بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تراویح اور تبلیغی جماعت سے متعلقہ احکام!

 

تراویح اور تبلیغی جماعت سے متعلقہ احکام!

    کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ:     سوک ویو ۵۷۵ فلیٹ پر مشتمل آبادی ہے، گوکہ اس کے نزدیک جامع مسجد الگیلانی اور جامع مسجد الغزالی واقع ہیں، نمازِ جمعہ ہم لوگ انہی دو مساجد میں ادا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے رہائشیوں کی آسانی کے لیے اپنی کار پارکنگ میں چھوٹی سی جائے نماز بنائی ہے، اس میں ۶۰/۷۰ نمازی چار صفوں میں نماز ادا کرتے ہیں اور ایک حافظِ قرآن کوامام کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ ہم ہرسال رمضان شریف میں تراویح کی ادائیگی کے لیے بھی انتظام کرتے ہیں، گوکہ ہمارے امام صاحب حافظِ قرآن ہیں، تراویح کے لیے جائے نماز کی انتظامیہ باہر سے دوسرے حافظ صاحب کا انتخاب کرتی ہے۔ تراویح میں حافظ صاحب کے پیچھے ۱۳/۱۴ سال کے دو حافظ لقمہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، ۲۵/رمضان المبارک کو قرآن ختم ہوجاتا ہے اور تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب چلے جاتے ہیں اور بقیہ تراویح کا کوئی خاص بند وبست نہیں ہوتا۔ اس پسِ منظر میں ہمارے سوال یہ ہیں:     ۱:…کیا حافظِ قرآن امام صاحب کی جماعت میں موجودگی میں ۱۳/۱۴ سال کے لڑکے تراویح کی امامت کرسکتے ہیں؟ جبکہ حافظِ قرآن امام صاحب مقتدی کے طور پر عام نمازیوں میں کھڑے ہوں، چھوٹے حافظ حضرات اکثر رکوع، قومہ اور جلسہ کے تقاضوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ امام صاحب بقیہ تراویح کی امامت کریں؟     ۲:…ہر اتوار کو جائے نماز میں تبلیغی جماعت آتی ہے، مغرب کے فرائض کے فوراً بعد جبکہ دیر سے آنے والے کچھ نمازی ابھی فرائض ادا کررہے ہوتے ہیں، ایک صاحب کھڑے ہو کر بآوازِ بلند تبلیغ کے وعظ میں حاضری کے لیے دعوت دیتے ہیں، جس سے نماز پڑھنے والوں کے خشوع میں دخل اندازی ہوتی ہے۔ تبلیغی صاحبان کے اس عمل کی اصلاح کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ تاکہ نمازیوں کا نماز میں خشوع برقرار رہے۔     ۳… نمازی ابھی مغرب کی سنتیں اور نوافل ادا کررہے ہوتے ہیں اور ایک صاحب چاروں صفوں کے آگے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وعظ شروع کردیتے ہیں، اس سے احترامِ سترہ مجروح ہوتا ہے اور نمازیوں کے خشوع میں دخل اندازی ہوتی ہے، اس صورتِ حال کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟     ۴…اتوار کے علاوہ دوسرے دنوں میں جبکہ نمازی مغرب کی سنتیں اور نوافل ادا کررہے ہوتے ہیں تو کچھ نمازی جو دیر سے آئے ہوں، مغرب کے فرائض ادا کررہے ہوتے ہیں، تو ۳ سے ۸ حضرات دوسری صف میں بیٹھ کر ’’فضائل اعمال‘‘ پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ زیرِ نظر رہے کہ جائے نماز میں صرف چار ہی صفیں ہیں، پڑھنے والے کی آوازپورے جائے نماز میں سنی جاتی ہے، اس سے نمازیوں کے خشوع میں دخل اندازی ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟     ۵:…محلے کی چھوٹی سی جائے نماز میں تبلیغی جماعت کا جانا کہاں تک مناسب ہے؟ جبکہ بہت ہی تھوڑے سے فاصلہ پر دو جامع مساجد موجود ہیں؟کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ تبلیغی جماعت ہمارے فلیٹوں میں گشت کے دوران لوگوں کو نزدیکی جامع مساجد میں تبلیغی وعظ کے لیے مدعو کریں اور وہیں پر وعظ کاانتظام کریں؟     آپ کی فوری رہنمائی کے لیے تہہ دل سے مشکور رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس رہنمائی کا اجر عظیم عطا فرمائیںگے۔ ان شاء اللہ!                                       مستفتی:نور الٰہی آرائیں الجواب باسمہٖ تعالٰی     ۱:…صورتِ مسئولہ میں نمازِ تراویح کی ادائیگی کے لیے ایسے شخص کو امام بنایا جائے جو ضرورت کے بقدر نماز کے مسائل سے واقف ہو اور نماز کو اس کے آداب کی رعایت کے ساتھ ادا کرتا ہو اور ظاہراً کسی کبیرہ گناہ میں مبتلا نہ ہو۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والأحق بالإمام ۔۔۔۔۔۔ الأعلم بأحکام الصلٰوۃ فقط صحۃً وفساداً بشرط اجتنابہٖ للفواحش الظاہرۃ (قولہٗ بأحکام الصلٰوۃ فقط) أی وإن کان غیر متبحر فی بقیۃ العلوم۔‘‘                                         (فتاویٰ شامی،ج:۱،ص:۵۵۷،ط:سعید)     ۱۳/۱۴ سال کے وہ نوعمر لڑکے جو بلوغ کی عمر کو نہ پہنچے ہوں اور بلوغ کی علامات بھی ظاہر نہ ہوئی ہوں ایسے نوعمر لڑکوں کو امامت کے لیے آگے کرناشرعاً درست نہیںہے، بالخصوص جب وہ آدابِ صلوٰۃ کی رعایت بھی نہ رکھیں تو ان کو امام بنانا درست نہیں۔ اگر ۱۳/۱۴ سال کے لڑکے بالغ ہوچکے ہوں اور داڑھی نہ آئی ہوتو ایسے نو عمر لڑکوں کی امامت بھی بہتر نہیں، ایسے نوعمر لڑکوں کی بجائے امام ہی کو نماز پڑھانی چاہیے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’وکذا تکرہ خلف أمرد (قولہ وکذا تکرہ خلف أمرد) الظاہر أنہا تنزیہیۃ۔ ‘‘                                                             (فتاوی شامی،ج:۱،ج:۵۶۲)     ۲:…مساجد کے آداب وتقدس کی رعایت از حد ضروری ہے، اسی طرح ان مساجد کو آباد کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، ان کا خیال رکھنا اور ایسے کاموں سے اجتناب کرنا جس سے ان کو تکلیف ہو لازم اور ضروری ہے، اس لیے مسجد میں بلند آواز سے بات چیت تو دور کی بات ہے‘ زیادہ بلند آواز سے قراء ت کرنا جس سے نمازیوں کو تکلیف ہو منع ہے۔فتاویٰ شامی میں ہے: ’’(ویجہر الإمام) وجوبًا بحسب الجماعۃ فإن زاد علیہ أساء ( قولہٗ فإن زاد علیہ أسائ) وفی الزاہدی عن أبی جعفر: لو زاد علی الحاجۃ فہو أفضل إلا إذا أجہد نفسہٗ أو أٰذی غیرہٗ ۔‘‘                             (فتاویٰ شامی،ج:۱،ص:۵۳۲)     لہٰذا صورتِ مسئولہ میں نمازیوں کو اگر واقعۃً تبلیغی حضرات کے اعلان سے نماز کی ادائیگی میں کوئی پریشانی ہوتی ہو تو تبلیغی احباب اس بات کا اہتمام کریں کہ اعلان اتنی پست آواز اور مختصر الفاظ سے ہو کہ اطلاع بھی ہو جائے اور لوگوں کی نماز میں خلل بھی واقع نہ ہو۔     ۳:…نماز کے بعد وعظ وبیان کے لیے یا تو نمازیوں کے مکمل فارغ ہونے کے بعد کھڑا ہواجائے یا کسی ایسے گوشہ کا انتخاب کیا جائے جہاں نمازی حضرات نماز میں مصروف نہ ہوں اور آواز کو ضرورت کے بقدر بلند کریں۔     ۴:…اس کا بھی وہی حل ہے جو نمبر: ۳ میں گزرا۔     ۵:… سوال میں ذکر کردہ تکالیف وپریشانیاں یقینا قابل اصلاح ہیں، تاہم اس کی وجہ سے تبلیغی جماعت کو جائے نماز میں کام کرنے سے روکنا مناسب نہیں، کیونکہ ان کی محنت کا مقصد ذاتی نہیں، بلکہ مسجدوں کی آبادی ہے اور یہ شرعاً مطلوب ہے، اس لیے مساجد کو آباد کرنے کے لیے ان حضرات کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور موافقت ممکن نہ ہو تو مخالفت سے بھی حتیٰ الامکان گریز کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم           الجواب صحیح             الجواب صحیح                        کتبہ       محمد عبد المجید دین پوری        رفیق احمد                       عبد الحمید                                      دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین