بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجازِمقدس کی والہانہ حاضری (دوسری قسط)

 

حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری            (دوسری قسط)

غارِ حراء کی زیارت مسجدِحرام سے تقریباًتین میل کے فاصلے پرمنیٰ جاتے ہوئے بائیں طرف ایک پہاڑ ’’جبلِ نور‘‘ کے نام سے واقع ہے، اس پہاڑکی چوٹی پر غارِ حراء ہے، جہاں سیدالکونین a نے نبوت ملنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے خلوت گزینی اختیار فرمائی تھی،آپ a کھانے پینے کا کچھ ضروری سامان ساتھ لے کر تشریف لے جاتے، اور کئی کئی دن خلوت فرماتے، ’’الدرالمختار‘‘ (ج:۱، ص:۲۶۳) کی تصریح کے مطابق غارِحراء میں آپ a دینِ ابراہیمی کے مطابق عبادت فرماتے، اور جب سامان ختم ہوجاتا تو واپس تشریف لاتے اور کچھ ضروری سامان لے جاتے اور پھر خلوت گزینی اختیار فرماتے، غارِحراء کا سائز اتنا ہی ہے کہ کوئی معقول قد کا آدمی تنہا اس میں بیٹھ سکتا ہے، لیٹ سکتا ہے اور کھڑا بھی ہوسکتا ہے، اس غار کے بند دہانے میں ایک عمودی پتلی سی درزہے، جس سے اُس زمانے میں کعبۃ اللہ صاف نظر آتا تھا، البتہ آج کل مسجدِحرام کی اونچی عمارت کی وجہ سے کعبۃ اللہ تو نظر نہیں آتا، مسجدِحرام کی عمارت نظر آتی ہے۔ غارِحراء میں آپ a کی خلوت گزینی کاسلسلہ جاری تھاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل m پہلی وحی لے کر آپ aکی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا: ’’اقرأ‘‘ (پڑھیے) آپa نے فرمایا کہ: میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو پڑھنا جانتے ہیں، حضرت جبریلm نے آپa کو دبوچا اور خوب دبوچا، یہاں تک کہ آپa کی قوت جواب دینے لگی، پھر چھوڑدیا اور کہا: ’’اقرأ‘‘ (پڑھیے) آپa نے پھر وہی جواب دیا، حضرت جبریلm نے پھر اسی طرح دبوچا اور پھر چھوڑ کر کہا: ’’اقرأ‘‘ (پڑھئے) آپ aکاجواب پھربھی وہی رہا،حضرت جبریلm نے جب تیسری مرتبہ اُسی طرح دبوچا اورپھرچھوڑدیا تو کہا :’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ‘‘آپ a کے اندرتحمل وحی کی استعداد پیداہوچکی تھی ،آپ aنے پڑھناشروع کردیااوریہیں سے وحی کا سلسلہ شروع ہوا، جو آپ a کی وفات تک جاری رہا۔ بہرصورت! غارِحراء کی زیارت کے لیے ہم چاروں ساتھی بروز بدھ۱۸؍ ربیع الاول ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۱؍ نومبر۱۹۸۷ء بعدالعصر جبل نور پہنچ گئے، اور پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا، پہاڑ کی چڑھائی درمیان تک زیادہ کٹھن نہ تھی، درمیانی بلندی سے اوپرپہاڑکی چوٹی تک جانے میں بڑی احتیاط وہمت کی ضرورت تھی، اس لیے کہ پہاڑ کے ایسے حصوں سے بھی گزرناپڑتا جہاں چڑھنے والااپناجسم ترچھا کرکے پنجوں اور پاؤں کی مددسے آگے سرکتاہوابڑھ سکتاتھا،احقرکے دل میں یہ احساس موجزن تھاکہ جن پتھروں کوآج ہم چھورہے ہیں یہ وہی پتھرتوہیں جن کوتقریباً چودہ سواکتیس سال قبل (۱۴۰۸ھ کے اعتبار سے)نبی کریم a نے چھواتھا،اورجن پرآپ a کی مبارک نظریں ضرور پڑی ہوں گی اور اس پر بھی غور کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ نبی کریم a توسنِّ کہولت میں اس دشوارگزار پہاڑی کی چوٹی پر واقع غارِحراء تک باربارتشریف لے جاچکے ہیں ، اورآپ a کے اُمتی ہونے کا دعویدار یہ سیاہ کار اپنی جوانی (میری عمراس وقت چھبیس سال کے لگ بھگ تھی) میں ہمت ہار کر صرف ایک مرتبہ چڑھنے میں بھی کاہلی سے کام لے تو یہ ہرگز مناسب نہیں، شایداسی احساس وجذبے نے احقر کو اپنے ساتھیوں سے پہلے اورراستے میں توقف کیے بغیر غارِحراء تک پہنچادیا۔ اس تاریخی سفرکے بعدسے تادمِ تحریر جو تقریباً اٹھائیس سال کا عرصہ گزرچکا ہے، اپنے رفیقِ سفر جناب مولانا محمد اشرف علی صاحب سے وقفہ وقفہ سے دو ملاقاتیں اور ایک مرتبہ فون پر بات ہوئی ہے، تینوں دفعہ انہوں نے جبل نور پر احقر کے چڑھنے کے انداز کا تذکرہ ضرور فرمایا ہے، غارِحراء میں کم ازکم دورکعت نفل نماز ادا کرنے کو دل چاہ رہا تھا، لیکن چونکہ ہم لوگ عصر پڑھ کرنکلے تھے، اس لیے نوافل کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمنا پوری نہ ہوسکی، اور زیارت ودعاؤں پر اکتفاء کرتے ہوئے ہم لوگ واپس ہوگئے۔ غارِحراء کی زیارت سے تین باتوں کا ذہن نشین ہوجانا غارِحراء کا دشوار گزار راستہ طے کرنے اور اس کی زیارت کرنے کے موقع پرتین باتیں خاص طور پر ذہن نشین ہوگئیں:  پہلی بات: ہر داعیِ حق، عالمِ دین اورخادمِ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نبی a کے غارِحراء جانے کے لیے جبل نور پر باربار چڑھنے کی مشقت کو  سہنے اور اس کے بعد ۲۳؍سالہ نبوت کی زندگی میں گوناگوں تکالیف جھیلنے اورمخالفین کی اذیتوں پر صبر کرنے کومدِّنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں مشقت برداشت کرنے، محنت کرنے اور سادگی اختیار کرنے کو ترجیح دے، تاکہ وہ دعوت وتبلیغ، دینی علوم کی تعلیم اور آوازِ حق پھیلانے کے لیے درکار محنت کاعادی بن کرمخالفین کی اذیتوں کوبرداشت کرنے کے لیے تیاررہے، اور اگر خداناخواستہ اس نے اپنے نبیa کے طریقہ کو چھوڑ کر دنیا داروں اور تعیش پرستوں کے طرزِ زندگی کو اختیار کیا اور آرام طلبی وسہولت پسندی اس کے مزاج میں داخل ہوگئی تو ایسی صورت میں نہ تووہ دینی تعلیم وتبلیغ کے لیے بے لوث محنت کرسکے گا، اور نہ ہی مخالفین کی اذیتوں پر صبر کرنے کا مادہ اپنے اندر پائے گا، اور بالآخر دنیا داروں اور سہولت پسندوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔ والعیاذ باللہ۔  دوسری بات: ایک عام مسلمان اور بالخصوص عالمِ دین وداعیِ حق کے لیے چاہیے کہ اپنے نبی a کی پیروی کرتے ہوئے کھانے پینے میں احتیاط برتے، تاکہ جسم فربہ نہ ہونے پائے اور پیٹ اپنے حدود میں رہے، اس لیے کہ جسم فربہ ہونے اور پیٹ باہر کی طرف نکلنے کی صورت میں تگ ودَو مشکل ہوتی ہے، اور بوقتِ ضرروت دشوار گزار راستوں کو عبور کرنا اور اونچائیوں پر چڑھنا دشوار ہوجاتا ہے، آقائے نامدارa کا بار بار جبل نور پر چڑھنا اور کئی کئی دن تک کھانے پینے کے ایک معمولی سامان پر اکتفا کرنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ آپ aکا جسم مبارک چست، موزوں اور اپنے کنٹرول میں تھا، امام ترمذی v نے حضرت ھندبن ابی ھالہ v کی روایت سے آپ a کاجوحلیہ مبارک نقل کیاہے، اس میں یہ بھی ہے: ’’سوائَ البطن والصدر‘‘ یعنی آپ a کا پیٹ اور سینہ مبارک دونوں ہموار تھے، اور اسی روایت میں آگے یہ لفظ بھی ہے: ’’ذَریع المِشیۃ‘‘ یعنی آپ a تیز رفتار تھے۔ (شمائل ترمذی ،ص:۲) امام بخاری v نے صحیح البخاری کے اندرحضرت عمران بن حصین q کی روایت سے نبی اکرم a کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بعد میں آنے والے ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے جو خیانت اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا، چنانچہ آپ a ارشادفرماتے ہیں: ’’إنّ بعدکم قومًا یخونون ولایؤتَمَنون ویشھدون ولایُسْتشھدون ویَنْذرون ولایَفون ویظھر فیھم السِّمَن۔‘‘ ’’ بے شک تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور امانت داری سے کام نہیں لیں گے، اور گواہی دیں گے جب کہ وہ گواہ نہیں بنائے گئے ہوں گے، اور منتیں مانیں گے اور اُنہیں پوری نہیں کریں گے، اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا۔‘‘ مذکورہ حدیث کی تشریح میں بخاری شریف کے حاشیہ کے اندرکرمانی کے حوالہ سے لکھاہواہے: ’’یعنی لوگوں کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا اور دنیوی خواہشات کے پیچھے چلنا رہ جائے گا، آخرت سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔‘‘ راقم عرض کرتا ہے کہ ایسے لوگوں پر سعدی شیرازی v کا مندرجہ ذیل شعر بھی منطبق ہوتا ہے: خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است ایں معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است تیسری بات: مصلحین ِ امت ومشایخ طریقت نے مدارجِ سلوک طے کرنے اورروحانی ترقی حاصل کرنے کے لیے چلّہ کشی اورگوشہ نشینی کو جواہمیت دی ہے، اُس اہمیت پر غارِ حراء کے واقعہ سے استدلال کیا جاسکتا ہے، چنانچہ حضرت امام غزالی v (متوفّٰی۵۰۵ھ) نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ جلد ثانی میں گوشہ نشینی کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اس کے چھ فوائد ذکر کیے ہیں، اور فائدہ اولیٰ کو بیان کرتے ہوئے اس کے ضمن میں غارِ حراء کے اندر نبی کریم a کی خلوت و گوشہ نشینی سے استدلال فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند مدظلہم العالی نے تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد اول، ص:۱۳۹ پر خلوت گزینی کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے شیخ حضرت مولانا زکریا صاحب قدس سرہٗ کا یہ ملفوظ نقل فرمایا ہے: ’’جس نے لوگوں سے دوری اختیارکی اورتنہائی کو پسند کیا وہ اگر ٹھیکری (مٹی کے برتن کا بے وقعت ٹکڑا) بھی ہوگا تو ہیرا بن جائے گا، اور جو لوگوں کے ساتھ تعلقات کا خواہاں ہوتا ہے اور یارانہ گانٹھنے کا شوقین ہوتا ہے وہ اگر ہیرا بھی ہوگا تو ٹھیکری بن جائے گا۔‘‘ غارِحراء کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم لوگ واپس مسجدِحرام آگئے، اور چونکہ اگلے دن ہی مدینہ منورہ جانا تھا، اس لیے کوشش یہ رہی کہ جو مختصر وقت ہمارے پاس ہے ا س کا بیشترحصہ مسجدِحرام کی بابرکت فضاء میں گزر جائے، چنانچہ پوری رات مسجدِ حرام میں رہے، اور اگلے دن مدینہ منورہ جانے کا پروگرام بنایا۔ کعبۃ اللہ کا الوداعی طواف ہمیں چونکہ بہت مختصر وقت کے لیے جامعۃ الملک سعود ریاض سے عمرہ اور زیارتِ حرمین شریفین کے لیے تحریری اجازت نامہ ملا تھا، جس کے تحت ہم بروز منگل ۱۷؍ ربیع الاول کو ریاض سے روانہ ہوگئے تھے، اور بروز ہفتہ ۲۱؍ ربیع الاول کو واپس ریاض پہنچ کر جامعہ میں صبح کے وقت اپنے اسباق میں حاضری دینی تھی، اس مختصر وقت میں ہمیں عمرہ بھی کرنا تھا، اور مدینہ منورہ جاکر مسجد نبوی اور روضۂ اقدس پر حاضری بھی دینی تھی، اس لیے بروز جمعرات ۱۹؍ ربیع الاول ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۲؍ نومبر ۱۹۸۷ء رخصت ہونے کے ارادہ سے کعبۃ اللہ کا طواف کرکے ملتزم پر آکر حزن وملال اور اس دعاکے ساتھ رخصت ہوئے کہ: ’’یااللہ! یامجیب الدعوات! بار بار صحت وعافیت، ایمان و یقین اور استقامت و مخلصانہ محبت کے ساتھ حاضری کی توفیق عنایت فرما۔‘‘ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے بچپن سے جو تمنائیں دل میں موجزن تھیں ان تمناؤں کی تکمیل اگرچہ اتنے مختصر وقت میں نہیں ہوسکتی تھی اورہمیں ایک مختصر حاضری کے بعد دوبارہ فراق وجدائی کا حزن وملال لاحق تھا، اور دل میں ایک بے چینی کی کیفیت تھی، اس بے چینی کی کیفیت میں احقر کبھی اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا کہ تم اتنے مختصروقت میں کیوں واپس جارہے ہو؟ اُدھر سے جواب ملتاکہ جب وقت ہی مختصر ملا تو اب کیا کہا جاسکتا ہے؟ میرے اس ’’مکالمۂ نفسی ‘‘ پر حافظ شیرازی ؒ کا مندرجہ ذیل شعر منطبق ہورہا تھا: گفتم کہ نہ وقتِ سفرت بود چنین روز گفتا کہ مگر مصلحتِ وقت چنیں بود دردِ فراق کی وجہ سے اگرچہ ہمیں غیراختیاری ملال لاحق تھا، تاہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام پر کہ اس نے اپنے دربار میں حاضری، کعبۃ اللہ کی زیارت اورطواف اورغلافِ کعبہ پکڑنے کا موقع عنایت فرمایاہے، ہمارے قلوب غمِ فراق کے ساتھ ساتھ شکرِخداوندی کے جذبات سے بھی لبریز تھے، اور بقول شاعرہماری کیفیت کچھ اس طرح بھی تھی: نازم بچشم خود کہ جمالِ تو دیدہ است

افتم بہ پائے خود کہ بہ کویت رسیدہ است ہر دم ہزار بوسہ دہم دست خویش را

کودامنت گرفتہ بہ سویم کشیدہ است ترجمہ ومفہوم :’’مجھے اپنی آنکھوں پرفخرہے جنہوں نے آپ کے جمال کانظارہ کیا ہے، میرا جی چاہتاہے کہ ہرگھڑی اپنے ہی ہاتھوں کو ہزاروں بوسے دیاکروں، کیونکہ انہوں نے آپ کا دامن پکڑکر میری طرف سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ مدینہ منورہ روانگی بروز جمعرات کعبۃ اللہ کاالوداعی طواف کرنے کے بعدمدینہ منورہ کی حاضری کے ارادہ سے ہم چاروں روانہ ہوگئے، راستہ میں کبھی یہ تصور قائم ہوتا کہ حرمین شریفین کے درمیان کا راستہ آقائے دو جہاں a نے اپنے یارِغارورفیقِ سفر حضرت ابوبکرصدیق q کی معیت میں ہجرت فرماتے ہوئے کتنی مشقت کے ساتھ طے کیا تھا! اور آج ان کی قربانیوں کی بدولت وہی راستہ ہم لوگ کتنی آسانی اور امن وامان کی فضا میں طے کررہے ہیں! ان نعمتوں کا شکر ہم کیسے ادا کریں گے! اور کبھی ان پہاڑیوں اور ریگستانوں کو جو اپنی پرانی حالت پر باقی تھے اور نئے نئے روڈوں اور جدیدتعمیرات نے ان کے حلیہ کو متاثر نہیں کیا تھا، اس وجہ سے ہم خصوصی طور پر محبت و عقیدت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے کہ شاید مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان آتے جاتے ان پر نبی کریم a یا آپ کے صحابہ کرام s کے مبارک قدموں کے نشانات یا مبارک نظریں پڑی ہوں گی، ان ہی تصورات کے ساتھ جیسے جیسے ہم لوگ آگے بڑھتے رہتے، شوقِ مدینہ میں اضافہ ہوتا رہتا: کسی چیز کی اس کو حسرت نہیں ہے میسر ہو جس کو غبارِ مدینہ مسجدِ قبا کی زیارت اور اس کا ذکرِخیر ہم لوگ حسبِ توفیق درودشریف کا وِرد کرتے ہوئے مندرجہ بالا تصورات کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف والہانہ انداز میں بڑھ رہے تھے، یہاں تک کہ عصر تک محلہ ’’قبائ‘‘ میں پہنچ کر عصر کی نماز ’’مسجدقبائ‘‘ میں ادا کی، قباء نبی کریم a کے دور میں مدینہ منورہ کی بالائی جانب تقریباً تین میل کے فاصلہ پر واقع ایک گاؤں کا نام تھا، جہاں قبیلہ بنی عمروبن عوف کے لوگ آباد تھے، اب وہ مدینہ منورہ میں شامل ہوگیا ہے، بخاری شریف جلداول، صفحہ نمبر: ۵۵۹ تا ۵۶۰کی روایت کے مطابق آپ a نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل یہاں پر قیام فرمایا تھا، اور چودہ دن رہے تھے، بخاری شریف جلداول، صفحہ:۵۵۵ کی ایک اور روایت کے مطابق آپ a نے اسی دوران اُس مسجد (مسجدِقبائ) کی بنیاد رکھی، جس کے بارہ میں (قرآن پاک کے اندر) فرمایا گیا ہے: ’’أُسِّسَ علی التقویٰ‘‘ یعنی وہ مسجدجس کی بنیادتقویٰ پررکھی گئی ہے، اور حافظ ابن کثیر v نے ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘ جلد ثانی، صفحہ:۵۹۹ پر ایک حدیث کے حوالہ سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس مسجدمیں جانبِ قبلہ کی نشاندہی نبی کریم a کے سامنے حضرت جبریل m نے فرمائی تھی، اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں عام مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے یہی مسجد بنائی گئی، ہاں! ایک مسجد اس سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق q نے مکہ مکرمہ میں اپنے گھر کے دروازہ کے پاس ضرور بنائی تھی، لیکن وہ صرف اپنی ذاتی عبادت کے لیے تھی، عام مسلمانوں کے لیے نہیں تھی، ابوبکر صدیقq کی اس مسجد کا تذکرہ بخاری شریف کی روایت میں صفحہ:۵۵۳ جلداول میں بھی موجود ہے۔ حاصل یہ! کہ ’’مسجدقبائ‘‘عام مسلمانوں کے لیے بنائی گئی سب سے پہلی مسجد ہے، اور نبی کریمa نے خود اس کی بنیاد رکھی ہے، اور اس کی تعمیر میں بھی حصہ لیا ہے، اس مسجد کا ذکر خیر قرآن پاک سورۂ توبہ آیت: ۱۰۸میں بھی موجود ہے، امام بخاریv نے حضرت عبداللہ بن عمرrکی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ a ہر ہفتہ کے دن کبھی سواری پر اور کبھی پیدل ’’مسجدِقبائ‘‘ تشریف لے جایا کرتے تھے، اور نبی کریم a کی اتباع میں خود حضرت عبداللہ بن عمرr بھی ہر ہفتہ کے دن ’’مسجدِقبائ‘‘ تشریف لے جایا کرتے تھے، اور وہاں پر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔ (بخاری شریف، ج:۱، ص:۱۵۹)  اسی طرح امام ترمذیؒ،امام نسائیؒ اورامام ابن ماجہ w نے حضرت اُسیدبن ظُہیرانصاری اورحضرت سہل بن حُنیف rکی روایت سے نبی کریم a کایہ ارشادنقل کیاہے : ’’مسجد قباء کی نمازکاثواب عمرہ کے ثواب کے برابرہے‘‘۔ (ترمذی،ج:۱،ص:۷۴۔ نسائی، ج:۱، ص:۱۱۴۔ ابن ماجہ:۱۰۲) مسجدِقباء کے مذکورہ بالا فضائل کو سامنے رکھتے ہوئے جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ مسجدِحرام، مسجدِنبوی اور مسجداقصیٰ کے بعد تمام مساجدمیں سب سے افضل مسجدِقباء ہے، ہم سب رفقائے سفر کو اس بات پر خوشی تھی کہ ہمیں اس مسجدکی زیارت اور اس میں نمازپڑھنے کی سعادت ملی، اور خود بخود ایک ایسی صورت بن گئی کہ ہمیں مسجدِ نبوی کے حدود تک پہنچنے سے قبل مسجدِ قباء کے حدودمیں عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے رُکنا پڑا، اور نبی کریم a کے سفرِہجرت کے ساتھ ایک ادنیٰ شباہت کی صورت پیدا ہوگئی، کیونکہ آپ a نے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے یہاں قیام فرمایا تھا۔ مسجدِقباء سے مسجدِنبوی کی حاضری کے لیے روانگی عصر کی نمازاورمسجدِ قباء کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم مسجدِ نبوی کی طرف روانہ ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد مسجدِ نبوی کے پُرنور میناروں اور مزید آگے چل کر باعظمت گنبدِ خضراء پر نظریں جم گئیں، دل دھڑکنے اور آنسو ٹپکنے لگے، اور آگے چونکہ مسجدنبوی اورروضۂ اقدس پرحاضری کا مرحلہ تھا، تو کبھی اس سوچ کا غلبہ ہوجاتا کہ آقائے دوجہاں a کے مواجہہ شریف پر اپنی بداعمالیوں اور اپنے گناہ گار وخطاکار چہرے کے ساتھ حاضری دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا، لہٰذا! اَقدامِ عالیہ کی جانب سے اپنی نظریں چھپاکر سلام پیش کرنا میرے حق میں مناسب ہوگا، پھر یہ خیال آتاکہ آپ a تو اپنی جان کے دشمنوں تک کو بھی معاف فرماتے تھے، اور آپ aکی مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے ہر شخص آپa کے اچھے سلوک وبلند اخلاق کو دیکھ کر یہ تصور کرتا کہ شاید آپa سب سے زیادہ مجھ سے محبت فرماتے ہیں، اور خود رب العزت نے آپa کے حق میں سورۂ توبہ آیت: ۱۲۸میں ارشاد فرمایا ہے:  ’’ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘ ترجمہ:’’وہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمندرہتے ہیں اور مسلمانوں پر نہایت شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔‘‘ اسی طرح سورۂ نساء آیت نمبر:۶۴ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ جَآؤُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّابًارَّحِیْمًا۔‘‘  ترجمہ: ’’اور جب لوگوں نے (تمہاری نافرمانی کرکے) اپنے اوپر ظلم کیا تھا، اگراسی وقت تمہارے پاس حاضرہوجاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اوررسول(a )ان کے لیے بخشش طلب کرتے تو یہ لوگ دیکھ لیتے کہ اللہ بڑاہی توبہ قبول کرنے والا مہرباں ہے۔‘‘ آیتِ مذکورہ کے حکم کا تعلق اگرچہ براہِ راست توکسی ایسی جماعت سے ہے جوآپ a کے زمانہ میں موجودتھی،تاہم اربابِ علم اس کاتعلق کسی نہ کسی طرح آپ a کے وصال کے بعد آپa کے مزارِ اقدس پرحاضری دینے والوں سے بھی جوڑدیتے ہیں ، یہاں تک کہ مشہور مفسّر و محدّث حافظ عمادالدین اسماعیل بن کثیرv (متوفّٰی۷۷۴ھ) نے اپنی مایۂ ناز تفسیر میں آیتِ مذکورہ کے تحت ’’عُتْبِی ‘‘ v کا یہ مشہور قصہ نقل کیا ہے: ’’میں نبی پاک a کے مزارِ اقدس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک صحرا نشین شخص آیا اور ’’السلام علیک یارسول اللّٰہ!‘‘ کہہ کر عرض کرنے لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد سنا ہے، جو فرماتے ہیں: ’’ وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ جَآؤُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘ اور میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اوراپنے پروردگار کے حضور میں آپ سے شفاعت کی التجاء کرتاہوں۔ پھرمندرجہ ذیل دونعتیہ شعر پڑھ کر چلا گیا: یَا  خیرَ  من  دُفِنَتْ  بالقاع  أعظُمُہٗ 

فطاب  من  طیبھنّ  القاعُ  و  الأکَم نَفسی  الفداء  لِقبرٍ  أنت  ساکنہٗ

فیہ  العفافُ  و فیہ  الجودُ  و الکرمُ ترجمہ: ’’اے ان تمام ہستیوں سے برتر ہستی! جن کی ہڈیاں (اجسام مبارکہ) ہموار زمین میں دفن ہوچکی ہیں، اور ان کی خوشبوسے ہموار زمین وپہاڑیاں مہک اُٹھی ہیں، میری جان قربان ہو اس قبر پر جس میں آپ آرام فرما رہے ہیں، اس قبر میں تو پاک دامنی اور جود و کرم سب قیام پذیر ہیں۔‘‘ عُتبِی v کہتے ہیں کہ وہ شخص توچلا گیا اور مجھے نیند آگئی اورخواب میں نبی کریم a کی زیارت ہوئی، آپa نے مجھ سے فرمایا: اے عُتبِی! اس صحرا نشین شخص سے جاکر ملو اور یہ خوشخبری سنادو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرمادی۔‘‘                    (تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۶۳۵، مطبوعہ ریاض) احقر کہتا ہے کہ اس موقع پر اُس مرفوع حدیث نبوی کی طرف بھی ذہن منتقل ہوا جس میں آپa کی وفات کے بعد آپa کی قبرمبارک پرحاضری دینے کی ترغیب دی گئی ہے، اور اُس حاضری کو آپa کی شفاعت کا ذریعہ قراردیا گیا ہے، مذکورہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ مروی ہے، اور ہر سند پر انفرادی طور پر اگرچہ محدثین نے کلام کیاہے، تاہم امام ذہبی، ابوعلی بن السکن ، تقی الدین سبکی اورشیخ عبدالحق w جیسے محدثین نے کثرتِ طرق کی بنیاد پر اس کی اہمیت ومضبوطی کو تسلیم کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو : التلخیص الحبیرلابن حجر، ج:۲، ص:۵۷۰، مطبوعہ بیروت۔ فیض القدیرشرح الجامع الصغیر للمناوی، ج:۶، ص:۱۴۰، مطبوعہ بیروت) مذکورہ بالا وجوہات اور اُمتِ مسلمہ کاقرناً بعدقرنٍ آپ کے مزارِ اقد س پر حاضری دینے کے لیے سفرکرنے کے تعامل کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہور علماء نے اس حاضری کو افضل المندوبات اور اعظم القربات بلکہ بعض نے تو (اہل استطاعت کے لیے) واجب قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: معارف السنن للشیخ العلّامۃ البنوری، ج: ۳، ص:۳۲۹تا۳۳۵) خلاصہ یہ کہ مسجدِ قباء اور مسجدِ نبوی کے درمیان کا راستہ طے کرنے کے دوران اپنی کوتاہیوں پر غور کرتا ہوا شروع شروع میں اپنے اندر یہ ہمت نہیں پارہا تھا کہ مسجدِنبوی میں حاضری کے بعد سلام پیش کرنے کے لیے مواجہہ شریف پر حاضری دوں گا، بلکہ اپنے حق میں یہی بہتر سمجھتا تھا کہ اَقدامِ عالیہ کی جانب سے سلام پیش کروں گا، لیکن جب مندرجہ بالا امور کا اجمالی طور پر ذہن میں استحضار ہوا تو کچھ ہمت سی پیدا ہوگئی، اور یہ بات ذہن نشین ہونے لگی کہ اپنی زیادتیوں اور بداعمالیوں کے باوجود نبی کریمa -جن کی صفت ’’ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ ہے - کے دربارِ عالی میں شرمندگی و ندامت کے احساس کے ساتھ مواجہہ شریف کی جانب سے حاضر ہونا مناسب رہے گا۔ روضۂ مبارک پر حاضری اور سلام پیش کرنے کی سعادت روضۂ اقدس پر جب مواجہہ شریف کی جانب سے سلام پیش کرنے کا مرحلہ سامنے آیا، اور یہ تصور بھی قائم ہوگیا کہ آج تو صیغۂ حاضر کے ساتھ صلاۃ وسلام پیش کرنے کا موقع نصیب ہورہا ہے، اور اس حدیث کا تصور بھی جو امام احمدبن حنبل اور امام ابوداؤد E نے مضبوط سندکے ساتھ حضرت ابوہریرہq کی روایت سے نقل کی ہے کہ آپ a ایسے موقع پر سلام کا جواب بھی عنایت فرماتے ہیں۔ (التلخیص الحبیر، ج:۲، ص:۵۷۰) اس تصور سے دل ودماغ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوگئی جس سے وہ ساری تمنائیں اور حاجتیں ذہن سے غائب ہوگئیں جن کے متعلق چلتے وقت یہ منصوبہ بنایا تھاکہ روضۂ اقدس پر حاضری کے دوران سلام پیش کرنے کے بعد ان تمناؤں اورحاجتوں کے حصول کے لیے آپ a کے توسل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاکروں گا، اس لیے کہ بارگاہِ نبوی میں حاضری کی تمناجب پوری ہوگئی تو ایسا محسوس ہونے لگاکہ تمام تمنائیں پوری ہوگئیں، اب مزیدکسی تمنا کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اُس وقت حافظ شیرازیv کا یہ شعر میری کیفیت پر منطبق ہورہا تھا: اربابِ حاجتیم وزبانِ سوال نیست در حضرتِ کریم تمنا چہ حاجت است؟ ترجمہ ومفہوم : ’’ہم حاجت مندتوبے شک ہیں، لیکن زبان میں سوال کرنے کی ہمت نہیں رہی، کیونکہ دربارِ کریم میں حاضری کی تمنا جب پوری ہوگئی تو مزید کسی تمنا کی ضرورت کیا ہے؟۔‘‘ بہرصورت! صلوٰۃ وسلام کے کلمات عربی زبان میں ذراپست آوازکے ساتھ پیش کرنے کے بعد دل نے چاہا کہ فارسی زبان میں مولاناعبدالرحمن جامی v (متوفّٰی۸۹۸ھ) کے اس قصیدہ نعتیہ میں سے چندمنتخب اشعار پڑھنے کی کوشش کروں جو بتیس اشعار پر مشتمل اور ان کی مشہور و معروف کتاب ’’یوسف زلیخا‘‘ کے شروع میں درج ہے، میں نے بچپن میں اپنے والد ماجد قدس سرہٗ کے پاس ’’یوسف زلیخا‘‘ پڑھتے ہوئے وہ قصیدہ پڑھا تھا، اور والد ماجد مجھے پڑھاتے ہوئے یا کبھی خود اُسے پڑھتے ہوئے آنسوبھی بہاتے تھے، اس قصیدہ سے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قدس اللہ سرہٗ العزیز نے ’’‘فضائل درودشریف‘‘ میں اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب قدس سرہٗ کی زبانی ایک قصہ نقل کیا ہے جو نیچے درج کیا جا رہا ہے: مولاناعبدالرحمن جامی v کے قصیدہ نعتیہ کا قصہ ’’مولاناجامیؒ یہ نعت کہنے کے بعد جب ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے توان کا ارادہ یہ تھا کہ روضۂ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر اس نظم کو پڑھیں گے، جب حج کے بعد مدینہ منورہ کی حاضری کا ارادہ کیا تو امیرِ مکہ نے خواب میں حضور اقدس a کی زیارت کی، حضوراقدس a نے خواب میں ان کو یہ ارشاد فرمایا کہ اس کو (جامی کو) مدینہ نہ آنے دیں، امیرِمکہ نے ممانعت کردی، مگر ان پر جذب وشوق اس قدر غالب تھا کہ یہ چھپ کر مدینہ کی طرف چلے، امیرِمکہ نے دوبارہ خواب دیکھا! حضورa نے فرمایا: وہ آرہا ہے، اس کو یہاں نہ آنے دو، امیر نے آدمی دوڑائے اور ان کو راستہ سے پکڑواکر بلایا، ان پر سختی کی اور جیل خانہ میں ڈال دیا، اس پر امیر کو تیسری مرتبہ حضور اقدسa کی زیارت ہوئی، حضور a نے ارشاد فرمایا کہ: یہ کوئی مجرم نہیں بلکہ اس نے کچھ اشعار کہے ہیں جن کو یہاں آکر میری قبر پر کھڑے ہوکر پڑھنے کا ارادہ کررہا ہے، اگر ایسا ہوا تو قبر سے مصافحہ کے لیے ہاتھ نکلے گا جس میں فتنہ ہوگا، اس پر ان کو جیل سے نکالا گیا اور بہت اعزاز و اکرام کیا گیا۔‘‘                  (فضائل درودشریف، ص:۱۱۲،۱۱۳) اس قصیدہ کے چند منتخب اشعار یہ ہیں: ۱ زِ مہجوری برآمد جان عالَم ترحَّم یانبیَّ اللہ! ترحّم ۲ نہ آخر رحمۃٌ للعالمینی زِ محروماں چرا غافل نشینی ۳ بروں آور سرا از بُرد یمانی کہ روئے تُست صبحِ زندگانی ۴ اگرچہ غرقِ دریائے گناہم فتادہ خشک لب برخاکِ راہم ۵ تو ابرِ رحمتی آن بہ کہ گاہے کنی برحالِ لب خشکاں نگاہے ۶ قضا می افگند از راہ مارا خدارا از خدا در خواہ مارا ۷ کہ بخشد از یقیں اول حیاتے دہد آنگہ بکارِ دیں ثباتے ۸ کند باایں ہمہ گمراہیٔ ما ترا اذنِ شفاعت خواہیٔ ما ترجمہ ومفہوم:  ’’۱-آپ کے فراق سے کائناتِ عالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے، اے رسولِ خدا! نگاہ ِ کرم فرمایئے!۔ ۲-آپ تورحمۃ للعالمین ہیں، ہم بے نصیبوں سے آپ کیسے تغافل فرماسکتے ہیں؟  ۳-اپنے سر مبارک کو یمنی چادروں کے کفن سے باہر نکالیے، کیونکہ آپ کا چہرۂ انور نئی زندگی عطا کرتا ہے۔  ۴- اگرچہ میں گناہوں کے دریا میں غرق ہوں، لیکن خشک ہونٹوں کے ساتھ آپ کی گردِ راہ میں پڑا ہوا ہوں۔ ۵- آپ چونکہ ابرِ رحمت ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ کبھی تو تشنہ لبوں پر ایک نگاہِ کرم ڈال دیں۔  ۶-تقدیر ہمیں صراطِ مستقیم سے بھٹکا رہی ہے، خدارا! ہمارے لیے خداوندِ قدوس سے دعا فرمایئے! ۷-(دعا یہ فرمایئے) کہ اللہ تعالیٰ اولاً تو ہمیں یقینِ کامل کی زندگی بخشے، اور پھر دینی کاموں میں ثابت قدمی عطا فرمائے۔  ۸-(اور یہ بھی دعافرمایئے) کہ اللہ تعالیٰ ہماری تمام برائیوں کے باوجود آپ کو ہماری شفاعت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائے۔‘‘ اس قصیدے نے چونکہ بچپن ہی سے اپنے والد ماجد کی کیفیت کو دیکھ کر احقر کو متأثر کردیا تھا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ کبھی دوسروں سے سن کر اور کبھی خود تنہائیوں میں پڑھتے ہوئے اور حضرت شیخ الحدیث قدس سرہٗ کے نقل کردہ مذکورہ بالا قصہ پر غور کرتے ہوئے اس تأثر میں اضافہ ہوتا رہا، اس پرانی مناسبت نے ا س بات پر آمادہ کردیا کہ آستانۂ سرکارِ دو عالم a پر حاضری کے وقت اس قصیدے میں سے چند وہ منتخب اشعار جو زبانی یاد ہوگئے تھے پڑھنے کی کوشش کروں، لیکن ہوا یہ کہ صرف ایک دو شعر رُک رُک کر پڑھنے کے بعد زبان گنگ ہوگئی اور مزید پڑھنے سے اپنی عاجزی ظاہر کردی۔ زباں گنگ کیوں نہ ہوتی؟ جس دربار کی حاضری کو اللہ تعالیٰ کا مقرب فرشتہ حضرت جبریلm اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہو، جس ہستی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمایا ہو کہ : ’’اے ایمان والو! اپنی آواز یں پیغمبرکی آواز سے اونچی نہ کیا کرو، اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، اس طرح ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو، (ایسا نہ ہوکہ) تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو‘‘۔         (الحجرات:۲)  اور جس ذاتِ اقدس کے دربار میں حضرت ابوبکرصدیق q پر گریہ طاری ہوتا ہو، اور ام المؤمنین حضرت عائشہ tنے ان سے متعلق یہاں تک فرمایا ہو کہ:’’إذا قام فی مقامک لم یُسمع الناسَ من البکائ‘‘ یعنی ابوبکر q کی توحالت یہ ہے کہ اگر نماز پڑھانے کے لیے آپ a کی محراب میں کھڑے ہوگئے تو شدتِ گریہ کی وجہ سے لوگوں کو تکبیر و قرأت سنانے پر قادر نہیں ہوسکیں گے۔ (بخاری شریف،ج: ۱،ص:۹۳) اور جن کی مجلس میں حضرت عمربن الخطاب q اور دیگر صحابہ کرامs بات کرتے ہوئے کانپتے ہوں! ان کے آستانے کے سامنے گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوا پندرہویں صدی ہجری کے پُرفتن اور دور اُفتادہ زمانے کا ایک سیاہ کار شخص کس طرح لب کشائی کرسکتا ہے؟ بشارتِ غیبی کا ایک واقعہ احقر اس مضمون ’’حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری‘‘ کو اپنی تحریری اور ذہنی یادداشتوں کی روشنی میں ترتیب دینے لگا تھا اور شروع سے ’’روضۂ اقدس پر حاضری اور سلام پیش کرنے کی سعادت‘‘ والے عنوان تک لکھ چکا تھا، اور مذکورہ عنوان کے تحت بھی کچھ حصہ لکھ چکا تھا اور مزید لکھنے میں مصروف تھا کہ اسی دوران بروز منگل ۲۸؍ ذو الحجہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء فجر کی نمازکے بعد اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی اور اسکرین پر ایک ایسا نمبر ظاہر ہوگیا جو میرے پاس محفوظ نہ تھا، میری پوری توجہ چونکہ روضۂ اقدس پر پہلی حاضری کی یادوں کی طرف مرکوز تھی، اس لیے ایک مرتبہ تو سوچا کہ فون ہی وصول نہ کروں اور اپنی یادوں کے سلسلہ کو ٹوٹنے نہ دوں، پھر خیال آیا کہ یہ تو کسی مسلمان بھائی کے ساتھ ناانصافی ہوگی، لہٰذا میں نے فون وصول کرکے سلام کیا، اُدھرسے جواب کے بعد آواز آئی: ’’میں حرمین شریفین کی پہلی حاضری میں آپ کا رفیقِ سفر محمداشرف علی سرگودھا سے بول رہا ہوں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ میری کیفیت کچھ عجیب سی ہوگئی، اس لیے کہ یہ ان ہی تین رفقائے سفر میں سے ایک تھے جن کا ذکرِ خیر اس سے پہلے اس مضمون میں کرچکا ہوں، ایک ایسے موقع پر کہ میں حرمین شریفین کی پہلی حاضری سے متعلق تقریباً اٹھائیس سال گزرنے کے بعد مضمون لکھنے میں مصروف تھا اور مواجہہ شریف پر حاضری کا موضوع چل رہا تھا، غیرمتوقع طور پر مولانا کی آواز اور ان کی زبان سے حرمین شریفین کا تذکرہ سن کر اُسے فالِ نیک اور بشارتِ غیبی سمجھا، اور مولانا کو اُسی وقت اس صورتِ حال سے آگاہ کردیا کہ احقر اس وقت مواجہہ شریف پر حاضری کے عنوان کے تحت کچھ لکھ رہا تھا اور آپ میری یادوں میں میرے ساتھ تھے، مولانا نے فرمایا کہ: میں نے اپنی مسجدمیں فجر کی نماز پڑھائی، پھر درسِ قرآن دیا، اس کے بعد اُسی جائے نماز پر بیٹھا ہوا نمازِ اشراق کے انتظار میں کچھ وظائف و اَوراد پڑھ رہا تھا کہ آپ کی رفاقت میں حرمین شریفین کی پہلی حاضری اور جبلِ نور پر آپ کے چڑھنے کا انداز یاد آیا اور اس یاد نے آپ کو فون کرنے پر مجبور کردیا، چنانچہ جائے نماز ہی سے آپ کو فون کررہا ہوں، اس موقع پر جانبَین پر کچھ رِقّت کی کیفیت بھی طاری ہوگئی، اور ہر ایک نے دوسرے سے دعا کی درخواست پر بات ختم کردی۔ واضح رہے کہ ماہِ ربیع الاول۱۴۰۸ھ کو یہ یادگار سفر ہوا تھا، اور ا س کے بعد تادمِ تحریر تقریباً اٹھائیس سال کا عرصہ گزرچکا ہے، اس دوران مولانا سے صرف دو مختصر ملاقاتیں ہوچکی ہیں، اور چند سال قبل ایک مرتبہ فون پر بھی رابطہ ہوا تھا، اس کے بعد نہ تو آپس میں کوئی مستقل رابطہ تھا، نہ ہی میرے اس مضمون کی مولانا کو کوئی خبر تھی، اس کے باوجود اچانک رابطہ کرنے کو بشارتِ غیبی اورفالِ نیک کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو ہر پڑھنے والے کے لیے مفید اور لکھنے والے کے لیے دارَین کی کامیابی اورنبی کریم a کی شفاعت کا ذریعہ بنادے۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق q کے مرقد کے سامنے مواجہہ شریف پر حاضری کے بعد تقریباً ایک ہاتھ کے بقدر داہنی طرف کو کھسک کر حضرت ابوبکر صدیق q کو دبی ہوئی آواز میں سلام پیش کرنے کی کوشش کی، اس موقع پر یہ تصور قائم رہا کہ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے نبی کریم a کی نبوت کی تصدیق اس کے آغازکے ساتھ ہی کی تھی، اور آپ a کی دعوت پر ابتداء ہی سے لبیک کہا تھا، اور جب مسلمانوں پر مکہ مکرمہ کی زمین اتنی تنگ کردی گئی کہ اپنے دین پر قائم رہنا اُن کے لیے شوارہوگیا اور وہ اللہ ورسول a کے حکم سے ہجرت کرنے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق q کا یہ امتیاز رہا کہ جب اُنہوں نے نبی کریم a سے ہجرت کرنے کی اجازت طلب کی، آپؓ نے فرمایا: ’’لاتعجل لعلّ اللّٰہ أن یجعل لک صاحبًا‘‘ یعنی آپ اکیلے ہجرت کرنے کی جلدی نہ کیجئے، ہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی رفیقِ سفر بھی عنایت فرمادیں۔ (البدایۃ والنھایۃ، ج: ۲، ص:۵۶۰، ط:دارالفکر بیروت) صدیق اکبر q سمجھ گئے کہ وہ عظیم الشان رفیقِ سفر آپ a ہی ہوں گے، چنانچہ اس وقت رُک گئے اور پھر آپ a کی معیت میں ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کرلی، اور تین دن تک ’’غارِثور‘‘ میں بھی ساتھ رہے، جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح فرمایا ہے: ’’إِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔‘‘                               (التوبۃ:۴۰) ’’یعنی اگر تم ان کی (نبی a کی) مدد نہیں کروگے (تو کوئی پروا نہیں کیونکہ)اللہ نے تو اس وقت ان کی مدد کی جب کافروں نے اس حال میں ان کو(مکہ سے )نکالاتھاجب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غارمیں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ کچھ غم نہ کرو ، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ حضرت صدیق اکبر q نے غارِ ثور کے اندر نبی کریم a کے ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جاں نثار خادم ہونے کا شرف بھی حاصل کرلیا، انہوں نے نبی کریم a کے آرام وراحت کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا، غارِ ثور میں نبی کریم a کے قیام اور صدیق اکبر q کی خدمت گزاری سے متعلق اصحابِ سِیر نے جو لکھا ہے، اس کا خلاصہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی قدس سرہٗ نے ’’تفسیرعثمانی‘‘ میں اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’یہ غار پہاڑ کی بلندی پر ایک بھاری مجوّف چٹان ہے، جس میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ تھا وہ بھی ایسا تنگ کہ انسان کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر اس میں گھس نہیں سکتا، صرف لیٹ کر داخل ہونا ممکن تھا، اول حضرت ابوبکرq نے اندر جاکر اُسے صاف کیا، سب سوراخ کپڑے سے بندکیے کہ کوئی کیڑا کانٹا گزند نہ پہنچاسکے، ایک سوراخ باقی تھا، اُس میں اپنا پاؤں اَڑادیا، سب انتظام کرکے حضورa سے اندر تشریف لانے کو کہا، آپ a صدیق کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرما رہے تھے کہ سانپ نے ابوبکرq کا پاؤں ڈَس لیا، مگر صدیق ؓ پاؤں کو حرکت نہ دیتے تھے، مبادا حضورa کی استراحت میں خلل پڑے، جب آپ a کی آنکھ کھلی اور قصہ معلوم ہوا تو آپa نے لعابِ مبارک صدیقؓ کے پاؤں کو لگادیا، جس سے فوراً شفا ہوگئی۔                 (تفسیرعثمانی،سورۃ التوبۃ) حضرت ابوبکرصدیق q کی قربانیوں اور اخلاص کا احاطہ کرنا تو بہت مشکل ہے، البتہ مندرجہ ذیل ایک واقعہ جو امام ترمذیv نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیاہے، نمونہ کے طور پر درج کیا جارہا ہے، جس سے ان کے اخلاص کا ایک حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے: ’’حضرت عمر q کہتے ہیں کہ (غزوۂ تبوک کے موقع پر) ہمیں رسول اللہ a نے صدقہ کرنے کا حکم دے دیا اور اتفاق سے اُ س وقت میرے پاس کچھ مال موجود تھا، میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ آج میں ابوبکرؓ سے (اس کارِ خیر میں) سبقت کروں گا اگریہ ممکن ہوسکا، پس میں نے اپنے پورے مال میں سے آدھا مال لاکر حضورa کی خدمت میں پیش کیا، رسول اللہ a نے مجھ سے پوچھاکہ اپنے گھروالوں کے لیے کتناباقی رکھا؟میں نے کہاجتنالایاہوں اتناہی ان کے لیے بھی چھوڑا ہے، اور (اتنے میں )ابوبکرؓجوکچھ ان کے پاس تھاوہ ساراہی لے کرحاضرہوئے، پس نبی a نے ان سے پوچھاکہ اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کتناباقی رکھا؟ صدیق ؓ نے کہا: ان کے لیے میں نے اللہ اوراس کے رسول کوباقی رکھاہے،(یعنی اللہ و رسول کی رضامندی ان کے لیے کافی ہے) حضرت عمرq کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے دل میں ) کہا کہ میں ابوبکرؓ سے کبھی بھی کسی کارِخیرمیں سبقت نہیں کرسکتا۔‘‘                                            (ترمذی شریف،ج: ۲،ص:۲۰۸،ط:قدیمی کتب خانہ) مذکورہ بالاروایت کامفہوم علامہ اقبال vنے ’’بانگِ درا‘‘میں ’’صدیقؓ‘‘کاعنوان لگاکر اپنے مخصوص اور مؤثر انداز میں ایک قصیدے کے اندربیان کیاہے،روایتِ بالاکے اندرحضرت ابوبکرq کے آخری جملہ کے مفہوم کو علامہ نے اپنے قصیدے کے آخری شعر میں جس اندازپرذکرکیاہے وہ شعرایساہے کہ احقرجب بھی رسول اللہ a کے ساتھ حضرت صدیقqکی محبت، وفاداری،غارِ ثور میں رفاقت اور پھر آخری آرام گاہ میں بھی آپ a کے جوارمیں جگہ پانے کی سعادت کاتصور کرتاہے تو وہ شعر ضرور یاد آتا ہے: پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول بس حضرت صدیق اکبرq کی اسلامی زندگی پر اگر غور کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ نبی کریمa  کی نبوت کے آغازہی سے وہ شروع ہوتی ہے اور حضرت ابوبکرq کو تقریباً ۲۳؍ سال تک مسلسل آقائے نامدارa کے زیرِسایہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے، اس دوران صدیق اکبر q ہرہر نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے، اور جب نبی کریم a کا وصال ہوجاتاہے توآپa کی امانت سنبھالنے کے لیے تقدیرِ خداوندی ان کو مزیددوسال تین مہینے کی مہلت دے دیتی ہے، اور جیسے ہی صدیق q کی پوری زندگی ۶۳؍سال تک پہنچ کر نبی کریم a کی عمرِمبارک کے مطابق ہوجاتی ہے تووہ خلافت کے لیے حضرت عمرفاروقq کو نامزد کرتے ہوئے اپنی جان کو مولائے کریم کے سپردکردیتے ہیں ، اور تقدیرِ خداوندی آخری آرام گاہ کے طور پر ان کوجوارِ نبی a میں جگہ عطا کرتی ہے، ابوبکر صدیقq کی پوری زندگی پر غور کرنے والوں کو وہ حدیثِ نبوی بھی خود بخود یاد آتی ہے جس میں حضرت صدیقq کو جنت میں داخل ہونے کے لیے اس کے آٹھوں دروازوں سے بلائے جانے کی بشارت سنائی گئی ہے۔              (بخاری شریف،ج:۱،ص:۵۱۷، ط:قدیمی کتب خانہ) خلیفۂ ثانی حضرت عمرفاروق q کے مرقدکے سامنے آستانۂ صدیقی پرحاضری کے بعد پھرایک ہاتھ کے بقدرداہنی طرف کھسک کر حضرت عمر فاروق q کوپست آواز اورجھکی ہوئی نظروں کے ساتھ سلام پیش کرنے کی کوشش کی، اس موقع پر یہ تصور قائم رہا کہ جب نبی کریم a نے مندرجہ ذیل خصوصی دُعا فرمائی تھی: ’’أللّٰھم أعِزَّالاسلام بأحبّ ھذین الرجلین إلیک بأبی جھل أو بعمر بن الخطاب۔‘‘ یعنی ’’اے اللہ!اسلام کوقوت پہنچاابوجہل اورعمربن الخطاب میں سے جوشخص آپ کے نزدیک زیادہ محبوب ہواس کے ذریعہ۔‘‘    (ترمذی شریف،ج:۲،ص:۲۰۹، ط:قدیمی کتب خانہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی a کی مذکورہ دُعاحضرت عمرq کے حق میں قبول کرکے یہ واضح فرمادیا کہ میرے نزدیک ان دونوں میں سے محبوب عمربن الخطابq ہیں،اس خصوصی دُعاکے بعد صرف یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کواسلام کی دولت سے نوازا، بلکہ اسلام کوان کے ذریعہ تقویت بھی پہنچائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودq فرماتے ہیں:’’مازلنا أعزّۃً منذ أسلم عمرؓ۔‘‘ یعنی ’’جب سے حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا ہم برابرطاقتوراورباعزت رہے۔‘‘(بخاری شریف،ج: ۱،ص:۵۲۰، ط:قدیمی کتب خانہ) ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودq نے فرمایا: ’’بے شک حضرت عمرq کااسلام دین کے لیے قوت بنا، اوران کی ہجرت اسلام کے لیے کامیابی اورمددکا ذریعہ بنی، اور ان کی خلافت رحمت ثابت ہوئی،اللہ کی قسم ! ہم خانہ کعبہ کے پاس اعلانیہ طورپرنمازپڑھنے پرقادرنہیں تھے یہاں تک کہ حضرت عمرqنے اسلام قبول کیا، اور جب انہوں نے اسلام قبول کیاتومشرکین کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم علانیہ طور پر خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے لگے۔‘‘                                                (کنزالعمال، ج:۶، ص:۲۶۸) حضرت عبداللہ بن عمرrکہتے ہیں کہ رسول اللہ a نے ارشادفرمایا: ’’بے شک اللہ نے عمرکی زبان پر اوران کے دل میں حق کوجاری کردیا ہے۔‘‘ آگے حضرت ابن عمرr کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی ایسا اہم معاملہ سامنے آتا کہ لوگ اس میں اپنی آراء ظاہر کردیتے اور حضرت عمرq بھی اپنے رائے ظاہرکردیتے توقرآن اس رائے کے مطابق نازل ہوتاجوحضرت عمرq پہلے دے چکے ہوتے۔       (ترمذی شریف،ج:۲،ص:۲۰۹، ط:قدیمی کتب خانہ) اوربخاری ومسلم کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرq نے فرمایا:’’تین احکام میں اللہ کے منشأ کے مطابق میری رائے نکلی: مقام ابراہیم،حجاب اوربدرکے قیدیوں سے متعلق۔‘‘                                       (متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ المصابیح، ص:۵۵۸، ط:قدیمی کتب خانہ) حضرت عمرq کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اہلِ باطل پر ہمیشہ ان کا رعب و دبدبہ قائم رہتا تھا، اور ان کے مقابلہ کے لیے اہلِ باطل تیار نہیں ہوسکتے تھے، اور اگر کبھی مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ بھی ہوجاتے تو شکست ہی ان کی مقدّر بن جاتی، عام اہلِ باطل کو تو چھوڑیئیـ! شر و فساد کا سرغنہ اور تمام برائیوں کی بنیاد اور کفر و شرک کا سپہ سالار ابلیس لعین بھی تو حضرت عمرq کے خوف سے لرزہ براندام ہوکر راستہ بدل لیتا، چنانچہ نبی کریم a نے ایک مرتبہ حضرت عمر q کو مخاطَب کرتے ہوئے فرمایا : ’’والذی نفسی بیدہٖ مالقیکَ الشیطان قطُّ سالکاً فجًّا إلا سلک فجًّا غیرَ فجِّک۔‘‘ ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! شیطان جب بھی کسی گلی میں چلتاہواآپ کا سامنا کرتا ہے تو (آپ کے رعب سے ) اس گلی کو چھوڑ کر دوسری گلی سے چلنے کواختیار کرتا ہے ۔‘‘                                   (بخاری شریف،ج:۱،ص:۴۶۵)  فاروق اعظمq نے عدل و انصاف کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جو تاروز ِ قیامت آنے والے تمام اربابِ اقتدار کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں، کاش! مسلمانوں کے حکمران بلکہ ہر وہ مسلمان جس کو ادنیٰ سا اقتدار بھی حاصل ہو، چاہے کسی محکمہ کا ہو یا کسی ادارے کا، ادارہ بھی چاہے دینی ہو یا دنیوی! یہ تمام حضرات اگر فاروقِ اعظم ؓ کے عدل و انصاف کے واقعات اس نیت سے پڑھ لیتے کہ ہمیں ان کے طریقوں کو اپنانا ہے اور نبی کریم a کے اس فرمان ’’علیکم بسنتِی  وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین۔‘‘ یعنی’’لازم پکڑو میرا طریقہ اور راہِ راست پر چلنے والے راہِ حق پانے والے میرے خلفا ء کا طریقہ۔‘‘(ابو دائود شریف ،ج:۲،ص:۲۸۷) کے مطابق آپ aکی سنتوں کے ساتھ ساتھ آپ a کے خلفاء راشدینs کی سنتوں کو بھی مضبوطی سے پکڑنا ہے تو وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے اکثر مسائل خود بخود حل ہوجاتے، اور مسلمانوں کا ماحول جس طرح آج کل نظر آرہا ہے اس سے بالکل مختلف ہوتا۔ اس مختصر مضمون میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقq کے عدل و انصاف اور زہدو قناعت کے بے شمار واقعات میں سے نمونہ کے طور پر صرف تین واقعات قلمبند کیے جارہے ہیں :ـ  پہلاواقعہ ’’حضرت عمرq کے غلام اسلم ؒ روایت کرتے ہیں کہ ایک رات حسبِ معمول حضرت عمرq گشت فرما رہے تھے ، اچانک ایک عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے گھر میں پانی سے بھری ہوئی ہانڈی آگ پر چڑھائی ہوئی ہے اور آس پاس چھوٹے بچے ہیں جورورہے ہیں ۔ حضرت عمرq نے قریب آکر پوچھا : اے اللہ کی بندی! یہ بچے کیوں رورہے ہیں ؟ اس نے کہا : بھوک سے! فرمایا: اس ہانڈی میں کیا ہے ؟ کہا: اس میں پانی ہے ، البتہ اِن بچّوں کے ذہنوں میں‘ میں یہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہوں کہ اس میں آٹااور گھی ہے، تاکہ یہ خوشی خوشی میں سوجائیں۔حضرت عمرq یہ دیکھ کر رونے لگے، پھر دار الصدقہ جہاں صدقات کا سامان تھا تشریف لے گئے اور ایک بوری میں آٹا ، گھی ، چربی ، کھجور، کپڑے، اور کچھ سکّے بھردیئے، اور مجھ سے (اسلم سے) فرمانے لگے کہ: یہ بوری میری پشت پر رکھیے، میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین !آپ مجھے اٹھانے دیجئے، میں اٹھاؤںگا، فرمایا:اے اسلم ! کیسے ناسمجھ ہو! میں ہی اُٹھاؤں گا، اس لیے کہ قیامت میں مجھ ہی سے سوال ہوگا۔ بہر صورت! حضرت عمرq خود ہی وہ بوری اُٹھاتے ہوئے اس عورت کے گھر پہنچے اور خود ہی ہانڈی میں کچھ آٹا اور چربی اور کھجور ڈال کر ملاتے رہے اور آگ کو تازہ رکھنے کے لیے ہانڈی کے نیچے پھونکتے رہے ، اور چونکہ آپ کی داڑھی کافی بڑی تھی، اس لیے دھواں داڑھی کے درمیان میں سے نکلتا رہا، یہاں تک کہ کھانا تیار کردیا ،پھر اپنے ہاتھوں سے اُن بچوں کو کھلایا، یہاں تک کہ شکم سیر ہوگئے ،پھر (ان بچوں کو ہنسانے اور خوش کرنے کے لیے ) درندہ کی نقل اُتارتے ہوئے گھٹنوں کے بل بیٹھنے اور چلنے لگے (میں تو اس کیفیت کو دیکھ کر حیران ہوا) البتہ ان سے کچھ پوچھنا میرے بس میں نہ تھا، وہ برابر ان بچوں کے ساتھ اسی طرح رہے، یہاں تک کہ وہ بچے بھی کھیلنے اور ہنسنے لگے، پھر مجھ سے فرمایا کہ: اے اسلم! جانتے ہو میں نے درندے کی نقل ان بچوں کے سامنے کیوں اتاری؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا:میں نے ان کو روتے ہوئے دیکھا تھا اور ایسی ہی حالت میں ان کو چھوڑ کر جانا مجھے پسند نہیں تھا، یہاں تک کہ میں نے ان کو ہنستے ہوئے دیکھا تو میرا دل خوش ہوا۔‘‘  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین