بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جناب جاویدغامدی ۔۔۔۔۔ مرزا قادیانی کا وکیل صفائی .... مدعی سست گواہ چست

جناب جاویدغامدی ۔۔۔۔۔ مرزا قادیانی کا وکیل صفائی مدعی سست گواہ چست

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

ہماری نوجوان نسل جن کو ایک خاص منصوبے اور سازش کے تحت دینی اداروں اور دینی مراکز سے دور رکھا گیا، عام طور پر اپنے دین ومذہب اور مسلک ومشرب سے خالی الذہن اور لاعلم ہوتی ہے، مگر چونکہ فطرتاً مذہب پسند ہوتی ہے، اس لیے جو شخص بھی دین کے نام پر جو آواز لگاتا ہے یہ نوجوان نسل دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے اور اپنے جذبۂ اخلاص کی بنا پر ایسی آواز لگانے والے ہر شخص کو مخلص اور اپنا نجات دہندہ تصور کرتی ہے، لیکن پتہ تب چلتا ہے جب وہ اپنی متاعِ ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی، ایران کا بہاء اللہ، فرقہ مہدویہ کا بانی محمد جون پوری، کوٹری کا گوہر شاہی، لاہور کا یوسف کذاب، پنڈی کا زید زمان عرف زید حامد اور آج ملائیشیا میں بیٹھ کر مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے والا جاوید احمد غامدی، یہ سب وہ کردار ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کو لوٹا اور عقیدت کا ایسا نشہ ان کو پلایا کہ آج تک کئی لوگ ان کے گرویدہ اور اپنی متاعِ ایمان ان کے ہاتھوں گنواچکے ہیں۔ آج سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم چرب زبان اور طلاقت لسانی سے متصف ہر عیار اور مکار شخص کو دین ومذہب کا ترجمان اور اس کے پریشان افکار وخیالات کو دین ومذہب کی صحیح تعبیر اور تشریح سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی پاکپتن سے اٹھا، لاہور آیا، جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، وہاں کا نظم اور ڈسپلن راس نہ آیا تو امین احسن اصلاحی کو اپنا پیشوا بنایا اور اب قرآن، سنت، اجماع، نماز، زکوٰۃ، رجم، جہاد، رفع ونزول عیسیٰ m، حضرت مہدی علیہ الرضوان، حتیٰ کہ تمام ضروریاتِ دین میں ان کی ایک الگ سوچ اور الگ فکر ہے۔ اور برملا کہا جاتا ہے کہ قرآن وسنت اور اہل سنت والجماعت کے مسلمات کی سوا چودہ سو سال سے آج تک جو تعبیر وتشریح کی جارہی تھی وہ صحیح نہیں، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یا جو میری تعبیر ہے وہ درست ہے، العیاذ باللہ۔ باقی باتوں کے علاوہ اب ایک نئی اپچ جو انہوں نے اختراع کی ہے وہ یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے کوئی نبوت کا اعلان نہیں کیا تھا، انہوں نے تو وہی بات کی ہے جو ابن عربیv اور دوسرے متصوفین نے کی ہے اور بین السطور گویا وہ یہ کہنا اور تأثر دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ صوفیاء اور مرزا غلط تعبیر میں برابر کے شریک ہیں، اس لیے یا تو دونوں ہی کو کافر قرار دو یا دونوں ہی کافر نہیں ہیں۔ امت مسلمہ چونکہ صوفیاء کو کافر قرار نہیں دیتی، اس لیے مرزا غلام احمد قادیانی بھی کافر نہیں، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ جناب جاوید احمد غامدی کے اصل الفاظ یہ ہیں، ملاحظہ فرمائیں: ’’خود مرزا غلام احمد قادیانی کی جو تحریریں ہیں، ان میں بصراحت نبوت کے دعوے کی کوئی دلیل نہیں۔ ختم نبوت کا بھی انہوں نے کہا کہ میں اس کا قائل ہوں، لیکن میرا مطلب یہ ہے، میری۔۔۔۔۔ مراد یہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ تحریرجتنی واضح ہے ان کے مقابلے میں وہ اتنی واضح نہیں ہیں، ان کے بعد مرزا بشیر الدین محمود نے معاملہ زیادہ صریح کیا کہ نہیں باقاعدہ (نبی)ہیں، ورنہ معاملہ حل ہوجاتا، اتنا ۔۔۔ ہی رہتا جتنا صوفیاء کا تھا۔‘‘ راقم الحروف تفصیل میں جائے بغیر مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی چند تحریرات یہاں نقل کرتا ہے، جن سے قارئین بآسانی یہ فیصلہ فرماسکتے ہیں کہ ان عبارات میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیا ہے یا نہیں؟ ۱:۔۔۔۔’’ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں، جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کرسکے، وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے، چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے، وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا، حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، اس میں ایسے الفاظ، رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں، بلکہ اس وقت تو پہلے زمانے کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ، ص:۳، روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۰۶ ،از مرزا قادیانی) جناب جاوید غامدی صاحب بتائیے! آپ تو فرماتے ہیں کہ انہوںنے کبھی دعویٰ نبوت نہیں کیا، لیکن موصوف لکھ رہے ہیں کہ: ایسا جواب صحیح نہیں،حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، اس میں ایسے الفاظ :رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ، پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے؟۔ ۲:… رسول اورمرسل قواعد کی اصطلاح میں صاحب شریعت نبی کو ہی کہا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: مرزا غلام قادیانی نے علامہ ابن عربیv کی طرح نبوت کی تقسیم کی ہے: تشریعی نبوت اور عام نبوت اور عام نبوت کو انہوں نے جاری مانا ہے، جس کی بنا پر آپ صرف ان کے نہیں بلکہ پورے تصوف کے مخالف ہوگئے اور آپ نے کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی صوفیوں کی طرح عام نبوت کے اپنے لیے جاری رہنے کا اعلان کیا ہے، حالانکہ درج بالا مرزا کی عبارت صراحتاً اعلان کررہی ہے کہ مرزا کا دعویٰ صاحب شریعت نبی ہونے کا ہے۔ ۲:۔۔۔۔’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے، جو میرے پر نازل ہوا۔۔۔۔۔ اور یہ دعویٰ امت محمدیہ میں سے آج تک کسی اور نے ہرگز نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ نے میرا یہ نام رکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی وحی سے صرف میں اس نام کا مستحق ہوں۔‘‘                               (حقیقۃ الوحی، ص:۳۷۸، روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۵۰۳ ،از مرزا قادیانی) ۳:۔۔۔۔’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گزرچکے ہیں، ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا، پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں، کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی۔‘‘                          (حقیقۃ الوحی، ص:۳۹۱، روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۴۰۶-۴۰۷، از مرزا قادیانی) ۴:۔۔۔۔’’میں خدا تعالیٰ کی تیئیس برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کرسکتا ہوں۔ میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتاہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘          (حقیقۃ الوحی، ص:۱۵۰، روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۱۵۴، از مرزا قادیانی) ۵:۔۔۔۔’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے، جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘     (انجام آتھم، ص:۶۲، روحانی خزائن، ج:۱۱، ص:۶۲، از مرزا قادیانی) ۶:۔۔۔۔’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘  (ملفوظات،ج:۵، ص:۴۴۷،طبع جدید،از مرزا قادیانی) ۷:۔۔۔۔’’خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘     (اربعین نمبر:۳، ص:۳۶ مندرجہ روحانی خزائن، ج:۱۷، ص:۴۲۶، از مرزا قادیانی) ۸:۔۔۔۔’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘                              (دافع البلائ، ص:۱۱مندرجہ روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۳۱، از مرزا قادیانی) ۹:۔۔۔۔’’جس طرح فرعون کے پاس رسول بھیجا گیا تھا وہی الفاظ ہم کو بھی الہام ہوئے ہیں کہ تو بھی ایک رسول ہے، جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا۔‘‘                                               ( ملفوظات،ج:۵، ص:۱۷،طبع جدید، از مرزا قادیانی) ۱۰:۔۔۔۔’’تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گو ستر برس تک رہے، قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا، کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لیے نشان ہے۔‘‘                                  (دافع البلائ، ص:۱۴، روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۳۰، از مرزا قادیانی) ۱۱:۔۔۔۔’’اور میں اس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے نشان ظاہر کیے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں۔‘‘              (حقیقۃ الوحی، ص:۳۸۷، روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۵۰۳، از مرزا قادیانی) ۱۲:۔۔۔۔’’إنا أرسلناإلیکم رسولًا شاہدًا علیکم کما أرسلنا إلٰی فرعون رسولا‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے، اسی رسول کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔‘‘                      (حقیقۃ الوحی، ص:۱۰۲، روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۱۰۵، از مرزا قادیانی) ۱۳:۔۔۔۔’’یسٓ، إنک لمن المرسلین‘‘۔۔۔۔’’اے سردار! تو خدا کا مرسل ہے۔‘‘                             (حقیقۃ الوحی، ص:۱۰۷مندرجہ روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۱۱۰، از مرزا قادیانی) ۱۴:۔۔۔۔’’مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے کہ ’’ھوالذی أرسل رسولہ بالہدٰی ودین الحق لیظہرہٗ علٰی الدین کلہ۔‘‘                       (اعجاز احمدی، ص:۷مندرجہ روحانی خزائن، ج:۱۹، ص:۱۱۳ از مرزا قادیانی) ۱۵:۔۔۔۔’’پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے: ’’محمد رسول اللّٰہ والذین معہٗ أشداء علی الکفار رحماء بینہم‘‘ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘      (ایک غلطی کا ازالہ، ص:۴مندرجہ روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۰۷، از مرزا قادیانی) ۱۶:۔۔۔۔’’میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں، یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ، ص:۷ مندرجہ روحانی خزائن،ج:۱۸،ص: ۲۱۱، از مرزا قادیانی) ہم نے یہ چند حوالہ جات صرف اور صرف مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تحریرات کے دیئے ہیں جن میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے نبی اور رسول ہونے کے دعاوی کیے ہیں، باقی جو کچھ ان کے بیٹوں مرزا بشیر الدین محمود اور مرزا بشیر احمد ایم اے نے اپنے باپ کے بارہ میں لکھا ہے، ہم نے وہ سب تحریرات یہاںنقل نہیں کیں، اس لیے کہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں کہ مرزا کی نبوت کے بارہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب ان کے بیٹوں کا کیا دھرا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی اولاد، ان کی تمام ذریت اور پوری قادیانیت اسے نبی، رسول ، نجات دہندہ اور مسیح موعود تسلیم کرتی ہے، حتیٰ کہ انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور ، اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘                 (روزنامہ الفضل، قادیان، ۲۱؍ اگست،۱۹۱۷ئ، جلد نمبر:۵،ص:۸) لیکن جناب جاوید احمد غامدی صاحب یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وکیل صفائی کا کردار ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: جیسے قادیانیوں سے الگ ہونے والا لاہوری گروپ مرزا کو ایک مجدد مانتا ہے، مرزا غلام احمد قادیانی نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا، یہ بھی جناب موصوف کی قادیانیوں کی طرح ایک تلبیس ہے۔ حالانکہ خلافت نہ ملنے کی وجہ سے قادیانیوں سے علیحدہ ہونے والا چوہدری محمد علی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی، رسول اور اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا، لیکن بعد میں اس جماعت نے ضد کی بنا پر قادیانیوں سے الگ عقیدہ گھڑ لیا۔ امت مسلمہ کے نزدیک قادیانی گروپ ہو یا لاہوری گروپ، دونوں مرتد، زندیق اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جناب محمد متین خالد صاحب اپنی مایہ ناز تصنیف’’ثبوت حاضر ہیں‘‘ میں جناب پروفیسر محمد الیاس برنیv کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’۱۹۰۸ء میں مرزا قادیانی جہنم واصل ہوا، اس کے بعد حکیم نور الدین خلیفہ بنا۔ ۱۹۱۴ء میں اس کے مرنے کے بعد قادیانی جماعت میں جھگڑا پیدا ہوگیا۔ مرزا قادیانی کا دیرینہ دوست مولوی محمد علی لاہوری چاہتا تھا کہ وہ قادیانی خلافت کا زیادہ حقدار ہے، لیکن مرزا قادیانی کے خاندان والے چاہتے تھے کہ ’’خلافت‘‘ خاندان سے باہر نہ جائے، چنانچہ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا محمود اس قادیانی گدھی پر سوار ہوگیا۔ اس کے بعدمحمد علی لاہوری اپنے ساتھیوں سمیت قادیان چھوڑ کر لاہور آگیا اور یہاں اپریل ۱۹۱۴ء میں ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام‘‘ کے نام سے نئی تنظیم بناکر کام شروع کردیا۔ لاہوری جماعت کا عقیدہ ہے کہ ہم مرزا قادیانی کو دوسرے مجددوں کی طرح ایک مجدد مانتے ہیں۔ حالانکہ محمد علی لاہوری مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت ورسالت کو نہ صرف مانتا تھا، بلکہ پورے زور وشور کے ساتھ اس کی تبلیغ وتشہیر بھی کرتا تھا، اس نے پورے زور قلم کے ساتھ اپنے پرچہ میں تحریر کیا: ۱:۔۔۔۔’’جھوٹے مدعی نبوت کو نصرت نہیں دی جاتی، بلکہ اسے ہلاک کرکے نیست ونابود کردیا جاتا ہے۔۔۔۔ اس طرح مرزا صاحب کے ساتھ نہیں کیا۔ پس جس شخص کے ساتھ خدا تعالیٰ اپنی کتاب کے مقرر کردہ قوانین کی رو سے جھوٹوں والا سلوک نہیں کرتا، بلکہ صادقوں اور سچے رسولوں والا سلوک کرتا ہے، اس کی صداقت پر شبہ کرنا خدا تعالیٰ سے جنگ کرنا اور اس کے کلام کی خلاف ورزی کرنا ہے، اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت کسی کی صداقت کا نہیں ہوسکتا اور اگر یہ ثبوت کافی نہیں تو پھر کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہوسکے گی ۔‘‘              (ریویو آف ریلیجنز، ج:۷، ص:۲۹۴) ۲:۔۔۔۔’’معلوم ہوا کہ بعض احباب کو غلط فہمی میں ڈالا گیا ہے کہ اخبار ہٰذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے اصحاب یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا وہادینا حضور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت میں اخبار پیغام صلح سے تعلق ہے، خدا تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت مسیح موعود نے اپنا بیان فرمایا ہے اس سے کم وبیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں۔‘‘     (اخبار پیغام صلح، ج:۱، ص:۴۲، ۱۶؍اکتوبر۱۹۱۳ئ) ۳:۔۔۔۔’’ہم خدا کو شاہد کرکے اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ مسیح موعود یعنی (مرزا قادیانی) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور اس زمانہ کی ہدایت کے لیے دنیا میں نازل ہوئے۔ آج آپ کی متابعت میں ہی دنیا کی نجات ہے۔‘‘       (اخبار پیغام صلح، ج:۱،ص:۳۵، ۷؍ ستمبر۱۹۱۳ئ) بقول پروفیسر محمد الیاس برنیؒ: ’’قادیانیوں کی ان دونوں جماعتوں میں درحقیقت کوئی فرق نہیں، بلکہ یہ اختلاف اور نزاع صرف اقتدار کا ہے، اگر مولوی محمد علی کو مرزا محمود کی جگہ خلافت مل جاتی تو وہ بھی وہی کہتا جو عام قادیانی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ ان دونوں فرقوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ ایک کا رنگ گہرا اعنابی اور دوسرے کا ہلکا گلابی ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان میں اختلاف حقیقی نہیں، بلکہ بناوٹی ہے۔‘‘                                 (قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ، از پروفیسر محمد الیاس برنیؒ) راقم الحروف جناب جاوید احمد غامدی سے سوال کرتا ہے کہ کیا کسی اہل تصوف نے ایسے دعوے کیے ہیں؟ جو آپ کے ممدوح مرزا غلام احمد قادیانی نے کیے ہیں؟یا کسی صوفی اور ولی نے اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور جہنمی کہا ہے؟ کیا کسی ولی نے انبیاء o کی توہین کی ہے؟ کیا کسی ولی نے صحابہs کو گالیاں دی ہیں؟ کیا کسی ولی نے حضرت فاطمہt اور حضرت حسین q کی گستاخیاں کی ہیں؟ کیا کسی ولی نے اپنے نہ ماننے والوں کو جنگل کے سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیا کہا ہے؟ مرزا کے وکیل صفائی پر ایک ایک سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔ آپ سے کوئی یہ سوال بھی کرسکتا ہے کہ جو شخص انگریز کو خوش کرنے کے لیے جہاد کی منسوخی کے لیے اتنا لٹریچر لکھے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر جائیں، اور سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں بار اپنے عقیدت مندوں میں جہاد کی منسوخی کا حکم اور اعلان کرے، کیا کسی صوفی اور بزرگ نے کبھی یہ کام کیا ہے؟ یا کس صوفی اور ولی نے عیسائیوں کو خوش کرنے کے لیے جہاد کی منسوخی کا اعلان کیا تھا؟ جناب جاوید احمد غامدی صاحب بقول آپ کے صوفیاء کے دعاوی مرزے جیسے ہیں تو تاریخ سے بتلایا جائے کہ کس صوفی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور جہنمی کہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور اکرم a اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ a کے بعد کوئی ظلی، بروزی، تشریعی، غیر تشریعی نبی پیدا نہیں ہوگا، اس کو عقیدۂ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن کریم کی سو آیات، حضور اکرم a کی دو سو دس سے زائد احادیث سے مؤکد اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ آپ a نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا:  ’’ إنہ سیکون فی أمتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم أنہٗ نبی، و أنا خاتم النبیین لانبی بعدی۔‘‘                                             (ابوداود،ج:۲،ص:۲۲۸) ’’عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے (ظاہر) ہوں گے ، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ چنانچہ آپ a کی حیات مبارکہ میں اسود عنسی بدبخت نے نبوت کا اعلان کیا، آپ a کے فرمان کے مطابق واصل جہنم ہوا۔ مسیلمہ کذاب نے آپ a کی حیات مبارکہ میں دعویٰ نبوت کیا تو حضرت ابوبکر صدیق q نے حضرت خالد بن ولید q کی امارت میں اس کے خلاف جہاد کرکے اسے اور اس کے ماننے والوں کو واصل جہنم کیا۔ برصغیر میں انگریز تجارت کے بہانے گھسا، مسلم بادشاہوں کی عیاشیوں اور غفلتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریز عیار نے ان سے ملک چھین لیا، مخلص مسلم عوام نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا، جس کی پاداش میں ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا، لیکن مسلم عوام کا جذبۂ جہاد سرد نہ ہوا تو انگریز نے ایک اور چال چلی کہ انہیں میں سے کوئی مصلح، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، مسیح موعود، حتیٰ کہ نبی اور رسول کے درجہ پر اسے پہنچاکر اس سے جہاد کی منسوخی کا اعلان کرایا جائے۔ اس کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی سے بہتر ان کو کوئی آدمی نہ مل سکتا تھا، کیونکہ یہ خاندان انگریز کا پرانا وفادار تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مرزا غلام احمد کے باپ مرزا غلام مرتضیٰ نے پچاس گھوڑے انگریز کو عطیہ کیے تھے۔ انگریز کے دربار میں اس کے باپ کے لیے اسپیشل نشست مقرر تھی، اس لیے انہوں نے مرزا پر ہاتھ رکھا اور یہ سارے دعوے اس سے کرائے۔آج پوری امت مسلمہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے چاہے قادیانی گروپ ہو یا لاہوری گروپ سب کو مرتد، زندیق اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے۔ یہی فیصلہ پوری دنیا کی ۱۴۴؍ تنظیموں نے رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ یہی فیصلہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ۱۹۷۴ء میں متفقہ طور پر کیا اور یہی فیصلہ ہر اس عدالت نے کیا جہاں جہاں قادیانی اپنی درخواستیں لے کر گئے۔ ان عدالتوں میں فیصلہ کرنے والے جج ہندو بھی تھے اور یہودی بھی، ہر ایک نے چاہے اندرون ملک کی عدالتیں ہوںیا بیرون ملک کی، سب نے یہی فیصلہ کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ایک جناب جاوید غامدی صاحب ہیں جو اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ان کے چاہنے والوں سے یہی سوال کرتے ہیں کہ فیصلہ آپ کریں، ایک جاوید احمد غامدی غلط راہ پر ہے یا پوری مسلم برادری؟ جاوید احمد غامدی کی سوچ اور فکر غلط ہے یا پوری پاکستانی قومی اسمبلی اور چھوٹی عدالت سے عدالت عظمیٰ تک؟ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ قبر اور حشر میں ہر ایک نے اپنا جواب دینا ہے، کوئی کسی کا ساتھ نہیں دے گا۔ اور دنیا میں سب سے قیمتی چیز متاعِ ایمان ہے،اگرآج کسی کی عقیدت کے نشہ میں یہ متاع لٹ گئی تو بتائیے! خسارے کے علاوہ کیا ملے گا؟ ’’ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۔‘‘

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین