بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جانوروں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کریمانہ برتائو

جانوروں کے ساتھ نبی کریم aکا کریمانہ برتائو

    حضور اکرم a کی شانِ رحیمی وکریمی نہ صرف یہ کہ انسانوں کے ساتھ مخصوص تھی، بلکہ آپa کی شانِ رحمت کی وسعت نے جانوروں کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کی اور ان کو اپنے رحم وکرم کے سایہ سے حصۂ وافر عطا کیا، جانوروں کے ساتھ نبی کریم a کے برتاؤ اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید ،ان کے ساتھ بہترین سلوک کی دعوت کی روشنی میں اپنے جانوروں کے ساتھ برتاؤ کا بھی جائزہ لیں کہ کیا ہمارا جانوروں کے ساتھ وہی برتاؤ ہے جس کی تاکید نبی کریم a نے کی ہے؟ یاہم جانوروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لے کر عذاب اور وعیدوں کے مستحق بن رہے ہیں؟ اللہ کابڑافضل ہے کہ اللہ عزوجل نے چھوٹے سے لے کر بڑے جانور تک کو ہمارے تابع اور زیردست کردیا ہے، ایک چھوٹا سابچہ ایک بڑے اونٹ کی مہار تھامے لیے جاتا ہے، یہ بس اللہ عزوجل کی کرم فرمائی اورانسانیت کے ساتھ اس کا فضل ہے کہ ایک بڑے جانور کو ایک چھوٹا بچہ بھی اپنے تابع کیے دیتا ہے، ورنہ یہ ضعیف اور ناتواں انسان کی کیا حیثیت کہ وہ اس قدر بڑے اور قوی ہیکل، تند ومند، اس سے کئی کئی گنا بھاری بھرکم جسم وجثہ کے مالک جانوروں کو رام کرسکے ؟ جانوروں میں خیر وخوبی     جانورں کی اہمیت اور ان خوبیوں اور خصوصیات کو بتلانے کے لیے یہ بتلادینا کافی ہے کہ قرآن کریم نے متعدد جانوروں اورحیوانات کاتذکرہ کیا ہے ، اتنا ہی نہیں، بلکہ کئی ایک سورتیں جانوروںکے نام سے موسوم ہیں، جیسے :سورۃ البقرۃ(گائے )، الا ٔنعام(چوپائے)، النحل (شہد کی مکھی)، النمل (چیونٹی)، العنکبوت (مکڑی)، الفیل (ہاتھی)۔     اور ایک جگہ اللہ عزوجل نے جانوروں کے فوائد وخصائص اور ان کے منافع کو یوں بیان کیا : ’’اور اس نے چوپائے پیدا کیے ، جن میں تمہارے لیے گرم لباس ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں،ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر لاؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی،اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم آدھی جان کیے نہیں پہنچ سکتے تھے، یقینا تمہارا رب بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔‘‘ (النحل : ۵-۸)     حضور اکرمa نے بعض جانوروں کے صفاتِ حمیدہ اور اُن کے معنوی اور اخلاقی خوبیوں کے حامل ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا حکم کیا ہے، گھوڑے کے تعلق سے فرمایا: ’’گھوڑے کے ساتھ روزقیامت تک خیروابستہ ہے۔‘‘ (مسلم ، باب الخیل فی نواصیہا : حدیث: ۴۹۵۵) اور ایک روایت میں فرمایا: ’’اونٹ اپنے مالک کے لیے عزت کا باعث ہوتاہے اور بکری میں خیر وبرکت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، باب اتخاذ الماشیہ ، حدیث:۲۳۰۵) اور ایک حدیث میں رسول اللہ a نے فرمایا: ’’مرغ کو گالی نہ دو چونکہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔‘‘                 (ابوداؤد، باب ما جاء فی الدیک ، حدیث:۵۱۹۱) جانوروں کے ساتھ احسان وسلوک اجر وثواب کاباعث     آپ a نے جانوروں کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور اس کو اجر وثواب کاباعث بتلایا:     حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ حضور اکرم aنے فرمایا کہ:’’ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوااور اس کی بخشش کر دی گئی۔‘‘         (مسلم، باب فضل ساقی البہائم، حدیث: ۵۹۹۷)     ایک شخص نے نبی کریم a سے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول ! میں اپنے حوض میں پانی بھرتاہوںاپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے ، کسی دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پیتا ہے تو کیا مجھے اس کا اجر ملے گا؟تو رسول اللہ aنے فرمایا:’’ہر تر جگر رکھنے والے میں اجر وثواب ہے۔‘‘                                                             (مسند احمد،مسند عبد اللّٰہ بن عمروؓ،حدیث: ۲۰۷۵) جانوروں کے ساتھ بدسلوکی پرآنحضرت aکی ذکر کردہ وعیدیں     نبی کریم a نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور بدسلوکی کوعذاب وعقاب اور سزا کی وجہ گردانا او رانتہائی درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا او رانسانی ضمیر جھنجوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے، چنانچہ حضرت امام بخاریv نے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا : ’’ ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی، نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو چھوڑ دیتی کہ چرچگ کر کھائے۔‘‘     (مسلم ، باب تحریم قتل الہرۃ، حدیث: ۵۹۸۹)     حضرت ابن عباس r سے روایت ہے کہ:’’ رسول اللہa کے پاس سے ایک گدھا گزرا، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ aنے اس کو دیکھ کر فرمایا: اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘ (مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)اور ایک روایت میں ہے:’’رسول اللہ aنے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴) اور ایک روایت میں ہے کہ ’’غیلان بن جنادہ q کہتے ہیں کہ میں نبی کریم a کے پاس اونٹ پر آیا جس کی ناک کو میں نے داغ دیا تھا، رسول اللہ aنے فرمایا : اے جنادہ ! کیاتمہیں داغنے کے لیے صرف چہرے کا عضو ہی ملا تھا، تم سے تو قصاص ہی لیا جائے۔‘‘       (مجمع الزوائد، باب ما جاء فی وسم الدواب،حدیث :۱۳۲۴۳) جانوروں کو لڑانے ، چھیڑ خوانی کرنے پرآنحضرت a کی ممانعت     آپ a نے نہ صرف یہ کہ گھریلو جانورں کے ساتھ بدسلوکی اوربے جا مارپیٹ کی ممانعت کی، بلکہ غیر پالتو جانوروں کو بھی بے جاپریشان کرنے اور ان سے چھیڑ خوانی کو منع فرمایا :     حضرت ابنِ عباسr سے روایت ہے:’’ رسول اللہ aنے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (ترمذی : باب کراہیۃ التحریش بین البہائم : حدیث: ۱۷۰۹)حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ q اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :’’ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم a کے ہمراہ سفر میں تھے، جب ایک موقع پر آنحضرت a قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا ، اس کے بعد چڑیاآئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج کرنے لگی، جب نبی کریم a تشریف لے آئے، آپ aنے حمرہ کو اس طرح بیتاب دیکھا تو فرمایا کہ کس نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اس کو مضطرب کر رکھا ہے؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو۔‘‘                 (ابوداؤد: باب فی کراہیۃ قتل الذر ، حدیث۵۲۶۸)     حضرت ابنِ عمر r سے روایت ہے کہ:’’ان کا گزر قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے ہوا جو کسی پرندہ یا مرغی کو نشانہ بنا رہے تھے ، حضرت ابنِ عمر r نے ان کو دیکھا تو وہ وہاں سے منتشر ہوگئے ،اور فرمایاکہ نبی کریم a نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار چیز کو باندھ کر اس پر نشانہ لگائے۔‘‘                                       (مسلم: باب النہی عن صبر البہائم ، حدیث: ۱۹۵۷)     حضرت مقداد بن معدیکرب q سے روایت ہے کہ:’’ رسول اللہ a نے چوپایوں کے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘                   (مجمع الزوائد: باب النہی عن الضرب علی الوجہ والنہی عن سبہ) مذبوح جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید     آپ a نے ذبح کیے جانے والے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید فرمائی: ’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کرلو اور جانور کو آرام دو‘‘ (ترمذی: باب النہی عن المثلۃ،حدیث:۱۴۰۹) امیر المؤمنین حضرت عمر q فرماتے ہیں کہ: ’’جانور کے ساــتھ احسان اور بھلائی یہ ہے کہ اس کو مذبح تک کھینچ کر نہ لے جایا جائے۔‘‘ (مجلۃ الجامعۃ الاسلامیۃ ، حقوق الحیوان، ج:۱۱، ص:۴۶۱)     فقہاء نے ذابح کو ذبیحہ کے سامنے چھری تیز کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کو بری طرح سے لٹانے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عباس r سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بکری کو لٹایااور اپنی چھری کو تیز کرنے لگا تو نبی کریم a نے فرمایا: کیا تم اس کو دو موت مارنا چاہتے ہو؟ کیوں تم نے اپنی چھری کو اس کے لٹانے سے پہلے تیز نہیں کر لیا؟           (مستدرک حاکم،کتاب الذبائح، حدیث:۷۵۷۰)     ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی q نے کہا : یا رسول اللہ ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے، حضور a نے فرمایا : ’’ اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو خدا تم پر رحم کرے گا۔                                              (مجمع الزوائد،باب النہی عن صبرالدواب والتمثیل بہا، حدیث:۶۰۲۹)     حضرت حین بن عطاء v سے مروی ہے کہ فرمایا کہ: ایک قصاب نے بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کے کوٹھے کا دروازہ کھولا تو وہ بھاگ پڑی، اس نے اس کا پیچھا کیا اور اس کو اس کے پیر سے کھینچ کر لانے لگا، تو رسول اللہ a نے فرمایا: ’’اے قصاب ! اس کو نرمی سے کھینچ لاؤ۔‘‘                                                        (مصنف عبد الرزاق، باب سنۃ الذبح، حدیث:۸۶۰۹) موذی جانوروں کو مارنے میں آنحضرت a نے اِحسان کاحکم کیا     آپ a نے موذی اور تکلیف دہ جانوروں کو مارنے کاحکم ضرور دیا ہے، مثلاً: سانپ ، بچھو، وغیرہ، لیکن ان کے مارنے میں بھی احسان اور بھلائی کاحکم آپ a نے کیا ہے: اللہ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کیا ہے، اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ۔‘‘                    (مسلم ، باب الأمر بإحسان الذبح ، حدیث: ۱۹۵۵)     آپ a نے پوچھا کہ یہ کس نے جلایا؟ ہم نے کہا: ہم نے جلایا ہے۔ آپ a نے فرمایا: کسی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔                                                    (ابوداؤد، باب فی کراہیۃ حرق العدو بالنار)     رسول اللہ a نے چھپکلی کو مارنے کا حکم فرمایا ہے، لیکن اس کے مارنے میں بھی نرمی اور احسان کا حکم کیا ہے، اس کو ایک ہی وار میں مارے ،اس کو   متعدد مار میں مارنے پر کم اجر حاصل ہونے کی بات ارشاد فرمائی ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مار ڈالا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں۔        (مسلم: باب استحباب قتل الوزع،حدیث:۲۲۳۹۰)     اور جس نے اُسے دوسری ضرب سے مارا، اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں، مگر پہلی دفعہ مارنے والے سے کم اور اگر اس نے تیسری ضرب سے مارا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں، لیکن دوسری ضرب سے مارنے والے سے کم۔     مسلم کی روایت میں ہے: حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیںکہ: رسول کریم a نے فرمایا: جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔         (مسلم ، باب استحباب قتل الوزع، حدیث: ۲۲۴۰) جانوروں کی سواری کرنے میں بھی حسن سلوک کا خیال رہے     جانور سواری کے لیے ضرور ہیں، یہ حمل ونقل کا ذریعہ بھی ہیں، اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا:  ’’لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً‘‘ طویل سفر میں اس کے لیے آرام لینے اور چرنے چگنے کا موقع فراہم کرنے کو کہا ہے: حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا:’’ جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حصہ دو۔‘‘ (مسلم: باب مراعاۃ مصلحۃ الدروس، حدیث:۱۹۲۶) یعنی اثنائے راہ اگر ہریالی نظر آئے تو ان کو کچھ چرنے اور آرام لینے کا موقع دو ،بھوکا ، پیاسا مسلسل چلاکر ان کو نہ تھکاؤ۔     ایک جانور پر تین آدمیوں کو سوار ہونے سے آپ a نے منع فرمایا ہے۔                                                           (مسلم: باب فضائل عبداللہ بن جعفرؓ، حدیث:۲۴۲۸)     ابنِ ابی شیبہؒ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے تین لوگوں کو خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا: ’’تم میں سے ایک شخص اتر جائے،کیونکہ رسول اللہ aنے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘                                              (مصنف ابن ابی شبیہ، من کرہ رکوب ثلٰثۃ علی الدابۃ، حدیث:۲۶۳۸۰)     یہ اُس صورت میں ہے، جب کہ وہ جانور تین آدمیوں کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اگر استطاعت رکھتا ہوتو جائز ہے۔                               (فتح الباری،ج:۱۲،ص:۵۲۰)     رسول اللہ a نے جانور پر اس طرح کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے کہ جس سے اس کو تکلیف ہو۔سنن ابی داؤد میں ہے : حضرت ابوہریرہ q نبی کریم aسے نقل کرتے ہیں کہ:’’ آپa  نے فرمایا :جانوروں کی پشت کو منبر نہ بناؤ۔‘‘      (ابوداؤد ، باب فی الوقوف علی الدابۃ، حدیث : ۲۵۶۷)     کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لیے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ)جانی مشقت ومحنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے، یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے، لہٰذا ان کو ایذا پہنچانا رَوا نہیں ہے۔جس جانور کی خلقت سواری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے وغیرہ تو ان کی سواری کرنا جائز نہیں۔ جانوروں پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادیں     جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیاد ہ بوجھ لادنا جائز نہیں، اس کو نبی کریم a نے سختی سے منع فرمایا ہے، صحابہ s کو اس بات کا علم تھا کہ جو شخص جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیادہ بوجھ لادے گا تو اس کو روز ِ قیامت حساب کتاب دینا ہوگا ، حضرت ابودرداء q سے روایت ہے کہ: ’’انہوں نے اپنے اونٹ سے کہا :اے اونٹ تم اپنے رب کے یہاں میرے سلسلہ میں مخاصمہ نہ کرنا، میں نے تم پر تمہاری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں لادا۔‘‘              (احیاء علوم الدین، الباب الثالث فی الآداب،ج:۱،ص:۲۶۴)     ’’ایک دن نبی aکسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپa کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی کریم a نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پرسکون ہوگیا، پھر نبی کریمa نے فرمایا کہ: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا، آپ a نے اس سے فرمایا:’’اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو۔‘‘         (ابوداؤد، باب ما یؤمر بہ من القیام، حدیث:۲۵۴۹)     حضرت سہل ابن حنظلہ q کہتے ہیں کہ:’’ رسول کریم a ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی، آپ a نے فرمایا کہ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور ان کو اس اچھی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ تھکے نہ ہوں۔‘‘                   (ابوداؤد، باب ما یؤمر بہٖ من القیام، حدیث:۲۵۴۸)     حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ a نے فرمایا: ایک آدمی بیل پر بوجھ ڈالے ہوئے اُسے ہانک رہا تھا کہ اس بیل نے اس آدمی کی طرف دیکھ کر کہا کہ میں اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں، بلکہ مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ لوگوں نے حیرانگی اور گھبراہٹ میں سبحان اللہ کہا اور کہا: کیا بیل بھی بولتا ہے؟ تو رسول اللہ a نے فرمایا: میں تو اس بات پر یقین کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر q اور حضرت عمر q بھی یقین کرتے ہیں۔‘‘       (مسلم، باب فضائل أبی بکرؓ،حدیث:۲۳۸۸)     اس حدیث سے بھی پتہ چلاکہ جانورپر اس کی طاقت سے زیادہ اور مقصدِخلقت کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے اس کا استعمال نہ کیاجائے ۔ خلاصۂ کلام     خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان آیات واحادیث کی روشنی میں جانوروں کے اہمیت وخصوصیت اور ان کے منافع کا پتہ چلتا ہے اور جانوروں کے تعلق سے آپ a  کے اسوہ او رنمونہ کابھی پتہ چلتا ہے کہ آپa نے قدم بقدم جانوروں کے ساتھ رحم وکرم کاحکم دیا ہے، نہ صرف گھریلو اور پالتو جانوروں،بلکہ غیر پالتو جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی ہے، نقصان دہ اورضرر رساں جانوروں کو بھی کم مار میں مارنے کا حکم دیا ہے اور مذبوحہ جانوروں کے ساتھ بھی بے رحمانہ سلوک سے منع کیا ہے اور جانوروں پر بوجھ کے لادنے اور سواری میں بھی ان کے چارہ پانی کی تاکید کی ہے اور زیادہ بوجھ لادنے اور زیادہ افراد کے سوار ہونے سے منع کیا ہے۔      (بشکریہ ماہنامہ دارالعلوم، دیوبند)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین