بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حجرِ اسود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ ومقام!

 

حجرِ اسود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ ومقام!

    ایک سوال ذہن میںاکثر اُٹھتا رہتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ’’حجر اسود‘‘ پہلے یمن میں لوگوں کی تحویل میں تھا، تو کیوں تھا؟ اور کس طرح ان تک پہنچا اور کہاں سے آیا؟ اور اس پتھر کو کس ذریعہ سے یمن پہنچایا تھا ؟ اس کے بعد کن وجوہات کی بنا پر یہ پتھر یمن سے مکہ پہنچا اور کیا ذریعہ تھا؟ پھر مکہ معظمہ میں کس وجہ سے اس پتھر کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی؟     واضح رہے کہ حجر اسود کے اندر ایسی زبردست قدرتی مقناطیسی کشش موجود ہے کہ ہرملک وقوم اوررنگ ونسل کے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں، یہ پُرشکوہ پتھر جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم  m اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا۔     طوفان نوح میں آدم m کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اُٹھائے جاتے وقت اس متبرک پتھر کو شکم جبل ابی قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا، پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبرئیل m نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہm کی خدمتِ عالیہ میں پیش کردیا تھا، اس طرح اُسے پھر اسی جگہ کی زینت بنادیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔(تفسیر قرطبی)     اس کے فضائل اور اوصاف میں حضورنبی کریم a کے بہت سے ارشادات حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، لیکن جنت کا یہ انمول موتی، عالی مرتبت، مقدس ومتبرک یاقوت‘ گردشِ ایام کی ستم رانیوں سے محفوظ نہ رہ سکا، متعدد بار اُسے فساق وفجار ظالموں کے ہاتھوں تختۂ مشق بننا پڑا، بارہا حوادثات کا شکار ہوا اور اس کے نازنین بدن پر کتنی ہی مرتبہ زخم آئے۔     ۳۱۷ھ میں جب مکہ مکرمہ قرامطہ کے دستِ تصرف میں آیا، تو ابوطاہر سلیمان بن الحسن نے جو قرامطہ کا سردار تھا، حرم محترم میں خون کی ہولی کھیلی۔ ۸؍ذو الحجہ ۳۱۷ھ کو اس قدر قتل عام کیا کہ حجاج کی لاشوں سے چاہِ زمزم بھر گیا، شہر اور مضافات کے تیس ہزار بے قصور افراد کو موت کی نیند سلادیا، جن میں سترہ سو حاجی اور سات سو طواف کرنے والے بھی شہید ہوگئے، اس نے یہ سارا کھیل میزابِ رحمت یعنی کعبہ شریف کا پرنالہ جو سونے کا تھا، اُکھاڑنے، مقام ابراہیم اور حجر اسود چوری کرنے کی نامشکور جسارت کے لیے کھیلا تھا۔     دو آدمی اس مذموم حرکت کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے، مگر آن واحد میں سر کے بل زمین پر گرکر واصل جہنم ہوگئے، مقامِ ابراہیم تو اس کے دست تصرف سے مامون رہا، کیونکہ خدام حرم نے اُسے پہاڑ کی گھاٹی میں کہیں چھپا دیاتھا، مگر ۱۴؍ذو الحجہ ۳۱۷ھ بروز اتوار عصر کے وقت جعفر بن حلاج نے ابوطاہر کے حکم سے حجر اسود کو کدال سے اُکھاڑلیا، اس پر کئی ضربیں لگائیں جس سے کچھ ریزے ٹوٹ گئے اور اپنے ساتھ بحرین لے گئے اور اس کی جگہ خالی رہ گئی، تقریباً بائیس سال کا طویل زمانہ گزرجانے کے بعد بحرین کے شہر ’’ہجر‘‘ سے بروز بدھ ۱۰؍ ذو الحجہ ۳۳۹ھ کو یہ مبارک پتھر واپس ہوا، واپسی بھی معجزنما تھی، قرامطیوں سے باربار واپسی کا مطالبہ جب زور پکڑ گیا تو انہوں نے یہ عذرِ لنگ پیش کیا کہ وہ پتھر تو دوسرے پتھروں میں مل جل گیاہے، ان میں سے اسے الگ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں، اگر تمہارے پاس اس کی کوئی علامت ہے تو تلاش کرلو، چنانچہ علماء کرام سے استفسار کیاگیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ان سب پتھروںکو آگ میں ڈالا جائے، جو پتھر آگ میں پگھل یا پھٹ جائیں وہ حجر اسود نہیں، حجر اسود کو آگ متاثر نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ جنت کا پتھر ہے۔ اس طرح اس مقدس پتھر کی برتری اور مقبولیت کا لوہا منواکر اُسے واپس لوٹایا گیا اور پھر سے کعبہ شریف کی زینت بنادیا گیا۔     علامہ جلال الدین سیوطیv نے لکھا ہے کہ:’’ یہ ظالم ابوطاہر چیچک کے عارضہ میں مبتلا ہوا، اس کا جسم پھٹ گیا اور نہایت ذلت کے ساتھ مرا۔ ‘‘       (اعلام الاعلام، ص:۱۶۵، مرقات،ج:۵،ص:۳۲۰)     علامہ قطب الدینv فرماتے ہیں:     ’’ابوطاہر قرامتی بدبخت کو ابرہہ کی طرح بیت اللہ کی بجائے اپنے شہر ’’ہجر‘‘ میں حج کا اجتماع کرانے کا جنون دماغ میں پیدا ہوا، اس نے اس غرض سے ایک عالیشان محل بنوایا جس کا نام ’’دارالہجرہ‘‘ رکھا، چنانچہ ۳۱۷ھ میں حج کے ایام میں ایک لشکرِ جرار لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا، طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور احرام کی حالت میں حاجیوں پر دست ستم دراز کیا، حد یہ کہ حرم محترم کے اندر بھی بے دریغ قتل کیا، شہر کے علاوہ گرد ونواح میں قتل عام کا بازار گرم کیا، تیس ہزار بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے، اس قدر روح فرسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا تھا، وہ ظالم کہتے تھے کہ تم مسلمان کہتے ہو: ’’من دخلہ کان آمنا‘‘ بتاؤ اب امن کہاں گیا؟۔‘‘     علامہ ابن خلدونv رقمطراز ہیں:     ’’ابوطاہر نے کعبۃ اللہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا، غلاف کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے فوجیوں میں بانٹ دیا، حجر اسود کو اکھاڑکے ساتھ لے گیا، اہل مکہ کے گھر بار اور مال ومتاع کو لوٹ لیا، اس نے روانگی کے وقت یہ اعلان کردیا کہ آئندہ سے حج اس کے ہاں ہوا کرے گا۔‘‘     خلافت مستکفی کے امراء نے بے حد کوشش کی کہ کسی طرح حجر اسود واپس آجائے، انہوں نے پچاس ہزار دینارسرخ کی پیش کش بھی کی، مگر قرامطی ٹَس سے مس نہ ہوئے۔ وہ اس خیالِ فاسد پر قائم تھا کہ یہ ناپاک جسارت اپنے امام عبید اللہ المہدی والئِ افریقہ کی خوشنودی کے لیے کررہا ہے، لیکن جب منصور اسماعیل نے قیروان سے حجر اسود کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کیا اور ادھر عبید اللہ المہدی نے بھی ابوطاہر کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر حجر اسود واپس نہ کروگے تو پھر جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ، اس لیے مجبوراً ۳۳۹ھ میں واپس کرنا پڑا، جب کے اس سے قبل خلافت مستکفی کی جانب سے پچاس ہزار دینار کے عوض بھی واپسی کا مطالبہ مسترد کردیاگیا تھا۔                                    (ابن خلدون،ج:۵،ص:۱۹۶)     واضح رہے کہ قرامطہ شیعہ اسماعیلیہ کا دوسرا لقب ہے، یعنی شیعہ اسماعیلیہ کو قرامطہ یا قرامطی کہا جاتاہے، جیساکہ ’’ارشاد الساری‘‘ میں ہے: ’’فی المواقف: القرامطۃ من ألقاب الإسماعیلیۃ المعدودۃ من الرافضۃ۔‘‘ (ارشاد الساری،ص:۳۶) ترجمہ:…’’مواقف نامی کتاب میں ہے کہ قرامطہ شیعہ رافضی کے ایک گروہ اسماعیلیہ کے لقبوں میں سے ایک لقب ہے۔‘‘     اور ’’ہجر‘‘ جیساکہ بحرین میں ہے، اسی طرح یمن کے ایک شہر کا نام بھی ’’ہجر‘‘ ہے، اسی لیے بعضوں نے بحرین سے تعبیر کیا اور بعضوں نے یمن سے، لیکن دونوں شہر قریب قریب ہیں۔      حجر اسود کو بوسہ دینے کی اہمیت یہ ہے کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے، جس مسلمان کو رسول پاک a کی بیعت کا شرف نصیب نہیں ہوا، لیکن اس نے حجراسود کا بوسہ لے لیا تو اب اس نے اللہ اور اس کے رسول a سے بیعت کا اعزاز حاصل کرلیا۔‘‘                  (جامع صغیر،ج:۱،ص:۱۵۰)     عبد اللہ بن عباسr سے روایت ہے کہ رسول اللہ aنے فرمایا کہ: حجر اسود کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوںگی جن سے وہ دیکھ سکے گا اور زبان ہوگی جس سے بول سکے گا اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جنہوں نے اس کو بوسہ دیا تھا۔ (ابن ماجہ ص:۲۱۷)     سیدنا عبد اللہ بن عمرr سے روایت ہے کہ رسول اللہ a حجر اسود کے پاس تشریف لائے تو اپنے مبارک ہونٹوں سے اس کا طویل بوسہ لیا اور زار وقطار رو رہے تھے، جب فارغ ہوکر دیکھا تو عمر فاروقq کو بھی گریہ کناں پایا تو آپ اس طرح گویا ہوئے: ’’عمرؓ !یہی جگہ ہے جہاں آنسوؤں کی ندیاں بہائی جاتی ہیں۔‘‘                                                        (ابن ماجہ، ص:۲۱۷)     اور مکہ معظمہ میں اس پتھر کی بڑی اہمیت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم m اور حضرت ابراہیم m نے اس پتھر کو مکہ میں بیت اللہ کے ایک گوشہ پرنصب فرمایا تھا اور حضرت محمد a نے بیت اللہ کے گوشہ پر ہی بوسہ دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بیت اللہ میں ہی اس کی اہمیت ہے۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین