بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تصوف!  قرآن وسنت کی روشنی میں (پہلی قسط)

تصوف!

 قرآن وسنت کی روشنی میں

 

’’ تصو ف‘‘ کا مفہوم :
’’تصوف‘‘ کا اصل مادہ ’’صوف‘‘ ہے ،جس کا معنی ہے ’’اون ‘‘۔ اور ’’ تَصَوُّف‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’اون کا لباس پہننا ‘‘جیسے’’ تَقَمُّص‘‘ کامعنی ہے قمیص پہننا  ۔  (۱) 
صوفیأ کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں: اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔ (۲) اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں۔
اب لفظ صوفیأ، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے )میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندرکے تزکیہ وتطہیر کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔چونکہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا ،اس وجہ سے ان کا یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا۔(۳ )
’’تصوف‘‘ کی اہمیت:
حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث ،حدیثِ جبریل ؑکے نام سے مشہور ہے،اس میں ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ:’’احسان کیا ہے ؟ آپ انے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: ’’احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو ،اگر تم خدا کو دیکھ نہیں رہے(یعنی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی) تو کم سے کم یہ یقین کرلو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔  (۴ ) 
 بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیأ کی زبان میں دوسرانام ’’تصوف‘‘ یا ’’سلوک‘‘ ہے۔’’تصوف‘‘ در اصل بندہ کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔’’تصوف‘‘ مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح اﷲ کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔’’تصوف‘‘ بندہ کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے اور خدا کی محبت بندہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے،کیونکہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا ،خدا کی عیال ہے اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے۔
خدا کی ذات کی محبت بندہ کو خداکی نافرمانی سے روکتی ہے اور بندگانِ خدا کی محبت بندہ کو ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتی ہے، اس لیے صوفیأ حضرات کی زندگی حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار بنائے اور اس کے بندوں کا خیرخواہ بنائے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔’’تصوف‘‘ اور اہلِ تصوف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ :’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ (۸۵ فیصد)مسلمان یقینااہلِ تصوف کے فیوض وبرکات کا نتیجہ ہیں‘‘۔ (۵ )
 ہم اپنے اس مقالے میں’’تصوف‘‘ کی ان باتوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کریں گے جو صوفیأ حضرات کے ہاں متفق علیہ ہیں۔ صوفیأ حضرات جن باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں ،وہ یہ ہیں :
 ۱:…اللہ تعالیٰ کی محبت ۔
۲:… رسول اللہ ا کی اطاعت۔
 ۳: …تزکیۂ نفس( اپنے نفس کو فضائلِ اخلاق سے آراستہ کرنا اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنا)۔
۴:… برداشت اور رواداری ۔
۵: …خدمت ِخلق ۔
اب ہم ہر ایک بات کا قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں : 
 ۱:…اللہ تعالیٰ کی محبت 
 صوفیأ حضرات اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ عشق ومحبتِ خداوندی ہے ،کیونکہ محبت ہی ایک ایسی چیزہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی نا فرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت و تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت پیدا کرتی ہے،اور محبت ہی وہ چیز ہے جو محب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے محبوب راضی ہو اور ہر اس عمل وکردارسے باز رہے جس سے محبوب ناراض ہو ، چنانچہ صوفیأ حضرات اگر زہد، تقویٰ،عبادت،ریاضت اور مجاہدے اختیار کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اور صرف خداکی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔وہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے خداکی بندگی نہیں کرتے، چنانچہ حضرت رابعہ بصریہؒ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :’’خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا، لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا ‘‘۔ ( ۶)
فراق و وصل چہ خواہی رضائے دوست طلب
کہ حیف باشد ازو غیر ازیں تمنائے
ترجمہ: ’’ فراق وو صل کیا ڈھونڈتا ہے ،محبوب کی رضا مندی ڈھونڈ کہ محبوب سے محبوب کے سوا کی تمنا کرنا افسوس کی بات ہے ‘‘ ۔( ۷) 
علامہ شبلیؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں:
’’الصوفی لا یریٰ فی الدارین مع اللّٰہ  غیراللّٰہ ‘‘۔( ۸)
ترجمہ: ’’ صوفی دونوں جہانوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے علاوہ اور کسی چیز کو نہیں دیکھتا۔ ‘‘
امام ربانیؒ فرماتے ہیں :’’ مقربین بارگاہِ الٰہی ( یعنی صوفیأ حضرات ) اگر بہشت چاہتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کا مقصد نفس کی لذت ہے ، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی رضا کی جگہ ہے۔ اگر وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ اس میں رنج والم ہے ، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی ناراضی کی جگہ ہے ، ورنہ ان کے لیے انعام اور رنج والم دونوں برابر ہیں، ان کا اصل مقصود رضائے الٰہی ہے‘‘۔(۹) 
شاہ عبداللطیف بھٹائی  ؒ فرماتے ہیں:
محبت سندو من ۾ ماڻڪ ٻارج مچ
ان پر اٿي اچ تة سودو ٿئي سڦرو (۱۰)
ترجمہ: ’’ اے موتی جیسے انسان ! اپنے اندر خدا کی محبت کا اَلاؤ جلا دے ، یہ راہ اختیار کرو گے توتمہارا لین دین کامیاب ہوگا۔‘‘
عاشقناﷲ ويرو تار نة وسري
 اَه ڪريندي ساه ڪڏهن ويندو نڪري۔
ترجمہ:’’خدا سے عشق کرنے والے اسے کبھی نہیں بھلاتے، کبھی عشق ومحبت کی آہ بھرتے ہوئے ان کی روحیں پرواز ہو جا ئیں گی ‘‘۔(۱۱) 
اوریہی بات قرآن وسنت کی تعلیم ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 
’’ وَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ‘‘۔ (۱۲)
ترجمہ: ’’ اور جو لوگ مؤمن ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں ‘‘ ۔
  ایک اور آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ قُلْ إِنْ کَانَ أٰ بَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ ‘‘۔( ۱۳)
ترجمہ: ’’ (اے رسول ا!مسلمانوں سے )کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ اور دادا اور بیٹے اوربھائی اور بیویاں اور رشتے دار ا ور وہ تجارت جس کے مندا پڑے جانے سے تم بہت ڈرتے ہو، اور وہ مکانات جنہیں تم بہت عزیز رکھتے ہو ، اگر ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں اﷲ سے اور اس کے رسول (ا) سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہے تو پھر انتظار کرو، یہاں تک کہ اﷲ کا فیصلہ صادر ہو جائے اور یاد رکھو کہ اﷲ فاسقوں کوہدایت نہیں دیا کرتا‘‘ ۔
آپ ا نے ارشاد فرمایا : 
’’من أحب للّٰہ وأبغض للّٰہ و أعطٰی للّٰہ ومنع للّٰہ فقد استکمل الإیمان ‘‘۔( ۱۴)
ترجمہ:’’ جس شخص کا یہ حال ہو کہ و ہ اﷲہی کے لیے محبت کرے اور اﷲ ہی کے لیے بغض رکھے اور اﷲ ہی کے لیے دے اور کسی کو کچھ دینے سے اﷲ ہی کے لیے ہاتھ روکے تو اس نے اپنے ایمان کو کا مل کر لیا ‘‘ ۔
آپ ا یہ دعا مانگا کرتے تھے :
’’ أللّٰھم اجعل حبک أحب إلی من نفسی وأھلی ومن الماء البارد‘‘۔(۱۵ )
ترجمہ:’’ اے اﷲ! مجھے ایسا کر دے کہ تیری محبت اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال سے اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو‘‘ ۔
اور صوفیأ حضرات اسی محبت کو اپنے دل میں اور اپنے مریدین کے دل میں پیدا کرنے کے لیے مجاہدے اور ریاضت کرتے ہیں اور کراتے ہیں۔
 ۲:…رسو ل اﷲ اکی اطاعت 
 مسلمان صوفیأ حضرات کے نزدیک رسول اﷲ ا کی اطاعت اور اُن کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کیے بغیر معرفت ِخداوندی اور نجات کا حصول نا ممکن ہے، چنانچہ امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :
 ’’اس نعمت ِعظمٰی یعنی معرفت خداوندی تک پہنچنا سیدالاولین والآخرین ا  کی اتباع سے وابستہ ہے ، آپ ا کی اتباع کیے بغیر فلاح ونجات ناممکن ہے ‘‘ ۔
محال است سعدی کہ راہ صفا 
تواں رفت جز درپئے مصطفٰےؐ(۱۶)
ترجمہ: ’’اے سعدی!یہ ناممکن ہے کہ آنحضرت ا کی پیروی کیے بغیر خدائی معرفت اور تصفیہ قلب حاصل ہو سکے ‘‘ ۔
یہی بات قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:
’’  قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ‘‘۔(۱۷ )
ترجمہ:’’ اے پیغمبر! (ا)آپ ان کو بتا دیجیے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو  تو میری پیروی کرو ، نتیجے میںا ﷲ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے ۔‘‘
اس لیے کہ اﷲ کے رسول ا کی اطاعت خود خدا کی اطاعت ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ ‘‘۔  (۱۸)
ترجمہ: ’’جس شخص نے خدا کے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔ ‘‘ 
کیونکہ رسول اکرم اجو کچھ بولتے ہیں، وہ وحی الٰہی ہی ہوتا ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے:
’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ،إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘۔ ( ۱۹ )
ترجمہ: ’’ وہ(رسول اﷲ ا)اپنی خواہشات سے نہیں بولتے ، وہ ( جو کچھ تمہیں دے رہے ہیں ) وہ وحی الٰہی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ‘‘ ۔
اس لیے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا : 
’’  مَاأٰ تَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَا کُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ‘‘۔(۲۰)
ترجمہ: ’’ جو کچھ رسول ( ا )تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں رُک جائو۔‘‘ 
آپ ا کے ارشاد ات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا اس وقت تک ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا، جب تک رسول اﷲ اکے ساتھ ہر چیزسے زیادہ محبت نہ کرے اور اپنی ساری خواہشات رسول اللہا کے فرمان کے تابع نہ بنادے، چنانچہ آپ ا کا ارشاد گرامی ہے :
’’ لایؤ من أحدکم حتٰی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین ‘‘۔(۲۱) 
ترجمہ: ’’ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے والدین ، اولاد اورسب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے ‘‘۔
’’  لایؤمن أحکم حتٰی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ ‘‘۔(۲۲)
ترجمہ: ’’ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میرے لائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہوں ‘‘۔
۳:…تزکیۂ نفس 
صوفیأ حضرات جتنے مجاہدے، ریاضات اور عبادات کرتے ہیں یا ان کا اپنے معتقدین کو درس دیتے ہیں، ان کا اصل مقصد نفس کا تزکیہ اور تطہیر ہے ۔چنانچہ سندھ کے سدا حیات اور آفاقی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ فرماتے ہیں:
اکر پڙه الف جو ٻيا ورق سڀ وسار
اندر تون اجار پنا پڙهندين ڪيترا(۲۳)
ترجمہ:’’اے دوست! چاہے ایک حرف’’ الف‘‘ ہی پڑھ لو، لیکن اپنے اندر کو پاک و صاف کرلو ۔ اگر اندر کا تزکیہ و تطہیر نہیں کرتے تو زیادہ پڑھنے اور ورق گردانی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ‘‘۔ 
اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟!۔
 قرآن مجید اور تزکیۂ نفس 
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا نقل کی ہے : 
’’  رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ أٰ یَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ‘‘۔  (۲۴) 
ترجمہ: ’’ اے  ہمارے پروردگار !میری اولاد میں ان میں سے ہی ایک رسول بھیج ، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے اندر کا تزکیہ کرے۔ ‘‘ 
حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کی دعا سے ظاہر ہے کے کسی نبی کی بعثت، تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کا اصل مقصد لوگوں کے اندر کا تزکیہ ہے ۔
 نبی کریم اکی بعثت کے مقاصد بتاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
’’  ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْْہِمْ أٰ یَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ‘‘۔( ۲۵) 
ترجمہ: ’’ اﷲ تعالیٰ ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان میں سے ایک رسول بھیجا ، جو اُنہیں خدائی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ ‘‘ 
اس آیت سے ظاہر ہے کے نبی کریم ا کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو خدائی آیات سنائیں، ان کا تزکیہ کریں اور انہیںکتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ لیکن غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ نبی پاک ا کی بعثت کا اصل مقصد تزکیہ ہی تھا،کیونکہ تلاوتِ آیات و تعلیمِ کتاب و حکمت کا اصل مقصد تو تزکیہ ہی ہے، کیونکہ اگر تعلیم سے تزکیۂ قلب و تطہیر نفس حاصل نہ ہو تو تعلیم و تعلم ، درس و تدریس سب فضول ہے ، جیسا کے بھٹائی صاحبؒ کے مذکورہ شعر سے واضح ہوتا ہے۔
 ایک اور مقام پر ارشادِ باری ہے :
’’  قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا‘‘۔(۲۶)
ترجمہ: ’’ بے شک وہ شخص کا میاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور وہ ناکا م ونامراد ہو گیا جس نے اپنے نفس کو مٹی آلود کر دیا‘‘۔
 ’’تصوف‘‘ جن رذائلِ اخلاق سے اپنے اندر کو پاک کرنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ یہ ہیں :
 بد نیتی ،نا شکری، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بددیا نتی ، غیبت وچغلی ، بہتان ، بد گوئی و بدگمانی، خوشامد و چاپلوسی ، بخل و حرص ، ظلم ، فخر ، ریا و نمود اور حرام خوری، و غیرہ ۔
اور جن چیزوں سے اپنے اندر کوسنوارنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ یہ ہیں :
 اخلاصِ نیت، ورع و تقویٰ ، دیانت وامانت ، عفت و عصمت ، رحم و کرم ، عدل و انصاف ، عفو و درگزر ، حلم و بردباری ،تواضع و خاکساری ، سخاوت و ایثار ، خوش کلامی وخودداری ، استقامت و استغناء وغیرہ۔ (جیسا کہ ابو القاسم قشیریؒ کی کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘ اور علی ہجویریؒ کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ اور ابو نصرؒ کی کتاب ’’کتاب اللمع‘‘ اور شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی کتاب ’’شاہ جو رسالو‘‘ سے ظاہر ہے)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کا بیشترحصہ ان ہی رذائلِ اخلاق سے بچنے اور فضائلِ اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ فضائلِ اخلاق اوررذائلِ اخلاق پر سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبیؐ   ‘‘ کی چھٹی جلد لکھی ہے، جو ۴۱۳ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے سینکڑوں آیات و احادیث ذکر کی ہیں ۔
اگر صرف ارکانِ اربعہ ( چار اہم عبادات : نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، اور حج ) پر غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن و سنت نے ان کا مقصد ہی تزکیۂ نفس و تطہیرِ قلب بتایا ہے۔
 نماز کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے :
’’ إِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ‘‘۔(۲۷)
ترجمہ: ’’ بے شک نماز بے حیائی اور برے اعمال سے روکتی ہے ‘‘ ۔
 اور آپ ا نے فرمایا :
’’  من لم تنھہ صلٰوتہٗ عن الفحشاء و المنکر فلا صلٰوۃَ لہٗ ‘‘۔(۲۸)
ترجمہ: ’’ جس کی نماز اُسے بے حیائی اور برے عمل سے نہ روکے، اس کی نماز‘ نماز ہی نہیں ‘‘ ۔
 روزہ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’  لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘۔( ۲۹)
ترجمہ:’’ (تم  پررو زے اس لیے فرض کیے گئے ) تا کہ تم پرہیزگار بن جاؤ ‘‘ ۔
 آپ ا نے فرمایا :
’’ من لم یدَعْ قولَ الز ور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ بأن یدَعَ طعامَہٗ وشرابَہٗ ‘‘۔( ۳۰)
ترجمہ: ’’ جس نے برے قول اور برے عمل کو نہ چھوڑا ،اُس کے بھوکے پیاسے رہنے کی خدا کو کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ 
زکوٰۃ کے بارے میںا ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’  خُذْ مِنْ أَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا ‘‘۔(۳۱)
ترجمہ: ’’ ان کے اموال سے صدقہ وصول کر جس کے ذریعے ان کے اندر کی تطہیر اور تزکیہ کر۔ ‘‘ 
آپ ا نے زکوٰۃ و صدقات کامقصد بتاتے ہوئے فرمایا :
’’  واتقوا الشح فإن الشح أھلک من کان قبلکم، حملھم علٰی أن سفکوا دمائھم واستحلوا محارمھم‘‘۔(۳۲)
ترجمہ:’’( زکوٰۃ و صدقات دیا کرو )اور نفس کی کنجوسی و بخل سے اپنے آپ کو بچائو، کیونکہ بخل و کنجوسی ( نفس کا ایسارذیل خلق ہے جس ) نے تم سے پہلوں کو ہلا ک کر ڈالا ، جس کے سبب انہو ں نے خونریزیاں کیں اور حرام چیزوں کو حلال گردانا ‘‘ ۔
اس سے صاف ظاہر ہے زکوٰۃ ، صدقات وانفاق فی سبیل اﷲ کا اصل مقصد انسان کے اندر کا تزکیہ ہے ۔ 
حج کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’  فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ  فِیْ الْحَجِّ‘‘۔ (۳۳)
ترجمہ: ’’ جو شخص حج کے مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے چاہیے کہ( عورتوں سے) چھیڑ چھاڑ نہ کرے ،نا فرمانی اور لڑائی جھگڑ انہ کرے ‘‘ ۔
’’  وَ تَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ‘‘۔(۳۴)
ترجمہ: ’’ سفر کا سامان اپنے ساتھ لے کر نکلو ، کیونکہ بہترین توشہ تقویٰ ہے ‘‘ ۔
 آپ ا نے فرمایا :
’’  من حج للّٰہ فلم یرفث ولم  یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ ‘‘۔(۳۵)
ترجمہ:’’ جس نے خدا کی رضا کے لیے حج کیا اور اس میں اپنے آپ کو گناہ اور نافرمانی سے بچایا، وہ گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو کر لوٹا جیسے گویا اس کی ماں نے آج اُسے جنم دیا ہے ‘‘ ۔
ان آیات واحادیث سے صاف ظاہر ہوا کہ ارکانِ اربعہ کا اصل مقصد تزکیہ و تطہیرِ قلب ہی ہے، جس کا صوفیأ درس دیتے ہیں ۔
مصادر ومراجع 
۱…ہجویری ،ابو الحسن سید علی بن عثمان : کشف المحجوب، اردو ترجمہ عبد الرحمٰن طارق، لاہور،ادارہ اسلا میات ، طبع اول: ۲۰۰۵ء، ص: ۴۱۶۔
۲…چشتی، پروفیسر یوسف سلیم: تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول: ۲۰۰۹ء، ص: ۱۱۵۔
۳…القشیری، ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن : الرسا لۃ القشیر یہ،ترجمہ محمد عبد النصیر العلوی،لاہور، مکتبہ رحمانیہ، ص: ۴۱۶۔
۴…البخاری، ابو عبد اﷲ محمد بن اسمٰعیل : صحیح البخاری ، الریاض ،دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم: ۱۹۹۹ء، ص: ۱۲، حدیث: ۵۰۔
۵…بھٹوحافظ محمد موسیٰ : تصوف و اہلِ تصو ف، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ حیدرآباد ،ص: ۱۱۵۔
۶…مرزا قلیچ بیگ:مقالات الاولیاء ،سندھ پرنٹنگ ،پریس ،نوشہری دروازہ شکارپور ،۱۹۲۷ء ص: ۱۵ ۔
۷…مولانا محمد زکریا :شریعت وطریقت کا تلازم ،طبع اول: ۱۹۹۳ء ،ص:۱۰۲ ۔
۸…کشف المحجوب، ص:۷۶۔
۹…امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی: مکتوبات امام ربانی ،کراچی دار الاشاعت ،طبع اول: ۲۰۰۶ء، مکتوب: ۳۵، جلد اول،ص: ۱۹۱۔
۱۰…بھٹائی شاہ عبد اللطیف ؒ: شاہ جو رسالو، مرتب کلیان آدوانی ،روشنی پبلیکیشن کنڈیارو، طبع اول، ۱۹۹۷ء،  سُر سریراگ ،داستان: اول، ص: ۱۱۴۔
۱۱… شاہ جو رسالو، سر یمن کلیان، داستان :۷ ،ص: ۹۴۔
۱۲…البقرۃ: ۱۶۵۔                ۱۳…التوبہ :۲۴ ۔
۱۴… الخطیب محمد بن عبداﷲ :’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کراچی، قدیمی کتب خانہ ،ص: ۱۴ ۔
۱۵… ایضاً، ص:۲۲۰۔
۱۶… شیخ احمد سرہندی : مکتوبات ، مکتوب: ۷۸ ،جلد اول ، ص: ۲۷۹۔
۱۷… آل عمران: ۳۱۔                ۱۸…النساء: ۸۰۔
۱۹…النجم: ۳،۴۔                ۲۰…النساء: ۸۰۔
۲۱…صحیح بخاری ، کتاب الایمان، ص: ۶، حدیث :۱۵ ۔القشیری، ابو الحسین مسلم بن حجاج : صحیح مسلم ، الریاض ، دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم :۲۰۰۰ء، ص: ۴۱ ،حدیث :۱۶۹۔
۲۲…مشکوٰۃ المصابیح ،ص: ۳۰۔            ۲۳…شاہ جو رسالو: سر یمن کلیان، ص: ۹۰ ۔
۲۴…البقرۃ :۱۲۹۔                ۲۵…الجمعۃ: ۲۔ 
۲۶…الشمس: ۹،۱۰۔                ۲۷…العنکبوت: ۴۵ ۔
۲۸…ابن ابی حاتم، بحوالہ ’’ تفہیم القرآن، سید ابو الاعلیٰ مودودی،لاہور، ادارہ ترجمان القرآن، طبع: ۴۴، ۲۰۰۷ ء،ج: ۳ ،ص :۷۰۷۔
۲۹…البقرۃ : ۱۸۳۔
۳۰…ابو عیسیٰ :جامع ترمذی ، دارالسلام للنشر والتوزیع ،الریا ض، طبع اول: ۱۹۹۹ء، حدیث: ۷۰۷۔
۳۱…التوبہ: ۱۰۳۔                ۳۲…صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ،جلد اول، ص: ۱۶۴۔
۳۳…البقرۃ: ۱۹۷ ۔                ۳۴…البقرۃ: ۱۹۷۔
۳۵…صحیح بخاری ،کتا ب الحج ،حدیث: ۱۵۲۱۔ صحیح مسلم ،کتاب الحج ،حدیث: ۳۲۹۱ ۔
(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین