بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تعلیم کے فروغ میں علمائے کرام کی ذمہ داریاں

تعلیم کے فروغ میں علمائے کرام کی ذمہ داریاں

مؤرخہ ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوٹل کراؤن پلازہ، اسلام آبادمیںایک روزہ سیمینارمنعقد ہوا، جس کا عنوان تھا: ’’پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں حائل رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ اس بڑے عنوان کو کئی ذیلی عناوین میں تقسیم کرکے ملک کے مختلف اہل علم و ارباب دانش کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ جامعہ کی طرف سے اس مجلس میں راقم الحروف ( رفیق احمد ) کو شرکت کا موقع ملا۔ ذیلی عناوین میں ’’تعلیمی سال کا آغاز: تعلیم کے فروغ میں علمائے کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر راقم نے اپنی تحریر کا خلاصہ پیش کیا، جو نذرِ قارئین کیا جاتا ہے۔

اسلام میں تعلیم کی اہمیت     تعلیم، سیکھنے ،سکھانے اورعلم کو منتقل کرنے کا عمل ہے،قرآن میں متعدد مقامات پرمختلف پیرایوں میں تعلیم کا تذکرہ آیا ہے،کہیں ’’اقرأ ‘‘کے لفظ سے اس عظیم منصب کو بیان کیا گیااور کہیں’’عَلَّمَ ، یعلم ، یعلمون‘‘جیسے لفظوں سے دہرایا گیا۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس کا تذکرہ بے شمار مقامات پر موجود ہے، ذخیرۂ احادیث میں’’ کتاب العلم‘‘ کے عنوان سے حدیث کی ہر کتاب میں علم کی فضیلت، تحصیلِ علم کے فضائل اور ترغیبات کا بیان موجود ہے۔     تعلیم(سکھانا) منصبِ الٰہی ہے، جو آغازِ انسانیت سے ہی شروع ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم m کو علم عطاکرکے فرشتوں پر افضلیت اور فوقیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت اور علم کو لازم وملزوم قرار دیا۔جب تک آسمانی وحی کا سلسلہ قائم رہا، تعلیم کا سلسلہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام o کے درمیان،پھر انبیاء oکے واسطے سے عام سماج میں بھی قائم رہا۔ پیغمبرِ اسلام aپر پہلی وحی ہی’’ اقرأ‘‘ (پڑھئے) کا حکم لے کر اتری۔ چھ سو سال کے طویل وقفے کے بعد بھٹکتی انسانیت کے لیے خدا کے نئے پیغام کا آغاز کلمۂ ’’اقرأ‘‘ کے ساتھ ہوا،یہ پہلی وحی واضح اشارہ تھی کہ کائنات میں ہر سو ہر نوع پھیلی ہوئی ظلمتوں سے نجات کا ذریعہ نورِ علم ہی ہو سکتا ہے۔(۱) اسی نورِ علم کے ذریعہ انسانیت کی تکمیل اور تشکیل ممکن ہوگی ،چنانچہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی a کی بنیادی و ترجیحی ذمہ داریوں میں ترویج علم اور تعلیم تھی۔(۲) تعلیم کا مقصد     جب تعلیم کے موضوع پر بات ہو تو تعلیم و تعلم کا بنیادی مقصد بھی سامنے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہر شئے اپنے مقصد اور غرض کی بنا پر عظیم اور برتر سمجھی جاتی ہے۔ تعلیم و تعلم کا مقصد بھی اپنی غرض و غایت کی بنا پر اہمیت و عظمت کاحامل ہے۔ تعلیم کے بنیادی مقاصد چار ہیں:۱- خداشناسی،۲-نفس دانی، ۳-ناخواندگی کو خواندگی میں تبدیل کرنا،۴-معاشرتی ضرورتوں سے آگاہی اوراس کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔ علم کا حقیقی مصداق ، حکم اور قدیم وجدید کی تفریق     علم کا حقیقی مصداق وحی الٰہی کا علم ہے۔ عرفی استعمال میں علم’’مطلق دانست و آگاہی‘‘ کو کہتے ہیں۔ حلال وحرام ، طہارت ونجاست اور فرائض کا علم فرض عین ہے، جب کہ دین کی تفصیلات کا بقدرِ استطاعت علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔ دیگر علوم اپنی ضرورت کے اعتبار سے واجب یا مستحب ہیں ،بلکہ بعض علوم حرام بھی ہیں، جیسے: علم سحر، علم رمل، علم نجوم، وغیرہ ۔ علوم میں قدیم وجدید کی تفریق کرنا درست نہیں ، بلکہ یہ سب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ البتہ اس بات کااحساس اور اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ انسانی زندگی مختلف شعبوں میں تقسیم ہے، رجالِ کار کے درمیان تقسیمِ کار کے قدرتی فارمولے کے پیشِ نظر زندگی کے تمام شعبوں کے لوگ ایک دوسرے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔(۳) معاشرے کے لیے علمائے دین کی ضرورت ، ان کا کردار اور حیثیت     علمائے کرام ‘ انبیائے کرام o کے وارث ہیں۔ علمائے کرام کے بغیر اسلامی معاشرہ اپنے رب اور اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتا۔ علمائے کرام کی اسی اہمیت کے پیشِ نظران کی آواز کو اسلامی معاشرہ کی سب سے مؤثر آواز سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ اپنے علمائے کرام کی بات مانتے ہیں،کیوں کہ امت میں ان کی حیثیت وہی ہے جو اپنے زمانہ میں انبیائے oکی تھی، البتہ انبیائo صاحبِ وحی و شارع تھے، جب کہ علمائے کرام شارحِ وحی ہیں۔(۴) نئے تعلیمی سال کے حوالے سے علما کی ذمہ داریاں     فروغِ علم اور ترویجِ تعلیم انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے ، اس ضرورت کی بجاآوری حاکمِ وقت سے رعایا کے ادنیٰ فرد تک ہر ایک کی ذمہ داری ہے، ہر ایک کا اپنی اپنی حیثیت اور دائرۂ عمل میں اس کے لیے محنت و کوشش کرنا ‘ معاشرتی ضرورت اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ (۵)علمائے کرام چونکہ معاشرے کی مؤثر آواز کے حامل ہیں، اس لیے اس حوالے سے ان کی ذمہ داری بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے۔ علمائے کرام کیچند اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں: پہلی ذمہ داری: فکری ذہن سازی     علمائے دین جس دینی شعبے سے وابستہ ہوں، وہ اپنے فورم سے عوام میں شعور وآگاہی کو موضوع بنائیں۔ تعلیم کی اہمیت ،فروغِ علم کی ضرورت ، اس کے فوائد وثمرات اور جہالت و تعلیم سے دوری کے نقصانات سے آگاہی کومشن بنائیں۔نیز جدید وقدیم ، عصری ودینی علوم کی تفریق پر مبنی نظریات کی حدود وقیود بیان کی جائیں، مثلاً: مسلمان بحیثیت انسان انسانی معاشرے کا فرد ہے، مسلمان رہتے ہوئے وہ معاشرتی ضروریات پر مشتمل عصری تقاضوں اور ان تقاضوں تک رسائی دینے والے علوم ووسائل سے مستغنی نہیں رہ سکتا،اس لیے علمائے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں قائم اس تفریقی سوچ کی اصلاح کرتے ہوئے دینی وعصری علوم کے تقابل کو تلازم باور کرائیں اور ہر ایک طبقہ کی اپنی جگہ ضرورت کا جائز مقام سمجھائیں، کیوں کہ مسلمان معاشرے کے لیے جس طرح ایک اچھے عالم دین کا ہوناناگزیرہے، اسی طرح ماہر ڈاکٹر وانجینئر، باکردار افسر اور امانت دار اور دیانت دار تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار بھی اس معاشرہ کی ضرورت ہیں۔ تعلیمی میدان میں قدم رکھے بغیر کارگاہِ عالم کے یہ مختلف ستون کیسے میسر آئیں گے؟ دوسری ذمہ داری: فروغِ علم کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور مشکلات کی تشخیص وآگاہی     فروغِ علم کی راہ میں رکاوٹوںاور مشکلات کا تعلق چار جہتی ہوسکتا ہے: ۱-والدین کی غفلت و لاپرواہی     بچوں کی علمی محرومی کا بنیادی سبب والدین کی غفلت اور لاپرواہی ہے،والدین کو بتانا ہوگا کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نہ صرف ایک نعمت بلکہ امانت بھی ہے، اس امانت کے تقاضے پورے کرنا اور حقوق ادا کرنا والدین پر شرعاً فرض ہے، کیوں کہ والدین پر بچوں کے تین بنیادی حقوق ہیں:     ۱:… بہترین نام رکھنا     ۲:… اچھی تعلیم وتربیت کرنا     ۳:… مناسب جگہ شادی کرنا(۶)     والدین کو ادراک کرایا جائے کہ اولاد کی نعمت سے مطلوبہ فوائد‘ تعلیم وتربیت کے بغیر ممکن نہیں۔والدین اپنے حقوق کی فہرست بنانے، بتانے اور جتلانے سے قبل بچوںکے مختصر سے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں،بصورتِ دیگر ایک بچے کی جہالت اور تربیت سے محرومی اس کے والدین اور معاشرے کے لیے رحمت کی بجائے زحمت کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ۲-بچوں کی بے توجہی وبے رغبتی     بچوں تک علم نہ پہنچنے کا ایک سبب بچے کی فطری بے رغبتی اور لا ابالی پن بھی ہے۔بچوں میں تعلیم کا شوق اور رغبت کے لیے اُ نہیں مستقل مجالس ومحافل کے ذریعہ علم کے فضائل و فوائد اور جہالت کے نقصانات، اساتذہ کے حقوق، والدین کی اطاعت جیسے محاسن سے آگاہی کا سلسلہ قائم کیا جائے،وقت کی قدر وقیمت کا احساس اجاگر کیا جائے، اس کے لیے ’’قیمۃ الزمن عند العلمائ‘‘سے استفادہ کیا جائے۔(۷) ۳- اساتذہ میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان     والدین کی توجہ اور بچوں کی رغبت کے باوجود تعلیم گاہوں میں آنے کے بعد بھی بچے علم سے محروم رہ جاتے ہیں، اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ اساتذہ کرام کا رویہ اور اپنے فرائض میں کوتاہی بھی ہے۔ اسلام کی روح سے استاذ کی کیاذمہ داری بنتی ہے؟ اس پربھی گفتگو کی جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ اساتذہ ادارے اور بچوں کے والدین کے امین بھی ہیں، جنہوں نے بچوں کے مستقبل کی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں تھما دی ہے۔ استاد کے دل میں دوطرفہ دیانت داری وامانت داری کا احساس پیدا ہونا بہت ضروری ہے، ورنہ یہ علم کے فروغ میں رکاوٹ کے علاوہ امانت کے تقاضے بھی ضائع کرنے کا جرم شمار ہوگا۔ اساتذہ کو ان کے منصب اور منصب کے تقاضوں سے آگاہی کے لیے ’’الرسول المعلمؐ وأسالیبہ فی التعلیم‘‘سے استفادہ مفید رہے گا۔(۸) ۴- تعلیمی ادارے کافرض شناسی میںکوتاہی کا ارتکاب     فروغِ علم کے لیے بچوں کی رغبت، والدین کی دلچسپی اور اساتذہ کی لگن کے باوجود بسا اوقات تعلیمی ادارہ رکاوٹ اور مشکل کاسبب بن سکتا ہے۔ خاص قواعد وضوابط کی سختی کی بہتات وغیرہ ایسے امور ہیں جو ہمارے معاشرے کی بہت بڑی رکاوٹیں ہیں ، ا ن رکاوٹوں کی وجہ سے تحصیل علم میں مشکل پیش آتی ہے اور بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں، اس لیے تعلیمی ادارے کے منتظمین کی نہ صرف تربیت بلکہ اس حوالے سے قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارہ کے مدنظر‘ تعلیم کا فروغ اور تربیت ہو، وہ تعلیم کا ادارہ رہے ،محض تجارتی ادارہ نہ بنے۔ تیسری ذمہ داری: تعلیم کو بامقصد بنانے میں کردار ادا کرنا     علمائے کرام تعلیمی میدان کے متعلق اپنے قیمتی مشوروں اور تجاویز سے تعلیم کو بامقصد بنانے کے لیے کردار ادا کریں ، خاص کرتعلیم کے بنیادی مقاصد( خداشناسی، نفس دانی، ناخواندگی کو خواندگی میں تبدیل کرنا اور معاشرتی ضروریات سے آگاہی اور منصوبہ بندی یعنی شعبہ کے لیے کارآمد، ذی استعداد اور باصلاحیت لوگ پیدا کرنا) کو پورا کرنے کے لیے علما کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جو تعلیمی ادارے، تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب جیسے عظیم مقاصد ِتعلیم سے عاری ہوں، انہیں اپنے قیمتی مشوروں اور نصائح اور سفارشات کے ذریعہ سے بامقصد بنانے کی کوشش کرنااہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔     تقریباً سن۶۶ء میںہمارے اکابر میں سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبv اور حضرت علامہ محمد یوسف بنوری صاحب v نے ان مقاصدِ تعلیم کی برآری کے لیے دینی وعصری علوم کے ماہرین ِ تعلیم ، جن میں تمام مسالک کے اکابر بھی شامل تھے‘ کی طویل مشاورت سے تعلیمی ونصابی تجاویز مرتب فرمائی تھیں، ان سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی رہنمائی کی جائے، ان تجاویز کا نسخہ تقریباً ہرمعروف تعلیمی ادارے میں موجود ہے، وہاں سے کاپی حاصل کی جاسکتی ہے۔(۹) چوتھی ذمہ داری: قرآنی مکاتب کا قیام     ہمارے مسلمان بچوں کی وہ تعداد جو باضابطہ دینی مدارس میں پڑھ رہی ہے اور علمِ دین حاصل کر رہی ہے وہ عصری تعلیم گاہوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے %۹۸ بچے عصری تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں اور %۲ طلبہ مدارسِ دینیہ میں زیر ِ تعلیم ہیں۔ اگر دیکھا جائے توعالم دین بننا فرضِ کفایہ ہے، جسے %۲ بچے پورا کررہے ہیں، لیکن ایک اچھا دین دار مسلمان بننا، فرائض، حلال وحرام اور پاکی وناپاکی کا بنیادی علم حاصل کرنا تو ہر مسلمان پر فرض عین ہے، اس فرضِ عین کی ادائیگی کے لیے اگر ہمارے عصری تعلیمی اداروں کے نصاب و نظام تعلیم میں کہیں ضروری دینی مواد موجود نہیں ہے توایسے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے اپنے مسلمان بچوں کو یہ مواقع فراہم کرنا اور اس کا اہتمام کرنا علمائے دین کی موروثی ذمہ داری شمار ہوگی۔ اس کی ایک اچھی اور آزمودہ شکل مکاتب ِ قرآنیہ کا سلسلہ ہے، جس میں قرآن کریم حفظ یا ناظرہ، طریقۂ نماز، بنیادی ایمانیات اور ارکانِ اسلام بچوں کو سیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ مکاتب شام اور رات کے اوقات میں ہر مسجد میں قائم ہونے چاہئیں، تاکہ ہمارے مسلمان بچے اگر کسی غیرمسلم اسکول میں بھی جائیں تو ان کا ایمان وعمل محفوظ رہے۔ ہمارے اساتذہ کے استاذ، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی v فرماتے تھے کہ: ’’جو بچہ مکتب سے گزر کر چلاجائے، وہ کبھی دین سے اپنا رشتہ نہیں توڑ سکتا ‘‘۔ پانچویں ذمہ داری: تعلیمی سال کے آغاز کی طرح اختتام پر تعلیم وتربیت کے لیے فکرمندی     ہماری عصری تعلیم گاہوں میں جون جولائی کی سالانہ تعطیلات ہوتی ہیں، بچوں کی ان تعطیلات کو لغویات سے بچانے کے لیے کردار ادا کرنا بھی علمائے کرام کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ان تعطیلات کو اس طور پر کارآمد بنایا جائے کہ تعطیلات کا مقصد یعنی بچوں کا آرام وسکون بھی برقرار رہے ، ان کا تعلیمی تسلسل بھی کسی نہ کسی درجہ میں باقی رہے، بچوں کو بنیادی دینی معلومات کا ضروری سامان بھی میسر آجائے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اسکول وکالج میں پڑھنے والے ہمارے بچوں کو مسجد کا نورانی ماحول نصیب ہوجائے، جہاں انہیں علمی ثمرات کے ساتھ ساتھ تربیتی فوائد کا کچھ حصہ بھی مل سکے،تاکہ ہمارے ایسے مسلمان بچے جو عصری تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہنے کے دوران کسی وجہ سے بنیادی دینی ضروریات سے واقف نہیں ہوسکے، یا انہیں اپنے محلے میں مکاتب ِ قرآنیہ کی ترتیب میسر نہیں ہوسکی، یا وہ بچے اپنے نصابی حجم کی وجہ سے دین کی مطلوبہ معلومات حاصل نہیں کرسکے تو انہیں کم از کم سالانہ تعطیلات میں ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جو ان کی بنیادی دینی تعلیمی ضرورت پوری کرسکیں۔     الحمدﷲ! اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ۱۹۹۸ء میں ہمارے استاذ ، جامعہ علوم اسلامیہ  علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے سابق استاذالحدیث اور ناظمِ تعلیمات حضرت مولانا عطاء الرحمن شہید v نے ’’تعلیم وتربیت ‘‘کے نام سے ’’چالیس روزہ دینی واخلاقی تربیتی کورس ‘‘کا آغاز فرمایا تھا، جو ابتداء ً جامع مسجد صالح ‘صدر کراچی سے شروع ہوا اور اگلے چند سالوں میں یہ سلسلہ ملک کے کئی چھوٹے بڑے شہروں تک وسیع ہوتا چلا گیااور اب یہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس کورس کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسلمان بچوں کو دین کی بنیادی اور ضروری باتوں کی تعلیم اوردینی ماحول میں ان کی ذہنی تربیت ہدف ہے۔ اس میں مسلکی شناخت اور اختلافی مسائل سے قصداً پہلو تہی کی گئی ہے ، اس کی بدولت اس کورس سے مستفید ہونے والوں میں ہر مسلک کے بچے شامل ہیں اور سرکاری وغیرسرکاری مقامات پر شروع کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ الحمدللہ! سال بہ سال اس کورس کے لیے بچوں کی رغبت بڑھ رہی ہے اور اس کے مراکز میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہم اپنے اس تجربہ کی روشنی میں یہ سمجھتے ہیں کہ اگرہمارے علمائے کرام آغازِ سال کی طرح اختتام سال کے موقع پر بھی مسلمان بچوں کے لیے فکر مند ہوں اور اپنی ذمہ داری کا احساس فرمائیں اور ہر محلے کی ہر مسجد میں اس طرح کے کورسز کا انعقاد فرمائیںتو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس سے علم کے فروغ میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تعلیم کے بنیادی مقاصد یعنی فکری وعملی تربیت کے حصول میں مدد ملے گی۔أللّٰہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ وصلی اﷲ وسلم علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین حواشی وحوالہ جات ۱:…’’ اِقْرَأْبِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔‘‘ (العلق:۱)ترجمہ:’’اے پیغمبر! آپ (قرآن) اپنے رب کانام لے کر پڑھا کیجیے جس نے پیدا کیا۔‘‘ ’’الٰرٓ کِتٰبٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلٰی النُّوْرِ بِإِذْنِ رَبِّھِمْ إِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔ (ابراہیم:۱) ’’یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل فرمایا ہے ،تاکہ آپ تمام لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف یعنی ذات غالب ستودہ صفات کی راہ کی طرف لاویں۔‘‘ ۲:… عن عبد اﷲ بن عمروؓ قال: خرج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم من بعض حجرۃ فدخل المسجد ، فإذا ھو بحلقتین: إحداھما یقرؤون القرآن ویدعون اللّٰہ ، والأخری یتعلمون ویعلمون، فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’کل علی خیر ، ھؤلاء یقرؤون القرآن ویدعون اللّٰہ فإن شاء أعطاھم وإن شاء منعھم، وھؤلاء یتعلمون ویعلمون، وإنما بعثت معلما، فجلس معھم۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ، کتاب العلم، باب فی فضل من تعلم القرآن وعلمہ، رقم الحدیث: ۲۲۹، ج:۱،ص:۱۵۵ ، ط:مکتبۃ أبی المعاطی) ۳:…’’ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا۔‘‘ (الزخرف:۳۲) ترجمہ: ’’دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم نے تقسیم کر رکھی ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے ۔‘‘ ۴:…’’عن أبی الدردائؓ قال:سمعت رسول اﷲ a  یقول: إن العلماء ورثۃ الأنبیائ۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح ، ص: ۳۲ ،  ط: قدیمی) ۵:…’’عن عبداﷲ بن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ألا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ، فالإمام الذی علی الناس راع وھو مسئول عن رعیتہ والرجل راع علی أھل بیتہ وھو مسئول عن رعیتہ، والمرأۃ راعیۃ علی بیت زوجھا وولدھا وھی مسئولۃ عنھم ۔‘‘(مشکاۃ المصابیح، کتاب الإمارۃ، الفصل الاول، ص: ۳۲۰ ، ط: قدیمی) ۶:… ملاحظہ فرمایئے: تحفۃ المودود باحکام المولود، امام ابن قیم الجوزیۃؒ ، ص:۱۲۲-۱۲۳،  ط: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ۔ نیز اسلام اور تربیت اولاد از مولاناڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید v ،ط: دارالتصنیف جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی۔ ۷:…قیمۃ الزمن عند العلمائ، شیخ عبدالفتاح أبوغدہ رحمہ اﷲ ، المکتبۃ الغفوریۃ العاصمیۃ، کراتشی۔ اب اس کتاب کا تازہ ایڈیشن مزید اضافات کے ساتھ منظرِ عام پر آچکا ہے۔ ۸:…الرسول المعلمؐ وأسالیبہ فی التعلیم ، شیخ عبد الفتاح أبو غدۃ ، ط: المکتبۃ الغفوریۃ العاصمیۃ، کراتشی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی طبع ہوچکا ہے۔ ۹:… تعلیمی تجاویز پر تبصرہ ، ط: دارالعلوم کراچی ومدرسہ عربیہ نیوٹاؤن۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین