پیرہن، ترتیب کا آہنگ اور بین القوسین کی وضاحت راقم کے قلم سے۔ تخلیقِ انسانی کا مقصد حضرت نانوتوی v انسان کی تخلیق کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’انسان کے علاوہ اس کائنات کی تمام موجودات زمین،ہوا، پانی،چاند، سورج سب انسان کے لیے کار آمد ہیں، ان میںسے کوئی چیز بھی غیر موجود ہو تو انسانی حیات مشکلات کا شکار ہوجائے ، اگر درخت، جانور وغیرہ نہ ہوں توہمارا بڑا حرج لازم آئے، لیکن اگر خود انسان کو دیکھیں تو اس کے نہ ہونے سے مذکورہ اشیاء میں کسی چیز پر کوئی فرق نہیںپڑتا، نہ کسی کا نقصان لازم آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان ان میں سے کسی چیز کے لیے پیدا نہیں ہوا، تو یقینا وہ (ماسوائے عالم) خالق کے کام کے لیے پیدا ہوا ہوگا، ورنہ لازم آئے گا کہ خالقِ حکیم نے بے ضرورت اور عبث ہی انسانوںکو پیدا کردیا ہے(اور یہ بات محال ہے، اور انسان کے خالق کے لیے کار آمد  ہونے کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ انسان کی صفت ِ عبودیت کے ذریعہ خالق کی صفت ِ مالکیت کاظہور ہو، لہٰذا انسان کی تخلیق کا مقصد ِ اصلی خالق کا عرفان وعبادت ہے) ۔‘‘(۲) مذکورہ اقتباس اور اس میں پیش کردہ (مشاہداتی) دلائل اور طرزِ بیان میں غورکرنے سے حضرت نانوتوی vکے علمِ کلام سے متعلق حضرت حکیم الاسلامv کے سابق میںذکر کردہ کلام کی حقیقت ومعنویت بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے۔ حضرت نانوتوی v نے تخلیق ِ انسان کے مقصد پرروشنی ڈالتے ہوئے ارشادات ِ ربانی: ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعًا الخ۔‘‘ (۳) اور ’’أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔‘‘ (۴) کے مفہوم وشرح کو مثالوں سے واضح کرکے جس معروضی انداز میں پیش کیا اور اس سے ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘(۵) کے مدعا کا اثبات فرمایا ہے، وہ بے مثال ہے۔ رسالت کی ضرورت رسالت کی ضرورت پر کلام کرتے ہوئے ابتداء ً خدا تعالیٰ کی حاکمیت مختلف دلائل سے ثابت کرتے ہیں(جن میں سے ایک دلیل ’’تخلیق ِ انسان کا مقصد‘‘ کے عنوان سے ماقبل میں مذکور ہے) پھر فرماتے ہیں: ’’۱:۔۔۔۔۔جب خدا تعالیٰ کو حاکم، قابلِ اطاعت اور محبوب مان لیا گیا تو اس کی رضامندی کا حصول ہم سب کے ذمہ فرض ہوا۔ مگر وہ کس امر سے راضی ہے اورکن امور سے ناراض یہ بات بغیر اس کے نہیںمعلوم ہوسکتی کہ خداوند ِ قدوس اپنی رضا اور ناراضگی خود بیان فرمادے۔ اور خو داس رب ِ دوجہاں کا اطلاع دینا اس لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ انسان ایک دوسرے کی رضا اورعدمِ رضا بغیر بتلائے نہیں جان سکتا، ہمارا جسم نگاہوں کے سامنے موجود ہے، لیکن اگر ہم کسی کا سینہ چیر کر اس کے دل کو ٹٹولیں تو بھی دل کی بات معلوم نہیں ہوسکتی، پھر خداتعالیٰ- جو نگاہوں سے اوجھل اورلطیف ہے- اس کی رضا اور عدمِ رضا اس کے بتائے بغیر کیسے معلوم ہوسکتی ہے!؟ ۲:۔۔۔۔۔ یہ بات بھی معلوم ومشاہدہے کہ حاکم کبھی گھر گھر جاکر اپنا حکم بیان نہیں کیا کرتا، سلاطینِ عالم - جن کی بادشاہت چند روزہ ، ناقص اور محدود ہے- اس کے رَوادار نہیں کہ ہر ہر شخص کو پکڑ کر اپنا حکم سنائیں، پھر خدا تعالیٰ- جس کی بادشاہت لم یزل ولایزال، کامل واکمل اور غیر محدود ہے- کے بارے میں یہ تصور کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی بات ہر کہہ ومہہ سے کہتا پھرے، بلکہ یقینا وہ اپنے خاص، مقرب بندوں ہی کو یہ شرف بخشے گا کہ وہ اس کے پیغام کو اس سے حاصل کریں اور پھر دوسروں تک پہنچائیں۔ پہلے اقتباس کا خلاصہ: خدا تعالیٰ کی مرضی اس کے بغیر بتلائے معلوم نہیں ہوسکتی۔ دوسرے اقتباس کاخلاصہ: خدا تعالیٰ ہرفرد کو اپنا حکم نہیں سناتا، بلکہ اس کا پیغام اس کے کچھ خاص بندے ہی تمام عالم تک پہنچاتے ہیں۔ ان دونوں امور سے ایسے انسان کا وجود اور ضرورت ثابت ہوجاتی ہے جومذکورہ کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو (شرعی اصطلاح میں) اسی کو نبی اور رسول، اور اس کے منصب ِ خاص کو رسالت کہتے ہیں۔(۶) یہاں بھی حضرت نانوتویv کا طرزِبیان ندرت کا حامل اور بے حد دل آویز ہے۔ ادنیٰ تأمل سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس پوری تقریر کا مأخذ قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ’’مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہٗ اللّٰہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ إِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔‘‘ (۷) ہندوئوں کے مشہور مذہبی پیشوا پنڈت دیانند سرسوتی نے ۱۲۹۵ھ کے قریب رُڑکی میں برسرعام اسلام پر اعتراضات کا بازارگرم کررکھا تھا،حضرت نانوتویv کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے پنڈت جی کے ساتھ مباحثہ ومناظرہ کے انعقاد کی کوشش کی،مگر پنڈت جی کسی طور پر تیار نہ ہوئے، ادھر سے جس قدر مطالبہ بڑھتا گیا،اسی قدر پنڈت جی کی جانب سے ٹال مٹول اور حیلوں، بہانوں میں اضافہ ہوتا رہا، قصۂ کوتاہ پنڈت جی اچانک منظر نامہ سے غائب وفرار ہوگئے، حضرت نانوتویv نے ازخود تین دن تک پنڈت جی کی جانب سے اسلام پر عائد کردہ اعتراضات پر خطاب فرمایا اور ان کے بیخ وبن اُکھاڑ کر رکھ دیئے، اوراسلام کی حقانیت کو آفتاب نصف النہار کی طرح واضح فرمادیا: ان اعتراضات میں سے ایک مشہور اعتراض یہ تھا کہ:  ’’مسلمان کہتے ہیں کہ خدا قادر ِمطلق ہے، لیکن خدا اپنے آپ کومار نہیں سکتا اورنہ چوری کرسکتا ہے، اس لیے وہ قادر مطلق نہیں۔‘‘  حضرت نانوتوی vنے اس اعتراض کا جو لطیف ومتین جواب دیا ہے وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، حضرت نانوتوی v فرماتے ہیں: ’’جب کبھی کوئی فعل وجود میں آتا ہے تو وہ وہاں ایک فاعل (مؤثر) ہوتا ہے اور ایک مفعول (منفعل)، پھر کبھی فاعل اور مفعول میں اپنی اپنی صفت کمال درجہ کی پائی جاتی ہے یعنی فاعل کامل طور پر مؤثر ہوتا ہے (کامل تاثیر کی صلاحیت رکھتا ہے) اور مفعول کامل طورپر منفعل ہوتا ہے(فاعل کے اثر کو قبول کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے) مثلاً آفتاب زمین کو منور کرنے میں(قمرو کو اکب کے بالمقابل) سب سے کامل ومکمل ہے اور آئینہ اس اثر کو قبول کرنے (منور ہونے) میں (شجر وحجر وغیرہ کے بالمقابل) کامل اور مکمل ہے، کبھی کسی جانب میں یہ صفات نقصان کے ساتھ پائی جاتی ہیں، مثلاً آفتاب کے مقابل اگر پتھر ہوتو یہاں فاعل کے فعل میں کوئی کمی نہیں،مفعول کی ذات میں نقص  ہے اور اسی طرح اگر آئینہ کے مقابل قمر یا شمع وغیرہ ہوتو یہاں مفعول میں کوئی کمی نہیں، بلکہ فاعل میں تأثیر کی کمی ہے۔ پہلی صورت میں منفعل کی کمزوری ونقص سے فاعل کا ناقص ہونا لازم نہیں آتا، اسی طرح دوسری صورت میںفاعل کی کمزوری سے مفعول میں نقص لازم نہیں آتا اورکبھی ایک جہت میں صلاحیت بالکل معدوم ہوتی ہے، مثلاً: آفتاب کے مقابل صوت (آواز) یا ہوا ہو تو منور ہونے کی صلاحیت بالکل معدوم ہے، ایسے ہی آئینہ کے مقابل کالا توَا ہو تو منورکرنے کی صلاحیت بالکلیہ مفقود ہے، یہاں بھی پہلی صورت میں مفعول کی عدم صلاحیت سے فاعل میں اور دوسری صورت میں فاعل کی عدم ِ صلاحیت سے مفعول میںکوئی کمی لازم نہیں آتی۔ اب اگر غور کریں تو قادر اور مقدور میں بھی یہ شکلیں متحقق ہیں:  قادر (فاعلِ قدرت)        مقدور (مفعولِ قدرت) ۱:۔۔۔۔۔ خداتعالیٰ            ممکنات (دونوں جانب کمالِ صلاحیت ہے) ۲:۔۔۔۔۔ انسان، جن یا فرشتہ        ممکنات(یہاں فاعل کی جانب میں نقص ہے) ۳:۔۔۔۔۔ جمادات            ممکنات(فاعل کی جانب عدمِ صلاحیت ہے) ۴:۔۔۔۔۔ خداتعالیٰ            ممتنعاتِ ذاتی (محال)(مفعول کی جانب عدم ِصلاحیت ہے) ۵:۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ            ممتنعات لغیرہٖ (مفعول کی جانب نقصانِ صلاحیت ہے) نظرِ انصاف سے دیکھیں تو موتِ خداوندی (جسے اعتراض میں قادر ِ مطلق کامفعول ومقدور فرض کیاگیا ہے) ممتنعات ِ ذاتی اور محال والی شکل نمبر:۴ میںداخل ہے اور تقریر سابق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اس سے قادر کی قدرت میں شمّہ برابر فرق نہیں آتا۔ اسی سے اعتراض کے جزء ثانی ’’خدا تعالیٰ چوری نہیں کرسکتا‘‘ کا جواب بھی معلوم ہوگیا،اس لیے کہ چوری کے لیے مالِ مسروق یعنی غیر کامال ہونا ضروری ہے اور یہ کل کائنات تو درحقیقت خدا ہی کی ملک ہے، بندوں کی طرف جو کچھ نسبت ہے محض مجازی اور وقتی ہے۔ تو مالِ غیر خدا کی نسبت سے مفقود ہے اور مفعول کی جانب میں عدم محض ہے،اس سے خداتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ میںکوئی قصور لازم نہیں آتا۔‘‘(۸) ایک اعتراض یہ بھی تھاکہ: ’’مسلمان کہتے ہیں کہ شیطان بہکاکر انسان سے برے کام کراتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شیطان کوکس نے بہکایا؟ حاصل یہ ہے کہ یہ نظر یہ غلط ہے، انسان خود برے کام کرتا ہے۔‘‘ اس کے جواب میں حضرت نانوتوی v نے اولاً ایک مختصر الزامی جواب بیان فرمایاہے جو انتہائی واضح ہے، اس کے بعد تحقیقی طورپر ایک دوسرا جواب دیا ہے، فرماتے ہیں: ’’اوصاف کا ظہور اشیاء میں دوطریقوں پر ہوتا ہے، ایک تو یہ کہ شئے بالذات (اوّل درجہ میں) اس صفت سے متصف ہوگی(یعنی اس کی صفت کسی سے اخذ شدہ نہ ہو بلکہ بالطبع ہو) اس صورت میں اس شئے کو موصوف بالذات اور مصدرِ وصف کہا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ اس مصدرِ وصف اور موصوف بالذات سے دیگر اشیاء مستفید ہوتی اور اس صفت سے (درجۂ ثانی میں) متصف ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر وجود ایک وصف ہے، خدا تعالیٰ کی ذات اس سے بالذات موصوف ہے، تو وہ موجود بالذات اور مصدرِ وجود ہے،باقی ہر شئے کا وجود اسی سے مستفید ہے۔اسی طرح آگ میں حرارت بالطبع اور بالذات ہے تویہ مصدر ِ حرارت ہے اور گرم پانی وغیرہ کی حرارت اسی سے مستفید ہے۔ اب سمجھنا چاہیے کہ وصف ِ ضلال بھی من جملہ اوصاف کے ایک وصف ہے،لہٰذا یہاں بھی ایک شئے موصوف بالذات ہوگی اور باقی اشیاء اس سے یہ وصف اخذ کرنے والی ہوںگی، اس مصدرِ ضلال اور موصوف بالذات کو شیطان کہتے ہیں اور جو کوئی اس وصف ِ ضلال کو اس مصدر سے لیتا ہے وہ گمراہ کہلاتا ہے(اور جب شیطان وصفِ ضلال ٹھہرا تو اسے بہکانے کوئی کہاں سے آئے گا؟! لہٰذا اعتراضِ مذکور کا لغو ہونا واضح ہوگیا) ۔(۹) یہ جواب اپنی جگہ مکمل اور ایک حقیقت نفس الامر ی ہے، مگر اس بات کا امکان ہے کہ کسی کو یہ شبہ ہو جائے کہ اگر شیطان کو مصدرِ ضلال قرار دیتے ہیں تو لازم آتا ہے کہ اس کا یہ وصف خدا تعالیٰ کی جانب سے نہیں ہے، بلکہ اسکاذاتی وصف ہے،خدا کا پیدا کردہ نہیں ہے اور جب وصف ِ ذاتی مخلوق ِ خدا نہیں تو ذات بھی مخلوق خدا میں سے نہ ہوگی، کیوں کہ ذات اور وصف ِ ذاتی میں جدائی نہیں ہوتی(لزوم کلی ہوا کرتا ہے) اس سے خود شیطان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر شیطان کا یہ وصف خدا کی جانب سے ہے تو خدا کی برائی لازم آتی ہے۔ اس شبہ کو دفع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صدور اور خلق میں بڑا فرق ہے، صدور کے لیے ضروری ہے کہ مصدر میں اولاً وہ شئے موجود ہو جس کا اس سے صدور ہورہا ہے، یعنی مصدر میں صادر کا پایاجانا ضروری ہے اور خلق کے لیے ضروری ہے کہ پیدا کرنے والے میں وہ شئے اصلاً معدوم ہو جس کو وہ پیدا کررہا ہے۔     اس فرق کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے، مان لیں کہ آفتاب کسی روشن دان کے مقابل اور سامنے ہے، جب اس کی روشنی اور دھوپ روشن دان سے گزرے گی تو زمین پر روشن دان کی ایک نورانی شکل بن جائے گی، اب یہاں دوچیزیں ہیں: ایک دھوپ اور آفتاب کا نور، دوسرے روشن دان کی نورانی شکل۔ ہم دھوپ کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آفتاب سے صادر ہوئی ہے، مگر اس نورانی شکل کے بارے میں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اس کاصدور آفتاب سے ہوا ہے، ورنہ لازم آئے گا کہ نورِآفتاب کی طرح یہ شکل بھی اولاً آفتاب ہی کی صفت ہو، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ یہ شکل آفتاب کے ذریعہ اور اس کے سبب پیدا ہوئی ہے، اس سے صدور اور خلق کافرق واضح ہوجاتا ہے۔     اب یاد رکھنا چاہیے کہ بھلائیاں اور تمام حسنات خدا کی ذات سے صادر ہوئی ہیں اور برائیوں کااس نے خلق فرمایا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بری صورتیں ، بری سیرتیں، بول وبراز وغیرہ خدا کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور مخلوق ِ خدا ہیں (لیکن اس سے ذاتِ خدا میں کوئی برائی لازم نہیں آتی، کیوں کہ خلق ہے، صدور نہیں) اگر یہاں صدور کااطلاق کیا جاتا تو ان اشیاء کی نسبت بھی خدا کی طرف نہیں کی جاسکتی تھی۔ حاصل کلام یہ کہ (خلق کے معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے) یہ بات کہنا بالکل درست ہے کہ شیطان اور اس کی جملہ صفاتِ خدا ہی کی مخلوق ہیں اور اس سے ذاتِ خداوندی میں خرابی لازم نہیں آتی۔‘‘ (۱۰) مضمون میں ذکر کردہ افادات اس بات پر شاہد ِ عادل ہیںکہ حضرت نانوتویv کو کلامی مسائل میں مجتہدانہ بصیرت حاصل تھی، انہوںنے حقائق شریعت کو منطقیت کی رداء اور معروضیت کی قبا پہنا کر بدیہیات ِ مسلمہ کے طور پر پیش کیا ہے، ان کا کلام روز مرہ کی مثالوں اور مشاہداتی دلیلوں پر مبنی، اغلاق وپیچیدگی سے خالی اور خطیبانہ پیچ وخم سے پاک ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں دل لگتی اور عقل کی کسوٹی پر کھری اُترتی ہیں۔ ان کاگلستانِ استدلال نودمیدہ گل بوٹوں سے آراستہ ہے، جن کی زیبائش اورحسن ورعنائی میں ان کے ذہن کی تخلیقی صلاحیتیں جلوہ آراء ہیں۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی صاحبv نے بجاطور پر فرمایا ہے کہ : ’’مولانا محمدقاسم نانوتوی v کو دینی علوم میں اجتہاد کا مقام حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم ِ کلام اور معارفِ الٰہیہ میں دیدہ وری اور نکتہ سنجی کی غیر معمولی دولت سے نوازا تھا۔‘‘(۱۱) حضرت نانوتوی v کی مجتہدانہ شان پر حضرت علی میاں ندوی v کا تبصرہ:’’ختامہٗ مسک‘‘ کے طور پر ہدیۂ قارئین ہے: ’’آریوں نے جن کو حکومت وقت کی شہ مل گئی تھی اسلامی عقائد والٰہیات پر نیا حملہ شروع کردیا اور عالم کے حدوث وقدوم، ذات وصفات، کلام ِالٰہی، حیات بعد الموت اور تعیین قبلہ اور حیاتِ نبوی l پر عقلی اعتراضات کرنے شروع کیے، ان کے جواب میں نہ تو قدیم کلامی دلائل پورے طورپر کارگر تھے، نہ قدیم مقدمات اور قدیم اسلوب مؤثر تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv نے ان کے جواب کے لیے ایک نیا علم کلام تیار کردیا، انہوں نے روز مرہ کی ہلکی پھلکی زبان میں چھوٹی چھوٹی مثالوں اور عام فہم دلیلوں میں بڑے بڑے علمی مسائل سمجھائے، اور بڑے بڑے مباحث کا فیصلہ کیا۔ ’’تقریر دلپذیر‘‘ ،’’حجۃ الاسلام‘‘، ’’آبِ حیات‘‘ اور ’’قبلہ نما‘‘ ان کی ذہانت و سلامتِ فہم اور دقیقہ شناسی کا بہترین نمونہ ہیں۔‘‘(۱۲) حوالہ جات ۱:۔۔۔۔۔تاریخ د ارالعلوم، مصنفہ سید محبوب رضوی مرحوم،ج:۱،ص:۱۳۳-۱۳۴۔    ۲:۔۔۔۔۔حجۃ الاسلام: ص:۶-۷۔ ۳:۔۔۔۔۔البقرۃ:۲۹۔                      ۴:۔۔۔۔۔ المؤمنون:۱۱۵۔ ۵:۔۔۔۔۔الذاریات:۵۶۔                ۶:۔۔۔۔۔گفتگوئے مذہبی:۱۸۔  حجۃالاسلام:۴۴-۴۵۔ ۷:۔۔۔۔۔شوریٰ:۵۱۔                    ۸:۔۔۔۔۔انتصار الاسلام،ص:۱۲-۱۵۔ ۹:۔۔۔۔۔انتصارالاسلام ،ص:۱۶-۱۸۔                ۱۰:۔۔۔۔۔انتصار الاسلام،ص:۱۸-۱۹۔ ۱۱:۔۔۔۔۔پاجا سراغِ زندگی،مصنفہ: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، ص:۱۲۹۔ ۱۲:۔۔۔۔۔ پاجا سراغِ زندگی،مصنفہ: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ،ص:۱۱۰-۱۱۱۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین