بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!

تری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!

    موسمِ سرما کی دوپہر، دور الوداع کہتی خنکی اور دھیرے دھیرے پھیلتی دھوپ میں وہ روشنیوں کا پیامبر ہم سے کوسوں دور چلا گیااور یہ کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ اتنا جلدی وہ دارالافتاء بنوری ٹاؤن کو سوگوار چھوڑ کر سفرِ آخرت پر روانہ ہو جائیں گے۔ خزاں کا موسم تو ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔! مگر یہ کیا ہواکہ گلشنِ بنوری کا گلِ سر سبد بہاروں کے آغاز میں ہی دیارِ جاودانی میں جا بسا۔ گرد ونواح کے حالات وواقعات سے بے نیاز انہوں نے یوں آنکھیں موندیں تھیں جیسے ابھی کھولیں گے اور فتویٰ لکھنا شروع کردیں گے۔     جامعہ بنوری ٹاؤن بھی عجیب دینی درسگاہ ہے، اللہ نے سب سے زیادہ مقبولیت بھی اسی ادارے کو دی اور سب سے زیادہ قربانیاں بھی اسی کے فرزندان کے حصے میں آئیں۔ مفتی عبد المجید شہیدؒ کے جنازہ سے پہلے نمازِ عصر کے بعد جامع مسجد بنوری ٹاؤن کے امام صاحب دعا میں روتے ہوئے فرما رہے تھے کہ یا اللہ! اب تو ہم لاشے اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں۔ واقعی ابھی دس ماہ پہلے ہی تو مولانا عطاء الرحمن شہیدؒ کا جنازہ پڑھا تھا اور دو سال پہلے ہی تو مولانا ارشاد اللہ عباسیؒ کی شہادت ہوئی تھی اور ابھی مولانا سعید احمد جلال پوریؒ کی شہادت کو تو پورے تین سال بھی نہیں ہوئے اور ابھی تو مولانا انعام اللہؒ، مفتی سعید احمد مردانیؒ، مولانا محمد امین اورکزئیؒ، مولانا عنایت اللہ شاہؒ، مفتی جمیل خانؒ، مفتی شامزئیؒ، حضرت لدھیانویؒ، مولانا محمد بنوریؒ، مفتی عبد السمیعؒ ومولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار رحمہم اللہ ہماری نظروں کے سامنے کھڑے تھے۔ یہ کیا ہوا کہ اچانک ظالموں نے مفتی عبد المجید دین پوریؒ اور مفتی صالح محمد کو شہید کر کے ہماری دنیا اندھیر کردی۔ ابھی تو پرانے زخم بھرے بھی نہیں تھے! ابھی تک تو پہلوں کی جدائی پر آنسو خشک بھی نہ ہوئے تھے، پھر یہ کیا ہواکہ دو اور اکابر اسی قطار میں جاتے نظر آئے۔     بہر حال مفتی عبد المجید دین پوریؒ اب ہم سے بہت دور جا چکے وہ اسی شجرہ طیبہ کی ایک شاخ تھے کہ جس کی بنیادوں میں حضرت بنوریؒ کا تقویٰ، حضرت مفتی ولی حسنؒ کا تفقہ اور فتویٰ، حضرت ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کا اصول وضابطہ، حضرت مفتی احمد الرحمنؒ کی قربانیاں، حضرت لدھیانویؒ وحضرت شامزئیؒ کی شہادتیں، مولانا جلالپوریـؒ ومولانا عباسیؒ کی لہو رنگ داستانیں اور مفتی جمیل خانؒ ومولانا عطاء الرحمنؒ کے دور رس فیصلے اور نہ جانے کتنے اہل اللہ کی آہِ سحر گاہی اور دعائیں شامل ہیں، تو ظاہر ہے کہ پھر اس کے فرزندان مفتی عبد المجید دین پوریؒ جیسے نہ ہوں تو کیا ہوں؟     مفتی عبد المجید دین پوریؒ اس وقت مفتیوں کے امام تھے، وہ علماء کے راہبر تھے، وہ عوام کے راہنما تھے، وہ ایک قابل مدرّس تھے، وہ ایک عمدہ خطیب تھے، وہ ایک جید عالم تھے، وہ اس وقت پورے پاکستان میں پانچویں چھٹے نمبر کے بڑے مفتی تھے۔     آہ…! امت کا کتنا نقصان ہوا؟! کتنے مدارس بے آسرا ہوئے؟! کتنے علماء کے سر سے سائبان ہٹ گیا؟! آہ او ظالم! تو نے ذرا خیال نہ کیا، اس درویش کے کس فتوے سے تجھے تکلیف پہنچی تھی؟ اس محدّث کی’’ قال اﷲ وقال الرسول‘‘ کی کس صدا سے تجھے نقصان ہوا تھا؟     مگر شاید تو نے یہ سمجھا ہوگا کہ یہ لوگ مسلسل لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہوںگے، انکے حوصلے پست ہو گئے ہوںگے، یہ ہمت ہار چکے ہوںگے۔ مگر یہاں ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ مفتی صاحبؒ کے جنازے کے موقع پر قافلۂ بنوری کے حدی خواں مردِ قلندر حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزّاق اسکندر عجب شانِ استغناء کے ساتھ یہ اعلان کر رہے تھے کہ ’’ہم پُر امن لوگ ہیں، اس عظیم صدمے کے موقع پر تمام ساتھی سیرتِ نبوی کی روشنی میں صبر سے کام لیں ہم ملکِ عزیز میں قتل وغارت گری اور فتنہ وفساد برپا نہیں کرنا چاہتے مگر اعداء اسلام سن لیں کہ یہ اللہ کادین ہے وہ خود ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے، تم خود مٹ جاؤ گے، مگر یہ دین قیامت تک باقی رہے گا‘‘۔     واہ! مفتی عبد المجیدشہیدؒ کی قسمت کے کیا کہنے! زندہ رہے تو نیک لوگوں کی معیت میں، اکابر کی صحبت میں، مفتیوں کے جھرمٹ میں، نیکی کے کاموں میں پیش پیش اور دوسروں کو نیکی کی ترغیب دیتے ہوئے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو شہادت پاکر دین پور کے تاریخی قبرستان میں بزرگوں کے پہلو میں جا آسودہ خاک ہوئے۔     دنیا میں بہت سے اہل علم وفضل تو وہ ہوتے ہیں جنہیں دنیا جانتی ہے، وہ دنیا سے جاتے ہیں تو ایک عالم سوگوار ہوتا ہے، ان کی تعریف وتوصیف اور ان کی خدمات کے اعتراف میں تعزیتی جلسے منعقد ہوتے ہیں، اخبارات ورسائل میں ایک عرصے تک ان کے بارے میں مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جولوگ انہیں زندگی میں نہیں جانتے تھے، ان کے انتقال کے بعدان کے کارناموں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ لیکن علم وادب اور ملی خدمات کے آسمان پر ایسے ستارے بھی ان گنت ہیں جن کی روشنی کی کرنیں سب کے لئے ہوتی ہیں، مگر ان کے نام سے کم لوگ واقف ہوتے ہیں، ایسے لوگ گوشئہ تنہائی میں اپنا کام خاموشی سے کئے جاتے ہیں، ان کی تنہائی اور گمنامی ان کے کام کی لگن، محنت اور افادیت میں کمی نہیں اضافہ کرتی ہے، نام ونمود سے دور رہ کر ان کی مخلصانہ کاوشیں رہتی دنیا تک لوگوں کو سیراب کرتی ہیں۔ بلاشبہ ہمارے حضرت مفتی صاحبؒ انہی الفاظ کی آئینہ دار ایک عظیم شخصیت تھے، آپ نے جوانی سے لے کر شہادت تک کی اپنی پوری زندگی نام ونمودسے کوسوںدوررہ کر دینی خدمات میں گزار دی۔ آپ کے نزدیک اگر کسی چیز کی اہمیت تھی تو وہ محنت ولگن سے دینی خدمت اور وقت کو قیمتی بنانا تھا۔ آپ کوایک ایسے ادارہ کا نائب رئیس دار الافتاء اور استاذ الحدیث مقرر کیا گیا تھا کہ جس کے فرزندان کی خدمات وکارناموںکو اللہ نے پورے عالم میں پھیلایا، لیکن آپ کبھی اس چیز کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ کا نام اور کاموں کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہوں یا یہ کہ آپ کا نام کسی عوامی، مذہبی اجتماعات یا جلسے جلوسوں کے اشتہاروں اور پوسٹروں کی زینت بنے، بلکہ عموماََ مدارس کے ذمہ داران بہت کوشش کرتے کہ آپ ان کے جلسے کی صدارت قبول فرمالیں، نہیں تو کم از کم کچھ دیر کے لئے اسٹیج کی زینت ہی بن جائیں، لیکن آپ کی طبیعت ان چیزوں سے انکاری رہتی۔      اگر حضرت دین پوری شہیدؒ کی ساٹھ سالہ زندگی پر نظر ڈالی جائے تو آپؒ کی پوری زندگی انہی اعلیٰ وارفع صفات کے گرد گھومتی اور مسلسل جہد وعمل سے عبارت نظر آتی ہے۔ آپ ۱۵؍ جون ۱۹۵۱ء بمطابق ۱۳۷۲ھ کو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں مولانا محمد عظیم بخش دین پوریؒ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی ابتدا گھر ہی میں اپنے والد کے زیرِ سایہ ہوئی ، اور پھر جامعہ مخزن العلوم خان پور، ظاہر پیر، طاہر والی سے ہوتے ہوئے جامعہ بنوری ٹاؤن پہنچے اور اس بین الاقوامی دینی درس گاہ میں درجۂ سادسہ میں داخلہ لے کر مسلسل تین سال پڑھا، یہاں تک کہ ۱۹۷۱ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے اور اپنے وقت کے اساطینِ علم سے شرف ِتلمذ حاصل کیا، جن میں محدث العصر حضرت بنوریؒ، حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھیؒ، حضرت مفتی ولی حسن ٹونکیؒ حضرت مولانا محمد بدیع الزمانؒ، حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہؒ، اور حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ وغیرہ حضرات شامل ہیں۔ بعد ازاں تخصص فی الفقہ بھی یہیں سے کیا۔ دورانِ تخصص ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی ہدایت پر ان کے درسِ ہدایہ میں شرکت کرنے لگے، نہ معلوم حضرت ٹونکیؒ نے آپ کو کیوں اس بات کی ہدایت کی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی مسند نشینی کی تیاری تھی، اگر چہ اس میں ایک وقت لگا اور حضرت مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی وفات کے بعد دار الافتاء اور تخصص کی ذمہ داریاں حضرت شامزئیؒ اور حضرت مفتی عبد السلام چاٹگامی مدظلہم ادا کرتے رہے، لیکن ان دونوں حضرات کے بعد دنیا نے دیکھا کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے دار الافتاء کے نائب رئیس کے حساس اور انچے منصب اور تخصص فی الفقہ کے مشرف کے عہدے پر حضرت ٹونکیؒ کے جانشین ہونے کی حیثیت سے جو شخصیت مسند نشین ہوئی، وہ حضرت مفتی عبد المجید دین پوریؒ کی شخصیت تھی، اوروہ جو کئی سال پہلے حضرت ٹونکیؒ کی زیرِ ہدایت ان کے درسِ ہدایہ میں بیٹھنے والا عبد المجید نامی ایک طالب علم تھا، حقیقت یہ تھی جو بعد میں سامنے آئی کہ وہ ان کا جانشین تھا، اور اُس وقت آپ کی تربیت ہورہی تھی، جس کا نتیجہ اب سامنے آیا۔  غیر معمولی اوصاف:     حضرت مفتی دین پوری شہیدؒ علم و عمل اور اخلاص و للہیت کے پیکر، خوش مزاجی اور نرم خوئی کے خوگر، سادگی ،متانت اور نورانیت کے پیکر مجسم ،طلباء پر مشفق اور مہربان اورکاروان بنوری کے حدی خواں تھے۔ آپ انتہائی سادہ اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے۔ جیسا آپ کا ظاہر تھا، ویسا ہی آپ کا باطن تھا۔ راقم الحروف کو کئی بار اس چیز کا مشاہدہ ہوا، ایک مرتبہ تقریباًدو سال پہلے میں کچھ کتب ورسائل کی خریداری کے لئے دفتر بینات مولانا فضل حق صاحب کے پاس آیا ہوا تھا تو اچانک حضرت دین پوریؒ بھی ایک صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے، جن صاحب کو حضرتؒ لے کر آئے تھے، وہ صاحب حضرت دین پوریؒ کے بھی مہمان تھے اور مولانا فضل حق صاحب کے بھی ۔ حضرتؒ تو ان کی خاطر تواضع دار الافتاء میں کر آئے تھے، اب مولانا فضل حق صاحب کی باری تھی تو مولانا نے دفتر بینات کے خادم جناب قاری عبد الرّؤوف صاحب کو بھیج کر سب کے لئے جوس منگوا لیا، اب مولانا فضل حق صاحب چوں کہ میزبان تھے، اس لئے ہر ایک کو ایک ایک گلاس خود اٹھا کر دے رہے تھے، مفتی صاحبؒ نے خود ہی اٹھا لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’مولانا! میں تو اپنا گلاس خود ہی اٹھا لیتا ہوں اور آپ کو مشقت سے بچا لیتا ہوں‘‘ یہ سنتے ہی سب مسکرادیئے، بعد میں مولانا فضل حق صاحب فرمانے لگے کہ مفتی صاحبؒ شروع سے ہی ایسے بے تکلف ہیں، کوئی بات دل میں نہیں رکھتے، اس کا اظہار فرمادیتے ہیں۔ یعنی حضرت شہیدؒ کا کوئی مصنوعی بناوٹی انداز نہیں تھا، بلکہ جیسا ظاہر تھا ویسا ہی باطن تھا۔     آپ مزاح بھی فرماتے تھے، ایک مرتبہ میں دفتر بینات کسی کام سے آیا ہوا تھا تو اچانک حضرت مفتی صاحبؒ بھی تشریف لے آئے اور کھڑے کھڑے ہی مولانا فضل حق صاحب کو فرمایا کہ روافض پر جو متفقہ فتویٰ ہے اس کے پانچ نسخے دے دیں، مولانا نے حسبِ ہدایت خادم جناب قاری عبد الرّؤوف صاحب کو بولا، انہوں نے مفتی صاحبؒ کو پانچ نسخے دے دیئے، مفتی صاحبؒ نے قیمت پوچھی تو مولانا فضل حق صاحب نے فرمایا کہ ایک نسخہ ۱۰۰؍ روپے کا ہے، یہ سنتے ہی حضرت مفتی صاحبؒ ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ ’’روافض کو آپ نے اتنا مہنگا کیا ہوا ہے؟ ۔۔۔۔‘‘اس بات پر مولانا فضل حق صاحب زور سے ہنسنے لگے، راقم الحروف کو بھی بے اختیار ہنسی آگئی اور مجلس کشتِ زعفران ہوگئی۔     اللہ اکبر! کس کس صفت کے حامل انسان تھے! اب تو صرف ان کی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔      دل سے دعاء ہے کہ اللہ رب العزت ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے۔ آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین