بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حج سے متعلق قرآن کریم کی رہنمائی! ’’ثلاثیات‘‘ کی صورت میں سورۂ بقرہ کی چند آیات کے علمی فوائد 

حج سے متعلق قرآن کریم کی رہنمائی!

’’ثلاثیات‘‘ کی صورت میں سورۂ بقرہ کی چند آیات کے علمی فوائد 


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اَلْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یَاأُولِیْ الْأَلْبَابِ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ وَإِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّالِّیْنَ ثُمَّ أَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ فَإِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ آبَائَ کُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْأٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ أُولَئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ فِيْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔ ‘‘                                                  (البقرۃ: ۱۹۷- ۲۰۳)
ترجمہ: ’’حج کے چند مہینے ہیں معلوم، پھر جس نے لازم کرلیا ان میں حج تو بے حجاب ہونا جائز نہیں عورت سے اور نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا حج کے زمانہ میں اور جو کچھ تم کرتے ہو نیکی اللہ اس کو جانتا ہے۔ اور زادِ راہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر فائدہ زادِ راہ کا بچنا ہے سوال سے اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقلمندو! کچھ گناہ نہیں تم پر کہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا۔ پھر جب طواف کے لیے لوٹو عرفات سے تو یاد کرو اللہ کو نزدیک مشعر الحرام کے۔ اور اس کو یاد کرو جس طرح تم کو سکھلایا اور بے شک تم تھے اس سے پہلے ناواقف۔ پھر طواف کے لیے پھرو جہاں سے سب لوگ پھریں اور مغفرت چاہو اللہ سے، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے مہربان۔ پھر جب پورے کر چکو اپنے حج کے کام کو تو یاد کرو اللہ کو جیسے تم یاد کرتے تھے اپنے باپ دادوں کو، بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو۔ پھر کوئی آدمی تو کہتا ہے: اے رب ہمارے! دے ہم کو دنیا میں اور اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ اور کوئی اُن میں کہتا ہے: اے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے، انہی لوگوں کے واسطے حصہ ہے اپنی کمائی سے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ اور یاد کرو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں، پھر جوکوئی جلدی چلا گیا دو ہی دن میں تو اس پر گناہ نہیں اور جو کوئی رہ گیا تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں جو کہ ڈرتا ہے اور ڈرتے رہو اللہ سے، اور جان لو بے شک تم سب اسی کے پاس جمع ہوگے۔ ‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں حج سے متعلق ہدایات اور احکام ہیں، جن کا تعلق ۸؍ ذو الحجہ سے لے کر ۱۳ ؍ذو الحجہ تک کے اعمال سے ہے، جن کے مفہوم کو ایک مخصوص انداز میں ’’ثلاثیات‘‘ کی صورت میں بیان کرنے کاایک مقصد یہ ہے کہ اس کو ذہن نشین کرنا آسان ہو۔ علماء اور طلبہ کے لیے جہاں ان آیات میں نکتے اور فوائد کی نشاندہی ہے، وہاں عوام کے لیے حج سے متعلق مسائل اور آگاہی بھی ہے۔ حجاجِ کرام کے لیے موقع ہے کہ وہ ان آیاتِ کریمہ کے مفہوم کو دل و دماغ میں بٹھاکر حج کے قیمتی لمحات سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوں اور قرآن کریم کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھائیں۔ عام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ ان آیاتِ کریمہ کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کریں، تاکہ مضمون کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ نیز تجربہ سے ثابت ہے کہ حج کے موقع پر ان آیا ت کی تلاوت کا ایک خاص لطف ہوتا ہے، وہ بھی معانی کو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ذیل میں ہم جو فوائد (لفظی ومعنوی) ذکر کر رہے ہیں، اکثر و بیشتر کا تعلق ان ہی آیاتِ کریمہ سے ہے جو اوپر مذکور ہیں، لیکن چونکہ مضمون حج سے متعلق ہے، اس لیے بعد میں مضمون کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مطلق حج سے متعلق جتنے ثلاثی فوائد میسر آئے، اس مناسبت سے ان کو بھی شاملِ مضمون کردیا گیا۔ واضح رہے کہ طاق اعداد میں تین کا عدد دیگر فضیلتوں کے ساتھ ایک ایسا معتدل عدد ہے جس کے ذریعے سے کسی بھی سورت ،آیت یا چند آیات یا حدیث کی تشریح و توضیح کو احاطہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اس سے پہلے سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے سے متعلق آیات کی اس طرز پر تشریح کی ہے جس کو علماء کرام نے بہت پسند کیا اور سراہا۔ اس مرتبہ قصہ کے بجائے ایسی آیات جو احکامِ شرعیہ میں سے کسی حکم سے متعلق ہوں کو اختیار کیا ہے، آگے چل کر اس سلسلے اور طریقے کو احادیثِ شریفہ میں بھی بروئے کار لائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ! اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تین کے بجائے کسی اور عدد کا انتخاب کریں۔ آئندہ مضامین میں اس کی مثالیں آئیں گی، ان شاء اللہ العزیز! دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرماکر نافع بنادے۔
l  عبادات کی تین قسمیں ہیں: ۱:-خالص بدنی عبادت، جیسے: نماز اور روزہ، ۲:-خالص مالی عبادت، جیسے: زکوۃ، ۳:-دونوں کا مجموعہ، جیسے: حج۔
l  حج میں تین حروف ہیں: ح، ج، ج(کیونکہ مشدد حرف دو حرف کے قائم ہوتا ہے)
l  پہلی آیت میں حج کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے: ۱:-’’ اَلْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ‘‘ ، ۲ :-’’فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ،۳:-فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ‘‘ ( اس سے حج کی تینوں قسموں کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے)
l  معنوی لحاظ سے حج کے اس تکرار میں تین باتیں سامنے آئیں: ۱:-مدتِ حج: ’’ اَلْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ‘‘، ۲:-نیتِ حج : ’’  فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ  ‘‘، ۳:-وقایتِ حج: (یعنی حج کا پرہیز) ’’ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ۔‘‘
l  حج کا لفظ تین اعراب کے ساتھ مذکور ہے:۱:- مرفوع مبتدا :’’ اَلْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ‘‘، ۲:- منصوب مفعول: ’’  فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ‘‘ ، ۳:- مجرور بحرف الجر: ’’ وَلَا جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ‘‘ (بعینہٖ اسی ترتیب: رفع، نصب، جر کے ساتھ)
l  آیت میں مذکور ’’ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ‘‘ سے تین مہینے مراد ہیں:۱ :- شوال، ۲:- ذوالقعدہ، ۳:- ذوالحجہ۔
l  آیت میں تین گناہوں سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے: ۱:- ’’فَلاَ رَفَثَ‘‘ ،  ۲:-’ ’وَلَا فُسُوْقَ‘‘، ۳:- ’’ وَلَا جِدَالَ ‘‘
l  رفث کی تفسیر میں تین اقوال ہیں :۱:- جماع ،۲:- کلامِ فاحش ،۳:- عورتوں کی موجودگی میں تذکرۂ جماع۔
l  مذکورہ آیات تین مواقف اور مشاعر کے احکام پر مشتمل ہیں: ۱:- عرفات : ’’ ثُمَّ أَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ‘‘، ۲:- مزدلفہ: ’’ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ‘‘، ۳:- منی: ’’وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ فِيْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘
l  مجموعی طور پر ان آیاتِ کریمہ میں حج کے موقع پر تین قسم کے اعمال کثرت سے کرنے کا حکم ہے: ۱:- ذکر: ’’ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ‘‘، ۲:- استغفار: ’’ وَاسْتَغْفِرُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ ، ۳:-دعاء : ’’رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً‘‘
l  مذکورہ اعمال کے حکم میں تین طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے: ۱:- تاکید کے ساتھ، جیسا کہ ذکر، ۲:-بلا تاکید صیغۂ امر کے ساتھ، جیسا کہ استغفار، ۳:-بلا تصریح اشارے کے ساتھ، جیسا کہ دعا۔
l  ذکر میں تاکید کی تین نوعیتیں ہیں: ۱:-تکرارِ حکم، ۲:- تشبیہ الحکم بذکر الآباء، ۳:- اسم تفضیل کا صیغہ ’’أَشَدَّ‘‘:’ ’ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا‘‘
l  اور ’’اُذْکُرُوْا اللّٰہَ‘‘ کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے: ۱:- ’’ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ‘‘، ۲:-’’فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ آبَائَ کُمْ‘‘، ۳ :- ’’وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ فِيْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘
l  دعا ء والی آیت ’’ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘تین چیزوں پر مشتمل ہے: ۱:- دنیا کی بھلائی،۲:- آخرت کی بھلائی، ۳:- جہنم سے خلاصی۔
l  دعا کے اعتبار سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں: ۱:- جو صرف دنیا مانگتے ہیں، قرآن نے ان کی مذمت کی ہے ، ۲:- جو صرف آخرت مانگتے ہیں، قرآن نے ان کا تذکرہ نہیں کیا، ۳:- جو دنیا آخرت دونوں مانگتے ہیں، قرآن نے ان کی تعریف کی ہے: ’’وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
l  اس دعا کو رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان پڑھنا مسنون عمل ہے، مگر اس میں تین جملوں کا اضافہ کیا جائے: ۱:-’’ وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ الْأَبْرَارِ، ۲:- ’’یَا عَزِیْزُ‘‘، ۳:- ’’یَا غَفَّارُ ‘‘
l  ان آیاتِ کریمہ میں تقویٰ کا حکم تین مرتبہ آیا ہے: ۱:- ’’ وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ‘‘، ۲:-’’ وَاتَّقُوْنِ یَاأُولِیْ الْأَلْبَابِ‘‘ ، ۳:- ’’ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ‘‘
l  ’’ وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی‘‘یہاں تقویٰ کے معنی میں تین احتمالات ہیں: ۱:-سوال سے بچنا، ۲:-ترکِ معصیت، ۳:-خوفِ خدا۔ 
l   رفع الاثم والجناح (رخصت) کا ذکر تین مرتبہ آیا ہے: ۱:- ’’ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘ ، ۲:-’’ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ‘‘، ۳:-’’ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ‘‘
l  افاضۃ کا مادہ تین مرتبہ آیا ہے:۱:-’’ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ‘‘، ۲:-’’ ثُمَّ أَفِیْضُوْا‘‘ ، ۳:-’’ مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ‘‘
l  ’’أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘سے ایامِ تشریق کے تین دن مراد ہیں: ۱:-گیارہویں، ۲:-بارہویں، ۳:-تیرہویں۔
l  ’’ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ فِيْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘ ، ’’ أیام معدودات‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں تین مرتبہ آیا ہے: ’’ یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ‘‘(البقرۃ) آگے فرمایا : ۱:-’’ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘ ،۲:- ’’ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ ‘‘ ، ۳:-’’ ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ‘‘(آل عمران)
l  علم کا مادہ تین مرتبہ استعمال ہوا ہے : ۱:-مفعول کے صیغہ کے ساتھ’’ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ‘‘۲:-فعلِ مضارع کے ساتھ ’’ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ‘‘، ۳:-’’ فعلِ امر کے ساتھ’’ وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ‘‘
l  رب کا کلمہ تین مرتبہ استعمال ہوا ہے: ۱:-’’ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘، ۲:-’’ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا‘‘ ، ۳:- ’’ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً ‘‘
l  مذکورہ آیات میں تین جگہ پر وعد (اُمید) کا ذکر ہے: ۱:- ’’وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ‘‘ ، ۲:- ’’ وَاسْتَغْفِرُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘، ۳:- ’’ أُولٰئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا‘‘
l  نیز تین آیات میں وعید ہے،:۱:- ’’ وَاتَّقُوْنِ یَاأُولِیْ الْأَلْبَابِ‘‘ ،۲:-’’ وَمَا لَہٗ فِی الْأٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ‘‘ ، ۳:-’’ وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ‘‘
l  مذکورہ آیات توحید کی تینوں قسموں کو متضمن ہیں: ۱:- توحید الربوبیت، رازق اللہ ہے: ’’أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘ ۲:-۔ توحید الالوہیت، دعا :’’ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً‘‘ نیز حج خود عبادت ہے، جس سے توحیدِ الوہیت واضح ہے ، ۳:’’ توحید الاسماء والصفات :’’ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘
l  مذکورہ آیات میں تینوں طرح کے فقہی احکام ’’ من الأعلی إلی الأدنی ‘‘ کی ترتیب پر موجود ہیں: ۱:-فرض: وقوفِ عرفہ ’’ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ‘‘، ۲:- واجب : وقوفِ مزدلفہ ’’ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ‘‘، ۳:- سنت: مبیتِ منی ’’ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ فِيْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘
l   مذکورہ آیات میں زمانۂ جاہلیت کی تین چیزوں کی تردید او رنسخ کا حکم ہے: ۱:- قریش عرفات کے بجائے مزدلفہ سے واپس لوٹ جاتے تھے، ان کو منع کردیا گیا: ’’ ثُمَّ أَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ‘‘ ، ۲:-حج کے موقع پر عرب لوگ اپنے آباء واجداد پر فخر کرتے تھے، ان کو کہا گیا کہ بجائے تفاخرِ نسب کے اللہ کا ذکر کرو:’’ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ آبَائَ کُمْ‘‘ ،۳:-لوگ حج کے موقع پر صرف دنیا مانگتے تھے، ان کو منع کردیا گیا:’’ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْأٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ‘‘
l   مذکورہ آیات میں تین غلط فہمیاں دور کی گئیں: ۱:-کچھ لوگ اپنے ساتھ زادِ راہ لینے کو توکل کے منافی سمجھتے تھے، ان کی حوصلہ شکنی کی گئی:’’وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی‘‘، ۲:-کچھ لوگ حج میں تجارت کو اخلاص کے منافی سمجھتے تھے ان کو اجازت دی گئی :’’ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘، ۳:-کچھ لوگ دنیا مانگنے کو عیب سمجھتے تھے، ان کی غلط فہمی دور کی گئی:’’ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘

مطلق حج سے متعلق ثلاثیات بھی ملاحظہ فرمائیں

l   حج کی تین اقسام ہیں:۱:- اِفراد، ۲:- تمتع، ۳:- قران
l   حج کے ارکان تین ہیں:۱:- احرام، ۲:- وقوفِ عرفہ، ۳:- طوافِ زیارت۔
l   بیت اللہ کے ارکان بھی تین ہیں:۱:- رکنِ عراقی، ۲:- رکنِ شامی، ۳:- رکنِ یمانی۔
l   حج کی فرضیت اور مفصل احکام قرآن مجید میں تین سورتوں میں مذکور ہیں: ۱:-سورۃ البقرۃ، ۲:- سورۂ آلِ عمران:’’ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ ‘‘ ،۳:- سورۃ الحج۔
l   طواف کی تین قسمیں ہیں: ۱:-طوافِ قدوم، ۲:- طوافِ زیارت یا طوافِ افاضہ، ۳:-طوافِ وداع۔اور تینوں کے الگ الگ فقہی حکم ہیں: فرض، واجب، سنت۔
l   بناء کعبہ کے مقاصدتین بیان کیے گئے ہیں: ۱:-’’ وَطَہِّرْ بَیْتِيَ لِلطَّائِفِیْنَ ‘‘، طواف والوں کے لیے:۲:’’ وَالْعَاکِفِیْنَ ‘‘، معتکفین کے لیے، ۳:- ’’ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ‘‘، نمازیوں کے لیے۔
l   جو شخص عذر یا بیماری کی وجہ سے سر کے بال منڈانا چاہے، تو اس کو تین چیزوں میں سے ایک کا حکم دیا گیا ہے:۱:-’’ففدیۃ من صیام‘‘۲:-’’أو صدقۃ‘‘۳:-’’أو نسک‘‘(قربانی)
l   جو شخص قربانی (دم تمتع) کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اس کو ایامِ حج میں تین روزے رکھنے کا حکم دیا ہے: ’’ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ أَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ ‘‘، باقی بعد میںرکھنے ہیں۔ کل دس روزے ہیں۔
l   جمرات : کنکریاں مارنے کی جگہیں بھی تین ہیں۔
l   حلق کرنے والوں کے لیے اللہ کے رسول a نے تین مرتبہ رحمت کی دعا مانگی ہے:’’اللّٰہم اغفر للمحلقین ثلاثا‘‘
l   رمل (کندھے اَکڑاکر چلنا) صرف پہلے تین طواف میں مسنون ہے۔واضح رہے رمل ہر اس طواف میں ہے جس کے بعد صفا مروہ کی سعی ہو۔
l  حجرِ اسود سے متعلق تین سنتیں ہیں: ۱:-اگر موقع ملے تو تقبیلِ حجرِ اسود(یعنی حجرِ اسود کا بوسہ) ۲:- ورنہ استلام (چھونا) ، ۳:- یا پھر دور سے سلام کرنا۔
l   حج کی فرضیت تین چیزوں سے ثابت ہوتی ہے: ۱:- کتاب اللہ،’’وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘، ۲:- سنت:’’أیہا الناس! إن اللّٰہ عزوجل قد فرض علیکم الحج، فحجوا‘‘ (مسند احمد)، ۳:- اجماعِ اُمت۔
l   حج میں ہدی کے لیے تین قسم کے جانور جائز ہیں: ۱:-اونٹ،۲:- گائے ، ۳:-بھیڑ بکری۔ 

آخر میں آیاتِ کریمہ میں موجود عمومی فوائد پر ایک نظر 

l   حج کی فضیلت اور اس کی عظمت ، پہلی آیت میں لفظِ حج کا بار بار تذکرہ سے اس کی طرف اشارہ ہے، حالانکہ ضمیر کا اعادہ کافی تھا ۔
l   اسلامی قمری تاریخ کی اہمیت کہ عبادتیں اسی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
l   دین میں آسانی ہے:’’لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا‘‘، ’’ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ ‘‘
l   دین کی ایک عمومی شکل ہے، اس میں کسی قوم کے لیے خصوصیت کا اعتبار نہیں:’’ ثُمَّ أَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ‘‘
l   تجارت اخلاص کے منافی نہیں:’’ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘
l   حج کے اعمال میں ترتیب کی اہمیت:’’فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ‘‘
l   لفظِ افاضۃ سے حجاج کی کثرت کی طرف اشارہ ہے، مستقبل کااحاطہ یہ قرآن ہی کا اعجاز ہے۔
l   دین میں اتباع کی اہمیت ہے:’’ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ‘‘
l   سب سے بڑی نعمت ہدایت ہے، اس پر اللہ کا شکر کرنا چاہیے:’’وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ وَإِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّالِّیْنَ‘‘
l   اللہ تعالیٰ ستّار ہے، اس لیے سیاقِ ذم میں ’’وَمِنَ النَّاسِ‘‘ فرمایا اور پورے قرآن کا یہی اسلوب ہے، حدیث میں بھی ایسے موقع پر’’ ما بال قوم ‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے، کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
l   دعا کا جامع ہونا مطلوب ہے:’’رَبَّنَا أٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
l   اعتدال ہر حال میں بہتر ہے، کچھ لوگ صرف دنیا مانگتے ہیں، کچھ آخرت، حالانکہ بہتر یہ ہے کہ آدمی دونوں مانگے۔
l   ’’ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی‘‘، ۔ ۔۔انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کوشش کی۔ ’’أُولٰئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ‘‘۔۔۔۔۔ ’’ان کے لیے حصہ ہے ان کے اعمال کا۔‘‘
l   عرب حسب ونسب پر تفاخر کرتے تھے:’’کَذِکْرِکُمْ آبَائَ کُمْ‘‘  
فائدہ: عام طور پر آباء واجداد کو یاد کرنے کا مقصد قوت و غیرت کو بڑھانا تھا، جیسے کہ کہا گیا: ’’یَا أُخْتَ ہَارُوْنَ مَاکَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْئٍ‘‘چونکہ اللہ کو یاد کرنے سے اس سے کہیں زیادہ قوت وغیرت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا گیا اور تعصب سے منع کردیا گیا۔
l   بعض لوگوں کا اجر نقد دنیا میں ملتا ہے، آخرت میں ان کے لیے محرومی ہے:’’وَمَا لَہٗ فِی الْأٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ‘‘
l   حرمین میں جس طرح نیکیوں کا اجر دگنا ہے، اسی طرح وہاں گناہ زیادہ خطرناک ہے: ’’فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ‘‘
l   حج میں اخلاص خصوصی طور پر مطلوب ہے:’’وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ‘‘
l   جس گناہ کا اندیشہ زیادہ ہو اس کی ممانعت خصوصی طور پر ملحوظ ہے، جیسے کہ حج میں رش کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی نوبت زیادہ آتی ہے، اس لیے اس سے خصوصی ممانعت کی۔
l   واضح رہے کہ مدتِ صیام میں بھی ابتداء ً  مطلق رفث یعنی جماع سے منع کیا گیا ہے، جس طرح حج کی ان آیتوں میں منع کیا گیا ہے، پھر اس کی رات کے وقت اجازت مل گئی: ’’أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلٰی نِسَائِ کُمْ ‘‘نیز اعتکاف میں بھی رفث یعنی جماع سے منع کیا گیا ہے: ’’وَلاَ تُبَاشِرُوْہُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ‘‘ 
l  سورۂ بقرہ میں سب ارکان اسلام کا ذکر ترتیب سے موجود ہے، پہلی پانچ آیات میں ایمان، نماز، زکاۃ اور دوسرے پارہ میں روزہ، اور پھر انہی آیات میں حج کا ذکر ہوا جو ترتیب کے لحاظ سے ویسے بھی آخر میں ہے۔
l   عرفات کا ظاہری منظر قیامت کے محشر کویاد دلانے کی ایک صورت ہے، آیات کا اختتام’’وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ‘‘پر کیا گیا۔ مناسبت واضح ہے۔ 
l  ذکر سے خاص طور پر تلبیہ (جو عام حالت میں ہوتا ہے)، تکبیر، تہلیل مراد ہیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین