بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حج کے ثمرات وبرکات اوران کے حصول کے اسباب

حج کے ثمرات وبرکات اوران کے حصول کے اسباب

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

    لاکھوں فرزندانِ توحید فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین پہنچ چکے ہیں اور کچھ پہنچنے والے ہیں، رحمت ِخداوندی اورمقاماتِ مقدسہ کے انورات سے بہرہ مند ہورہے ہیں، ہر تنگ وکشادہ مقام ومکان سے ’’لبیک أللّٰہمَّ لبیک‘‘ کی صدائیں گونج رہی ہیں، حجاج کرام عاشق زار کی طرح کعبۃ اللہ کے دیوانہ وار چکر لگارہے ہیں۔ اس لیے مناسب محسو س ہوتا ہے کہ حج جیسی عظیم الشان عبادت سے بھرپور فوائد،ثمرات،انوارات اور برکات حاصل کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے اسے ہدیہ قارئین کیا جائے۔ حجاج کرام کی تربیت کے وقت بہت سی ہدایات اور تعلیمات گوش گزار کرائی جاتی ہیں، یہاں سردست چند چیزوں کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے، ان کا لحاظ کرنا ہر حاجی کے لیے ضروری ہے،تاکہ حاجی حج کے فوائد وثمرات بخوبی سمیٹ سکے۔ ۱:-شعائر اللہ کا ادب واحترام     حج کے مبارک سفر میں شعائر اللہ اور مقاماتِ مقدسہ کا ادب و احترام بہت ضروری ہے۔ جس طرح مقدس جگہوں پر نیکی کرنے کا زیادہ ثواب ملتا ہے، اسی طرح گناہ کرنے پر بھی زیادہ مواخذہ اور گرفت ہوگی ۔ لہٰذا مقاماتِ مقدسہ میں قدم پھونک پھونک کر رکھنا ضروری ہے۔ بیت اللہ مرکزِ تجلیاتِ الٰہیہ ہے۔ بیت اللہ کی عظمت اور مقام و مرتبہ کو خود پروردگارِ عالم نے اپنی مقدس کتاب میں جابجا ذکر فرمایا اور آنحضرت a کی احادیث میں اس کی حرمت اور تقدس کا بارہا ذکر موجود ہے ۔     محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری v تحریر فرماتے ہیں : ’’بارگاہِ قدس کے مر کز تجلیات کا نام بیت اللہ الحرام اور کعبۃ اللہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ قیام عالم اور بقاء کا ئنات کا ذریعہ ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا یہ گھر دنیا میں باقی رہے گا دنیا قائم رہے گی اور جس وقت اللہ تعالیٰ شانہٗ اس دنیا کو ختم کرنے کا ارادہ فرمائے گا اس کعبے کو ویران کر دیا جائے گا۔گو یا کعبۃ اللہ اور بیت اللہ میں بقاء عالم کا راز ہے۔ یہ مر کز عالم ہے اور اس مر کز کے ختم ہوجانے کے بعد فناء عالم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ پھر جس طرح عالم کے ظا ہری بقاء کا راز بیت اللہ الحرام کے بقاء میں ہے، ٹھیک اسی طرح روحانی ہدایت ربانی کا سلسلہ بھی اسی بیت اللہ سے قائم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمانی ہدایت وانوار کا فیضان بار گاہِ عرش عظیم سے اس بیت عظیم پر ہوتا ہے اور عالم میں اسی بیت کو منبع ہدایت وچشمۂ ارشاد بنایا گیا ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(آل عمران:۹۶) ترجمہ:’’ بے شک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہو الوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے بر کت والا اور ہدایت جہان کے لوگوں کو۔‘‘                       (ترجمہ شیخ الہند v)  بیت المعمور جو ساتویں آسمان پر طواف گاہِ ملائک ہے، اسی کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے روز اوّل ہی سے زمین پر اس مقام کو مر کز تجلیات بنایا اور تاریخ انسانی کے ادوار میں بیت اللہ کی تعمیر ہوتی رہی۔ ملائکہ کرام ؑ، انبیاء عظام ؑ اور مقر بین بارگاہ کے طوافوں، نمازوں، دعاؤں اور نالہ ہائے عشق ومحبت نے اس کو ایسا بقعۂ نور بنا دیا کہ عقل حیران ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عشاق کو نہ طواف سے سیری ہوتی اور نہ دیدار سے، اور بیت اللہ کی یہی معنویت ہے جس کی وجہ سے اسے نمازوں اور نمازیوں کا قبلہ بنا کر مز ید بارگاہِ قدس کی تجلیات کا نقطہ ومرکز بنایا گیا۔ اہل بصیرت جانتے ہیں کہ جہاں کوئی ایک صالح اور مقربِ بارگاہ جلوہ افر وز ہوتا ہے وہاں رحمت خد اوندی اور انوار الٰہی کا نزول ہوتا ہے، پس جہاں فر شتوں، رسل وانبیاء ؑاور مقرر بین بارگاہ کی دعوات وعبادات، تسبیحات وتہلیلا ت کا مر کز ہو اس کی بر کات کا کیا ٹھکانا! حق تعالیٰ کی رحمت کا ملہ کے امیدوار اپنے گناہوں سے تو بہ کر کے جہاں عالم کے گوشہ گوشہ سے جمع ہو کر والہانہ انداز میں کبھی آہ وبکا اور گر یہ وزاری میں مشغول ہوتے اور کبھی سر بسجود ہوتے ہیں، ایسے مقام اقدس کی بر کتوں کا کیا کہنا! جس مقام مقدس پر احادیث نبویہ کے مطابق ایک سو بیس رحمتیں روزانہ نازل ہوتی ہیں، ۶۰؍ طا ئفین کے لیے، ۴۰؍ نمازیوں کے لیے، ۲۰؍ زائر ین ودیدار کرنے والوں کے لیے(شعب الایمان، فضیلۃ الحجر الاسود و المقام و الاستسلام، ج:۳، ص:۴۵۴، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت) اس کی مقنا طیسی کشش کا کیا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے اور جو سعیدروحیں تینوں قسم کی عبادتوں سے سر شار ہوں ان کی سعادتوں کا کیا کہنا! الغرض کعبہ کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا اس عالم میں عظیم ترین مر کز، رحمت ازلیہ کا خزانہ، مغفرت ورحمت کا گہوارہ اور رو حانی سیر وسیاحت کرنے والوں کا ربانی مرکزِضیافت ہے، جہاں ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق فیض اٹھا تا ہے‘‘۔        (بصائر وعبر، ج:۲، ص:۴۱۰-۴۱۱)     لہٰذا حجاج کرام پر لازم ہے کہ وہ بیت اللہ الحرام اور اسی طرح دیگر شعائر ومقدسات کا ادب واحترام کریں اور ان کی بے ادبی وبے حرمتی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ ۲:- اخلاص وخلوص     یہ ہر عبادت کی روح اور شرط اول ہے۔ اخلاص کے بغیر حج کے سفر سے محض اپنے آپ کو تھکانے کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ نام ونمود، ریائ، دکھلاوے اور شہرت سے ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے، اس لیے اس مبارک اور عشق ومستی کے سفر میں صرف اللہ کی رضا کی نیت ہونا لازم اورضروری ہے۔ علامہ ہیثمی v نے مجمع الزوائد میں امام طبرانی v کے حوالہ سے لکھا ہے کہ : ’’حضر ت ابن عباس r فرماتے ہیں کہ: نویں تاریخ کو جب رسول اللہ a عرفات جانے کے لیے منیٰ سے نکلے اور سواری آپ aکو لے کر اٹھی تو آپ aکی اونٹنی پر ایک سادہ سا کمبل پڑا ہوا تھا جس کی قیمت صرف چار درہم تھی اور آپ aکی زبان مبارک پر یہ دعا تھی:’’أللّٰھم اجعلھا حجۃ لا ریاء فیھا ولا سمعۃ۔‘‘۔۔۔۔۔یعنی’’ اے اللہ! اس حج کو ایسا حج بنادے جو دکھلاوے اور شہرت سے پاک ہو (یعنی خالص آپ کی رضا اس میں شامل ہو)۔(رواہ الطبرانی، مجمع الزوائد، رقم الحدیث: ۵۳۵۳،ج:۳، ص:۵۰۳)     اس حدیث سے یہ گراں اور قیمتی سبق حاصل ہوتا ہے کہ آپ a کی ذات بابرکات اس طرح کے نفسانی اثرات سے پاک تھی، پھر بھی آپ aنے اس طرح کی دعا فرمائی، تاکہ امت اپنے حج میں اخلاص کا خیال رکھے ۔ ۳:-حقوق العباد کی ادائیگی کا اہتمام     حقوق العباد کی ادائیگی پر شریعت اسلامیہ میں خاصا زور دیا گیا ہے۔ زندگی کے تمام مراحل میں اس بات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ کسی مسلمان بلکہ کسی انسان کا حق بھی ذمہ میں نہ رہے، لیکن حج کے سفر میں تو اس کا اہتمام اور زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عبادت کے دوران حقوق العباد کی اہمیت کم لوگوں کے ذہن میں رہتی ہے، لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ رسول اللہ a کی خدمت اقدس میں حجۃ الوداع کے موقع پر لوگ آرہے ہیں، لوگ آکر اپنی حج کی غلطیاں آنحضرت a کو بتلارہے ہیں کہ یہ غلطی ہم سے ہوگئی۔ اللہ کے نبی a تسلی دے رہے تھے، لیکن اس موقع پر بھی آپ a نے جس بات پر تنبیہ فرمائی وہ یہی حقوق العباد کا معاملہ تھا۔ صاحب مشکوٰۃ المصابیح نے امام ابوداود v کے حوالہ سے ایک حدیث مبارک نقل کی ہے، ملاحظہ فرمائیے : ’’عن أسامۃ بن شریک قال: خرجت مع رسول اللّٰہ a حاجا، فکان الناس یأتوہ، فَمِنْ قائلٍ یارسول اللّٰہ ! سعیت قبل أن أطوف أو أخرتُ شیئا أو قدمتُ شیئا، فکان یقول لا حرج إلا علٰی رجل افترض عِرْضَ مسلم وھو ظالم، فذٰلک الذی حرج وھلک۔‘‘                (رواہ ابو داود، مشکوٰۃ، باب الحلق، ص:۲۳۳) ترجمہ : ’’حضرت اسامہ بن شریک q فرماتے ہیں: میں رسول اللہ a کے ساتھ حج کرنے نکلا، لوگ آپa کے پاس آرہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا کہ یا رسول اللہ ! میں نے سعی طواف سے پہلے کرلی ہے، یا فلاں کام بعد میں کرلیا ہے، آپ a فرماتے تھے: کوئی حرج نہیں (یعنی نا سمجھی کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں)ہاں ! اس شخص پر گناہ ہے جس نے کسی مسلمان کی آبرو پر ظلماً ہاتھ ڈالا ہو تو اس پر حرج ہے اور وہی ہلاک ہوا۔‘‘     لہٰذا دورانِ حج حقوق العباد کا خصوصی طور پر لحاظ رکھا جائے۔ ۴:-گناہوں سے اجتناب     حج کے انوارات وبرکات حاصل کرنے کے لیے گناہوں سے پرہیز بہت ضروری ہے، اگر خدانخواستہ حج کے سفر میں گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا رہا تو اُلٹا وبال اور نقصان کا خطرہ ہے۔ حجاج کرام بعض خطرناک قسم کے گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری v بہت ہی حساس اور درد مند دل رکھنے والے تھے، حضرت بنوریv نے حجاج کی چند غلطیوں کو دیکھا تو بہت افسردہ ہوئے۔ ذیل میں حضرت ؒ کی ایک تحریر درج کی جاتی ہے، جس میں حضرت ؒ نے حجاج کی غلطیوں کا ذکر فرمایا جن سے حجاج کو اجتناب اور پرہیز کرنا لازم اور ضروری ہے، چنانچہ حضرت ؒ فرماتے ہیں: ’’حج بیت اللہ الحرام ۔۔۔۔مسلمان کے لیے یہ فر یضہ ادا کر نا گو نا گوں بر کتوں کا ذریعہ ہے اور حیرت انگیز نعمتوں کا وسیلہ ہے، باوجود یکہ سابقہ مشکلات ختم ہوگئیں اور بہت کچھ آسانیاں پید اہو گئی ہیں، تاہم دور دراز کا سفر ہے، ہزاروں روپے کاخرچ ہوتا ہے، اکثر لوگوں کو زندگی میں ایک ہی مر تبہ جانا میسر ہوتا ہے اور اب بھی بہت کچھ مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں، ایسی صورت میں بے حد ضرور ی تھا کہ مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی میں انتہائی احتیاط بر تیں، مسائل حج سے کامل واقفیت حاصل کریں، اسی لیے ہر زبان میں مسائل واحکام حج سے متعلق چھوٹی بڑی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، تاکہ شرعی قانون کے مطابق صحیح طور پرحج ادا ہو سکے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مخلوقِ خدا کا یہ عظیم انبوہ جو ملک کے ہر گوشے سے پہنچ رہا ہے، اکثر وبیشتر اس فریضہ کے احکام ومسائل سے بالکل بے خبر ہے، سنن ومستحبات تو در کنار، فرائض وواجبات سے بھی غافل ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اتنا ہی نہیں کہ محظورات وممنوعات کا برابر ارتکاب ہوتا رہا ہے، بلکہ اور تمام گناہوں تک سے بچنے کا ذرہ برابر اہتمام نہیں ہوتا۔ نمازوں کی ادا کر نے میں تقصیر، جماعت کی پابندی میں کوتا ہی، حالانکہ ایک فرض نماز بھی حج سے بدر جہا زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اگر بغیر عذر شر عی ایک نماز بھی قضا کی تو حج قبول ہو نے کی توقع مشکل ہوجاتی ہے۔ سفر میں خصوصاً احرام با ندھنے کے بعد بجائے تلبیہ کہنے اور ذکر اللہ کرنے کے عام طور پر غیبتیں کرتے ہیں، بکو اس بکتے رہتے ہیں، نہ زبان پرقابو، نہ نگاہ پرقابو، نہ ہاتھ پاؤں پر، بلکہ بسااوقات دیکھاگیا ہے کہ مسجد حرام میں بیٹھے ہیں، نماز کا انتظار ہورہا ہے اور فضولیات بک رہے ہیں، غیبت میں مبتلا ہیں، حالانکہ زندگی کے اس عظیم مر حلے پر پہنچ کر تو تمام اوقات عبادت اور تو بہ واستغفار، انابت الی اللہ سے معمور ہونے چاہئیں، تاکہ ان مقدس مقامات کی بر کات سے مالا ما ل ہوں، گناہوں سے پاک وصاف ہو کر ایسے واپس ہوں جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے ولادت ہوئی ہے، دنیا میں دوبارہ آئے ہیں۔     بعض حضرات مستحبات وآداب میں توغلو کر تے ہیں، لیکن فرائض و واجبات میں تقصیر کر تے رہتے ہیں، اور دورحاضر کے اکثر حجاج کو دیکھ کر تو یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ شاید کسی میلہ یا تماشہ کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ عور توں پر پر دہ فرض ہے مگر حر مین شر یفین میں پہنچ کر اکثر عوتیں بلکہ ۹۹؍ فیصدبر قع پوش عورتیں بھی بر قع پھینک کر بے حجاب ہو جاتی ہیں اور اس طرح گناہ کبیرہ کی مر تکب ہو تی ہیں، نہ صرف بے حجاب بلکہ بسااوقات نیم عریاں لباس میں بیت اللہ کا طواف کرتی ہیں اور افسوس اس کا ہے کہ نہ شو ہر اور نہ ان کے محرم حضرات اس بے حجابی کو رو کنے کی تد بیر کرتے ہیں، نہ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ بے محابا مردوں کے درمیان گھستی ہیں، حجرا سود کو بوسہ دینے کے لیے مردوں کی دھکا پیل میں جان بو جھ کر گھستی ہیں اور پستی ہیں، اجنبی مردوں کے ساتھ شد ید وقبیح اختلاط میں مبتلا ہوتی ہیں۔ یہ سب حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ ایسا حج کہ جس میں اوّل سے آخر تک محرمات اور کبائر سے احتراز نہ ہوسکے کیا تو قع ہے کہ وہ حج قبول ہوگا؟ حج مبر ور کے لیے جزاء جنت بے شک ہے، لیکن حج مبر ور کیسے ہوگا؟ نبی کریم a نے حج مبر ور کا بیان فرمایا ہے کہ:’’ حج کرے اور اس میں کوئی بھی بے حیائی کا کام نہ کرے، کوئی گناہ نہ کرے، تب گناہوں سے پاک وصاف ہوگا جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب المناسک، باب فضل الحج المبرور، ج:۱، ص:۲۰۶،  ط:قدیمی)      پاکستان و ہندوستان کی بعض عورتیں، مصر وشام وغیرہ بعض ملکوں کی عورتوں کو دیکھ کر کہ وہ بے پردہ ہیںخود بھی پردہ اٹھا دیتی ہیں اور حرم میں اس طرح آتی ہیں جیسے تمام مرد اُن کے محرم ہیں یا وہ گھر کے صحن میں پھر رہی ہیں۔ لیکن یہ انتہائی حماقت ہے۔ اگر کوئی قوم کسی گناہ میں مبتلا ہے تو اس سے وہ گناہ جائز نہیں ہوجاتا، پھر دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کی بے پر دگی یعنی چہرہ کا کھلا ہونا ایک خاص سنجید گی اور وقار کے ساتھ ہوتا ہے، لباس بھی ان کا سر سے پاؤں تک باحجاب ہوتا ہے، پاؤں تک میں موزے ہوتے ہیں، لیکن پاکستانی عورتوں کا خصوصاً پنجاب وسندھ کی عورتوں کا لباس تو انتہائی بے حیائی کا ہوتا ہے، تمام نسوانی اعضا ء نمایاں ہوتے ہیں، بے محابا سینہ تان کر چلتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ عورتیں بھی اس بے حیائی کی وجہ سے معصیت وفسق میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان کے شو ہر بھی ان کی اس بے حجابی پر گنہگار ہوتے ہیں، کیونکہ وہ ان کو مطلق منع نہیں کرتے، کوئی اصلاح نہیں کرتے، نہ روکتے ہیں، نہ ٹوکتے ہیں، یہ تو کھلی بے حیائی اور بے غیرتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ایک اور عام ابتلاء یہ ہے کہ تمام عورتیں پنج وقتہ نمازوں میں مردوں کی طرح حرم میں پہنچتی ہیں، باوجود یکہ عورتوں کے لیے دروازے بھی مخصوص ہیں اور نماز پڑھنے کی جگہیں بھی متعین ہیں، مگر حج کے زمانہ میں چو نکہ ازد ہام بے حد ہوتا ہے، مستقل جگہ پر نہیں پہنچ پاتیں تو مردوں کے درمیان صفوں میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور نماز پڑھنا شروع کر دیتی ہیں۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کی نماز اور عورتیں پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح اپنے وطن میں عورتوں کو تنہا نماز گھروں میں پڑھنا افضل ہے، اسی طرح مکہ ومد ینہ میں بھی عورتوں کے لیے نماز گھروں میں تنہا بغیر جماعت کے پڑھنا افضل ہے اور مکہ ومد ینہ میں نماز کا جوثواب حرم اور مسجد نبوی کا ہے وہ ان کو گھروں پر پڑھنے میں اس سے زیادہ ملتا ہے، جو مسجد میں مردوں کو ملتا ہے۔ ایسی صورت میں حرمین شریفین میں عورتوں کو نماز گھروں میں ہی پڑھنی چاہیے۔ بالفر ض کسی وقت بیت اللہ کے دیکھنے کی غرض سے یا طواف کر نے کی غرض سے مسجد حرام میں یا صلوٰۃ وسلام کی غرض سے مسجد نبوی میں آئیں اور نماز باجماعت پڑھ لیں تو ادا ہوجاتی ہے، بشرطیکہ مردوں کے درمیان نہ کھڑی ہوں۔ ایک عورت اگر مردوں کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہے تو تین مردوں کی نماز خراب ہوجاتی ہے: دائیں بائیں کے دو مردوں کی، اس کی محاذات (سیدھ) میں جو مرد کھڑا ہے اس کی بھی، تینوں کی نماز یں فاسد ہو گئیں، بالفر ض بغیر ارادے کے کوئی عورت اتفا قیہ طور پر عین نماز کے وقت صفوں کے درمیان پھنس جائے اور نکلنا دشوار ہو جائے یا طواف کر نے کے درمیان نماز کھڑی ہوجائے تو اس وقت اس کو خاموش بغیر نماز کے جہاں بھی ہو بیٹھ جانا چاہیے۔ نماز کی نیت ہر گز نہ کرے، ورنہ مردوں کی نما ز بھی خراب ہوگی۔ جب امام نماز سے فارغ ہوجائے تو پھر تنہا و ہیں وہ اپنی نماز ادا کر لے۔ عورتوں کو بیت اللہ کا طواف کر نے کے لیے بھی ایسے وقت میں جانا چاہیے جب نماز کا وقت نہ ہو، اس وقت نسبتاً بھیڑ بھی کم ہوتی ہے اور اگر اتفاقاً نماز کا وقت ہوجائے تو اذان ہوتے ہی جلدی جلدی طواف پورا کر کے یا طواف درمیان میں چھوڑدیں اور جتنے شوط (چکر) رہ گئے ہیں وہ نماز کے بعد جہاں چھوڑے تھے وہیں سے پورے کر دیں، یا اسی طواف کو دوبارہ کرلیں۔ بہر حال گناہ سے بچنا بے حد ضروری ہے اور بھی بہت سی کو تا ہیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان سب میں نماز اور بے پردگی کا مسئلہ میرے خیال میں سب سے زیادہ اہم ہے۔      بہرحال حج ایک ایسا اہم فریضہ ہے جو زندگی میں بار بار ادا کرنا بے حد مشکل ہے، اس لیے چاہیے کہ مر د ہوں یا عورتیں انتہائی احتیا ط کے ساتھ اس فریضہ کی ادا ئیگی سے سبکدوش ہوں۔      نیز یہ بھی خیال رہے کہ بعض عورتیں اپنے ملکوں میں بھی پر دہ نہیں کرتیں اور گویا مستقل طورپر بے پردہ رہتی ہیں، بلاشبہ یہ گناہ عظیم ہے اور ایک فرض حکم کی خلاف ورزی ہے، لیکن انہیں بھی حج بیت اللہ کے سفر میں تو چاہیے کہ اس گناہ عظیم سے بچیں، تاکہ یہ فریضہ تو صحیح طر یقے سے ادا ہو۔ آج کل بہت سی عورتیں بغیر محرم کے سفر کرتی ہیں، یہ بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ جس عورت کا کوئی محرم نہ ہو اس پر حج فرض ہی نہیں ہوتا، بلکہ محرم ہو بھی لیکن حج پر قادرنہ ہو یا یہ عورت اس کے مصارف بر داشت کر نے کے قابل نہ ہو تب بھی حج فرض نہ ہوگا۔ انتہا ئی افسوس کا مقام ہے کہ حج بھی فرض نہ ہو اور پھر وہاں جا کر حج میں اتنی فروگزاشتیں بھی ہوں؟ جب شرعاً اس کے ذمہ حج فرض ہی نہیں ہے تو یہ حج کا سفر کیوں اختیار کیا جاتا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ حجِ بیت اللہ میں حجاج کرام سے اس قسم کی کوتاہیوں اور خلاف شرع حرکتوں کی وجہ سے ہی حج کی برکتیں ختم ہوتی جاتی ہیں اور باوجود حجاج کی کثرت کے امت جس مقام پر کھڑی ہے وہاں سے روز افزوں تنزل میں جارہی ہے۔ اگر اتنی کثرت سے حجاج کرام صحیح طریقہ پر یہ فریضہ ادا کر تے اور ہم سب کا حج بارگاہِ اقدس میں شرف قبولیت سے سر فراز ہوتا تو شاید دنیا کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح فہم اور تو فیق خیر نصیب فرمائیں۔                   (بصائر وعبر، ج:۲، ص:۴۱۴ تا۴۱۷)

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین