بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں ( تیسری قسط )

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں        (تیسری قسط)

ظالموں کی مدح سرائی سے پیسہ کمانے کی مذمت ’’وعن سعد بن أبی وقاصq قال: قال رسول اللّٰہ a : لاتقوم الساعۃ حتی یخرج قوم یأکلون بألسنتہم کما تأکل البقرۃُ بألسنتہا‘‘۔             (رواہ احمد) ترجمہ:۔۔۔’’ حضرت سعد بن ابی وقاص q سے روایت ہے کہ رسول کریم a نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ایک ایسی جماعت پیدا نہیں ہوجائے گی جو اپنی زبانوں کے ذریعہ اس طرح کھائے گی جس طرح گائے اپنی زبانوں سے کھاتی ہے۔‘‘     ’’بألسنتہم‘‘ یہ ’’لسان ‘‘کی جمع ہے،ز بان مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ زبان کو کھانے، پینے کا ذریعہ بنائیںگے، وہ اس طرح کہ فساق وفجار کی بے جا مدح کریں گے، ان کی مدح میں اشعار اور قصیدے پڑھیںگے اور زبان کو موڑ موڑ کر ان کی تعریفیں کریںگے اور اس سے پیسہ کما کر کھائیں گے یا کسی بے گناہ کی مذمت کریںگے اور پیسہ کما کر کھائیں گے۔ یہ لوگ حلال وحرام کی تمیز نہ کرنے میں اس حیوان اور گائے کی مانند ہوںگے جو اپنی زبان کے ذریعہ سے ہر قسم کی رطب ویابس اور صالح وخبیث گھاس کو لپیٹ لپیٹ کر جمع کرتی ہے اور پھر کسی تمیز کے بغیر کھاجاتی ہے۔ ان لوگوں سے غلط قسم کے شعراء اور خطباء مراد ہیں جو حق وباطل اور حلال وحرام کی تمیز نہیں کرتے ہیں۔ ساتھ والی حدیث کی تشریح بھی اسی طرح ہے۔ فصاحت وبلاغت میں بے جا تکلف مذموم ہے ’’وعن عبد اللّٰہ بن عمرr أن رسول اللّٰہ a قال: إن اللّٰہ یبغض البلیغ من الرجال الذی یتخلل بلسانہٖ کما یتخلل البقرۃ بلسانہا‘‘۔ (رواہ الترمذی وابوداؤد ) ترجمہ:…’’اور حضرت عبداللہ بن عمرr سے روایت ہے کہ رسول کریم a نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سخت ناپسندیدہ ہے جو کلام وبیان میں حد سے زیادہ فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کرے، بایں طور کہ وہ اپنی زبان کو اس طرح لپیٹ لپیٹ کر باتیں کرے جس طرح گائے اپنے چارہ کو لپیٹ لپیٹ کر جلدی جلدی اپنی زبان کے ذریعہ کھاتی ہے۔ ‘‘     ’’البلیغ‘‘ فصاحت وبلاغت کے ساتھ بے جا مبالغہ کرنے والا مراد ہے، جو منہ پھاڑ پھاڑ کر اور زبان گھما گھما کر حق وباطل میں تمیز کیے بغیر کلام کرتا ہو اور حد شرعی سے تجاوز کرتا ہو، شرعی حدود کے اندر کلام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔’’یتخلل‘‘ أی’’ یلف الکلام بلسانہ کماتلف البقرۃ بلسانہا العلف‘‘ یعنی زبان کو لپیٹ لپیٹ کر کلام کرتا ہے جس طرح گائے گھاس کو لپیٹ کرکھاتی ہے، زورِ قلم سے قلمکاری ومقالہ نگاری کرکے حق کے خلاف لکھنا اس میں داخل ہے۔ بے عمل واعظین کا حشر ’’وعن أنس q قال: قال رسول اللّٰہ a: مررتُ لیلۃً أسری بی بقوم تقرض شفاہہم بمقاریض من النار، فقلت: یا جبرائیل! من ہٰؤلآء ؟ قال ہٰؤلآء خطباء أمتک الذین یقولون مالایفعلون۔‘‘                                 (رواہ الترمذی) ترجمہ:۔۔۔’’اور حضرت انسq سے روایت ہے کہ رسول کریم a نے فرمایا: معراج کی رات میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کی زبانیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں، میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل m نے کہا کہ: یہ آپ کی امت کے واعظ وخطیب ہیں جو ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ ‘‘     ’’تقرض‘‘ یہ صیغہ ’’قرض‘‘کے مادہ سے ہے جو کاٹنے کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو خطباء زبان سے کچھ کہتے ہیں اور عمل دوسرا کرتے ہیں اور حدودِ شرعیہ کا خیال نہیں رکھتے، فصاحت وبلاغت کی منہ زوری سے باطل کو حق اور حق کو باطل دکھاتے ہیں، معراج کی رات وہ لوگ آنحضرت a کو دکھائے گئے کہ ان کے ہونٹوں کو بطور سزا قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا، کیونکہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے مخالف تھا، جیساکہ کسی نے کہا ہے: واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند

چوں بخلوت می روند کارِ دیگر می کنند چرب لسانی کے بارے میں وعید ’’وعن أبی ہریرۃ q قال: قال رسول اللّٰہ a : من تعلم صرف الکلام لیسبی بہ قلوبَ الرجال أو النساء لم یقبل اللّٰہ منہ یوم القیامۃ صرفاً ولاعدلاً۔‘‘ ترجمہ:۔۔۔’’اور حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ رسول کریم a نے فرمایا: جو شخص اس مقصد کے لیے گھما پھرا کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھے کہ وہ اس کے ذریعہ مردوں کے دلوں یا لوگوں کے دلوں پر قابو حاصل کرلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ اس کی نفل عبادت قبول کرے گا اور نہ فرض۔‘‘     ’’صرف الکلام‘‘ کلام کو گھمانا پھرانا مراد ہے، یعنی باتوں کے گھمانے پھرانے،اُلٹنے پلٹنے اور چرب لسانی کا خوب سلیقہ سیکھے۔’’لیسبی‘‘ سبی سے ہے، قید کرنے کو کہتے ہیں، مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں کو زورِ لسانی اور مبالغہ آرائی سے اپنی طرف مائل کرتا ہے، حقیقت کو چھپاکر ضرورت سے زیادہ فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کرتا ہے، تاکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور یہ شخص اپنا مطلب نکال سکے، جس طرح آج کل کے اکثر مضمون نگاروں کا پیشہ ہے۔’’صرفًا‘‘ اس سے نفل عبادت مراد ہے۔ ’’عدلا‘‘ اس سے فرض عبادت مراد ہے۔ بعض علماء نے ’’صرفا‘‘ سے توبہ کرنا مراد لیا ہے اور ’’عدل‘‘ سے فدیہ مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کی یہ عبادات قبول نہیں ہوں گی۔ اس حدیث میں منہ زوری، مبالغہ آرائی اور چرب لسانی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، لوگ تو اس پر فخر کرتے ہیں۔     زبان کی بے احتیاطی اور الفاظ کی عیاشی کی یہ بیماری عرب وعجم سب کا مشترکہ مشغلہ رہا ہے۔ عرب کے شعراء اور مقالہ نگاروں نے زمین وآسمان کے ایسے قلابے ملائے ہیں کہ دوسری دنیا ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ بادشاہوں کی خوشامد اور بے جا تعریفات میں عرب اتنے آگے نکل گئے کہ زبانِ نبوت سے ان کے قابو کرنے کے لیے سخت وعیدات آئیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ایسے لوگوں کی سخت مذمت فرمائی۔ آج کل عربی اخبارات اور جرائد ورسائل میں روزانہ ہزاروں ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں جن میں فصاحت وبلاغت اور ادبی میدان میں اتر کر چرب لسانی کے ذریعہ  اسلام پر اعتراضات کرنے والے اسلام کے خلاف خوب اپنے دلوں کا بھڑاس نکال رہے ہیں۔ عرب کے علاوہ عجم کی دنیا میں مقالہ نگاری، قلمکاری اور دانشوری کے دعویدار قلم کے زور سے اسلام کے خلاف روزانہ ہزاروں مضامین چھاپ رہے ہیں۔ انگریزی اخبارات کا تو مشغلہ یہی ہے۔ اردو اخبارات میں بھی ایسے بدباطنوں کی کمی نہیں ہے جو بڑی دیدہ دلیری سے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف کھل کر لکھ رہے ہیں۔ ان اخبارات کے مقالہ نگار‘ زبان وقلم اور فصاحت وبلاغت کے چست جملے چسپاں کرنے اور مقالہ نگاری کا جوہر دکھانے کے لیے اسلام اور اسلام کے مبارک احکامات اور اسلام کی مقدس ہستیوں کو تختۂ مشق بنا رہے ہیں۔     آپ غور کریں! سلمان رشدی ملعون مقالہ نگاری ہی کے شوق میں اپنے گندے منہ سے اپنے گندے لعاب کا گندہ ملبہ اسلام پر پھینک کر اپنے گندے آقاؤں کے پاس چلا گیا۔ تسلیمہ نسرین اور بے غیرت ملالہ یوسف زئی نے بھی یہی تو کیا۔ ایسے سینکڑوں منافقین اور ملحدین نے اپنا ایمان ووطن بیچ کر خالص دنیوی اغراض ومقاصد کے لیے اسلام کے خلاف مقالے لکھے اور پھر بھاگ کر اپنے مغربی آقاؤں کی گود میں جاکر بیٹھ گئے۔ وحید الدین خان کو ذرا دیکھ لیجئے، وہ برصغیر ہندوستان میںبیٹھ کر زبان وبیان اور قلم کا سارا زور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ پٹنہ میں جاکر سرسوتی بت کے سامنے جھک گیا اور ہفتہ وار رسالہ زندگی کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر اس نے قشقہ بھی لگایا اور ہندوستان کی متعصب اسلام دشمن آراے ایس، وشواہند وپریشد، شیوسینا، اور بجزنگ دل کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ان کے جلسوں میں شریک ہوتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ اسی ملک میں اس سے پہلے سرسید احمد خان نے نصف صدی تک انگریزوں کی خوشامد اور خدمت میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا وہ اسی قلم کی دانشوری اور ادبی اسکالری کی نحوست تھی۔ غلام احمد قادیانی بھی اسی مقالہ نگاری کے شوق میں مسلمانوں کو دھوکہ دے کر پہلے مہدی بنا، پھر مسیح موعود کا ڈھنڈورا پیٹنے لگا اور پھر نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔ غلام احمد پرویز کی تحریرات کو دیکھو، اس نے اسی قلمکاری اور مقالہ نگاری میں انکارِ حدیث کا فتنہ کھڑا کردیا۔ شبلی نعمانیؒ کی قلمکاری کو دیکھو وہ اپنے پڑھنے والوں کو آگ لگا دیتے ہیں، لیکن کئی مقامات میں ان کے قلم نے بھاری لغزشوں کا ارتکاب کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوںکو معاف کرے۔ ادھر سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے اپنے قلم کے زور پر صحابۂ کرام s اور انبیاء عظام o پر کیچڑ اچھالا، خلافت وملوکیت جیسی اعتراضات سے بھری ہوئی کتاب لکھی، رسائل ومسائل میں متنازع مسائل کھڑے کردیے اور نئی نسل کو ایک مشکوک ذہن دے کر چھوڑ دیا، تاہم ان کی جماعت نے اب ٹھہراؤ کا راستہ اختیار کیا ہے، اللہ کرے مزید سدھر جائیں۔ یہ سب مقالہ نگاری اور قلم کاری کی مصیبت تھی اور غلط لوگوں کی صحبت تھی۔ بدقسمتی سے نیاز فتح پوری جیسے ملحد اور زندیق شخص کی صحبت نے مودودی صاحب کی اچھی قلمکاری کو کج راہی دکھائی، پھر مودودی صاحب کے قریبی رفقاء میں امین احسن اصلاحی صاحب ان کو مل گئے، وہ بھی مقالہ نگاری اور قلم کاری میں غضب کے ماہر تھے، یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے بانیان میں سے ہیں، پھر مودودی صاحب کے ان سے اختلافات ہوگئے تو وہ جماعت سے الگ ہوئے اور اپنے اُس غلط مشن کو جاری کیا جو حمید الدین فراہی نے اُنہیں دیا تھا۔     امین احسن اصلاحی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ان کو جاوید غامدی صاحب ملے۔ یہ پہلے مودودی صاحب کے ساتھ جماعت اسلامی میں تھے، جماعت اسلامی میں غامدی صاحب نے اتنی ترقی کی کہ ان کے حواری ان کو مودودی صاحب کا جانشین بتانے لگے۔ امین اصلاحی کی جماعت اسلامی سے علیحدگی نے جاوید احمد غامدی کو اپنی طرف کھینچ لیا اور غامدی صاحب امین احسن اصلاحی صاحب کے پکے مرید اورعقیدت مند بن گئے اور کج راہی کے سارے گُر اور کرتب امین احسن صاحب نے ان کو سکھلائے۔ یہ سلسلۂ شرمساری جو کچھ بھی تھا، اس میں بنیادی وجۂ اشتراک یہی قلم کاری اور یہی مضمون نگاری اور یہی لفاظی اور یہی شعبدہ بازی تھی اور بدقسمتی سے اس میدان میں غامدی صاحب کو نئی نسل اور نئی پود میں ایسے نو عمر نوجوان ملے جو شاگردوں اور خادموں کی صورت میں غامدی صاحب کے بوجھ کو ہلکا کررہے ہیں اور اپنے قلم سے وہ زہر افشانی کررہے ہیں کہ جن گوشوں اور کونوں کھانچوں پر ضعیف العمری کی وجہ سے غامدی صاحب کی نظر نہیں پڑی تھی، ان کے نوعمر شاگردوں نے ان کو اس طرح ڈھونڈ لیا کہ غامدی صاحب اس پر عش عش کرنے لگے، قصہ وہی ہوا جو شاعر نے کہا: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج زبان کی چرب لسانی سے متعلق عجیب احادیث     زبان کی تیز طراری اور الفاظ کی عیاشی اور شعبدہ بازی اور دانشوری کے دبیز پردوں کے نیچے اسلام کے خلاف عیاری ومکاری اور نفاق کا بڑا طوفان اگر کوئی دردمند مسلمان سمجھنا چاہتا ہے تو وہ مندرجہ ذیل احادیث ترجمہ کے ساتھ پڑھے: ۱:۔۔۔’’عن أبی عثمان النہدی قال: إنی لجالس تحت منبر عمرؓ وہو یخطب الناس، فقال فی خطبتہ: سمعت رسول اللّٰہa یقول: إن أخوف ما أخاف علٰی ہٰذہٖ الأمۃ کل منافق علیم اللسان‘‘۔               (مسند احمد،ج:۱، ص: ۲۹۷، ط:قاہرہ) ترجمہ:۔۔۔’’حضرت عمرqنے منبر نبوی پر خطبہ کے دوران فرمایا کہ: میں نے نبی اکرم a سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک اس امت کے لیے سب سے زیادہ خوفناک خطرہ جو میں محسوس کررہا ہوں وہ ہر وہ منافق ہے جو زبان کی تیز طراری کا ماہر ہو۔‘‘     ۲:۔۔۔ تقریباً یہی روایت بیہقی نے شعب الایمان،ج:۲،صفحہ:۲۸۴ پر ذکر کی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: ’’زبان چلانے کے یہ ماہر منافقین میرے بعد آئیں گے۔‘‘     ۳:۔۔۔ کنز العمال، ج:۱۰،ص:۱۸۶ پر بھی انہیں الفاظ کے ساتھ یہ حدیث مذکورہے۔     ۴:۔۔۔ ابوبکر ہیثمیv نے اس حدیث کو کچھ الفاظ کے اضافہ کے ساتھ یوں نقل کیا ہے: ’’عن عمران بن حصینؓ قال: قال رسول اللّٰہa  أخوف ما أخاف علیکم جدال منافق علیم اللسان‘‘۔                                       (موارد الظمآن،ص:۱۵) ترجمہ:۔۔۔’’حضرت عمران بن حصین q سے روایت ہے، فرمایا کہ: آنحضرت a نے فرمایا کہ: مجھے تم پر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ اس منافق کا جھگڑا اور مباحثہ ہے جو زبان کا تیز طرار اور ماہر ہوگا۔‘‘     اس مضمون کو آگے بڑھانے کے ضمن میں بطور تبرک حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v کی کتاب ’’دور حاضر کے فتنے‘‘ سے کچھ اقتباسات قارئین کے سامنے رکھتا ہوں جو اس موضوع سے مناسبت رکھتے ہیں،حضرت فرماتے ہیں: ’’اہل علم واہل قلم حضرات کا فتنہ     ’’افسوس کہ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں اربابِ علم اپنے علمی تقاضوں کو نہیں پورا کررہے ہیں اور اربابِ جہل علمی مسائل میں دخل دے رہے ہیں۔ ہرصاحب قلم‘ صاحب علم بننے کا مدعی ہے۔ کتابوں کے اُردو تراجم نے اس فتنے کو اور وسعت دی ہے۔ اُردو تراجم جہاں ایک اصلاحی مفید خدمت انجام دے سکتے تھے،افسوس کہ عصر حاضر میں ’’وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا‘‘ کا مصداق بنتے جارہے ہیں جن کا ضرر ونقصان فائدہ ونفع سے کہیں بڑھ گیا ہے۔     دورِ حاضر جہاں مختلف فتنوں کی آماجگاہ ہے، وہاں قلم کا فتنہ شاید سب سے گوئے سبقت لے جارہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے جسے درمنثور میں بحوالہ ’’مسند احمد‘‘، ’’الأدب المفرد للبخاریؒ‘‘ اور ’’مستدرک حاکم‘‘ بروایت عبد اللہ بن مسعود q سے ذکر کیا ہے۔ آنحضرت a نے قیامت سے پہلے چھ فتنوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے ایک ’’فشو القلم‘‘ یعنی ’’قلم کا طوفان‘‘ ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں آج طوفانِ قلم کی فتنہ سامانی کا اندازہ ہر عاقل کرسکتا ہے۔     علمی میدان میں ان حضرات کا دائرہ نہ صرف بہت محدود وتنگ ہے، بلکہ ہے ہی نہیں۔ اردو کے تراجم سے کچھ سطحی معلومات حاصل کرکے ہرشخص دورِ حاضر کا مجتہد بنتا جارہا ہے، اور ’’إعجاب کل ذی رأی برأیہ‘‘ (ہر شخص اپنی رائے کو پسند کرتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے) اس فتنے نے ’’کریلا اور پھرنیم چڑھا‘‘ والی مثل صادق کردی ہے، اور ناشرین نے محض تجارتی مصالح کے خیال سے سستے داموں عالم نما جاہلوں سے تراجم کرا کرفتنہ کو اور بڑھا دیا ہے۔ غرض کہ فتنوں کا دور ہے، ہرطرح کے فتنے اور ہر طرف سے فتنے ہی فتنے نظر آتے ہیں۔ان فتنوں کے سد باب کے لیے مستقل اداروں کی ضرورت ہے جن کا اساسی مقصد صرف یہی ہوکہ ان تراجم کا جائزہ لیا جائے اور اخبارات میں شائع ہونے والے مقالات کی نگرانی ہو۔ (افسوس کہ) ارباب جرائد ومجلات کا مقصد محض تجارت ہے، اور اربابِ قلم کا مقصد محض شہرت ہے یا پھر کچھ مادی منفعت بھی پیشِ نظر ہے۔     بلاشبہ علمی ودینی نقطۂ نظر سے یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اسلامی احکام کی روشنی میں اگر صحیح متفقہ حل پیش کیا جائے تو کمیونزم کا سد باب ہوسکتا ہے۔ دنیا کی مادی بنیادیں دو ہیں جن پر معاش ومعیشت کا دار ومدار ہے: ایک زراعت اور ایک صنعت وتجارت۔ دونوں چیزیں حیاتِ انسانی کے لیے بمنزلہ ریڑھ کی ہڈی کے ہیں، اس لیے دین اسلام نے ان کے احکام پورے طور پر بیان کردیے، قرآن وحدیث وفقہ اسلامی میں ان کی تفصیلات موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مفکرین اربابِ دین واربابِ علم جن کی علمی زندگیاں انہی بادیہ پیمائیوں میں گزری ہیں اور جن کی بے لوث زندگیاں اخلاص وتقویٰ سے معمور ہیں اور جن کی فکری واجتہادی صلاحیتیں مسلم ہیں، جلد سے جلد کسی مرکز میں بیٹھ کروفاقی اجتماعی حل پیش کریں۔ شخصی طور پر اس پچاس سال میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اگرچہ اربابِ اقتدار آج کل اتنے جری ہوگئے کہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہرحکم نافذ کرتے ہیں، اور اسلام کے ادعاء کے باوجود ہر قید وبند سے آزاد ہوکر احکامات صادر فرماتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں بے چارے اہل علم یا اربابِ دین کی باتوں کو وہ کہاں درخورِ اعتناء سمجھتے ہیں؟ لیکن بارگاہِ ربوبیت میں اپنی مسئولیت پوری کرنے کے لیے ہر وقت اس کی ضرورت ہے۔‘‘                            (دور حاضر کے فتنے،ص:۱۰۰)     اسی کتاب کے دوسرے مقام پر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v فرماتے ہیں: ’’علمی فتنے     علمی فتنے وہ ہوتے ہیں جو علوم وفنون کی راہ سے آتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں ان علمی فتنوں کی مختلف صورتیں رہی ہیں۔ بہرصورت ان علمی فتنوں کا اثر براہ راست اعتقاد پر پڑتا ہے۔ ان فتنوں میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ ’’باطنیہ‘‘ (اسماعیلیہ فرقہ) کا تھا جو قرامطہ کے دور میں اُبھرا اور خوب پھلا پھولا۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا اور برا نتیجہ یہ نکلا کہ دین میں الحاد وتحریف کا دروازہ کھل گیا اور اسلامی حقائق ’’ضروریات دین‘‘متواتراتِ اسلام، بنیادی عقائد واعمال، مجمع علیہ شعائر اسلام میں تاویلوں اور تحریفوں کے دروازے کھل گئے (اور اسی کے نتیجہ میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر شعائر اسلام ان کے مذہب سے نکالے گئے) اس آخری دور میں یہ فتنہ بہت بڑے پیمانے پر تمام اسلامی ممالک میں یورپ سے درآمد ہونا شروع ہوا۔ اور مستشرقینِ یورپ نے تو اس کو ایسا اپنا نصب العین بنالیا کہ درس وتدریس، تصنیف وتالیف، نشر وشاعت، تحقیق وریسرچ غرض ہردلکش اور پُر فریب عنوان سے اس کے پیچھے پڑ گئے، اپنی زندگیاں اس کے لیے وقف کردیں، اور اسلام سے انتقام لینے کا اس کو ایک ’’کارگرترین حربہ‘‘ قرار دے لیا، یہاں تک کہ جو طلبہ اسلامی ممالک سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے کی غرض سے یورپین ممالک کا سفر کرتے ہیں ان درس گاہوں میں ان طلبہ سے ’’اسلامی موضوعات‘‘ پر ایسے ’’مقالات ومضامین‘‘ لکھواتے ہیں کہ وہ مسلمان طلبہ بھی اسلامی معتقدات کے بارے میں کم از کم ’’تشکیک‘‘ کے اندر ضرور مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ دردناک داستانیں ہیں جن کی تفصیل کے لیے بے پایاں دفتر درکار ہیں۔ مجمع الزوائد میں حافظ نور الدین ہیثمی v نے بحوالہ ’’معجم طبرانی‘‘ ایک حدیث بروایت عصمۃ بن قیس سلمی صحابیؓ نقل کی ہے: ’’إنہ کان یتعوذ من فتنۃ المشرق، قیل: فکیف فتنۃ المغرب؟ قال: ’’ تلک أعظم وأعظم۔‘‘ ترجمہ:۔۔۔’’نبی کریم a فتنۂ مشرق سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ a سے دریافت کیاگیا کہ مغرب میں بھی فتنہ ہوگا؟ آپ a نے فرمایا کہ: وہ تو بہت ہی بڑا ہے، بہت ہی بڑا ہے۔‘‘     یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ a کی مراد فتنۂ مغرب سے کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ سقوطِ اندلس کی طرف اشارہ ہو کہ وہاں اسلام کا پورا بیڑہ ہی غرق ہوگیا، اور نام کامسلمان بھی کوئی اس ملک میں نہ رہا، تمام ممالک پر کفر کا غلبہ ہوگیا۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ بلادِ مغرب کے اس فتنہ میں استشراق کی طرف بھی اشارہ ہوکہ الحاد وتحریف کا یہ فتنہ مغربی دروازوں سے ہی تمام دنیا کے مسلمان ملکوں میں داخل ہوگا جو سب فتنوں سے زیادہ خطرناک اور عالمگیر ہوگا، بہرحال الفاظِ حدیث کے عموم میں تو یہ داخل ہے ہی۔‘‘      (دورِ حاضر کے فتنے،ص:۲۱) ضروری وضاحت جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے متعلق سلسلہ وار مضمون کی یہ تیسری قسط ہے اور ان شاء اللہ! بقیہ اقساط ماہنامہ بینات کے آئندہ شماروں میں آتی رہیں گی۔ چونکہ اس تحریک کے درست تعارف کے لیے جاوید غامدی صاحب، مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے احوال وافکار کے متعلق بنیادی معلومات ضروری تھیں، اس لیے بجائے خود خامہ فرسائی کرنے کے حضرت مفتی ابولبابہ صاحب مدظلہ کی ایک تحریرسے استفادہ کیا گیا تھا، جو کچھ عرصہ قبل ایک معاصر ہفت روزے کی زینت بن چکی ہے ، جس کا حوالہ رہ گیا تھا۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے اس کی وضاحت ضروری تھی، لہٰذا قارئین بینات نوٹ فرمالیں۔                                                                                             (جاری ہے)  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین