بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری(پانچویں قسط)

 

حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری

           (پانچویں قسط)

حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدّہؒ سے استفادہ کا موقع اور اُن کا تذکرئہ خیر اس سے پہلے یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ میں احقر کے داخلہ لینے کے چار بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد فضیلۃ الشیخ عبد الفتاح ابوغدّہ الحلبی الشامی الحنفی قدّس سرُّہٗ سے خصوصی طور پر استفادہ کرنا تھا، شیخ کا ذکرِ خیر احقر نے پہلی بار دار العلوم دیوبند میں اپنے استاذ مکرم حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم سے اس وقت سنا تھا‘ جب میں دورئہ حدیث کا طالبِ علم تھا، حضرت مفتی صاحب وقتاً فوقتاً دورانِ سبق ان کا ذکر خیر اور اُن کی تصانیف کا حوالہ دیا کرتے تھے اور یہ بھی فرماتے تھے کہ وہ ایک زبردست محدّث و فقیہ اور حنفی المذہب عالم ہیں اور ہمارے اکابرین کے بے حد معتقد ہیں، دار العلوم دیوبند سے گہری محبت رکھتے ہیں اور دار العلوم تشریف بھی لاچکے ہیں۔ فراغت کے بعد جب اپنی مادرِ علمی دار العلوم دیوبند میں احقر کا تقرُّر ہوا تو اس وقت شیخ ابوغدّہv کی تصانیف اور ان کے علمی مقام سے مزیدآگاہی ہوئی اور حضرت علّامہ محمد انور شاہ کشمیریv  کی کتاب ’’التصریح بما تو اتر فی نزول المسیح‘‘ اور حضرت مولانا ظفر احمد تھانویv  کے ’’مقدّمۃ إعلاء السنن‘‘، اور حضرت مولانا عبد الحی لکھنویv  کی کتاب ’’الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل‘‘ اور ان کی دوسری کتاب ’’الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘ پر شیخ کی بے نظیر تحقیق و تعلیق اور دار العلوم دیوبند اور ہمارے اکابرین سے متعلق ان کے عقیدت مندانہ تاثرات کا انکشاف بھی ہوا، لہٰذا غائبانہ طور پر ان سے محبت و عقیدت پیداہوگئی اور یہ بھی پتہ چلاکہ وہ ’’جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ریاض‘‘ میں استاذ ہیں، مذکورہ جامعہ میں داخلہ لینے کی صورت نہیں بن رہی تھی، البتہ ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ میں داخلہ کی صورت بن گئی اور اس بہانے شیخ ابو غدّہv سے ملاقات اور ان کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضری کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہونے کی امید پیداہوگئی۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدّہv سے پہلی ملاقات جب احقرکا داخلہ ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘میں ہوگیا اور ۳۰ محرم ۱۴۰۸ھ کو ریاض پہنچ کرمذکورہ جامعہ میں مقیم ہوگیا، تو بالکل ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ جامعہ کے قریب کتابوں کی ایک عالمی نمائش لگی ہوئی ہے، جس میں مختلف قسم کی کتابیں مل سکتی ہیں۔ راقم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ایک دن مغرب و عشاء کے درمیان اس نمائش میں پہنچ گیا اور کتابوں کی تلاش میں مصروف ہوگیا، اُسی دوران ایک سفید ریش سرخ و سفید نورانی چہرہ والے ایسے شخص کو لگن کے ساتھ کتابوں کو تلاش کرتے ہوئے میں نے دیکھا جن کے چہرے سے علم و تقویٰ ،خوش اخلاقی و اخلاص اور ہمدردی و دیانت داری کے جلوے پھوٹ رہے تھے، ایک ساتھی نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جانتا تو نہیں، لیکن ان کا چہرہ یہ بتارہا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی صلاحیت و تقویٰ کے مالک شخص ہوں گے، ساتھی نے کہاکہ: یہ مشہور و معروف حنفی عالمِ دین شیخ عبد الفتّاح أبو غدّہ ہیں ، میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور فوراً آگے بڑھا اور ادب و احترام کے ساتھ سلام کرکے ان سے مصافحہ و معانقہ کیا اور مزاج پرسی کی، شیخ نے بھی بہت ہی شفقت و محبت کے انداز میں خیریت معلو م کرکے مجھے اپنا تعارف کرانے کا حکم دیا، میں نے اپنا نام اور ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں حال ہی میں داخلہ لینے کا ذکر کیا، ساتھیوں نے دار العلوم دیوبند سے میری تدریسی وابستگی کا ذکر بھی کردیا، جس سے وہ بے حد خوش ہوئے اور دار العلوم دیوبند اور اس کے مشایخ و طلبہ کے حالات معلوم کیے اور فرمایا کہ: د ارالعلوم دیوبند توایک ایسا دینی مرکز ہے جس نے ہزاروں علمائ، مفکّرین، مصنّفین اور مجاہدین پیدا کیے، پھر دارالعلوم کے چند مخصوص ان اساتذئہ کرام کے حالات معلوم کیے جن کو شیخ ذاتی طور پر جانتے تھے اور ہندوستان کے چند دیگر علماء کے حالات بھی دریافت کیے۔ شیخ عبد الفتّاح ابو غدّہv کی یہ اچا نک ملاقات احقر کے لیے باعثِ خوشی اور ایک نعمتِ غیرمترقبہ تھی، جس نے کتابوں کی نمائش میں جانے کا اصل مقصد بھلادیا اور دل یہ چاہ رہا تھا کہ ان خوشگوار لمحات کا دورانیہ طویل ہو ! لیکن نمازِ عشاء کا وقت قریب آگیا اور ہم سب لوگ مسجد کی طرف روانہ ہوگئے اور مختصر وقت میں یہ پہلی اور دلچسپ ملاقات اگرچہ اپنے اختتام کو پہنچی، تاہم اس نے شیخ کی محبت و عقیدت میں اضافہ کردیا اور اس ارادے کو بھی مضبوط بنادیا کہ ریاض میں موجودگی کے دوران شیخ سے ان شاء اللہ تعالیٰ! استفادہ کی کوشش ضرور کروں گا ۔ شیخ عبد الفتاح ابو غُدّہؒ کی ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ منتقلی اور احقر کے لیے استفادہ کا ایک نادرموقع  اوپر عرض کیا گیا ہے کہ شیخ ابو غُدّہ ــ’’جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ریاض‘‘ کے استاذ تھے اور میرا داخلہ ـ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ میں ہوا تھا،ا ور یہ دونوں الگ الگ مستقل علمی ادارے ہیں اور ریاض شہر کے اندر دونوں کا محل وقوع بھی جدا جدا ہے، اس لیے شیخ سے استفادہ میں دشواری تھی، کیونکہ نہ تو میرے پاس کوئی ذاتی سواری تھی اور نہ وقت میں اتنی گنجائش تھی کہ میں روزانہ ’’جامعۃ الملک سعود ‘‘کے اوقاتِ درس میں بھی حاضر رہوں اور پھر ’’جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ‘‘ جاکر شیخ کی خدمت میں بھی حاضری د یا کروں، لہٰذا اس پر غور کررہا تھا کہ ہفتہ وار چھٹیوں (جمعرات اور جمعہ) اور اسی طرح دیگر چھٹیوں میں شیخ سے استفادہ کی کوئی ترتیب بنائوں گا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے داخلہ کو ابھی مختصر ہی عرصہ ہوا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ شیخ عبدالفتّاح ابو غدّہ ’’جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ‘‘ سے ’’جامعۃ الملک سعود‘‘  منتقل ہورہے ہیں، جہاں ’’کلیۃ التربیۃ ‘‘ کے آخری سال کے طلبہ اور دراساتِ علیا کے طلبہ کو علوم ِ حدیث پڑھائیں گے، میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، اس لیے کہ اس صورت میں شیخ سے استفادہ کی میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوجاتی۔ ’’جامعۃ الملک سعود ‘‘میں میراداخلہ شعبہ’’ معہد اللغۃ العربیۃ ‘‘ میں ہوا تھا اور شیخ شعبہ ’’الثقافۃ الإسلامیۃ،کلیۃ التربیۃ ‘‘ میں پڑھانے لگے، لہٰذا با ضابطہ طور پر تو میراکوئی سبق ان کے پاس نہیںتھا، لیکن حسنِ اتفاق سے’’ معہد اللغۃ العربیۃ‘‘ میں میرے اسباق صبح کے وقت ہوتے تھے اور شیخ ’’کلیۃ التربیۃ ‘‘ میں شام کے وقت علوم الحدیث پڑھاتے تھے، میں نے شیخ سے ان کے گھنٹے میں سامع کی حیثیت سے شرکت کی اجازت طلب کی، انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ درخواست منظور فرمالی، اسی طرح میں نے ان سے یہ درخواست بھی کی کہ ’’کلیۃ التربیۃ ‘‘میں واقع ان کے دفتر میں فارغ اور مناسب وقت میں استفاد ہ کے لیے مجھے حاضری کی اجازت مرحمت فرمائیں! انہوں نے یہ درخواست بھی منظور فرمالی، چنانچہ احقر کی ایک خوش قسمتی یہ رہی کہ شام کے وقت شیخ کے ایک گھنٹے میں سامع کی حیثیت سے شریک ہوجاتا اور دوسری خوش قسمتی یہ کہ ان کے دفترمیں ان کی اجازت سے مناسب وقت میں استفادہ کے لیے حاضرہوجاتا، اور جب شیخ جامعہ کی مرکزی لائبریری میں مطالعہ کے لیے کبھی تشریف لے جاتے تو ایک خادم کی حیثیت سے بعض دفعہ احقر کو ان کے ساتھ لائبریری جانے کا موقع بھی مل جاتا، جہاں شیخ کے لیے مطلوبہ کتابوں کو تلاش کرنے کی سعادت مجھے نصیب ہوتی اور ان سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا خصوصی موقع مل جاتا، یہ سلسلہ تقریباً دو سال (۱۴۰۸ھ - ۱۴۰۹ھ) تک جاری رہا، اس دوران حضرت شیخ ابو غدّہ v کو قریب سے دیکھنے اور ان کے علمی وعملی کمالات مشاہدہ کرنے کا موقع ملا، ان کی علمی خصوصیّتوں اور سیرت و کردار کی بلندیوں کا مفصل تذکرہ نہ تو میرے بس میں ہے اور نہ ہی اس مختصر مضمون میں ان تمام خوبیوں کو سمویا جاسکتا ہے، تاہم اپنے قلب ِ حزیں کی تسکین اور قارئین کے فائدے کے لیے ان کے علمی و عملی کمالات کے چند نمونے سپردِ قلم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ علومِ دینیّہ کے سچّے متلاشی حضرت علّامہ شیخ عبد الفتّاح ابو غُدّہ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ایک سچّے طلبگارِ علم رہے، انہوں نے علمی ذخائر اور اہلِ علم کی تلاش میں اپنے ملک شام کے علاوہ حجاز، مصر ، عراق، یمن، سوڈان، المغرب، ترکیہ، ہندوستان ، پاکستان اور دیگر ممالک کے دورے کیے اور بڑے بڑے اہلِ علم و اصحاب ِ تحقیق سے صرف استفادہ نہیں کیا،بلکہ ان کے علوم و تحقیقات کو اپنے اندر جذب کرلیا اور وہاں کے بڑے بڑے کتب خانوں اور لائبریریوں سے خوب استفادہ کیا، اور پھر مسلسل کتب بینی، تدریس و تعلیم اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے اور علم و تحقیق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود ان کی علمی پیاس نے کبھی بجھنے کانام نہیں لیا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی علمی پیاس میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہا تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ذیل میں ان کی زندگی کے مختلف واقعات میں سے صر ف چار ایسے واقعات نمونے کے طور پر درج کیے جارہے ہیں، جن سے طلبِ علم کے لیے ان کی محنت، علمی وسائل تلاش کرنے کے لیے ان کی قربانی اور اس راستے میں ان کی جفاکشی کا ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے:  پہلاواقعہ  جب حضرت شیخ ابو غُدّہ ’’کلیۃ الشریعۃ جامع ازہر ‘‘کے طالب علم تھے، اس زمانے میں ان کے محترم استاذ حضرت علّامہ محمد زاہد کوثری حنفیv (متوفّٰی:۱۳۷۱ھ ) نے ان کوملّا علی قاری v کی کتاب ’’فتح باب العنایۃ بشرح کتاب النُّقایۃ ‘‘ پڑھنے اور اپنے پاس ر کھنے کی تاکید فرمائی تھی ، کتاب چونکہ نایاب ہوگئی تھی، اس لیے شیخ ابوغُدّہv نے اس کی تلاش میں طویل محنت اور دعائیں کیں، بالآخر ایک نسخہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اپنی منفرد تحقیق کے ساتھ اس کی پہلی جلد شائع کردی، دوسری جلدکاکام جاری تھا کہ شیخ کا انتقال ہوا اور اب ان کے ہونہار صاحبزادے شیخ سلمان ابو غدّہ حفظہٗ اللہ اس کی تکمیل میں مصروف ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو تکمیل کی توفیق عطافرمائے۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدّہ vنے اپنی تحقیق کے مقدمہ میں مذکورہ ناپید کتاب تک پہنچنے کا جو عبرت انگیز واقعہ ذکر کیا ہے، اس کا ترجمہ و مفہوم پیش کیا جارہا ہے : ’’جب میں  ’’کلیۃ الشریعۃ - جامع ازہر ‘‘ کا طالبِ علم اور قاہرہ میں مقیم تھا تو ہمارے استاذ حضرت علّامہ محمد زاہد کوثری v سے قریبی وابستگی رہی، اس دوران انہوں نے ایک دفعہ مجھے تاکید فرمائی تھی کہ میں علّامہ ملّا علی قاریؒ کی کتاب ’’فتح باب العنایۃ بشرح کتاب النقایۃ‘‘ کو تلاش کرکے اپنے پاس استفاد ہ کے لیے رکھوں، میرے استاذ کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ میں نایاب اور مفید کتابوں کا دلدادہ ہوں، اس لیے مجھے مذکورہ کتاب تلاش کرنے کا حکم دیا، میراخیال یہ تھا کہ مذکورہ کتاب ہندوستان کی چھپی ہوئی ہوگی ، اور قاہرہ میں چھ سال قیام کے دوران برابر اس کو تلاش کرتا رہا اور اپنی تعلیم کی تکمیل تک جس کتب خانہ میں بھی کچھ اندازہ ہوجاتا کہ شاید یہاں پر موجود ہو‘ وہاں اُسے ڈھونڈتا رہا، لیکن اس کا کوئی اتاپتانہیں چل سکا۔  اور جب قاہرہ سے اپنے وطن حلَب لوٹا تو جس شہر میں بھی جانا ہوتا یا جس کتب خانہ کی زیارت ہوتی میں برابر مذکورہ کتاب کو تلاش کرتا اور چونکہ مذکورہ کتاب کا تعلّق فقہ حنفی سے تھا، اس لیے میرا خیال یہ تھا کہ ہندوستان کی چھپی ہوئی ہوگی اور کتاب فروشوں سے اس امید پر ہندوستان کی چھپی ہوئی فقہ حنفی کی عام کتابوں سے متعلق پوچھتارہتاکہ ہوسکتا ہے اپنی مطلوبہ کتاب ان کے ضمن میں مل سکے ، اس لیے کہ بعض مرتبہ کتاب فروشوں کو کتاب کانام یاد نہیں رہتا، اور دمشق کے کتاب فروشوں میں سے کچھ پرانے حضرات ایسے بھی تھے جو پرانی اور عمدہ کتابوں سے متعلق کافی معلومات رکھتے تھے اور خود ان کے پاس بھی ایسی کتابوں کا ایک اچھا ذخیرہ موجود تھا ، البتہ ان کو بیچنے میں سختی سے کام لیتے تھے اور کافی مہنگے داموں فروخت کرتے تھے ، اُن حضرات میں سے سیّد عزّت القُصَیْباتی اور ان کے والد، اور شیخ حمدی  السَّفَرْ جَلَانی اور سید احمد عُبید بھی تھے۔ میں نے سید عزّت القُصَیْباتی سے ’’فتح باب العنایۃ‘‘سے متعلق یہ کہہ کر دریافت کیا کہ ہندوستان کی چھپی ہوئی کتاب ہے ،انہوں نے کہا کہ ہاں ! میرے پاس موجود ہے اور مذکورہ کتاب کے بجائے علّامہ عینیv کی کتاب ’’البنایۃ بشرح الہدایۃ‘‘جو چھ ضخیم جلدوں میں تقریباً سوسال پہلے ۱۲۹۳ھ کی چھپی ہوئی تھی‘ نکال کر پیش کردی۔ میں نے اس کتاب کانام اگرچہ نہیں لیاتھا، تاہم یہ بھی ان نایاب اور عمدہ کتابوں میں سے ایک تھی جن کو میں تلاش کررہاتھا،لہٰذا میں نے مناسب قیمت پر یہ کتاب ان سے خرید لی اور انہوں نے زیادہ قیمت اس لیے وصول نہیں کی کہ میں نے اس کتاب کانام تو نہیں لیا تھا۔ پھر میں نے شیخ حَمْدی السَّفَرْ جَلانی v سے کتاب کے بارہ میں معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ روس کے ایک شہر قَزَان کی چھپی ہوئی ہے اور کبر یت ِ احمر سے زیادہ ناپید ہے،اور اپنی پوری زندگی اور کتابوں کے مشغلہ سے وابستہ ہونے کے دور میں صرف ایک نسخہ میرے ہاتھ آیاتھا جو میں نے علّامہ کوثریv کو اتنے اونچے داموں بیچا کہ تصور سے بالاتر ہے، ان کی اس بات سے یہ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ کس شہر کی چھپی ہوئی کتاب ہے، البتہ ساتھ ساتھ اس کے دستیاب ہونے کی امید بھی کمزور ہوگئی۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ۱۳۷۶ھ کو پہلی بار اپنے بیتِ کریم کے حج کا موقع نصیب فرمایا اور میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو اس امید پر وہاں کے کتب خانوں میں مذکورہ کتاب کو تلاش کرتارہا کہ شاید رو س سے بلد اللہ الحرام کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ یہ کتاب بھی پہنچ گئی ہو، لیکن مجھے کامیابی نہ مل سکی۔پھر اللہ تعالیٰ کی عنایت نے مکہ مکرمہ کے چند معمولی بازاروں میں سے ایک بازار کے اندر ایک گوشہ نشین بزرگ کتب فروش تک مجھے پہنچایا جن کا نام تھا شیخ مصطفی بن محمد شنقیطی سلَّمہ اللہ تعالیٰ ، میں نے ان سے کچھ کتابیں خرید لیں اور ناامیدی کی کیفیت میں میری مطلوبہ کتاب کے بارہ میں بھی ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ: تقریباً ایک ہفتہ پہلے میرے پاس اس کا ایک نسخہ آیاتھا جو میں نے علماء بخارا میں سے ایک شخص کے ترکہ سے خریداتھا اور پھر تاشقند کے ایک عالم کو اچھی خاصی قیمت پر بیچ دیا ،مجھے پورا یقین نہیں آرہاتھا کہ یہ میری مطلوبہ کتاب ہوگی، لیکن جب انہوں نے کتاب کی پوری کیفیت بیان کی تو معلوم ہواکہ یہ تووہی کتاب ہے جس کے حصول کے لیے میں چکّر پر چکّر کاٹتارہاہوں اور عرصہ سے اس کی تلاش میں ہوں ۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ تاشقندی عالم کون تھے جنہوں نے کتاب خریدی ؟ وہ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد بتانے لگے کہ ان کا نام شیخ عنایت اللہ تاشقندی تھا، میں نے کہا کہ ان کی رہائش گاہ یا کام کرنے کی جگہ کہاں ہے؟ کہنے لگے: مجھے مزید کچھ بھی پتہ نہیں ،میں نے کہا کہ میں انہیں کیسے تلاش کروں گا؟انہوں نے کہاکہ میں کچھ نہیں بتاسکتا۔اس صورتحال سے کتاب یا اس کے خریدار ملنے کی ناامیدی میں اضافہ ہوا،لیکن پھر بھی میں جس بخاری شخص کو مسجدِ حرام یا مکہ کے بازاروں میں دیکھتا اس سے شیخ عنایت اللہ کا پوچھتا، اور جن مدارس یا رباطات سے متعلق مجھے معلوم ہوتا کہ یہاں بخاری حضرات قیام پذیر ہیں وہاں جاکر مذکورہ بخاری شیخ کو تلاش کرتا، یہاں تک کہ مکّہ سے باہر جو محلّے واقع تھے اور مجھے معلوم ہوتاکہ وہاںپر بخاری حضرات رہتے ہیں‘ وہاں بھی جاکر پوچھتا، لیکن مطلوبہ شخص کا ملنا دشوار تر ہوگیا، اگرچہ مکہ مکرمہ میں عنایت اللہ نام کے بہت سارے دوسرے حضرات رہتے تھے۔ میری مسلسل تلاش نے آخر میں مجھے شیخ عبد القادر تاشقندی بخاری ساعاتیv تک پہنچایا جو مکّہ کے کنارے میں واقع محلّہ جَرْوَلْ میں قیام پذیر تھے، میں نے ان سے مطلوبہ تاشقندی شیخ کے بارہ میں معلوم کیا تو انہوں نے ان کو پہچانا اور ان کا صحیح نام ’’شیخ میر عنایت تاشقندی‘‘ بتایا، لیکن ان کی قیام گاہ یا ملنے کی جگہ سے چونکہ وہ لاعلم تھے اس لیے مجھ پر ایک مایوسی کی کیفیت چھاگئی اور جس شیخ کے پاس سے ’’فتح باب العنایۃ‘‘ ملنے کی توقع کی جارہی تھی، ان سے ملاقات کی، امید بظاہر دم توڑگئی!اس کے بعد میں نے کعبہ معظمہ زادہا اللہ تشریفاً و تعظیماً کے ارد گرد طواف کے دوران اللہ تعالیٰ سے یہ مانگنا شروع کیا کہ مجھے اس مطلوبہ شخص سے ملادیں اور میرے لیے اس کتاب کا حصول آسان فرمادیں، اور دعا مانگنے کا یہ سلسلہ ایک ہفتہ تک برابر جاری رکھا اور اللہ جانتا ہے کہ میرا یہ ہفتہ اس کیفیت میں گزرا کہ میرا دل مذکورہ کتاب اور اس کے مالک کی تلاش میں پریشان تھا۔ مذکوہ کیفیت کے ساتھ میں ایک د ن بازار ’’بابِ زیادۃ ‘‘ میں چل رہا تھا (بابِ زیادۃ مسجدِ حرام کی توسیع سے پہلے اس کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کا نام تھا) اس دوران مکہ مکرمہ کے ایک پرانے دمشقی تاجر نے مجھے دیکھا جن کو ابو عَرَب کہا جاتا تھا اور مکہ مکرمہ میں ان کی تجارت گاہ تھی، انہوں نے مجھے شامی ہیئت و لباس میں دیکھ کر اپنے یہاں بلایا اور شام اور شام والوں کے احوال معلوم کرنے لگے، میں نے اپنی مطلوبہ کتاب سے شدّتِ محبت کے تحت ان سے مذکورہ بخاری شیخ کے بارہ میں پوچھا، حالانکہ یہ تو خود دمشقی تاجر تھے! انہوں نے کہا کہ سامنے والی د کان ان کے داماد کی ہے اور وہ سب سے زیادہ ان سے واقف ہیں، اللہ کی قسم! میں زیاد ہ خوشی کی وجہ سے ان کی تصدیق نہیں کر پارہا تھا۔ بہر صورت ! میں ان کے داماد کے پاس گیا اور ان سے شیخ عنایت کا پوچھا ، وہ حیران ہوکر کہنے لگے کہ: ان کو تلاش کرنے اوران سے ملنے کی آ پ کو کیا ضرورت پیش آگئی؟ میں نے کہاکہ مکہ مکرمہ میں میرا ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ میں ان کو برابرڈھونڈرہاہوں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں، آپ اس سلسلہ میں میری راہنمائی کیجئے، انہوں نے ’’حیّ المِسفلۃ‘‘ میں واقع ان کی رہائش گاہ کی پوری نشاندہی کردی جوکہ ’’قہوۃ السقیفۃ‘‘کے بغل میں واقع تھی، میں باربا ر دن رات ا ن کے گھر جاتا رہا، یہاں تک کہ ان سے ملاقات ہوگئی اور وہ اپنی من پسند قیمت پر کتاب دینے کے لیے آمادہ ہوگئے، پس یہ میری زندگی کی خوشیوں میں سے ایک اہم خوشی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب کی جلد اول کی تحقیق و اشاعت کی تو فیق عطا فرمادی، اور اللہ تعالیٰ سے درخواست ہے کہ اپنے فضل و کرم سے باقی حصہ کی اشاعت کی توفیق بھی عنایت فرمادیں ۔‘‘                     (مقدّمہ تحقیق فتح باب العنایۃ، ص:۸-۹۔ صَفَحات من صبر العلمائ،ص:۲۷۹-۲۸۱ )  دوسراواقعہ علّامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ v کو حضرت علّامہ محمد انور شاہ کشمیریv (متوفّٰی:۱۳۵۲ھ) کی کتاب ’’التصریح بما تو اتر فی نزول المسیح ‘‘کی تلاش تھی! کتاب چونکہ نایاب ہوگئی تھی ،شیخ نے اس کی تلاش پندرہ سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رکھی، آخر میں ایک نسخہ حاصل کر نے میں کامیاب ہوگئے اور پھر اپنی منفرد تحقیق کے ساتھ اس کو شائع کردیا۔ شیخ نے تحقیق کے مقدمہ میں مذکورہ کتاب کو تلاش کرنے کاجو واقعہ لکھاہے، اس کا مفہوم اردو زبان میں پیش کیاجارہاہے: ’’جو کتاب میں نذرِ قارئین کررہاہوں وہ میری زندگی کی قیمتی تمناتھی ، لیکن اس کا حصول میرے لیے کافی مشکل ہوگیا تھا، اس کا صرف ایک نسخہ حاصل کرنے کے لیے میں نے پندرہ سال سے زیادہ عرصہ تک تلاش جاری رکھی، لیکن پھر بھی کامیابی نہ مل سکی، کتابوں کے شہر’’مصر ‘‘ میں چھ سال قیام کے دوران وہاں کے کتب خانوں میں برابر اس کو ڈھونڈتارہا، اس کے بعد مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے کتب خانوں میں اس کی تلاش جاری رکھی، لیکن پھر بھی نہ مل سکی،پھر ہندوستان و پاکستان کے بعض بڑے اہل علم سے درخواست کی کہ یہ کتاب چونکہ ہندوستان کی چھپی ہوئی ہے، اس لیے آپ حضرات اس کا ایک نسخہ تلاش فرمالیں! میں اس بات پر تو ان کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے کتاب کو تلاش کرنے کی کافی کوشش کی ،البتہ وہ پھر بھی دستیاب نہ ہوسکی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد اور پھر ایک جلیل القدر شخصیت کی تالیف تھی ، اس لیے جیسے ہی ۱۳۴۴ھ کو پہلی بار دہلی میں شائع ہوئی تو ہاتھوں ہاتھ ختم ہوگئی اور بعد میں اس کا ایک نسخہ بھی ملنا مشکل ہوگیا ۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ہندوستان و پاکستان کے سفر کا موقع عنایت فرمایا اور وہاں کے کتب خانوں کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے وہاں پر بھی اس کی بڑی تلاش کی، لیکن کامیابی نہیں ملی، البتہ جب میں ہندوستان و پاکستان کے اس سفر کی آخری فرودگاہ کراچی پہنچا اور ہمارے جلیل القدر استاذ، محقق کامل، مفتی اعظم علّامہ محمد شفیع صاحب بانی دارالعلوم کراچی کی زیارت کا موقع ملا تو میرے اوپر ان کے احسانات میں سے ایک خصوصی احسان یہ رہا کہ انہوں نے اس کتاب کا اپنا مخصوص نسخہ ایک معزّز و نایاب ہدیہ کے طور پر مجھے عنایت فرمایا، یہ علمی ہدیہ میری واپسی سے صرف ایک دن قبل بروز ہفتہ ۷؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۸۲ھ کو انہوں نے اس امید کے ساتھ مجھے عنایت فرمایا کہ یہ کتاب بلادِ عرب میں شائع ہوجائے، میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور اس ہدیہ کی تعریف و قدردانی کرتے ہوئے اسے قبول کیا، البتہ اتنی فرصت نہیں تھی کہ میں ا س کی ورق گردانی کروں، اس لیے کہ اگلے دن بروز اتوار ۸؍ جمادیٰ الاولیٰ کو صبح سویرے مجھے سفر کرناتھا اور تیاری میں لگا ہوا تھا، لہٰذا یہ ارادہ کیاکہ ’’سوریہ‘‘ جاتے ہوئے ہوائی جہاز کے اندر اس کو رفیقِ سفر بنائوں گا ۔ صبح جب میں اپنے ملک واپسی کے لیے کراچی ائیرپورٹ پہنچا تو وہاں پر اہلِ علم و فضل کی ایک جماعت کو موجود پایا جو اس عاجز و ناتواں کو اکرام کے ساتھ رخصت کرنے اور اس کو اپنی آخری اور قیمتی ملاقات سے نوازنے کے لیے جمع تھی، جہاز اُڑنے کے مقرّرہ وقت سے کچھ پہلے اعلان ہوا کہ جہاز دو گھنٹے لیٹ ہے تو میں نے ان علمائے کرام سے درخواست کی کہ آپ حضرات اپنی مصروفیات کی انجام دہی کے لیے واپس تشریف لے جائیں، لیکن انہوں نے احقرکو رخصت کرنے اور مزید عنایت سے نوازنے کے لیے آخری لمحہ تک انتظار کرنے پر اصرار فرمایا، چونکہ یہ مہلت کا ایک بہتر ین موقع تھا، اس لیے ہم ائیر پورٹ کے ایک گوشہ میں بیٹھ گئے،اور چونکہ ان علمائے کرام کے ساتھ ان کے شاگردوں اور مخلصین کا بھی ایک جمّ غفیر موجود تھا، اس لیے ہماری اس الوداعی ملاقات نے ایک بڑی علمی مجلس کی صورت اختیار کرلی، جس میں چیدہ چیدہ علمائے کرام شریک تھے، ان علمائے کرام میں سرفہرست ہمارے جلیل القدر استاذ مولانا علّامہ محمد شفیع صاحب اور ہمارے بے مثال و کرم فرما استاذ مولاناعلّامہ محمد یوسف بنوری صاحب بانی مدرسہ اسلامیہ کراچی اور اسی مدرسہ کے جلیل القدر مدرّس مولانا علّامہ لطف اللہ صاحب اور مدرسہ دارالعلوم کراچی کے ناظم مولانا علّامہ نور احمد صاحب اور دیگر اہلِ علم تھے، جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے ۔ میں نے چاہاکہ بہتر یہ ہوگاکہ فرصت کے ان لمحات کو قیمتی بناکر ماہ تاب ِعلم وکمال حضرات سے استفادہ کرنے میں خرچ کیاجائے،اس مقصد کے تحت میں نے مذکورہ کتاب ’’التصریح بماتو اتر فی نزول المسیح‘‘ نکال کر ان علمائے کرام سے اس خواہش کا اظہار کیاکہ میں اس کے ایک حصہ کی عبارت آپ کے سامنے پڑھنا چاہتا ہوں! انہوں نے میری اس خواہش کو سراہا، پھر میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ مجھے عبارت پڑھنے سے پہلے اس کتاب کی اجازت مرحمت فرمائیں! انہوں نے خوشی کے ساتھ اجازت مرحمت فرمادی۔ میں نے حضرت مولانا محمد شفیع صاحب کا پورا مقدمہ اور کتاب کی تین حدیثیں پڑھیں، پھر ہمارے استاذ مجمع الفضائل والعلوم حضرت علّامہ محمد یوسف بنور ی حفظہٗ اللہ تعالیٰ نے مزید پانچ حدیثیں پڑھیں اور اس دوران علمائے کرام کے درمیان علمی نکات پر تبادلۂ خیال بھی کیا جاتا رہا۔  جب میری روانگی کا وقت قریب ہوا تو میں نے اس وقت وہ دوشعر سنادیئے جو دولتِ عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام اور ہمارے استاذ شیخ مصطفی صبری v نے مجھے مصر سے اپنے ملک واپسی کے لیے رخصت کرتے وقت سنائے تھے: قالتْ ومدَّتْ یداً نحوی تُو دِّعُنی

ولَوْعۃُ البَیْن تأ بی أن تمدَّ یداً أَ میِّت أنْتَ أمْ حیٌّ؟ فقلتُ لہا 

من لم یمت یومَ بَیْنٍ لم یمت أبداً ترجمہ ومفہوم  ’’ اس نے رخصت لینے کے لیے میری طرف ہاتھ بڑھادیئے، لیکن جدائی کا غم مجھے ہاتھ بڑھانے سے منع کررہا تھا، کہنے لگی کہ: کیا تو مردہ ہے یا زندہ؟ میں نے جواب میں کہاکہ: جو جدائی کے دن بھی نہیں مرا، وہ پھر کبھی نہیں مرتا۔‘‘ اس پر ہمارے استاذ حضرت مولانا محمد شفیع صاحب نے مندرجہ ذیل دو شعر سنائے (جن میں فراق کے زمانہ میں ایامِ وصال کو یاد کرنے اور ان پر غمگین ہوکر رونے اور رُلانے کا تذکرہ ہے) تذکَّرَ عھداً بالحِمیٰ ثمّ معھداً

جریٰ فیہ من دَورِ الکؤوس تَسَلْسُلٗ بَکَیْنا فَأَبْکَینا ولامثلَ ناقفٍ

لحنظلۃٍ فِی الحیِّ حین تحمّلُوا اس دوران حضرت بنوریؒ اور میری حالت (رونے کی کیفیت میں )مندرجہ ذیل شعر کے مطابق رہی : ویَبْکِیْ فَأَ بْکِیْ رحمۃً لبکائہٖ

إِذا ما بکٰی دمعاً بکیتُ لہٗ دماً ترجمہ ومفہوم ’’ وہ رورہاہے تو میں بھی اس کے رونے پر رحم کھاتے ہوئے روتاہوں ، جب وہ آنسو بہاتا ہے تو میں اس کے لیے خون کا آنسو بہانے لگتاہوں ۔‘‘ اس کے بعد رخصت اور جدائی کاوقت آیا اور میرے دل میں یہ پکا ارادہ تھا کہ اپنے شیخ حضرت مولانامحمد شفیع صاحب کی اس تمنا پر لبیک کہوں گا کہ یہ عظیم کتاب شائع ہونی چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و مدد سے سالِ رواں ۱۳۸۵ھ کو مذکورہ کتاب کی تحقیق و خدمت کا ایسا موقع عنایت فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے اہلِ علم کی آنکھیں ٹھنڈی اور ایمان والوں کے قلوب منور ہوں گے ، اور درست عقیدہ والوں اور سچّے مسلمانوں کے اذہان بصیرت حاصل کریں گے ، اور یہ بھی امید ہے کہ میں نے ا س کتاب میں جو محنت و صبر و باریک بینی سے کام لیاہے، وہ اس اللہ کے یہاں میرے لیے ذخیرئہ آخرت ہوگا جو احسانات بکھیرنے والا اور عطا یابخشنے والا ہے، اور جو پڑھنے والے اس کتاب میں کوئی فائد ہ محسوس فرمائیں گے ان سے امید کرتا ہوں کہ مجھے ایسی نیک دعا میں یاد فرمالیں جس پر فرشتے آمین کہیں اور دعا کرنے والے کو بھی برابر کا ثواب ملے ۔‘‘    (مقدمۂ تحقیق ’’التصریح بما تو اتر فی نزول المسیحؑ‘‘، ص ۳-۵) تیسراواقعہ حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ v نے ۱۳۸۲ ھ کو جب علمائے کرام اور دینی مراکز کی زیارت کے لیے ہندوستان و پاکستان کادورہ کیا ،اس دوران جامعہ اشرفیہ لاہور بھی تشریف لے گئے ، اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ اور دیگر علمائے کرام سے ملاقاتیںکیں ،ان ملاقاتوں کے دوران شیخ نے جو علمی فوائد حاصل کرلیے ان میں سے نمونہ کے طور پر صرف ایک مختصر علمی نکتہ جو انہوںنے حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی vسے حاصل کیا آگے قلمبند کیاجارہاہے، تاکہ یہ اندازہ ہوجائے کہ شیخ علمی فوائد کے کتنے دلدادہ اور قدردان تھے!اُس علمی نکتہ کاتذکرہ خود شیخ کی زبانی سنئے: ’’حضرت مولانا ادریس کاندھلوی نے اس ملاقات کے دوران یہ بتایا کہ انہوں نے اپنے استاذ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v سے سنا کہ انہوں نے اپنے استاذ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبv صدرالمدرّسین دارالعلوم دیوبند سے حضرت خالدبن ولیدq کی شہادت فی سبیل اللہ کی آرزو پر گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت خالدبن ولید q کی تمنّائے شہادت تو کبھی پوری نہیں ہوسکتی تھی ، اس لیے کہ نبی a نے ان کو ’’سیف اللہ ‘‘کے لقب سے نوازاتھا اور اللہ کی تلوار کو نہ کوئی توڑ سکتاہے اور نہ ہی سیف اللہ کوکوئی قتل کرسکتاہے ، لہٰذا ان کی شہادت کی آرزوپوری نہ ہوسکی۔ میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا ادریس کاندھلوی حفظہٗ اللہ سے عرض کیاکہ میرے سفر کی قیمت اس ایک علمی نکتہ کے ذریعہ وصول ہوگئی ، اس لیے کہ صرف یہی ایک علمی نکتہ ایک مستقل سفر کاحق دار ہے ۔‘‘                                                  (حاشیۃ التصریح بماتواتر فی نزول المسیح، ص : ۲۱۲) چوتھا واقعہ  حضرت شیخ عبد الفتّاح ابو غُدّہv نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’صَفَحاتٌ من صبر العلمائ‘‘ میں زمانۂ طالب علمی کا اپناایک واقعہ لکھاہے ، جس سے یہ اندازہ لگاناآسان ہے کہ وہ ابتداء ہی سے طلبِ علم کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے ، واقعہ کااُردو ترجمہ و مفہوم پیش کیا جارہا ہے : ’’میں بھی عام طلبہ کی طرح طالب علمی کے زمانہ میں تنگدستی کاشکاررہا، تاہم اپنے معمولی خرچہ میں سے کچھ نہ کچھ بچاکر حسبِ استطاعت نقد یا ادھار پر کتابیں خریدلیتا، ایک دن کچھ ایسی نایاب واہم کتابیں میرے سامنے فروخت کے لیے پیش ہوئیں جنہیں میں اپنے پاس رکھنا چاہتاتھا، لیکن زیادہ تنگدستی کی وجہ سے خریدنے کاکوئی راستہ نظر نہیں آرہاتھا ! جس کی وجہ سے میں تشویش میں مبتلاہوگیا، پھر میں نے اُوْن کی بنی ہوئی اپنی ایک خوبصورت چادر جومجھے اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی ’’سوق الحراج‘‘ (ایک بازار کانام ہے )میں بیچ کر مذکورہ کتابیں خرید لیں اور اپنے دل کو مطمئن کردیا ، ان کتابوں کے خریدنے او راپنے پاس رکھنے سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ الحمدللہ! وہ قیمتی چادر پھر یاد بھی نہیں رہی۔‘‘                                                  (صَفَحات من صبر العلماء ،ص: ۲۷۸-۲۷۹) احقر کہتا ہے کہ مذکورہ چار واقعات شیخ عبد الفتاح ابوغُدّہ v کی علمی زندگی کے بے شمار حیرت انگیز واقعات میں سے چند ہی ہیں، جو نمونہ کے طور پر پیش کیے گئے ہیں اور جن سے شیخ کے جذبات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور ان کے ایسے ہی واقعات و جذبات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مندرجہ ذیل مشہور مقولہ کو صرف پڑھا ہی نہیں تھا، بلکہ عملی میدان میں اس کا پورا حق ادا کردیا تھا: ’’العلم لا یُعطیکَ بعضَہٗ حتی تعطیہٗ کلَّک‘‘ (علم اپنا ایک حصہ بھی اس وقت تک آپ کو نہیں دیتا جب تک آپ اپنا سب کچھ اس کو نہیں دیتے) اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے ہی جذبات کی بدولت شیخ نے ’’صَفَحات من صبر العلماء علی شدائد العلم والتحصیل‘‘ اور ’’قیمۃ الزمن عند العلمائ‘‘ جیسی مقبول ترین کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند اور اس کے علماء و مشایخ سے بے پناہ محبت و عقیدت شیخ عبد الفتاح ابو غُدّہv کو علمائے ہند سے بالعموم اور مشایخ دارالعلوم دیوبند سے بالخصوص بے پناہ محبت و عقیدت تھی، اسی عقیدت کے تحت انہوں نے ۱۳۸۲ ھ کوہندوستان و پاکستان کا ایک طویل سفر کیا جس کا مقصد علمائے کرا م سے ملاقاتیں، دینی مراکز کی زیارت اور وہاں کے کتب خانوں اور لائبریریوں سے استفادہ کرنا تھا، مذکورہ طویل سفر کے د وران شیخ نے ’’فرنگی محل لکھنؤ‘‘ میں حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی v (متوفّٰی ۱۳۰۴ھ ) کے خاندان کے علماء سے ملاقات کی اور حضرت مولانا عبد الحیv کے حالات و تالیفات سے متعلق ان سے دقیق معلومات حاصل کیں ، اسی طرح حضرت علّامہ ابوالوفاء افغانی v (متوفّٰی:۱۳۹۵ھ) رئیس ’’مجلس ِ احیاء ِ معارفِ نعمانیہ حیدرآباد دکن‘‘ کی خدمت میں بھی حاضرہوئے اور ان سے علمی استفادہ کیا، شیخ نے خود ’’الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل‘‘کی تحقیق کے مقدمہ میں لکھاہے کہ میں نے اس سفر میں تیس ایسے شہروں کی زیارت کی جہاں بڑے اہلِ علم و کمال اور دینی مراکز موجودتھے۔ شیخ ابوغدّہ vکی نظر میں ان تیس شہروں میں سے سب سے اہم اورسرفہرست شہر دیوبند اور اس کادینی مرکز دارالعلوم دیوبندتھا، چنانچہ وہ خصوصی طورپردارالعلوم دیوبند اوروہاں کے مشایخ کی زیارت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے۔ دارالعلوم دیوبند کے نظم و نسق اور علمی و اصلاحی ماحول کودیکھ کر بے حد متأثر ہوئے اور اس وقت کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبادیv کے ایک سبق میں شرکت بھی فرمائی ۔اس موقع پر شیخ نے دارالعلوم کے رجسٹر میں اپنے جن تأ ثرات کوقلمبند کیاہے ان میں اس بات کو خاص طور پر اہمیت دی ہے کہ علمائے دیوبند کی اکثر تالیفات جو علوم و معارف کے خزانے ہیں اردو زبان میں لکھی گئی ہیں اور عالَم عرب ان کے استفادہ سے محروم ہے، لہٰذا میری پرزور گزارش و درخواست ہے کہ ان کو عربی زبان میں منتقل کردیاجائے۔ حضرت شیخ ابو غدّہ v کے تأثرات کا اردو ترجمہ تاریخ دارالعلوم دیوبند سے نقل کیاجارہاہے: ’’اس عاجزوناتواں راقم سطور کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل وانعام ہے کہ اس نے ہندوستان کے شہروں کی سیاحت وزیارت کا موقع بہم پہنچایا، بالخصوص ان شہروں میں سرفہرست دیوبند اور اس کی دینی درسگاہ’’ دارالعلوم‘‘ کا درجہ ہے، جودرحقیقت ہندوستان کا علم وتقویٰ سے بھرپور زندہ قلب، علماء ومؤلفین کامرکز اوردین ومعرفت کے طلبہ کی آماجگاہ ہے، اس مرکزکی زیارت عمربھر کی تمناؤں اور لیل ونہار کے خوابوں میں سے ایک خواب وتمناتھی، خدا کا شکرہے کہ آج دارالعلوم کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور پرانا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ دور رہتے ہوئے جوکچھ دارالعلوم کے بارے میں سنا تھا، اس کاجوکچھ ذہن میں خاکہ وتصورتھا قریب سے دیکھ کر اس کواس سے کہیں زیادہ اچھا اوربہتر پایا، اس مقدس ادارے کے گوشے گوشے سے انوارِ علم کا فیضان ہوتاہے، اس کی درسگاہوں میں رسول اللہ a کی احادیث کی تعلیم دی جاتی ہے اور تشنہ کارانِ علم اور طالبانِ رشد وہدایت کے لیے مثالی نظم ونسق، سلیقہ شعاری اور روشن دماغی کے ساتھ اس اسلوب سے احکام دین و شریعت بیان کیے جاتے ہیں، جس میں اہلِ روحانیت کی روحانیت، اور اصحابِ علم و تحقیق کے آثار و فیوض نمایاں طور پر جھلکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ کمالِ فضل و احسان ہے کہ مجھے مولانا الأجل برکۃ الأمۃ ذو الأنفاس الطاھرۃ سیدی الشیخ المحدث السید فخرالدین أحمد المرادآبادی کے درسِ حدیث شریف کے کچھ حصہ کی سماعت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت موصوف نے طلبۂ محبینِ کرام کی درخواست پر احقر کی رعایت کرتے ہوئے حدیث بنی سلمہ پرعربی میں تقریر فرمائی، جس میں ذکر ہے کہ بنی سلمہ کی خواہش ہوئی کہ وہ اپنے مکانوں کو چھوڑ کر مسجدِنبوی کے جوار میں منتقل ہوجائیں ، رسول اللہ a کوان کے اس ارادے کا علم ہوا تو ارشاد فرمایا : ’’دیارَکم تُکتب لکم آثارُکم ۔‘‘ موصوف کی تقریر بیش بہا موتیوں اور تابناک ستاروں کا مجموعہ اور’’فیض الباری‘‘ اور ’’عمدۃ القاری‘‘ کا مصداق تھی ، اسی کے ساتھ شیخ موصوف کی طرف سے ان طلبہ کو جوگوش برآوازتھے اپنے خصوصی ارشادات سے نوازنے کاسلسلہ جاری تھا جو ان تلامذہ کے نفوس میں اس طرح سرایت کرتے تھے جس طرح عطر ہوا میں اور پانی زندگی میں کرتا ہے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ موصوف کو سنتِ مطہرہ اور اس کے متبعین کی طرف سے جزائے خیردے اور اس ادارے کو سماحۃ الشیخ صدرالمدرسین مولاناالعلّامۃ ابراہیم البلیاوی اور مولانا القاری محمدطیّب صاحب جیسے ارکان واساطین، ائمہ اجلہ، بدورالہدیٰ (بدرہائے ہدایت) اور مصابیح دُجیٰ (شمعہائے ظلمت ) کے زیرسایہ ہمیشہ پھلتا پھولتا قائم رکھے اور ان بزرگوں کے نفع بخش اوقات اور انفاسِ طاہرہ میں برکت عطا فرمائے۔ ذمہ دارانِ مدرسہ نے میرے ساتھ مزید احسان واکرام یہ کیا کہ احقر کو اپنا خصوصی مہمان بنایا، اس طرح بسہولت علمائے کرام سے علمی استفادے کا موقع ملا، فللّٰہ الحمد، نیز وہ چیزجس کے لیے آج ہم سب اللہ تعالیٰ کے مرہونِ منت اوراحسان مند ہیں، وہ یہ ادارہ ہے جو مع اساتذہ وتلامذہ کے دین کا گھنا سایہ دار درخت، علم وتقویٰ کا مرکز اور جسمِ اسلامی کی بقاء کا ضامن وہ پھیپھڑا ہے جس میں حیاتِ روحانی کے آثاررواں دواں ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو اس ادارے کی بقا وترقی اوراس کے علماء کے طولِ حیات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض فرمائے، واللّٰہ یجیب ولایخیّب رجائَ الراجین فضلاً منہ وکرماً۔ علم وتقویٰ کے اساطین سے مالامال اس عظیم الشان ادارے کے علماء عظام کی خدماتِ جلیلہ کا ذکرکرتے ہوئے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں، بلکہ اگر ذرا جرأت کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارا ایک واجبی حق ہے، جس کامطالبہ کررہاہوں ، وہ یہ کہ ان علمائے کرام کافریضہ ہے کہ اپنے متفردانہ عقول کے نتائجِ فکر اور بیش بہاعلمی فیوض وتحقیقات کوعربی زبان کا جامہ پہناکرعالم اسلام کے دوسرے علماء کے لیے استفادے کاموقع فراہم کریں، یہ فریضہ ان حضرات پر اس لیے عائد ہوتاہے کہ جب کوئی شخص ہندوستان کے علمائے محققین کی کوئی تصنیف پڑھتاہے تواُس میں اُس کووہ نئی متفردانہ تحقیقات ملتی ہیں جن کا مدار علیہ گہرے علم اوروسیع مطالعہ کے علاوہ تقویٰ وصلاح اورروحانیت ہوتی ہے ، اور چونکہ ہندوستان کے علماء وشیو خ کرام نیکی وصلاح اور روحانیت اور استغراق فی العلم جیسی شرائط پر نہ صرف یہ کہ پورے اُترتے ہیں، بلکہ سلف صالحین کے صحیح وارث اور ان کے نمونے ہیں، اس لیے ان کی کتابیں نئی اور کارآمد چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں، وذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشائ، بلکہ ان حضرات کی بعض کتابیں تووہ ہیں جن میں ایسی چیزیں ملتی ہیں جو متقدمین علمائے اکابر، مفسرین ومحدثین اور حکماء کے ہاں بھی دستیاب نہیں ہوتیں، لیکن افسوس اور قلق کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان نادر تالیفات میں سے اکثر بلکہ سب کی سب اردو زبان میں لکھی گئی ہیں، جو گو ہندوستان کی عام اسلامی زبان سہی، لیکن عربی کو کثیرالاستعمال اور علوم اسلام کی خاص زبان ہونے کا جو شرف حاصل ہے، ظاہرہے کہ وہ اردو کو حاصل نہیں، لہٰذا یہ علوم اوربیش قیمت تحقیقات جوہمارے برادرانِ اسلام علمائے ہند کا خصوصی حصہ اور کارنامہ ہیں اگر اردو ہی کے قالب میں محبوس رکھی گئیں تو ہم عربی زبان بولنے والوں سے مخفی اور پوشیدہ رہ کر ہماری محرومی کا باعث بنی رہیں گی۔ اس طرح نہ صر ف ہمارے ساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ علم و دین کے حق کا بھی ایک بہت بڑا نقصان ہوگا، اس لیے فریضۂ معرفت اور امانتِ علم کی ادائیگی کے لیے یہ بات اوّلین واجبات میں سے ہے کہ ان نفیس، شاہکاراور عمدہ کتابوں کاعربی زبان میں ترجمہ کیاجائے، تاکہ ان سے وہ آنکھیں ر وشنی حاصل کریں جو ایسی چیزوں کے لیے بے تاب، تشنہ اور مشتاق ہیں اور جیساکہ میرا خیال ہے اس اہم ذمّہ داری اور کٹھن فریضہ کی ادائیگی کا کام اسی ادارئہ عامرہ کے افراد کرسکتے ہیں جو علمائے کرام اور طلبۂ نجباء کا گہوارہ و سرچشمہ ہے۔ اس موقع پر جبکہ میں ذمّہ دارانِ ادارہ کے مشفقانہ طرزِ عمل، نوازشاتِ بزرگانہ اور طلبۂ عزیز کے جذباتِ محبّت و اخوت کے لیے کلماتِ شکر حیطۂ تحریر میں لارہا ہوں اپنے مذکورہ بالا حق اور مطالبے کو دُہرانے کی ایک بار پھر پُر امید ہوکر جرأت کرناضروری سمجھتاہوں، اس لیے کہ اگر ان حضرات نے اس فریضہ کی ادائیگی کی طرف توجہ مبذول فرمائی تو اس طرح جہاں وہ اپنی ذمّہ داری سے عہدہ برآ ہوں گے، ساتھ ہی ساتھ یہ دین و ثقافت کی ایک عظیم الشان خدمت اور قابلِ ذکر کارنامہ ہوگا، کیونکہ یہ علوم دنیاکے تمام مسلمانوں ہی کی مِلک نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان مساوی طور پر اس سے استفادے کے مستحق ہیں، چہ جائیکہ صرف ہندوستان ہی کے مسلمان ان کے اجارہ دار قرار پائیں، اس لیے ازبس ضروری ہے کہ اُردو کتابوں کے عربی میں تراجم کیے جائیں، تاکہ ان کی زیادہ سے زیادہ ترویج و اشاعت ہو، اور وسیع پیمانے پر ان سے استفادے کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ مجھے یہ سُن کر کسی حد تک اطمینان اور مسرّت ہوئی کہ یہ اہم مسئلہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے زیرِ غور ہے، اور وہ عن قریب اس اہم بار اور ذمّہ داری کی ادائیگی کے لیے قدم اُٹھانے والی ہے، جو درحقیقت اس ادارے کے علماء کا اور بالخصوص طلبہ کا واجبی فرض ہے، میں اس خوشخبری کے بعد تمام علمائے اکابر کا ان کے اس مُبارک عزم اور اقدام پر تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کارِ عظیم میں اس کی خصوصی مددو معاونت ان کے شاملِ حال ہو، تاکہ بسہولت وہ اس فریضے کو مرحلۂ تکمیل تک پہنچاسکیں، باری تعالیٰ کے لیے یہ کوئی دشوار امر نہیں، وَمَاذٰلِکَ عَلٰی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ اور نہ ہی ان علمائے اماجد کے لیے ان کے پُختہ عزائم کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی ایسا کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ ہے جو ناقابلِ عبور ہو۔‘‘ (تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول ،ص:۳۷۴-۳۷۸) شیخ ابوغدّہv نے مذکورہ بالا تأثرات کا اظہار دارالعلو م دیوبند کی پہلی زیارت کے موقع پر کیا ہے، اس کے بعد بھی وہ کئی بار دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے ہیں اور وہاں کے ماحول میں آج تک ان کو بلند القاب و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔                               (جاری ہے)

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین