بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

تقلید مجتہدین خیر القرون میں!

تقلید مجتہدین خیر القرون میں!

    عقل وشرع دونوں کا فتویٰ ہے اور سب کو معلوم بھی ہے کہ نادان اور دانا، عالم اور جاہل، خاصی اور عامی کسی امر کی حقیقت معلوم کرنے میں برابر نہیں، خواہ اس امر کا تعلق علوم دنیوی سے ہو یا علوم دینی سے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ اللَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَاللَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ، إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوْا الْأَلْبَابِ‘‘۔                                                       (الزمر:۹) ’’آپ فرمادیجئے! کہیں برابر ہوتے ہیں علم والے اور بے علم، سوچتے وہی ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘     فارسی کی مشہور مثل ہے: ’’علم شے بہ از جہل شے‘‘ اسی لیے بے علم کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ہر معاملے میں اہل علم سے رجوع کیا کرے، شریعت میں تو اس کی اور زیادہ تاکید ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’فَاسْئَلُوْا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ‘‘۔ (النحل:۴۳) ۔۔۔۔۔ ’’سوپوچھ لو یاد رکھنے والوں سے اگر تم علم نہیں رکھتے۔‘‘اور حدیث نبوی میں وارد ہے:’’شفاء العی السوال‘‘ (رواہ ابوداؤدو ابن ماجہ، وابن خزیمہ وابن الجارود والحاکم والدارقطنی والضیاء فی ’’المختارۃ‘‘) ۔۔۔۔ ’’درماندہ کا علاج ہی دریافت کر لینا ہے۔‘‘     معلوم ہوا کہ غیر اہل علم کو جب بھی ضرورت پیش آئے ’’اہل علم‘‘ سے مسئلہ دریافت کرکے اس پر عمل کرے۔ لیکن شریعت کا مسئلہ بتانا ہر شخص کا کام نہیں، ا س کے لیے دینی تفقہ کی ضرورت ہے، جو شخص فقیہ نہ ہو اس کا فتویٰ قابل قبول نہیں، قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً فَلَوْلَانَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘۔             (التوبہ:۱۲۲) ’’اور ایسا تو نہیں کہ سارے ہی مسلمان نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ نکلا ہر جماعت میں سے ان کا ایک حصہ، تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی جانب لوٹ کر آئیں تو ان کو ڈرائیں، تاکہ وہ (خدا کی نافرمانی سے) بچتے رہیں‘‘۔ اس آیت شریفہ سے واضح ہوا کہ ’’إنذار‘‘ خدا کے حکموں سے ڈرانا اور اس کے احکام کی تبلیغ کرنا اور مسائل شرعیہ کا بتانا ان لوگوں کا حق ہے جن کو ’’تفقہ فی الدین‘‘ یعنی دینی مسائل کی سمجھ حاصل ہو اور خدا کے حلال وحرام اور اس کی مرضی نامرضی کو جانتے ہوں اور دوسرے لوگوں کا کام ان کے بتلائے ہوئے احکام کے مطابق عمل کرنا ہے اور حدیث شریف (مشکوٰۃ المصابیح، صفحہ:۳۶)میں وارد ہے: ’’ نعم الرجلُ الفقیہُ فی الدین إن احتیج إلیہ نفع، وإن استغنی عنہ أغنٰی نَفْسَہٗ‘‘۔ ’’بڑا اچھا ہے وہ شخص جو دین میں فقیہ ہو کہ ا س کی طرف حاجت پڑے تو وہ نفع پہنچائے اور اگر اس سے بے نیازی کی جائے تو وہ اپنے آپ کو بے نیاز رکھے۔‘‘     مطلب یہ کہ فقیہ کی شان یہ ہے کہ لوگ اس سے مسئلے پوچھیں تو ان کو نفع ہو اور اگر اس سے استغناء برتیں تو وہ دوسرے کا محتاج نہیں کہ اس کو کسی سے مسئلہ دریافت کرنے کی حاجت ہو۔     علمی اصطلاح میں جو شخص فتویٰ دینے کا اہل ہو اور ادلۂ شرعیہ سے احکام شرعیہ کو نکال سکے وہ فقیہ اور مجتہد کہلاتا ہے اور جس میں یہ اہلیت نہ ہو وہ عامی ہے۔ اس کو چاہیے کہ مجتہد کے قول پر عمل کرے اور اس کی تقلید کرے۔ یہ مسئلہ امت مرحومہ کا اجماعی مسئلہ ہے اور اس میں اہل حق کا کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ علامہ محدث ابو الحسن صغیر سندھی مدنی ’’بہجۃ النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وقد أجمع الأمۃ علی أن العامی مامور باتباع المفتی مع أنہ ربما یخبر عن رأیہٖ۔‘‘                               (بہجۃ النظر شرح نخبۃ الفکر، ص:۱۹، طبع: مطبع محمدی لاہور، ۱۳۰۹ھ) ’’امت کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ عامی کو یہ حکم ہے کہ وہ مفتی کا اتباع کرے، حالانکہ بعض وقت مفتی فتویٰ میں صرف اپنی رائے دہی کا اظہار کرتا ہے۔‘‘     عہد ِرسالت سے لے کر آج تک امت کا عمل اسی طریق پر ہے، عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں تو خود صحابہ کرام s حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے آکر مسائل معلوم کیا کرتے تھے، لیکن مدینہ منورہ کے علاوہ جو شہر اور بستیاں تھیں، وہاں کے رہنے والے ان حضرات کے فتووں اور فیصلوں پر عمل کرتے تھے، جن کو آنحضرت a نے وہاں قاضی اور معلم بناکر بھیجا تھا۔ حضرت میاں نذیر حسین صاحب دہلویؒ ’’معیار الحق‘‘ میں مولانا حیدر علی صاحب ٹونکی vسے ناقل ہیں: ’’براہل علم مخفی نیست کہ از صحابہ کرامؓ چندصحابہؓ معدود مجتہد بودند وباقی ہمہ مقلد ۔‘‘ ’’اہل علم پر یہ مخفی نہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے چند گنے چنے صحابیؓ مجتہد تھے اور باقی سب مقلد۔‘‘                                     (معیار الحق، ص:۸۳، طبع: مطبع رحمانی دہلی، ۱۳۳۷ھ)     یہ عبارت مولانا حیدر علی صاحب ٹونکی v کے اس فتوے کی ہے جس کو میاں صاحب موصوف نے اس تمہید کے ساتھ اپنی کتاب ’’معیار الحق‘‘ میں نقل کرکے مسلم رکھا ہے کہ: ’’مولانا مغفور نے ۱۲۷۰ھ میں ایک فتویٰ جواب میں کسی سائل کے تحریر فرمایا تھا اور ۱۲۷۱ھ میں مع مواہیر علمائے ٹونک اور دہلی بقالب طبع آیا تھا، وہ بھی نقل کیا جاتا ہے۔‘‘     (ص:۸۱)     یہ بھی واضح رہے کہ مولانا حیدر علی صاحب ٹونکی v کی جلالت علمی کا اعتراف میاں صاحب مرحوم نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’مولوی سید حیدر علی مرحوم ساکن قصبہ ٹونک کہ جو بڑے عالم متبحر، جامع معقول اور منقول، شاگرد رشید مولانا شاہ عبد العزیز اور مولانا شاہ رفیع الدین قدس سرہما کے تھے‘‘۔  (ص:۷۹)     اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی v ’’قرۃ العینین فی تفضیل الشیخینؓ‘‘ میں رقم طراز ہیں: صحابہؓ وتابعینؒ ہمہ دریک مرتبہ نبودند، بلکہ بعض ایشاں مجتہد بودند وبعض مقلد، قال اللّٰہ تعالٰی: ’’لَعَلِمَہٗ اللَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ۔‘‘         (ص:۲۵۱، طبع: مطبع مجتبائی دہلی، ۱۳۱۰ھ) ’’صحابہؓ وتابعینؒ سب ایک مرتبہ کے نہ تھے، بلکہ بعضے ان میں سے مجتہد تھے اور بعضے مقلد، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ضرور معلوم کرلیتے اس امر کو وہ لوگ کہ جو اس امر کی ان میںسے تحقیق کرنے والے ہیں (معلوم ہوا دوسرے لوگ محقق نہیں، مقلد تھے)۔‘‘     غرض صحابہs او رتابعینw کے دور میں عام لوگ اپنے اپنے شہر کے فقہاء اور اہل فتویٰ کی تقلید کیا کرتے تھے اور ان ہی کے بتائے ہوئے مسئلوں پر عمل کرتے تھے۔ بعد کو جب تبع تابعینؒ کے دور میں علوم اسلامی کی تدوین شروع ہوئی اور ا س سلسلے میں علم فقہ کی تدوین بھی کتابی شکل میں عمل میں آئی تو اس دور کی حکومتوں نے اس کو اپنا دستور العمل بنایا اور عوام وخواص نے اسی فقہ مدوّن پر عمل شروع کردیا۔ علامہ عز الدین بن عبد السلامv فرماتے ہیں: ’’إن الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃؓ إلٰی أن ظہرت المذاہب الأربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من أحد۔ ‘‘ (ملاحظہ ہو، عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، از شاہ ولی اللہ صاحب دہلویؒ، ص:۲۹، طبع: مطبع مجتبائی دہلی، ۱۳۴۴ھ) ’’بے شک لوگ صحابہs کے عہد سے لے کر چاروں مذہبوں کے شائع ہونے تک ان علماء کی تقلید کرتے رہے جو اُن کو ملتے، اس امر پر کسی نے نکیر نہیں کی۔‘‘     مجتہدین اگرچہ بہت ہوئے ہیں، لیکن حق تعالیٰ نے جو قبول عام ان ائمہ اربعہ امام اعظم ابوحنیفہv،امام مالکv،امام شافعیv اور امام احمد بن حنبلv کو نصیب فرمایا، وہ دوسرے ائمہ کو نصیب نہ ہوا۔ شاہ اسماعیل شہید دہلویv’’صراط مستقیم‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’امامت در ہر کمال عبارت است از حصول مشابہت تامہ بانبیاء اللہ درآں کمال، مثلاً علم باحکام شرعیہ۔۔۔۔۔ پس مشابہ بانبیاء درایںفن ائمہ مجتہدین مقبولین اند، پس ایشاں را اَز ائمہ فن باید شمرد مثل ائمہ اربعہ، ہر چند مجتہدین بسیار از بسیار گزشتہ اند، فاما مقبول درمیان جمہور امت ہمیں چند اشخاص اند، پس گویا کہ مشابہت تامہ دریں فن نصیب ایشاں گردید، بناء ًعلیہ درمیان جماہیر اہل اسلام از خواص وعوام بلقب ’’امام‘‘ معروف گردیدند وبقوت اجتہاد موصوف۔‘‘                         (صراط مستقیم، ص:۹۰-۹۱، مطبوعہ: مطبع مظہری کلکتہ، ۱۲۶۵ھ) ’’کسی کمال میں امامت کا مطلب یہ ہے کہ اس کمال میں انبیاء اللہ سے مشابہت تامہ حاصل ہوجائے، مثلاً احکام شرعیہ کا علم ہے کہ ۔۔۔۔اس فن میں انبیاء o سے مشابہ مجتہدین مقبولین ہی ہیں، لہٰذا ان حضرات کو ائمہ فن میں شمار کرنا چاہیے، جیسے کہ حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ ہیں کہ اگرچہ مجتہدین زیادہ سے زیادہ ہو گزرے ہیں، لیکن جمہور امت کے درمیان مقبول یہی چند حضرات ہیں، پس گویا مشابہت تامہ اس فن میں انہی حضرات کے نصیب میں آئی، اسی بنا پر عامہ اہل اسلام کے درمیان چاہے وہ خواص ہوںیا عوام، یہی حضرات ’’امام‘‘ کے لقب سے معروف اور قوتِ اجتہاد سے موصوف ہیں۔‘‘     ان حضرات ائمہ اربعہ میں امام اعظم ابو حنیفہv تو تابعی ہیں اور امام مالکv تبع تابعی اور امام شافعیv اور امام احمدبن حنبلv نے تبع تابعین کا زمانہ پایا ہے۔ ان حضرات ائمہ کی فقہ مدون ہونے کے ساتھ ہی امت میں اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا اور ان کے عہد سے لے کر آج تک تمام اہل سنت وجماعت ان ہی حضرات کی فقہ کے پیرو ہیں۔ ان حضرات کا اختلاف بھی امت اسلامیہ کے لیے رحمت ہے۔ واضح رہے کہ مجتہد سے اگر کسی مسئلہ میں خطا بھی ہوجائے تو ایک اجر ملتا ہے، ورنہ دوہرا اجر تو اس کا ہے ہی۔ حافظ ابو المحاسن دمشقیv ’’عقود الجمان‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اعلم رحمک اللّٰہ أن الأمۃ المحمدیۃ فی جمیع بلاد الإسلام من أثناء القرن الثانی إلٰی زماننا ہذا -وہو سنۃ ثمان وثلاثین وتسع مائۃ- لایخرج أحد منہا إذا کان غیر مجتہد عن أن یکون مقلداً لأحد من الأئمۃ المجتہدین فی الفقہ لأنہم کلہم علٰی ہدیً من اللّٰہ تعالٰی۔‘‘           (عقودالجمان، ص:۶، طبع حیدر آباد دکن، ۱۳۹۴ھ) ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے- اللہ تم پر رحم فرمائے- کہ امت محمدیہ میں تمام بلاد اسلامی میں دوسری صدی کے وسط سے لے کر ہمارے اس زمانے تک- کہ ۹۳۸ھ ہے- کوئی غیر مجتہد شخص ایسا نہیں گزرا کہ جو فقہ میں ائمہ مجتہدین میں سے کسی کا مقلد نہ رہا ہو، کیوں کہ یہ سب حضرات حق تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پر تھے۔‘‘     غرض اواخر عہد تبع تابعین سے لے کر آج تک امت اسلامیہ کا سواد اعظم ان ہی مذاہب اربعہ سے وابستہ رہا ہے۔ میاں نذیر حسین صاحب دہلویؒ بھی ’’معیار الحق‘‘ میں مذاہب اربعہ کی تقلید کو مباح قرار دیتے ہیں، چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ’’باقی رہی تقلید وقت ِلاعلمی، سویہ چار قسم ہے: قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد اہل سنت کے سے لاعلی التعیین، جس کو مولانا شاہ ولی اللہv نے ’’عقد الجید‘‘ میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے اور صحیح ہے باتفاق امت۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم ثانی مباح اور وہ تقلید مذہب معین کی ہے، بشرطیکہ مقلد ا س تعین کو امر شرعی نہ سمجھے، بلکہ اس نظر سے تعین کرے کہ جب کہ امر اللہ تعالیٰ کا واسطے اتباعِ اہل ذکر کے عموماً صادر ہوا ہے، تو جس ایک مجتہد کا اتباع کریںگے اسی کی اتباع سے عہدۂ تکلیف سے فارغ ہوجائیں گے اور اس میں سہولت بھی پائی جاتی ہے۔‘‘    (معیار الحق، ص:۴۱-۴۲)     یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور مذاہب اربعہ پر جمع ہوجانے کی برکت کہ جتنے اساسی گمراہ فرقے نکلے وہ ان چاروں مذاہب پر لوگوں کے جمع ہوجانے سے پہلے پہلے نکلے۔ جب سے لوگوں نے مذاہب اربعہ کی پیروی شروع کی، نئے نئے فرقے بننا بند ہوگئے۔ چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویv فرماتے ہیں: ’’تاوقتیکہ مردم بر ہرچہار مذہب استوار نشدند وتقلید ایشاں اختیار نہ کردند ہفتاد وچند فرقہ پیدا شدند وبعد از ایشاں تابعان ہمہ فرقہ ہا باقی ماندند ومذاہب دیگر مخترع نگشت۔‘‘                    (فتاویٰ عزیزی، ج:۱، ص:۱۶۵، طبع: مطبع مجتبائی دہلی، ۱۳۴۱ھ) ’’جس وقت تک کہ لوگ چاروں مذہب پر پختہ نہ ہوئے تھے اور ان کی تقلید انہوں نے اختیار نہ کی تھی، ستر سے اوپر فرقے پیدا ہوئے اور ان کے بعد تمام فرقوں کے پیرو تو باقی رہے اور دوسرے نئے مذاہب پیدا نہ ہوئے۔‘‘     اہل بدعت، روافض کو ہمیشہ ان مذاہب چہارگانہ کے اختیار کرنے پر اعتراض رہا، چنانچہ ابن مطہر حلی نے ’’منہاج الکرامہ‘‘ میں اہل سنت پر یہی اعتراض کیا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے یہ چار مذاہب نکال لیے ہیں اور حافظ ابن تیمیہv نے ’’منہاج السنہ‘‘ میں اس رافضی کے اس اعتراض کے متعدد جوابات دیئے ہیں اور شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویv اپنی مشہور کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کے باب دوم میں روافض کے مکائد کی تفصیل بتاتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’کیدہشتاد وپنجم آں کہ طعن کنند بر اہل سنت وجماعت کہ ایشاں مذہب ابوحنیفہؒ وشافعیؒ ومالکؒ واحمدؒ اختیار می کنند۔‘‘          (تحفہ اثناعشریہ، ص:۱۰۹، طبع: نول کشور لکھنؤ، ۱۳۰۲ھ) ’’رافضیوں کا پچاسی واں فریب یہ ہے کہ اہل سنت وجماعت پر طعن کرتے ہیں کہ یہ لوگ ابوحنیفہ، شافعی ومالک اور احمدw کا مذہب اختیار کرتے ہیں۔‘‘     اور پھر ا س طعن کا اس طرح جواب دیتے ہیں: ’’جواب ایں کید آں کہ نبی صاحب شریعت است نہ صاحب مذہب، زیرا کہ مذہب نام راہے است کہ بعض اُمتیاں را درفہم شریعت کشادہ شود وبعقل خود چند قاعدہ قرار دہند کہ موافق آں قواعد استنباطِ مسائل شرعیہ از ماخذ آں نمایند ولہٰذا محتمل صواب وخطامی باشد ولہٰذا مذہب رابسوئے خدا وجبریل ودیگر ملائکہ نسبت کردن کمال بے خردیست۔‘‘ (ایضاً، ص:۱۰۹) ’’اس کید کا جواب یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے نہ کہ صاحب مذہب، کیونکہ مذہب تو اس راہ کا نام ہے جو بعض امتیوں پر فہم شریعت کے سلسلے میں کھلتی ہے اور پھر وہ اپنی عقل سے چند قاعدے مقرر کرتے ہیں، ان قواعد کے مطابق شرعی مسائل ان کے ماخذ (کتاب وسنت واجماع وقیاس) سے نکالتے ہیں اور اس لیے مسائل کے نکالنے میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا، جبریل ؑ، ملائکہ اور انبیاء oکی طرف مذہب کی نسبت کرنا نہایت بے وقوفی ہے۔ (چنانچہ اللہ ورسول کا دین کہتے ہیں، اللہ ورسول کا مذہب نہیں کہتے)۔‘‘     اس کے بعد فرماتے ہیں: ’’مقلد را در اتباعِ شریعتِ پیغمبر از توسیط مجتہد ناگزیر است۔۔۔۔۔ پس اہل سنت را در اتباعِ ابوحنیفہؒ وشافعیؒ چہ گناہ لازم آمد۔‘‘                              (ایضاً، ص:۱۱۱) ’’مقلد کو پیغمبر کی شریعت پر چلنے کے لیے مجتہد کے واسطے کے بغیر چارہ نہیں ۔۔۔۔ پس اہل سنت پر امام ابوحنیفہv اور امام شافعی v کی اتباع کرنے میں کیا گناہ لازم آگیا۔‘‘     ہندوستان میں بھی جن لوگوں نے تقلید مجتہدین اور مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے پر انکار کیا ہے، وہ روافض ہی کی تقلید کا اثر ہے، چنانچہ گزشتہ صدی میں مولوی عبد الحق بنارسی المتوفی: ۱۲۸۶ھ نے اس سلسلہ میں بڑا سخت فساد برپا کیا تھا، جس کی وجہ سے ہندوستان کے عام مسلمانوں میں سخت انتشار پیدا ہوگیا تھا، یہ مولوی صاحب بھی ایک زمانہ میں تشیع کا شکار رہ چکے ہیں، چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب ’’سلسلۃ العسجد فی ذکر مشائخ السند‘‘ میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’در اواسط عمر بعض تزلزل در عقائد ایشاں و میل بسوئے تشیع وجزء اں معرف است۔‘‘                                           ( سلسلۃ العسجد فی ذکر مشائخ السند، ص:۳۶، طبع بھوپال ۱۲۹۲ھ) ’’اپنی عمر کے درمیانی حصہ میں کچھ تزلزل ان کے عقائد میں اور تشیع وغیرہ کی طرف ان کا میلان مشہور ہے۔‘‘     یہی زمانہ ہے جب موصوف نے ’’الدر الفرید فی المنع عن التقلید‘‘ لکھی تھی جس کا جواب مولانا تراب علی صاحب لکھنویv نے ’’سواء الطریق ‘‘ لکھ کر مولوی عبد القادر سندیلیv کے نام سے چھپوایاتھا، اسی زمانہ میں شیخ احمد اللہ بنارسی نے حرمین شریفین کا سفر کیا تھا اور ۱۳۵۷ ہجری میں وہاں کے علماء سے تقلید مجتہدین کے بارے میں فتاویٰ حاصل کیے تھے اور ان سے ایک سال پہلے منشی حسن علی بنارسی نے ۱۳۵۶ ہجری میں علمائے حرمین شریفین سے اسی سلسلہ میں استفسار کیا تھا۔ یہی وہ فتاویٰ ہیں جو ’’تنبیہ الضالین وہدایۃ الصالحین‘‘ کے نام سے اسی زمانہ میں طبع ہوئے تھے اور پھر متعدد بار ان کی طباعت عمل میں آئی۔     مولوی عبد الحق بنارسی کے متعلق مولانا سید عبد الحی حسنی لکھنویv المتوفی: ۱۳۴۱ھ نے اپنی کتاب ’’معارف العوارف فی أنواع العلوم والعارف‘‘ میں -جو ’’الثقافۃ الإسلامیۃ فی الہند‘‘ کے نام سے دمشق سے ۱۳۷۷ھ میں شائع ہوئی ہے- جو اظہارِ خیال فرمایا ہے وہ درج ذیل ہے، فرماتے ہیں: ’’ومنہم من سلک مسلک الإفراط جداً وبالغ فی حرمۃ التقلید وجاوز عن الحد، بدع المقلدین وأدخلہم فی أہل الأہوائ، ووقع فی أعراض الأئمۃ لاسیما الإمام أبی حنیفۃؒ وہذا مسلک الشیخ عبد الحق بن فضل اللّٰہ البنارسی والشیخ عبد اللّٰہ الصدیقی الإلٰہ آبادی وغیرہما۔‘‘            (معارف العوارف فی أنواع العلوم والعارف، ص:۱۰۴) ’’اور ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے سخت زیادتی کا راستہ اختیار کیا، تقلید کی حرمت میںمبالغہ سے کام لے کر حد سے بڑھ گئے، مقلدین کو بدعتی ٹھہرایا اور ان کو اہل ہوا میں داخل کیا اور ائمہ کی اہانت کی، خصوصاً امام ابوحنیفہv کی، شیخ عبد الحق بن فضل اللہ بنارسی اور شیخ عبد اللہ صدیقی الہ آبادی وغیرہ کا یہی طریقہ ہے۔ ‘‘     سید صاحب نے شیخ بنارسی کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے، اس سے ناظرین بنارسی صاحب کی کارگزاری کا پوری طرح اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو افراط وتفریط سے بچائے۔ واللّٰہ یقول الحق وہو یہدی السبیل

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین