بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

’’تنگ آمد‘‘

’’تنگ آمد‘‘

    شہر کے وسط میں مزارِ قائد کے قریب سرخی مائل رنگ سے رنگی عمارت کو چاروں جانب سے سنتری بادشاہوں نے گھیر رکھا تھا، سامنے سے گزرنے والی شاہراہ پر کسی گاڑی کو جانے کی اجازت نہیں تھی، کسی بے چارے کا ٹرک پکڑ کر روڈ پر تِرچھا کھڑا کردیا گیا تھا، ایسا ہی ٹرک عمارت کے بائیں جانب سڑک پر بھی دکھائی دے رہا تھا، پولیس کے ساتھ ساتھ سادہ لباس والے ’’فرشتے‘‘ بھی دکھائی دے رہے تھے، جو موبائل فون کے ذریعے اس عمارت میں آنے والے ہر ہر شخص کی اوپر رپورٹ کر رہے تھے۔ پولیس اور فرشتوں کی پھرتیاں دیکھ کر سیلانی کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہو گئی، اگر یہ ’’مخلوق‘‘ فرض شناسی سے اپنا کام کررہی ہوتی تو آج یہ سرخ رنگ میں رنگی عمارت انبیاء کے وارثوں کے لہو سے رنگی ہوتی؟ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ سے لے کر خان پور کے مفتی عبد المجید دین پوریؒ شہید تک، جامعہ بنوری ٹاؤن کے تقریباََ پندرہ اساتذہ ناحق شہید کردیئے گئے۔مولانا ڈاکٹر نظام الدین شامزئی شہیدؒ کا قصور تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس دور میں سر عام جہاد کی بات اور مجاہدین کی پشتیبانی کرتے تھے، جب دین کو حسبِ ضرورت استعمال کرنے والی نادیدہ قوتوں کو اپنی ہانڈی میں جہاد کے نمک کی ضرورت نہیں رہی تھی، لیکن مفتی عبد المجید دین پوری شہیدؒ نے کیا قصور کیا تھا؟ انہوں نے کبھی مخالفین کو گمراہ کہا، نہ کافر، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دار الافتاء میں مسلمانوں کی مدد فرماتے، ان کی اُلجھنیں سلجھاتے، ان کے مسائل کا حلِّ شرعی بتاتے اور اپنے سینے میں محفوظ علم کے نور سے علم کے طالبوں کا دل اُجالتے۔     سیلانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دروازے پر کھڑا مفتی عبد المجید دین پوری شہید اور ان کے ساتھیوں کے جرم کا سوچ رہا تھا، شہداء کی امین، جامعہ بنوری ٹاؤن کے لئے بدھ چھ فروری کا دن غیر معمولی تھا، جامعہ کے بغلی دروازے پر طالب علموں کا جم گٹّھا لگا ہوا تھا، انہیں علم تھا کہ آج یہاں استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے آنا ہے، جامعہ دارالعلوم کراچی سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی آمد کی بھی اطلاع تھی، جامعہ دار الخیر گلستانِ جوہر سے مولانا محمد اسفند یار خان صاحب کے آنے کی بھی اطلاع تھی، یہ بھی علم ہوا کہ جامعہ احسن العلوم کے مولانا محمد زرولی خان صاحب بھی تشریف لائیں گے۔      یہ علم کے افق پر جگمگاتے وہ روشن ستارے تھے جنہیں دیکھ کر بھٹکتے مسافر اپنی سمت درست کرتے، ان حضرات کی آمد نے طلباء کو پر جوش اور بے چین کر رکھا تھا، وہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہورہے تھے۔ ان کی تڑپ، ان کا شوق اور ان حضرات کا احترام دیکھ کر وہاں موجود ’’فرشتے‘‘ اور سنتری بادشاہ حیران ہورہے تھے، اور ان کی حیرت بجا تھی کہ یہ منظر ان کے لئے انوکھا تھا کہ ایک عام سی کار آکر رکتی ہے جس کے آگے کوئی ٹوں ٹوں کرتی کار ہوتی، نہ ہٹو بچو کا شور مچانے والا، کار پر کوئی جھنڈا ہوتا ہے، نہ سبز رنگ کی نمبر پلیٹ، اس میں سے اترنے والے نے کوئی خاص پوشاک بھی نہیں پہن رکھی ہوتی، لیکن طلباء ان کے ہاتھ چومتے آگے بڑھتے، ان کے لئے بچھے بچھے جاتے، حضرات کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، سیلانی ایک طرف کھڑا بزرگ ہستیوں کو دیکھ رہا تھا، شہر کے جید علماء کرام بنوری ٹاؤن آرہے تھے کہ اب کرنا کیا ہے؟ چائے خانوں پر چائے پینے والے طلباء محفوظ ہیں، نہ مصروف شاہراہوں پر سفر کرنے والے اساتذہ۔ ٹارگٹ کلنگ اتنی ہوچکی ہے کہ اب وزیر اعلیٰ ہاؤس کا پریس سیکریٹری اللہ بچایو میڈیا کو وزیر اعلیٰ صاحب کی جانب سے نوٹس لینے کا فیکس بھی جاری نہیں کرتا۔     سیلانی جامعہ بنوری ٹاؤن میں اجلاس کی خبر لینے آیا تھا، اس کی نگاہ دروازے پر مولانا ڈاکٹر نظام الدین شامزئی شہیدؒ کے صاحبزادے مفتی امین الدین شامزئی صاحب پر پڑی اور وہ ان کے پاس چلا آیا، سلام کلام کے بعد سیلانی نے ان سے اجلاس کے حوالے سے جاننا چاہا تو انہوں نے تُرکی ٹوپی پہنے ایک نوجوان سے ملوادیا، یہ مولانا سعید خان صاحب تھے جامعہ بنوری ٹاؤن کے رئیس وشیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبد الرزّاق اسکندر صاحب کے صاحبزادے، وہ گرم جوشی سے ملے اور سیلانی کو لے کر اپنے چھوٹے سے صاف ستھرے دفتر میں آگئے۔     ’’اجلاس کا ایجنڈا تو وہی ہے ٹارگٹ کلنگ‘‘ سیلانی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا’’جی دیکھیں حضرات کیا فیصلہ فرماتے ہیں؟‘‘’’مجھے علم ہے جو فیصلہ ہوگا، زیادہ سے زیادہ ایک نیوز کانفرنس اور ٹارگٹ کلنگ کی مذمت بس۔۔۔۔۔ بھئی یہ زبان حکمرانوں کو سمجھ آتی ہے، نہ ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہے‘‘ ’’ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ مگر ہم اور کیا کریں؟‘‘ سعید بھائی نے الٹا سوال کر ڈالا۔’’فارسی بولنے والے فارسی بولیں، جو زبان حکمران سمجھتے ہیں، اسی زبان میں بات کریں‘‘۔’’یہی تو ہم سے نہیں ہوتا، ورنہ کوئی مسئلہ نہیں کہ چودہ ہزار طلبہ کو لے کر سامنے چوک پر جا بیٹھیں، آپ یقین کریں گے جب مفتی عبد المجید دین پوری صاحب پر حملے کی اطلاع ملی تو والد صاحب نے تمام اساتذہ کو ہدایت کی کہ باہر جامعہ کے دروازوں پر پہنچ جائیں اور کوئی طالب علم باہر نہ جائے، صرف اسی لئے کہ طلباء جذباتی ہو کر توڑ پھوڑ نہ شروع کردیں اور یہاں شہداء کا جنازہ پڑھا گیا، تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، ہزاروں لوگ تھے، محاورتاََ نہیں حقیقتاََ ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا، آج کا اجلاس بھی بہت مجبوری میں بلایا گیا ہے‘‘۔     اجلاس بلانے کا سبب تین بجے نیوز کانفرنس میں پتہ چل گیا، جب قاری محمد عثمان صاحب نے مولانا ڈاکٹر عبد الرزّاق اسکندر صاحب کی موجودگی میں تمام علماء کی نمائندگی کرتے ہوئے اجلاس میں ہونے والے فیصلے پڑھ کر سنائے اور جمعہ آٹھ فروری کو ہڑتال کا اعلان کیا، علماء کی جانب سے ہڑتال کے اعلان نے وہاں موجود میڈیا کو چونکا دیا، وہ بھی سیلانی کی طرح سخت لفظوں میں ایک پریس کانفرنس کی توقع کر رہے تھے، ہڑتال کا اعلان ایک بڑا فیصلہ تھا، فوراََ سوال داغا گیا ’’ہڑتال میں جو توڑ پھوڑ ہوگی اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟‘‘۔’’بھائی! ہم پُر امن لوگ ہیں اور یہ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے، یہاں سے شہداء کے جنازے اٹھے، آپ نے کسی گاڑی پر پتھر اچھلتے دیکھا؟ کہیں توڑ پھوڑ دیکھی؟ جلاؤ گھیراؤ۔۔۔۔ ہمیں تو انتظامیہ نے مجبور کردیا ہے، دن دَہاڑے علمائے دین شہید کردیئے گئے اور کسی حکمران کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ایک فون ہی کر لیتا۔۔۔۔‘‘     ’’کیا وزیر اعلیٰ یا حکومت میں سے کوئی بھی نہیں آیا؟‘‘ ایک صحافی بھائی کے لہجے میں بے یقینی تھی اور ہونی بھی چاہئے تھی کہ جامعہ بنوری ٹاؤن شہر کی ہی نہیں، ملک کی ممتاز درسگاہوں میں سے ہے، اس کے دار الافتاء کے رئیس اور جید عالمِ دین کو شہید کیا گیا تھا، بھانڈ، مراثیوں، ناٹک بازوں کے انتقال پر ’’کبھی نہ بھرنے والا عظیم خلا‘‘ پیدا کرنے والے حکمرانوں سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ ایک تعزیتی بیان ہی جاری کر دیتے، شاہراہ فیصل ابھی تک کراچی ہی کا حصہ ہے اور مفتی عبد المجید دین پوری بھی قسم خدا کی پاکستانی تھے، یہ واقعہ بھوٹان یا نئی دہلی میں نہیں ہوا تھا۔     ’’جی! صرف گورنر صاحب کا فون آیا تھا، ان کے علاوہ کسی نے آنے کی زحمت کی اور نہ فون کرنے کی، ایک بات اور جن کے لئے دھرنے دیئے جائیں، ان کے ورثاء کے لئے تو حکومت دس دس لاکھ روپے کا اعلان کردیتی ہے، لیکن ہمارے شہداء کے لئے حکومت کے خزانے خالی ہوجاتے ہیں؟ اس سے ہم کیا سمجھیں، حکمران ہمیں کیا ترغیب دینا چاہتے ہیں؟ یہی کہ ہم بھی سڑکوں پر نکل آئیں، دھرنا دے کر بیٹھ جائیں، وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرلیں؟ مدارس کے طلبائ، مدرسین کو یہ سب نہیں آتا، یہ پُر امن ہیں اور رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر علماء کرام کو یوں ہی چن چن کر شہید کیا جاتا رہا اور حکومت کا انداز بھی ایسا ہی رہا تو ملک بھر کے سترہ لاکھ طلباء سڑکوں پر ہوں گے‘‘۔     قاری عثمان یوں ہی گیدڑ بھبھکی نہیں دے رہا تھا، سیلانی کو ذرائع سے علم ہو چکا تھا کہ اجلاس میں طے ہوچکا ہے کہ بس اب اور نہیں، اب اگر کسی عالمِ دین کا لہو بہایا گیا تو علماء کرام سڑکوں پر آبیٹھیں گے، ’’دورۂ حدیث‘‘ اور ’’گھنٹے‘‘ شاہراہوں پر ہوں گے، بزرگ اور ضعیف وزیر اعلیٰ سوچ لیں، جب مزارِ قائد کے سامنے جامعہ بنوری ٹاؤن کے چودہ ہزار طلباء بیٹھے ہوں گے، شاہراہ فیصل ناتھا خان پل پر جامعہ فاروقیہ کے طلباء سبق دوہرا رہے ہوں گے، کورنگی روڈ پر جامعہ دار العلوم کراچی کے طلباء دکھائی دیں گے، سائٹ میں جامعہ بنوریہ کے طلباء دھرنا دیئے ہوئے ہوں گے۔۔۔۔۔ شہر کے کس علاقے میں مدارس نہیں ہیں؟ اور ان مدارس کے طلباء کرائے بھاڑے کے ٹٹو بھی نہیں، جنہیں تین سو روپے کی دیہاڑی پر لایا جائے۔ یہ جب مدارس سے نکلیں گے تو قائم علی شاہ اور عشرت العباد خان کی لینڈ کروزر اور مرسڈیز کہاں چلے گی؟ سیلانی چشم تصور میں شہر بھر میں ہونے والے دھرنوں کو دیکھنے لگا اور پھر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین