بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

تصویر کی حرمت قرآن وسنت کی روشنی میں، چوتھی قسط

تصویر کی حرمت قرآن وسنت کی روشنی میں    

چوتھی قسط

 

دوسری غور طلب بات: یہ ہے کہ جن تصویروں کا استعمال شرعاً ممنوع نہیں ہے، جیسے سر کٹی ہوئی تصویریں، کیا یہ بھی دخول ملائکہ کے لئے مانع ہیں یا نہیں؟ امام نوویؒ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ بھی مانع ہیں اور جواز کا فائدہ صرف یہ ہے کہ اس کے استعمال کرنے والا گناہ گار نہیں ہوگا۔ مگر جمہور محققین علماء نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس کے استعمال کی اجازت شریعت نے دی ہے، وہ ملائکۂ رحمت کو مکان میں داخل ہونے سے مانع نہیں ہوتیں، جیسے کہ حدیث نمبر: ۱۵ میںحضرت جبریل علیہ السلام نے خود اس مانع کو رفع کرنے کے لئے یہ تدبیر بتلائی کہ یا تصویر کا سرکاٹ دیاجائے اور یا کسی پامال جگہ پر ڈال دیاجائے۔
تیسری بات: جو غور طلب ہے، وہ یہ کہ جس گھر میں تصویر ہو یا کتا ہو، اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے، اس کی علت کیا ہے؟ ملاعلی قاریؒ نے تصویر کی حرمت کی علت یہ بتائی ہے کہ تصویر ان چیزوں میں سے ہے جن کی عبادت کی جاتی ہے اور کتے میں علت یہ بتائی ہے کہ بعض کتوں کو شیطان کہا گیا ہے اور فرشتے شیطان کی ضد ہیں اور یہ کہ کتا مردار کھاتا ہے اور اس سے بدبو پھیلتی ہے اور فرشتوں کو مردار اور بدبو سے نفرت ہوتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج:۸،ص:۲۶۶)
فائدہ:۶… حدیث نمبر: ۱۸ میں لفظ ’’تصالیب‘‘ جمع ہے’’ تصلیب‘‘ کی اور ’’تصلیب‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس پر صلیب کی شکل بنائی گئی ہو، اس معنی کے اعتبار سے اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جس طرح جاندار چیزوں کی تصویرگھر میں رکھنا حرام ہے، اسی طرح بے جان چیزوں میں بھی جن کی پرستش ہوتی ہے، جیسے ’’صلیب ‘‘اس کو بھی گھر میں رکھنا ناجائز ہے،۔ور بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث میں لفظ ’’تصالیب‘‘ سے مراد’’ تصاویر‘‘ ہیں، جیسے کہ بخاری کے الکشمیہنی کے نسخہ میں ’’تصالیب‘‘ کی جگہ ’’تصاویر‘‘  منقول ہے۔ (عمدۃ القاری،ج:۱۵ ، ص:۱۲۵)
فائدہ:۷… حدیث نمبر: ۱۹ سے تصویر کے حرام ہونے کی ایک بڑی وجہ بتلائی ہے کہ وہ شرک وبت پرستی کا ذریعہ ہے۔
فائدہ :۸… حدیث نمبر: ۲۴ میں جو عورت مسئلہ پوچھنے کے لئے رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے مسئلہ پوچھنے سے پہلے یہ عرض کیا کہ میرا شوہر کسی غزوہ میں ہے۔ اس میں اس بات کا عذر بیان کرنا تھا کہ میں خود پوچھنے کے لئے بوجہ مجبوری آئی ہوں، کیونکہ میرا شوہر غائب ہے، اگر وہ حاضر ہوتا تو مسئلہ وہ پوچھتا اور نبی کریم ا نے اس کو گھر میں کھجور کا درخت بنانے سے منع کیا، حالانکہ کھجور بے جان چیز ہے، اس کی تصویر بنانے کی اجازت ہے۔ اس ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ اس میں نفع نہیں تھا اور بالآخر یہ صرف لہو ولعب کی چیز بن جاتی تو اس کا چھوڑنا بہتر تھا۔
تصویر کی حرمت پر امت کا اجماع ہے:
۱…امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے: ’’ہل یرجع إذا رأٰی منکراً فی الدعوۃ‘‘ یعنی اگر کسی نے دعوت طعام میں کوئی گناہ دیکھا تو کھانا چھوڑ کر واپس چلا جائے گا یا نہیں؟ تو انہوں نے اس باب میں یہ لکھا ہے:
 ’’ورأٰی ابن مسعودؓ صورۃ فی البیت فرجع‘‘۔(بخاری ،ص:۷۷۸) 
ترجمہ:…’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے (میزبان کے) گھر میں تصویر دیکھی تو (کھانا کھائے بغیر) واپس چلے گئے۔
۲…علامہ محمد بن احمد الذہبیؒ نے تحریرکیا ہے:
’’الکبیرۃ الثامنۃ والأربعون التصویر فی الثیاب والحیطان والحجر والدراہم وسائر الأشیاء سواء کانت شمعاً أو عجیناً أو حدیداً أو نحاساً أو صوفاً او غیر ذلک والأمر بإتلافہا‘‘۔                                 (الکبائر،ص:۲۰۸)
ترجمہ:…’’اڑتالیسواں گناہ کبیرہ تصویر ہے کپڑوں، دیواروں، پتھروں، سکوں میں اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں میں۔ پھر برابر ہے خواہ موم سے ہو یا گوندھا ہواآٹا یا لوہا یا تانبا یااون یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، اس کے تلف کرنے (یعنی توڑنے، پھاڑنے اور مٹانے) کا حکم دیا گیا ہے۔
    ۳…علامہ نوویؒ تحریر فرماتے ہیں: 
’’ہمارے مذہب اور دیگر مذاہب کے علماء نے فرمایا ہے کہ جاندار کی تصویر بنانا سخت حرام ہے اور یہ کام کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیونکہ اس پر احادیث میں بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں تو تصویر کا بنانا تو ہرحال میں حرام ہے، خواہ وہ تذلیل کے لئے بنائی گئی ہو یا تعظیم کے لئے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت میں مشابہت ہے اور یہ گناہ تصویر بنانے والے کے لئے ہر صورت میں ثابت ہے، خواہ اس نے تصویر کپڑے پر بنائی ہو یا بچھونے پر، دینار پر بنائی ہو یا درہم پر، برتن پر بنائی یا دیوار پر یا کسی اور چیز پر۔ اور جن چیزوں میں روح نہیں ہے، جیسے درخت اور اونٹ کا کجاوہ تو ان کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے۔ یہ تو تصویر بنانے کا حکم ہے، لیکن جاندار تصویر کے استعمال میں یہ تفصیل ہے، اگر وہ دیوار پر لٹکائی گئی ہو یا پہنے ہوئے کپڑے یا پگڑی میں ہو یا کسی اور ایسی چیز میں ہو جس میں تصویر کی تحقیر وتذلیل نہ ہوئی ہو تو تصویر کا یہ استعمال حرام ہے اور اگر وہ اس بچھونے میں ہو جو پاؤں سے روندا جاتا ہو اور اس کی تذلیل کی جاتی ہو تو یہ حرام نہیں ہے، مگر اس قسم کی تصویریں فرشتوں کو گھروں میں داخل ہونے سے منع کرتی ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، پھر اس تصویر کا سایہ ہو یا نہ ہو، اس کے گناہ میں کوئی فرق نہیں ہے، اور بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ یہ حرمت اس تصویر کی ہے، جس کا سایہ ہو اور جس کا سایہ نہ ہو وہ تصویر حرام نہیں ہے، یہ مذہب باطل ہے، کیونکہ وہ پردہ جس میں تصاویر تھیں، جس کی وجہ سے رسول اللہ ا نے نکیر فرمائی ، یقینی بات ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں مطلق تصویر کی حرمت بیان ہوئی ہے، اس میں سایہ کا کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ یہ خلاصہ ہے ہمارے مذہب کا مسئلۂ تصویر میں اور یہی مذہب ہے جمہور علماء کا، صحابہؓ وتابعینؒ کااور ان کے بعدکے علماء کا اور یہی مذہب ہے امام ثوریؒ ، امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ اور دیگر ائمہ کا‘‘۔                 (شرح مسلم،ج:۲، ص:۱۹۹)
۴…حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری، ج:۱۰،ص:۳۱۵ میں علامہ نوویؒ کی توثیق کی ہے۔
۵…علامہ بدر الدین عینیؒ نے عمدۃ القاری، ج:۱۵، ص:۱۲۴ میں توضیح کے حوالے سے نوویؒ کے قریب مضمون نقل کیا ہے۔
۶…ملاعلی القاریؒ نے مرقاۃ المفاتیح،ج:۸، ص:۲۶۶ میں بعینہ علامہ نوویؒ کا مضمون تحریر کیا ہے، مگر حوالہ کسی کا نہیں دیا ہے۔
۷…علامہ ابن عابدینؒ اپنی مشہور کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وتکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أولا وہذہ الکراہۃ تحریمیۃ وظاہر کلام النوویؒ فی شرح المسلم الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان‘‘۔                                                            (رد المحتار،ج:۱،ص:۶۴۷) 
ترجمہ:…’’کپڑوں پر تصویریں مکروہ ہیں، خواہ اس میں نماز پڑھے یا نہ پڑھے اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے۔ نوویؒ نے شرح مسلم میں تصاویر کے متعلق جو بیان کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاندار کی تصویر کی حرمت پر اجماع ہے‘‘۔
۸…سعودی عرب کے بہت مشہور بڑے مفتی ومحدث شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ نے تصویر کے موضوع پر ’’الجواب المفید فی حکم التصویر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے، اس میں انہوں نے ۱۹ احادیث ذکر کرنے کے بعد یہ لکھا ہے:
’’وفی ہذہ الأحادیث وماجاء فی معناہا دلالۃ علی تحریم التصویر لکل ذی روح وأن ذلک من کبائر الذنوب المتوعد علیہا وہی عامۃ الأنواع التصویر سواء کان للصورۃ ظل أم لا، سواء کان التصویر فی حائط أو ستر أو قمیص أو مرآۃ أو قرطاس وغیر ذلک، لأن النبی ا لم یفرق بین مالہ ظل وغیرہ ولابین ما جعل فی ستر وغیرہ بل لعن المصورین وأخبر أن المصورین أشد الناس عذاباً یوم القیامۃ وأن کل مصور فی النار وأطلق ذلک ولم یستثن شیئاً‘‘۔
                                                              (الجواب المفید فی حکم التصویر، ص:۱۰)
ترجمہ:…’’مذکورہ احادیث اور ان کے علاوہ وہ احادیث جو ان کے معنی کے مطابق ہیں، یہ سب جاندار کی تصویر کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں اور اس بات پر بھی کہ تصویر ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر وعید آئی ہے۔ تصویر کے اس حکم میں اس کی ساری اقسام داخل ہیں، خواہ سائے والی ہو یابغیر سائے کے، پھر یہ تصویر دیوار میں ہویا پردہ، قمیص، شیشہ میں ہو یا کسی اور چیز میں ہو، کیونکہ رسول اللہ ا نے سایہ دار اور غیر سایہ دار تصویر میں کوئی فرق نہیں کیا ہے اور نہ ہی پردے اور غیر پردے کا کوئی فرق کیاہے، بلکہ مطلق مصور پر لعنت بھیجی ہے اور آپ انے اس بات کی خبر دی ہے کہ تصویر بنانے والے قیامت کے دن سخت عذاب میں مبتلا ہوںگے اور اس مطلق حکم سے کوئی چیز مستثنی نہیں کی ہے‘‘۔
۹…شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے علامہ نوویؒ کی پوری عبارت نقل کرنے کے بعد زرقانیؒ کے حوالے سے ابن العربیؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
 ’’فإن کانت ثابتۃ الہیئۃ قائمۃ الشکل حرم وإن قطعت الرأس وتفرقت الأجزاء جاز، ہذا ہو الأصح‘‘۔               (اوجز المسالک ،ج:۶، ص:۳۹۱)
ترجمہ:…’’اگر تصویر کی ہیئت اور شکل درست ہو تو حرام ہے اور اگر اس کا سر کاٹا گیا ہو اور بدن کے اجزاء کو الگ الگ کردیا گیا ہو، پھر جائز ہے، یہ سب سے صحیح مسلک ہے‘‘۔
۱۰…حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے ۱۳۳۸ھ میں تصویر کے موضوع پر ایک مفصل مقالہ لکھا جو ماہنامہ ’’القاسم دیوبند‘‘ میں دس قسطوں کے ساتھ شائع ہوا، پھر چودہ سال کے بعد ۱۳۵۲ھ میں اس پر نظرثانی کرکے رسالہ کی شکل میں ’’التصویر لأحکام التصویر‘‘ کے نام سے شائع کیا ، پھر چَوَّن سال کے بعد ۱۳۹۲ھ میں اس پردوبارہ نظر ثانی فرمائی اور ’’تصویر کے شرعی احکام‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس رسالہ میں مفتی صاحب نے رسول اللہ ا کی احادیث اور صحابہ کرامؓ کے آثار اور فقہاء ومحدثین کے اقوال اور سلف صالحین کے تعامل سے تصویر کی حرمت کو ثابت کردیا ہے، آپ نے اس رسالہ کے مقدمہ میں فرمایاہے:
’’ موجودہ دور میں تصویر زندگی کا جزو بن گئی، دنیا کی کوئی چیز اس سے خالی نہ رہی، عوام وخواص سبھی اس میں مبتلا ہوگئے، بڑے بڑے علماء ، فضلاء کی تصاویر اخباروں اور کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں… اس ابتلاء عام کا ایک طبعی تقاضا تو مایوسی وخاموشی تھا، مگر دوسرا عقلی تقاضا یہ تھا کہ جس چیز کو رسول اللہ ا کی احادیث متواترہ نے حرام قرار دیا ہے، لوگوں کو آپ ا کے ارشادات سے باخبر کرنے کے لئے پوری جد وجہد کی جائے‘‘۔    (تصویر کے شرعی احکام، ص:۵)
۱۱…شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت فیوضہم فرماتے ہیں:
 ’’جمہور علماء اور فقہائے اسلام کے نزدیک جاندار کی تصویر حرام اور گناہ میں سے ہے، چاہے وہ سایہ دار مجسم کی شکل میں ہو یا اس کا سایہ نہ ہو۔(کشف الباری، کتاب اللباس، ص:۳۰۴)
ان گیارہ حوالوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، فقہاء، محدثین، مجتہدینِ احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ، اہل ظاہر، دیوبندی، بریلوی مقصد یہ کہ قرن اول سے لے کر آج تک سب اہل علم اس پر متفق ہیں کہ جاندار کی تصویر بنانا اور استعمال کرنا حرام ہے، البتہ چودھویں صدی کے چوتھے عشرے میں پورے برصغیر میں صرف ایک مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ایک مقالہ تحریر کیا، جس میں انہوں نے یہ عندیہ ظاہر کیا کہ عکسِ تصویر جائز ہے اور غیر عکسی تصویر بھی اگر پوجا پاٹ کے لئے نہ ہو، وہ بھی جائز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مولانا ندویؒ نے اخیر میں ’’رجوع واعتراف‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ لکھا جو ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ محرم الحرام ۱۳۶۲ھ کے شمارے میں شائع فرمایا ۔ اس مقالے میں مولانا ندویؒ نے بہت سے نظریات سے رجوع فرمایا، ان میں سے ایک فوٹو کا تھا۔ حضرت مولانا ندویؒ نے انتہائی وضاحت کے ساتھ جواز سے حرمت کی طرف رجوع فرمایا۔ نیز ایسے دور میں مولانا ابو الکلام آزادؒ اگرچہ عقیدتاً فوٹو کے جواز کے قائل نہیں تھے، مگر عملی طور پر اپنا مشہور اخبار ’’الہلال‘‘ باتصویر شائع کرتے تھے۔جب وہ رانچی جیل میں تھے، آپ کے ایک عقیدت مند نے آپ کی سوانح کو بنام ’’تذکرہ‘‘ جمع کرکے اس کی اشاعت کا ارادہ کیا تو انہوں نے مولانا آزادؒ کو خط بھیجا کہ مجھے اپنا فوٹو عنایت فرمائیں، جس کو میں اس کتاب کے شروع میں لگانا چاہتا ہوں۔ اس پر مولانا آزادؒنے جو جواب تحریر فرمایا، وہ خود اسی تذکرہ میں ان الفاظ کے ساتھ شائع ہوچکا ہے:
’’تصویر کا کھنچوانا، رکھنا، شائع کرنا سب ناجائز ہے، یہ میری سخت غلطی تھی کہ تصویر کھنچوائی اور الہلال کو باتصویر نکالا تھا، اب میں اس غلطی سے تائب ہوچکا ہوں، میری پچھلی لغزشوں کو چھپانا چاہئے، نہ کہ از سر نو ان کی تشہیر کرنا چاہئے‘‘۔                     (تصویر کے شرعی احکام، ص:۴)
ان دونوں حضرات کے رجوع کے بعد اب پوری امت مسلمہ کے علماء حق تصویر کی حرمت پر متفق ہیں اور مصر کے چند داڑھی منڈے اور پتلون پہنے ہوئے برائے نام علماء کی جانب سے تصویر کے جواز کا فتویٰ دینے سے اجماعِ امت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ان کا یہ فتویٰ صریح نصوص کے خلاف ہے، اس لئے ان کا یہ فتویٰ بلاریب باطل ہے۔                              (جاری ہے)
٭٭٭
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین