بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں ( دسویں قسط )

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں        (دسویں قسط)

موسیقی کی حرمت وممانعت پر چند احادیث ۱:…’’عن عبدالرحمٰن بن غنم قال: حدثنی أبو عامر أو أبو مالک الأشعری رضی اللّٰہ عنہ أنہ سمع النبی a یقول : لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف ۔‘‘                                 (رواہ البخاری فی الاشربۃ) ’’حضرت عبدالرحمن بن غنمؒ سے روایت ہے کہ مجھے ابو عامر یا ابو مالک اشعری q نے بتایا کہ انہوں نے نبی اکرم a کو فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ ۲:…’’عن علی بن أبی طالب q قال: قال رسول اللّٰہ a: إذا فعلت أمتی خمس عشرۃ خصلۃ حلت بھم البلاء وفیہ واتخذ القیان والمعازف ۔‘‘      (رواہ الترمذی) ’’حضرت علیq سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: جب میری امت پندرہ چیزوں کی عادی ہوجائے تو اس پر مصائب نازل ہوں گے۔ آنحضرت aنے ان پندرہ چیزوں میں ایک یہ بھی بتائی کہ جب مغنیہ عورتیں اور باجے رواج پکڑجائیں۔‘‘ ۳:…’’عن عبداللّٰہ بن عمر q أن النبی a قال: إن اللّٰہ حرم الخمر والمیسر والکوبۃ والغبیراء وکل مسکر حرام ۔‘‘                          (رواہ احمد وابوداؤد) ’’حضرت عبداللہ بن عمر rسے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے ارشاد فرمایا کہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا، طبل اور طنبور کو حرام کیا ہے، نیز ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘ ۴:…’’عن ابن عباس r قال: الکوبۃ حرام والدن حرام والمزامیر حرام۔‘‘(رواہ احمد) ’’حضرت ابن عباس r سے روایت ہے، فرمایا: طبل حرام ہے، شراب حرام ہے اور بانسریاں باجے حرام ہیں ۔‘‘ ۵:…’’عن أبی ھریرۃ q أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: استماع الملاھی معصیۃ والجلوس علیھا فسق والتلذذ بھا کفر۔‘‘        (نیل الاوطار، ج: ۸،ص:۱۰۰) ’’حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا : گانا باجا سننا گناہ ہے، اس کے لیے بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لطف اندوز ہونا کفر ہے۔‘‘ ۶:…’’ عن علی q أن النبی a قال: بعثت بکسر المزامیر۔‘‘         (حوالہ بالا) ’’حضرت علی q سے روایت ہے کہ نبی اکرم a کا ارشاد ہے: میں موسیقی کے آلات توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘ ۷:…’’عن عمر q مرفوعاً: ثمن القینۃ سُحت وغناء ھا حرام۔‘‘ (رواہ الطبرانی) ’’حضرت عمر q سے نبی اکرم a کا یہ قول مرفوعاً مروی ہے : مغنیہ کی اجرت اور اس کا گانا دونوں حرام ہیں۔‘‘ ۸:…’’عن ابن مسعود q أن النبی a قال: الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل۔‘‘                                                  (ابوداود وبیہقی) ’’حضرت ابن مسعود q سے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے ارشاد فرمایا: گانا دل میں اسی طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سبزہ کو اُگاتا ہے۔‘‘                       (ابوداود) ۹:…’’ عن أبی ھریرۃ q أن النبی a قال: حب الغناء ینبت النفاقَ فی القلب کما ینبت المائُ العشبَ۔‘‘                                             (أخرجہ الدیلمی) ’’حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے ارشاد فرمایا: گانے کی محبت دل میں اسی طرح نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی گھاس اور سبزہ اُگاتا ہے۔‘‘  ۱۰:…’’عن أنس q أن رسول اللّٰہ a قال: من قعد إلٰی قینۃ یستمع منھا صب اللّٰہ فی أذنیہ الآنک یوم القیامۃ۔‘‘                                 (رواہ السیوطی فی جامع الصغیر) ’’حضرت انس q سے روایت ہے کہ آنحضرت a نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مغنیہ باندی کا گانا سنے قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ‘‘ ۱۱:…’’عن أنس وعائشۃ r أن النبی a قال: صوتان ملعونان فی الدنیا والأخرٰی: مزمار عند نغمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ۔‘‘ (رواہ البزار والبیہقی وابن مردویہ وکنز العمال) ’’حضرت انس اور حضرت عائشہ r دونوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے فرمایا : دو قسم کی آوازیں ایسی ہیں جن پر دنیا وآخرت میں لعنت کی گئی ہے، ایک تو خوشی کے موقع پر باجے کی آواز اور دوسرے مصیبت کے موقع پر آہ وبکا اور نوحہ کی آواز۔‘‘ ۱۲:…’’وعن أبی أمامۃ q قال: قال رسول اللّٰہ a: ما رفع أحد صوتہ بغناء إلا بعث اللّٰہ علیہ شیطانین یجلسان علی منکبیہ یضربان بأعقابھما علٰی صدرہٖ حتی یمسک۔‘‘      (رواہ ابن ابی الدنیا وابن مردویہ ورواہ الطبرانی باسانید وثق البعض وضعف البعض) ’’حضرت ابو امامہ q سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ a نے فرمایا: جب بھی کوئی شخص گانے کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس دو شیطانوں کو بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر بیٹھ کر اپنی ایڑیاں اس کے سینے میں مارتے رہتے ہیں، تاوقتیکہ وہ خاموش ہوجائے ۔‘‘ ۱۳:…’’وعن ابن عمر r أن النبی a نھٰی عن الغناء والاستماع إلی الغنائ۔‘‘ (رواہ الطبرانی) ’’حضرت ابن عمر q سے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے گانا گانے اور گانا سننے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ مذکورہ بالا تمام احادیث علامہ ابن حجر ہیثمی v نے اپنی مشہور کتاب ’’کف الرعاع‘‘ میں نقل کی ہیں اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع v نے اپنی کتاب ’’اسلام اور موسیقی‘‘ میں اس کو شامل کیا ہے، اس میں کل بتیس احادیث ہیں، میں نے صرف تیرہ کو لیا ہے۔ حضرت مفتی صاحبؒ نے کل ۴۲؍ احادیث کو نقل کیا ہے۔ ان بتیس احادیث میں جو ضعیف ہیں ان کی طرف بھی مفتی صاحبؒ نے اشارہ کیا ہے۔ آخر میں حضرت مفتی محمد شفیع v ان احادیث کی روشنی میں موسیقی اور مسئلہ غناء پر اس طرح تبصرہ فرماتے ہیں:  ’’ان بتیس احادیث اور ان کی تحقیق وتخریج پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اباحتِ غناء ومزامیر کے دعویداروں کا یہ خیال درست نہیں کہ گانے باجے کی حرمت پر دلالت کرنے والی کوئی حدیث بھی صحیح سند سے مروی نہیں ہے، کیونکہ گزشتہ اوراق میں کئی احادیث ایسی بھی گزری ہیں جن کی صحت نہایت واضح ہے۔        (اسلام اور موسیقی، ص: ۱۵۶) غامدی صاحب مانیں یا نہ مانیں، میں نے موسیقی کے حوالہ سے قرآن وحدیث کی بہت ساری نصوص کو اس لیے جمع کیا ہے، تاکہ کوئی عالم یا طالب علم یا عام مسلمان ان سے فائدہ اٹھائیں، کیونکہ موسیقی سے متعلق ایک جگہ پر کافی ذخیرہ اکٹھا ہوگیا ہے، ان شاء اللہ! فائدہ ہوگا۔ موسیقی کی حرمت پر صحابہؓ اور سلف صالحینؒ کے اقوال ۱:…حضرت قاسم بن محمدv کا قول ’’قال القاسم بن محمد: الغناء باطل والباطل فی النار، (وقال:) لعن اللّٰہ المغنی والمغنی لہ۔‘‘                                            (تفسیر قرطبی، ج: ۱۴، ص: ۹۵۲) ’’قاسم بن محمدvنے فرمایا کہ: باجے باطل کام ہے اور ہر باطل دوزخ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ گانے والے اور جس کے لیے گایا جائے دونوں پر لعنت بھیجتا ہے ۔‘‘ ۲:…حضرت یزید بن ولیدvکا قول ’’یا بنی أمیۃ إیاکم والغناء فإنہ ینقص الحیاء ویزید فی الشھوۃ ویھدم المروۃ وإنہ لینوب عن الخمر ویفعل ما یفعل المسکر فإن کنتم لابد فاعلین فجنبوہ النساء فان الغناء داعیۃ الزنا۔‘‘                                           (حوالہ بالا) ’’اے بنو امیہ! تم گانے سے بچو، کیونکہ یہ شرم وحیاء کو گھٹاتا ہے اور شہوت کو بڑھاتا ہے اور اخلاق ومروت کو ختم کرکے گراتا ہے اور یہ گانا شراب کا نائب ہے اور یہ نشہ کا کام کرتا ہے، اگر تم اس سے بچ نہیں سکتے تو کم از کم عورتوں کو اس سے دور رکھو، اس لیے کہ گانا زنا کا محرک اور داعی ہے۔ ۳:…حضرت ضحاک v کا قول ’’الغناء منفدۃ للمال ، سخطۃ للرب ، مفسدۃ للقلب۔‘‘                 (حوالہ بالا) ’’گانا مال کو ختم کرتا ہے، رب کو ناراض کرتا ہے اور دل کو بگاڑتا ہے۔‘‘ ۴:…حضرت عثمان بن عفانq کا قول ’’ماغنیت ولا تمنیت ولامسست ذکری بیمینی منذ بایعتُ رسولَ اللّٰہ a۔‘‘                                                                        (عوارف المعارف للامام السہروردیؒ) ’’جب سے میں نے آنحضرت a سے بیعت کی ہے، نہ میں نے کبھی گانا گایا ہے، نہ اس کی تمنا کی ہے اور نہ اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے چُھوا ہے۔ ‘‘ ۵:…حضرت عبداللہ بن عمرr کا قول  بیہقی میں ایک روایت ہے کہ :’’ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرrکا گزر ایک بچی کے پاس سے ہوا جو بیٹھی ہوئی تھی اور گانا گا رہی تھی، حضرت عبداللہ بن عمر rنے اُسے دیکھ کر فرمایا : ’’لو ترک الشیطٰن أحدًا لترک ھٰذہٖ۔‘‘                             (بیہقی، ج: ۱۰، ص: ۲۲۳ ) ’’یعنی اگر شیطان کسی کو گمراہ کیے بغیر چھوڑتا تو اس بچی کو ضرور چھوڑ دیتا (لیکن وہ کسی کو نہیں چھوڑتا، خواہ معصوم بچی کیوں نہ ہو) ۔‘‘ ۶:…حضرت جابرqکا قول ’’احذروا الغنائَ فإنہٗ من قبل إبلیس وھو شرک عند اللّٰہ ، ولا یغنی إلا الشیطٰن۔‘‘                                              (عمدۃ القاری، ج: ۳، ص: ۳۵۹) ’’حضرت جابرq فرماتے ہیں کہ: گانے سے بچو، اس لیے کہ وہ ابلیس کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک جیسا گناہ ہے اور گانا شیطان کے سوا کوئی نہیں گاتا۔ ‘‘ ۷:… حضرت عائشہt کا قول ’’حضرت عائشہ t نے اپنے بھائی کے گھر ایک گویّے کو دیکھا جس کے بڑے بڑے بال تھے اور جھوم جھوم کر گانا گارہا تھا، حضرت عائشہt نے فرمایا: ’’أف ! شیطان أخرجوہ أخرجوہ أخرجوہ۔‘‘           (سنن کبریٰ بیہقی، ج: ۱۰،ص: ۲۲۴) ’’حضرت عائشہ tنے فرمایا: اف! یہ تو شیطان ہے، اسے گھر سے نکالو، اسے گھر سے نکالو، اسے گھر سے نکالو۔‘‘ ۹:…حضرت سعید بن المسیبv کا قول ’’إنی لأبغض الغناء وأحب الرجز۔‘‘                    (مصنف عبدالرزاق، ج: ۱۱،ص: ۶) ’’میں گانے سے نفرت کرتا ہوں اور میدانِ جنگ میں بہادری کے رجز کے اشعار کو پسند کرتا ہوں۔ ‘‘ ۱۰:…حضرت ابراہیم نخعی v کا قول ’’ الغناء ینبت النفاقَ فی القلب۔‘‘ (تفسیر السراج المنیر، ج: ۳،ص: ۱۸۱) ’’وقال کنا نتتبع الأزفۃ نخرق الدفوفَ من أیدی الصبیان۔‘‘       (الامر بالمعروف والنہی عن المنکر،ص: ۱۴۸) ’’یعنی گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے، آپ نے یہ بھی فرمایا: ہم گلیوں میں تلاش کرکے بچوں کے ہاتھوں سے دف چھینتے اور پھاڑدیتے تھے۔ ‘‘ ۱۱:…حضرت فضیل بن عیاض vکا قول حضرت فضیل بن عیاض v  جو صوفیائے کرام کے امام ہیں، ان کا مشہور مقولہ ہے: ’’الغناء رقیۃ الزنا‘‘ یعنی’’ گانا بجانا زنا کا منتر ہے ۔‘‘ (المصنوع:۹۵) ایک حقیقت کی طرف اشارہ موسیقی، غنا، مزامیر اور معازف وملاھی کے جو الفاظ ہیں، اس سے تو معروف باجے مراد ہوتے ہیں، اس کی حرمت میں تو غامدی صاحب کے علاوہ کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ واضح آیات اور اس کی تفسیرات اور احادیث مقدسہ کی روایات میں اس کے حرام ہونے کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع v اپنی کتاب ’’اسلام اور موسیقی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’معازف‘‘ ان باجوں کو کہا جاتا ہے جو منہ سے بجائے جاتے ہیں اور ملاھی ان آلات کو کہا جاتا ہے جو ہاتھوں سے بجائے جاتے ہیں۔ ائمہ اربعہ باتفاق ان کی حرمت کے قائل ہیں، البتہ ولیمہ، سحری یا کسی اور غرض صحیح کے لیے ’’ڈھول‘‘، ’’دف‘‘ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔                      (اسلام اور موسیقی، ص: ۱۶۲) بندہ عاجز کہتا ہے کہ مباحث غناء اور موسیقی میں ایک اور لفظ آتا ہے جس کو ’’سماع‘‘ کہتے ہیں، اس لفظ سے موسیقی کے مباحث میں ایک التباس پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے کہ فقہاء ’’سماع‘‘ کی اباحت میں اختلاف نقل کرتے ہیں تو ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ کہیں موسیقی کے جواز اور عدم جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی، مزامیر، معازف اور طبلے باجوں کے ساتھ گانے بجانے کو کسی قابل اعتماد شخص نے کبھی جائز نہیں کہا ہے، البتہ’’سماع‘‘ ایک ایسا عمل ہے جس میں دل نرم کرنے والے اشعار پڑھے جاتے ہیں، آخرت کے یاد کرنے کے مضامین ہوتے ہیں، اس میں طبلے، باجے، ڈھول، ڈھولک، آرمونیم کے آلات نہیں ہوتے ہیں، صرف دف ہوتا ہے۔ سماع میں بھی علماء تصوف نے سخت شرائط رکھی ہیں، پھر یہ بھی جمہور کا فیصلہ نہیں ہے، جمہور علماء وصلحاء مطلقاً سماع کا انکار کرتے ہیں اور اس پر نکیر کرتے ہیں، البتہ اہل تصوف کا ایک مختصر طبقہ چند شرائط لگاکر سماع کا قائل ہے، وہ شرائط یہ ہیں: ۱:۔۔۔۔۔ جب صرف جد وجہد اور جوش پیدا کرنے والے اشعار ہوں۔ ۲:۔۔۔۔۔ جب بے ریش لڑکوں سے اختلاط نہ ہو اور نہ ان سے اشعار پڑھوائے جارہے ہوں۔ ۳:۔۔۔۔۔ اس محفل میں عورت ذات کا وجود بالکل نہ ہو۔ ۴:۔۔۔۔۔کسی قسم کا طبلہ باجا ساتھ نہ ہو۔ ۵:۔۔۔۔۔یادِ آخرت اور تذکرۂ حبیب کے لیے ہو، اس میں قبیح اشعار بالکل نہ ہوں ۔ ۶:۔۔۔۔۔سننے والے ریاکار، بدکار، دنیوی اغراض والے نہ ہوں۔ ۷:۔۔۔۔۔اجرت پر محفل سماع قائم نہ ہو اور نہ پڑھنے والا اُجرت لیتا ہو۔ حضرت جنید بغدادی v نے فرمایا کہ: ’’ سماع کی ناقص کو اجازت نہیں، کامل کو ضرورت نہیں۔‘‘ ( توضیحات، ج: ۷، ص: ۳۰) بہرحال اس طرح خالص سماع آج کل کہاں ہے اور شرائط کہاں ہیں اور ایسے خالص لوگ کہاں ہیں؟!  پھر بھی سماع کا تعلق موسیقی سے نہیں ہے، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔     موسیقی اور مجرد اشعار گانے میں فرق نہ کرنے سے بھی دونوں میں التباس آتا ہے، علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ذاتی وحشت دور کرنے کے لیے یاادبی مہارت پیدا کرنے کے لیے مجرد اشعار کا گانا جائز ہے جس میں نہ چنگ ہو، نہ ستار ہو، نہ رباب ہو، نہ طبلہ ہو، نہ باجا ہو، نہ آرمونیم ہو۔ صحابہ کرام sاور تابعین ومجاہدین نے جو اشعار گائے ہیں وہ اسی قسم کے اشعار تھے، اس کو کوئی بھی انصاف پسند ذی شعور آدمی موسیقی نہیں کہہ سکتا ہے۔                                                        (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین