بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق و سباق کے آئینہ میں (تیرہویں قسط)

جاوید احمد غامدی سیاق و سباق کے آئینہ میں   (تیرہویں قسط)

حدود و تعزیرات میں غامدی صاحب کے منشور کا یہ چوتھا بڑا عنوان ہے، اس بڑے عنوان کے ضمن میں کل آٹھ دفعات ہیں، اس میں سے چار دفعات پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے، لیکن باقی چار دفعات میں سنگین غلطیاں ہیں جن پر شدید مؤاخذہ اور گرفت کی ضرورت ہے، چنانچہ اس بڑے عنوان کی تیسری دفعہ دیت سے متعلق ہے۔ شرعی دیت سے متعلق غامدی صاحب کا نظریہ دیت سے متعلق غامدی صاحب اپنے منشور کی دفعہ: ۳ کے تحت لکھتے ہیں: ’’دیت کے معاملے میں یہ حقیقت مانی جائے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ بے شک ہر دور اور ہر معاشرہ کے لیے اسلام کا واجب الاطاعت قانون ہے، لیکن اس کی مقدار، نوعیت اور دوسرے تمام امور میں قرآن کا یہی حکم ہے کہ ’’معروف‘‘ یعنی معاشرے کے دستور اور رواج کی پیروی کی جائے، چنانچہ اسلام نے نہ دیت کی کوئی خاص مقدار ہمیشہ کے لیے متعین کی ہے اور نہ عورت اور مرد اور غلام اور آزاد اور کافر اور مؤمن کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھہرائی ہے۔‘‘                   (منشورص:۱۷) تبصرہ: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ غامدی صاحب کے پاس کونسی اتھارٹی ہے کہ وہ دیت وغیرہ شرعی احکام میں جوڑ توڑ کے لیے جج بنے ہوئے ہیں؟ کیا چودہ سوسال سے جس مسئلہ کو صحابہ کرامؓ ، تابعینؒ ، مجتہدین اورفقہائے کرام نے سُلجھا کر امت کے سامنے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا اور اس کے لیے واضح قواعد رکھ کر امت کو آسان شاہراہ پر گامزن کردیا، کیا وہ کافی وشافی نہیں ہے؟ اس کے بعد غامدی صاحب کی کس تحقیق کی ضرورت رہ گئی کہ وہ مجتہدبن کر بلا ضرورت تحقیق کے میدان میں اتر گئے اور نبی اکرم a سے لے کر آج تک تمام علماء اور محققین کو کنارے کردیا اور اپنی خود ساختہ تحقیقات ’’عرف‘‘ اور ’’دستور‘‘ اور ’’رواج‘‘ اور شعراء جاہلیت کے اشعار کو امت پر مسلط کرنا شروع کردیا۔ تعجب اس پر ہے کہ امت تو نبی اکرم، رسول معظم a کی ہے اور ان کے لیے قوانین وقواعد غامدی صاحب بنا رہے ہیں؟ میں نے کئی بار کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ غامدی صاحب!!! آپ کے اجتہاد کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں اور نئی شریعت بنارہے ہیں اس سے آپ امت کو تشویش اور تشکیک میں ڈال رہے ہیں، مثلاً: یہاں منشور کے دفعہ تین میں آپ نے دیت سے متعلق لکھا ہے: ’’ دیت کی مقدار، نوعیت اور دوسرے تمام امور میں قرآن کا حکم یہی ہے کہ معروف یعنی معاشرے کے دستور اور رواج کی پیروی کی جائے ، الخ۔‘‘ کم ازکم آپ کو خدا کا خوف نہیں کہ نبی اکرم a پر جو قرآن اُترا، اللہ تعالیٰ نے اس کی تفسیر وتبیین کا وعدہ بھی کیا اور نبی اکرم a نے اس کا بیان بھی فرمایا، نبی اکرم a کے بیان کو چھوڑ کر آپ عرف اور دستور کے پیچھے لگے ہوئے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف سطحی غلطی نہیں، بلکہ آپ کے دل ودماغ میں انکار حدیث اور دین اسلام کے مسخ کرنے کا ایک منصوبہ اور شوق پڑا ہوا ہے۔ جب کسی حکم کے لیے نص موجود ہو تو تنصیصِ شرعی کے بعد آپ کو کس نے اجازت دی ہے کہ آپ عرف کی بات کریں یا معاشرے کے دستور اور رواج کی بات کریں، یہی بات تو غلام احمد پرویز کرتا تھا اور وہ کہتا تھاکہ: دین کا اصل اور مرکز حکومت اور گورنمنٹ ہے۔ اللہ اور رسول سے مراد گورنمنٹ اور پارلیمنٹ ہے۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ اگر آپ میں ذرا بھی انصاف ہے تو کیا نبی کی بات معیار ہونا چاہیے یا دستور اور رواج کی بات کو معیار ہونا چاہیے؟ نبی اکرم a نے مرد کی دیت کے لیے سو اونٹ مقرر فرمائے ہیں، یہ دین ابراہیمی کا قدیمی طریقہ قریش کے پاس تھا یا عرب کا رواج تھا یا معاشرہ کا دستور تھا، کچھ بھی تھا، اللہ تعالیٰ کے رسولa نے اس کو شریعت کا حصہ بنادیا، چنانچہ حضرت ابن عباسr کی روایت کو طبقات میں ابن سعدؒ نے اس طرح نقل کیا ہے: ’’ قَالَ ابْنُ عَبَّاسؓ :عَبْدُالْمُطَّلِبِ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ دِیَۃَ النَّفْسِ مائۃً مِنَ الإبِلِ فجرت فی قریش وَالْعَرَب مائۃ من الإبل وأقرَّھَا رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ علیہ وسلم علٰی ما کانتْ عَلَیْہِ۔ ‘‘                                          (طبقات کبری، ج:۱،ص:۵۸،۵۹) ’’حضرت ابن عباسr فرماتے ہیں کہ: عرب میں عبدالمطلب پہلے انسان ہیں جنہوں نے جان کی دیت ایک سو اونٹ مقرر کیے، پھر قریش اور عرب میں سو اونٹوں کا سلسلہ جاری رہا، پھر آنحضرت a نے شرعی طور پر وہی سو اونٹوں کا سلسلہ اسلام میں برقرار رکھا۔‘‘ غامدی صاحب کو جان لینا چاہیے کہ آنحضرت a نے جب دیت کے قانون کو اسلامی قانون کی حیثیت سے اپنالیا، اب یہ جاہلیت کا قانون نہیں رہا اور نہ زمانے کا عرف اور دستور رہا، بلکہ اب یہ اسلام کا قانون بن گیا۔ قول رسولؐ اور فعل رسولؐ کی طرح تقریر رسول بھی حدیث وسنت کا مقام رکھتی ہے۔ ادھر مؤطا میں امام مالک v نے قتل خطأ کی دیت کے بارے میں صحیح سند کے ساتھ جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں صاف طور پر مذکور ہے: ’’إِنَّ فِیْ النَّفْسِ مِائَۃٌ مِّنَ الْإبِلِ‘‘ یعنی ’’جان میں دیت کی مقدار سو اونٹ ہے۔‘‘ ( مؤطامالک، کتاب العقول،ص:۶۶۸، نور محمد کتب خانہ وسنن النسائی، کتاب القسامۃ والدیات، ج:۲،ص:۲۵۱، قدیمی کتب خانہ) امام بخاری v کے ہم عصر محدث محمد بن نصر مروزی v اپنی کتاب السنۃ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں : ’’کتب عمر بن عبدالعزیزؒ فی الدیات فذکر فی الکتاب’’وکانت دیۃ المسلم علٰی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مائۃ من الإبل۔‘‘ ’’حضرت عمر بن عبدالعزیز v نے دیتوں سے متعلق ایک تحریر لکھی، اس تحریر میں آپ نے ذکر کیا کہ مسلمان مرد کی دیت آنحضرت a کے زمانہ میں ایک سو اونٹ تھی۔ ‘‘ غامدی صاحب! آنکھیں کھول کر ادھر بھی دیکھ لیں کہ کیا نبی اکرم a نے دیت کو خود متعین کیا ہے یا معاشرے اور حکومتِ وقت پر چھوڑ رکھا ہے؟ آنے والی حدیث میں انسان اور انسان کے جسم کے مختلف اعضاء کی دیت کا تعین کیا گیا ہے، حتی کہ خصیتین تک معاملہ جا پہنچا ہے اور خصیتین کی دیت کی مقدار ایک سو اونٹ بتائی گئی ہے۔ غامدی صاحب! اگر اس کی مقدار میں تعیین نہیں مانتے ہیں تو وہ آخر کیا تعیین چاہتے ہیں ؟دیت کی تفصیلی حدیث ملاحظہ ہو: جسم کے مختلف اعضاء کی دیت ’’وعن أبی بکر بن محمّد بن عمرو بن حزم عن أبیہ عن جدّہٖ أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کتب إلٰی أھل الیمن وکان فی کتابہٖ أنّ من اعتبط مؤمنا قتلا فإنّہٗ قود یدہٖ إلّا أن یّرضٰی أولیآء المقتول وفیہ أنّ الرّجل یقتل بالمرأۃ وفیہ فی النّفس الدّیۃ مائۃ من الإبل وعلٰی أھل الذّھب ألف دینار وفی الأنف إذا أوعب جدعہٗ الدّیۃ مائۃ من الإبل وفی الأسنان الدّیۃ وفی الشّفتین الدّیۃ وفی البیضتین الدّیۃ وفی الذّکر الدّیۃ وفی الصّلب الدّیۃ وفی العینین الدّیۃ وفی الرّجل الواحدۃ نصف الدّیۃ وفی المأمومۃ ثلث الدّیۃ وفی الجائفۃ ثلث الدّیۃ وفی المنقّلۃ خمس عشرۃ من الإبل وفی کلّ اصبع من أصابع الید والرّجل عشر من الإبل وفی السّنّ خمس من الإبل۔ (رواہ النسائی ،ج:۲،ص:۲۵۱، ط:قدیمی کتب خانہ والدارمی ومن کتاب الدیات، باب الدیۃ فی قتل العمد، ج:۲، ص:۱۰۹، ط: نشر السنۃ، ملتان) ’’وفی روایۃ مالک وفی العین خمسون وفی الید خمسون وفی الرّجل خمسون وفی الموضحۃ خمس۔‘‘    (مؤطا امام مالک، کتاب العقول، ص:۶۶۸، نور محمد کتب خانہ) ’’اور حضرت ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے والد (حضرت محمد ابن عمرو) سے اور وہ ابوبکر کے دادا (حضرت عمرو بن حزم ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم a نے اہل یمن کے پاس ایک ہدایت نامہ بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ جو شخص قصدا کسی مسلمان کو ناحق مار ڈالے (یعنی قتل عمد کا ارتکاب کرے) تو اس کے ہاتھوں کے فعل کا قصاص ہے (یعنی اس نے اپنے ہاتھوں کے فعل اور تقصیر کے ذریعہ جو قتل عمد کیا ہے اس کی سزا میں اس کو بھی قتل کردیا جائے) الا یہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں (یعنی اگر مقتول کے وارث قاتل کو معاف کردیں یا اس سے خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں تو اس کو قتل نہ کیا جائے) اس ہدایت نامہ میں یہ بھی تھا کہ (مقتول) عورت کے بدلے میں (قاتل ) مرد کو قصاص میں قتل کیا جائے، اس میںیہ بھی لکھا تھا کہ جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں (یعنی جس کے پاس اونٹ ہوں وہ خون بہا میں مذکورہ تفصیل کے مطابق سو اونٹ دے) اور جس کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار دے، اور ناک کی دیت جب کہ وہ پوری کاٹی گئی ہو ایک سو اونٹ ہیں اور دانتوں کی دیت (جب کہ وہ سب توڑے گئے ہوں) پوری دیت (یعنی ایک سو اونٹ کی تعداد) ہے اور ہونٹوں کی دیت (جب کہ وہ پورے کاٹ دیئے گئے ہوں) پوری دیت ہے اور دونوں خصیوںکے کاٹے جانے کی بھی پوری دیت اور پیٹھ کی ہڈی توڑے جانے کی پوری دیت اور عضو خاص کے کاٹے جانے کی بھی پوری دیت ہے اور دونوں آنکھوں کو پھوڑ دینے کی بھی پوری دیت ہے، اور ایک پیر کاٹنے پر آدھی دیت ہے، اور سر کی جلد زخمی کرنے پر تہائی دیت ہے اور پیٹ میں زخم پہنچانے پر بھی تہائی دیت ہے اور اس طرح مجروح کرنے پر کہ ہڈی ایک جگہ سے سرک گئی ہو پندرہ اونٹ دینے واجب ہیں اور ہاتھ اور پائوں کی انگلیوں میں سے ہر ایک انگلی (کاٹنے) پر دس اونٹ دینے واجب ہیں، اور ہر ہر دانت کا بدلہ پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ (نسائی ، دارمی) اور امام مالک v کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک آنکھ (پھوڑنے) کی دیت پچاس اونٹ ہیں اور ایک ہاتھ اور ایک پیر کی دیت پچاس پچاس اونٹ ہیں اور ایسا زخم پہنچانے کی دیت جس میںہڈی نکل آئی ہو یا ظاہر ہوگئی ہو پانچ اونٹ ہیں۔‘‘ قتل خطأ اور شبہ عمد کی دیت سو اونٹ ہیں ’’عن عبداللّٰہ بن عمرو أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ألا إن دیۃ الخطأ شبہ العمد ماکان بالسوط والعصا مائۃ من الإبل منھا أربعون فی بطونھا أولادھا۔‘‘                                            (ابوداؤد، باب دیۃ الخطأ، شبہ العمد، ج:۲،ص:۲۶۹، ایچ ایم سعید کمپنی) ’’حضرت عبداللہ بن عمروr کہتے ہیں کہ رسول کریم a نے فرمایا: جاننا چاہیے کہ قتل خطأ جس سے مراد شبہ عمد ہے اور جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو، اس کی دیت سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس ایسی اونٹنیاں بھی ہونی چاہئیں جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔‘‘ قتل شبہ عمد کی دیت سو اونٹ ہیں ’’عن علیؓ أنہٗ قال: فی شبہ العمد أثلاثا ثلاث وثلاثون حقۃ وثلاث وثلاثون جذعۃ وأربع وثلاثون ثنیۃ إلٰی بازل عامھا کلھا خلفۃ، وفی روایۃ قال: فی الخطأ أرباعا خمس وعشرون حقۃ وخمس وعشرون جذعۃ وخمس وعشرون بنات لبون وخمس وعشرون بنات مخاض۔‘‘  (ابوداؤد، باب دیۃ الخطأ وشبہ العمد، ج:۲، ص:۲۷۰، ایچ ایم سعید کمپنی) ’’حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: قتل شبہ عمد کی دیت میں (سو) اونٹنیاں دینی واجب ہیں بایں تفصیل کہ تینتیس اونٹنیاں وہ ہوں جو چوتھے برس میں لگی ہوں اور تینتیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں برس میں لگی ہوں اور چونتیس اونٹنیاں وہ جو چھٹے برس میں لگی ہوں اور آٹھ نو سال تک جا پہنچی ہوں اور سب حاملہ ہوں۔ ایک اور روایت میں حضرت علیؓ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: قتل خطأ کی دیت میں چار طرح کی (سو) اونٹنیاں دینی واجب ہیں، بایں تفصیل کہ پچیس وہ ہوں جو تین تین برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو چار چار برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو دو دو برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو ایک ایک برس کی ہوں۔‘‘ نوٹ: اس روایت کا آخری حصہ احناف کی دلیل ہے۔ ’’وعن مجاھد قال: قضٰی عمرؓ فی شبہ العمد ثلاثین حقۃ وثلاثین جذعۃ وأربعین خلفۃ ما بین ثنیۃ إلٰی بازل عامھا۔‘‘   (ابوداؤد، باب دیۃ الخطأ وشبہ العمد، ج:۲، ص:۲۷۰، ایچ ایم سعید کمپنی) ’’اور حضرت مجاہد v سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق q نے قتل شبہ عمد کی دیت میں تیس اونٹنیاں تین تین برس کی اور تیس اونٹنیاں چار چار برس کی اور چالیس اونٹنیاں حاملہ جو چھٹے برس سے لے کر نویں برس تک جا پہنچی ہوں دینے کا حکم فرمایا۔ (گویا یہ روایت حضرت امام شافعی vکے مسلک کے موافق ہے ) ۔‘‘ ان واضح احادیث اور واضح احکامات اور سر سے لے کر پائوں تک انسان کے جسم کے ایک ایک عضو کا نام سردارِ دو جہاں a اپنی مبارک زبان اور فرمان سے واضح فرماتے ہیں اور امت کو واضح ہدایات جاری فرما دیتے ہیں اور غامدی صاحب کہتے ہیں کہ پیغمبرa نے کوئی تعیین کبھی بھی نہیں کی ہے۔ تعجب اس پر ہے کہ دن کی روشنی میں کس ڈھٹائی کے ساتھ غامدی صاحب دیت کا انکار کرتے ہوئے اپنی کتاب برھان میں لکھتے ہیں کہ: ’’زمانے کی گردشوں نے کتاب تاریخ میں چودہ صدیوں کے ورق الٹ دیے ہیں، تمدنی حالات اور تہذیبی روایات، ان سب میں زمین وآسمان کا تغیر واقع ہوگیا ہے، اب ہم دیت میں نہ اونٹ دے سکتے ہیں نہ اونٹوں کے لحاظ سے اس دور میں دیت کا تعین کوئی دانشمندی ہے۔ ‘‘ (برھان ،ص: ۱۸) پیغمبر اسلام تو واضح انداز میں قیامت تک امت کے لیے دیت کی مقدار کو متعین کرکے فرمان جاری فرماتے ہیں اور غامدی صاحب کہتے ہیں کہ یہ دانشمندی نہیں ہے، ہم نہ اونٹ دے سکتے ہیں، نہ اونٹوں کی قیمت دے سکتے ہیں۔ پیغمبرa کے قول وفعل کو غیر دانشمندانہ قرار دینا صریحاً کفر ہے۔ اب علماء فیصلہ کریں کہ یہ شخص کس فتویٰ کا مستحق ہے؟ میں غامدی صاحب کو جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں، بلکہ کہتا ہوں کہ غامدی صاحب کو توبہ کرنی چاہیے، یہ دنیا فانی ہے، پھر دوزخ میں توبہ کی گنجائش نہیں رہے گی۔ درِ فیض محمد وا ہے آئے جس کا جی چاہے نہ آئے آتش دوزخ میں جائے جس کا جی چاہے مریضانِ گناہ کو دو خبر فیض محمدؐ کی بلا قیمت دوا ملتی ہے آئے جس کا جی چاہے غامدی صاحب نے اپنے منشور میں قرآن مجید کی آیات کا صرف حوالہ دیا ہے اور آیت سے متعلق تفصیل اپنی کتاب برھان میں لکھی ہے، چنانچہ دیت سے متعلق قرآن مجید کی آیت یہ ہے : ’’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً،وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلٰی أَھْلِہٖ إِلَّا أَنْ یَّصَّدَّقُوْا۔‘‘                                 (النسائ: ۹۲) ’’اور جو شخص کسی مؤمن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مؤمن غلام کو آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت ادا کرے، الا یہ کہ وہ دیت کو معاف کردیں ۔‘‘ جناب غامدی صاحب اس آیت میں لفظ ’’دیۃ‘‘ کے پیچھے پڑگئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’دیۃ‘‘ کا لفظ نکرہ ہے اور نکرہ میں عموم ہوتا ہے، کسی چیز میں تعیین وتخصیص نہیں ہوتی، مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ شئے جو دیت کے نام سے معروف ہو‘ وہ مراد ہے۔ کسی چیز میں تعیین وتخصیص نہیں ہوگی، ہمیں اس معاملے میں عرف کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا مخاطب کے عرف میں جس چیز کا نام دیت ہے وہ مقتول کے ورثہ کے سپرد کردی جائے۔ (برھان، ص:۱۱) اس کے علاوہ غامدی صاحب نے عرب کے اشعار کا ڈھیر لگادیا ہے اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جاہلیت میں شعراء عرب نے دیت کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے، لہٰذا اسلام میں دیت کی خاص مقدار متعین نہیں ہے، بس صرف زمانہ کا عرف معتبر ہے اور حاکم وقت کا اعتبار ہے، وہ جتنا رد وبدل دیت میں کرنا چاہتا ہے کرسکتا ہے، برھان ص: ۱۱ پر غامدی صاحب دیت سے متعلق کہتا ہے کہ : ’’روایات میں اس کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ عرب کے دستور کی وضاحت ہے، اس میں کوئی چیز بھی خود پیغمبرa کا فرمان واجب الاذعان نہیں ہے۔‘‘       (برھان، ص: ۱۱ ) غامدی صاحب اپنے منشور کی دفعہ: ۳ کے تحت مزید لکھتا ہے کہ:  ’’چنانچہ اسلام نے دیت کی نہ کوئی خاص مقدار ہمیشہ کے لیے متعین کی ہے اور نہ عورت اور مرد اور غلام اور آزاد اور کافر اور مؤمن کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھہرائی ہے۔‘‘                                                   (منشور،ص: ۱۸) تبصرہ: دیت کی مقدار کی عدم تعیین کے بارے میں غامدی صاحب غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، پچھلے صفحات میں جن احادیث کو میں نے پیش کیا ہے ان میں انتہائی صراحت کے ساتھ دیت کی مقدار کا بیان موجود ہے۔ طبقات ابن سعد کے حوالہ سے حضرت ابن عباسr کی صریح حدیث ہے جس میں دیت کے ایک سو اونٹ کا ذکر موجود ہے، پھر مؤطا مالک میں صریح حدیث ہے جس میں ایک سو اونٹ کا بیان موجود ہے، کتاب السنہ میں علامہ محمد بن نصر مروزیv کی نقل کردہ صریح حدیث ہے جس میں دیت کے ایک سو اونٹ کا ذکر ہے۔ محمد بن عمرو بن حزمq کو آنحضرت a نے دیت سے متعلق جو خط لکھا تھا اس میں جان کے بدلے ایک سو اونٹ کے علاوہ جسم کے تمام اعضاء کی دیت کا واضح بیان موجود ہے، یہاں تک کہ انسان کے ذکر اور خصیتین کی دیت کی مقدار متعین طور پر موجود ہے۔ نسائیv نے اس روایت کو نقل کیا ہے، اب نہ معلوم غامدی صاحب اس سے مزید کیا مقدار اور کیا تعیین چاہتے ہیں؟ اسی طرح عبداللہ بن عمروq کی حدیث میں ایک سو اونٹ کی وضاحت موجود ہے جس کو ابودائودv نے ذکر کیا ہے۔ اسی طرح امام مجاہدv نے حضرت عمرq کا فیصلہ نقل کیا ہے، اس میں ایک سو اونٹ دیت کا ذکر ہے، ابودائودv نے اس کی تخریج کی ہے۔ اسی طرح حضرت علی q کے واضح فرمان کو ابودائودv نے نقل کیا ہے جس میں ایک سو اونٹ دیت کی مقدار کا تعین مذکور ہے۔ میں نے ان احادیث کو متن اور ترجمہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان تصریحات وتشریحات کے باوجود غامدی صاحب نے اپنے منشور میں جو یہ لکھا ہے کہ اسلام نے ہمیشہ کے لیے دیت کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں کی ہے، یہ غامدی صاحب کی انتہائی گمراہی ہے اور ان کی بہت بڑی خیانت اور غلط بیانی اور بہت بڑا دھوکہ ہے جو وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ غامدی جو اتنا گہرا آدمی ہے کہ بال کی کھال اتارتا ہے کیا ان کی نظروں سے دیت کی اتنی بڑی حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہے؟ کبھی بھی نہیں، البتہ وہ دین اسلام کو ایک نیا رخ دینا چاہتا ہے اور اپنا باطل مطلب حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ دیت کی مقدار کو چھپانے کے لیے عرف کا بگل بجاتا ہے، کبھی دستور اور رواج کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور کبھی سبع معلقات اور دیوان حماسہ میں دیت سے متعلق جاہلیت کے اشعار گاگاکر دیت کی مقدار سے راہ فرار اختیار کرتا ہے، یہ اس شخص کا صرف انکار حدیث نہیں بلکہ دین اسلام کی بنیادوں کے اکھیڑنے کے لیے ان کے دل ودماغ میں الحاد اور زندقہ کا ایک جذبہ موجزن ہے، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر جاہلیت کے اشعار سے شرعی حکم ثابت ہوجاتا ہے تو ان اشعار میں تو دیت کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں موجود ہیں، پھر اس کو بھی قبول کرو، چنانچہ دیوان حماسہ میں بنو قیس بن ثعلبہ کا ایک شاعر شراب پینے اور خوبصورت لڑکی سے اختلاط کی اس طرح درخواست کرتا ہے: إنا محیوک یا سلمٰی فحیینا وإن سقیت کرام الناس فاسقینا اے سلمیٰ! ہم تمہیں محبت کا سلام پیش کرتے ہیں، تم بھی ہمیں محبت کا سلام پیش کرو، اور اگر کبھی تم نے اشراف لوگوں کو شراب پلائی ہے تو ہمیں بھی پلادو، کیونکہ ہم بھی شرفا لوگ ہیں۔ ‘‘ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’برھان‘‘ میں شراب کی حد شرعی کا بھی بہت مذاق اڑایا ہے: ’’اس سے واضح ہے کہ یہ (شراب کی حد) شریعت ہر گز نہیں ہوسکتی ۔‘‘        (ص:۱۳۸) ’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ حضور a نے اگر شراب نوشی کے مجرموں کو پٹوایا تو شارع کی حیثیت سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے پٹوایا۔‘‘            (برھان: ۱۳۹) ایسا معلوم ہوتاہے کہ غامدی صاحب نے شراب نوشی کے لیے بھی اوپر مذکور سلمیٰ کے شعر کو بنیاد بنایا ہوگا۔ میں کھلے الفاظ میں کہتا ہوں کہ غامدی صاحب دین اسلام کے مجرم اور دین اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے ہیں اور ان کے نظریات کفر کی سرحدوں تک جا پہنچے ہیں ۔ میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں کونسی وحی آئی جس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ فلاں حکم نبی کی نبوت کی حیثیت سے آیا ہے اور فلاں حکم بشری حیثیت سے آیا ہے؟ فلاں حکم نبی کی عربی معاشرت کی وجہ سے آیا ہے اور فلاں حکم نبی کے حاکم ہونے کی حیثیت سے آیا ہے؟ نبی اکرم a کی ذات کو اس طرح تقسیم کرنے کا آپ کو کس نے اختیار دیا ہے اور آپ کون ہوتے ہیں جو اس طرح فیصلوں کے لیے جج بنے ہوئے ہیں؟ دل چاہتا ہے کہ میں قلم کی نوک کو تلوار بنا کر اس پر چلائوں، مگر اخلاق کے دائرہ سے نکل نہیں سکتا ہوں، بس اتنا کہتا ہوں کہ اے اللہ! غامدی صاحب اور اس کے متبعین کی فنکاری اور مقالہ نگاری سے اسلام کی حفاظت فرما اور اس فتنہ کو نیست ونابود فرما۔ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ کے ابتدائی دیباچہ میں لکھا ہے کہ اس مجموعۂ مضامین کی تحریریں زیادہ تر معاصر مذہبی فکر کی تنقید میںہیں، ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے لیے گراں باریِ خاطر کا باعث ہو، لیکن : چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی میں غامدی صاحب کی دماغ سوز اور دین اسلام کو مسخ کرنے والی تحریر وتحریف وتزویر سے بھری ہوئی عبارات کے جواب میں اگر بھاری جملے لکھ دوں اور وہ جملے کسی کے لیے بارِ خاطر بن جائیں تو وہ بھی غامدی والا مذکورہ شعر کچھ تصرف کے ساتھ اپنے لیے تسکین خاطر کا ذریعہ بنائے۔ قلم میں تلخ نوائی میری گوارا کر کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی لو بھائی! غامدی صاحب نے دیت سے چھٹی دِلادی غامدی صاحب نے پہلے دیت کی مقدار میں تعین کا انکار کردیا۔ اب دیکھئے! وہ دیت کے قانون پر جھاڑو پھیر کر چھٹی دلارہا ہے، چنانچہ برہان میں وہ لکھتا ہے:’’ ہمارے معاشرے میں دیت کا کوئی قانون چونکہ پہلے سے موجود نہیں ہے، اس وجہ سے ہمارے ارباب حل وعقد کو اختیار ہے کہ چاہیں تو عرب کے اس دستور کو برقرار رکھیں اور چاہیں تو اس کی کوئی دوسری صورت تجویز کریں وہ جو صورت بھی اختیار کریں گے اور معاشرہ اسے قبول کرلیتا ہے تو ہمارے لیے وہی معروف قرار پائے گی، پھر معروف پر مبنی قوانین کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حالات اور زمانے کی تبدیلی سے ان میں تغیر کیا جاسکتا ہے اور کسی معاشرے کے ’’اولی الامر‘‘ اگر چاہیں تو اپنے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے انہیں نئے سرے سے مرتب کرسکتے ہیں۔‘‘                       (برھان ص:۱۹) اس عبارت میں غامدی صاحب دیت کے معروف اور دستور اور رواج کی اصطلاحات سے ترقی کرکے آگے چلے گئے کہ اس معروف اور دستور کے مطابق والی دیت کو بھی وقت کے حکمران بدل سکتے ہیں اور مثلاً پرویز مشرف اور عبدالرحمن ملک کو اس میں ہر تغیر کا اختیار حاصل ہے۔ مرد اور عورت کی دیت میں فرق کا ثبوت غامدی صاحب نے اپنے منشور کے دفعہ: ۳ کے آخر میں لکھا ہے:  ’’اور اسلام نے نہ عورت اور مرد اور غلام اور آزاد اور کافر اور مؤمن کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھہرائی ہے۔                (منشور:ص: ۱۷،۱۸) غامدی صاحب نے اس عبارت میں غلط بات کہی ہے، اسلام میں ان مذکورہ اشخاص کی دیت میں یقینا فرق ہے، ملاحظہ فرمائیں:  چنانچہ سنن کبریٰ میں امام بیہقی v نے حضرت عمر اور حضرت علی r کی روایت نقل کی ہے : ’’عن إبراھیم النخعی رحمہ اللّٰہ عن عمر بن الخطابؓ وعلی بن أبی طالبؓ أنھما قالا: عقل المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل فی النفس وفیما دونھما۔‘‘                             (سنن الکبریٰ للبیہقی: ج: ۸، ص:۹۶، وکتاب الحجۃ از امام محمدؒ، ج: ۴ ،ص: ۲۸۴) ’’ابراہیم نخعیv سے روایت ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی rدونوں کا یہ قول ہے کہ عورت کے قتل نفس اور زخموں کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ ‘‘ تفسیر نیشاپوری یعنی تفسیر غرائب القرآن میں دیت کی سورۂ نساء کی آیت: ۹۲ کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’إن دیۃ المرأۃ نصف دیۃ الرجل بإجماع المعتبرین من الصحابۃؓ۔‘‘ (تفسیر نیشاپوری) ’’بیشک عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اور اس پر معتبر صحابہؓ کا اجماع ہے۔ ‘‘ علامہ ابن رشدؒ نے عورت کی دیت‘ مرد کی دیت کے نصف ہونے پر ائمہ اربعہؒ کا اتفاق نقل کیا ہے: ’’أما دیۃ المرأۃ فإنھم اتفقوا علی النصف من دیۃ الرجل فی النفس فقط‘‘(بدایۃ المجتہد، ج: ۲، ص: ۳۱۵) ’’باقی رہا عورت کی دیت کا معاملہ تو اس بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ ‘‘ علامہ عبدالقادر عودہ شہید v ’’ التشریع الجنائی ،جلداول،صفحہ:۶۶۹‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ومن المتفق علیہ أن دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل فی القتل۔‘‘ ’’اس امر پر امت کا اتفاق ہے کہ قتل خطأ کی صورت میں عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہوگی۔ ‘‘ ائمہ احناف میں سے مفسرین، اصحاب الفتاویٰ اور اصحاب الفقہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ عورت کی دیت مردکی دیت کے مقابلے میں آدھی ہے۔ ہدایہ،عنایہ ،بنایہ ،کفایہ، کنزالدقائق اور قدوری کی عبارت اس طرح ہے : ’’ودیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل فی النفس وفیما دونہٗ ۔‘‘ (بحوالہ کنزالدقائق، ۴۸۶) ’’اور عورت کی دیت مرد کی دیت کے مقابلے میں آدھی ہے، خواہ جان میں ہو یا اس سے کم میں ہو ۔ ‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ دیت کے بارے میں امت کے فقہاء ومجتہدین ومحدثین ومفسرین ایک طرف ہیں کہ قتل خطأ میں مرد کی دیت ایک سو اونٹ ہیں اور عورت کی دیت اس کی آدھی ہے۔ یہ حضرات احادیث، فتاویٰ اور امت کے اجماع سے استدلال کرتے ہیں اور دوسری طرف غامدی صاحب ہیں جو کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ دیت کی کوئی معین مقدار نہیں ہے اور نہ عورت اور مرد کی دیت میں کوئی فرق ہے۔ اس طرح غامدی صاحب اجماعِ امت، احادیث مقدسہ اور تمام مفسرین سے مخالف راستہ اختیار کررہے ہیں، اسی لیے ہم اس کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جاوید احمد غامدی صاحب غلط بیانی کررہے ہیں اور پوری امت کے علماء پر بہتان باندھتے ہیں اور صریح وصحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ اجتہادی انداز سے جوکچھ بولتے ہیں سب غلط ہے۔ ان کا اجتہاد اس قابل ہے کہ ان کے منہ پر مارا جائے یاردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے یا صحرائی قبرستان میں دفن کیا جائے۔             (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین