بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں (بارہویں قسط)

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں   (بارہویں قسط)

۴:۔۔۔۔۔تعلیم وتعلم میں     یہ غامدی صاحب کے منشور کا چوتھا بڑا عنوان ہے، جس کے تحت پندرہ دفعات مذکور ہیں۔ پہلا دفعہ یہ ہے:  ’’پورے ملک میں تعلیم کا ایک ہی نظام رائج کیا جائے، تعلیمی نظام میں مذہبی وغیر مذہبی اور اردو یا انگریزی ذریعۂ تعلیم کی ہر تفریق بالکل ختم کردی جائے ۔‘‘            (منشور: ص: ۱۴) تبصرہ:۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ غامدی صاحب کو ملک پاکستان میں دینی مدارس کی مذہبی تعلیم آنکھوں میں کھٹک رہی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انگریزی تعلیم کو نہ کوئی ہٹاسکتا ہے، نہ کوئی اس کا سوچ سکتا ہے۔ اسی طرح انگریزی ذریعۂ تعلیم کو بھی کوئی نہیں چھیڑ سکتا ہے، لہٰذا ان کے خیال میں مذہبی تعلیم اور اُردو ذریعۂ تعلیم دونوں بیکار ہیں اور یہی دونوں ان کے تیروں کا شکار ہیں، ورنہ اس دفعہ کا کوئی اورمفہوم نہیں بن سکتا ہے، کیونکہ جب اردو ذریعۂ تعلیم بھی نہ ہو، انگریزی ذریعۂ تعلیم بھی نہ ہو، مذہبی تعلیم بھی نہ ہو، انگریزی تعلیم بھی نہ ہو تو پھر اس ملک میں کیا رہ گیا؟ نہ معلوم غامدی صاحب اس دفعہ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دینی مدارس میں اصلاحات اور غامدی     اوپر بڑے عنوان ’’تعلیم وتعلم‘‘ کے تحت منشور کے دفعہ: ۹ میں غامدی صاحب نے دینی مدارس کے بارے میں اصلاحات کی بات کی ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’ اس وقت جو دینی مدارس ہمارے ملک میں موجود ہیں انہیں اصلاحات پر آمادہ کرنے کے ساتھ حکومت اپنے اہتمام میں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے جامعات قائم کرے ۔     (منشور، دفعہ: ۹،ص:۱۶) تبصرہ: ۔۔۔۔۔ ایک طویل عرصہ سے حکومت پاکستان کے بڑے عہدے داروں، وزارت تعلیم کے نمائندوں اور بڑے افسروں کی طرف سے آئے روز دینی مدارس کی اصلاحات کے لیے بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں، اب پتہ چلا کہ اس فساد کی جڑ میں غامدی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو دینی مدارس کی اصلاحات کی اتنی فکر لگی ہے کہ اس کو اپنے منشور کا دفعہ بناکر پیش کردیا۔ حکومت نے ہمیشہ دینی مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور وقتاً فوقتاً ان پر ہاتھ بھی ڈالا ہے، کئی ایک مدرسوں کو بند بھی کیا ہے اور کئی مدارس پر چھاپے مار کر اس کے اساتذہ اور طلبہ کو گرفتار کرکے پریشان بھی کیا ہے اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔ سوات وبونیر اور وزیرستان اور دیر وباجوڑ پر فوجی چڑھائی کرکے ہزاروںمدارس کو نیست ونابود کردیا ہے۔ پچھلے دس سال تک جب فوجی آمر پر ویز مشرف کی حکومت تھی تو اس نے غیر ملکی بے بس مظلوم طلبہ کو زبردستی ملک سے بھگادیا اور آئندہ دین پڑھنے کے لیے باہر کی دنیا سے آنے والوں پر پابندی لگادی، حالانکہ وہ طلبہ قانونِ پاکستان کے مطابق ویزہ لے کر آتے تھے۔     افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ دنیا کے ہر قسم کے کافر ہندو، یہودی، عیسائی، پارسی، بدھش بڑے اطمینان سے ہمارے ملک میں آکر کالجوں یونیورسٹیوں اور جامعات میں پڑھتے ہیں اور یہاں پڑے رہتے ہیں، نہ معلوم وہ ملک کے خلاف کس طرح سازشوں اور جاسوسیوں میں ملوث ہوتے ہوں گے اور ملک کے وقار وعظمت کو فحاشی کے ذریعہ سے کتنا نقصان پہنچاتے ہوں گے۔ یہ سب کچھ اس لیے برداشت ہے کہ وہ بے دینی پڑھ کر واپس جاتے ہیں اور جو دین پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور ملک کی نیک نامی کا ذریعہ بنتے ہیں وہ ایک لمحہ کے لیے برداشت نہیں ہیں، حالانکہ دنیا کا بین الاقوامی قانون ہے کہ تعلیم ہر انسان کا حق ہے اور اس میں وہ آزاد ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والوں پر پابندی کیوں ہے؟ حالانکہ یہ ملک دین اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔     غامدی صاحب نے اس دفعہ: ۹ کی عبارت میں لکھا ہے کہ حکومت خود مہتمم بن جائے اور اپنے اہتمام کے تحت ماڈل مدرسے بنائے اور اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے جامعات قائم کرے ۔ تبصرہ:۔۔۔۔۔غامدی صاحب کی خواہش پر ان کے مرشد عام پرویز مشرف صاحب کے دور حکومت میں اس طرح ماڈل مدرسے بنائے بھی گئے، لیکن ’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا‘‘ والی بات صادق آگئی اور ان کا کوئی قابل ذکر مدرسہ باقی نہ رہا، کیونکہ ’’ماکان للّٰہ یبقی وما کان لغیرہٖ یفنی‘‘ یعنی جو کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے اور جو غیر اللہ کے لیے ہوتا ہے وہ فانی ہوجاتا ہے، چنانچہ ان ماڈل مدرسوں کے بنانے والے بھی نہ رہے اور وہ ماڈل مدرسے بھی نہ رہے۔ پرویز مشرف کو ملک سے بھاگنے کا موقع نہیں ملتا اور غامدی صاحب بھاگ کر ملائیشیا جاکر بیٹھ گئے۔ جن لوگوں نے دین اسلام کے طلبہ کو ویزہ ہونے کے باوجود زبردستی یہاں سے نکال دیا، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنے ملک سے بھگادیا۔ میں پوچھتا ہوں غامدی صاحب دینی مدارس میں کیا اصلاحات چاہتے ہیں؟ جس مقصد کے لیے دینی مدارس میں طلبہ آتے ہیں وہ مقصد پورا ہوجاتا ہے، علماء تیار ہوتے ہیں، امام وخطیب تیار ہوتے ہیں، مصنفین تیار ہوتے ہیں، داعی تیار ہوتے ہیں، خدا ترس اور متقی پرہیز گار علماء تیار ہوتے ہیں، مفتیان کرام اور قرآن کے حفاظ تیار ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مضبوط اور فعال کارکن تیار ہوتے ہیں اور لطف یہ کہ حکومت کا ایک پسینہ بھی ان پر خرچ نہیں ہوتا، بلکہ اس ملک کی ایک بڑی آبادی کا بوجھ جو حکومت کے سر ہوتا ہے وہ یہ مدارس اٹھاتے ہیں۔     میں پوچھتا ہوں غامدی صاحب کیا اصلاحات چاہتے ہیں؟ کیا ان کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ ڈاڑھیاں کٹوائیں؟ پتلون پہن کر ٹائی لگاکر ڈانس شروع کردیں؟ اور زمانے کے سب سے زیادہ کرپٹ بن کر ملک کے لیے ناسور بن جائیں؟ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی مدد کا ہاتھ ان دینی مدارس پر ہے، ان میں بے شمار کمزوریاں سہی، پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کی مدد کر رہا ہے۔ غامدی صاحب آکر جمشید روڈ گرومندر میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کی عالی شان عمارت اور صفائی اور نظم وضبط کو دیکھے اور پھر قریب میں اسلامیہ کالج کو جاکر دیکھے تو ان کی اصلاحات کا نقشہ بدل جائے گا۔ اسلامیہ کالج کی عمارت میں باہر سے جو کھڑ کیاں ہیں وہ شاید دو ہزار تک ہوں گی، اگر اس میں ایک کھڑکی بھی سالم ہو اور اس کے پلّے لگے ہوئے ہوں تو آکر ہماری اصلاح کی بات کرے۔ الحمد للہ! دینی مدارس میں دنیا بھی آگئی اور دین بھی ہاتھ آیا اور غامدی صاحب کے مقبول جامعات میں نہ دین ہاتھ آیا اور نہ دنیا ہاتھ آئی۔ خلاصہ کے طور پر یہ بات کہہ دوں کہ دینی مدارس میں انبیاء کرام oکی میراث پڑھائی جاتی ہے اور ان میں انبیاء کرام oکے وارث بیٹھے ہیں اور دنیوی اسکول وکالج میں فرعون وہامان کی میراث سکھائی جاتی ہے اور فرعون کے وارث بن رہے ہیں، تو غامدی صاحب بتائیں کہ اصلاحات کہاں ہونی چاہئیں؟     دوسری بات یہ کہ دنیوی اسکول وکالج میں آج تک کوئی حافظ وعالم نہیں بن سکا، حالانکہ اس تعلیم پر اربوں روپے سرکاری خزانہ سے خرچ ہورہے ہیں، تو غامدی صاحب سوچ لیں کہ اصلاحات کی ضرورت کہاں پر ہے؟ غامدی صاحب اور مدارس کا داخلہ غامدی صاحب اپنے منشور کے بڑے عنوان ’’تعلیم وتعلم‘‘ کے تحت دفعہ: ۱۲ میں لکھتے ہیں:  ’’ہندسہ اور طب کی جدید درسگاہوں کی طرح ان جامعات میں بھی صرف وہی طلبہ داخل کیے جائیں جو کم سے کم ایف اے یا ایف ایس سی تک اپنی تعلیم عام درسگاہوں میں مکمل کرچکے ہوں۔‘‘                                                         (منشور ص: ۱۶) تبصرہ: ۔۔۔۔۔ غامدی صاحب نے دینی مدارس کے داخلے کے لیے عجیب تجویز دی ہے، اگر اس کے آسرے پر مدرسوں والے بیٹھ جائیں تو شاید سال میں ایک آدھ داخلہ مشکل سے ہوگا۔ بھلا جو شخص ایف اے کرلے وہ ملازمت کے چکر میں پھرے گا یا نورانی قاعدہ وناظرہ اور اعدادیہ میں فارسی قاعدہ، میزان الصرف اور نحومیر میں یہ بوڑھا آکر بیٹھے گا؟ غامدی صاحب کی یہ عجیب تجویز ہے، مگر حقیقت میں غامدی صاحب تعلیم کی ترقی کا ارادہ نہیں رکھتا ہے، بلکہ ان مدارس کو ایک چال کے ذریعہ سے بند کروانا چاہتا ہے، لیکن اس کی اس چال کے جال میں علماء کیا ایک مجنون شخص بھی نہیں پھنس سکتا ہے، لہٰذا منشور میں اس دفعہ کے لکھنے سے نہ لکھنا زیادہ بہتر تھا۔ غامدی صاحب دینی مدارس کو نصاب دے رہے ہیں     غامدی صاحب اپنے منشور کے بڑے عنوان ’’تعلیم وتعلم‘‘ کے تحت دفعہ: ۱۳ میں لکھتے ہیں: ’’مدتِ تدریس پانچ سال ہونی چاہیے اور اس کا نصاب اس طرح ترتیب دیا جائے کہ اس میں محور ومرکز کا مقام قرآن مجید کو حاصل ہو، تدریس کی ابتداء اسی سے کی جائے اور اس کی انتہاء بھی وہی قرار پائے، علم وفن کی ہر وادی میں طلبہ اسے ہاتھ میں لے کر نکلیں اور ہر منزل اسی کی رہنمائی میں طے کی جائے۔ نحو وادب، فلسفہ وکلام اور فقہ وحدیث کے لیے اسے معیار مانا جائے اور ہر چیز کے رد وقبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو۔ ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہو اور اسی پر ختم کی جائے، طلبہ کو بتایا جائے کہ بُوحنیفہ وشافعی، بخاری ومسلم، اشعری وماتریدی اور جنید وشبلی سب پر اسی کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جاسکتی ہے۔‘‘            (منشور:۱۶) تبصرہ: ۔۔۔۔۔ منشور کے اس دفعہ کی عبارت کافی لمبی ہے اورکئی جملے قابل گرفت ہیں۔ سب سے پہلا جملہ کہ ’’مدتِ تدریس پانچ سال ہونی چاہیے‘‘ قابل گرفت ہے۔ غامدی صاحب سے پوچھا جائے کہ یہ تدریس کیا چیز ہے؟ اگر اس سے کسی مدرسہ کے مدرس کی تدریس مراد ہے تو کیا کسی مدرس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پانچ سال تک تدریس کرے اور پھر ریٹائرڈ ہوجائے؟ یہ تجویز تو کسی عقل مند انسان کی نہیں ہوسکتی ہے اور نہ دنیا میں کسی قانون میں تدریس کے لیے مدت پانچ سال کسی نے مقرر کی ہے۔ اگر غامدی صاحب نے تدریس کا یہی مطلب لیا ہے تو اس کی عقل وعلم، دانشوری اور پروفیسری پر ماتم کی ضرورت ہے۔اگر غامدی صاحب نے مدتِ تدریس سے طالب علم کے پڑھنے کا زمانہ مراد لیا ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کو مدتِ تعلیم کہتے ہیں، مدتِ تدریس نہیں کہتے ہیں۔ جو شخص تعلیم اور تدریس میں فرق نہیں کرسکتا ہے وہ پرلے درجے کا غافل ہے، اس کو قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اکابر علماء اور مدرسین کو مشورے دیتا رہے اور ان کے لیے نصاب تعلیم مقرر کرتا پھرے۔     غامدی صاحب! یہ قلمکاری اور مقالہ نگاری نہیں ہے کہ آپ اس میں چرب لسانی کا خوب جوہر دکھائیں، یہ علمی میدان ہے، یہاں سوچ سوچ کر علم کی روشنی میں بات کرنی پڑتی ہے۔     غامدی صاحب نے یہ غلطی اپنے منشور میں بار بار کی ہے، اس سے پہلے منشور کے دفعہ دس میں لکھتے ہیں کہ ان جامعات میں تدریس کی ذمہ داری صرف ان اہل علم کو سونپی جائے۔ یہاں تدریس سے مدرس کی تدریس مراد لی ہے۔ غامدی صاحب کو معلوم نہ ہوسکا کہ عرف اور علماء کی اصطلاحات نے تعلیم کو متعلم وطالب علم اور تدریس کو مدرس کے ساتھ خاص کیا ہے۔ یہ علمی میدان ہے، اس میں کئی باریکیاں ہیں، صرف سر منڈانے سے آدمی قلندر نہیں بنتا، کسی نے خوب کہا ہے:  ہزار نکتۂ باریک تر ز مُو ایں جا است  نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند     یعنی یہاں ہزاروں نکتے ہیں جو بال سے زیادہ باریک ہیں، ہر سر منڈوانے والا قلندر نہیں بنتا۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ پانچ سال میں طالب علم کیا علم حاصل کرے گا؟ اور کیا عالم بنے گا؟ پھر آپ مشورہ دینے والے کون ہوتے ہیں کہ علماء کو مشورے دیتے ہیں؟ کوئی اچھا مشورہ ہوتا تو ایک بات ہوتی۔ آگے عبارت میں دوسرا جملہ یہ ہے کہ ’’ہر چیز کے رد وقبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو۔ ‘‘     اس جملہ میں مکمل طور پر حصر ہے کہ کسی حکم کا قبول کرنا یا رد کرنا قرآن ہی سے ہو، اس طرح کے جملے منکرین حدیث نے انکار حدیث کے لیے پرانے زمانے سے استعمال کیے ہیں، قدیم وجدید منکرین حدیث کا یہ جملہ ہے:’ ’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ یعنی ہمیں صرف قرآن کا حکم کافی ہے، کسی فقہ وحدیث کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آنحضرت aنے اس قسم کے جملوں کا جواب خود ارشاد فرمایا تھا جو مشکوٰۃ شریف کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ کی فصل ثانی کی تین احادیث میں مذکور ہے، ملاحظہ ہو: ۱:۔۔۔۔۔’’عن أبی رافعq قال: قال رسول اللّٰہ a: لا ألفین أحدکم متکئاً علی أریکتہٖ یأتیہ الأمر من أمری بما أمرت بہ أو نھیت عنہ ، فیقول: لا أدری ، ما وجدنا فی کتاب اللّٰہ اتبعناہ ۔‘‘      (رواہ احمد والترمذی وابوداود ۔۔۔۔ مشکوٰۃ،ص:۲۹،ط:قدیمی) ’’حضرت ابو رافع qسے روایت ہے کہ سرکار دو عالم a نے ارشاد فرمایا کہ: میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پائوں کہ وہ اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے ہو اور میرے ان احکام میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیاہے، کوئی حکم اس کے پاس پہنچے اور وہ (اسے سن کر ) یہ کہہ دے کہ میں کچھ نہیں جانتا،جو کچھ ہمیں خدا کی کتاب میں ملا ہم نے اس کی پیروی کی ۔‘‘     ’’لا ألفین أحدکم‘‘ یعنی تم ایسی حالت میں مبتلا نہ ہوجائو کہ میں تم کو اس حالت میں پالوں۔ ’’متکئًا علی أریکتہ‘‘ تخت شاہی کو ’’أریکۃ ‘‘ کہتے ہیں جس کی جمع ’’أرائک‘‘ ہے۔ ا س کو چھپر کھٹ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ اس شخص کی نہایت غرور وتکبر کی کیفیت کا بیان ہے، نیز اس میں عیش وترفہ اور ناز ونعم کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ’’أمر‘‘یہاں مطلق دین اسلام مراد ہے، امر ہو یا نہی ہو یا کوئی اور حکم ہو ۔     اس حدیث میں منکرین حدیث پر بلیغ رد وتردید ہے جو اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہتے ہیں اور جہالت کی وجہ سے احادیث کا انکار کرتے ہیں، نہایت غرور وتکبر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے بس صرف قرآن ہی کافی ہے۔ اس کا مشاہدہ علماء حق نے اس وقت کیا تھا جب وہ وفد کی شکل میں عبداللہ چکڑالوی منکر حدیث کے پاس گئے تھے، وہ چھپر کھٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور غرور کے ساتھ علماء سے کہہ رہا تھا ’’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ کہ بس ہمارے لیے صرف قرآن ہی کافی ہے۔ قرآن کی طرح احادیث بھی واجب العمل ہیں ۲:۔۔۔۔۔’’عن المقدام بن معدیکربq قال: قال رسول اللّٰہ a : ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہٗ ألا یوشک رجلٌ شبعان علی أریکتہ یقول: علیکم بھذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ وإن ما حرم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما حرم اللّٰہ ، ألا لا یحل لکم الحمار الأھلی ولا کل ذی ناب من السباع ولا لقطۃ معاھد إلا أن یستغنی عنھا صاحبھا ومن نزل بقوم فعلیھم أن یقروہ وإن لم یقروہ فلہ أن یعقبھم بمثل قراہ۔‘‘      (رواہ ابوداؤد ۔۔۔  مشکوٰۃ،ص:۲۹،ط:قدیمی) ’’اور حضرت مقدام بن معدیکرب qسے روایت ہے کہ آنحضرت a نے فرمایا: ’’آگاہ رہو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کا مثل، خبردار! عن قریب اپنے چھپر کھٹ پر پڑا ایک شخص کہے گا کہ اس قرآن کو اپنے اوپر لازم جانو(یعنی فقط قرآن ہی سمجھو اور اس پر عمل کرو) اور جو چیز تم قرآن میں حلال پائو اس کو حلال جانو اور جس چیز کو تم قرآن میں حرام پائو اس کو حرام جانو، حالانکہ جو کچھ رسول اللہ a نے حرام فرمایا ہے وہ اس کے مانند ہے جسے خدا نے حرام کیا۔ خبردار! تمہارے لیے نہ اہلی (گھریلو) گدھا حلال کیا ہے اور نہ کچلی رکھنے والے درندے، اور نہ تمہارے لیے معاہد (یعنی وہ قوم جس سے معاہدہ کیا گیا ہو) کا لقطہ حلال کیا ہے، مگر وہ لقطہ حلال ہے جس کی پرواہ اس کے مالک کو نہ ہو اور جو شخص کسی قوم کا مہمان ہو اس قوم پر لازم ہے کہ اس کی مہمانی کریں۔ اگر وہ مہمانی نہ کریں تو اس شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ مہمانی کے مانند اُن سے حاصل کرے۔     ’’أوتیت القرآن ومثلہٗ‘‘ یعنی قرآن کی طرح احکام کے اثبات کے لیے مجھے احادیث بھی دی گئی ہیں۔ ہاں! فرق اتنا ہے کہ قرآن وحی متلو ہے اور احادیث وحی غیر متلو ہے۔ واجب العمل دونوں ہیں، حلت وحرمت دونوں سے ثابت ہوتی ہے۔ ’’رجل شبعان‘‘ اس لفظ سے اس شخص کی بلادت وحماقت وجہالت اور عیش وعشرت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ بھرے پیٹ والا بلید اور بے وقوف ہوتا ہے، لہٰذا وہ اس بلادت وجہالت کی وجہ سے احادیث کا انکار کرے گا۔     ’’وإن ما حرم: أی والحال ما حرم رسول اللّٰہؐ کما حرم اللّٰہ‘‘ یعنی رسول اللہa کے فرمان سے اسی طرح چیزیں حرام ہوئی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، لہٰذا حضورa کی ذات حقیقت میں اسی طرح شارع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ شارع ہے:’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی: إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘واضح آیت ہے۔     ’’ألا لا یحل‘‘ یہاں سے ان اشیاء کا بیان شروع کیا گیا ہے جن کی حرمت سنتِ رسول اللہؐ میں مذکور ہے اور قرآن کریم میں نہیں ہے، یہ کل چار چیزیں ہیں :     ۱:-پالتو گدھا۔۔۔۔۔ نہ کہ وحشی گدھا کیونکہ وہ صحرائی ہے اور حلال ہے، جس کو زیبرا کہتے ہیں۔ اب پالتو گدھے کی حرمت کا حکم حدیث میں ہے ، قرآن کریم میں نہیں ہے۔     ۲:-ذی ناب۔۔۔۔۔ یعنی ڈاڑھوں اور کچلی سے شکار کرنے والے جانوروں کی حرمت کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، احادیث میں ہے۔     ۳:-معاہد کا لقطہ استعمال کرنا، معاہد یا ذمی ہوتا ہے اور یا حلیف کافر ہوتا ہے۔ دونوں کے لقطہ کا حکم ایک ہے جو قرآن میں نہیں ہے، حدیث میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر ذمی مسلمان کا لقطہ استعمال کرنا بطریق اولیٰ حرام ہے۔ ہاں! معمولی چیز جو کوئی خود ہی پھینک دے یا گرنے کے بعد اس کے اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ کرے وہ مستثنیٰ ہے۔     ۴:-ومن نزل: یہ چوتھی چیز ہے کہ کوئی مسلمان کسی قوم پر اتر آیا تو اس قوم پر ان کی ضیافت واجب ہے، ورنہ ضیف اپنی ضیافت کی مانند ان لوگوں سے اس کا عوض لے لے۔ اس سے ذمی لوگ مراد ہیں جن پر بطور جزیہ مجاہدین کو کھانا کھلانا مقرر کیا گیا ہو، اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، حدیث میں ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔’’عن العرباض بن ساریۃq قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ a فَقَالَ: أَیَحْسَبُ أَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی أَرِیْکَتِہٖ یَظُنُّ أَنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا إِلَّا مَا فِیْ الْقُرْاٰنِ؟ أَلاَ وَإِنِّیْ وَاللّٰہِ قَدْ أَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَھَیْتُ عَنْ أَشْیَائَ إِنَّھَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَکْثَرَ وَأَنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ أَھْلِ الْکِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِھِمْ وَلَا أَکْلَ ثِمَارِھِمْ إذَا أَعْطَوْکُمُ الَّذِیْ عَلَیْھِمْ ۔‘‘              (رواہ ابوداؤد، مشکوٰۃ، ص:۲۹،ط:قدیمی) ’’حضرت عرباض بن ساریہq سے روایت ہے کہ آنحضرت a (خطبہ کے لیے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ: کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے یہ خیال کرتا ہے کہ خدا نے وہی چیزیں حرام کی ہیں جو قرآن میں ذکر کی گئی ہیں؟ خبر دار ! خدا کی قسم! بلاشک میں نے حکم دیا، میں نے نصیحت کی اور میں نے منع کیا چند چیزوں سے جو مثل قرآن کے ہیں، بلکہ زیادہ ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نہ یہ حلال کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت حاصل کیے بغیر چلے جائو اور نہ تمہارے لیے ان کی عورتوں کا مارنا حلال ہے اور نہ تمہارے لیے ان کے پھلوں کا کھانا جائز ہے، جب کہ وہ اپنا وہ مطالبہ ادا کردیں جو ان کے ذمہ تھا۔‘‘     ’’أو أکثر‘‘ یہ ’’أو‘‘ بمعنی ’’بل‘‘ ہے۔ یہ شک کے لیے نہیں، بلکہ پہلی وحی سے متصل دوسری وحی آئی تو ’’بل أکثر‘‘‘ فرمایا۔ علماء اصول نے لکھا ہے کہ احکام پر مشتمل قرآنی آیات پانچ سو ہیں اور اسی طرح احادیث بھی پانچ سو ہیں۔     ’’ولا ضرب نسائھم‘‘ اس سے مراد مفتوح قوم کی عورتوں کے مارنے کی ممانعت ہے۔ نیز ان کے گھروں کی بے حرمتی کی ممانعت ہے، جیسا کہ عام فاتحین کی عادت ہوتی ہے۔     دونوں حدیثوں کاخلاصہ یہ ہے کہ ایسے احکام بہت سارے ہیںجن کا ذکر قرآن کریم میں نہیں، لیکن احادیث سے ثابت ہیں، جس کی تفصیل حجیتِ حدیث کے ضمن میں گزر چکی ہے اور میں نے توضیحات میں بھی لکھ دی ہے۔     غامدی منشور کے اسی دفعہ میں غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ : ’’طلبہ کو بتایا جائے کہ بوحنیفہ وشافعی، بخاری ومسلم، اشعری وماتریدی اور جنیدو شبلی سب پر اسی کی حکومت قائم ہے ۔‘‘                                                (منشور ص: ۱۶)     تبصرہ:سب سے پہلے تو میں قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ غامدی صاحب کے اس گستاخانہ اور متکبرانہ انداز کو دیکھ لیجئے کہ امام ابوحنیفہ v کو کس حقارت کے ساتھ بُوحنیفہ سے یاد کیا! امام شافعی v کو کس انداز سے ذکر کیا! فقہائے کرام، محدثین ، متکلمین اور صوفیائے کرام کا اس انداز سے ذکر کیا جس طرح کوئی شخص اپنے نابالغ بچوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ آخر میں حکم لگادیا کہ سب پر قرآن کی حاکمیت اور حکومت ہونی چاہیے۔     میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو کب پتہ چلا ہے کہ یہ فقہاء اور محدثین اور متکلمین اور صوفیائے کرام قرآن عظیم کی حکومت نہیں مانتے ہیں اور انہوں نے اس طرح درس دیا ہے کہ ان کے پیروکار سمجھنے لگے ہیں کہ ان پر قرآن حاکم نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ اپنا نو ایجاد دین بناچکے ہیں اور اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور قرآن عظیم کو چھوڑ چکے ہیں ۔ منکرین حدیث اور غیر مقلدین کی گفتگو کا یہی طریقہ ہے جس طریقہ سے غامدی صاحب نے قلم کی ایک جنبش سے سب کا صفایا کردیا اور بڑی معصومیت کے ساتھ قرآن کی آڑ لے کر فقہ وحدیث اور تصوف کا انکار کردیا۔ میں پھر کہتا ہوں کہ غامدی صاحب نے غلط بیانی سے کام لیا کہ مقلدین حضرات قرآن کی حاکمیت کو نہیں مانتے ہیں یا محدثین ومتکلمین اور صوفیاء اس مرض میں مبتلا ہیں۔ میں نے جو غامدی صاحب کے منشور کو دیکھا اور ان کی دیگر تصنیفات میزان، تبیان اور البرھان وغیرہ کو دیکھا تو مجھے تو بالکل واضح نظر آیا کہ قرآن عظیم کے کئی احکامات کے غامدی صاحب منکر ہیں اور کھل کر لکھ کر انکار کرتے ہیں۔ میں آئندہ سب کچھ واضح کرنا چاہتا ہوں، ابھی تو غامدی صاحب کے منشور پر گفتگو ہورہی ہے۔ غامدی صاحب سمجھتے ہوں گے کہ میں ہاتھ کی صفائی سے سب کچھ غلط سلط لکھ دوں گا اور کسی کو پتہ نہیں چلے گا، ان شاء اللہ! ایسا نہیں ہوگا، غامدی صاحب جس صورت میں آئیں گے ہم ان کو پہچان لیں گے۔ بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من اندازِ قدت را می شناسم ’’تم جس رنگ کا لباس پہن کر سامنے آنا چاہو آئو! میں تمہارے قد وقامت کے انداز کو خوب جانتا ہوں۔      منشور کے اس دفعہ کے آخرمیں غامدی صاحب لکھتے ہیں : ’’اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جاسکتی ہے۔‘‘    (منشور: ۱۶)     تبصرہ:۔۔۔۔۔ غامدی صاحب کاخیال ہے کہ ان فقہاء ومحدثین ومتکلمین وصوفیائے کرام کے کلام میں ایسی چیزیں ہیں جو قرآن کے خلاف ہیں، لہٰذا طلبہ کو بتادینا چاہیے کہ قرآن کے خلاف کسی کی کوئی چیز قبول نہیں کی جاسکتی ہے۔ میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ ان حضرات کی کونسی چیزیں آپ کو مل گئیں ہیں جو قرآن کے خلاف ہیں؟ وہ ہمیں بھی بتادیجیے، تاکہ ہم بھی ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو صرف بے مقصد طعن اور طنز کیوں کرتے ہیں؟ اور لوگوں کو ان کے اسلاف سے بدظن کیوں کرتے ہیں؟ آپ خود ان اکابرین کے بارے میں سوء ظن میں مبتلا ہوکر راہِ راست سے بھٹک چکے ہیں اور شتر بے مہار بن کر ہدایت کی شاہراہ اعظم کے بجائے گمراہی کی پگڈنڈیوں میں پریشان حال گھوم رہے ہیں، تو اور لوگوں کو کیوں تشکیک میں مبتلا کرتے ہیں؟     تعلیم وتعلم‘‘ کے بڑے عنوان کے تحت دفعہ: ۱۵ کے ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں: ’’ اسلامیات کی اعلیٰ تعلیم کا موجودہ طریقہ بالکل ختم کردیا جائے اور ان جامعات سے فراغت کی سند کے لیے وہی درجہ مانا جائے جو مثال کے طور پر طب جدید میں ایم بی بی ایس کی سند کو حاصل ہے ۔‘‘                                             (منشورص:۱۷) تبصرہ: ۔۔۔۔۔ دینی مدارس اور جامعات میں آٹھ سال تک درس نظامی کا سلسلہ چلتا ہے، اس کے بعد اعلیٰ درجات کی اعلیٰ تعلیم میں دورہ حدیث ہوتا ہے اور پھر یہ طالب علم فارغ التحصیل اور فارغ درس نظامی ہوکر عالم دین بن جاتا ہے۔ فراغت اور تقسیم اسناد کے اس موقع پر مدارس میں ایک رُوح پرور منظر ہوتا ہے، اکثر طلبہ کے رشتہ دار اور عام شہری جمع ہوجاتے ہیں، وہ ان طلبہ کی دستار بندی کو جب دیکھتے ہیں اور ان کو پھولوں کے ہار پہناتے ہوئے مخلص مسلمانوں کو بھی دیکھتے ہیں تو طلبہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ دیکھنے والے مسلمانوں کا جذبہ موجزن ہوجاتا ہے اور وہ اپنے بچوں کو دینی مدارس میں دینی تعلیم دلانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ غامدی صاحب کو اسلامی مدارس کی یہ شان وشوکت برداشت نہیں، ان کو یہ اعلان گوش گزار کرنا بھی برداشت نہیں کہ اس سال جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ڈیڑھ ہزار طلبہ فارغ ہوگئے، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون سے چھ سو طلبہ اور دارالعلوم کراچی کورنگی سے پانچ سو یا کم وبیش طلبہ عالم بن گئے۔ چونکہ یہ پر رونق سلسلہ اہل حدیث غیر مقلدین کے ہاں نہیں ہے تو ان کے ہاں فارغ وغیر فارغ کا ظاہری طور پر کوئی فرق بھی نہیں اور نہ وہاں یہ شان وشوکت ہوتی ہے۔ غامدی صاحب جہاں کئی دیگر روحانی بیماریوں میں مبتلا ہیں وہیں پر یہ غیر مقلد بھی ہیں، اس لیے اپنے منشور میں جو کچھ لکھا یہ ان کے دل کی آواز ہے، لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جب اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا جائے تو پھر کس اصول اور کس قانون کے مطابق ان طلبہ کو اعلیٰ ڈگری ایم بی بی ایس کے مساوی سند عطا کی جائے گی؟ کیا یہ خیانت نہیں ہے کہ پڑھا نہیں ہے اور جعلی سندِ فراغت اس کو عطا کی گئی اور اس کے نا م کے ساتھ سند یافتہ عالم مساوی M.B.B.S لکھ دیا گیا؟     افسوس اس بات پر ہے کہ عصری تعلیم کی مروجہ جامعات اور کالجوں سکولوں میں جو بے قاعدگیاں ہورہی ہیں، مخلوط تعلیم سے جو فحاشی پھیلائی جارہی ہے اور ان جامعات کے اندر دوران تعلیم جو اخلاق سوز واقعات رونما ہورہے ہیں، اس کی اصلاحات کے لیے غامدی صاحب نے اپنے منشور میں کچھ نہیں لکھا، اگر لکھا تو دینی مدارس کا پیچھا کرکے لکھا، ایسا لگتا ہے کہ غامدی صاحب کے قلم کو اللہ تعالیٰ کسی نیک راستے میں استعمال ہونے نہیں دیتا ہے، حالانکہ غامدی صاحب نے اپنے منشور کی پیشانی پر لکھا ہے: ’’اعلانِ جنگ دور حاضر کے خلاف‘‘ تو کیا دور حاضر یہی دینی مدارس اور اسلامی احکامات ہیں؟ من از بیگانگاں ہر گز نہ نالم کہ باما ہر چہ کرد آشنا کرد ’’میں بیگانہ لوگوں کی وجہ سے ہر گز نہیں روتا ہوں، کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنوں نے کیا۔ ‘‘                                                                          (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین