بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جمعیت علمائے اسلام کے زیراہتمام صدسالہ عالمی اجتماع

جمعیت علمائے اسلام کے زیراہتمام صدسالہ عالمی اجتماع

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

متحدہ ہندوستان سے برطانوی تسلط کو ختم کرنے اور ہندوستان سے ان کا ناجائز قبضہ چھڑانے کے لیے جب ۲۲؍ نومبر۱۹۱۹ء کو دہلی میں خلافت کانفرنس ہوئی تو اس میں ۲۵؍ علمائے کرام کا علیحدہ ایک اجلاس ہوا، اس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان کے تمام مکاتب فکر پر مشتمل جمعیت ہونی چاہیے، جو جمعیت علمائے ہند کے نام سے منسوب ہو، اس اجلاس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ نے کی۔ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ ؒ اس کے صدر اور مولانا احمد سعید دہلویؒ کو ناظم عمومی مقرر کیا گیا۔ اس جمعیت کا دستوری خاکہ اور منشور درج ذیل طے کیا گیا: دفعہ:۳:… اسلامی نقطہ نظر سے ملتِ اسلامیہ کی حسب ذیل امور میں رہنمائی اور جدوجہد کرنا: الف:… اسلام، مرکزِ اسلام (حجاز) جزیرۂ عرب اور شعائرِ اسلام کی حفاظت اور اسلامی قومیت کو نقصان پہنچانے والے اثرات کی مدافعت۔ ب:… مسلمانوں کے مذہبی اور وطنی حقوق اور ضروریات کی تحصیل و حفاظت۔ ج:… علماء کو ایک مرکز پر جمع کرنا۔ د:… ملتِ اسلامیہ کی شرعی تنظیم اور محاکم شرعیہ کا قیام۔ ہ:… شرعی نصب العین کے موافق قوم اور ملک کی کامل آزادی۔ و:… مسلمانوں کی مذہبی، تعلیمی، اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی اصلاح اور اندرونِ ملک حسبِ استطاعت اسلامی تبلیغ واشاعت۔ ز:… ممالکِ اسلامیہ اور دیگر ممالک کے مسلمانوں سے اسلامی اخوت واتحاد کے روابط کا قیام واستحکام۔ ح:… شرعی حدود کے مطابق غیرمسلم برادرانِ وطن کے ساتھ ہمدردی اور اتفاق کے تعلقات کا قیام ۔                                                   (جمعیت العلماء کیا ہے؟ ص:۱۳،۱۴) جمعیت علمائے اسلام کا دستور اور منشور بھی یہی ہے، جس نے جمعیت علماء کے قمری سال کے اعتبار سے سوسالہ جدوجہد پر مشتمل اس زمانی سفر کا سوسالہ تاسیسی عالمی اجتماع اضاخیل، پشاور میں منعقد کیا۔ اس اجتماع میں ۵۲؍ ممالک کے سفرائ، مندوبین، برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور کے علاوہ امامِ کعبہ شیخ صالح محمد بن ابراہیم آل طالب خصوصی طور پر تشریف لائے اور اس عظیم عالمی اجتماع میں نمازِ جمعہ کا خطبہ اور امامت کرانے کے علاوہ تیسرے دن اختتامی خطاب اور نمازِ ظہر کی امامت بھی کرائی۔ پاکستان بھر کی تمام معروف اور بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور نمائندوں کی شرکت کے علاوہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائم مقام صدرحضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم اور دارالعلوم کراچی کے نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم بھی تشریف لائے۔ تین دن مسلسل سیاسی، مذہبی اور دینی اکابر واعاظم کے بیانات ہوتے رہے، ان میں بطورِ خاص چار اکابر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، جامعہ کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، امام کعبہ شیخ صالح اور قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ کے بیانات کے اقتباسات افادۂ عام کی غرض سے یہاں نقل کیے جارہے ہیں: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا:’’ میرے بہت ہی قابل احترام علماء کرام اور معزز حاضرین! یہ ہم لوگوں کے لیے ایک بڑی عظیم سعادت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آج مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع میں شرکت کی توفیق عطا فرمائی، ایسا مسلمانوں کا اجتماع پاکستان کی تاریخ میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس مبارک اجتماع کو ملک و ملت کے لیے مفید اور بابرکت بنائے، اور اس اجتماع میں امام حرم مکی کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرنے پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔  میں مولانا فضل الرحمن کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس مبارک اجتماع کا اہتمام فرمایا۔ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں جمع ہیں کہ یہ خود اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کے نزول کا سبب ہے۔ یہ دور تک نظر آنے والے سر‘ جن کی انتہاء نظر نہیں آرہی، یہ کسی دنیاوی مقصد کے لیے جمع نہیں ہوئے، کسی مالی مفاد کی خاطر نہیں آئے، یہ کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں آئے، بلکہ ان کو لانے والی صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘۔اس کلمہ کی خاطر اور اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس کی رحمت سے پوری امید ہے کہ اُن کی آمد قبول ہوگی، اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازیں گے۔  اس موقع پر لمبی بات نہیں کروںگا، میرے بزرگ حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب مدظلہم موجود ہیں اور وہ بیان فرمائیں گے۔ میں مختصر عرض کروں گا کہ اس عظیم اجتماع میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف مکاتب فکر کے، مختلف طبقہ ہائے خیال کے، مختلف جہتوں کے وہ حضرات موجود ہیں جو دینی، علمی، سیاسی، غیر سیاسی ہر طرح کی شخصیات جمع ہیں، اور صرف پاکستان سے نہیں، بلکہ ہمارے محبوب ملک سعودیہ سے، پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے، برطانیہ، جنوبی افریقہ سے، امارات و بحرین اور دنیا کے مختلف ممالک سے جمع ہیں اور ایک ہی مقصد کے لیے جمع ہیں کہ آج اسلام اور مسلمانوں کو عظیم مسائل درپیش ہیں، پوری دنیا کے مسلمان طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہیں، اور ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی صورت کو دہشت گردی کی تصویر بناکر پیش کیا جارہا ہے، خونریزی کے ساتھ وابستہ کیا جارہا ہے، اس میں خود ہمارے بعض نادان مسلمان بھائی اس پروپیگنڈے کا ساتھ دے رہے ہیں، اسلام کی انتہائی غلط اور بھیانک تصویر آرہی ہے، وہ اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پھر مختلف ممالک میں اسلام کو ختم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں، سیکولر اور لادینی طاقتیں اس فکر میں ہیں کہ کسی بھی ملک میں صحیح طریقے پر اسلام کا نفاذ نہ ہوسکے، نہ پاکستان میں اور نہ دنیا کے کسی اور خطے میں! اس مسائل کے دور میں ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ہم متحد ہوں، ہمیں اپنے مسلکی، فکری، سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مقصد کے لیے جمع ہونا ہے اور وہ یہ ہے کہ: اسلام کی صحیح صورت دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔ اسلام اور شریعت کی صحیح تنفیذ کا کام اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کیا جائے، اور اس کے لیے فکری بنیادوں پر متحد بھی ہوں اور متفق بھی ہوں۔ اس میں یہ ضروری نہیں کہ ساری جماعتیں، تنظیمیں اور ادارے ختم ہوجائیں، یہ برقرار رہتے ہوئے بھی، مشترک رہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یک جان اور یک جہت ہو کر کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے اکابر نے اپنے عمل سے یہ بات واضح فرمائی ہے، یہ اجتماع الحمد للہ! مختلف حضرات کا ہے، میں امید رکھتا ہوں کہ یہ اجتماع اس اتحاد کو قائم کرنے کے لیے اور مشترک مقاصد میں مشترک جد و جہد کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس اجتماع سے یہ برکات عطا فرمائے، آمین۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب نے فرمایا: مسلمان‘ اہل علم سے محبت کرتے ہیں اور اہل علم نے اس ملک میں دین کو قائم کیا، مدارس و مکاتب قائم کیے اور تفقہ فی الدین اور رسوخِ علمی پیدا کیا اور اُمت کی ہر موقع پر رہنمائی کی۔ مہمانانِ گرامی! جمعیت علماء اسلام نے استحکام پاکستان اور استقلال پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت مفتی محمود v جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف تھے، انہوں نے قادیانیت کے خلاف پارلیمنٹ میں بڑی اہم خدمات انجام دیں، جس کی بنا پر پوری قومی اسمبلی نے قادیانیوں اور لاہوریوں کو متفقہ طور پر غیرمسلم اقلیت قراردیا۔  ہمارے شیخ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v نے قادیانیوں کے خلاف (عوام میں) تحریک چلائی اور مفتی محمود v پارلیمنٹ میں کام کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایسے علماء اور جماعتیں دی ہیں جو ہماری دینی رہبری کرتی ہیں۔ اس وقت مولانا مفتی محمودv تھے، آج ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن ہیں، عربی میں کہا جاتا ہے کہ:’’خَیْرُ خَلَفٍ لِخَیْرِ سَلَفٍ‘‘ آج جمعیت کو ایسا قائد ملا ہے جو بڑی جہد کے ساتھ پارلیمنٹ میں اسلام کا دفاع کرتا ہے، مدارس کا دفاع کرتا ہے، مساجد کا دفاع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ان سے خوب دین کا کام لے۔  میں مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں کہ ہمیشہ تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ کیا ہے؟ اللہ اور رسولa کے احکام بجا لانا، اور منع کی ہوئی چیزوں سے بچنا۔ اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ، ان شاء اللہ! دنیا میں بھی کامیابی ملے گی اور آخرت میں بھی کامیابی ملے گی، صادقین کون ہیں؟ علماء ! علماء کے ساتھ ہوجاؤ، کیونکہ علماء انبیائB کے وارث ہیں، انبیائB روپیہ پیسہ نہیں چھوڑ کر جاتے بلکہ دین چھوڑ کر جاتے ہیں، جس نے اس کو حاصل کیا، اس نے دین کا بڑا حصہ حاصل کرلیا، اور انبیائB جس طرح اُمت کی رہنمائی کرتے ہیں، اسی طرح علماء بھی اُمت کی رہنمائی کررہے ہیں، اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔ جو لوگ علماء سے جڑے رہیں گے، وہ دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی کامیاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام کعبہ شیخ صالح محمد بن ابراہیم آل طالب نے جے یو آئی کے صد سالہ اجتماع کے آخری روز خطاب کرتے ہوئے کہا: پاکستان کے عوام، پاکستان کی حکومت اور تمام پاکستانی قائدین کو یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیے کہ عالم اسلام اس وقت جن شدید مشکلات سے دوچار ہے، ان حالات میں سب کی نظریں پاکستان پر ہیں، لہٰذا پاکستان کی حفاظت اور پاکستان کی ترقی پاکستان کے عوام پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، شام، عراق اور دیگر مسلم ممالک میں جاری انتشار کے خاتمے کے لیے تمام امت کو متحد ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مشکلات ختم کرے۔ انہوں نے کہا کہ: اسلام پوری دنیا کے لیے امن اور خیر کا دین ہے۔ اسلام کا تعلق دہشت گردی یا فرقہ واریت سے نہیں، جبکہ مدارس خیر کا سبب اور دین کی تعلیم پہنچارہے ہیں۔ مدارس کی تعلیم دہشت گردی سے روکتی ہے۔ آج تمام مسلمان دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہیں۔ آج ہم متحد ہوکر تمام مقدس مقامات کی حفاظت کریں۔ پورے عالم کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، حرمین کی حفاظت کے لیے پاکستان کا موقف غیر متزلزل ہے۔  اس اجتماع نے انسانیت کو امن کا پیغام دیا اور انسانیت کو پیغام خیر پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ: یہ اجتماع آج ہمیں اس بات کا پیغام دے رہا ہے کہ قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ کہ: ’’آپس میں ایک دوسرے سے مت الجھو، تاکہ تم ناکام نہ ہوجائو‘‘ قرآن کریم کی یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ یہ اُمت ،امتِ واحدہ ہے اور یہی آج اس عظیم اجتماع کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ: مسلمان اختلافات بھلاکر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ جمعیت علماء اسلام کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کتاب و سنت کی حفاظت کی۔ اسی طرح علماء کا تعلق حرمین شریفین کے ساتھ جس طرح قائم اور دائم ہے، یہی تعلق ان شاء اللہ! اس امت کے لیے خیر اور برکت کا ذریعہ بنے گا۔  امام کعبہ نے کہا کہ: دہشت گردی‘ سوسائٹی، معاشرے اور ملک کے اقتصادی نظام کو مفلوج کرتی ہے، لہٰذا آج تمام مسلمان متحد ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری زندگی کی بنیاد اور ترقی کا دارومدار قرآن اور سنت پر ہے اور قرآن و سنت ہمیں اللہ کے رسول a اور صحابہ کرامs کے ذریعے ملی ہے، اگر صحابہ کرامs پر اعتماد ختم ہوگیا تو پھر سارا دین مجروح ہوجائے گا، اس لیے ہمارے نبی a اور صحابہ کرامs کے درمیان رشتوں کو کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان رشتوں کو ہم نے مضبوط بنانا ہے۔ مقدس مقامات کی حفاظت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہ امت کے لیے رحمت ہے اور یہ ہمیشہ امت کے لیے رحمت رہے گا۔ ہر معاملے میں درگزر کرنا ضروری ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم مقدس مقامات کی حفاظت سے ہٹ جائیں، ان کا دفاع تمام مسلمان اور عالم اسلام پر فرض اور واجب ہے، اس لیے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ میں نے اجتماع کا ہیلی کاپٹر کے ذریعے جائزہ لیا، اس اجتماع نے ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں کے آج بھی حوصلے بلند ہیں اور مسلمان آج بھی اُمت کا درد اپنے سینوں میں رکھتے ہیں۔ امام کعبہ شریف نے دینی خدمات پر مولانا فضل الرحمن صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعیت علمائے اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے فرمایا: معزز مہمانانِ گرامی، اکابر علماء ، مشائخ، بزرگانِ ملت، میرے دوستو اور بھائیو!میں سب سے پہلے اس عظیم الشان، فقید المثال اور تاریخی کامیاب اجتماع پر آپ تمام شرکاء اور جمعیت علماء اسلام کے تمام کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کا یہ اجتماع دینِ اسلام، اسلام کے پیغام اور آنے والے مستقبل کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا، ان شاء اللہ! محسوس کیا جارہا تھا کہ پاکستان ا ور عالم اسلام میں اسلامی اور دینی جذبات سرد ہوتے جارہے ہیں، مذہبی احساس پژمردگی کا شکار ہوتا جارہا ہے، ہر طرف مایوسی پھیلتی جارہی ہے، لیکن آج آپ کے اس عظیم اجتماع نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک نئی امید، برتری کا نیا احساس، اپنی بھرپور زندگی کا ایک نیا انداز زندہ کردیا ہے اور دنیا پر واضح کردیا ہے کہ جاں نثارانِ وطن، فدائیانِ اسلام، جاں نثارانِ اسلام آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے موقف پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔  اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہم اسلام کا ایک ایسا رُخ دنیا کو دیں گے، اسلام کی ایک ایسی تعبیر انسانیت کے سامنے رکھیں گے کہ جس کے بعد اسلام دنیا کے لیے ناقابل قبول ہوگا۔ میں آج بڑے اعتماد کے ساتھ پوری دنیا پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آج بھی اسلام سب سے زیادہ مقبول ترین دین ہے اور پوری انسانیت کے لیے راہنمائی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ آج بھی اگر دنیا میں انسانیت کو امن کا پیغام دے سکتا ہے تو وہ دینِ اسلام ہے۔ دینِ اسلام کے علاوہ کوئی نظریہ نظر نہیں آرہا جو انسانیت کو امن کا پیغام دے سکتا ہو۔ آج ہمارا یہ اجتماع صرف اُمتِ مسلمہ کی وحدت کا مظاہرہ نہیں، بلکہ انسانیت کی وحدت کا مظاہرہ ہے۔ ہم ان قوموں کو بتانا چاہتے ہیں جو آج اس مہذب دور میں اور اکیسویں صدی میں بھی انسانیت کا خون بہاکر فتوحات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم امریکا اور مغرب کے اس تصور کے ساتھ آج بھی اپنے اس اختلاف کا اظہار کررہے ہیں اور ہم اُنہیں بتارہے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کا نمائندہ نہیں، بلکہ اسلام امن کا نمائندہ ہے۔ اسلام کی بات مت کرو، اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنا تجزیہ کرو کہ کیا تم دنیا کو امن دے رہے ہو؟ آنے والی نسلوں کو پُرامن مستقبل دے رہے ہو یا آنے والی نسلوں کو ایک خون آلود مستقبل ان کے ہاتھوں میں تھمارہے ہو؟ میرے محترم دوستو! آج دنیا میں انسانیت کا خون بہایا جارہا ہے۔ کشمیر کی صورتِ حال کو دیکھیں! ایک زمانہ گزر گیا، کشمیری کرب سے گزررہا ہے۔ عالمی اداروں سے امید تھی کہ وہ دنیا کو امن دیں گے۔ ۱۹۴۵ء کی جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ ہو، عالمی ادارے ہوں، انسانی حقوق کے ادارے ہوں، وہ دنیا کو امن دے سکیں گے، اقوام کے درمیان اُخوت اور آشتی کا ماحول پیدا کرسکیں گے، تنازعات کے پُرامن حل کا کوئی راستہ نکال سکیں گے، لیکن ہم افسوس سے کہنا چاہتے ہیں کہ: بجائے اس کے کہ وہ انسانیت کو امن مہیا کریں، اقوام عالم کے درمیان، ممالک کے درمیان تنازعات کا پُرامن حل تلاش کریں، اس میں انہوںنے اقوام کو مایوس کردیا ہے۔افغانستان، آج وہاں خون بہہ رہا ہے۔ آپ نے افغانستان پر ناجائز حملہ کرکے اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ وہاں کی جائز حکومت کا خاتمہ کیا۔ آج افغانستان میں پھر وہ مجبور ہیں کہ سرزمین وطن کا دفاع کریں۔ یہ جمعیت علماء اسلام ہے جو حق کو حق سمجھتی ہے، باطل کو باطل سمجھتی ہے ، دنیا کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ امن افغانستان میں تبھی آئے گا، جب بیرونی قوتیں اور بیرونی فوجیں افغانستان کو خالی کریں گی اور پھر باہمی طور پر ملک اپنے درمیان باہمی مذاکرات کے ذریعہ پُرامن اور سیاسی حل اس کا نکال لے گا۔ آپ نے ہماری بات نہیں سنی، آپ نے ہمارے جائز موقف کو اہمیت نہیں دی تھی، نتیجہ کیا نکلا؟ کہ آج عراق لہو لہو ہے، آج عراق عملی طور پر منقسم ہے۔ آج شام لہو لہوہے، بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور دہشت گرد وہاں دندناتے پھر رہے ہیں، خون آلود سیاست وہاں کھیلی جارہی ہے۔ عالمی قوتیں، آج امریکا ہو یا روس کی صورت میں، شام میں اپنی طاقت کو استعمال کرکے، اس کو اپنی فتح کے لیے آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں۔ آپ نے لیبیا کو خون آلود کیا اور آج وہاں لیبیا منقسم ہوچکا ہے، وہ باہمی لڑائیوں میں اس طرح مبتلا ہوگیا ہے کہ طویل مدت تک وہاں پر امن اور مسئلہ کے حل کے لیے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔ یمن کی صورتِ حال اس حد تک خراب کردی ہے کہ آج ہمارا حرمین شریفین نشانہ پر آگیا ہے، مملکت سعودیہ عربیہ نشانہ پر آگئی ہے۔ اور آج جمعیت علماء اسلام کے اس عظیم اجتماع کی موجودگی میں اور امام کعبہ کی موجودگی میں ہم یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کے بنیادی اعتقادات اور بنیادی نظریات میں جزیرۃ العرب اور حرمین شریفین کا تحفظ ہمارے اعتقادات کا حصہ ہے، ہماری ایمانیات کا حصہ ہے اور میں امام کعبہ کو گواہ بناکر کہتا ہوں اور ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ دفاعِ حرم کے لیے پاکستان کا نوجوان ہو یا بچہ بچہ حرمین کے تحفظ پر اپنے سر کٹوادے گا اور اپنی جان قربان کردے گا۔ میرے محترم دوستو! جمعیت علماء اسلام کا یہ عظیم اجتماع اور یہ عالمی اجتماع، پوری اُمتِ مسلمہ کا نمائندہ اجتماع ایک دفعہ پھر عالمی اداروں سے کہنا چاہتا ہے اور ان کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ امن کے لیے کردار ادا کرو! اب تک جو تمہارا کردار کوئی دو تین عشروں سے سامنے آرہا ہے، یہ کردار قوموں کو لڑانے کا ہے، یہ کردار مذاہب کے خلاف دہشت گردی کے نام پر جنگ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ ہے اور ریاستی طور پر دنیا میں دہشت گردی کو ان پالیسیوں سے فروغ دیا جارہا ہے۔ میرے محترم دوستو! میں نے کل بھی کہا تھا کہ جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر ایک پاکستانی قوم کی بات کی ہے۔ ہم نے پاکستان کی قومی وحدت کی بات کی ہے اور اس اجتماع سے ہم اس پیغام کی تجدید کررہے ہیں، اس عہد کی تجدید کررہے ہیں کہ اکابر جمعیت علماء نے جمعیت علماء کی تاسیس جن بنیادوں پر رکھی تھی، امن ، آشتی ، عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد آج بھی جمعیت اس پر کاربند ہے۔ ان شاء اللہ! ہم اپنے اکابر سے عہد کرتے ہیں، ان کی روحوں سے عہد کرتے ہیں کہ آپ کے اس نظریۂ سیاست کو، آپ کی اس جہتِ سیاست کو قائم و دائم رکھا جائے گا اور کسی انتہا پسند کو، کسی شدت پسند کو اور کسی فرقہ پرست کو جمعیت علماء کی اس جہت، پوری قومی اور وطنی سیاست ، پُرامن اور عدم تشدد پر مبنی سیاست کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ہم عالمی برادری، پورے یورپ کو اس اجتماع سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیںکہ آیئے! انسانیت کو ایک کریں، اور چند اصولوں کو تسلیم کرکے ان اصولوں کی پیروی کریں۔  سب سے اولین بات ’’انسانیت کی آزادی کا حق‘‘انسان کی آزادی، اسے انسان کا پیدائشی حق تسلیم کیا جائے۔ قوموں کی خود مختاری کو تسلیم کیا جائے، عدم مداخلت کے اصول کو تسلیم کیا جائے۔ قوموں اور ملکوں کے اقتدارِ اعلیٰ اور داخلی اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کیا جائے، اس کا احترام کیا جائے، تب جاکر ہم انسانی وحدت کے دعوے میں سچے ثابت ہوسکتے ہیں۔ آیئے! جہاں ہم انسانیت کی آزادی کے حق کو ایک بنیادی اصول کی طرح اپناتے ہیں، ہم انسانوں کے انسانی حقوق کو تسلیم کریں، ان کی جان کے حقوق، ان کے مال کے حقوق، ان کی عزت و آبرو کے حقوق۔ اور میں آج اعلان کرتا ہوں جیسا کہ جناب رسول اللہ a نے ایک اسلامی ریاست کے اندر اقلیتوں کے حقوق کے بارہ میں فرمایا تھا کہ: ان کی جان کا حق‘ ہمارا حق ہے، ان کے مال کا حق‘ ہمارا حق ہے، ان کی عزت کا حق‘ ہمارا حق ہے، ان کی جان پر حملہ ہوگا تو ہم پر حملہ تصور کیا جائے گا، ان کی عزت پر حملہ ہوگا تو ہم پر حملہ تصور کیا جائے گا، ان کے مال پر حملہ ہوگا تو ہم پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ امن کے اس بنیادی اصول کو، جس میں انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، اس اصول کو تسلیم کیجیے، جودنیا میں ہی امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تیسری بات، جو میں پوری دنیا کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، وہ ’’انسانوں کے معاشی حقوق‘‘ کی ہے، ان کی اقتصادی خوش حالی کی ہے۔ ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا اپنے وسائل پر قبضہ ہو، اپنے وسائل پر ان کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ یہ نہیں کہ عرب میں اگر تیل کے ذخیرے ہیں تو امریکا اور مغرب یہاں پر جنگ چھیڑ کر لوگوں کو کمزور کرکے وہاں اپنا تسلط قائم کریں، اور ان کے وسائل پر قبضہ کریں۔پاکستان، جو وسائل سے بھرا ہوا ہے ، معدنیات سے بھرا ہوا ہے، تیل اور گیس کے ذخائر سے بھرا ہوا ہے، کوئلہ کے ذخائر سے بھرا ہوا ہے، ان وسائل پر جو اُن کی نظریں ہیں اور طاقت کے ذریعہ یہاں پہنچنے کے لیے جواز تلاش کررہے ہیں، جنگوں کا جواز تلاش کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر قوم کے وسائل پر، ان کے حق کو تسلیم کیا جائے اور وہاں طاقت کی بنیاد پر نہیں، تجارت کی بنیاد پر، ان کے ساتھ وسائل کے تبادلہ کے معاہدے کیے جائیں اور ان کو اپنے وسائل کا مالک تصور کیا جائے۔ چوتھی بات، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسانیت کے اندر جو پسماندہ طبقات ہیں: یتیم ہیں، مسکین ہیں، ضعیف ہیں، کمزور ہیں، نادار طبقے ہیں، ان طبقات کی محرومیوں کو ختم کرو۔ آج افریقا کی کیا صورت حال ہے؟ وہاں جنگ چھیڑی گئی ہے، وہاں انسان ‘انسان کا گوشت کھانے کے لیے بھوکے بن گئے ہیں، ان کی بھوک کے لیے انسانی گوشت کی ضرورت پڑگئی ہے۔ یہاں تک انسانیت پہنچ گئی ہے۔ ہمارے ممالک میں این جی اوز، جو انسان کے مظلوم اور مفلوک الحال طبقوں کا مشن لے کر آتی ہیں، وہ درحقیقت مغرب کے اپنے سیاسی ایجنڈے کی نمائندگی کررہی ہوتی ہیں، اس روش کو ترک کردیا جائے، قوموں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ غریب اور نادار انسانیت کے احساسِ محرومی کو ختم کیا جائے۔اگر جمعیت علماء کے اس اصول کو دنیا میں تسلیم کرلیا جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اور یہ اجتماع پوری دنیا میں آپ کو امن کی ضمانت مہیا کرسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم پاکستان میں بھی یہی منشور رکھتے ہیں۔ پاکستان کو ہم حقیقی معنوں میں ایک آزاد ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم دنیا کے ساتھ دوستی کا انکار نہیں کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس وسائل موجود ہیں، لیکن ٹیکنالوجی نہیں اور آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے، وسائل نہیں، آئو! باہمی طور پر معاہدات کریں اور سب قومیں ان وسائل سے استفادہ کا راستہ نکالیں، جائز اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق راستہ نکالیں۔ہم دوستی کے قائل ہیں، ہم باوقار معاہدات کے قائل ہیں۔ ہم اگر انکار کرتے ہیں تو غلامی کا انکار کرتے ہیں اور پاکستان کو اس غلامی سے نکالنا، یہ جمعیت علماء اسلام کے مشن میں شامل ہے۔ میرے محترم دوستو! پاکستان میں بھی ہم نے اسی تصور پر ملک کو معاشی ترقی کی راہ دکھائی ہے اور ہم انتہائی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ جب ہم چین کے ساتھ اس قسم کے اقتصادی معاہدات کررہے ہیں اور سی پیک کا منصوبہ جو پاکستان کے روشن معاشی مستقبل کی ضمانت مہیا کررہا ہے، ہمیں اس حوالہ سے اپنے معاشی مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے اور پاکستان کی غریب قوم کے خوش حال مستقبل پر ہمیں نظر رکھنی چاہیے، ہم چین کے اس تعلق کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہاں پر باتیں کی جاتی ہیں کرپشن کرپشن کی، ایک سیاست دان دوسرے کو چور کہتا ہے، دوسرا پہلے کو چور کہتا ہے، یہ باوقار سیاست کی علامت نہیں ۔ اگر آپ نے واقعتا کرپشن کو ختم کرنا ہے اور اربابِ اقتدار کے دامن پر کرپشن کا داغ نہ ہو تو اس کا مختصر سا فارمولا میرے پاس ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اقتدار جمعیت علماء اسلام کے پاس ہوگا تو پاکستان میں کرپشن کرپشن کی باتیں نہیں ہوں گی ۔ ملک کو صاف ستھری قیادت مہیا کرو! الزامات اور تہمتوں سے کام نہیں چلے گا اور پوری قوم کو ہم اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ اگر پوری قوم چاہتی ہے کہ جن لوگوں کو وہ اقتدار میں لاتی ہے، سال نہیں گزرتا، اپنے ہی ووٹ سے لائے ہوئے لوگوں سے وہ شکایتیں کرتے ہیں، اپنے ہی ووٹ سے جن کو اقتدار مہیا کیا ہے، انہی سے آپ کی شکایت ہوتی ہے، انہی سے آپ کو کرپشن اور ناانصافی کی شکایت ہوتی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اب ہمیں آنکھیں کھول لینی چاہئیں، اپنے شعور کی کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں، اپنی عقل کی کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں اور جمعیت علماء کو آئندہ کا مستقبل حوالے کردیا جائے! ہم جمہوری راستہ کے ساتھ ملکی نظام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں حکومتیں کیں، حکومتوںمیں شامل رہے، لیکن آج تک جمعیت علماء اسلام کے کسی کارکن اور ممبر کے دامن پر کوئی ایک چھوٹا دھبہ بھی کرپشن کا ثابت نہیں کرسکا۔ میرے محترم دوستو! ہمیں اپنے مسائل کی طرف دیکھنا چاہیے، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، ہم ہندوستان کے ساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہتے ہین اور آج اس اسٹیج پر پوری دنیا کے مہمانوں کی آمد یہی پیغام دے رہی ہے کہ عوام آپس میں معاملات کی بہتری چاہتی ہے۔ یہی پیغام اپنی ریاستوں کو دینا چاہتے ہیں کہ ریاستیں بھی عوام کی خواہش کو پورا کریں اور تمام تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر ‘مذاکرات کے ذریعہ حل کریں، تاکہ ہم جنگ کی کیفیت سے نکلیں اور اس برصغیر کی ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی، اس کے غریبوں کو، اُن کے اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم ملے، ان کے غریبوں کو روٹی ملے، ان کو معیشت ملے، تاکہ ان کے بچوں کا مستقبل روشن ہوسکے۔ میرے محترم دوستو! یہ وہ محاذ ہے، جس پر ہم لوگ کام کررہے ہیں اور آپ کا یہ عظیم اجتماع، یہ بھی پاکستان کو ایک پیغام دے رہا ہے، اپنے ملک کو پیغام دے رہا ہے، اپنی قوم کو پیغام دے رہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی عوام میں مقبولیت کی جو رفتار ہے، تم اس رفتار کو روک نہیں سکتے ۔اس لیے اب بھی گھنائونی حرکتوں سے باز آجائو، تمہاری گھنائونی حرکتیں جمعیت علماء اسلام کے سفر کا راستہ ان شاء اللہ! نہیں روک سکیں گی۔ میرے محترم دوستو! یہ پُرامن جماعت، جس نے پُرامن سیاست اور پُرامن وطن کے لیے قربانیاں دی ہیں، ہمارے بہت سے اکابر اسی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ مولانا حسن جان شہیدؒ، مولانا معراج الدین شہیدؒ، مولانا نور محمد شہیدؒ، سب ہماری پارلیمنٹ کے ممبران رہے ہیں۔ مولانا سیّد محسن شاہ شہیدؒ، مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ، مولانا شیر عالم شہیدؒ، مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اور ہمارے بہت ہی پیارے علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ، وہ اسی محاذ پر لڑتے لڑتے اپنے خون کا نذرانہ دے کر امن کی اس کیاری کو سینچا ہے، اس باغیچہ کو سینچا ہے اور ہمیں اپنے خون کے ایک ایک قطرہ کی قدر ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ مکرمہ کو مخاطب کیا کہ تو عزت والا گھر ہے، لیکن انسان کے خون کا ایک قطرہ بھی عزت و عظمت میں تجھ سے زیادہ ہے، اتنی بڑی عظمت انسان کو عطا کی: ’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۔‘‘ (بنی اسرائیل:۷۰) انسان کو اللہ تعالیٰ نے احترام بخشا ہے۔ ہم قرآن کریم کے اس نظریہ کی بنیاد پر احترام آدمیت کے قائل ہیں۔ ہم وہ حکمرانی چاہتے ہیں کہ جس حکمرانی میں اللہ کے دیئے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانیت کو عدل و انصاف مل سکے، اس کو خوش حال زندگی مل سکے۔ ہمارے ملک میں بہت سی مشکلات ابھی تک موجود ہیں، ہم بہت سے معاملات پر ابھی تک واضح نہیں ہیں۔میں زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا، لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہم افغانستان کے ساتھ بھی بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ لیکن خطہ میں عالمی قوتوں اور ان کی فوجوں کی موجودگی، یہ خطہ کے ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں، تاکہ ہم بہتر تعلقات کی طرف آگے بڑھ سکیں۔ ہم فاٹا کو عزت دینا چاہتے ہیں، فاٹاکی عوام کو عزت دینا چاہتے ہیں، فاٹا کا مستقبل جو بھی طے ہو‘ ہم ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ فاٹا کی عوام کی مرضی کے ساتھ ہو، ان کی مرضی اور مشاورت کے ساتھ ہو، ان پر کوئی فیصلہ مسلط نہ کیا جائے۔ ایف سی آر انگریز نے مسلط کیا، آج اگر ہم بھی اسلام آباد سے ان پر کوئی فیصلہ مسلط کریں گے، آپ مجھے بتائیں کہ فرنگی اور ہمارے رویوں میں کیا فرق دکھائی دے گا؟ جمعیت علماء اسلام وحدت کی علمبردار ہے، ایک قوت بننے کی علمبردار ہے، تمام امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی علمبردار ہے۔ پوری انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی علمبردار ہے۔ آیئے! ان خطوط پر عملی طور پر آگے بڑھیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس اسٹیج پر تمام اکابرین کو بلایا اور ہر سیاسی جماعت کے لوگ بڑی خوش دلی کے ساتھ ہمارے اجتماع میں شریک ہوئے۔ میں سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور سب کی تشریف آوری پر ان کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔‘‘  اللہ تبارک وتعالیٰ اس اجتماع کو قبول فرمائے اور مستقبل میں اس کے بہتر ثمرات اور نتائج برآمد ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنائے، اس کے اداروں، اس کی سرحدوں اور اس کے عوام کی حفاظت فرمائے اور اُسے خوشحالی وامن وسکون کا گہوارہ بنائے، آمین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین