بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جامعہ کے استاذ حضرت مولانامفتی محمد نیاز رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

جامعہ کے استاذ حضرت مولانامفتی محمد نیازv کی رحلت

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ وناظم دارالاقامہ حضرت مولانا مفتی محمد نیاز صاحب v یکم محرم الحرام ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ء بروزجمعہ حرکتِ قلب بند ہونے سے راہیِ سفرِ آخرت ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ مفتی محمد نیاز صاحبv ۵؍ فروری ۱۹۷۲ء کو ضلع اَٹک تحصیل حضرو علاقہ چھچھ کے گاؤں شینکہ میں نیک دل ونیک صفت انسان جناب محمد یونس صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔  ۱۲؍ سال کی عمر میں قریبی گاؤں ملک مالا میں قاری اسماعیل صاحب کے پاس حفظ مکمل کرلیا۔ اس کے بعد ساتویں جماعت تک اسکول کی تعلیم وہیں گاؤں میں حاصل کی۔ دینی تعلیم کے لیے مفتی صاحب خود اور اُن کے گھر والے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ کے خواہشمند تھے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم ثانی امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن قدس سرہٗ اپنے گاؤں بہبودی ضلع اٹک تشریف لائے ہوئے تھے، موقع جان کر مفتی صاحب کے بھائی حاجی محمد ابراہیم صاحب نے ان سے داخلہ کی سفارش کی درخواست کی، حضرت مفتی صاحب v نے اپنے لیٹر پیڈ پر خود ان کی درخواست اور سفارش لکھی اور سفارشی درخواست پر ایک جملہ بھی لکھا تھا کہ: ’’درخت لگانا ہمارا کام، اس کو پھل دار بنانا اللہ کا کام ہے۔‘‘  ۱۹۸۸ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن داخلہ کی غرض سے آئے ۔ حضرت مفتی احمد الرحمن v کے مشورے سے جامعہ کی شاخ جامعہ عربیہ اسلامیہ ملیر میں درجہ اولیٰ میں داخلہ دیاگیا۔ درجہ اولیٰ سے درجہ رابعہ تک ملیر شاخ میں پڑھتے رہے، پھر درجہ خامسہ میں مرکز آگئے۔ درجہ سابعہ کے بعد تکمیل وغیرہ کے لیے سوات چلے گئے، ایک سال تک مختلف علوم وفنون میں تکمیل کی، پھر دورہ حدیث کے لیے اگلے سال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں واپس آگئے۔ ۱۴۱۶ھ مطابق ۱۹۹۷ء آپ کا فراغت کا سال ہے۔ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد دو سالہ تخصص فی الفقہ کیا۔ تخصص سے فراغت کے بعد تخریجِ فتاویٰ کے شعبہ میں تقرر عمل میں آیا۔ بعد میں تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی عبدالسمیع شہید v کی شہادت کے بعد سے تادم آخریں افریقی (غیرملکی) دارالاقامہ کے ناظم بھی رہے۔ دو سال قبل جامعہ کے دارالافتاء میں بطور معین مفتی بھی تقرر ہوا اور باقاعدہ دارالافتاء میں نشست دی گئی ۔  مفتی صاحب انتہائی سنجیدہ، باوقار، نیک سیرت، تہجد گزار شب زندہ دار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ دوستوں میں گھل مل جانے والے انسان تھے۔ طلبہ کی نگرانی اور ان کی تعلیم کے لیے ہمہ وقت فکر مند اور ان پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ غیرملکی طلبہ اپنی امانتیں حضرت مفتی صاحب کے پاس ہی رکھواتے تھے، جن کی نگہداشت وحفاظت مفتی صاحب اہتمام سے فرماتے تھے۔  حضرت مفتی صاحب مرحوم کے چار بھائی ہیں، چاروں ماشاء اللہ! بقیدِ حیات ہیں، مفتی صاحب ان سب سے چھوٹے اور پانچویں نمبر پر تھے۔ والدہ حیات ہیں، والد صاحب کا انتقال ۱۹۹۶ء میں ہوگیا تھا۔ پسماندگان میں ایک اہلیہ، چار صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ ہے۔  یکم محرم ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ‘ جمعہ کی نماز سے قبل دل کا دورہ پڑا، علاج معالجہ کی غرض جناح اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی آپ کی وفات ہوگئی۔ وفات کی اطلاع ملتے ہی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام جناح ہسپتال پہنچے، اور مفتی صاحب کے جسدِ خاکی کو جامعہ لے آئے۔ عصر کی نماز سے قبل جامعہ میں ہی غسل اور تکفین کا عمل مکمل ہوا۔ عصر کی نماز سے قبل ان کی میت دیدارِ عام کے لیے درجہ سابعہ کی کلاس میں رکھی گئی۔ شہربھر سے ان کے شاگردوں، ساتھیوں، علمائے کرام اور محبین نے زیارت کی۔ عصر کی نماز کے بعد پہلی نمازِ جنازہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہٗ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ جنازہ میں کثیر تعداد میں طلبہ کرام، اساتذہ کرام اور شہر بھر کے علماء اور عوام الناس شریک ہوئے۔ بعد ازاں ان کی میت بذریعہ جہاز اسلام آباد اور پھر رات ایک بجے اسلام آباد پہنچنے کے بعد بذریعہ ایمبولینس آبائی علاقہ حضروضلع اَٹک روانہ کی گئی۔ میت کے ہمراہ اہل خانہ کے علاوہ حضرت مولانا طلحہ رحمانی صاحب، حضرت مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب اور حضرت مولانا سعید خان اسکندر صاحب بھی ان کے آبائی گاؤں تک ساتھ گئے ۔ آبائی گاؤں پہنچنے کے بعد دوسری نمازِ جنازہ ظہر کی نماز کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ اپنے علاقہ کے اعتبار سے یہ بہت بڑا جنازہ تھا۔صوبہ کے پی کے، ہزارہ ڈویژن اور پنجاب سے کثیر تعداد میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فضلائ، علماء اور دینی وسیاسی جماعتوں کے ذمہ داران شریک ہوئے۔ جنازہ میں طلبہ کی شرکت کے لیے قریب کے مدارس میں چھٹی کردی گئی، چنانچہ علاقہ کے مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد بھی جنازہ میں شریک ہوئی۔ جنازہ سے پہلے اور جنازہ کے بعد مولانا عبدالغفار صاحب مہتمم وشیخ الحدیث جامعہ فریدیہ اسلام آباد اور مفتی رفیق احمد بالاکوٹی استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بیانات بھی ہوئے۔  اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا مفتی محمد نیاز صاحبv کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، انہیں جنت الفردوس کا مکین بنائے، اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ ماہنامہ ’’بینات‘‘ باتوفیق قارئین سے حضرت مفتی صاحبv کے لیے ایصالِ ثواب کی استدعا کرتا ہے۔  ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین