بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تین طلاق دینے کے بعد مسلک تبدیل کرنے کا حکم!

تین طلاق دینے کے بعد مسلک تبدیل کرنے کا حکم! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: زید اور کامران کے درمیان بات چل رہی تھی، کامران نے کہا کہ: کسی بھی ایک امام کی تقلید ضروری نہیں، ہر مسئلے میں الگ الگ ائمہ سے مسائل لیے جاسکتے ہیں۔ زید نے جواب میں کہا کہ: اس طرح تو دین اپنی اپنی مرضی کے مطابق بن جائے گا، جہاں سے دل چاہا اپنی مرضی کا مسئلہ لے لیا اور مثال دی جو ذیل میں سے کوئی ایک تھی، الفاظ صحیح طور پر یاد نہیں ہیں: ١:۔۔۔۔۔۔کوئی ساری زندگی حنفی رہے، لیکن بیوی کو تین طلاق دے دی تو اپنے مطلب کے لیے اہل حدیث ہوجائے؟یا اہل حدیث عالم کے پاس چلاجائے؟ یہ منافقت ہے۔ ٢:۔۔۔۔۔۔میں ساری زندگی تو حنفی رہوں، لیکن جب بیوی کو تین طلاق دے دوں تو اپنے فائدے کے لیے اہل حدیث ہوجاؤں؟ یا اہل حدیث عالم کے پاس چلا جاؤں؟ یہ منافقت ہے۔ ٣:۔۔۔۔۔۔میں ویسے تو حنفی ہوں، لیکن بیوی کو تین طلاق دے دوںتو اپنے فائدے کے لیے اہل حدیث ہوجاؤں ؟یا اہل حدیث عالم کے پاس چلا جاؤں؟ یہ منافقت ہے۔ ان جملوں میں سے کوئی ایک جملہ زید نے مثال دینے کے لیے ادا کیا، لیکن وہ کون سا جملہ تھا اسے یاد نہیں۔ یہ جملے مثال کے طور پر ادا کیے۔ ان جملوں میں جو اہل حدیث ہونے کا ذکر ہے، وہ بھی مثال ہے۔ نہ ہی زید اہل حدیث ہوا ،نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہے۔کیا ان جملوں کی ادائیگی کے بعد بیوی نکاح میں رہے گی؟ والسلام:عثمان احمد الجواب حامدًا ومصلیًا واضح رہے کہ دین اتباع وپیروی کا نام ہے، اس میں خواہش پرستی وبے جا سہولت پسندی کی اجازت نہیں کہ انسان احکامات شرع پر عمل کرنے میں اپنی خواہشات کے مطابق سہولتوں کو تلاش کرے، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کا اجماع ہے کہ احکامات شرع کو بجالانے میں ائمہ اربعہؒ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرنا لازم ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کی تقلید جائز نہیں اور ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرلینے کے بعد ضروری ہے کہ تمام مسائل میں اسی امام کی پیروی کی جائے۔الدر المختار (مقدمۃ،ج: ١،ص:٧٥،ط:سعید)میں ہے: ''وإن الحکم الملفق باطل بالإجماع وإن الرجوع عن التقلید بعد العمل باطل اتفاقا۔'' عقد الجید میں ہے: ''ولما اندرست المذاہب الحقۃ إلا ہذہ الأربعۃ کان اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنہا خروجا عن السواد الأعظم۔'' (عقد الجید،ص:٣٨) ''خلاصۃ التحقیق فی بیان حکم التقلید والتلفیق'' میں ہے: ''أما تقلید مذہب من مذاہبہم (ای من مذاہب المتقدمین من الصحابۃؓ والتابعینؒ) الآن غیر المذاہب الأربعۃ فلایجوز، لالنقصان فی مذاہبہم ورجحان المذاہب الأربعۃ علیہم، لأن فیہم الخلفاء المفضلین علی جمیع الأمۃ بل لعدم تدوین مذاہبہم وعدم معرفتنا الآن بشروطہا وقیودہا وعدم وصول ذلک إلینا بطریق التواتر حتی لو وصل إلینا شئ من ذلک کذلک جاز لنا تقلیدہ، لکنہ، لم یصل کذلک۔'' (خلاصۃ التحقیق،ص:٣) لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں حنفی المسلک ہونے کے باوجود طلاق سے بچنے کے لیے مروجہ اہل حدیث مذہب اختیار کرنا شرعاً غلط ہے اور موت سے قبل ایمان سلب ہونے کا خطرہ ہے اور ایسا عمل موجبِ تعزیر ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ''(قولہ: ارتحل إلی مذہب الشافعیؒ یعزر) ای إذا کان ارتحالہ لالغرض محمود شرعاً لما فی التاتارخانیۃ: حکی أن رجلا من أصحاب أبی حنیفۃؒ خطب إلی رجل من أصحاب الحدیث ابنتہ فی عہد أبی بکر الجوزجانی فأبی إلا أن یترک مذہبہ فیقرأ خلف الإمام ویرفع یدیہ عند الانحطاط ونحو ذلک فأجابہ فزوجہ، فقال الشیخ بعد ما سئل عن ہذہ وأطرق رأسہ: النکاح جائز ولکن أخاف علیہ أن یذہب إیمانہ وقت النزع لأنہ استخف بمذہبہ الذی ہو حق عندہ وترکہ لأجل جیفۃ منتنۃ۔۔۔۔۔۔ أما انتقال غیرہ من غیر دلیل بل لما یرغب من غرض الدنیا وشہوتہا فہو مذموم الآثم المستوجب للتأدیب والتعزیر، لارتکابہ المنکر فی الدین واستخفافہ بدینہ ومذہبہ الخ ملخصا۔'' (فتاویٰ شامی، باب التعزیر، مطلب فیما إذا ارتحل إلی غیر مذہبہ،ج: ٢،ص:٨٠،ط: سعید) پس جب کوئی شخص حنفی المسلک ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کے تمام امور حنفی المسلک کے مطابق انجام دے، البتہ مذکورہ گفتگو کے دوران زید نے جو الفاظ مثال کے طور پر کہے تھے ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور زید کا نکاح بدستور برقرار ہے۔ فقط واللہ اعلم الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ، ابوبکر سعید الرحمن محمد انعام الحق محمد عبد القادر سید مزمل حسن متخصصِ فقہِ اسلامی،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین