بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ علماء اور مشائخ کی نظر میں (دوسری اور آخری قسط)

حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv علماء اور مشائخ کی نظر میں     (دوسری اور آخری قسط)

مولانا فقیر محمد صاحب جہلمی ۱۹-مولانا فقیر محمد جہلمی نے ۱۸۸۰ء میں ’’حدائق الحنفیہ‘‘ نامی کتاب لکھی، جس میں انہوں نے حنفی علماء اور فقہاء کا تذکرہ کیا ہے ، انہی علماء کی فہرست میںآپ نے حضرت نانوتویv کا ذکر نہایت حقیقت پسندانہ کیاہے ، حضرت نانوتویv کا تذکرہ کرتے وقت یہ الفاظ بھی آپ کے مضمون کا حصہ تھے کہ: ’’علامۂ عصر، فہامۂ دہر، فاضل متبحر، مناظر، مباحث، حسن التقریر، ذہین، معقولات کے گویا پتلے تھے۔ آپ لڑکپن ہی سے ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز، وسیع حوصلہ، جفاکش، جری تھے۔‘‘                                                 (حدائق الحنفیہ،ص:۴۹۲) حافظ عبدالرحمن حیرت ۲۰- حافظ عبدالرحمن حیرت اپنی کتاب ’’سفینۂ رحمانی‘‘۱۸۸۴ء سن طباعت میں حضرت نانوتویv کے متعلق لکھتے ہیں: ’’بیشۂ فضل و کمال کے شیر، گل زارِ عشقِ الٰہی کی خوش بو، شبستانِ طریقت و شریعت کی شمع، آسمانِ حقیقت و معرفت کے خورشید، عالم کامل اور جود و سخا میں رشکِ حاتم، جناب حضرت مولوی محمد قاسم صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو منور فرمائے) قصبہ نانوتہ کے برگزیدہ علماء و فضلاء میں سے تھے، طرح طرح کے علوم کی منزلیں اور قسم قسم فنون کے رموز اور ان کے نشیب و فراز انہوں نے اپنی خداداد ہمت و استعداد سے کامل طور پر طے کیے تھے، انہیں کانِ علوم اور مخزنِ فنون کہنا چاہیے، ان کی توصیف میں منشی فکر و خیال جو بھی لکھے بجا ہے اور ان کی تعریف جس قدر بھی کی جائے زیبا ہے۔‘‘                           (سفینۂ رحمانی،ص:۱۱۹) مرزا آفتاب بیگ ۲۱-مرزا آفتاب بیگ دہلویؒ اپنی کتاب ’’تحفۃ الابرار‘‘ سن طباعت ۱۹۵۷ء میںحضرت نانوتویv کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ آپ (مولانا محمد قاسم نانوتویv) رؤسائے شیوخ صدیقی قصبہ نانوتہ کے ہیں۔ آپ کو اجازت ہر چہار طریقہ معروف کی حضرت حاجی محمد امداد اللہv سے تھی اور سند حدیث کی حضرت شاہ عبدالغنی مجددی v سے تھی۔ محققانہ و عارفانہ کلام حقایق و معارف آپ کا تھا۔ اثباتِ وجودی سے رطب اللسان تھے، توحید شہودی سے بھی انکار نہیں رکھتے تھے‘‘۔ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی ۲۲-مولانامشتاق احمد انبیٹھوی اپنی کتاب ’’انوار العاشقین‘‘ میں حضرت نانوتویv کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ مولانا محمد قاسم صاحبv نے اپنی تمام عمر میں جہاں تک ہمیں معلوم ہے، بوجہ کسر نفسی اور کمال تواضع کے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ بیعت بھی حضرت قبلۂ عالم حاجی صاحب v کی طرف نیابۃً کرتے تھے، حضرت حاجی صاحب v کے عشق اور محبت میں فنا تھے۔ ‘‘                                   (انوار العاشقین، ص:۸۸) مولانا حافظ شاہ محمد سراج الیقین ۲۳-اپنی کتاب ’’شمس العارفین‘‘ سن طباعت ۱۳۳۳ھ میں حضرت نانوتویv کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ جس شخص نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی تقریر سنی ہوگی یاتحریر دیکھی ہوگی وہ سمجھ سکتا ہے کہ کس معدن سے یہ علوم اور اسرار و حقایق آرہے ہیں، آپ صاحبِ تصانیف عالیہ ہیںاور آپ کے مناظروں کی تقریریں بھی چھپی ہیں، جن میں عجیب و غریب تحقیقاتِ علمیہ اور نکات عجیبہ اور مضامین رفیعہ پائے جاتے ہیں، درحقیقت ایسا فاضل متبحر اور عالم محقق اس زمانے میں کوئی نہیں گزرا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس پایہ کے لوگ کہیں صدیوں کے بعدہوتے ہیں۔ آپ نہایت پاکیزہ اخلاق اور منکسر المزاج تھے اور لباس نہایت سادہ اور معمولی موٹا استعمال فرماتے تھے۔ صفتِ قناعت بھی بہ درجۂ کمال آپ میں موجود تھی، ہمیشہ معمولی تنخواہ پر بسر فرمائی اور بڑی بڑی تنخواہوں کی نوکریوں کو پسند نہیں فرمایا۔ مدرسہ عالیہ دیوبند میں عرصہ تک آپ کا درس وتدریس اور بے انتہا فیض جاری رہا۔ اکابر علماء آپ کے شاگرد ہیں۔‘‘                                            (شمس العارفین،ص: ۴۷-۴۶) سر سید احمد خان ۲۴-حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv کی وفات پر سر سید احمد خان نے ایک طویل تعزیتی مضمون لکھا، جن میں یہ الفاظ بھی شامل تھے: ’’اس زمانے میں سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اور شاید وہ لوگ بھی جو اُن سے بعض مسائل میں اختلاف کرتے تھے، تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسمؒ اس دنیا میں بے مثل شخص تھے، ان کا پایہ اس زمانے میں شاید معلوماتِ علمی میں شاہ عبدالعزیزؒ سے کچھ کم ہو اِلاّ اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا۔ مسکینی اور نیکی اور سادہ مزاجی میں اگر ان کا پایہ مولوی اسحاق صاحبؒ سے بڑھ کر نہ تھاتو کم بھی نہ تھا، درحقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے شخص کے وجود سے زمانے کا خالی ہوجانا، ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں، نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے‘‘۔                          (علی گڑھ گزٹ، ۲۴؍ اپریل۱۸۸۰ئ) مولوی رحمن علی ۲۵-مولوی رحمن علی اپنی کتاب ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ جو انہوں نے ۱۸۹۱ء میں لکھی، حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویv کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’مولوی محمد قاسم نانوتویؒ بن شیخ اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین بن محمد فتح بن محمد مفتی بن عبدالسمیع بن مولوی محمد ہاشم نانوتوی،۱۲۴۸ھ/ ۱۸۳۲ء میں پیدا ہوئے، ان کا تاریخی نام خورشید حسین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جدتِ طبع اور جودتِ ذہن ( ذکاوت، ذہانت ، لیاقت) فطری طور سے ودیعت( سپرد کرنا، حوالے کرنا) فرمایا تھا۔‘‘                                                  (تذکرہ علمائے ہند) علامہ شاہ محمدجمیل الرحمن حنفی قادری چشتی نظامی ۲۶- آپ اپنی کتاب ’’تذکرہ وصال الجمیل‘‘ جو آپ نے ۱۳۴۳ھ میں تالیف فرمائی، اس کتاب میں آپ نے حضرت نانوتویv کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’مولانائے موصوف عالم، فاضل اور مشہور مناظر ہونے کے علاوہ نہایت عابد، زاہد، قانع، متوکل ، نہایت خلیق واقع ہوئے تھے۔ عربی ، فارسی نظم و نثر بے تکان لکھتے بولتے تھے، سیدھے سادے اتنے تھے کہ آپ کی وضع طرح پر علمیت کا گمان بھی نہ ہوتا تھا۔‘‘ حضرت شاہ عبدالرحیم سہارن پوریv ۲۷- مولانا محمد امیر باز خانؒ  ’’شہادات امیریہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’خبر حسرتِ اثر مولانا و استاذنا مولوی محمد قاسم نانوتویv صاحب کی آئی تو حضرت (شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ) نے آب دیدہ ہو کر فرمایا کہ: آج میری پشت دو صدموں سے ٹوٹی ہے: ایک مرگ مولوی محمد قاسم کی ہے ، دوم رحلت مولوی احمد علی صاحب (سہارن پوری) سے۔ یہ دونوں بزرگ وار بے ریا، متبع شریعت، مفیض اکمل تھے، مجھ کو ان کے باعث بڑی تقویت تھی، اب میں تنہا رہ گیا۔                      (شہادات امیریہ علیٰ مکشوفات رحیمیہ،ص:۱۴) حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادیv ۲۸- حضرت گنج مراد آبادیv کے خلیفہ مولانا شاہ تجمل حسین بہاریv اپنی تالیف ’’کمالاتِ رحمانی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اب بیعت کا جو عزم ہوا  مجھ ( مولانا شاہ تجمل حسین بہاریv) کو عقیدت اور غلامی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v سے تھی۔ آپ (حضرت گنج مراد آبادیv) کو کشف سے معلوم ہوا ، آپ نے حضرت مولانا کی تعریف کی کہ اس کم سنی میں ان کو ولایت حاصل ہوگئی۔ ‘‘ مولانا محبوب الرسول صاحب، الٰہ شریف ضلع جہلم ۲۹- حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کو میں اولیاء سے سمجھتا ہوں ، وہ اللہ تعالیٰ کی آیت تھے،اسلام اور علم کی جو اُن سے اللہ تعالیٰ نے خدمت لی ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔‘‘      (ڈھول کی آواز ،ص:۱۱۷) پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ( بھیرہ شریف) ۳۰- ’’ حضرت قاسم العلومؒ کی تصنیف لطیف مسمی بہ تحذیر الناس کو متعدد بار غور و تامل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف اور سرور حاصل ہوا۔ علماء حق کے نزدیک حقیقت محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ و سلام متشابہات میں سے ہے اور اس کی صحیح معرفت انسانی حیطۂ امکان سے خارج ہے ، لیکن جہاں تک فکر انسانی کا تعلق ہے حضرت مولانا قدس سرہٗ کی یہ نادر تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لیے سرمۂ بصیرت کا کام دے سکتی ہے۔ رہے فریفتہ گانِ حسن مصطفوی تو ان بے قرار دلوں اور بے تاب نگاہوں کی وارفتگیوں میں اضافہ کا ہزار سامان اس تحذیر الناس میں موجود ہے ۔ آپ نے اپنے علمی ، دقیق اور محققانہ انداز میں یہ واضح کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ ہر قسم کا کمال علمی ہو یا عملی، حسی ہو یا معنوی، ظاہری ہو یا باطنی حضور a کا ذاتی کمال ہے ۔‘‘                           (ڈھول کی آواز،ص: ۱۲۸-۱۳۰) علامہ شبلی نعمانیv ۳۱۔  علامہ شبلی نعمانیv نے ندوۃ العلماء کے ایک سالانہ جلسے میں کہا تھا: ’’عربی کے بیسیوںمدرسے کانپور میں قائم ہیں وہ کس نے قائم کیے ہیں؟ سوداگروںنے ، دنیاداروںنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی عالم نے نہیں قائم کیے، سوائے مدرسہ دیوبند کے، جس پر ہم فخر کرتے ہیں جس کو مولانا قاسم مرحوم نے قائم کیا تھا، علاوہ اس کے مدرسہ کسی عالم نے قائم نہیں کیا۔‘‘                                   (رپوٹ سالانہ ندوۃ العلمائ، ۱۹۱۲ ئ، ص : ۱۰۹-۱۱۰ ) مولانا غلام رسول مہرؒ ۳۲:مولانا غلام رسول مہر حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: ’’بزرگان دیوبند میں سے جن مقدس ہستیوں کو اولین درجہ احترام و اعزاز حاصل ہے، وہ حضرت حاجی امداد اللہ تھانوی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہم ہیں۔ ان کے اسماء گرامی اس سر زمین کے آسمانوںپر ان درخشاں ستاروں کی طرح روشن ہیں، جو تاریکی کے وقت صحراؤں میں مسافروں اور سمندر میں ملاحوں کو راستہ بتاتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں علم و ہدایت کے مشعل بردار تھے، جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے پاکیزہ عملی نمونے چھوڑ گئے۔ خصوصاًحضرت مولانا محمد قاسم اور حضرت مولانا رشید احمد کی تو ایک یادگار دارالعلوم دیوبند ایسی ہے جو تقریباًایک صدی سے اس وسیع سرزمین میں دینی علوم کے قیام و بقا کا ایک بہت بڑا سرچشمہ رہی ہے۔ اس کی آغوش میں سینکڑوں ایسی مقدس ہستیوں نے تربیت پائی جن کے کارنامے دین و سیاست دونوں کے دوائر میں قابل فخر ہیں۔‘‘   (۱۸۵۷ ء کے مجاہد ، ص: ۱۶۳ ، سن اشاعت۱۹۵۷ئ) سائیں توکل شاہ انبالوی ۳۳- مولانا مشتاق احمد چشتی انبیٹھوی مؤلف ’’انوار العاشقین‘‘ فرماتے ہیں: ’’حضرت عارف باللہ شیخی توکل شاہ صاحب مجددی نے عاجز سے فرمایا تھا کہ میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ حضور a تشریف لے جارہے ہیں، مولانا محمد قاسم نانوتوی v تو جہاں پائے مبارک حضور a کا پڑتا ہے وہاں دیکھ کر پاؤں رکھتے ہیں، میں بے اختیار بھاگا ہوںکہ حضور a کے پاس پہنچوں، چناں چہ میں آگے ہوگیا‘‘۔                                             (انوار العاشقین،ص:۸۸) یہ چند باتیں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v کے متعلق ان کے ہم عصر اور بعد کے علماء اور مشایخ کی ہیں، جن میں ان حضرات کے بھی نام شامل ہیں، جن کے عقیدت مند آج حضرت نانوتویv کے خلاف زہر اُگلتے نہیں تھکتے۔آخر میں اپنی بات حدیث قدسی پر ختم کرنا چاہوں گا۔ حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے فرمایاکہ: ’’ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو پکارتا ہے جبرئیل m کو اور یہ فرماتا ہے کہ بے شک اللہ نے فلاں کو دوست رکھا ہے، سو تو بھی اس کو دوست رکھ، تو جبرئیل m اس سے محبت رکھتے ہیں، پھر جبرئیل m آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، سو تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس محبوب بندے کی قبولیت زمین پر اُتاری جاتی ہے، یعنی زمین کے نیک لوگ اس کو مقبول جانتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اور جب اللہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو بھی اس طرح کرتا ہے یعنی اس کا الٹ۔‘‘                 (مؤطا امام مالکؒ، جلد:۱،حدیث نمبر:۱۶۴۱) اپنے بہت ہی محدود مطالعے سے چند حوالے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویv سے محبت کرنے والے اور مقبول جاننے والے علما و مشایخ کے نقل کردیئے ہیں، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویv کے چاہنے والوں کی تعداد بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اپنے اس محبوب بندے کے چاہنے والوں میں ہمارا شمار کر کے ہماری بخشش کا پروانہ جاری کردے۔ آمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین