بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھا جانے والا درود شریف (ثبوت و تحقیق)

جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھا جانے والا درود شریف ثبوت و تحقیق

رسول اللہ a کی خدمت میں صلاۃ وسلام پیش کرنا افضل ترین عبادت اور دربارِ خداوندی میں قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ صلاۃ وسلام کے مختلف طریقے و صیغے ہیں جن کا احادیث ِمبارکہ میں ذکر ملتا ہے، اس پر محدثین نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔ درج ذیل درود شریف اکابر علماء کرام اور مشائخ عظام کے معمول میں ہے، جسے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی v نے ’’فضائل درود شریف‘‘ میں نقل کیا ہے اور اکثر اسی کتاب کے حوالے سے اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔حدیث مبارکہ ہے: ’’من صلّٰی صلاۃَ العصر من یوم الجمعۃ فقال قبل أن یقوم من مکانہٖ : أللّٰھم صل علٰی محمد النبی الأمی وعلٰی أٰلہٖ وسلم تسلیمًا ثمانین مرۃً ، غفرت لہٗ ذنوبُ ثمانین عامًا، وکتبت لہٗ عبادۃُ ثمانین سنۃً۔‘‘       (القول البدیع، ص:۳۹۹، ط:دارالیسر) ’’جو شخص جمعہ کے دن عصر کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اَسّی(۸۰)مرتبہ پڑھے:’’أللّٰھم صل علٰی محمد النبی الأمی وعلٰی أٰلہٖ وسلم تسلیما۔‘‘ اس کے اَسّی (۸۰) سال کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور اَسّی (۸۰) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘ ذیل میں اس حدیث کی علمی و فنی تحقیق پیش کی جاتی ہے۔ ہماری زیرِ بحث حدیث میں جمعہ کے دن عصر کے بعد خاص درود شریف پڑھنے پر ۸۰؍ سا ل کے گناہ کی معافی اور ۸۰؍ سال کی عبادت کی بشارت ہے۔ذخیرئہ احادیث میں اس قسم کی دو موقوف روایات ملتی ہیں: پہلی روایت حضرت ابوہریرہ q کی ہے جوابھی ذکر کی گئی۔ دوسری روایت حضرت سہل بن عبداللہq کی ہے، جس کے یہ الفاظ ہیں: ’’وعن سہل بن عبداللّٰہ ؓ قال:من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر: ’’أللّٰھم صل علٰی محمد النبی الأمی و علی أٰلہ وسلم‘‘ ثمانین مرۃً، غفرت لہٗ ذنوبُ ثمانین عاما۔‘‘ ان دو روایات میں تین فرق ہیں: ۱:۔۔۔۔۔ پہلی روایت میں ـ’’قبل أن یقوم من مکانہٖ‘‘ کے الفاظ ہیں، جب کہ دوسری اس سے خالی ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ اسی طرح پہلی میں ’’وسلم تسلیما‘‘ ہے، جب کہ دوسری روایت میں ’’تسلیما‘‘  کا لفظ نہیں ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ پہلی میں ’’کتبت لہٗ عبادۃُ ثمانین سنۃً‘‘کے الفاظ بھی ہیں، جبکہ دوسری میں صرف ’’غفرت لہٗ ذنوبُ ثمانین عامًا‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔ بہر حال ہر دو حدیث کا مضمون دوسرے کی تائید کرتا ہے۔ ذیل میں ان کی تخریج پیش کی جاتی ہے: ۱:۔۔۔۔۔ حضرت سہل بن عبداللہq والی روایت کو محدث ِ اندلس حافظ ابن بشکوال (المتوفی۵۷۸ھ) نے اپنی کتاب ’’القربۃ إلی رب العالمین بالصلاۃ علی محمد سید المرسلین‘‘ صفحہ:۱۱۴ میں ذکر کیا ہے، جبکہ حضرت ابوہریرۃ qوالی روایت مذکورہ کتاب میں نہیں ملی، ملاحظہ ہو: ’’قال شیخنا أبو القاسم : وروینا  عن سہل بن عبداللّٰہؓ قال: من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر :’’ أللّٰھم صل علٰی محمد النبی الأمی وعلی أٰلہ وسلم‘‘ ثمانین مرۃً ، غفرت لہٗ ذنوبُ ثمانین عاما۔‘‘ حدیث پر کلام کرنے والے حضرات حافظ ابن بشکوالv نے چونکہ اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی، اس بنا پر کسی بھی محدث یا مخرج نے اس پر صحت ،حسن یا ضعف کا حکم نہیں لگایا۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ کسی محدث نے اُسے موضوع بھی نہیں کہا۔موقوفاََ یہ روایت اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔ لیکن درج ذیل سطروں میں جس طرح حافظ ابن بشکوالv کے استادشیخ ابو القاسم احمد بن بقیv (المتوفی ۵۳۲ھ) سے امام مالکv تک کے رواۃ کا تذکرہ کیا گیا، اس سے اس حدیث کی صحت خوب واضح ہے۔ سند ِ حدیث ملاحظہ ہو: حافظ ابن بشکوالv نے اس حدیث کی سند میں ’’شیخنا أبو القاسم‘‘ کہنے پر اکتفاء کیا ہے،اس سے ان کی مراد کون ہے؟چنانچہ ابن بشکوالv خود ہی اپنی تاریخ کی کتاب ’’الصلۃ‘‘ میں ان کا تذکرۂ خیر فرماتے ہیں: ’’أحمد بن محمد بن أحمد بن مخلد بن عبد الرحمٰن بن أحمد بن بقی بن مخلد بن یزید من أہل قرطبۃ یکنی: أبا القاسم۔۔۔۔۔ وکان من بیئۃ علم و نباھۃ وفضل و صیانۃ، وکان ذاکرا للمسائل والنوازل، دربًا بالفتوٰی، بصیرًا بعقد الشروط و عللھا، مقدما فی معرفتہا۔ أخذ الناس عنہ واختلفت إلیہ و أخذت عنہ بعض ما عندہٗ ، وأجاز لی بخطہٖ غیر مرۃ۔‘‘ ’’موصوف کا تعلق انتہائی شریف ،علمی اور پاکیزہ خاندان سے تھا۔ نِت نئے مسائل کا خوب استحضار اور فتویٰ نویسی میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ شرائط اورعلل ِ حدیث میں بصیر ت انتہاء کو تھی۔ لوگوں نے ان سے خوب علم حاصل کیا۔ میں نے بھی ان سے استفادہ کیا اور انہوں نے کئی مرتبہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر مجھے اجازت دی۔‘‘ موصوفؒ کی ولادت ۴۴۶ھ کی اور وفات ۵۳۲ھ کی ہے۔(۱) شیخ ابو القاسم اپنے استاد،بقیۃ الشیوخ، محدثِ اندلس، فقیہ وقت ابو عبداللہ محمد بن الفرج قرطبی مالکی طلاعیv(۴۰۴ھ - ۴۹۷ھ)کے شاگردوں میں سے تھے۔  حافظ ذہبی v ان کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’و کان شدیدًا علی أھل البدع، مجانبا لمن یخوض فی غیر الحدیث۔‘‘(۲) ’’بدعتیوں کے سخت خلاف تھے،حدیث کے علاوہ دوسری ابحاث میں نہیں پڑتے تھے۔‘‘ ابو بکر محمد بن خیر اموی اشبیلی v (۵۰۲ھ - ۵۷۵ھ) اپنی کتاب جو ’’فہرست ابن خیر‘‘ کے نام سے مشہورہے، میں موصوف کی کتاب الاحکام کی سند ذکر کرتے ہیں، جو اس بات کی شاہد ہے کہ شیخ ابو القاسم اپنے استاد ا بو عبداللہ محمد بن الفرجv کے علوم کے حامل تھے،ملاحظہ ہو: ’’کتاب أحکام رسول اللّٰہ a، تألیف الفقیہ أبی عبد اللّٰہ محمد بن فرج رحمہٗ اللّٰہ، وکتاب الوثائق المختصرۃ من تألیفہ أیضا، حدثنی بھما الشیخ الفقیہ أبو القاسم أحمد بن محمد بن بقی رحمہ اللّٰہ قراء ۃ منی علیہ فی منزلہ، قال: حدثنی بہما أبوعبداللّٰہ محمد بن فرج مؤلفہما-رحمہٗ اللّٰہ- قراء ۃً علیہ۔‘‘(۳) اس کے بعد سند کا یہ سلسلہ کدھر جاتا ہے؟ چنانچہ فہرست ابن خیر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فقیہ ابوعبداللہ محمد بن الفرج روایت کرتے ہیں :ابو الولیدیوسف بن عبداللہ بن المغیث (۳۳۸ھ - ۴۲۹ھ) سے، جن کا تذکرہ حافظ ذہبیv نے ان الفاظ:’’الإمام الفقیہ، المحدث شیخ الأندلس، قاضی القضاۃ، بقیۃ الأعیان‘‘ سے کیا ہے۔ (۴) اوریہ روایت کرتے ہیں مسند الاندلس ابو عیسی یحییٰ بن عبداللہ اللیثیv (المتوفی۳۶۷ھ) سے اور یہ اپنے والد کے چچا ابو مروان عبیداللہ بن یحییٰ لیثیv (المتوفی۲۹۸ھ) سے جن کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بقول حافظ ذہبیv کے: ’’اندلس میں ان کے جنازے سے بڑا کوئی جنازہ نہیں ہوا، حتیٰ کہ یہودیوں اور عیسائیوں  نے بھی ان کے جنازے میں شرکت کی۔‘‘ (۵) اور یہ اپنے والد، راویِ موطا، فقیہ کبیر یحییٰ بن یحییٰ بن کثیرالمصمودی الاندلسی القرطبیv (المتوفی۲۹۸ھ)رحمھم اللّٰہ تعالٰی أجمعین سے کرتے ہیں، جو کسی تعارف کے  محتاج نہیں ہیں۔اس سے آگے امام مالکv سے سند واضح ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ ابن بشکوالv نے اس درود کو اگر چہ تعلیقاً ذکر کیا ہے، لیکن سند کا سلسلہ جو ذکر کیا گیا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان تک جو حدیث پہنچتی رہی وہ اسی سلسلے کی مرہونِ منت ہے، جس میں وقت کے بڑے بڑے علماء و محدثین شامل ہیں۔ شیخ ابو القاسمv کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات اور آشکارا ہوجاتی ہے، لہٰذا اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر یہ روایت موضوع و من گھڑت ہوتی تو اس قسم کا سلسلہ اس کو کیسے روایت کرتا؟!  ۲:۔۔۔۔۔ متأخرین علماء میں سے محقق العصر،حافظ عبد الرحمن سخاویv (المتوفی۹۰۲ھ) نے بھی ان دونوں روایات کو ’’القول البدیع ـ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو: ’’وفی لفظ عند ابن بشکوال من حدیث أبی ہریرۃؓ أیضا:من صلی صلاۃ العصر من یوم الجمعۃ فقال قبل أن یقوم من مکانہ :’’ أللّٰھم صل علٰی محمد النبی الأمی وعلٰی أٰلہ وسلم تسلیما‘‘ ثمانین مرۃ غفرت لہ ذنوبُ ثمانین عاما و کتبت لہ عبادۃُ ثمانین سنۃً۔ وعن سہل بن عبداللّٰہ قال: من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر :’’ أللّٰھم صل علٰی محمد النبی الأمی وعلٰی أٰلہٖ وسلم‘‘ ثمانین مرۃ  غفرت لہ ذنوبُ ثمانین عاما۔ أخرجہ ابن بشکوال۔ انتھٰی کلام السخاویؒ۔‘‘(۶) موصوف اپنے وقت کے محدث، محقق اور حافظ حدیث تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیv (المتوفی۸۵۲ھ) کے شاگردوں میں ان کا کوئی سہیم و شریک نہیں، چنانچہ حافظ ابن حجرv فرماتے ہیں: ’’ھو أمثل جماعتی‘‘ یعنی وہ میرے شاگردوں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔ سخاویv عللِ حدیث کے ماہر تھے۔ علمِ جرح وتعدیل کی ان پر انتہاء ہوگئی، یہاں تک کہا گیا ہے کہ ذہبیv کے بعد کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو اُن کی راہ پر چلا ہو۔ تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ ہو: محقق العصر استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی صاحب کی کتاب’’ فوائدِ جامعہ، ص:۵۰۸ اور عربی زبان میں ’’الحافظ السخاویؒ و جہودہٗ فی علوم الحدیث‘‘ (د۔بدر بن محمد بن محسن العماش، مجلدین ، مکتبۃ الرشد، ریاض) قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ سخاویv جیسے بلند پایہ عالم جنہوں نے معتبر و غیر معتبر روایات میں فرق اور فتاویٰ حدیثیہ کے بارے میں دو کتابیں لکھیں: ’’المقاصد الحسنۃ‘‘ اور ’’ الأجوبۃ المرضیۃ‘‘ وہ کس طرح اپنی کتاب میں ایسی حدیث ذکر کرسکتے ہیں جو موضوع ہو اور اُسے ذکر کرنا تحقیق کے خلاف ہو۔ اس قسم کے محقق سے یہ با ت بعید ہے۔ موصوف کی کتاب ’’القول البدیع‘‘ کو اللہ تعا لیٰ نے بڑی قبولیت اور جامعیت  سے نوازا ہے، چنانچہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی v (۹۰۹-۹۷۴ھ) ’’الدر المنضود‘‘ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: ’’فلا تری منھم من أحاط ببعض کتب ھذا المقصد الأسنی إلا الشاذ النادر، الذی خلصہٗ اللّٰہ من الحظوظ و العنا لاشتمالھا علٰی بعض البسط و زیادۃ التأصیل و التفریع، ککتاب الحافظ السخاویؒ المسمی ب’’القول البدیع‘‘ ، ھذا مع أنہٗ أحسنھا جمعا، وأحکمھا وضعا، و أحقھا بالتقدیم، وأولاھا بالإحاطۃ، لما فیہ من التحقیق والتقسیم۔‘‘ (۷) یعنی یہ کتاب ترتیب اور وضع کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور تحقیق اور ابحاث کی تقسیم کے اعتبار سے سب سے آگے ہے۔ حافظ مرتضیٰ زبیدی حنفیv (المتوفی۱۲۰۵ھ) ’’شرح احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہو أحسن کتاب صنف فی الصلاۃ علیہ، صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔‘‘(۸) ’’درود شریف کے باب میں یہ کتاب سب سے بہترین تصنیف ہے۔‘‘ شیخ الشیوخ علامہ نبھانیv نے اپنی کتاب ’’سعادۃ الدارین‘‘میں حافظ سخاویv کی کتاب کا یوں تعارف کرایا ہے: ’’و أجمل ھٰذہٖ الکتب و أجمعھا، و أفضلھا فی علم ھذا الفن و أنفعھا: القول البدیع۔‘‘(۹) ’’ اس فن کی تمام کتب میں سب سے عمدہ،جامع،افضل اور فائدہ مند کتاب ’’القول البدیع‘‘ ہے۔‘‘ موصوف کے علمی کمالات و کارناموں پر ایک علمی مقالہ لکھا گیا جس پر مصنف کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے۱۴۱۹ھ میںدکتوراہ (پی- ایچ - ڈی) کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اسی طرح موصوف کی تصنیفات و تالیفات پر ایک کتاب بہ نام ’’مؤلفات السخاویؒ‘‘ لکھی گئی جو دار ابن حزم سے ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث کو موضوع کس نے قرار دیا؟ اب تک ایسی کتاب یا کسی محدث کی عبارت نظر وں سے نہیں گزری جس نے اسے موضوع قرار دیا ہو۔بالفرض اگر کسی کے ذہن میں اس کے موضوع ہونے کا خیا ل آتا ہے تو شاید اس کے ذہن میں ہو کہ اتنے چھوٹے سے عمل پر اتنا بڑا ثواب کیسے مل سکتا ہے؟ جیسا کہ محدثین نے موضوع حدیث کے پہچاننے کے لیے اسے علامت کے طور پر لکھا ہے، ملاحظہ ہو:تدریب الراوی، ص: ۲۴۰، ط:دار الحدیث،چنانچہ شیخ محمد عوامہ -حفظہٗ اللہ- نے ’’القول البدیع‘‘ کے مقدمہ میں عارف باللہ ابن عطاء اللہ v کا قول نقل کیا ہے: ’’من فاتہٗ کثرۃ الصیام والقیام فعلیہ أن یشتغل نفسہٗ بالصلاۃ علٰی رسول اللّٰہ a فإنک لو فعلتَ فی جمیع عمرک کلَّ طاعۃ ثم صلی اللّٰہ علیک صلاۃ واحدۃ، رجحت تلک الصلاۃ الواحدۃ علی کل ما عملتہٗ فی عمرک کلہٖ من جمیع الطاعات، لأنک تصلی علٰی قدر وسعک وہو یصلی حسبَ ربوبیتہٖ۔‘‘ ’’جس شخص کے بہت سے (نفلی)نماز روزے قضا ہوگئے ہوں،اُسے چاہیے کہ درود شریف پڑھنے کو اپنا مشغلہ بنالے، اس لیے کہ اگر تم ساری زندگی نیکیاں کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ تم پر ایک دفعہ رحمت کی نگاہ ڈال دے تو بے شک یہ نگاہِ رحمت تمہاری عمر بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے، اس لیے کہ ایک تمہاری کوشش ہے اور ایک اس کی شانِ ربوبیت ہے۔‘‘ ہم معنی روایت جمعہ کے دن مطلقاً اَسّی(۸۰) مرتبہ درود شریف پڑھنا بھی حدیث شریف سے ثابت ہے، جس پر ۸۰؍ سال کے گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے،ملاحظہ ہو: ’’عن أبی ھریرۃ ؓ قال: قال رسول اللّٰہ a: الصلاۃ علیَّ نورٌ علٰی الصراط، و من صلّٰی علیَّ یوم الجمعۃ ثمانین مرۃً غفرت لہٗ ذنوبُ ثمانین عامًا۔‘‘ ’’رسول اللہa نے فرمایا:مجھ پر درود پاک پڑھنا پل صراط پر نور کا باعث ہوگا۔ جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر ۸۰ مرتبہ درود بھیجے گا اس کے ۸۰ سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ‘‘ درج بالاحدیث مبارک کو مندرجہ ذیل محدثین نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے: ۱:۔۔۔۔۔ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بغدادی المعروف بابن شاہینv (۲۹۷-۳۸۵ھ) نے اپنی کتاب ’’الترغیب فی فضائل الأعمال وثواب ذلک ‘‘میں یہ حدیث نقل کی ہے۔(۱۰) واضح رہے کہ ابنِ شاہینv اپنے وقت کے حافظ، عالم اورملک عراق کے بڑے شیخ تھے۔ موصوف کے بارے میں حافظ ذہبیv (المتوفی ۷۴۸ھ) سیر اعلام النبلاء میں رقم طراز ہیں: ’’الشیخ الصدوق، الحافظ العالم، شیخ العراق و صاحب التفسیر الکبیر، أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أیوب بن ازداز البغدادی الواعظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال أبو الفتح بن أبی الفوارس: ثقۃ مأمون صنف ما لم یصنفہ أحد۔ وقال أبو بکر الخطیب: کان ثقۃ أمینا، یسکن بالجانب الشرقی۔ قال حمزۃ السھمی: سمعت الدارقطنیَ یقول:ابن شاہین یلح علی الخطأ، وہو ثقۃ۔‘‘ ’’ ابوالحفص عمر بن احمد بن عثمان بن احمد بن محمد بن ایوب بن ازداز بغدادی واعظ، شیخ ، صدوق ، حافظ اور عالم، عراق کے شیخ اورایک بڑی تفسیر کے مصنف تھے۔ موصوف کے بارے میں ابن ابی الفوارس فرماتے ہیں: قابل بھروسہ او ر اعتماد والی شخصیت ہیں۔ یہ وہ لکھ گئے جو کوئی نہیں لکھ پایا۔ ابوبکر خطیبؒ لکھتے ہیں: یہ بااعتماد اور امانت دار انسان تھے، مشرقی جانب سکونت پذیر تھے۔ حمزہ سہمیؒ‘ دارقطنی کا قول نقل کرتے ہیں: ابن شاہین اگر چہ معتمد تھے، لیکن اپنی غلطی پر جمے رہتے تھے۔‘‘ آخر میں امام ذہبیv نتیجہ نکالتے ہوئے اپنی تحقیق یوں پیش کرتے ہیں: ’’ماکان الرجل بالبارع فی غوامض الصنعۃ ولکنہٗ راویۃ الإسلام - رحمہ اللّٰہ-۔‘‘(۱۱) ’’ اگر چہ فن حدیث کی باریکیوں سے بے خبر تھے، لیکن ’’راویۃ الاسلام‘‘کا لقب ان کا حق ہے۔‘‘ ۲۔ محدثِ اندلس ابو القاسم خلف بن عبدالملک ابن بشکوالv (المتوفی ۵۷۸ھ) نے اپنی پوری سند کے ساتھ اس حدیث کو اپنی کتاب ’’القربۃ إلی اللّٰہ‘‘میں ذکر کیا ہے۔(۱۲) ابن بشکوالv کے بارے میں حافظ ذہبیv یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں، ملاحظہ ہو: ’’الإمام العالم الحافظ، الناقد المجود، محدث الأندلس، أبو القاسم خلف بن عبد الملک۔‘‘(۱۳) ۳:۔۔۔۔۔۔ ابو شجاع شیرَوَیہ بن شَھرَدار الدیلمیv (۴۴۵-۵۰۹ھ) نے اپنی کتاب ’’الفردوس بمأثور الخطاب‘‘ میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔(۱۴) ۴:۔۔۔۔۔ محقق العصر علامہ محمد بن عبد الرحمن سخاویv(المتوفی ۹۰۲ھ) نے اپنی کتاب ’’القول البدیع‘‘ میں اس درود پاک کو ذکر کر کے اس کی نہایت عمدہ تحقیق پیش کی ہے اور ضعف کا حکم لگا کر اس حدیث کے طرق پیش کیے ہیں۔ ملاحظہ ہو:(القول البدیع:ص:۳۹۹)(۱۵) خلاصۂ تحقیق ۱:۔۔۔۔۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھے جانے والے خاص درود شریف کا ثبوت(موقوفاً) احادیث کی کتابوں سے ملتا ہے۔(۱۶) ۲:۔۔۔۔۔ ثواب کی نیت سے اس کو پڑھ سکتے ہیں۔ ۳:۔۔۔۔۔ اس کو بیان بھی کرسکتے ہیںاور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ ۴:۔۔۔۔۔ جو لوگ اس حدیث کو موضوع کہتے ہیں ان کی رائے تحقیق کے خلاف ہے۔ ۵:۔۔۔۔۔ حدیث مبارکہ میں ۸۰؍ کے عدد سے تعیین وتحدید مقصد نہیں، بلکہ یہ ایک تعبیر ہے، درود شریف کی کوئی نہایت نہیں، اس میں زیادتی خیر کا باعث ہے، چنانچہ ابی بن کعب q نے آپa سے پوچھا کہ: میں اپنی دعاؤں میں کتنا حصہ درود کے لیے مقرر کروں؟ جواباً ارشاد فرمایا: جتنا تم چاہو، جتنا زیادہ پڑھوگے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ (۱۷)                                واللہ اعلم حوالہ جات ۱:۔۔۔۔۔ کتاب الصلۃ،ج:۱، ص:۱۳۴، ط:دار الکتاب المصری۔    ۲:۔۔۔۔۔ سیر اعلام النبلائ،ج: ۱۹، ص: ۱۹۹، الصلۃ،ج:۳،ص:۸۲۳۔ ۳:۔۔۔۔۔ فہرست ا بن خیر،ص:۲۴۶،ط:مؤسسۃ الخانجی۔القاہرۃ۔    ۴:۔۔۔۔۔ سیر،ج:۱۷،ص:۵۶۹۔ ۵:۔۔۔۔۔ تاریخ الاسلام،ج:۶،ص:۹۷۹، ط:دارالغرب۔        ۶:۔۔۔۔۔ القول البدیع، ص:۳۹۹،ط:دار الیسر۔ ۷:۔۔۔۔۔ الدر المنضود، ص:۳۴، الناشر:دار المنہاج،جدۃ ،الاولیٰ،۱۴۲۶ھ۔    ۸:۔۔۔۔۔شرح احیاء العلوم،ج:۳،ص:۲۹۰، طـ:بیروت،۱۴۱۴ھ۔ ۹:۔۔۔۔۔ القول البدیع، ص:۸۔            ۱۰:۔۔۔۔۔الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب ذلک، ص:۱۴، ط:دار الکتب العلمیۃ۔ ۱۱:۔۔۔۔۔   سیر اعلام النبلاء ،ج:۱۶،ص:۴۳۱،ط:مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت۔ ۱۲:۔۔۔۔۔ملاحظہ ہو:باب فضل الصلاۃ علی النبی a عشیۃ الخمیس ویوم الجمعۃ، ص:۱۱۱،ط: دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،۱۴۲۰ھ۔ ۱۳:۔۔۔۔۔  سیر،ج:۲۱،ص:۱۳۹۔    ۱۴:۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو: الفردوس للدیلمی،ج:۲،ص:۴۰۸، رقم الحدیث:۳۸۱۴، ط:دار الکتب العلمیۃ۔ ۱۵:۔۔۔۔۔ تحقیق:محمد عوامہ، ط:دار الیسر۔ ۱۶:۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ یہ حکماً مرفوع ہے، اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے وہ اقوال جو ثوابِ مخصوص یا عقابِ مخصوص کے بارے میں ہوں مرفوع کے حکم میں ہوتے ہیں۔انظر:تدریب الراوی، بحث :قول الصحابیؓ:کنانقول کذا، ص:۱۶۲، ط:قدیمی۔ ۱۷:۔۔۔۔۔رواہ الترمذی فی کتاب صفۃ القیامۃ، باب:۲۳ ، وأخرجہ السخاوی وأحال إلی الترمذی، انظر القول البدیع،ص:۲۶۰۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین