بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جامعہ علوم اسلامیہ کی مساعی میں ایک خوبصورت اضافہ دوسالہ دراساتِ دینیہ کورس

جامعہ علوم اسلامیہ کی مساعی میں ایک خوبصورت اضافہ دوسالہ دراساتِ دینیہ کورس

    بحمدہٖ تعالیٰ شوال ۱۴۳۶ھ کے تعلیمی سال کے آغاز میں جامعہ میں وفاق المدارس العربیہ کے مقررکردہ دوسالہ دراساتِ دینیہ کورس کا آغاز کیاگیا ہے۔ درج ذیل مضمون اس کورس کی افادیت پر روشنی ڈالنے کے لیے پیش خدمت ہے۔

بعد الحمد والصلاۃ!     نبوی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے امت میں مختلف کمزوریاںپیدا ہوئیں، من جملہ ان کے یہ سوچ بھی کہ آخرت کے مسائل اور وہاں کی پریشانیوں سے نجات کے لیے تو دین ضروری ہے، رہی ہماری دنیا اور اس کے آئے دن کے مسائل، اس کا حل تو دنیاوی اسباب کی کثرت ودستیابی میں ہی مضمر ہے، جبکہ قرآن وحدیث کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسے حصولِ جنت کے لیے دین دار ہونا ضروری ہے، اسی طرح دنیا میں سکون، راحت، برکت، عافیت، آپس کی محبت، ناگہانی آفات سے بچاؤ کے لیے بھی دین کے سوا کوئی سہارا نہیں۔     حضرت سیدنا عمر qکے دور میں تاریخی فتوحات کے دنوں میں جبکہ مسجد نبوی میں مال غنیمت کے انبار لگے ہوئے تھے، ان کا یہ ارشاد سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے: ’’إنا کنا أذل الناس فأعزنا اللّٰہ بالإسلام فلو نطلب العز بغیر ما أعزنا اللّٰہ أذلنا اللّٰہ۔‘‘ ترجمہ:…’’ہم تمام لوگوں میں ذلیل ترین تھے، اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت بخشی، اب اگر ہم عزت کو کسی اور چیز میں تلاش کرنے لگیں گے تو اللہ دوبارہ ذلیل کر دے گا۔‘‘   (حیاۃ الصحابہؓ)     مسلمانوں کی عمومی زبوں حالی پستی کا ذکر تو ہر مجلس میں مل جاتا ہے، لیکن اس کا حقیقی سبب کیا ہے؟ ایک روایت مشکوٰۃ شریف سے پیش خدمت ہے:     ’’حضرت ابودردائq سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں اور بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ میرے بندے جب میری اطاعت وفرمابرداری کرتے ہیں تو ان کے بادشاہوں کے دل میں رعایا کے لیے محبت وشفقت بھر دیتا ہوں (لیکن) جب وہ میرے نافرمان ہوجائیں تو انہی حکام کو ان کے لیے جان کا عذاب بنادیتا ہوں اور پھر وہ ان کو بہت برا عذاب چکھاتے ہیں۔ (ایسے حالات میں) تم اپنا وقت حکمرانوں پر بددعا دینے میں (اور احتجاج کرنے میں) صرف نہ کرو، بلکہ تم دعا اور اِنابت میں اپنے کو مشغول کرو، تاکہ میں (اللہ) تمہارے طرف سے کفایت کروں۔‘‘     اس لیے مسلمان کی موجودہ پستی کا علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ مسلمان دین کی طرف واپس آجائے: ’’لعلہم یرجعون، لعلہم یضرعون، لعلہم یتضرعون‘‘ کی منشأ یہی ہے۔ مسلمان دین کی طرف واپس کیسے آئے؟     اس کے لیے کم از کم دوباتوں کی ضرورت ہے:     ۱-دین کا صحیح علم جو قرآن وحدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچا۔     ۲-دین پر چلنے کی امنگ وجذبہ، جس کو قرآن ایمان سے تعبیر کرتا ہے۔     سائیکل کے دو پہیوں کی طرح ان دو باتوں کے بغیر کوئی معاشرہ اسلام پر قائم نہیں ہوسکتا۔ دوسرے نکتہ کی خاطر امت میں ہر زمانے کے علماء وصلحائ، تذکیر وتزکیہ کی کوشش کرتے رہے اوراب بھی کررہے ہیں، ہمارے زمانے میں اس کی ایک عام مثل تبلیغ ودعوت کی محنت کی صورت میں موجود ہے، کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں اللہ ورسولa سے نا آشنا لوگ ان مساعی کے طفیل دوسروں کی دینی رہنمائی کا ذریعہ بن گئے۔ جہاں تک تعلق صحیح علم کا ہے، اس کے لیے تکوینی طور پر اللہ نے برصغیر میں مدارسِ دینیہ کا جال بچھادیا جس کی نظیر پیش کرنے سے عالم اسلام عاجز ہے۔ مدارسِ دینیہ میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟     ان مدارس کے نصاب تعلیم کی اساس ’’درس نظامی‘‘ ہے جو آٹھ سالوں پر محیط ہوتا ہے اور نحو، صرف، معانی وبلاغت، ادب وانشائ، منطق، فقہ اصول فقہ، تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث اور اصول حدیث، وغیرہ علوم کی تقریبا ۵۰ سے زائد کتب اس نصاب کا حصہ ہیں، اس آٹھ سالہ نصاب سے پہلے طالب علم کو ایک ابتدائی مرحلہ بھی عبور کرنا ہوتا ہے جو یا تو مروجہ عصری نظام تعلیم کے تحت میٹرک کی شکل میں ہو یا مدارس کے ہی شعبہ اعدادیات کے ذریعہ ہو۔     ہر نصاب تعلیم کی طرح درسِ نظامی سے بھی مقصود یہ نہیں کہ اس میں پڑھائی جانے والی کتابیں، متعلقہ علوم کی تمام معلومات سے ایسے روشناس کرادیتی ہیں کہ پھر ان علوم میں مزید کسی مطالعے کی ضرورت نہ رہے، بلکہ مقصود متعلقہ علوم میں مستحکم وٹھوس ملکہ وصلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ گویا دینی مدارس کا مقصد قرآن وحدیث کی تعلیمات کے حامل ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو مسلم معاشرے کو اسلام کے ساتھ جوڑسکیں اور ان کو بے دینی کی زہریلی ہواؤں سے بچاسکیں، گویا مدارس کے علمائ، رسول اللہa کے اس ارشاد کا مصداق ہیں: ’’یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہٗ، ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاہلین۔‘‘ بحمدہٖ تعالیٰ دینی مدارس اپنے اس مقصد میں بڑی حدتک کامیاب رہے ہیں اور یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں اسلام کی جوروشنی نظر آتی ہے وہ انہی مدارس کا فیضان ہے۔ دین کا علم برائے بالغان     مذکورہ بالا تفصیل سے موجودہ اور مروجہ ۸؍ سالہ نصاب کی اہمیت تو واضح ہوگئی، لیکن محنت وتوجہ کا ایک گوشہ ایسا تھا جس کی طرف ہمارے اکابرعرصہ سے سوچتے رہے (اور اب اس کی عملی صورتیں بھی ظاہر ہونے لگی ہیں)     اس گوشہ سے مراد وہ مسلمان ہیں جو باقاعدہ عالم ومفتی بننے کے لیے فارغ نہ ہوسکتے ہوں، لیکن اپنی دینی ضرورت کا علم حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہوں، ان کے لیے کوئی ایسا منہج مرتب کرنا کہ مختلف شعبہائے زندگی سے وابستہ طبقہ اپنے پیشے میں رہتے ہوئے ضرورت کا علم حاصل کرسکے، چنانچہ امت کے نباض محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوریv آج سے ۴۰؍ سال پہلے تحریر فرماتے ہیں: ’’اس ضمن میں میری ایک خواہش یہ ہے کہ ہمارے مرکزی مدارس میں جہاں علمی نصاب وعملی تحقیقات کے لیے کوشش ہو، اس کے ساتھ ایک ایسا مختصر نصاب ان حضرات کے لیے مقرر کیا جائے جو انگریزی تعلیم سے بقدرِ ضرورت فراغت پاچکے ہیں، وہ مدرس وعالم بننا نہیں چاہتے، بلکہ صرف اپنی دینی ضرورت کے پیش نظر قرآن وحدیث اور اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہوں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک سہ سالہ نصاب مقرر کیا جائے۔۔۔۔۔‘‘  (دینی مدارس کی ضرورت اور جدید تقاضوں کے مطابق نصاب ونظام تعلیم، جمع وترتیب: حضرت مولانا محمد انور بدخشانی) اس لیے امت کے بہی خواہوں کی کوشش رہی کہ مسلمانوں کے تمام طبقات میں دین زندہ ہونا ضروری ہے، ورنہ خود کے لیے بھی دین پر چلنا مشکل ہوگا، امت مسلمہ کو جسم انسانی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جیسے انسانی جسم باہم مربوط ہے، ایسے امت مسلمہ اور اس کے طبقات باہم جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے از حد ضروری ہے کہ مسلمانوں کے تمام شعبہائے زندگی میں احیاء دین کی فکر کی جائے، خواہ وہ تجارت ہو یا ملازمت، صنعت وطب وعلاج، نظام عدل ہو یا پولیس، عصری تعلیم گاہیں ہوں یا زراعت یا زندگی کا کوئی اور شعبہ۔ حضرت عمر q کے دورِ خلافت کا یہ اعلان مشہور ہے کہ ’’لایبیع فی سوقنا إلا من تفقہ فی الدین‘‘ (ہمارے بازار میں صرف وہی کاروبار کرے جو تجارت کے دین سے واقف ہو) نیز امام شافعیv نے الرسالہ میں اور امام غزالیv نے احیاء العلوم میں اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ کسی مکلف کے لیے احکام کو سیکھے بغیر معاملہ کرنا جائز نہیں ۔ صحابہ sکے زمانے میں طلب علم کی عمومی شکل چنانچہ ہمارے زمانے کے برخلاف‘ صحابہs کے زمانے میں عمر وپیشہ دین سیکھنے میں حارج اور مانع نہیں ہوا کرتا تھا۔ نمونہ کے طور پر چند روایات ملاحظہ کریں: ۱:۔۔۔۔’’حضرت انسq سے روایت ہے، رسول اللہa کے زمانہ میں دو بھائی تھے، ایک ان میں سے کچھ کمائی کرتا تھا اور دوسرا بھائی رسول اللہa کی مجلس میں آکر دین سیکھتا تھا، پہلے بھائی نے اللہ کے نبیa سے دوسرے بھائی کے بارے میں کمائی میں نہ لگنے کی شکایت کی تو ارشاد فرمایا: تمہیں کیا خبر، شاید تجھے روزی اسی کی برکت سے ملتی ہو!۔‘‘        (مشکوٰۃ) ۲:۔۔۔۔ ’’حضرت انس q کا بیان ہے کہ انصار میں ستر آدمی ایسے تھے جو رات ہوتے ہی مدینہ میں اپنے ایک معلم کے پاس چلے جاتے اور رات بھر قرآن سیکھتے اور صبح کو لکڑیاں کاٹنے اور میٹھا پانی بھرلانے کی مزدوری میں لگ جاتے۔ ‘‘        (حیاۃ الصحابہؓ) ۳:۔۔۔۔ ’’حضرت قبیصہ بن مخارق q کا طویل قصہ مسند احمد کے حوالے سے حیاۃ الصحابہؓ میں درج ہے، جس میں یہ ہے کہ جب رسول اللہ a نے آمد کی غرض پوچھی تو عرض کیا: میری عمر زیادہ ہوگئی ہے، ہڈیاں گل گئی ہیں (لیکن) آیا صرف اس لیے ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات سکھادیں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ دے۔‘‘ دراساتِ دینیہ کورس زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ اور عمر رسیدہ ایسے احباب کی دینی طلب کی قدردانی کرتے ہوئے اور اپنا فرض منصبی نبھاتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ کے اکابر نے گزشتہ سالوں میں دراساتِ دینیہ کا ۳؍ سالہ کورس مرتب کیا جس کو بعد میں مزید سہولت کے پیش نظر دو سالہ کردیا گیا،جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: کورس کا سرسری خاکہ ۱:۔۔۔۔ تفسیر        مکمل قرآن ۲:۔۔۔۔حدیث        معارف الحدیث (مکمل) ۳:۔۔۔۔فقہ        بہشتی زیور ۴:۔۔۔۔صرف ونحو        علم الصرف وعلم النحو (مکمل) ۵:۔۔۔۔ادب عربی        الطریقۃ العصریۃ وقصص النبیین ؑ بلاشبہ اس نصاب میں تبدیلی وبہتری کی گنجائش محسوس ہوسکتی ہے (جو کہ ہر نصاب کا خاصہ ہے) لیکن پھر بھی یہ نصاب خیر کثیر سے خالی نہیں، اس کے شاہد وہ تمام حضرات ہیں جو اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے وابستہ ہیں۔ بفضلہ تعالیٰ اس سال جامعہ کی مجلس تعلیمی نے بھی جامعہ میں اس کورس کے اجراء کا قابل تقلید فیصلہ فرمایا اور داخلہ کا اعلان کیا گیا، خوشگوار بات دیکھنے کو ملی کہ مختلف عمر ومختلف پیشوں اور ڈگریوں کے حامل تقریباً ۸۰؍ احباب نے کورس میں دلچسپی لی، پھر ان کی سہولت کے لیے ان معمرطلبہ کو دو الگ مرحلوں (شفٹوں) میں تقسیم کیا گیا۔ بالعموم تجارت پیشہ احباب کے لیے صبح ۳۰:۷ تا ۳۰:۹ اور ملازمین کی سہولت کی خاطر ان کے لیے مغرب تا رات ساڑھے نو بجے کا وقت تجویز ہوا۔ جمعہ اور اتوار کو تعطیل رکھی گئی ہے۔ بحمدہٖ تعالیٰ ان احباب -جن کو اب ’’طلبہ‘‘ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا- کی رغبت، شوق اور اہتمام دیدنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو استقامت عطا فرمائے۔ آخری گزاش اس ساری کارگزاری کا مقصد علماء کرام، اربابِ مدارس اور ائمہ مساجد کی اس طرف توجہ دلانا ہے کہ رسول اللہ a کے ارشاد ’’الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ‘‘ کے پیش نظر مسلمانوں کا یہ طبقہ بہت ذی استعداد بھی ہے اور محبت وشفقت کا متلاشی بھی : ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی کیا ہی اچھا ہو اگر ہر مدرسہ ومسجد کی طرف سے اپنے اپنے دائرے میں اس طبقہ کو اپنی دینی تعلیمی خدمات مہیا کی جائیں۔ نصاب تو ہر کوئی اپنا بنا بھی سکتا ہے، مگر وفاق کے اجتماعی دھارے میں رہنا بجائے خود ایک خوش آئند اور باعث سہولت امر ہوگا۔ نیز یہ کورس نوجوان فضلاء کو محنت کا ایک وسیع میدان فراہم کرتا ہے، جس کے لیے ہمیں اللہ نے مسجد کا ایسا خوبصورت نظام دیا کہ ہر مسجد اس کام کے لیے مرکز بنائی جاسکتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب امت کے تمام افراد اپنے تمام شعبوں میں علماء واہل فتویٰ کی رہنمائی میں اپنی زندگی کا سفر طے کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ نصیب فرمائے، اس کی تعلیم وتبلیغ اور ترویج واشاعت کے لیے ہمیں توفیق بخشے، آمین۔ وصلی اللّٰہ علٰی سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین